جولائی۲۰۰۶

فہرست مضامین

پاکستان کا روشن مستقبل اور عوامی تحریک

قاضی حسین احمد | جولائی۲۰۰۶ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس امر سے کوئی صاحب ِ نظر انکار نہیں کرے گا کہ اس وقت پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر ایک شدید بحران سے دوچارہے اور اسے اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے ایک مخلص، دیانت دار، ہر دل عزیز،محنتی،با صلاحیت اور جرأت مند قومی قیادت کی ضرورت ہے۔

یہ مخلص اور دیانت دار قیادت کہاں سے آئے گی جو قوم کی نیّا کو طوفانی موجوں کی کشاکش اور تھپیڑوں سے صحیح و سالم نکال کر کنارے پر لگا دے؟ اگر آپ پاکستان کی ۵۸ سال کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ یہ قیادت سول اور فوجی بیوروکریسی یا ہماری اشرافیہ سے میسر نہیں ہو سکتی۔ اس طرح کی ایک مخلص اور دیانت دار قیادت کے لیے ہمیں ملک کے عوام کی طرف رجوع کرنا پڑے گااور انھیں ایک بڑی تبدیلی کے لیے تیار کرنا ہوگا۔    اللہ رب العالمین نے اپنی کتاب ہدایت میںیہ اٹل اصول بیان کیا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ ط (الرعد ۱۳: ۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔

اسی بات کو مولانا ظفر علی خان نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے     ؎

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

عوام میں اپنی حالت بدلنے کا خیال کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستانی عوام میں اپنی حالت کے بدلنے کی خواہش موجود بھی ہے یا نہیں؟

ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ جب تک کسی قوم کی آرزوئیں اور امنگیں بیدار نہ ہوں اور جب تک ان کے دلوں میں تمنائیں انگڑائیاں نہ لیں اس وقت تک کوئی قوم عمل پر آمادہ نہیں ہوسکتی۔اسی لیے مرگِ آرزو اور زندہ تمناؤں کی موت ہی کو کسی قوم کی موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔علامہ اقبال ؒ نے مایوسی اور نا امیدی کو زوال علم و عرفان کہاہے     ؎

نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے

امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں

اقبالؒ نے رموزِ بے خودی میں اسلام کے بنیادی ارکان میں پہلے رکن توحید کے ضمن میں ایک باب درج ذیل عنوان کے تحت باندھا ہے، در معنی ایں کہ یاس و حزن وخوف   ام الخبائث است و قاطع حیات ، و توحید ازالہ ایںامراضِِ خبیثہ می کند (اس معنی کی وضاحت میں کہ ناامیدی اور غم اور خوف ام الخبائث اور زندگی کا خاتمہ کرنے والے ہیںاور توحید ان امراض خبیثہ کا علاج ہے۔)

فارسی کی اس نظم میں اقبال ؒ نے بہت خوب صورتی سے قرآنی آیات سے کلمات لے کر  پرو دیے ہیں۔فرمایا    ؎

مرگ را ساماں ز قطعِ آرزوست

زندگانی محکم از لَاتَقْنَطُوْا ست

آرزو کا خاتمہ موت کا سامان فراہم کرتا ہے،جبکہ زندگی کو لاتقنطوا سے استحکام نصیب ہوتا ہے۔

اس شعر میں قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) اے نبیؐ! کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ،یقینا اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے، وہ تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

آگے فرماتے ہیں    ؎

اے کہ در زندانِ غم باشی اسیر

از نبیؐ تعلیم لَاتَحْزَنْ بگیر

اے غم کے زنداں میں قیدی کی زندگی بسر کرنے والے، نبی کریمؐ سے لاتحزن کی تعلیم حاصل کرلو۔

اس میںاقبالؒ نے قرآن حکیم کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے:

اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ج فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰیط وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ط وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o (التوبہ ۹:۴۰) تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں ،اللہ اُس کی مدد اُس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا،جب وہ صرف دومیں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوںغار میں تھے،جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھاکہ’’غم نہ کر،اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو  نظرنہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا۔ اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے۔

