جولائی۲۰۰۶

فہرست مضامین

صومالیہ: اسلامی قوتوں کی فتح

حافظ محمد عبداللہ | جولائی۲۰۰۶ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

گذشتہ ماہ صومالیہ کی شرعی عدالتوں کے اتحاد نے امریکا نواز جنگجوئوں کو ان کے گڑھ جوہر اور مھدیٰ سے نکال باہر کیا اور اس طرح ۱۵ برس سے جاری خانہ جنگی اپنے اختتام کو پہنچی۔

صومالیہ براعظم افریقہ کے عین مشرق میں انتہائی اسٹرے ٹیجک اہمیت کا حامل ملک ہے۔ خلیجِ عدن اور نہرسویز کے ذریعے بحیرۂ احمر کو بحرہند سے ملانے والی عظیم بحری تجارتی گزرگاہ پر واقع صومالیہ ۱۰۰ فی صد راسخ العقیدہ مسلمانوں کا ملک ہے۔ اس کے دیگر ہمسایوں میں ایتھوپیا‘ کینیا اور جیبوتی شامل ہیں۔ اپنے منفرد محل وقوع کی بنا پر تاریخ کے مختلف اَدوار میں استعماری طاقتوں کا اکھاڑا بنا رہا۔ اس کے ایک حصے پر اگر برطانیہ قابض تھا تو دوسرے پر اطالیہ براجمان۔ تیسرا حصہ جیبوتی فرانسیسی استعمار کی چیرہ دستیوں کا شکار رہا اور اب عرصے سے امریکا للچائی ہوئی نظروں سے سرزمینِ صومالیہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔

اس غریب افریقی ملک کو ۱۹۶۰ء میںبرطانیہ اور اطالیہ کے پنجۂ استبداد سے رہائی نصیب ہوئی۔ ۱۹۶۱ء میں آئین نافذ ہوا لیکن آٹھ برس ہی گزرے تھے کہ فوجی آمریت کا شکار ہوگیا۔ ۱۹۶۹ء میں ایک خونی انقلاب کے دوران ملک کے صدر علی شرمارکے قتل کردیے گئے اور   جنرل سیدبرے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ سوشلسٹ رجحانات کے حامل جنرل برے پہلے تو روس کے زیراثررہے اور بعدازاں ایتھوپیا کے خلاف جنگی امداد حاصل کرنے کے لیے امریکی کیمپ میں جابیٹھے۔ امریکا جو عرصے سے صومالیہ کے یورینیم‘ خام لوہے‘ تیل اور دیگر قیمتی معدنیات پر نظریں جمائے بیٹھا تھا‘ فوراً مدد پر آمادہ ہوگیا اور چند ڈالروں کی فوجی امداد کے عوض اس نے صومالیہ میں تیل کی تلاش‘ یورینیم کے ذخائر اور بربیرہ کی مشہور بندرگاہ اور ہوائی اڈے پر تصرف کے حقوق حاصل کرلیے۔

یہیں سے جنرل کے زوال کا آغاز ہوا جو بالآخر فوج کے اندر پھوٹ پڑنے اور خانہ جنگی کا آغاز ہونے پر منتج ہوا‘اور ۱۹۹۱ء میں جنرل سیدبرے کو اقتدار چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔ اب صومالیہ جنرل فرح عدید اور علی مہدی کی باہم برسرِپیکار ملیشیا کے رحم و کرم پر تھا۔ ۱۹۹۲ء میں امریکا اپنے ریاستی مفادات کی حفاظت کے لیے خود میدان میں کود پڑا۔ واضح رہے کہ پاک فوج بھی اس کارخیر میں حصہ لینے کے لیے کیل کانٹے سے لیس صومالیہ میں موجود تھی۔

صومالیہ میں امریکی افواج کے آتے ہی نئے استعمار کے خلاف باقاعدہ عوامی مزاحمت کا آغاز ہوگیا۔ ۳ اکتوبر ۱۹۹۳ء امریکی تاریخ کا سیاہ ترین دن بن کر طلوع ہوا جب صومالی گوریلوں نے ایک امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر گرا لیا اور امریکی فوجی تفاخر کی علامت ۱۸ مرینز قتل کر کے مقدیشو کی سڑکوں پر گھسیٹے۔ عوامی جذبات کا بروقت اندازہ کرتے ہی امریکا بہادر اپنے خواب اور عزائم ادھورے چھوڑ کر صومالیہ سے بھاگ کھڑا ہوا۔

