اس سال ۱۲ ربیع الاول کے موقع پر دنیا بھر میں پھیلے لیبیا کے سفارت خانوں نے سیکڑوں افراد‘ اداروں اور تنظیموں کو لیبیا کے شہر طرابلس (ٹریپولی) میں سیرت رسول اعظمؐ کانفرنس میں مدعو کیا۔ ڈنمارک میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکوں کے تناظر میں اس کانفرنس کی ایک خاص اہمیت تھی۔ سو لاطینی امریکا سے لے کر ملایشیا‘ انڈونیشیا تک اور یورپی ممالک سے لے کر بنگلہ دیش و مالدیپ تک ہرجگہ سے سیکڑوں وفود لپکے چلے آئے تھے۔ دنیابھر کی طرح پاکستان سے بھی ۳۶ذمہ دار افراد اس سیرت کانفرنس میں شریک تھے‘ جن میں پاکستان سے تقریباً سب دینی جماعتوں اور دینی مدارس کے مرکزی ذمہ داران و نمایندگان شامل تھے۔ ارکان پارلیمنٹ میں سے بھی مولانا عبدالمالک‘ مولانا عبدالغفور حیدری‘ حافظ حسین احمد اور مولانا سمیع الحق موجودتھے۔ پروفیسر ساجدمیر کی نمایندگی عبدالغفور راشد کرر ہے تھے‘ جب کہ جمعیت علماے پاکستان کی نمایندگی صاحبزادہ ناصرجمیل ہاشمی نے کی۔
طرابلس میں کانفرنس کے دو ابتدائی سیشن ہی ہوئے تھے کہ اعلان کیا گیا کہ صدر قذافی صاحب (جنھیں وہاں ہر چھوٹا بڑا الاخ القائد/قائد بھائی کے لقب سے پکارتا ہے) سمیت بہت سے ذمہ داران افریقی ممالک کے دورے پر ہیں وہ ۱۲ ربیع الاول کو افریقی ملک مالی کے قدیم ثقافتی مرکز‘ ٹمبکٹو پہنچیں گے۔ اس لیے کانفرنس کے سب شرکا بھی وہیں چلیں گے اور پھر چارٹرڈ پروازوں کا سلسلہ اس صحرا گزیدہ شہر کی طرف چل نکلا۔ بحرمتوسط کے کنارے واقع شہر طرابلس سے ٹمبکٹو جنوب مغرب کی طرف واقع ہے اور وہاں پہنچنے کے لیے جہاز کو ساڑھے تین گھنٹے درکار تھے۔ گویا یہ مسافت اتنی تھی جتنی اسلام آباد سے دبئی کی ہے۔ عصر کے کچھ بعد طرابلس سے روانہ ہوئے۔ کچھ ہی دیر بعد جہاز کی کھڑکی سے نیچے دیکھا تو سفیدی مائل سرخ ریت کا سمندر‘ بارھویں کے چاند کی کرنیں آغوش میں سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پاکستان اور ٹمبکٹو کی توقیت (مقامی وقت) میں پانچ گھنٹے کا فرق ہے۔ ہم عشاء کے وقت وہاں پہنچے تب پاکستان میں رات بھیگ رہی تھی۔ ہم ایرپورٹ کی مختصر سی عمارت سے بغیر کسی کارروائی کے باہر آگئے‘ گاڑیاں آرہی تھیں اور مسافروں کو سمیٹتے ہوئے‘ ایرپورٹ سے شہر کا قلب چیرتی شہر کی اکلوتی پختہ سڑک پر روانہ ہو رہی تھیں۔ چند کلومیٹر چلنے کے بعد ایک کیمپ میں پڑائو ڈالا گیا‘ تمبو قناتیں لگے‘ اس کیمپ میں ناہموار لیکن نرم ریت پر پلاسٹک کی چٹائیاں بچھی تھیں۔ کیمپ کے باہر قذافی صاحب کی قدآدم تصاویر سجی تھیں۔ بڑے بڑے بورڈوں پر براعظم افریقہ کا نقشہ بنا تھا جو مکمل طور پر سیاہ تھا‘ اُوپر بحرمتوسط کے کنارے واقع لیبیا میں سیاہی مائل سبز رنگ تھا جہاں سے ایک سورج طلوع ہوتا دکھائی دیتا تھا‘ گویا اس سورج نے پورے افریقہ کی سیاہی کو روشنی میں بدلنا ہے۔
