جولائی۲۰۰۶

فہرست مضامین

نومسلم کی سرگزشت

راوی: حسن علی | جولائی۲۰۰۶ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

تحریر : امجد عباسی

ایمان کتنی بیش قیمت متاع ہے‘ اس کے حصول کے لیے صبرواستقامت کے کیسے کیسے  کوہ گراں عبورکرنا ہوتے ہیں‘ اس کا اندازہ ایک نسلی مسلمان یا مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوجانے والے مسلمان کو نہیں ہوسکتا۔ اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب ہمیں قبولِ اسلام کا شرف حاصل ہوا۔ ہمارا تعلق ایک اعلیٰ ہندو خاندان سے تھا۔ ہمارا قبولِ اسلام کا یہ سفر جہاں اسلام کی حقانیت کا ایک ثبوت ہے وہاں بہت سے لوگوں کے لیے ایمان افروز اور ایمان پرور بھی۔ اسی جذبے کے تحت میں اپنے قبولِ اسلام کی سرگزشت بیان کر رہا ہوں۔

  • خاندانی پس منظر: ہندومت کے مطابق پانڈو اور کورو دو اعلیٰ خاندان شمار ہوتے ہیں اور تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارا تعلق پانڈو خاندان سے ہے اور ہم بھیم سین کی اولاد میں سے ہیں جو بہت قدآور‘ جسیم اور طاقت ور تھا۔ہمارے بزرگ ظروف سازی اور مندروں اور گردواروں کے سونے اور تانبے کے گنبد اور کلس بناتے تھے۔ آج بھی ہندستان کے بہت سے مندروں اور گردواروں میں ہمارے بزرگوں کے بنائے ہوئے گنبد اور کلس لگے ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی ہماری انفرادیت اور مذہبی اہمیت تھی۔ یہ مختصراً ہمارا خاندانی پس منظر ہے۔
  • قبولِ اسلام کا محرک : ہماری والدہ کا نام گوراں دیوی تھا۔ وہ ہندی پڑھنا جانتی تھیں۔ والدہ بتایا کرتی تھیں کہ ہمارے نانا مختلف قصبوں میں برتن فروخت اور مرمت کرتے تھے۔ اس زمانے میں اُجرت نقدی کے بجاے اجناس‘ گندم‘ چاول‘ آٹا وغیرہ کی صورت میں دی جاتی تھی۔ ایک دفعہ کسی کے گھر سے انھیں ہرن کی کھال کا ایک ٹکڑا ملا‘ جس پر ہندی تحریر تھی۔ ہمارے نانا کا خیال تھا کہ یہ کوئی مقدس تحریر ہے‘ چنانچہ انھوں نے وہ آٹھ آنے میں خرید لی۔ والدہ صاحبہ نے جب ہرن کی کھال کا یہ ٹکڑا اور تحریر دیکھی تو اپنے والد سے کہنے لگیں کہ یہ کرشن جی مہاراج کے فرمودات ہیں‘ جن میں پانڈوؤں کو نصیحت کی گئی ہے: کہ اے پانڈوؤ! جو ایشور کے ساتھ ساجھا (شرک) کرے وہ رتک  ُبوٹی کوڑھا (یعنی لاعلاج کوڑھ) ہوتا ہے۔ ایک چشمے (منبع) کے پانی سے کھیتوں کو سینچا جائے تو ایک ہرا ہوجاتا ہے اور دوسرا سوکھا رہ جا تا ہے۔ اگر گناہوں کی جڑ کاٹو گے تو تمھاری روح تازہ ہوجائے گی۔ سمیہا (سمیع و بصیر) کے غلام یا دوست بن کر اور تابع بن کر رہو۔

والدہ صاحبہ نے اسے ایک قیمتی متاع کی طرح سنبھال کر رکھ لیا اور اس کو پڑھتی بھی رہتی تھیں۔ پھر ہماری والدہ کی شادی ہوگئی۔ والدصاحب اَن پڑھ تھے۔ والدہ صاحبہ شادی کے وقت وہ مقدس کلام بھی اپنے ساتھ ہی لے آئیں‘ اور اس کو پڑھتی رہتی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے والد صاحب کو بھی ان تعلیمات سے آگاہ کرتی رہتی تھیں۔ اس دوران ان کے دو بچے بھی ہوگئے۔

  • قبولِ اسلام : ایک روز والدہ صاحبہ نے والد صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہمیں ان کلمات کے بارے میں مولوی صاحب سے بھی رابطہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ والد صاحب والدہ کو امرتسر کی جامع مسجد کے خطیب کے پاس لے گئے۔ والدہ گھونگٹ نکالے ہوئے تھیں۔ انھوں نے مقدس کلام خطیب صاحب کو دکھایا اور پھر اس عبارت کا مطلب بھی بیان کیا۔ اس پر خطیب صاحب نے عرض کیا کہ یہ تو الہامی کلام لگتا ہے۔ یہ توحید پر مبنی ہے اور ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بھی ایسی ہی تھیں۔ اس پر والدہ نے کہا کہ جب یہ حقیقت ہے اور اسلام کے اتنا قریب ہے تو پھر ہمیں مسلمان ہونا چاہیے۔ لہٰذا ہم اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں۔ یوں ہماری والدہ صاحبہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پھر ہمارا گھرانا مشرف بہ اسلام ہوا۔

ہمارے خاندانی پس منظر اور پانڈوؤں سے تعلق کی بنا پر خطیب صاحب نے کہا کہ ہمیں ہندوؤں کی طرف سے شدید ردعمل کا اندیشہ ہے‘ لہٰذا مشورے کے بعد آپ کو قبول اسلام کے اعلان کے لیے کہیں گے۔ چنانچہ کئی مرتبہ خطباتِ جمعہ کے بعد اعلان کیا گیا کہ ایک اعلیٰ ہندو خاندان نے قبول اسلام کا فیصلہ کیا ہے‘ جو عنقریب مسجد میں قبولِ اسلام کا اعلان کرے گا۔ اس طرح پورے امرتسر میں یہ بات مشہور ہوگئی۔ مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پایا جاتا تھا۔ اس فضا میں ہندوؤں کے لیے کوئی اقدام کرنا آسان نہ تھا۔ چنانچہ ایک روز جمعے کی نماز کے بعد والدہ صاحبہ نے کرشن جی مہاراج کا کلام پڑھ کر سنایا‘ مفہوم بیان کیا اور پھر اعلان کیا کہ چونکہ کرشن جی کی تعلیمات توحید اور ایک خدا کی بندگی کی دعوت دیتی ہیں جو کہ اسلام کی تعلیمات ہیں‘ لہٰذا ہم اسلام قبول کرتے ہیں۔ اس وقت ہمارا پوراگھرانا مسجد میں موجود تھا۔ ہمارے نام تبدیل کر کے رکھے گئے۔ والدہ صاحبہ کا نام گوراں دیوی سے غلام فاطمہ اور والد صاحب کا رتن چند سے غلام حسین رکھا گیا۔ بڑے بھائی کا نام رام لال سے سیدعلی اور دوسرے بھائی کا نام روپ لال سے محمدعلی رکھا گیا۔ اس وقت تک میری پیدایش نہیں ہوئی تھی۔