اس سے آگے اقبالؒ نے فرمایا    ؎

چوں کلیمے سوے فرعونے رود

قلبِ او از لَاتَخَفْ محکم شود

جب ایک کلیم ایک فرعون کی طرف جاتا ہے تو اس کا دل  ’لاتخف‘ سے مضبوط ہوتا ہے۔

اس شعر میں قرآن کریم میں مذکورحضرت موسٰی ؑاور ان کے بھائی حضرت ہارون ؑ کے واقعے کا ذکر ہے ، جب ان دونوں کو فرعون کی طرف جانے کا حکم ہوا تو انھوں نے عرض کی کہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ زیادتی پر اتر آئے گا اور سرکشی اختیار کرے گا،تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا: لَا تَخَافَـآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی (طٰہٰ ۲۰:۴۶)’’ڈرو مت، میں تمھارے ساتھ ہوں، سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں‘‘۔

دوسرے موقع پر جب فرعون کے جادوگروں کے سحر کی وجہ سے رسیاںحضرت موسٰی ؑ کو چلتے پھرتے سانپ نظرآنے لگیں تو انھوں نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا‘ تو اللہ نے کہاکہ خوف مت کھاؤ ، تم غالب رہوگے۔ قرآن مجید نے اس واقعے کی یوں منظر کشی کی ہے:

قَالُوْا یٰـمُوْسٰٓی اِمَّـآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّـآ اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی o قَالَ بَلْ اَلْقُوْا ج فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعَصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی o فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی o قُلْنَا لَاتَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۶۵-۶۸) جادوگر بولے: ’’موسٰی ؑ! تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں‘‘؟ موسٰی ؑ نے کہا، ’’نہیں،تم ہی پھینکو‘‘۔یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ان کے جادوکے زور سے موسٰی ؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، اور موسٰی ؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ہم نے کہا ــ’’مت ڈر، تو ہی غالب رہے گا‘‘۔

اس نظم کا خاتمہ اس خوب صورت بیت پر کیا گیا ہے    ؎

ہر کہ رمزِ مصطفیؐ فہمیدہ است

شرک را در خوف مضمر دیدہ است

جس نے مصطفیؐ کی تعلیم کی اصل روح کو سمجھا ہے اس نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کا خوف ’شرک‘ ہے۔

قرآن کریم کی کئی آیات میں ایمان اور عمل صالح سے آراستہ لوگوں کی صفات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ o (البقرہ ۲: ۳۸) ’’ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘‘۔

تبدیلی پیدا کرنے کے لیے پوری قوم کے دلوں میں تمناؤں اور آرزوؤں کو بیدار کرنے کے لیے انھیں یاس و قنوطیت ، ناامیدی اور خوف سے نکال کر ایمان و یقین کے اسلحے سے مسلح کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ اس سحر کا پردہ چاک کرنا پڑے گا کہ امریکا اور فوجی جرنیلوں کے ساتھ ملی بھگت کیے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ حقیقی تبدیلی کے راستے میں بڑی رکاوٹ امریکا اور استعماری طاقتیں اور ان کی آلۂ کارسول و ملٹری بیوروکریسی اور ملک کا طبقۂ اشرافیہ ہے۔ ان سے نجات کا ذریعہ اللہ پر ایمان‘ اور بھروسا‘ منزل کا صحیح شعور‘ ہمہ گیر عوامی بیداری کی جدوجہد اور عوام میں سے ایسی مخلص اور باصلاحیت قیادت کو بروے کار لانے کی ہمہ جہت کوشش جو اللہ اور عوام دونوں کے سامنے جواب دہ ہو۔ اس کے لیے موجودہ حکمران ٹولے سے نجات اوّلین شرط اور ضرورت ہے اور اس یقین کے ساتھ کہ قوت کا اصل سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے جو حقیقی حاکم اورکارفرما ہے۔ اسباب و وسائل بلاشبہہ ہر جدوجہد کے لیے ضروری ہیں لیکن آخری فیصلہ دنیاوی اور ظاہری عوامل پر نہیں‘ اللہ کے حکم اور ارادے کے مطابق ہوتا ہے اور ہم اس کے طالب ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ ز وَتُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo (ٰاٰل عمرٰن ۳: ۲۶) کہو، خدایا، ملک کے مالک، تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

دوسروں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دعوت دینے والے کارکنوں کے اپنے سینے میں چراغِ آرزو روشن ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ روشن مستقبل کا واضح نقشہ دل و دماغ میں سجا ہوا ہو۔ اس نقشے کے بنیادی خدوخال واضح ہوں اور دعوت دینے والے کارکن میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ اپنا ذوقِ یقین دوسروں تک منتقل کرنے کے لیے انھیں اپنے اخلاص کا قائل کرسکے۔لوگوں کو کسی تحریک کی قیادت اور اس کے کارکنوں کے اخلاص کا یقین ہوگا تو وہ ایسی تحریک میں شامل ہونے اور اس کی خاطر قربانی دینے پرآمادہ ہوسکیں گے۔