کیمپ میں نمازوں کی ادایگی اور اجتماعی کھانے کے بعد کہ جس میں عرب روایت کے مطابق ایک ایک بڑے پیالے میں چار چار‘ پانچ پانچ افراد کھاناکھا رہے تھے‘ مختلف ممالک کے قافلوں کو ان کی رہایش گاہوں پر لے جایا جانے لگا۔ سب حیرت زدہ تھے کہ عازمِ سفر ہوتے ہوئے جس جگہ کا خواب بھی نہ دیکھا تھا‘ دنیا بھر سے آئے قافلے وہاں جمع ہو رہے تھے۔ یہاں اپریل میں بھی درجہ حرارت ۴۷ تک پہنچ جاتا ہے۔ رات کے وقت ۲۷ تھا‘ ہوائوں کے جھونکے انتہائی خوش گوار لگتے‘ لیکن گاہے تیز جھونکا ہوتا تو ریت کو بھی ساتھ شامل سفر کرلیتا۔ حافظ حسین احمد پکارے : ٹمبکٹو تو ’تم بھگتو‘ میں بدل چکا ہے۔
رہایش گاہ لے جایا گیا تو وہ ایک شکستہ حویلی تھی۔ فوم کے گدے قالینوں پر ڈالے گئے تھے۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ یہ اصل میں سعودی عرب کے ایک رفاہی ادارے مؤسسۃ الحرمین کا دفتر تھا جو ٹمبکٹو اور گردونواح میںمفلوک الحال لوگوں کی بہبود کے لیے کام کر رہا تھا۔ ناین الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں‘ متعدد رفاہی تنظیموں پر دہشت گردوں کی مدد کے الزام میں پابندی لگائی گئی تو اسے بھی تحلیل کر دیا گیا۔دنیا بھر میںاس کے دفاتر اُجاڑ دیے گئے اوران کے جاری رفاہی منصوبے روک دیے گئے۔ یہ دفتر بھی اسی آندھی کی نذر ہوا تھا اور اب اس حویلی کے ایک شکستہ کمرے میں ۱۶/۱۷ سالہ نوجوان چوکیدار ’مولود‘ کے علاوہ کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں ہے۔ البتہ وسیع و عریض دالان میں نیم اور جنگلی کیکر کے خود رو درخت تروتازہ تھے۔ لق و دق صحرا میں قدرت کا شاہکار اور اُجڑے دیار میں اُمید کی کرن۔
اس حویلی میں سب بزرگانِ دین اور خادمینِ قوم برابر تھے۔ نوجوان علما نے بزرگوں کی تکریم و احترام یہاں بھی ملحوظ خاطر رکھی لیکن بالآخر سب ہی یکساں کیفیات سے دوچار تھے۔ نصف شب کے قریب یہاں پہنچے تھے‘ پہنچتے ہی نیند میں ڈوب گئے۔ حالانکہ کئی کمروں میں پنکھا بھی نہیں تھا۔ صبح دم افریقی بدوانہ آواز میں اذانِ فجر‘ روحانیت سے معمور لمحوں کو منفرد سحر بخشنے لگی۔ حویلی سے نکل کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ آواز کس طرف سے آرہی ہے ‘شاید مسجد قریب ہو۔ اچانک نظر پڑی کہ حویلی سے عین متصل مسجد کی عمارت ہے اور اس کی چھت پر ایک ادھیڑ عمرافریقی بدو‘ اپنے مخصوص لباس میں ملبوس‘ اپنے پورے جسم کو دائیں بائیں زور زور سے جھلاتے ہوئے‘ کڑاکے دار آواز میں اللہ اکبر کی صدائیں ہفت آسمان تک پہنچا رہا ہے۔
مسجد کی عمارت پختہ تھی‘ ہال کمرے میںاینٹوں کا فرش تھا‘ جس کی درزوں سے ریت نکل نکل کر چٹائیوں تک بھی پہنچی ہوئی تھی۔ باہر صحن کچا تھا‘ یعنی اُونچی کرسی کے صحن میں صرف ریت بھری ہوئی تھی‘ اُوپر چٹائیاں بچھی تھیں۔ نماز فجر میں آس پڑوس سے ۲۰‘ ۲۵ نمازی آگئے تھے۔ سب لوگ گھروں سے وضو کر کے آرہے تھے۔ مسجد میں وضوخانے کا انتظام نہیں تھا۔ مجھے وضو کرنا تھا‘ ایک نمازی بھاگ کر اپنے گھر سے پلاسٹک کے جگ میں پانی لے آیا اور مسجد کے دروازے کی سیڑھیوں میںرکھتے ہوئے اشارہ کیا: ’’یہاں بیٹھ کر وضو کرلو‘‘۔