اس روز بڑی تعداد میں امرتسر کے مسلمان جامع مسجد میں جمع تھے۔ ہماری والدہ کے  قبولِ اسلام کے اعلان کے ساتھ ہی مسجد نعرۂ تکبیر سے گونج اٹھی۔ مسلمان جذبۂ ایمانی سے سرشار تھے۔ اگلے روز اخبارات ویربھارت‘ ملاپ‘ پرتاپ اور ٹریبون میں اس حوالے سے خبریں بھی لگیں۔ ایک ہنگامہ سا برپا ہوگیا۔ ہماری جان کو خطرے کے پیش نظر مسلمانوں نے ڈپٹی کمشنر کو تحفظ کے لیے درخواست دے دی کہ نومسلم خاندان کی حفاظت کی جائے۔ چنانچہ ایک سال تک گارڈ ہمارے گھر پر تعینات رہی۔

  • طویل اور جاں گسل آزمایش کا دور: قبولِ اسلام کے ساتھ ہی ہماری آزمایش کے ایک طویل اور جان لیوا دور کا آغاز بھی ہوگیا۔ اندازہ ہوا کہ مسلمان ہونا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ واقعی شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے۔ والدہ صاحبہ نے قرآن پڑھنا سیکھا اور باقی گھروالوں کو بھی سکھایا۔ ہمارے قبولِ اسلام کو برادری نے قبول نہ کیا۔ ہمارا مقاطعہ کردیا گیا‘ کاروبار ختم ہوگیا اور جایداد پر قبضہ کرلیا۔ ہم گھر سے بے گھرہوگئے۔ عدالت میں مقدمہ کیا مگر نتیجہ بے سود نکلا۔ اس طرح ہم تمام اثاثوں سے محروم ہوگئے حتیٰ کہ نوبت فاقہ کشی تک پہنچ گئی۔ حالات سے تنگ آکر اور گھر سے بے دخلی کے بعد ہم نے امرتسر میں سیف الدین سیف (مشہور شاعر) کی گلی میں ایک کوٹھڑی کرایے پر لی جس کا کرایہ تین روپے تھا۔ نہ کوئی کاروبار رہا اور نہ کوئی جمع پونجی ہی تھی۔ یہ آزمایش کا طویل دور تقریباً ۱۲ سال پر محیط رہا۔

میری عمر اس وقت ۱۳‘ ۱۴ سال تھی۔ میں نے والدہ سے کہا کہ یہ حالت اب دیکھی نہیں جاتی۔ میں کچھ کام کرنا چاہتا ہوں۔ والدہ صاحبہ کے پاس سونے کا ایک چھلا تھا۔ وہ انھوں نے مجھے دیا کہ اسے بیچ کر کوئی کام کرنے کی کوشش کرو۔ وہ چھلا بیچ کر میں نے کپڑے کا تھان خریدا اور گلی محلے میں بیچنے کے لیے نکل جاتا‘ مگر کسی نہ کسی جگہ کوئی نہ کوئی جاننے والا مل جاتا۔ برادری کے لوگ مذاق بھی اُڑاتے۔ کئی دن کے بعد چار آنے ملے اور کچھ حوصلہ ہوا۔ مگر آئے دن لوگوں کے طعنوں‘ مذاق اور تمسخر سے تنگ آکر یہ کام چھوڑ دیا۔

والدہ صاحبہ اچار اور مربا بنانا جانتی تھیں۔ انھوں نے یہ تیار کر کے فروخت کرنا شروع کیا۔ ہمارے پیش نظر سفید پوشی بھی تھی اور خاندان کا بھرم بھی۔ کچھ دن تو یہ کام چلا مگر پھر کچھ  واقف کار خواتین کے علم میں یہ بات آگئی‘ تو والدہ صاحبہ نے اس کام کو بھی ترک کر دیا۔میں نے سوچا کہ چلو کہیں دُور جاکر کچھ مزدوری کرلوں۔ چنانچہ ایک گودام پر بوریاں اٹھانے کی مزدوری شروع کر دی۔ بوریاں اٹھاتے ہوئے کچھ نہ کچھ دال چاول وغیرہ زمین پر گر جاتے تھے۔ سب مزدور انھیں اکٹھا کرکے اپنے گھروں کو لے جاتے۔ حالات کی تنگی اور فاقہ کشی کے پیش نظر ایک روز میں نے بھی زمین پر گرے ہوئے کچھ چاول جمع کیے اور گھر لے جاکر والدہ صاحبہ سے کہا کہ انھیں پکالیں۔ ان کے دریافت کرنے پر جب بتایا کہ اس طرح لایا ہوں تو انھوں نے پکانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ان پر ہمارا کوئی حق نہیں‘ لہٰذا انھیں واپس کرکے آئو۔ فاقہ کشی میں بھی ہماری ماں نے دیانت داری کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ کتنی عظیم تھی ہماری ماں!

