اعداد و شمارکے سارے کھیل کے باوجود یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کے غریب ملکوں کی فہرست میں بھی خاصا نیچے آتاہے۔ غربت کی سرکاری تعریف اور اعدادوشمار کی تازہ ترین تزئین کے باوجود‘ جو حقیقت میں تکذیب و تحریف (falsification) کی ایک کوشش ہے‘ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ غربت کی اس لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے کی تگ و دو کر رہا ہے جو جسم اور جان کے رشتے کو بس باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے‘ یعنی ۱۶کروڑ انسانوں میں سے ۴کروڑ افراد اس اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ لیکن اگر آزاد ماہرین معاشیات کے اندازوں کو لیا جائے تو یہ تعداد آبادی کا کم از کم ۳۳ فی صد بلکہ ۴۰ فی صد ہے‘ یعنی سوا پانچ سے ساڑھے چھے کروڑ نفوس۔
یونیسیف (UNICEF) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا میں پانچ سال کی عمر سے کم کے بچوںکا تقریباً نصف اپنی عمر کے مطابق مطلوبہ وزن سے کم (under weight) ہے جو کمیِ تغذیہ (under-nourishment)کا ثبوت فراہم کرتاہے۔ پاکستان میں ان پانچ سال سے کم عمرکے کمیِ تغذیہ کا شکار بچوں کی تعداد ۸۰ لاکھ ہے جو اس عمر کے بچوں کا ۴۶ فی صد ہے (ڈان‘ ۳ مئی ۲۰۰۶ئ)۔ پورے ملک میں کچی آبادیوں کا جال پھیلا ہوا ہے اور کراچی جیسے شہر میں جہاں دولت کی ریل پیل ہے‘ کُل آباد رقبے کے ۵۵ فی صد پر کچی آبادیاں ہیں جو ہر بنیادی سہولت سے محروم ہیں اور گندگی اور بیماریوں کی آماج گاہ بنی ہوئی ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز ‘۴ مئی ۲۰۰۶ئ)
پورے ملک میں ۶ئ۵۸ فی صد آبادی کو صاف پینے کا پانی میسر نہیں ہے اور وہ مجبور ہیں کہ جراثیم اور کثافت سے آلودہ پانی استعمال کریں بلکہ دیہی علاقوں میں تو انسان اور ڈھورڈنگر ایک ہی تالاب یا نالے سے یہ آلودہ پانی استعمال کر رہے ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز‘ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۵ئ)
تعلیم کا جو حال ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نصف آبادی ناخواندگی کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ہے اور جو اپنے کو تعلیم یافتہ سمجھ رہے ہیں ان کی ڈگریاں روزگار کے حصول کا ذریعہ بننے سے قاصر ہیں۔ ورلڈبنک کی تازہ ترین رپورٹ کا یہ دعویٰ بھی روح فرسا ہے کہ نہ صرف جنوب ایشیا میں بلکہ غیرترقی یافتہ ممالک کی پوری فہرست میں پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو تعلیم پر قومی دولت کا سب سے کم حصہ خرچ کر رہے ہیں۔ تعلیم پر جنوب ایشیا میں اوسطاً خرچ قومی دولت کا ۶ئ۳ فی صد ہے‘ جب کہ تمام ترقی پذیر ممالک کا اوسط ۴ئ۳ ہے۔ پاکستان میں یہ حصہ صرف ۱ئ۲ فی صد ہے (سرکاری دستاویز معاشی جائزہ‘ ۰۶-۲۰۰۵ئ)‘ جب کہ ورلڈ بنک ازراہ کرم اس رقم کو قومی آمدنی کا ۳ئ۲ فی صد کہہ رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ ورلڈ بنک کی Green Data Book 2006 ‘ بحوالہ ڈان‘ ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ)
غربت اور محرومی کی یہ داستان بڑی طویل ہے لیکن ان چند حقائق کے پس منظر میں اب اس غریب ملک کے حکمرانوں کی اللّے تللّے شاہ خرچیوں کا بھی ایک منظر دیکھ لیں۔ جو کچھ ہم پیش کررہے ہیں وہ اس گھنائونی اور شرم ناک تصویر کی صرف ایک چھوٹی سی جھلک ہے ورنہ تفصیل میں جائیں تو ’تن ہمہ داغ داغ شد‘ کی کیفیت ہے۔
