جولائی۲۰۰۶

فہرست مضامین

مولانا مودودی کا تصورِ اجتہاد

رضوانہ اعجاز | جولائی۲۰۰۶ | فقہ و اجتہاد

Responsive image Responsive image

سید مودودی کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ انھوں نے جمود اور تقلید کے ایک عمومی مزاج کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی۔ اگرچہ وہ بیسویں صدی میں یہ کام کرنے والے پہلے آدمی نہیں تھے‘ لیکن انھوں نے جو کام کیا وہ اُن معذرت خواہانہ (apologetic) نقطۂ نظر رکھنے والوں سے       فی الحقیقت مختلف تھا جنھوں نے اجتہاد کے نام پر علومِ اسلامی کی بعض اساسات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا‘ مثلاً یہ کہنا کہ سنت اسلامی قانون سازی کا بنیادی ماخذ نہیں ہے اور صرف قرآن کی بنیاد پر اجتہاد کرنے پر زور ہونا چاہیے۔ ان کے برعکس سید مودودی نے معذرت خواہانہ سوچ رکھنے والوں اور تقلید پسند روایتی مذہبی طبقے کو راہ اعتدال دکھائی اور قرآن و سنت کی بنیاد پر اجتہاد کی طرف    توجہ دلائی اور خود بھی مختلف معاملات میں اجتہاد کیا۔ بلامبالغہ اُمت مسلمہ کے مستقبل میں اجتہاد کو   ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔

سید مودودی نے اجتہاد کے مسئلے پر جو فکری خدمات انجام دی ہیں‘ ان کو پانچ اجزا میں تقسیم کرکے غور کیا جاسکتاہے:

انھوں نے اُمت کے عروج و زوال میں اجتہاد کا مقام متعین کیا۔

انھوں نے جمود پر ضرب لگائی اور اہلِ علم کو جھنجھوڑا کہ وہ اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھیں۔

انھوں نے ایک طرف غلط اجتہاد کی روک تھام کے لیے تدابیراختیار کیں‘ دوسری جانب اجتہاد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کی بھی مزاحمت کی۔

انھوں نے اجتہاد کے دائرے کو بہت واضح طور پر متعین کیا اور اس میں وسعت اختیار کی۔

انھوں نے اجتہاد کے اصول متعین کیے‘ جن کو مجتہدین کے لیے جدید مسائل حل کرنے میں بنیاد بننا چاہیے۔

سید مودودی نے یہ کام اپنی تحریروں میں بھی کیا اور ان مسائل کے حوالے سے بھی جن میں انھوں نے اجتہاد کیا اور اپنی راے ظاہر کی۔ بعض ماہرین کی راے میں ان کے اجتہادات کا بیش تر حصہ ترجمان القرآن کے جاری ہونے کے پہلے چار پانچ برسوں میں لکھا گیا۔ ان تحریروں میں ان کا موقف اتنا چونکا دینے والا تھا کہ علامہ محمد اقبال جن کی نظر میں فقہ اسلامی کی تشکیل جدید کا کام مسلمانوں کے ایجنڈے پر سرفہرست ہونا چاہیے تھا‘ اس کے لیے ان کی نظر سید مودودی کی طرف گئی اور ان کو پٹھان کوٹ آنے کی دعوت دی۔ قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ اس کام کے ساتھ ساتھ سیدمودودی کی ترجیحات میںوسعت تھی۔ اس لیے کہ فقہ کسی خلا میں کام نہیں کرسکتا جب تک تہذیبی روح اور ایسے افراد نہ پیدا ہوں جو اس فقہ کو عملی جامہ بھی پہنائیں۔ اس لیے انھوں نے اپنی توجہ ایسی تحریک برپا کرنے پر مرکوز کردی جو اسلام کو غالب کرے۔ اس کوشش میں ان کے اجتہادات میں بھی پہلے برسوں کی نسبت کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن پہلے پانچ سال میں اصولی طور پر اجتہاد کے موضوع پر بھی اور حقوق الزوجین‘ دیہات میں نمازِ جمعہ‘ غیرعربی میں خطبۂ جمعہ‘ لائوڈ اسپیکر کا استعمال وغیرہ مسائل پر ان کا نقطۂ نظر اجتہادی شعور کا مظہر ہے۔ یہ صرف مسائل نہیں تھے بلکہ ان مسائل پراجتہاد کرتے ہوئے انھوں نے بہت سے اہم اصول بھی وضع کیے۔ یہ مباحث بہت دل چسپ ہیں اور آج بھی اگر کارِ اجتہاد درپیش ہو تو روشنی فراہم کرسکتے ہیں۔