مزدوری کبھی ملتی تھی اور کبھی نہیں۔ ہمارے محلے میں ایک بوڑھا آدمی ریڑھی ڈھوتا تھا۔ کبھی سامان زیادہ ہوتا تو اس سے ریڑھی کھینچی نہ جاتی۔ مجھے بھی مزدوری کی تلاش تھی۔ چنانچہ میں نے بابا جی کے ساتھ مزدوری شروع کردی۔ دو آنے مزدوری ملتی تھی۔ کچھ نہ کچھ گزارا ہوجاتا۔

ایک بار دو دن سے فاقہ تھا۔ ماں نے گھر کے برتن دیے کہ انھیں بیچ کر کچھ لے آئو۔ چنانچہ برتن بیچ کر شہر سے دو ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر چھائونی کے نزدیک سے گائے کی دو اوجھڑیاں خرید کر لایا۔ دو دن کا فاقہ تھا مگر بھوک مٹانے کے لیے ۳۰‘۳۲ کلو وزنی اوجھڑیاں بوری میں ڈال کر کاندھے پر لاد کر گھر لایا۔ پائوں میں جوتی تک نہ تھی۔ راستے میں کانٹے بھی تھے جس سے پائوں لہولہان ہوگئے۔ ماں نے اوجھڑی پکائی اور پھر ہم نے رات گئے کھائی۔ہمیں یہ کھانا دو دن کے فاقے کے بعد میسر آیا تھا۔

ایک روز میں نے اپنی والدہ سے عرض کیا:اس طرح تو گزربسر نہیں ہوپا رہی۔ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں کسی دوسرے شہر جاکر قسمت آزمائوں۔ خدا کرے کہ کوئی بہتری کی صورت پیدا ہوجائے۔ ماں نے اجازت دے دی تو میں نے ممبئی اپنے ہندو چچا دیوان چند کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے قبولِ اسلام کے باوجود وہ ہم سے ہمدردی رکھتا تھا۔

ماں نے گُڑ والی روٹی دے کر رخصت کیا۔ چونکہ پیسے نہ تھے لہٰذا بغیر ٹکٹ ٹرین پر سوار ہوگیا۔ پائوں میں جوتی تک نہ تھی۔ تین دن کا سفر تھا۔ راستے میں ٹکٹ چیکر نے پکڑلیا۔ میں نے انگریزی بولی تو پڑھا لکھا سمجھ کر کچھ دھیما پڑگیا۔ شرمندگی کے مارے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اسے ترس آگیا اور ممبئی پہنچنے میں میری مدد کی۔ دورانِ سفر ایک سِکھ سے ملاقات ہوئی۔ اتفاق سے وہ میرے ہندو چچا کے واقف کار تھے۔ اس طرح چچا تک پہنچنے میں سہولت ہوگئی۔ ممبئی پہنچا تو اس حال میں تھا کہ میلے کچیلے کپڑے تھے اور پائوں میں جوتی تک نہ تھی۔ بہرحال چچا سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے خیریت دریافت کی اور میرے آنے کا مقصد پوچھا۔ میں نے کہا کہ مزدوری کے ارادے سے آیا ہوں۔

چچا کے پاس فوری طور پر تو کوئی کام نہ تھا۔ تاہم‘ اس سِکھ نے لوہے کی چادروں کی کٹائی کی مزدوری کا کام دے دیا۔ کھلے آسمان تلے سوتا اور دن بھر مزدوری کرتا تھا۔ ۱۰ آنے مزدوری طے پائی۔ کچھ عرصے کے بعد پانچ روپے والدہ کو منی آرڈر کیے اور لکھا کہ کام مل گیا ہے۔ پھر میں وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ پیسے گھر بھجوانے لگا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ کس طرح ممبئی پہنچنے میں اس نے مدد کی‘ اسباب فراہم کیے اور روزگار کی صورت نکالی۔

چچا سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میٹرک کرلو تو تمھیں آرٹ کالج آف پونا میں داخل کروا دوں گا‘ جہاں سے تمھاری اچھی تربیت ہوجائے گی۔ چنانچہ شام کی کلاس میں داخلہ لینے کے لیے اسکول کی تلاش ہوئی۔ اتفاق سے ایک اسکول میں داخلہ مل گیا۔ صبح مزدوری کرتا اور شام کو تعلیم حاصل کرتا۔ ایک روز استاد نے میرے ہاتھوں میں پڑے ہوئے چھالے دیکھ کر پوچھا کہ کیا وجہ ہے؟ جب میں نے بتایا کہ دن بھر مزدوری کرتا ہوں تاکہ فیس اور دیگر اخراجات پورے کرسکوں تو میری محنت مزدوری سے وہ متاثر ہوئے۔ انھوں نے ایک سیٹھ صاحب کے نام خط لکھا اور کہا کہ ان سے ملو۔ تمھاری فیس وغیرہ کی کوئی صورت نکل آئے گی۔

سیٹھ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کے بحری جہاز چلتے تھے اور سامان آتا جاتا تھا۔  خط پڑھنے کے بعد انھوں نے مجھے حساب کتاب کے کام پر لگا لیا اور ۳۰ روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کردی۔ اس طرح رہایش‘ کھانے پینے اور تعلیم کا بندوبست ہوگیا۔ میں نے اپنے استاد کا شکریہ اداکیا۔ انھوں نے بھی مجھے محنت سے پڑھایا۔ چنانچہ میں نے سیکنڈ ڈویژن میں میٹرک پاس کرلیا۔ رزلٹ آنے کے بعد چچا مجھے آرٹ کالج پونا میں داخلے کے لیے لے گئے۔ آرٹ اور دست کاری کے حوالے سے یہ معروف کالج تھا۔ بڑی مشکل سے داخلہ ملتا تھا۔ مگر ہمارے خاندانی پس منظر آبائی پیشے اور چچا کی کوششوں سے بالآخر مجھے داخلہ مل گیا۔ یہ دو سال کا کورس تھا۔ اس دوران کالج میں ڈیکوریشن پیس مرمت کے لیے آتے یا مختلف ٹرافیاں وغیرہ بنانے اور مرمت کے لیے آتی تھیں جو میں بناتا اور مرمت کرتا تھا۔ یوں کالج کی طرف سے الگ پیسے مل جاتے تھے۔

کالج سے فراغت کے بعد مجھے ملازمت کی تلاش ہوئی۔ اس موقع پر بھی چچا دیوان چند نے تعاون کیا۔ ممبئی کی مشہور فرم پارکر برادرز تھی جہاں سونے اور چاندی کا کام بڑے پیمانے پر ہوتا تھا اور پارکر نامی انگریز اس کا مالک تھا۔ چچا نے پارکر سے ملاقات کی۔ پارکر نے کہا کہ کارکردگی اپنی جگہ لیکن ہم ٹیسٹ کے بعد فیصلہ کریں گے۔ برطانیہ سے ایک ڈربی ٹرافی مرمت کے لیے آئی ہوئی تھی۔ ہندستان کے مختلف کاریگر مرمت کرچکے تھے مگر نقص دُور نہ ہوتا تھا۔ چنانچہ پارکر نے مجھے وہ مرمت کے لیے دی۔ میں نے اسے اس مہارت سے ٹانکا لگایا‘ وہ اس پر بہت متاثر ہوا اور اس زمانے میں ۳۰۰ روپے میری تنخواہ مقرر کردی جو غیرمعمولی رقم تھی۔

