’پاکستان کی معاشی ترقی اور خوش حالی ‘ (جون ۲۰۰۶ئ) پاکستان کی معاشی بدحالی پربے لاگ تبصرہ ہے۔ ’تحریک اور رکنیت‘ سے تحریک اسلامی کی فکر‘ اس کے تصورات‘ اہداف اور رکنیت کے اہم تقاضوں کی اچھی تذکیر ہوئی اور بجا توجہ دلائی گئی کہ اس راہ میں اصل قوت داعیانہ اضطراب اور بے چینی ہے۔ ’مجلس عمل کی پارلیمانی جدوجہد کے چارسال‘ میں پارلیمانی جدوجہد کا اچھے انداز سے احاطہ کیا گیا ہے۔
’امریکا: اسرائیل نواز لابی کی گرفت میں‘(جون ۲۰۰۶ئ) اپنی نوعیت کی منفرد رپورٹ اور اہم ترین موضوع ہے جس پر اطہروقار عظیم نے قلم اٹھایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب امریکا میں بھی یہ تشویش بڑھتی جارہی ہے کہ اسرائیل نے امریکا کو یرغمال بنایاہوا ہے۔ صہیونیت کے مذموم عزائم اب ڈھکے چھپے نہیں رہے اور ان کے خلاف آواز توانا ہو رہی ہے۔
’تہذیبوں کا تصادم، حقیقت یا واہمہ؟‘ (مئی ۲۰۰۶ئ) میں آپ نے جو منظرنامہ پیش فرمایا‘ واقعتا وہ ہمارا آنے والا کل ہے۔ اس کے لیے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے۔ سیاسی میدان کی جزوی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اجتماعی و انفرادی سطح پر زندگیوں میں ’اللہ کا رنگ‘ بھرنے کی ازحد ضرورت ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا‘ انفارمیشن ٹکنالوجی اور علم کا ہر جدید میدان خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔
’تہذیبوں کا تصادم، حقیقت یا واہمہ؟‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔مارچ کے اشارات ’شیطانی کارٹون: تہذیبی کروسیڈ کا زہریلا ہتھیار‘ کو سامنے رکھیں تو اس مضمون کی افادیت دوچند ہوجاتی ہے۔ بحیثیت مجموعی تجزیے سے اختلاف مشکل ہے‘ تاہم اتنا عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ یہ بعداز وقت مشورہ ہے۔ اس لیے کہ یہ جنگ مغربی و امریکی ساہوکاروں نے تہذیبوں کی جنگ بنا دی ہے اور اُمت اب اس جنگ میں ایک فریق کی حیثیت رکھتی ہے۔ جنگ کا آخری معرکہ ’مغرب اوراسلام‘ کے درمیان ناگزیر ہے۔ ہمیں اس وقت کے لیے اپنی قوتوں کو مجتمع کرنا ہے۔
ترجمان القرآن کے قارئین کے لیے یہ تجویز بھی مفید رہے گی کہ وہ ایک دعوتی حلقہ بنا لیں جو ۱۰‘ ۱۵ افراد پر مشتمل ہو۔ یہ دعوتی حلقہ گھر‘ مسجد‘ ادارہ یا محلے کی سطح کا ہوسکتا ہے۔ ہفتے میں ایک دو مرتبہ باقاعدگی سے ترجمان القرآن کے مضامین کا اجتماعی مطالعہ کیا جائے۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گے کہ شرکا کی علمی سطح بلند ہو رہی ہے‘ دین کے فہم میں اضافہ‘ اُمت کے لیے تڑپ اور احیاے دین کی جدوجہد کے لیے جذبہ بیدار ہو رہا ہے۔ اس دعوتی حلقے کی بنیاد پر قرآن کلاسز جیسے ہمہ پہلو نوعیت کے پروگرام کا آغاز نسبتاً زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔
مسلم دنیا میں عیسائی ایک معمولی سی اقلیت ہیں لیکن انھیں ہر جگہ بے پناہ سہولتیں میسر ہیں‘ اور ہمارے حکمران انھیں مزید بہت کچھ عطا کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف ان لوگوں کی جمہوریت اور اسلام دشمنی کی کیا کیفیت ہے‘ اس کی عکاسی ذیل کے واقعے سے بخوبی ہوتی ہے۔
برلن کے علاقے Panko Heinerspor(سابقہ ایسٹ برلن) میں کچھ لوگوں نے ایک پرانی فیکٹری جو اَب بالکل کھنڈر ہوچکی ہے خریدی تاکہ وہاں مسجد کی تعمیر کی جاسکے۔ اس سے پہلے کہ تعمیر شروع ہو‘ مسجد کمیٹی نے وہاں کے قرب و جوار کے رہنے والوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کا اہتمام کیا۔ مقامی پولیس کا ایک بڑا افسر بھی وہاں موجود تھا۔ کم و بیش ۸۰۰ لوگ جمع تھے جو وہاں مسجد بننے کے خلاف زبردست احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہرین میں ہرعمر کے لوگ شامل تھے۔ جرمن ٹیلی ویژن کی ٹیم وہاں موجود تھی۔ یہ ۹ اپریل ۲۰۰۶ء کا واقعہ ہے۔ اس نے مظاہرین سے مختلف سوال جواب کیے۔ ایک ۵۰ سالہ شخص کہنے لگا: یہ لوگ دہشت گرد ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ ہمارے علاقے میں مسجد بن سکے۔ مسجد کی آڑ میں یہ القاعدہ کے تربیتی کیمپ کھولیں گے۔ ایک نوجوان لڑکی کہنے لگی کہ ہماری کوشش ہے کہ جرمنی میں جو خواتین اسکارف لیتی ہیں ان کے سروں سے بھی اسکارف اتارا جائے‘ اور یہ لوگ ہمارے علاقے میں مسجد بنانا چاہتے ہیں۔ اب تو ہم انھیں جرمنی میں رہنے بھی نہ دیں گے۔ ایک نے کہا: میرے لیے یہ ناممکن ہے کہ میں ہائی وے Auto Bahnسے اپنے گھر آنے کے لیے نیچے اُتروں اور سب سے پہلے میری نظر اس مسجد کے میناروں پر پڑے‘ ایسا کبھی نہ ہوگا۔ دوسرے نے کہا: اگرمسجدبن گئی تو ہم اس کو جلا دیں گے۔
ٹیلی ویژن کی ٹیم نے مسجد کمیٹی کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ان کے نمایندے نے جواب دیا کہ ہم جرمنی کے رہایشی اور شہری ہونے کے ناطے اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں جس کی ہمیں جرمن آئین اجازت دیتا ہے ‘ اور اس کے مطابق جرمنی کے ہرباشندے کو اپنے مذہب پر چلنے کا پورا حق حاصل ہے۔ آخر ہمیں یہ حق کیوں نہیں؟ آپ خود فیصلہ کریں کہ کون ’بنیاد پرست‘ ہے؟ البتہ پولیس کے ذمہ دار افسر کا کہنا تھا کہ مسجد کو پولیس کی حفاظت میں بنایا جاسکتاہے۔