جمود اور تقلیدی رویے پر زد

مسلمانوں کے عروج و زوال میں‘ سید مودودی اجتہاد کو جہاد کے پہلو بہ پہلو رکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر مایوس کن افتاد اس لیے پڑی کہ ایک جانب روح جہاد سرد پڑ گئی اور دوسری طرف مسلمان اجتہاد سے دست بردار ہوگئے۔

جمود جس کا نقطۂ آغاز شاید اتنا واضح طور پر متعین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ چوتھی صدی سے شروع ہوا یا چھٹی صدی میں‘ یا پورا جمود کبھی طاری بھی ہوا یا نہیں‘ اور اجتہاد کا دروازہ کبھی کلی طور پر بند بھی ہوا یا نہیں___ یہ وہ مباحث ہیں جن پر ہمارے دانش ور بحث کر رہے ہیں۔ تاہم‘ بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ پر ایک جمود طاری تھا‘ جس پر سید مودودی نے ضرب لگائی اور شدت کے ساتھ آواز اٹھائی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے اہلِ علم کے ہاں چھٹی صدی کے بعد کیلنڈر آکر رک گیا ہو اور وہ جدید مسائل کا سامنا نہ کر پا رہے ہوں۔تاہم سید مودودی نے اس بات کو یوں واضح کیا کہ ہمارے اہلِ علم ابھی تک ماضی سے نکل کر حال کے دور میں داخل نہیں ہو سکے ہیں۔ موجودہ حالات میں نت نئی سائنٹی فک ایجادات اور ان کے نتیجے میں متعدد تہذیبی اور دینی مسائل پیدا ہورہے ہیں‘ مگر بدقسمتی سے ہمارے اہلِ علم ان سے آشنا نہیں ہیں‘ جیسے وہ اس دور میں نہیں رہتے۔

جمود اور تقلیدی رویوں کے اسباب کا تعین کرتے ہوئے سید مودودی نے کہا کہ ترتیب یہ تھی: ’’سب سے پہلے اللہ کی کتاب‘ اس کے بعد رسولؐ اللہ اور اس کے بعد اہلِ علم کا اجتہاد تھا۔ بالآخر ترتیب اُلٹ گئی اور عملاً پہلے اہلِ علم کا اجتہاد‘ پھر رسولؐ اللہ اور اس کے بعد کتاب اللہ کو مقام دیا جانے لگا۔ اس ترتیب کے اُلٹنے سے بے شمار فروعیات پیدا ہوئیں اور انھوں نے اصل اسلام کی شکل اختیار کرلی۔ پھر لوگ اس پر قانع ہوگئے کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اس کے لیے ان کتابوں کی طرف رجوع کریں جو کتاب اللہ کی طرح ابدی نہیں ہوسکتی تھیں اور ان افراد کی فکر ہی کو منتہا بنا لیا گیا جن کی فکر اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور بصیرت کے برعکس تمام زمانوں پر حاوی نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ جمود کا بنیادی سبب تھا‘‘۔ (روزنامہ جسارت‘ کراچی‘ نومبر ۱۹۹۵ئ‘ ص ۴۸-۴۹)

جمود کے اسباب

اس جمودی کیفیت کے اسباب کا تذکرہ وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’بنیادی نقص اس مسخ شدہ مذہبیت میں یہ ہے‘ کہ اس میں اسلامی شریعت کو ایک منجمد شاستر بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ اس میں صدیوں سے اجتہاد کا دروازہ بند ہے جس کی وجہ سے اسلام ایک زندہ تحریک کے بجاے محض عہدگذشتہ کی ایک تاریخی یادگار بن کر رہ گیا ہے اور اسلام کی تعلیم دینے والی درس گاہیں آثارِقدیمہ کے محافظ خانوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اجنبی لوگ اس چیز کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ تاریخی ذوق کی بنا پر اظہارِ قدر شناسی تو کرسکتے ہیں‘ مگر یہ توقع ان سے نہیں کی جاسکتی کہ وہ حال کی تدبیر اور مستقبل کی تعمیر کے لیے اس سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے‘‘۔ (تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘ دوم‘ ص ۱۴۹)

استعمار کے سیاسی‘ تہذیبی اور علمی غلبے کے زیراثر جب مسلمانوں کے اندر فکری و نظریاتی انحطاط میں مزید تیزی آئی تو ایمان کاسرمایہ بھی تشکیک و ریب کی نذر ہونے لگا۔

علامہ اقبال‘ مسلمانوں کے زوال و انحطاط کے متعلق ضربِ کلیم میں فرماتے ہیں:

کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو

کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی

مثالِ ماہ چمکتا تھا جس کا داغِ سجود

خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی

ہُوا حریف مہ و آفتاب  ُ تو جس سے

رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ درخشانی

یہاں تک کہ فرنگی حکمرانوں کی تقلید نے مرگِ تخیل کے مرحلے تک پہنچا دیا:

کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگِ تخیل

ہندی بھی فرنگی کا مقلّد‘ عجمی بھی!

مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد

کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سُرورِ ازلی بھی

سید مودودی کی تشخیص بھی یہی ہے کہ: ’’مسلمانوں پر مغربی تلوار اور قلم دونوںکا حملہ ایک ساتھ ہوا۔ جو دماغ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبے سے مرعوب اور دہشت زدہ ہوچکے تھے‘ ان   کے لیے مشکل ہوگیا کہ مغرب کے فلسفہ و سائنس اور ان کی پروردہ تہذیب کے رعب و داب سے محفوظ رہتے… مزیدبرآں ایک مرعوب ذہنیت کے ساتھ مغربی استادوں کے سامنے زانوے ادب تہ کیا گیا تھا‘ اس لیے مسلمانوں کی نئی نسلوں نے شدت کے ساتھ مغربی افکار اور سائنٹی فک نظریات کا اثر قبول کیا۔ ان کی ذہنیتیں مغربی سانچے میں ڈھلتی چلی گئیں۔ ان کے دلوں میں مغربی تہذیب کانفوذ بڑھتا چلا گیا۔ ان میں وہ ناقدانہ نظر پیدا ہی نہیں ہوئی جس سے وہ صحیح اور غلط کو پرکھتے اور صرف صحیح کو اختیار کرتے۔ اور ان میں یہ صلاحیت ہی پیدا نہ ہوسکی کہ آزادی اور استقلال کے ساتھ غوروفکر کرتے اور اپنے ذاتی اجتہاد سے کوئی راے قائم کرتے‘ اسی کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی تہذیب جن بنیادوں پر قائم ہے وہ متزلزل ہوگئی ہیں۔ ذہنیتوں کا وہ سانچا ہی بگڑ گیا ہے جس سے اسلامی طریق پر سوچا اور سمجھا جاسکتا تھا۔ مغربی طریق پر سوچنے اور مغربی تہذیب کے اصولوں پر اعتقاد رکھنے والے دماغ کی ساخت ہی ایسی ہے کہ اس میں اسلام کے اصول ٹھیک نہیں بیٹھ سکتے‘ اور جب اصول ہی اس میں نہیں سماسکتے تو فروع میں طرح طرح کے شبہات اور نت نئے شکوک پیدا ہونا ہرگز قابلِ تعجب نہیں‘‘۔ (تنقیحات‘ ص ۱۹-۲۰)

اسی طرح سید مودودی نے اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ملت کے تعمیرنو کا صحیح طریقہ‘‘ میں اُمت کے جمود اور افتراق و انتشار کو نہایت بلیغ اور جامع انداز میںبیان کیا ہے: ’’جب تک  علماے اسلام اس ماخذ و منبع [قرآن و سنت] سے اکتسابِ علم کرتے رہے اور صحیح غوروفکر سے کام لے کر اپنے اجتہادسے علمی وعملی مسائل حل کرتے رہے‘ اس وقت تک اسلام زمانے کے ساتھ حرکت کرتا رہا۔ مگر جب قرآن میں غوروفکر کرنا چھوڑ دیا گیا‘ جب احادیث کی تحقیق اور چھان بین بند ہوگئی‘ جب آنکھیں بند کر کے پچھلے محدثین اور مفسرین کی تقلید کی جانے لگی‘ جب پچھلے فقہا     اور متکلمین کے اجتہادات کو اٹل اور دائمی قانون بنالیا گیا‘ جب کتاب و سنت سے براہِ راست اکتسابِ علم ترک کر دیا گیا‘ اور جب کتاب و سنت کے اصول چھوڑ کر بزرگوں کے نکالے ہوئے فروع ہی اصل بنا لیے گئے تو اسلام کی ترقی دفعتاً رک گئی۔ اس کا قدم آگے بڑھنے کے بجاے پیچھے ہٹنے لگا۔ اس کے حامل اور وارث علم و عمل کے نئے میدانوں میں دنیا کی رہنمائی کرنے کے بجاے پرانے مسائل اور علوم کی شرح و تفسیر میں منہمک ہوگئے۔ جزئیات اور فروع میں جھگڑنے لگے‘ نئے نئے مذاہب نکالنے اور دور ازکار مباحث میں فرقہ بندی کرنے لگے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۱۵۸)