اب اللہ کے فضل سے ہمیں معاشی آسودگی میسر آگئی اور ہمارے حالات بہتر ہونے لگے۔ والد صاحب نے بھی امرتسر میں ایک دکان لے لی اور برتن مرمت کا کام شروع کردیا۔ یوں ہماری بھوک‘ افلاس اور فاقہ کشی کی طویل آزمایش بالآخر ختم ہوئی۔ ایمان قبول کرنے کی پاداش میں ۱۲برس کی یہ طویل اور جاں گسل آزمایش اور کڑا امتحان جس صبرواستقامت سے ہم نے کاٹا‘ یہ خدا کا خصوصی فضل و کرم ہی کا نتیجہ تھا وگرنہ یہ ہمارے بس کی بات نہ تھی!

  • باقاعدہ دین سیکہنے کی کوشش: پارکر کمپنی میں مجھے اچھی تنخواہ اور بہت سی سہولیات میسر آگئیں اور ترقی کے روشن امکانات تھے۔ مگر اب ایک اور طرح کی آزمایش سے دوچار ہونا پڑا۔ ہمارا ایک عزیز تُلسی رام تھا جس کا برتن بنانے کا ایک بڑا کارخانہ تھا اور وہ خاصا مال دار بھی تھا۔ اتفاق سے وہ چچا کے پاس آیا کہ ہم بالٹی بناتے ہیں مگر اس کے کنارے پھٹ جاتے ہیں۔ بہت سے کاریگروں کو دکھایا ہے لیکن مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ تم کوئی کاریگر بتائو۔ چچا نے کہا کہ رتن چند کا بیٹا حسن بڑا اچھاکاریگر ہے۔ تُلسی رام نے کہا کہ گوراں دیوی کا بیٹا جو مسلمان ہوگیا تھا؟ چچا نے کہا: ہاں وہی۔ پھر چچا نے میری ملاقات کروائی۔ وہ مل کر بڑا خوش ہوا اور اپنا مسئلہ بیان کیا۔ میں نے ہامی بھرلی۔ بالٹیوں کی مرمت شروع کی اور ایک ایسا مضبوط ٹانکا لگایا جو ہمارا خاندانی فن تھا جس کے بعد بالٹی کے کنارے نہ پھٹے۔ اس کامسئلہ حل ہوگیا تو اس نے مجھے جزوقتی ملازمت دی اور اچھی تنخواہ مقرر کی۔ پارکر کمپنی اور تُلسی رام کے ہاں کام کرنے سے میری آمدنی غیرمعمولی ہوگئی جس کا اس وقت عام آدمی تصورنہیں کرسکتا تھا۔

اب تُلسی رام کو لالچ بھی ہوا۔ اس نے اپنی پوتی شکنتلہ سے کہا کہ تم اس سے دوستی لگائو اور اسے شدھی کرلو (دوبارہ ہندو بنالو)۔ یہ بہت اچھا کاریگر ہے‘ مال داربھی ہے۔ شکنتلہ ایم اے کی طالبہ تھی۔ اس نے میرے ہاں آنا جانا شروع کردیا۔ ایک روز باتوں ہی باتوں میں اس نے کہا کہ اسلام قبول کرنے کا تمھارے گھرانے کا فیصلہ محض جذباتی عمل لگتا ہے۔ کیا تم اسلام کے بارے میں کچھ جانتے بھی ہو؟ اس نے کئی سوالات بھی اٹھائے جس پر مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنے دین کو باقاعدہ سیکھنا چاہیے نہ کہ محض رسمی تعلیمات پر اکتفا کرلوں۔ اس طرح میں نے دین اسلام کا مطالعہ کرنے اور سیکھنے کا عزم کرلیا۔

اب میں نے دین سیکھنے کے لیے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا۔ ممبئی کی جامع مسجد کے خطیب سے ملا اور اپنی قبولِ اسلام کی روداد سنائی اور طلب علم کے بارے میں رہنمائی چاہی۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا: ہندستان میں ایک ہی مستند ادارہ ہے اور وہ ہے دارالعلوم دیوبند‘ آپ کو وہاں جانا چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے ایک خط لکھ کر میرے حوالے کردیا اور مجھے کہا کہ آپ جمعیت العلما  کے مرکزی دفتر دہلی چلے جائیں وہ آپ کی صحیح رہنمائی کریں گے۔

  • دارالعلوم دیوبند کا سفر : یہ ۱۹۳۸ء کی بات ہے۔ میں جمعیت العلما کے مرکزی دفتر دہلی پہنچا۔ اس وقت مولانا محمود اس کے دفتر میں وقت دیتے تھے۔ میں نے انھیں خط دیا‘ پڑھتے گئے اور میری طرف دیکھتے بھی رہے۔ خط میں مختصراً ہمارے قبولِ اسلام کا تذکرہ اور دین سیکھنے کی خواہش کا ذکر تھا۔ چنانچہ انھوں نے مجھے کہا کہ آپ کو دیوبند جانا ہوگا۔ انھوں نے مولانا حسین احمد مدنی کے نام جو اس وقت مہتمم مدرسہ تھے ایک خط لکھ کر مجھے دیا اور کہا کہ ان کے پاس چلے جائیں۔ وہ آپ کی رہنمائی فرمائیں گے۔ چنانچہ میں نے فیکٹری سے چھٹی لے لی اور دیوبند کے لیے روانہ ہوا۔
  • دارالعلوم دیوبند میں قیام: دیوبند مدرسے کی عمارت سادہ مگر خوب صورت اور اسلامی ثقافت کی عکاسی کرتی تھی۔ مولانا حسین احمد مدنی سے ملاقات ہوئی۔ میں نے مولانا محمود صاحب کا خط دیا۔ انھوں نے اسے پڑھا جس میں مختصراً ہمارے حالات کا تذکرہ تھا اور یہ بھی کہ دین کے عمومی فہم کے لیے انھیں رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اپنی مصروفیات کے باوجود انھوں نے میری گفتگو اور قبولِ اسلام کی روداد سنی۔