ایوانِ صدر سے بات کا آغاز کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص اس وقت ایک نہیں‘ دو گھروں پر قابض ہے یعنی ایوانِ صدر کے ساتھ ساتھ چیف آف اسٹاف کا وہ محل بھی اسی کے تصرف میں ہے جس کا سارا خرچ دفاع کے مقدس بجٹ سے کیا جاتا ہے۔ صرف اسلام آباد کے ایوانِ صدر کے انتظام اور رکھ رکھائو پر سال گذشتہ میں ۲۶ کروڑ ۱۶ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں اور نئے سال کے لیے اس کو بڑھا کر ۲۹ کروڑ کردیا گیا ہے۔ ایوانِ صدر کے صرف باغات کی دیکھ بھال پر ۷۰ لاکھ سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔ ۲۰ جون ۲۰۰۶ء (ڈان‘۲۱ جون ۲۰۰۶ئ) کو سی ڈی اے نے اپنا جو نیا بجٹ شائع کیا ہے اس میں ایوانِ صدر میں نئی تعمیرات کے لیے ۲۱ کروڑ ۵۰ لاکھ کی رقم رکھی گئی جسے مرکز کے ترقیاتی بجٹ (Public Sector Development Programme) سے لیا جائے گا۔ عوام کم از کم ۵۵ لاکھ مکانات کی کمی سے دوچار ہیں اور اسلام آباد کے سرکاری عملے کے صرف دسویں حصے کو سرکاری مکانات کی سہولت حاصل ہے مگر ’غریب دوست بجٹ‘ اور ’غربت کم کرنے والے ترقیاتی پروگرام‘ پر پہلا حق صدر محترم کا ہے۔
گذشتہ سال کے بجٹ میں وزیراعظم صاحب کے گھر اور دفتر پر خرچ ۲۳ کروڑ ۴۰ لاکھ تھا جسے آیندہ سال بڑھا کر ۵۳ کروڑ ۸۷ لاکھ کردیا گیا ہے اور وجہ زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے دفتری نظام کی وسعت ہے۔ زلزلہ زدگان پر تو جو بھی گزر رہی ہے وہ معلوم ہے لیکن شاید غالب نے اسی کے لیے کہا تھا کہ ان کے نام پر
جب ایوانِ صدر اور وزیراعظم کے دفتر اور دیوان خانہ کا یہ حال ہے تو پھر قومی اسمبلی کے اسپیکر کیوں پیچھے رہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے لیے جو گھر تعمیر کیا جائے وہ ۳ہزار گز کے سرکاری پلاٹ پر ۴ منزلہ ہو جس کا صرف تعمیر کا خرچ ۸ کروڑ ۴۷لاکھ ہوگا۔ اس پر پلاننگ کمیشن تک نے اعتراض کیا ہے لیکن عوام کے نمایندوں کا اصرار ہے کہ ان کے شایانِ شان مکان کے لیے کروڑوں روپے کی اس قیمتی زمین پر صرف تعمیر کے لیے ساڑھے آٹھ کروڑ کا خرچ کچھ زیادہ نہیں!
وزراے کرام کی فوج ظفر موج پر کیبنٹ ڈویژن کے بجٹ میں سال گذشتہ میں ۱۲ کروڑ رکھے گئے تھے جنھیں بڑھا کر اب ۱۴ کروڑ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خفیہ فنڈ (secret fund ) کے لیے ۴۰لاکھ کی رقم رکھی گئی ہے تاکہ ہر وزیر ۶لاکھ اور ہر وزیرمملکت کو ۴ لاکھ سالانہ مل سکیں جس کا کوئی حساب کتاب اس دنیا میں نہیں ہوگا۔
حکمرانوں کے بیرونی سفر بھی اس غریب ملک کے محدود وسائل کے بدترین استعمال کی شرم ناک مثال ہیں۔ ایک ایک سفر میں پانچ دس نہیں ۶۰‘ ۶۰ شرکاے سفر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں کہ صدر اور وزیراعظم رختِ سفر نہ باندھیں۔ وزرا‘ ارکانِ پارلیمنٹ اور سرکاری حکام کے بیرونی اسفار کی لین ڈوری لگی ہوئی ہے اور حاصل یہ ہے کہ پاکستان دنیا میں روز بروز تنہا ہوتا جارہا ہے۔ جن کی خوشامد کے لیے سفر پر سفر کیے جا رہے ہیں وہ صرف ہاتھ مروڑنے اور مزید محکومی اور اطاعت کے مطالبات کر رہے ہیں۔ خزانے پر اس کا کتنا مالی بوجھ ہے اس کا اندازہ اس سے لگایئے کہ سالِ رواں کے بجٹ کی دستاویز کی روشنی میں صرف صدر اور وزیراعظم اور ان کے ہمراہ جانے والوں کے کُل سفری اخراجات ایک ارب روپے سے زیادہ ہیں۔ وزارتِ خارجہ کے بجٹ میں ۰۶-۲۰۰۵ء کے لیے صرف صدراور وزیراعظم کے دوروں کے لیے ایک ارب کے مصارف بیان کیے گئے ہیں اور سابقہ بجٹ میں مختص رقم میں بھی ضمنی مطالبات زرکے مطابق ۲۵کروڑ کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں سے ۱۰ کروڑ صدر کے لیے اور ۱۵ کروڑ وزیراعظم کے لیے ہیں جن کے کل اسفار کا خرچہ ۷۵ کروڑ سے متجاوز ہے۔ (ملاحظہ ہو‘ دی نیوز‘ ۲۱ جون ۲۰۰۶ئ)