ٹمبکٹو کے باسیوں کا لباس بھی پورے صحراے اعظم میں پھیلے مختلف قبائل کے لباس سے ہم آہنگ ہے۔ گہرے رنگ کے سوتی کپڑے کا لمبا چولا‘ اس کے اوپر ایک کوٹ نما کھلی چادر‘ اور سرپر بڑا پگڑ‘ جس سے صرف سر ہی نہیں گردن اور منہ کو بھی ڈھانپا جاتا ہے۔ کئی لوگوں نے اکٹھے دو دو تین تین پگڑ باندھے ہوئے تھے۔ کچھ قبائل اپنے لیے مخصوص رنگوں کے پگڑوں کا اہتمام کرتے ہیں‘ مثلاً پورا قبیلہ سیاہ‘ سفید اور نیلا پگڑ اُوپر تلے باندھے ہوئے ہوگا۔ اس پگڑ کے اور بھی بہت فوائد ہوں گے لیکن چلچلاتی دھوپ اور کھلی فضا میں ہر دم تیرتی ریت‘ جو نتھنوں اور حلق میں جا بسیرا کرتی ہے‘ سے بچنے کی صرف یہی سبیل ہے۔ کچھ قبائل میں مرد حضرات اپنے خیموں اور اپنے گھروں میں بھی دوسروں کے سامنے چہرہ کھولنا معیوب سمجھتے ہیں۔ بعض لمبے قد اور اُونچے اُونچے پگڑوالوں کے سامنے ایک درازقد انسان بھی پست قد محسوس ہوتا ہے۔
شام کے وقت ایک کھلے میدان میں جلسۂ عام تھا۔ قذافی صاحب کے علاوہ پانچ پڑوسی ملکوں کے سربراہانِ مملکت بھی شامل تھے۔ خود مالی کے سربراہ اور کچھ عرصہ قبل فوجی انقلاب کے ذریعے برسرِاقتدار آنے والے موریتانیا کے صدر بھی ان میں شامل تھے۔ قذافی صاحب نے پہلے ان سب سربراہوں‘ مختلف ملکوں سے آئے مہمانوں اور صحراے اعظم کے مختلف قبائل کے سرداروں سمیت تقریباً ۵۰ ہزار کے مجمعے کو مغرب کی نماز باجماعت پڑھائی‘ پھر تفصیلی خطاب کیا اور عشاء کی جماعت کروا کے پروگرام کا اختتام کیا۔ ایک شہر میں اچانک دنیا بھر سے چنیدہ مہمانوں کو لابسانے سے شہر اور کانفرنس کی انتظامیہ کو جو مشکلات درپیش تھیں‘ ان کا ایک مظہر یہ تھا کہ پاکستان سے جانے والا پورا وفد صدرقذافی کے اس اجتماع عام میں شریک نہ ہوسکا اور اپنے ساتھ موجود لیبین نمایندے کے ہمراہ اپنی حویلی ہی میں شرکت کے لیے تیار بیٹھا انتظار کرتا رہا۔ اجتماع عام کے بعد رات کے کھانے کا وقفہ تھا اور رات تقریباً ۱۲ بجے ایک وسیع و عریض پنڈال میں ایک اور کنونشن کا آغاز ہوگیا۔ صحراے اعظم کے مختلف سردارانِ قبائل نے خطابات کیے جن میں سے ہر ایک نے اپنے لیے اپنی پسند کے القاب رکھے ہوئے تھے‘ کچھ کا نام سلطان السلاطین‘ یعنی شہنشاہ تھا اور کچھ کا شیخ المشائخ‘ یعنی پیرانِ پیر۔
خیرسگالی کے کلمات اور مختلف جذباتی‘ لیکن عربی ادب کے حسین مرصع قصائد کے بعد قذافی صاحب کا خطاب شروع ہوا۔ انھوں نے کسی بھی طرح کے تمہیدی کلمات کے بغیر براہِ راست گفتگو شروع کردی۔ صحراے اعظم کی عظمت و تاریخ کا ذکر کیا۔ ٹمبکٹو کے تہذیبی کردار کو واضح کیا۔ دریاے نائیجر(نائیجریا نہیں) سے ٹمبکٹو تک آنے والی نہر کا ذکر کیا جو اب ریت سے پاٹ دی گئی ہے اور تالیوں کی گونج میں اعلان کیا کہ آپ کے لیبین بھائیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ یہ نہر دوبارہ کھودیں گے اور ٹمبکٹو دوبارہ ایک شان دار و خوب صورت نخلستان میں بدل جائے گا۔