مولانا حسین احمد مدنی نے ڈیڑھ گھنٹہ تک میری بات سنی۔بہت حوصلہ افزائی اور ستایش کی کہ آپ کے خاندان نے قبولِ اسلام کے لیے کس استقامت اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ پھر کہنے لگے کہ آپ کو مدرسے کی باقاعدہ سند کی ضرورت تو نہیں ہے۔ آپ کو عمومی فہم دین اور اسلام سے متعلق مختلف سوالات اور اعتراضات کے جوابات درکار ہیں۔ لہٰذا آپ ہمارے مدرسے کی عمومی کلاسیں بھی پڑھیں لیکن میں ایک استاد بھی مقرر کر رہا ہوں جو آپ کی ضرورت کے مطابق آپ کو تعلیم دیں گے۔ چنانچہ ایک بہاری استاد کو میری تعلیم کے لیے مقرر کر دیا گیا۔ انھوں نے مجھے دین کی بنیادی تعلیمات سکھائیں۔ قرآن پڑھایا اور نماز درست طریق پرادا کرنا سکھائی‘ نیز سوال جواب کی صورت میں تبادلۂ خیال کرتے اور اسلام پر اعتراضات کے جواب دیتے۔ اس طرح مجھے دین باقاعدہ سیکھنے کا موقع ملا۔ توحید کا تصور اجاگر ہوا اور قرآن و حدیث کا فہم ملا۔

دیوبند میں میرا قیام تقریباً پانچ ماہ تک رہا۔ وہاں دین کے لیے شغف‘ دین سیکھنے سکھانے کے لیے ایک لگن اور تڑپ اور سادگی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ یہ ایمان پرور منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ کس طرح ہندستان کے مسلمان اہلِ دیوبند کا احترام کرتے اور ان کے مقاصدِ جلیلہ کے پیش نظر طرح طرح سے خدمت کرتے ہیں۔ ان دنوں ۴۰۰ طلبہ مدرسے میں زیرتعلیم تھے۔ ان کا کھانا اور رہایش مفت تھا۔ لوگ بڑی تعداد میں غلہ اور روز مرہ استعمال کی اشیا محض خدا کی رضا اور خوشنودی کے لیے بھجواتے تھے۔ مجھے بھی کچھ خدمت کا موقع ملا۔ طلبہ کے لیے کھانا پکانے کی بڑی بڑی دیگچیاں تھیں۔ ان کے پیندے خراب ہوگئے۔ انھیں مرمت کے لیے شہر لے جانے کی ضرورت تھی جس میں خاصی دقت تھی اور وقت بھی لگنا تھا۔ میں نے کہا کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں۔ مجھے بھی کچھ خدمت کا موقع دیں۔ میرے لیے تو یہ کوئی مشکل کام نہ تھا۔ یہ تو ہمارا آبائی پیشہ تھا۔ چنانچہ میں نے تانبے کی چادریں خریدیں‘ وہیں بھٹی بنائی اور ان دیگچیوں کے نئے پیندے لگا دیے۔ الغرض دیوبند کے قیام نے جہاں میرے فہم دین میں اضافہ کیا وہاں اسلامی معاشرت‘ اخوت و محبت اورسادگی کے مظاہرنے ایمان کو بڑی تقویت پہنچائی۔

  • ممبئی واپسی: ممبئی واپس آنے کے بعد دوبارہ ملازمت پر جانے لگا۔ شکنتلہ سے بھی رابطہ ہوا۔ اس نے بہت سے سوالات اور اعتراضات اٹھائے مگر قرآن و حدیث کے دلائل اور ہندی عقائد اور ہندی مذہبی کتب وید‘ شاستر‘ بھگت گیتا اور کرشن مہاراج کے فرمودات سے جب  اس پر توحید کی حقانیت اجاگر ہوئی تو وہ متاثر ہوگئی۔کہاں وہ مجھے ہندو بنانے چلی تھی اور کہاں خدا نے اس کی ہدایت کا سامان کردیا۔ اس کے اہلِ خانہ کو خدشہ ہوا کہ کہیں یہ مسلمان نہ ہوجائے اور  اپنا دھرم نہ چھوڑ بیٹھے۔ انھوں نے اسے بہت سمجھایا اورجب دیکھا کہ وہ کسی طرح ماننے کے لیے تیار نہیں تو پنڈتوں سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے۔ انھوں نے اس کو ایسی دوا لگا دی جس سے وہ کوڑھی ہوگئی۔

میں نے اس کا طرح طرح سے علاج کروایا لیکن وہ جاں بر نہ ہوسکی۔ آخری وقت اس نے مسلمان ہونے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے مولوی صاحب کو بلوایا۔ انھوں نے اسے کلمہ پڑھایا اور وہ مسلمان ہوگئی۔اس نے کہا کہ میری ایک آخری خواہش بھی پوری کردو۔ میں تم سے نکاح کرنا چاہتی ہوں۔ چنانچہ میرا اس سے نکاح بھی ہوگیا۔ اس کا نام شمائلہ حسن رکھا گیا اور پھر چند گھنٹے بعد وہ انتقال کرگئی اور خدا کے فضل سے وہ ایک مسلمان کی حیثیت سے خدا کے حضور حاضر ہوئی۔

  • تحریکِ پاکستان میں حصہ: ان دنوں تحریکِ پاکستان زوروں پر تھی۔ چنانچہ میں مسلم لیگ امرتسر میں شامل ہوگیا۔ خضرحکومت کے خلاف لاہور میں اسمبلی ہال کے باہر ایک مظاہرہ ہونا تھا۔ ہم امرتسر سے بہت سے نوجوان لاہور پہنچے۔ ماسٹر تاراسنگھ نے للکارا تو میں آگے بڑھ کر اس پر حملہ آور ہوا لیکن وہ بچ نکلا۔ پولیس نے ہمیں گرفتار کرلیااور کیمپ جیل لاہور میں بندکردیا۔ ہم نے جیل میں ہنگامہ کردیا کہ سیاسی قیدی ہیں‘بی کلاس دی جائے۔ رہائی کے کچھ عرصے بعد میری شادی ہوگئی۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ہم امرتسر ریلوے اسٹیشن سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ ہرطرف آگ‘ خون‘ لوٹ مار اور بلوائیوں کے حملے تھے___ آگ اور خون کے سمندر کو ہم تین بھائی اور والدصاحب عبور کرکے پاکستان پہنچے۔ والدہ اور میری اہلیہ پہلے ہی لاہور پہنچ چکی تھیں۔