ڈان کے کالم نگار سلطان احمد نے پورے سال کے صدر‘ وزیراعظم‘ وزراے کرام‘ ارکانِ پارلیمنٹ اور اعلیٰ سرکاری حکام کے دوروں پر مجموعی خرچ ہونے والی رقم کا تخمینہ ۴ ارب روپے سے زیادہ بیان کیا ہے۔ کوئی نہیں جوقومی دولت کے اس بے محابا ضیاع کا مؤثر احتساب کرے!
بہت زیادہ اہم شخصیت (VVIP) کے زیراستعمال جہاز کی صرف ایک سال کی دیکھ بھال اور اس کی تزئین و آرایش پر ۵۷کروڑ ۷۰ لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں (بحوالہ Supplementary Demands for Grants and Appropriations 2005-06 ص ۲۱)
جس ملک کے عام شہری کو سائیکل/ موٹرسائیکل یا اچھی پبلک ٹرانسپورٹ میسر نہیں‘ اس کے حکمرانوں کی قیمتی کاروں کی ہوس کی کوئی انتہا نہیں۔ گذشتہ چند سال میں کیبنٹ ڈویژن نے اہم شخصیات (VVIPs) کے استعمال کے لیے ۵۵ لگژری کاریں درآمد کی ہیں جن پر ۲ ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوا ہے۔ ان میں ۳۲ مرسڈیز بینز کاریں اور جیپیں ہیں۔ لگژری کاروں کی خرید میں اضافے کی رفتار اس طرح ہے کہ ۲۰۰۳ء میں ۱۰‘ ۲۰۰۴ء میں ۱۴ اور ۲۰۰۵ء میں ۳۱۔ ۰۶-۲۰۰۵ء کے حسابات میں صرف مزید ۱۰ گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں جو ایک ارب سے زیادہ کی مالیت کی ہیں اور ان کی درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں ۳۶ کروڑ ۶۰ لاکھ کا خرچ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کے دفتر کے لیے مزید دو گاڑیاں ایک کروڑ ۶۴ لاکھ کے صرفے سے خریدی گئی ہیں۔
شاہ خرچیوں کی ایک اور قسم وہ تحائف ہیں جو اس غریب ملک کے حکمران بڑے بڑے امیر ملکوں کے حکمرانوں اور کارندوں کو بڑی فراخ دلی سے پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ ان کے دل جیت رہے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ اپنے آپ کو ان کے مضحکے کا ہدف بنانے کے سوا کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کی تازہ مثال وہ تفصیل ہے جو امریکا کے اخبارات میں پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے صرف ایک سال میں دیے گئے تحفوں کی شائع کی گئی ہے۔ اس میں صدربش‘ ان کی بیگم‘ امریکی وزرا‘ حتیٰ کہ سی آئی اے کے کارکنوں کو صدر‘ ان کی اہلیہ اور وزیراعظم کی طرف سے دیے گئے قیمتی قالینوں‘ شالوں‘ جواہرات‘ زیورات اور نایاب نوادرات کا تذکرہ بڑے کڑوے طنز کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دو ایک نمونے ہماری قوم کے سامنے بھی آجانے چاہییں۔
جنرل پرویز مشرف نے دسمبر ۲۰۰۴ء میں صدر بش کو نگینوں سے مزین ایک چوبی میز تحفتاً دی جس کی قیمت ۱۴۰۰ ڈالر تھی۔ اس کے علاوہ بش صاحب کو ایک پرانی بندوق (antique muzzle loader) جو ۲۰۰ سال پرانی ہے‘ نیز پاکستان کا بنا ہوا قیمتی اُونی کوٹ اور ٹوپی بھی پیش کی گئی ہے۔ بیگم مشرف نے لورا بش کو سونے اور ہیروں بھرے قیمتی بُندے پیش کیے جسے امریکی اخبارات نے اس طرح بیان کیا ہے: "gold light and dark pink garnet and pink tourmaline chandelier ear rings"۔ اس کے علاوہ محترمہ نے موصوفہ کو ایک نیکلس بھی پیش فرمایا جس کی منظرکشی امریکی اخبارات نے ان الفاظ میں کی ہے: "17 light and dark pink tourmaline beaded necklace".