واضح رہے کہ ٹمبکٹو دریاے نائیجر سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر پر واقع ہے۔ دریاے نائیجر صحراے اعظم کے انتہائی مغربی کنارے سے جنوب مشرق کی طرف بہتا ہوا متعدد افریقی ملکوں سے گزرتا اور صحرا کو گلزار میں بدلتا ہے۔ دریاے نائیجر سے ایک نہر ٹمبکٹو تک بہتی تھی جو یہاں کے شہریوں کو ہریالی‘ شادابی و خوش حالی بخشتی تھی۔ یہ نہر بند کر دی گئی اور وقت کا پہیہ چلنے کے ساتھ ساتھ ٹمبکٹو ریت میں ڈوبتا چلا گیا۔ شادابی کو صحرا میں بدلنے کا یہ کارخیر فرانسیسی استعمار کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچا تھا۔ اگرچہ استعمار کا مطلب ’تعمیر کی خاطر‘ بیان کیا جاتا ہے لیکن اس علمی و تہذیبی جھرنے کے سوتے خشک کرنے کا سہرا فرانس ہی نے اپنے سر پرسجایا۔
فرانس کو اس شہر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ فرانس کے بعض جنگ جو اور مہم جو ٹمبکٹو کے رازوں سے پردہ اُٹھانے کی کوششوں میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے‘ لیکن کوئی وہاں تک رسائی حاصل نہ کرسکا۔ پورا شہر مسلم آبادی پر مشتمل تھا۔ بالآخر ۱۸۲۸ء میں ایک فرانسیسی مہم جو ’رینیہ کاییہ‘ جان جوکھوں میں ڈال کر ٹمبکٹو پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہاں اس نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے معززین شہر میں سے ایک کے گھر پناہ لی اور تقریباً دو ہفتے وہاں رہ کر وہاں پہنچنے کا آسان تر راستہ تلاش کیا اور فوج کشی کے لیے دیگر ضروری معلومات جمع کیں۔
فرانسیسی اس جاسوس کو اپنا قومی ہیرو قرار دیتے ہیں۔ فرانسیسی صدر فرانسواں میتراں جب ٹمبکٹو کے دورے پر آئے تو انھوں نے احترام و عقیدت سے اس گھر کا دورہ کیا جہاں ’رینیہ کاییہ‘ مہمان کے روپ میں ٹھیرا تھا اور اس شہر تک پہنچنے کے لیے فرانسیسی افواج کی رہنمائی کی جسے صحراے اعظم کا نگینہ کہا جاتا تھا۔
صدر معمرالقذافی اسی ٹمبکٹو میں صحراے اعظم کے قبائل کو ایک ہوجانے کی دعوت دیتے ہوئے کہہ رہے تھے:’’ہم سب اس ایک گھر کے باسی ہیں‘ ہمارا باہمی تعلق اہلِ خانہ کے باہمی تعلق کی طرح مضبوط ہونا چاہیے اور یہ جو مختلف ممالک کی سرحدوں کے ذریعے ایک ایک قبیلے کو ۱۰‘۱۰ٹکڑیوں میں بدل دیا گیا ہے ہمیں اس استعماری تقسیم کو ختم کردینا چاہیے‘‘۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ہم نے اور ہمارے کئی پڑوسی ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ آیندہ صحراے اعظم کے ایک قبیلے کے فرد کو اپنے قبیلے کے دوسرے افراد سے ملنے کے لیے‘ کسی پاسپورٹ یا ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ استعماری ممالک اب بھی ہمارے صحرا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ہم انھیں خبردار کرتے ہیں کہ اگر انھوں نے ہمارے صحرا کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو صحراے اعظم کا ہرذرہ ان کے لیے انگارہ بن جائے گا‘ ہر فرد ایک خونخوار شیر بن جائے گا اور صحرائوں کی تپتی ہوائیں ان کے لیے آگ کی لپٹیں ثابت ہوں گی‘‘۔