لاہور پہنچ کر ہم نے گوال منڈی میں ایک گھر لے لیا۔ میں کئی ماہ تک فارغ رہا۔ ایک روز ایک شخص کچھ پرانی انگوٹھیاں فروخت کر رہا تھا۔میں نے اس سے وہ خرید لیں۔ کچھ عرصے کے بعد تانبے کے برتن بنانے کا کام شروع کیا۔ اتفاق سے ایک دوست مل گیا جو کویت آئل کمپنی میں کام کرتا تھا۔ اس نے کویت آنے کے لیے کہا کہ وہاں زیورات کا اچھا کام ہے۔ کسی نہ کسی طرح کرایے کا انتظام کرکے ۱۹۵۰ء میں کویت چلا گیا۔

  • مزید آزمایش: کویت میں چاندی کے زیورات کا کام شروع کرنا چاہا تو زرضمانت کا مسئلہ آڑے آگیا۔ چنانچہ ٹین کے ڈرم بنانا شروع کردیے۔ اس کام کے نتیجے میں بتدریج اتنے پیسے جمع ہوگئے کہ زرضمانت کا مسئلہ حل ہوگیا۔ اب اللہ کے فضل سے خوب آمدنی ہوئی اور بہت پیسہ کمایا۔ بدقسمتی سے ۱۹۶۲ء میں جب اپنا سرمایہ اور جمع پونجی لے کر دارا بحری جہاز سے کراچی کے لیے روانہ ہوا تو ایک حادثے کے نتیجے میں جہاز ہی ڈوب گیا۔ خدا کو زندگی منظور تھی لکڑی کا ایک تختہ ہاتھ آگیا۔ میں اس تختے کے سہارے سمندر سے نکلنے اور کنارے پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پائوں مارتا رہا‘ بالآخر امدادی ٹیم پہنچ گئی اور میں بچ نکلا۔ کچھ عرصہ بحرین ہسپتال میں زیرعلاج رہا۔ اس حادثے سے مجھے شدید دھچکا لگا۔میں بالکل کنگال ہوکر رہ گیا۔ چنانچہ کچھ ہمت کر کے دوبارہ کام شروع کیا۔ ۱۹۷۰ء میں مجھے لیبیا جانے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر کرم کیا۔ میرا زیورات کا کاروبار خوب چمکا اور اچھی آمدن ہونے لگی۔ مجھے سیاحت کا بھی شوق تھا‘ سوچا کہ امریکا کی سیر کی جائے۔
  • ایک اھم موڑ: ۷۴-۱۹۷۳ء میں امریکا کا میرا یہ سفر میرے لیے بہت اہم ثابت ہوا۔ ایک واقعے نے تو میری زندگی کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ مجھے نیاگرا فال دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ اس خیال سے اپنے ایک دوست کے ہاں ڈیٹرائٹ اسٹیٹ گیا اور پھر وہاں سے نیاگرا فال‘ عظیم آبشار دیکھنے نکل کھڑا ہوا۔ بہت خوب صورت منظر تھا‘ بڑا خوش گوار موسم تھا۔ بہت سے سیاح آئے ہوئے تھے۔ میں بھی وہاں گھوم پھر رہا تھا اور خدا کی قدرت کا براہِ راست آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا تھا۔ اچانک میری نظر ایک شخص پر پڑی اور میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔
  • سید مودودیؒ سے ملاقات: ایک بزرگ سفید کُرتا پاجامہ پہنے ہوئے وہاں دکھائی دیے۔ وہ میری طرف مسکراتے ہوئے نہایت اپنائیت کے ساتھ دیکھ رہے تھے جیسے مجھے جانتے ہوں۔ میں ان کے قریب آیا اور سلام عرض کیا۔ انھوں نے جواب دیا اور مسکرا کر ملے۔ میں نے کہا: معاف کیجیے‘ میں آپ کو پہچان نہ سکا۔ پھر انھوں نے اپنا تعارف کروایا کہ میرا نام ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہے۔ پاکستان میں رہتا ہوں اور یہاں علاج کی غرض سے آیا ہوا ہوں۔ میری رہایش قریب ہی پیراڈائز اسٹریٹ میں ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ آپ مولانا مودودیؒ ہیں۔ آپ کا نام سن رکھا تھا مگر دیکھا نہیں تھا۔ آج شرفِ ملاقات بھی حاصل ہوگیا۔ عالمِ عرب میں تو آپ کا بڑا شہرہ ہے۔ کہنے لگے کہ مولانا نہ کہیے بلکہ میرے نام سے پکاریئے۔ چنانچہ میں نے دوبارہ مولانا نہ کہا۔     میں نے بتایا کہ میں بھی پاکستانی ہوں اور یہاں سیاحت کی غرض سے آیا ہوا ہوں۔ پھر ہم مل کر  سیر کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں یہ تذکرہ بھی ہوا کہ ہم ہندو سے مسلمان ہوئے ہیں اور اس   کے لیے بڑی آزمایش سے گزرنا پڑا جو ایک لمبی کہانی ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ میں تفصیل سے آپ کے حالات جاننا چاہوں گا۔

سید مودودیؒ کی شخصیت بہت سحرانگیز تھی۔ میں اس بات سے ہی بہت متاثر ہوا کہ یہ شخص زندگی میں پہلی بار مجھ سے مل رہا ہے مگر کس تپاک‘ محبت اور اپنائیت سے پیش آ رہا ہے کہ جیسے میں اس کااپنا ہی ہوں۔ میرا دل چاہا کہ میں مزید کچھ دیر ان کے ساتھ ٹھیروں۔ چنانچہ گھر واپسی پر ان کے ساتھ ہولیا۔ پیراڈائز اسٹریٹ کچھ ٹوٹی پھوٹی تھی۔ میں نے کہا: نام تو اس کا پیراڈائز (جنت) ہے مگر ہے ٹوٹی پھوٹی۔ انھوں نے مسکرا کر جواب دیا: بھئی! جنت کی راہ بھی تو کوئی ایسی آسان نہیں۔ اس  راہ میں بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ تب جاکر کہیں جنت ملتی ہے‘ لوگ اسے آسان سمجھتے ہیں۔ ان خوش گوار جملوں میں بھی ایک سبق پوشیدہ تھا۔ مجھے ان کا یہ انداز بہت بھایا۔

