یوسف الخباز کا مضمون ’استعمار کی ذہنی غلامی، اثرات اور نجات‘ (فروری ۲۰۰۸ئ) ایک نقطۂ نظر کے طور پر شائع کیا گیا۔ یہ ایک چشم کشا مضمون ہے جس کے مطالعے کے بعد استعمار کی حقیقت اور اثرات و مضمرات سے بھرپور آگاہی ہوئی اور دل و دماغ میں حیرت انگیز شعوری اور فکری بیداری محسوس ہوئی۔ اس سلسلے میں اپنا محاسبہ کیا اور دوسروں کے خیالات جاننے کی بھی کوشش کی تو استعمار کے کئی پہلو سامنے آئے اور استعمار کے اثرات سے چھٹکارا پانے کے لیے عملی اقدامات کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔
سب سے پہلی ضرورت یہ محسوس ہوئی کہ استعمار کی حقیقت سے آگاہی عام کی جائے اور یہ ان لوگوں کا فرض ہے جو اس خطرے کی حقیقت سے آگاہ ہوچکے ہیں۔ جو لوگ حقیقت شناس، باشعور اور فکری گہرائی رکھنے والے ہوں وہ مزید ایسے افراد کار تیار کریں جو استعمار کی اصلیت اور اس سے نجات کے لیے ٹھوس لائحہ عمل طے کریں۔ اس حوالے سے لٹریچر، ورکشاپوں اور لیکچروں سے مدد لیں۔ میڈیا میں موجود صالح عناصر سے بھی مدد لی جائے۔ یہ ارباب عقل و دانش کا اولین فرض ہے کہ وہ ملت کو اس تباہی و بربادی سے آگاہ کریں۔ ذہنی غلامی کے اس مرض کی تشخیص کریں اور ایسی پالیسی مرتب کریں جو اس کا شافی علاج کرسکے۔
اگر ہم اپنے طرزِ زندگی کا جائزہ لیں تو بے شمار ایسی اشیا ملیں گی جو واقعی ہماری ضرورت نہیں لیکن ماحول اور معاشرے کے زیراثر ہم ان کو ضرورت سمجھ کر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ معاشرے کا عام رنگ ڈھنگ ہم پر غالب نہیں ہے مگر ہم ایک حد تک اس کو اپناتے ہیں یا اس کو ردکرنے کا حوصلہ افزا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرتے۔ آپ ایک تجربہ کریں اور یقینا ایک حیران کن نتیجہ آپ کا منتظر ہوگا جیساکہ ان دو ماہ کے دوران میرے ساتھ ہوا۔ آپ اپنی نجی اور سماجی زندگی میں ہرسطح پر استعمار سے مفاہمت کے بجاے اس کو رد کردیں اور اس کے متبادل تمام اسلامی اصول اپنائیں۔ وہاں پر بھی جہاں آپ یہ سمجھتے ہوں کہ ایک جدید معاشرے میں رہتے ہوئے ہمیں کسی حد تک مفاہمت کرنی پڑے گی۔ ہر اُس مقام پر جہاں ہماری ذاتی راے یا معاشرے کا چلن اللہ کے قوانین سے ٹکراتا ہو اللہ کے قانون کو ترجیح دیں۔ میں حیران ہوں کہ اس کے نتیجے میں جو سکون ملتا ہے اور قلب کی کیفیات میں تبدیلی آتی ہے اور اللہ رب العزت سے جو قربت محسوس ہوتی ہے اس کی حلاوت سے اتنا عرصہ کیوں محروم رہی؟ مسائل کا ایسا حل اس میں ہے کہ خود ہمارا ہی دامن تنگ پڑنے لگتا ہے۔
ہم اپنے گھر میں موجود سامان کی فہرست بنائیں اور اس فہرست کا موازنہ دورِ صحابہ کرامؓ سے کریں (ہمارے سر شرم سے جھک جائیں گے)۔ پھر اس فہرست میں سے محبوب اشیا اور غیرضروری اشیا نکال باہر کریں۔ ان اشیا کو تلاش کریں جن کو ہماری ناقص عقل ناگزیر خیال کرتی ہے اور ان کے بغیر چند دن گزاریں (ان شاء اللہ ایسا سکون ملے گا کہ نتیجے میں ہمیشہ کے لیے غیرضروری اشیا سے نجات مل جائے گی)۔
ـ