فجر سے پہلے تقریباً تین بجے یہ خطاب اور تقریب اختتام کو پہنچی اور پھر سب مہمان پنڈلیوں تک ریت میں ڈوبتے ہوئے‘ شہر کی اکلوتی سڑک اور وہاں سے اپنی اپنی رہایش گاہوں کی جانب چل دیے۔ ہمیں نماز فجر کے بعد دوبارہ گاڑیوں میں بٹھاکر ایرپورٹ لے جایا گیا‘ جہاں سے طرابلس جانے کے لیے چارٹرڈ جہاز آنے کی نوید سنائی گئی تھی‘ لیکن یہ ایک بہت جاں گسل انتظار پر مشتمل‘ طویل دن تھا۔ تمام غیرملکی مہمان جن میں کئی حکومتی ذمہ داران اور ترکی کے ایک نائب وزیر بھی تھے‘ دن بھر جہاز کے انتظار میں ایرپورٹ پر بیٹھے رہے۔ سربراہانِ مملکت کے جہاز آئے بھی اور چلے بھی گئے لیکن مہمانوں کے لیے دو جہاز تاخیرکا وقت آگے بڑھاتے بڑھاتے رات ڈیڑھ بجے رن وے پر اترے۔ اس دوران طعام و آرام‘ نشست و برخواست کے حوالے سے کئی شکایات کا تبادلہ بھی ہوا اور اس سارے اجتماع‘ اوقات اور وسائل سے زیادہ بہتر استفادے کے امکانات کے بارے میں بھی تبادلہ خیال ہوا۔ صبح اڑھائی بجے کے قریب ہمارے جہاز نے ٹمبکٹو کی سرزمین کو خیرباد کہتے ہوئے زقند بھری اور صبح ۹بجے کے لگ بھگ واپس طرابلس پہنچے۔
ٹمبکٹو قیام کے دوران وہاں کے قبائل اور ان کی روایات کے بارے میں کئی بہت دل چسپ معلومات بھی حاصل ہوئیں‘ مثلاً ایک ۱۵سالہ بچے سے تعارف ہوا تو وہ بہت فصیح عربی میں گفتگو کررہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہمارے قبیلے کا نام آل عثمان ہے اور ہماری تاریخ کے بارے میں روایت ہے کہ جب مدینہ منورہ میں حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد ایک فتنہ عظیم اُٹھ کھڑا ہوا تو ہمارے آباواجداد وہاں سے ہجرت کر کے شمالی افریقہ میں آبسے اور پھر پھیلتے پھیلتے صحراے اعظم کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ ہمارا قبیلہ بہت صلح جو ہے‘ لیکن صحرائی روایات کے مطابق قبیلے کا ہر فرد‘ اپنی تلوار بھی اپنی زینت و لباس کا حصہ سمجھتا ہے۔ ایک سرخی مائل گہری اور چمکتی سیاہ جلد اور غیرمعمولی لمبے قد والے صاحب سے تعارف ہوا‘ کہنے لگے کہ صحرا اپنے باسیوں کو کبھی بھوکا نہیں رہنے دیتا۔ مجھے اگر کبھی اپنی اُونٹنی کے ہمراہ تنہا بھی یہ پورا صحرا عبور کرنا پڑے تو میں کسی آزمایش کا شکار ہوئے بغیر عبور کرسکتا ہوں۔ پڑوس میں واقع مسجد کے امام محمد ابراہیم سے تعارف ہوا‘ کہنے لگے: ٹمبکٹو کے اکثر لوگ دریاے نائیجرکے کنارے واقع اپنی زمینوں میں کھیتی باڑی سے گزارا کرتے ہیں‘ ویسے یہ شہر ایک اہم تجارتی مرکز بھی ہے۔ ایک زمانہ تھا یہاں نمک سونے سے بھی زیادہ مہنگا تھا لیکن اب یہاں کی معدنی ثروت سے استفادے کی راہیں مسدود کر دی گئی ہیں۔ وہ کہنے لگے ہم پاکستان سے آنے والی تبلیغی جماعتوں (جن کی آمد ناین الیون کے بعد تقریباً معدوم ہوچکی ہے) کے ذریعے آگاہ ہیں۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا نام بھی میرے لیے بہت آشنا و محترم ہے اور میں ان کی کتب پڑھنا چاہتا ہوں۔