سید مودودیؒ کے گھر پہنچ کر ہم نے اکٹھے چائے پی۔ اس دوران تفصیلی تعارف کا موقع بھی میسر آیا۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ ہمارا تعلق پانڈو خاندان سے تھا۔ ہندستان کے معروف رائٹر مُلک راج آنند میرے چچا ہیں۔ پھر مختصراً بتایا کہ کس طرح ہماری والدہ نے اسلام قبول کیا اور کن کن مراحل سے ہمیںگزرنا پڑا تو ان کا اشتیاق مزید بڑھ گیا۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ کہاں ٹھیرے ہوئے ہیں؟ میں نے بتایا کہ ایک دوست کے ہاں ٹھیرا ہوں تو کہنے لگے کہ آپ میرے ہاں بطور مہمان ٹھیریں۔ میں تفصیل سے آپ کے قبولِ اسلام کی روداد سننا چاہتا ہوں۔ پھر اصرار سے مجھے تین روزتک اپنے ہاں ٹھیرایا۔ بڑی تواضع سے پیش آئے‘ خود چائے بنا کر پلاتے اور جو موجود ہوتا اصرار کر کے کھلاتے۔

باتوں باتوں میں نہرو سے میری ملاقات کا تذکرہ بھی آگیا: میں نے اپنے چچا مُلک راج آنند سے کہا کہ نہرو سے میری ملاقات کروا دیں۔چنانچہ ایک روز ان سے ملاقات کے لیے گیا۔ وہاں مِتھرا سے ایک ہندو وفد بھی ملاقات کے لیے آیا تھا۔ وہ گائوماتا کاٹنے پر مسلمانوں کو لعن طعن کر رہے تھے۔ یہ سن کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا کہ پورا یورپ گائوماتا کو کاٹتا ہے مگر انگریز تو ہم پر حکمران ہے۔ وہ چپ ہوکر رہ گئے۔ سیدمودودیؒ اس بات سے بہت محظوظ ہوئے۔

سید مودودیؒ میں بھی بڑی عمدہ حسِ مزاح پائی جاتی تھی۔ عام طور پر بڑے لوگوں کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ سنجیدہ اور خشک مزاج ہوتے ہیں‘ لیکن میں نے ان کو مختلف پایا۔ وہ دورانِ گفتگو اس انداز میں بات کرتے تھے یا نکتہ نکالتے تھے کہ آدمی محظوظ ہوئے بغیر اور    لطف اٹھائے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔ ان سے ملاقات کے دوران اُکتاہٹ کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔

میں نے ان سے یہ بھی عرض کیا کہ دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ میں نے خدمت خلق کو ایک اہم ذریعے کے طور پر اپنے سامنے رکھا۔ میں نے ایک واقعہ انھیں سنایا۔ ایک بار میں روم کے سفر پر تھا۔ کینز سے بذریعہ بس چار گھنٹے کا سفر تھا۔ رات کے وقت اچانک ایک شخص کی مارے تکلیف کے کراہنے کی آوازیں آنے لگیں۔ جب درد کی شدت میں کچھ کمی واقع ہوئی تو میں نے آگے بڑھ کر خیریت دریافت کی۔ وہ گھٹنوں کے شدیددرد میں مبتلا تھا۔ اس کا نام گھنی شیام تھا اور بہت امیر شخص تھا۔ شیل آئل کمپنی ممبئی کا مالک تھا مگر اپنی تکلیف سے بہت تنگ تھا۔

جب میں نے ممبئی کی بولی میں کہا کہ تمھاری تکلیف دُور ہوسکتی ہے؟ وہ بہت خوش ہوا کہ میں نے دنیا جہان کے علاج کروا لیے ہیں‘ پانی کی طرح پیسہ بہایا لیکن آرام نہ آیا اور تم کہتے ہو کہ آرام آسکتا ہے۔ میں نے کہا کہ بالکل آرام آسکتا ہے لیکن ایک کام کرنا ہوگا‘ اور وہ یہ کہ اپنی دولت کم کرو اور غریب غربا کی امداد کرو۔ اس نے کہا کہ تم بھی عجیب آدمی ہو۔ سب لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ بڑھائو اور تم کہتے ہو کہ پیسہ کم کرو۔ پھر میں نے اسے سمجھایا کہ ممبئی میں بے شمار لوگ غربت کے ہاتھوں تنگ ہیں‘ ان کی مدد کرو۔ کچھ فلیٹس بنوائو اور برسات میں جب لوگوں کی جھگیاں ڈھے جاتی ہیں‘ ان کو لاکر بسائو۔ اسی طرح بہت سے کام ہوسکتے ہیں۔ جب یہ لوگ تمھارے حق میں دعائیں کریں گے تو اللہ تم پر کرم کرے گا۔ اس نے ہامی بھرلی کہ اچھا میں تمھارے نسخے پر بھی عمل کروں گا۔

کچھ عرصے بعد جب میں مصر میں دریاے نیل کے کنارے سیر کرر ہا تھا توگھنی شیام سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ وہ گرم جوشی سے ملا۔ اس نے کہا کہ میں تمھارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ تم نے میرے گھٹنوں کے درد کا جو علاج بتایا تھا‘ میں نے اس پر عمل کیا اور اب میں ٹھیک ہوں۔ اب‘ چونکہ اس کا رجحان خدا کی طرف تھا‘ میںنے فوراً کہا کہ خدا کا شکر ادا کرو کہ جس نے تمھیں صحت بخشی۔ ہم سب کا مالک خدا ہے‘ لہٰذا ایک خدا کی بندگی کرو۔ یہی اسلام ہے۔ اس نے کہا کہ میں یہ بات سمجھ گیا ہوں۔ بندوں کی خدمت کے ذریعے جس طرح خدا نے میرا لاعلاج مرض دُور کردیا‘ یقینا وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔ اس طرح وہ شخص خدا کی راہ پر آگیا۔ سید مودودیؒ نے یہ واقعہ سن کر کہا کہ: جس طرح آپ نے خدا پر بھروسا کرتے ہوئے اور اس شخص کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر ایک حکمت سے اسے خدا کے راستے پر ڈالا‘ یہ بھی خدا کی دین ہے‘ اور تبلیغ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے۔

میں نے انھیں جہاں تفصیل سے قبولِ اسلام کی روداد سنائی وہاں ہندی کے بہت سے توحید پر مبنی اقوال سنائے۔ صوفیاے کرام کا سندھی اور دوسری زبانوں میں عارفانہ کلام بھی سنایا۔ میں نے کہا کہ آپ تو خودعالم ہیں‘ بہت علم رکھتے ہیں پھر مجھ سے کیوں سن رہے ہیں۔ کہنے لگے: اس حوالے سے مجھے آپ سے کچھ نئی باتیں ملی ہیں‘ لہٰذا جاننے والے سے سیکھنا چاہیے۔ میرے دل میں ان کی عظمت دوبالا ہوگئی۔