امریکا کے جاتے ہی خانہ جنگی کو اور بڑھاوا ملا‘ حتیٰ کہ امریکا مخالف مزاحمت کی نمایاں ترین علامت جنرل فرح عدید بھی ۱۹۹۶ء میں اسی خانہ جنگی کی نذر ہوکر راہیِ ملکِ عدم ہوگئے۔ بڑے کمانڈروں کے ہٹتے ہی ملک مختلف الخیال‘ مفاد پرست چھوٹے چھوٹے کمانڈروں کے زیرسایہ انتہائی ابتری کی حالت میں خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اپنے زیرقبضہ علاقوں میں جگہ جگہ بیریر لگائے رکھنا‘ عوام کی جابجا تلاشی‘ ہرگزرگاہ پر بھاری رشوتیں اور امن و امان کی قطعی نایابی‘ طوائف الملوکی کی عمومی صفات ہوا کرتی ہیں اور یہی سب کچھ مقدیشو کا مقدر ٹھیرا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ نام نہاد فوجی کمانڈر‘ تجار اور عام شہریوں سے سالانہ ۱۰۰ ملین ڈالر بٹورا کرتے تھے۔

صومالیہ میں براہِ راست قبضہ جمانے میں ناکامی کے بعد امریکا نے علاقے کے لیے   نئی پالیسی تشکیل دی جس کا مرکزی ہدف عسکری قوت استعمال کیے بغیر صومالیہ کو اپنے زیرتسلط لانا تھا۔ اس مقصد کے لیے شمالی اتحاد کی طرز پر خانہ جنگی میں مصروف وار لارڈز کا ایک اتحاد تشکیل دیا گیا اور اس اتحاد کو بھرپور مالی معاونت فراہم کی جانے لگی۔ اطلاعات کے مطابق اس فرنٹ کو اب تک براہِ راست ۸۰ ملین ڈالر کی امداد مل چکی تھی۔ جائزہ لیں تو مذکورہ فوجی کمانڈروں کی امریکا نوازی اظہر من الشمس ہے۔ اس اتحاد کے رکنِ رکین عبداللہ احمد عدو سابق فوجی افسر اور واشنگٹن میں صومالی سفیر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یہ کسی بھی نئے حکومتی سیٹ اَپ کے لیے مغرب کے انتہائی پسندیدہ نمایندے قرار دیے جاتے تھے۔ حسین عدید اپنے مقتول والد کے جانشین تھے۔ موصوف امریکی شہریت کے حامل تھے اور انھیں موجودہ عراقی جنگ میں بطور میرنیز امریکی چاکری کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ نیم خودمختار علاقے بونٹی لینڈ کے سربراہ عبداللہ یوسف بھی واشنگٹن کے قریبی اتحادیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ فرنٹ کے دیگر دو اراکین عبدالنور احمد درمان اور رشید محمد ھوری بھی اپنی امریکا نوازی کی وجہ سے بدنام تھے۔

اکتوبر ۱۹۹۳ء کے واقعے کے بعد اور عراق اور افغانستان میں پھنسے ہونے کی بنا پر امریکا کی اوّلین ترجیح تو یہی تھی کہ براہِ راست فوجی مداخلت سے بچتے ہوئے کسی طرح مذکورہ جنگی کمانڈروں کو صومالی عوام کی گردنوں پر مسلط کیا جاسکے لیکن یہ حکمت عملی عملاً ناکام ہوکر رہ گئی۔

ملک کی ابتر صورت حال کو ریاستی اداروں بالخصوص عدلیہ کی کسی بھی سطح پر عدم موجودگی بھیانک تر بنا رہی تھی۔ اپنوں ہی کی چیرہ دستیوں کا شکار مظلوم عوام اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا محسوس کر رہے تھے کہ علما کی جانب سے تشکیل دی جانے والی عدالتوں کی صورت میں انھیں امیدونجات کی ایک صورت دکھائی دی۔

