اور موسیٰ کو ہم نے اپنی نشانیوں اور کھلی کھلی سند ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کی طرف بھیجا‘ مگر انھوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا۔ قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور اپنی پیشوائی میں انھیں دوزخ کی طرف لے جائے گا‘ کیسی بدتر جاے ورود ہے یہ جس پر کوئی پہنچے! اور ان لوگوں پر دنیا میں بھی لعنت پڑی اور قیامت کے روز بھی پڑے گی‘ کیسا برا صلہ ہے جو کسی کو ملے![ھود ۱۱:۹۶-۹۹]
اس آیت سے اور قرآن مجید کی بعض دوسری تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں کسی قوم یا جماعت کے رہنما ہوتے ہیں وہی قیامت کے روز بھی اس کے رہنما ہوں گے۔ اگر وہ دنیا میں نیکی اورسچائی اور حق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں تو جن لوگوں نے یہاں ان کی پیروی کی ہے وہ قیامت کے روز بھی انھی کے جھنڈے تلے جمع ہوں گے اور ان کی پیشوائی میں جنت کی طرف جائیں گے۔ اور اگروہ دنیا میں کسی ضلالت‘ کسی بداخلاقی یا کسی ایسی راہ کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں جو دین حق کی راہ نہیں ہے‘ تو جو لوگ یہاں ان کے پیچھے چل رہے ہیں وہ وہاں بھی ان کے پیچھے ہوں گے اور انھی کی سرکردگی میں جہنم کا رخ کریںگے۔ اسی مضمون کی ترجمانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں پائی جاتی ہے کہ امرؤ القیس حامل لواء شعراء الجاھلیہ الی النار ،یعنی قیامت کے روز جاہلیت کی شاعری کا جھنڈا امرؤالقیس کے ہاتھ میں ہوگا اور عرب جاہلیت کے تمام شعرا اسی کی پیشوائی میں دوزخ کی راہ لیں گے۔ اب یہ منظر ہرشخص کا اپنا تخیل اس کی آنکھوں کے سامنے کھینچ سکتا ہے کہ یہ دونوں قسم کے جلوس کس شان سے اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ جن لیڈروں نے دنیا میں لوگوں کو گمراہ کیا اورخلافِ حق راہوں پر چلایا ہے ان کے پیرو جب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ یہ ظالم ہم کو کس خوف ناک انجام کی طرف کھینچ لائے ہیں تو وہ اپنی ساری مصیبتوں کا ذمہ دار انھی کو سمجھیں گے اور ان کا جلوس اس شان سے دوزخ کی راہ پر رواں ہوگا کہ آگے آگے وہ ہوں گے اور پیچھے پیچھے ان کے پیرؤوں کا ہجوم ان کو گالیاں دیتا ہوا اور ان پر لعنتوں کی بوچھاڑ کرتا ہوا جا رہا ہوگا۔ بخلاف اس کے جن لوگوں کی رہنمائی نے لوگوں کو جنت ِنعیم کامستحق بنایاہوگا ان کے پیرو اپنا یہ انجام خیر دیکھ کراپنے لیڈروں کو دعائیں دیتے ہوئے اور ان پر مدح و تحسین کے پھول برساتے ہوئے چلیںگے۔ (تفہیم القرآن‘ سورۂ ہود‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۹‘ عدد ۲‘ شعبان ۱۳۶۵ھ‘ جولائی ۱۹۴۶ئ‘ ص ۳۰-۳۱)