روشن مستقبل کے خاکے میں سب سے زیادہ اہمیت ’عدل وانصاف‘ کی ہے۔ اللہ رب العالمین نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے بھیجنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷: ۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

لوگوں کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ وہ جس طرح معاشرتی اور معاشی طورپرظلم کی چکی میں پس رہے ہیں‘ ہم اس ظلم سے نجات دلانے کے لیے انھیں پکار رہے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں مخلص نوجوانوں، ہاتھ سے کام کرنے والے مزدوروں اور ظلم کی چکی میں پسنے والے غلاموں کو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے برگزیدہ ساتھیوں کے بارے میں یقین ہوگیاتھا کہ یہ لوگ انھیں ان جیسے انسانوں کے ظلم اور جبر سے نکالنے کے لیے اٹھے ہیں۔ اسلامی تحریک کایہ بنیادی مقصد ایرانی فوج کے سپہ سالار کے سامنے ایک صحابی رسولؐ ربعی بن عامرؓنے ان خوب صورت اور جامع الفاظ میں بیان کیا:

جِئْنَاکُمْ لِنُخْرِجَ الْعِبَادَ مِنْ عِبَادَۃِ الْعِبَادِ اِلٰی عِبَادَۃِ رَبِّ الْعِبَادِ وَ مِنْ جَوْرِ الْاَدْیَانِ اِلٰی عَدْلِ الْاِسْلَامِ وَمِنْ ضِیْقِ الدُّنْیَا اِلٰی وَسَعَۃِ الْاٰخِرَۃِ-

ہم تمھاری طرف اس لیے آئے ہیں کہ تمھیں بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی میں داخل کردیں اور باطل نظاموں کے ظلم سے نکال کر اسلام کے عادلانہ نظام کے زیر سایہ لے آئیں اور دنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں میں داخل کردیں۔

صحابیؓ کے اس قول میں ایرانیوں کو یہ یقین دلایا گیاتھا کہ مسلمان انھیں غلام بنانے اور ذلیل کرنے کے لیے نہیں بلکہ انھیں آزاد کرانے اور عزت دلانے کے لیے آئے ہیں اور انھیں مادی دنیا کی تنگ سوچ سے نکال کر آخرت کی ابدی زندگی کا تصور اور یقین دینے کے لیے آئے ہیں۔

زندگی کا یہی وسیع تصور اور یقین تھا جس نے صحابہ کرامؓ کی مختصر جماعت کو ایک سیلِ رواں میں ڈھال دیا اور پچاس سال سے بھی کم عرصے میںانھوں نے اس دور کی معلوم دنیا کے تقریباً نصف حصے کو اسلام کے نظامِ عدل کے پرچم تلے منظم کرلیا، اور جہاں بھی ان کے مبارک قدم پہنچے وہ جگہ آج تک عالم اسلام کا قلب تصور ہوتی ہے۔

دنیا کو آج پھر معرکۂ روح و بدن درپیش ہے۔ اس معرکے میںہماری اصل قوت اللہ پرکامل ایمان اورسچا یقین ہے۔ اسی ایمان اور یقینِ کامل سے تمنائیں زندہ و بیدار ہوتی ہیں اورآرزوئیں جنم لیتی ہیں۔ دوسری چیز عشقِ مصطفیؐ ہے اور یہ بھی قوت کا بہت بڑا خزانہ ہے اور ہمارے عوام کے دل قوت کے اس سرچشمے سے مالا مال ہیں۔ یہ قوت دلوں میں تمناؤں کو بیدار کرنے والی ہے۔ایک شاعرنے اس بات کو ان خوب صورت الفاظ میں بیان کیا ہے    ؎

دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمھی تو ہو

ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمھی تو ہو

اور اقبال ؒ نے فرمایا:

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو

آں کہ از خاکش بروید آرزو

یا ز نورِ مصطفیؐ او را بہا است

یا ہنوز اندر تلاش مصطفیؐ است

ہر جگہ جو آپ کو جہان ِ رنگ و بو نظر آتا ہے ،جس کے وجود سے آرزوئیں جنم لیتی ہیں یا تو وہ نور مصطفیؐ کے فیض سے سیراب ہے یا ابھی مصطفیؐکی تلاش میں ہے۔