ابتدائی طور پر شرعی عدالت کا قیام ۱۹۹۷ء میں ایک قبائلی جھگڑے کو نبٹانے کی خاطر عمل میں آیا تھا۔ پھر دیکھا دیکھی مقدیشو میں موجود تمام قبائل کے اندر اپنے اپنے قبیلے کے لیے شرعی عدالت کے قیام کا تصور مقبول ہونا شروع ہوا۔ جن علاقوں میں یہ عدالتیں قائم ہوتی گئیں وہاں امن و امان کی صورت حال بتدریج بہتر ہوتی چلی گئی۔ قتل اور لوٹ مار کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی۔ جہاں کہیں اس قسم کی واردات ہوتی قبیلے کے جوانوں پر مشتمل شرعی عدالت کی اپنی فورس عدالت کے احکامات کی تنفیذ کے لیے حرکت میں آجاتی۔

۲۰۰۵ء میں مختلف قبائل میں قائم شرعی عدالتوں پر مشتمل ایک یونین تشکیل پائی۔ ایک نوجوان عالمِ دین شیخ شریف شیخ احمد اس کے سربراہ قرار پائے۔ اتحاد کے نتیجے میں ایک طرف ان عدالتوں کے اثرونفوذ میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف ان کے فیصلوں میں یک رنگی دکھائی دینے لگی۔

عامۃ الناس میں شرعی عدالتوں کی وقعت اور ان عدالتوں کی سربراہی مجلس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاںتک کہ گذشتہ فروری میں دارالحکومت پر قابض مختلف جنگجوئوں نے ان عدالتوں کے احکامات کی تنفیذ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی تو عامۃ الناس نے ازخود شہر کی تمام بڑی بڑی شاہراہوں پر شرعی عدالتوں کے اتحاد کے حق میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور عوام عدالتی احکامات کی تنفیذ کے لیے مسلح ہوکر سڑکوں پر نکل آئے۔ جنگجو ملیشیاؤں کے ساتھ ایک مسلح تصادم میں طرفین کے ۲۰۰ کے قریب افراد جاں بحق ہوئے لیکن بالآخر شرعی عدالتوں کے اتحاد کودو ہفتے بیش تر دارالحکومت مقدیشو پر مکمل کنٹرول حاصل ہوگیا۔

گذشتہ ماہ جنگجو ملیشیاؤں کے آخری مضبوط گڑھ جوہر اور مھدیٰ پر قبضے کے بعد اگرچہ شرعی عدالتوں کے اتحاد کو پورے صومالیہ پر کنٹرول حاصل ہوچکا ہے‘ تاہم نوزائیدہ اسلامی انتظام کو ابھی بہت سے بیرونی و اندرونی چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ تاحال امریکی رویہ بے حد جارحانہ ہے۔ مقدیشو پراسلام پسندوں کے قبضے کے فوراً ہی بعد صدربش نے وہائٹ ہائوس میں پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ وہ صومالیہ کو دہشت گردوں کی محفوظ جنت کبھی نہیں بننے دیں گے۔ غالب گمان یہی ہے کہ امریکا ماضی کی غلطی سے اجتناب کرتے ہوئے اس مرتبہ ایتھوپیا کی پیٹھ تھپتھپائے گا تاکہ وہ صومالیہ پر فوج کشی کرے۔ اس پر اتحاد کے سربراہ شیخ شریف شیخ احمد نے امریکا کو متنبہ کیا کہ صومالیہ افغانستان نہیں ہے اور نہ امریکا ہی موہوم دہشت گردوں کے تعاقب میں سابقہ غلطی کو دہرائے۔

دوسری طرف اسلامی شرعی عدالتوں کے اتحاد میں ابھی تک تمام قبائل کی مؤثر نمایندگی نہیں ہے۔ انھیں کسی بھی ممکنہ بیرونی جارحیت سے نبردآزما ہونے کے لیے اپنی صفوں میں وسعت پیدا کرنی پڑے گی۔اغلب گمان یہی ہے کہ صومالی عوام برسوں بعد ملنے والے امن کو کسی قیمت پر بھی قربان کرنا پسند نہ کریں گے اور ہر طرح کے اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