ذھنی انحطاط اور مادی تنزل

سید مودودی مسلم نوجوانوں کی سوئی ہوئی خودی اور ان کے جمود زدہ احساس کو ٹھوکر لگاکر جگانے کی کوشش کرتے ہیں‘ ان کواپنے تشخص کا شعور دیتے ہیں اوران کو اصل فساد سے آگاہ کرتے ہیں جس سے مسلم سوسائٹی اور مسلم فکر دوچار ہے۔

علامہ اقبال اورسید مودودی کے افکار و نظریات میں اس باب میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں نے مسلمانوں کے حالات و کیفیات کا انتہائی حقیقت پسندانہ تاریخی تجزیہ کیا ہے اور اس مرض کی نشان دہی کی ہے جو مسلم تہذیب کے سقوط کا سبب بنا۔ دونوں اس راے کااظہار کرتے ہیں کہ قوموں کے عروج زوال میں بلاکسی استثنا کے فطرت کا یہ اٹل قانون کارفرما رہا ہے کہ جب کوئی قوم ندرت فکروعمل‘ تحقیق و اکتشاف سے جیسی صفات سے محروم ہوجاتی ہے تو اسے میدان عمل اپنے سے بہتر قوم یا گروہ کے لیے خالی کر کے مغلوبیت اختیارکرنا پڑتی ہے۔ اس لیے کہ خالق کائنات کو  جہانِ آب و گل پر زندہ لاشوں کی حکمرانی پسند نہیں۔ علامہ اقبال ارمغانِ حجاز میں فرماتے ہیں:

آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ

محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاک

محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید

آزاد کا دل زندہ و پُرسوز و طرب ناک

آزاد کی دولت دلِ روشن‘ نفس گرم

محکوم کا سرمایہ فقط دیدہ نم ناک

محکوم ہے بیگانۂ اخلاص و مروت

ہرچند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک

ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش

وہ بندۂ افلاک ہے‘ یہ خواجۂ افلاک ہے

اس موضوع کو سید مودودی اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’فطری قانون یہی ہے کہ جو قوم عقل و فکر سے کام لیتی اور تحقیق و اکتشاف کی راہ میں پیش قدمی کرتی ہے‘ اس کو ذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی بھی نصیب ہوتی ہے‘ اور جو قوم تفکر و تدبر کے میدان میں مسابقت کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ وہ ذہنی انحطاط کے ساتھ مادی تنزل میں بھی مبتلا ہوجاتی ہے۔ پھر چونکہ غلبہ نتیجہ ہے قوت کا اور مغلوبیت نتیجہ ہے کمزوری کا‘ اس لیے ذہنی و مادی حیثیت سے درماندہ اور ضعیف قومیں اپنی درماندگی اور ضعف میں جس قدر ترقی کرتی جاتی ہیں‘ اسی قدر غلامی اور محکومیت کے لیے مستعد ہوتی چلی جاتی ہیں اور طاقت ور (ذہنی‘ مادی دونوں حیثیتوں سے طاقت ور) قومیں‘ ان کے دماغ اور ان کے جسم دونوں پر حکمران ہوجاتی ہیں‘‘۔(تنقیحات‘ ص ۹-۱۰)

سید مودودی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کی شکست و ریخت اور زوال جو نظر آرہا ہے وہ فی الحقیقت کمزور سیرت اور علم و عمل سے عاری قوم کی تہذیب کا‘ ایک دوسری صاحب علم‘ فعال اورباعمل قوم کے درمیان مقابلے کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے ایک معالج کی طرح اُمت کے ان امراض کا علاج شروع کیا اور جب حالت سدھرتی ہوئی نظرآئی تو مقوی ادویات سے ایمان و اسلام کو صحت مند بنانے کی کوشش میں لگ گئے۔ وہ جماعت اسلامی کا مقصد‘ تاریخ اور لائحہ عمل میں لکھتے ہیں:’’کوئی تہذیبی و تمدنی حرکت جمود کی چٹانوں سے نہیں روکی جاسکتی۔ اس کو اگر روک سکتی ہے تو ایک مقابل کی تہذیبی وتمدنی حرکت ہی روک سکتی ہے‘‘۔(ص ۹۰-۹۱)