اللہ پر کامل ایمان اور عشق مصطفیؐ کی قوت سے سرشار ہو کرہم انسانیت کی خدمت اور سارے جہاںکی تعمیر نو کے لیے اٹھنے کا پیغام دیتے ہیں۔ہم پوری انسانیت کے خیر خواہ ہیں اور اپنی قوم کی خیرخواہی میں ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیارہیں، اور مجھے یقین ہے کہ جب ہم اخلاص وخیرخواہی کا پیغام لے کراپنی قوم کے پاس جائیں گے تو ہماری یہ خیرخواہی اور اخلاص ان سے پوشیدہ نہیں رہ سکے گا۔ اگرچہ ہمارے مخالفین جھوٹے پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا کر حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کرنے اور باطل کو حق کا جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے لیکن یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ باطل کے مقابلے میں حق کی قوت کو بالآخر فتح عطا فرماتاہے۔


جماعت اسلامی نے سالِ رواں کو دعوت کا سال قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے ایک ہمہ گیر عوامی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام کو استعماری قوتوں اور ان کی آلہ کار     نفس پرست قیادت سے نجات دلا کر ایک مخلص اور دیانت دار قیادت کا تحفہ اور ایک عادلانہ نظام کا ہدیہ دے سکیں۔

بعض لوگوں کے خیال میں دعوت اور اس طرح کی تحریک چلانے میں تضاد ہے حالانکہ حضور نبی کریمؐ کی سیرتِ طیبہ سے عیاں ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے انھوں نے عوامی تحریک کو ذریعہ بنایا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر پورے جزیرہ نماے عرب کی مسلمان آبادی کومتحرک کرنے کے بعد میدان عرفات میںجمع کرکے حج کے اس مبارک سفر کو دین کی تعلیم کو عام کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ اسلام کے ابتدائی ایام تھے، جاہلی تہذیب کے مقابلے میںخالص توحید کی بناپر اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس مرحلے پر اس کے بنیادی خدوخال کو اجاگر کرنے اور اس کے اصول و مبادی واضح کرنے کی ضرورت تھی‘ چنانچہ ایک نئی قوم کی داغ بیل رکھنے اور  عوام الناس کو اس کا شعور دینے کے لیے حج کے سفر کو ذریعہ بنایا گیا۔ متعدد صحابہؓ کا قول ہے کہ انھوں نے دین کے اکثر مسائل اس سفر میں سیکھے۔عوامی تحرک کو اگر صحیح نہج اور اسلامی خطوط پر چلایا جائے تو یہ دعوتِ اسلامی کو عام کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ بنے گا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماراہرکارکن اس عوامی تحریک کا خلوص اور اسلامی جذبے کے ساتھ حصہ بنے، اس کی منصوبہ بندی کے لیے اپنی تجاویز سے مقامی قیادت کو آگاہ کرے اور ہر چھوٹی بڑی آبادی میں عورتوں اور بچوں سمیت پوری آبادی بالخصوص نوجوانوں کو متحرک کردے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ دوسری دینی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ مل کر متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پرعوام کو   منظم کردیں۔ اس کے لیے طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیمیں‘ اسکولوں‘کالجوں اور دینی مدارس کے عام طلبہ کو طلبہ محاذ کے پرچم تلے منظم کردیں، شباب ملّی کی تنظیم ملک بھر کے نوجوانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے اور نوجوانوں کو اعلیٰ مقاصد کا شعور دلانے کا بیڑا اٹھائے۔اوراساتذہ، وکلا، ڈاکٹروں، انجینیروں، تاجروں، مزدوروں اور کسانوں کی تنظیمیںاپنے اپنے طبقے کے لوگوںکو اعلیٰ مقاصد کی خاطرمتحرک کرنے کے لیے کنونشن، کارنر میٹنگ اور چھوٹی بڑی نشستوں کا اہتمام کریں۔