کہا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ تحفے‘ تحفہ دینے والوں کی دل آزاری سے بچنے کے لیے قبول کیے گئے۔ واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کی اہلیہ کی فیاضی صرف صدربش اور لورابش تک ہی محدود نہ تھی بلکہ سیکرٹری آف اسٹیٹ کولن پاول‘ ڈپٹی سیکورٹی ایڈوائزر اسٹیفن ہیڈلے‘ ان کے ماتحت افسران‘ ارکانِ سینیٹ حتیٰ کہ سی آئی اے کے کارندوں کو بھی قیمتی تحفوں سے نوازا گیا___ اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے؟ آخر پاکستان کے غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی کا ان آقایانِ والامدار سے زیادہ حق دار کون ہوسکتا تھا؟
خرچ کی ایک اور دل خراش مَد‘ خوش حال پاکستان کی پبلسٹی اور پاکستان کی خوش گوار تصویر (soft image) پیش کرنے کی مہم ہے جن پر علی الترتیب ۱۰ کروڑ اور ۱۲ کروڑ ۶۲ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اگر یہ ۲۲کروڑ روپے اور دوسری تمام رقوم جو مل کر اربوں روپے بنتے ہیں تعلیم‘ غریبوں کے علاج یا محتاجوں کی مدد کے لیے استعمال ہوتے تو پاکستان فی الحقیقت خوش حالی کی منزل کی طرف بڑھ سکتا تھا اور صرف تصویر (image ) ہی نہیں بلکہ حقیقت میں ایک ایسا ملک بن سکتا تھا جس کی نیک نامی کسی نمایشی پروپیگنڈے کی محتاج نہ ہوتی۔
اسلام نے قومی خزانے کے امانت ہونے کا جو تصور دیا ہے اور دورخلفاے راشدہ میں اس سلسلے میں جو معیار قائم کیا گیا اس کی تو بات ہی کیا‘ خود پاکستان کے بانی قائداعظم کی مثال بھی کچھ کم ایمان افروز نہیں۔ انھوں نے اپنے لیے بطور گورنر جنرل نیا جہاز حاصل کرنے سے انکار کردیا۔ ملک کے باہر اپنا علاج کرانے سے روک دیا۔ سرکاری خزانے سے کی جانے والی دعوتوں پر شدید کنٹرول رکھا‘ مہمانوں کی تواضع کے لیے بھی کھانے کی مقدار اور پھلوں تک کی تعداد مقرر کی اور جب ان کے لیے ایک باورچی کو لاہور سے زیارت لایا گیا جس کا پکایا ہوا کھانا وہ رغبت سے کھاتے تھے‘ تو فوراً اسے واپس کرا دیا اور اس کی آمدورفت کا خرچ بھی اپنی جیب سے ادا کیا۔
ایک وہ قائد تھے اور ایک آج کے حکمران۔ یہی فرق ہے کہ ان قائدین کی جدوجہد کے نتیجے میں انگریز اور ہندو کی ہمہ جہت مخالفت کے باوجود پاکستان کی جدوجہد کامیاب ہوئی اور مسلمانانِ ہند کو آزادی کی سعادت نصیب ہوئی۔ اور رہے آج کے حکمران‘ تو یہ قومی دولت کو آنکھیں بند کر کے لٹا رہے ہیں‘ ان کی عیاشیوں اور تن آسانیوں کی کوئی حد نہیں رہی ہے اور ان کے ہاتھوں ملک کی آزادی‘ حاکمیت‘ عزت اور حمیت سب دائو پر لگے ہوئے ہیں۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ قوم امانت میں خیانت کرنے والوں کا حقیقی احتساب کرے اور ایسی قیادت بروے کار لائے جو صادق اور امین ہو۔