فکری ارتقا اور اجتھاد

اُمت مسلمہ کی اس بے بسی اور جمود کے خاتمے کے لیے سید مودودی نے اجتہاد پر زوردینے کے ساتھ اس بات کا اہتمام کیا اور تاکید کی کہ اجتہاد بے لگام نہ ہو اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں انجام نہ پائے جو اس کے اہل نہ ہوں۔ وہ اس کا بھی اہتمام کرتے ہیں کہ سلف نے جو صدیوں سے فقہ کی ترتیب کا حتمی کارنامہ انجام دیا ہے اس کو نذر آتش نہ کر دیا جائے‘ یا پوری عمارت کو نہ ڈھا دیا جائے‘ بلکہ فقہ میں جوچیز زمانے کا ساتھ دے سکتی ہو اسے برقرار رکھا جائے اور جو چیز ساتھ نہ دے سکتی ہو‘ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی متبادل چیزیں سوچی جائیں۔ یہ سارے مباحث ان کے مضامین میں بھی موجود ہیں اور ان مباحث میں بھی جو انھوں نے ان مسائل کے حل کے ضمن میں کیے‘ جن کے بارے میں انھوں نے اجتہاد سے کام لیا۔

یہ امرمسلمہ ہے کہ حالات و واقعات میں تغیر و تنوع ناگزیر ہے۔ اس لیے اجتہاد و قیاس سے کام لینا بھی ناگزیر ہے۔ علامہ عبدالوہاب شعرانی ؒ نے دسویں صدی ہجری میں اور مشہور حنفی عالم مولانا عبدالعلی نے تیرھویں صدی ہجری میں لکھا ہے کہ :اجتہاد کے ممنوع اور مسدود ہونے پر کوئی کمزور قسم کی شرعی دلیل بھی موجود نہیں ہے(ماہنامہ فاران‘ کراچی‘ مارچ ۱۹۹۵ئ‘ ص ۲۹)۔ جو احکام اَئمہ سلف اور فقہا کے درمیان اختلافی ہوں تو ان میں حالات و ضروریات کی بنا پر کسی ایک راے کو ترجیح دینے کے لیے بھی اجتہاد کیا جاسکتا ہے اور جو احکام عرف و رواج پر مبنی ہوں ان میں بھی عرف و رواج کے تغیر کی وجہ سے جدید اجتہاد کیاجاسکتاہے۔ لیکن قرآن و سنت کے قطعی اور صریحی احکام اور نصوص کی اجماعی تعبیرکے خلاف اجتہاد کرنا دین میں تحریف و ترمیم کے مترادف ہے۔

اجتھاد کے لیے ضروری اوصاف

سید مودودی تفہیمات جلد سوم میں اجتہاد کا مقصد و منہاج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اجتہاد کا مقصد چونکہ خدائی قانون کو انسانی قانون سے بدلنا نہیں بلکہ اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس کی رہنمائی میں اسلام کے قانونی نظام کو زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ متحرک کرنا ہے‘ اس لیے کوئی صحت مندانہ اجتہاد اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ہمارے قانون سازوں میں حسب ذیل اوصاف موجود ہوں:

۱- شریعت الٰہی (قرآن وسنت) پر ایمان‘ اس کے برحق ہونے کا یقین‘ اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ‘ اس سے آزاد ہونے کی خواہش کا معدوم ہونا اور مقاصد‘ اصول اور اقدار (values) کسی دوسرے ماخذ سے لینے کے بجاے صرف خدا کی شریعت سے لینا۔

۲- عربی زبان اور اس کے قواعد اور ادب سے اچھی واقفیت‘ کیونکہ قرآن اسی زبان میں نازل ہوا ہے اور سنت کو معلوم کرنے کے ذرائع بھی اسی زبان میں ہیں۔

۳- قرآن اورسنت کا علم جس سے آدمی نہ صرف جزوی احکام اور ان کے مواقع سے واقف ہو‘ بلکہ شریعت کے کلیات اور اس کے مقاصد کو بھی اچھی طرح سمجھ لے۔

۴- پچھلے مجتہدین اُمت کے کام سے واقفیت‘ جس کی ضرورت صرف اجتہاد کی تربیت ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ قانونی ارتقا کے تسلسل (continuity) کے لیے بھی ہے۔

۵- عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت‘ کیونکہ انھی پر شریعت کے احکام اور  اصول و قواعد کو منطبق کرنا مطلوب ہے۔

۶- اسلامی معیار اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار‘ کیونکہ اس کے بغیر کسی کے اجتہاد پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہوسکتا۔