میری روداد سن کر بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ آپ نے اور آپ کے خاندان نے اسلام قبول کرنے کے لیے فی الواقع بڑی قربانیاں دی ہیں اور صبرواستقامت کا مظاہرہ کیا۔ پھر یہ کہ نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اپنے دین کو سیکھا اور آپ دین کو پھیلانے کے لیے ایک تڑپ بھی رکھتے ہیں۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ کو اللہ نے صلاحیت بھی بخشی ہے اور وسائل بھی دیے ہیں۔ آپ دین کو مزید سیکھیے‘ دین کے جدید تقاضوں کو بھی سمجھیے‘ اور پھر تبلیغ دین کا کام کریں۔ اس کے لیے جامعہ ازہر میں داخلہ لے کر مبلغ کا کورس کریں۔ انھوں نے لیبیا کے معروف عالمِ دین کا حوالہ دیا کہ ان سے رابطہ کریں‘ یہ جامعہ ازہر میں داخلے کے لیے آپ کی رہنمائی کریں گے‘ اگرچہ وہاں داخلہ ملنا آسان نہیں۔چنانچہ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور جامعہ ازہر میں داخلے کا ارادہ کرلیا۔

نیاگرا فال کی سیاحت اور سید مودودیؒ سے اتفاقی ملاقات نے میری زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری زندگی کا حاصل ہے۔ یہ سید مودودیؒ کی شفقت اور حوصلہ افزائی تھی جس نے مجھے تبلیغ دین اور خدمتِ خلق کی راہ دکھائی اور عملی رہنمائی بھی دی۔

  • جامعہ ازھر سے مبلّغ کا کورس: خدا اپنے بندوں کے ارادوں کو کس طرح   پایۂ تکمیل تک پہنچاتا ہے اور کس طرح راہیں کھولتا ہے‘ اس کا مشاہدہ مجھے تب ہوا‘ جب میں نے جامعہ ازہر میں داخلہ لینے کا ارادہ کیا۔ حسنِ اتفاق سے ایک روز لیبیا کے وہ عالم دین جن کا      سید مودودیؒ نے تذکرہ کیا تھا ہماری دکان پر زیورات بنوانے کے لیے آگئے۔ انھیں دیکھ کر ہمارا مالک اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اور ان سے بہت احترام سے پیش آیا۔ اس طرح میری ان سے ملاقات ہوگئی۔ جب میں نے اُن سے سید مودودیؒ کا تذکرہ کیا تو ان کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ میں داخلے کی کوشش کروں گا۔ پھر انھوں نے جامعہ ازہر کے شیخ کے نام خط لکھ کر دیا۔ میرے لیے دکان چھوڑنا بھی ایک مسئلہ تھا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ انھی دنوں لیبیا کی حکومت نے سونے کے کاروبار پر پابندی عائد کردی۔ اب عملاً ہمارا کاروبار بند ہوگیا۔ یوں جامعہ ازہر کے لیے راہ ہموار ہوگئی۔

کورس مکمل کرنے کے بعد دوبارہ لیبیا میں اپنے کاروبار کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس طرح کاروبار بھی جاری رہا اور جہاں جہاں جیسے جیسے مجھے موقع ملتا میں دعوتِ دین کا فریضہ بھی انجام دیتا رہا اور خدا کے بندوں کی جہاں تک ممکن ہوسکا خدمت بھی کرتا رہا۔ یہ مجھ پر اللہ کا خصوصی فضل رہا کہ کئی غیرمسلم مرد اور خواتین میری کوشش کے نتیجے میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔

  • سید مودودیؒ سے آخری ملاقات:کئی برس بعد وطن واپسی ہوئی تو سید مودودیؒ کے گھر پر ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ وہ مل کر بہت خوش ہوئے۔ میںنے اپنے کورس کی تکمیل اور اپنی دیگر سرگرمیوں سے بھی آگاہ کیا۔ اس پر انھوں نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے رفقا سے میرا تعارف نہایت احسن انداز میں کروایا اور بتایا کہ یہ ہندو سے مسلمان ہوئے ہیں۔ ان کے خاندان نے اسلام سے فیض یاب ہونے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اب یہ ازہری ہیں‘ مبلغ ہیں اور  توحید کے علَم بردارہیں۔ وہاں موجود لوگوں نے بھی کچھ سوالات کیے۔ کچھ دیر ٹھیرنے کے بعد میں نے سید مودودیؒ سے رخصت چاہی۔ یہ میری ان کے ساتھ آخری ملاقات تھی۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد آپ رحلت فرما گئے۔

آج بھی جب کبھی پلٹ کر ماضی کی طرف دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ہم پر اللہ کی کتنی کرم نوازی تھی کہ دین حق قبول کرنے کے لیے کس طرح سے راہیں کھول دیں۔ ہرن کی کھال پر کرشن مہاراج کی تعلیمات کے ذریعے کس طرح ہماری والدہ صاحبہ نے تصورِ توحید کو پایا‘      قبولِ اسلام کے بعد طویل آزمایش کی کٹھن منزلیں کس طرح سے طے کروائیں‘ فہم دین کے لیے مواقع پیدا کیے‘ سید مودودیؒ سے اتفاقی ملاقات نے جس طرح زندگی کا رخ متعین کردیا اور   جامعہ ازہر سے دین کے جدید تقاضے اور مبلغ کے کورس کی توفیق ملی___ ہم اس کے احسانات کا  شکر ادا کرنا بھی چاہیں تو بلاشبہہ نہیں کرسکتے۔

آج بھی اس پیرانہ سالی میں‘ میں سید مودودیؒ کی ہدایت کے مطابق دعوتِ دین اور بندوں کی خدمت کے مشن پر گامزن ہوں۔ خدا ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے جاری کردہ مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور مجھے بھی اپنی راہ میں استقامت بخشے۔ میری قبولِ اسلام کی یہ روداد میرے حق میں حجت ثابت ہو‘ اور لوگوں کے حق میں اسلام کی حقانیت کو اُجاگر کرنے‘ دین جیسی متاعِ عظیم کی حقیقی قدر پیدا کرنے اور اسے عام کرنے کا ذریعہ بنے۔ آمین!