ہم ۱۲ اپریل کی صبح واپس طرابلس پہنچے تھے‘ جب کہ ۱۳تاریخ کو وہاں سے تہران کی القدس کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ اس لیے پاکستان آنے کے بجاے سیدھا تہران چلے گئے۔ لیبیا میں تقریباً ڈیڑھ دن قیام کے دوران سیرت کانفرنس کے دو سیشنوں میں شرکت کے علاوہ خود لیبیا کی مختلف پالیسیوں کے بارے میں بھی استفسارات زیربحث آئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے حوالے سے شروع کی جانے والی بحث میں لیبیا کا نام بھی لیا جاتا رہا ہے کہ اس نے پاکستان کے بارے میں وعدہ معاف گواہ کا کردار ادا کیا ہے۔ لیبین اعلیٰ ذمہ داران اس الزام کی مکمل نفی کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ عالمی استعمار اس طرح ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتا ہے۔ ایک تو ڈاکٹر عبدالقدیر اور پاکستان کے خلاف فردِ جرم کی تکمیل‘ دوسرا خود لیبیا پر الزامات کی تصدیق کہ تم بھی بالفعل ایٹمی ہتھیار بنا رہے ہو‘ اور تیسرا پاکستان و لیبیا کے درمیان غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کرنا۔
لیبیا پر ان الزامات اوراس کی طرف سے کی جانے والی نفی کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ ابھی بہت سے اہم رازوں سے پردہ اُٹھنا باقی ہے۔ ان میں سے ایک راز یا معمہ یہ بھی ہے کہ صدر قذافی کا لہجہ اور عالمی استعمار کے خلاف ان کی گفتگو تو اب بھی سابقہ شان رکھتی تھی۔ لیکن عین انھی دنوں کونڈولیزا رائس نے اعلان کیا کہ لیبیا کے ساتھ سفارتی تعلقات مکمل بحال کیے جارہے ہیں۔ وہ لیبیا کے ساتھ دشمنی کے بجاے دوستی کے نئے عہد کی نوید بھی دے رہی تھیں اور دعویٰ کر رہی تھیں کہ لیبیا نے ’دہشت گرد‘ تنظیموں کی مدد بند کر دی ہے۔
یہودی روزنامہ یدیعوت احرونوت نے ۱۶مئی کے شمارے میں لیبیا کی اس مذکورہ تبدیلی کو بنیادی طور پر برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی-۶ کا کارنامہ قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ میں تعلیم پانے والے صدر قذافی کے صاحبزادے نے اس ضمن میں بنیادی کردارادا کیا ہے‘ لیکن پاکستان اور اہلِ پاکستان کے لیے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف خود ملک و قوم کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں اور کہیں کہ ’’ڈاکٹر عبدالقدیر ان کی اجازت کے بغیر خفیہ پروازوں سے ایران جاتے تھے‘‘ تو کیا یہ سوال بے معنی نہیں ہوجاتا کہ لیبیا اور ایران کے ایٹمی پروگراموں کے حوالے سے پاکستان کو کس نے کٹہرے میں کھڑا کیا ہے!