اجتہاد اور اس کی بنا پر ہونے والی قانون سازی کے مقبول ہونے کا انحصار جس طرح اس بات پر ہے کہ اجتہاد کرنے والوں میں اس کی اہلیت ہو‘ اسی طرح اس امر پر بھی ہے کہ یہ اجتہاد صحیح طریقے سے کیا جائے۔ مجتہد خواہ تعبیراحکام کر رہاہو یا قیاس و استنباط‘ بہرحال اسے اپنے استدلال کی بنیاد قرآن اور سنت ہی پر رکھنی چاہیے… قرآن و سنت سے جو استدلال کیا جائے وہ لازماً ان طریقوں پر ہونا چاہیے جو اہلِ علم میں مسلّم ہیں‘‘۔ (تفہیمات‘ سوم‘ ص ۱۱-۱۳)

اس پس منظر میں ایک صاحب نے سید مودودی سے دریافت کیا تھا کہ کیا اجتہاد کے دروازے کو آج کھولنے کی شدید ضرورت نہیں ہے۔ وہ اجتہادی اصول جو آج سے ہزار سال قبل بنائے گئے تھے ان کو آج کے مسائل پر بھی بڑی سختی سے نافذ کیا جائے گا؟ اس کے جواب میں انھوں نے لکھا:’’اجتہاد کا دروازہ کھولنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی احتیاط کا متقاضی بھی ہے۔ اجتہاد کرنا ان لوگوں کاکام نہیں ہے جو ترجموں کی مدد سے قرآن پڑھتے ہوں۔ حدیث کے پورے ذخیرے سے نہ صرف یہ کہ ناواقف ہوں‘ بلکہ اس کو دفتر بے معنی سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہوں۔ پچھلی ۱۳ صدیوں میں فقہاے اسلام نے اسلامی قانون پر جتنا کام کیا ہے اس سے سرسری واقفیت بھی نہ رکھتے ہوں اوراس کو بھی فضول سمجھ کر پھینک دیں پھر اس پر مزید یہ کہ مغربی نظریات و اقدار کو لے کر ان کی روشنی میں قرآن کی تاویلیں کرنا شروع کر دیں۔ اس طرح کے لوگ اگر اجتہاد کریں گے تو اسلام کو مسخ کر کے رکھ دیں گے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۰)

اصولِ اجتھاد

سید مودودی اجتہاد کے اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

۱- پہلا اصول یہ [ہے] کہ آدمی اس زبان کو اور اس کے قواعد اور محاوروں اور ادبی نزاکتوں کو اچھی طرح سمجھتا ہو جس میں قرآن نازل ہوا ہے۔ (ایضاً، ص ۳۱)

۲- دوسرا اصول یہ ہے کہ آدمی نے قرآن مجید کا اور ان حالات کا جن میں قرآن مجید نازل ہوا ہے‘ گہرا اور وسیع مطالعہ کیا ہو۔

۳- تیسرا اصول یہ ہے کہ آدمی اس عمل درآمد سے اچھی طرح واقف ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے دور میں اسلامی قوانین پر ہوا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ قرآن خلا میں سفر کرتا ہوا براہِ راست ہمارے پاس نہیں پہنچ گیا ہے۔ اس کو خدا کی طرف سے ایک نبی لایا تھا۔ اس نبی نے اس کی بنیاد پر افراد تیار کیے تھے‘ معاشرہ بنایا تھا‘ ایک ریاست قائم کی تھی‘ ہزارہا آدمیوں کو اس کی تعلیم دی تھی اور اس کے مطابق کام کرنے کی تربیت دی تھی۔ ان ساری چیزوں کو آخر کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ ان کا جو ریکارڈ موجود ہے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر کے قرآن کے الفاظ سے احکام نکال لینا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے۔ (ایضاً‘ ص ۳۱)

۴- چوتھا اصول یہ ہے کہ آدمی اسلامی قانون کی پچھلی تاریخ سے واقف ہو۔ وہ یہ جانے کہ… پچھلی ۱۳صدیوں میں صدی بہ صدی اس پر کیا کام ہوا ہے اور مختلف زمانوں میں وقت کے حالات پر قرآن اور سنت کے احکام کو منطبق کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے گئے ہیں اور تفصیلاً کیا احکام مرتب کیے جاتے رہے ہیں… ایک دانش مند قوم اپنے اسلاف کے کیے ہوئے کام کو برباد نہیں کرتی بلکہ جو کچھ انھوں نے کیا ہے اس کو لے کر آگے وہ کام کرتی ہے‘ جو انھوں نے نہیں کیا‘ اور اس طرح مسلسل ترقی جاری رہتی ہے۔

۵-  پانچواں اصول یہ ہے کہ آدمی ایمان داری کے ساتھ اسلامی اقداراور طرزِفکر اور خدا اور رسولؐ کے احکام کی صحت کا معتقد ہو اور رہنمائی کے لیے اسلام سے باہر نہ دیکھے بلکہ اسلام کے اندر ہی رہنمائی حاصل کرے۔ یہ شرط ایسی ہے جو دنیا کا ہر قانون اپنے اندر اجتہاد کرنے کے لیے لازمی طور پر لگائے گا۔ (ایضاً، ص ۳۱-۳۲)

اجتھاد اور مصلحت و حکمت

سید مودودی نے یہ بات واضح طور پر کہی کہ جو بھی اجتہاد کیا جائے وہ ’مصلحت‘ اور ’حکمت‘ کے مطابق ہونا چاہیے۔ شریعت کا ہرحکم کسی مصلحت پر مبنی ہے اور اگر حالات اور زمانے میں تغیر ہو تو احکام کی نوعیت بھی بدلے گی۔ اس کے بعدانھوں نے اجتہاد کا دائرہ ان الفاظ میں متعین کیا: ’’اجتہاد کے لیے الفاظ اور اسپرٹ دونوں ہی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے‘ لیکن اسپرٹ کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہے۔ اگر اسپرٹ سے مراد وہ چیز ہے جو بحیثیت مجموعی قرآن کی تعلیمات‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل‘ خلفاے راشدینؓ کے عمل اور بحیثیت مجموعی فقہاے اُمت کے فہم سے ظاہر ہوتی ہے‘ تو بلاشبہہ یہ اسپرٹ ملحوظ رکھنے کے قابل ہے اوراسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن اگر الفاظ قرآن اور سنت سے لیے جائیں اوراسپرٹ کہیں اور سے لائی جائے تو یہ سخت قابلِ اعتراض چیز ہے اور ایسی اسپرٹ کو ملحوظ رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم خدا اور رسولؐ کا نام لے کر ان سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ (تفہیمات‘ سوم‘ ص ۳۴)

سید مودودی نے اجتہاد کے دائرہ کار میں وسعت و تنوع اختیار کیا۔اجتہاد میں وہ معاملات تو آئیں گے ہی جن کے بارے میں کوئی حکم نہ پایا جاتا ہو‘ اور وہ معاملات بھی آئیں گے جن میں فقہا نے استنباط کیا ہے اور اب حالات بدل گئے ہیں۔ لیکن نصوص کے دائرے میںبھی اجتہاد کا ایک دائرہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی نص کا منشاکیا ہے؟ جسے پہلے لوگوں نے متعین کیا اور آج بھی کیاجاسکتا ہے‘ اور جو قرآن و سنت کی رو سے بالکل واضح احکام تھے‘ ان کی تعبیر میں صحابہ کرامؓ میں اختلاف رہا۔ بعض الفاظ تک محدود رہے اور بعض نے ان کا مفہوم لیا۔ جیساکہ حضوؐر کی زندگی میں بھی ایسا واقعہ موجود ہے۔

حدیث مبارکہ میں مذکور ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تم غزوئہ احزاب میں فارغ ہوکر یہودیوں کے قلعوں کی طرف جائو تو بیچ میں نماز نہ پڑھو‘ تو بعض لوگوں نے اسے لفظی معنی میں لیا اور نماز عصر پڑھے بغیر قلعوں تک پہنچے۔ بعض نے کہا کہ حضوؐر کا مطلب یہ تھا کہ جلدی سے پہنچو‘ ہم نماز پڑھ سکتے ہیں‘ نماز پڑھ کے جائیں گے۔ دونوں نے ایک نص کی تعبیر کی اور حضوؐر کے سامنے پیش کی۔ آپؐ نے دونوں میں سے کسی کو غلط نہیں کہا (بخاری‘ کتاب المغازی)۔  اس کے معنی یہ تھے کہ تعبیر کے اندر بھی گنجایش موجود ہے کہ حکم کا منشا کیا ہے اور اس منشا کا مفہوم کیا ہے؟ اس کے بعد پھر یہ بھی دیکھا جائے گا کہ یہ حکم کن حالات اور کن واقعات کے لیے آیا تھا۔

سیدمودودی اجتہاد کے اصول کے ساتھ ساتھ حکمت و مصلحت پر بھی زوردیتے ہیں اور جہاں شریعت کے احکام کی مصلحت اور حکمت قائم نہ رہتی ہو وہاں اجتہاد کی بھی ضرورت ہے‘ تبدیلی اور توجہ کی بھی ۔ آپ نے اپنی کتاب حقوق الزوجین میں بہت سے ایسے مسائل پر قلم اٹھایا ہے‘ جن پر فقہا کی آرا بہت عرصے سے موجود تھیں‘ اور ایسا بھی نہیں کہ انھوں نے بہت انقلابی یا ہنگامہ خیز قسم کی تبدیلیاں ان میں کی ہوں‘ لیکن اس سے ان کا مزاج معلوم ہوتا ہے کہ مخلوق خدا کی منفعت اور مصلحت اور اس کا فائدہ دین میں کتنا اہم ہے۔

سید مودودی نے عمومی ضرورتوں اور تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عورت کے حقوق کی بازیافت کے لیے سعی کی۔ اس کی فکری و عملی تربیت کے لیے علیحدہ علیحدہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام پر زور دیا اور کہا کہ حصول علم میںاس کا حق ہے۔ حدود میں رہتے ہوئے تمام صحت مند مشاغل کی نہ صرف اجازت دی بلکہ وضاحت فرمائی کہ معاشرے کی تعلیم وترقی میں مرد سے زیادہ عورت ذمہ دار ہے۔ بایں طور کہ قدرت نے جو اس کے فرائض مقرر فرمائے ہیں ان کو پورے انہماک اور توجہ   سے ادا کرے۔ ان کے نزدیک دوسرا اہم پہلو وہ فقہی قوانین ہیں جن کے ذریعے عورت کی     بے بسی و مجبوری میں اضافہ کیا گیا ہے۔ سید مودودی نے دلائل و براہین کے ساتھ ان بعض  فقہی آرا کو رد کرکے عورت کی حیثیت کو مستحکم کیا ہے اور قرآن و سنت نے اسے جو حقوق دیے ہیں ان کا تحفظ کیا ہے۔ اس پہلو پر ان کی تصنیف حقوق الزوجین ان کی بصیرت کی روشن دلیل ہے۔ (قادری‘ عروج احمد‘ اقامت دین فرض ہے‘ مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ہند‘۱۹۷۰ئ‘ص ۶)

شورائی اجتھاد

اجتہاد کا ایک اہم پہلو شورائی اجتہاد ہے۔ سید مودودی اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’انفرادی اجتہاد سے جو آرا دی جائیں گی اُن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک فتویٰ یا ایک انفرادی راے کی ہوگی۔ اس کو قانون کی طاقت حاصل نہیں ہوسکتی۔ البتہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ مختلف لوگ جب شرعی مسائل پر بحث کریںگے اور اپنے اپنے دلائل دیں گے تو مسائل زیادہ اچھی طرح منقح ہوتے چلے جائیں گے۔ اس کے ساتھ اگر شورائی اجتہاد بھی ہو اور اہلِ علم کی کوئی کونسل ایسی بنائی جائے جو باہمی بحث و مباحثے کے بعد بالاتفاق یا اکثریت سے اجتہادی فیصلے کرے تو یہ چیز بہت مفید ہوسکتی ہے۔ ایسی کونسل ایک ریاست میں بھی بنائی جاسکتی ہے اور اس کو ایک دستوری حیثیت بھی دی جاسکتی ہے تاکہ اس کے فیصلے قانونی طاقت حاصل کرلیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی ایک کونسل کی حیثیت محض ایک علمی کونسل کی ہو اور وہ علمی حیثیت سے اپنے فیصلے شائع کرے اوران فیصلوں سے رہنمائی حاصل کر کے قانون ساز ادارے صحیح قانون بنائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تمام دنیاے اسلام کی ایک مرکزی کونسل ایسی بنائی جائے کہ جو ساری دنیا کے مسلمانوں کی ضروریات کو سامنے رکھ کر اجتہادات کرے۔ اِس علمی کونسل کو قائم کرنے میں اگر مسلمان کامیاب ہوجائیں تو یہ بڑی رحمت ثابت ہوگی۔ اس سے تمام مسلمانوں کو رہنمائی حاصل ہوگی اور کسی وقت چل کر یہ بھی ممکن ہوگا کہ ساری مسلمان حکومتیں مل کر ایک ایسی کونسل کو دستوری حیثیت بھی دے دیں تاکہ اِس کے فیصلے تمام مسلمان حکومتوں میں قانون کی طاقت حاصل کرلیں‘‘۔ (مولانا مودودی کے انٹرویو‘ ص ۶۰-۶۱)