اسی طرح بازاروں اور گلی کوچوں میں عوام الناس کو متوجہ کرکے ان کے سامنے پانچ پانچ منٹ کی چھوٹی چھوٹی تقریریں کرنے کے لیے نوجوان عوامی مقررین کے گروپ تشکیل دیے جائیں۔   یہ مقررین عوام الناس کوموجودہ زبوں حالی سے نکال کر بلندی اور رفعت تک جانے کے سفر پر آمادہ کریں، انھیں اپنے ساتھ منظم جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت و تلقین کریں اور عملاً انھیں اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ عوام کو محلوں اور گاؤں کی سطح سے اٹھا کر تحصیل اور ضلع کی سطح کے جلسوں میں اور بالآخر بڑے شہروں کے جلسوں میں لے جائیں اور ان کے جوش و جذبے کو اس حد تک بڑھا دیں کہ وہ قومی سطح کی ملک گیر تحریک کو منزل تک پہنچانے کے لیے دل وجان سے آمادہ ہوجائیں۔ تحریک چلانے والے کارکنوں کو یقین ہونا چاہیے کہ اس تحریک میں ناکامی کا کوئی تصور موجود   نہیں ہے۔

اس تحریک کا مقصد امت کو انھی مقاصد کے لیے منظم کرنا ہوگا جس کے لیے اسے  ’اُمت ِوسط‘ قرار دے کر عدل و انصاف کا پرچم بلند کرنے کا فریضہ اللہ کی طرف سے سپرد کیا گیاتھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ ۲: ۱۴۳) اسی طرح ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت ِوَسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

یہ عوامی تحریک آئینی اور قانونی حدود کے اندر ہوگی۔اس تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ یہ مکمل طورپر پرامن ہو اور ہر طرح کی توڑ پھوڑ سے اجتناب کرکے اسے قوم کی تنظیم اور اتحاد کا ذریعہ بنایا جائے تاکہ جبر کی طاقتوں کو کوئی بہانہ نہ ملے کہ وہ تشدد کرکے اس تحریک کا راستہ     روک سکیں۔ اسمبلیوں کا فلور بھی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے مفید ہے لیکن ایک موقع ایسا آسکتا ہے جب اسمبلیوں سے باہر آکر عوام کی صفوں میںشامل ہونا تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہوگا۔اس وقت تک اسمبلیوں کے اندر عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہونا چاہیے لیکن ممبرانِ اسمبلی کے استعفے قیادت کے پاس جمع کرانا ضروری ہے تاکہ جب بھی مناسب موقع ہو اور جب بھی حالات کا تقاضا ہو، یہ استعفے پیش کردیے جائیں۔

پرویز مشرف کی حکومت سراسرناجائز اور غیر آئینی ہے۔ اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے اپنے آپ کو دوبارہ منتخب کروانا چاہتا ہے۔ یہ صراحتاً ایک غیر آئینی راستہ ہے لیکن جن لوگوں نے دنیا کے چھوٹے چھوٹے مفاد کی خاطر اپنا ضمیرو ایمان فروخت کردیا ہے اور ان کے مفادات اس غیر اخلاقی اورغیر قانونی نظام سے وابستہ ہیں، وہ کسی بھی ذلت کو گواراکر نے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ملک و قوم کی خیر خواہی رکھنے والے تمام عناصر کا فرض ہے کہ وہ اس کھلے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔

کسی بڑی تبدیلی کے لیے ناگزیر ہے کہ قیادت اور کارکنان قربانیوں کے لیے تیار ہوں۔ جبر کے ہتھکنڈے توڑنے کے لیے ہمارے بھائی فلسطین،عراق،چیچنیا،کشمیر اورافغانستان میں لازوال قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ پاکستان کے حالات بھی قربانیاں دینے کا تقاضاکرتے ہیں۔ یہ قربانیاں مختلف نوعیت کی ہیں، یہ جدوجہد بھی مختلف نوعیت کی ہے، اس میں ظلم و جور کی طاقتوں کے سامنے صبر،ہمت اور حوصلے کا ہتھیار لے کرپُرامن جدوجہد کے مختلف النوع طریقے آزمانے پڑیں گے۔بڑے پیمانے پرگرفتاریاںپیش کرنا اور ظالم حکمرانوں کے ظلم کے مقابلے میں سینہ سپر ہونا اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگرعوام بڑی تعداد میں منظم ہوکر نکلیں گے تو بہت ممکن ہے کہ کسی کو لاٹھی اور گولی سے کام لینے کی ہمت نہ ہو سکے لیکن کارکنوں کو جبر کے ان ہتھکنڈوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، اور سب سے پہلے ہر سطح کی قیادت کو قربانی دینے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔

ہم اس بات پر متفق ہیں کہ غیر ملکی استعمار اور اس کی حواری قیادت سے نجات حاصل کرنے اور سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کے ظلم کی جگہ اسلام کا نظام عدل و انصاف نافذ کرنے کے لیے اس طرح کی تحریک کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔لیکن اس تحریک کو کس انداز میں چلایا جائے، کن مراحل سے اس تحریک کو گزارا جائے اور اس کو کس انداز میں منزل تک پہنچایا جائے؟ اس کے لیے مسلسل مشاورت کی ضرورت ہے،اورخود حضور نبی کریمؐ کو اپنے ساتھیوں سے مشاورت کی تلقین کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:

وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ - (ٰاٰل عمران ۳: ۱۵۹) اور ان کوبھی شریک مشورہ رکھو،پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔

مشاورت کا یہ نظام الحمد للہ اسلامی تحریکوں کا خاصہ ہے اور اسی مشاورت کے نتیجے میں حکیمانہ طرز عمل سامنے آتا ہے۔ اسلامی تحریک کی قیادت پوری قوم کو یقین دلاتی ہے کہ حکمت اور دانش کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا اور اس کے ساتھ اللہ کے بھروسے اور توکّل پر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔

 کچھ لوگ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ بین الاقوامی قوتیں موجودہ فوجی حکمرانوں کو صاف اور شفاف انتخابات منعقد کرنے پر مجبور کریں گی۔ ضمنی انتخابات کے بعد پورے ملک میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات جس نہج پر کروائے گئے ہیں ان سے بھی اگرکچھ لوگوں کی غلط فہمی دور نہیں ہوئی تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ لوگ عوام کو موجودہ حکمرانوں کی موجودگی میں انتخابات کا راستہ دکھاکر خود اس غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی نظام کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور غیر ملکی آقا جن مقاصد کے لیے موجودہ حکمرانوں کی سرپرستی کررہے ہیں، یہ عناصر بھی انھی غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے عوام دشمن اور قومی خودمختاری و سالمیت کے منافی مقاصد کے لیے آلہ کار بننے کو تیار ہیں۔عوام کو اس طرح کے عناصر کے خفیہ ہتھکنڈوں اور سازشی کردار سے باخبر رکھنا محب وطن عناصر کا فرض ہے۔

ملک کے اندر اپوزیشن کی صفوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیںجو موجودہ حکمرانوںکے لادین اور امریکا کی خواہشات سے مطابقت رکھنے والے ایجنڈے سے متفق ہیں لیکن محض اقتدار میں شراکت کی خاطراور اپنی بدعنوانی اور خیانت کو چھپانے اور قانون کی گرفت میں آنے سے بچنے کے لیے ان کی مخالفت پر آمادہ ہیں۔اس طرح کے عناصر اس وقت بھی کسی تحریک کے لیے مخلصانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور آیندہ بھی ان کے تعاون پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرکے میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے قوم کویہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ اپنے سابقہ ادوارِ حکومت میں دونوں نے جن غلطیوں کا ارتکاب کیا تھا، اگر آیندہ انھیں موقع ملا تو وہ ان سے اجتناب کریں گے اورپاکستانی آئین کی اصل روح کے ساتھ وفا کرکے اپنے اختیارات اپوزیشن کے مشورے کے ساتھ استعمال کریں گے، فوج کو مداخلت کی دعوت نہیں دیں گے اور نہ اس کے ساتھ کسی سازباز میں شریک ہوں گے،عدلیہ کی آزادی کا احترام کریں گے اور آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کا اہتمام کریں گے۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے اس عہد اور میثاق پر قائم رہنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگرچہ ان کا سابقہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ آئین کا حلف اٹھانے کے باوجود انھوں نے نہ اس سے وفا کی تھی ، نہ اپنے حلیفوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کیا تھااور نہ  اپنے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تھی، تاہم ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں توفیق دے کہ وہ ملک کوآمریت سے نجات دلانے کے لیے عوامی اسلامی قوتوں کا ساتھ دیں۔

شنگھائی میں روس اور چین کے ساتھ ایران، پاکستان، افغانستان،تاجکستان،قازقستان اور ازبکستان کے سربراہوں کی کانفرنس علاقے کو امریکا کے چنگل سے نکالنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ پاکستان نے شنگھائی ممالک کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کی درخواست بھی کی ہے لیکن پاکستان اور افغانستان دونوں اس وقت امریکا کے چنگل میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں اور دونوں کے حکمرانوں نے اس طرح کا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ واقعی اس چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں۔ افغانستان تو عملاً نیٹو افواج کے قبضے میں ہے اور پاکستانی حکومت امریکا کے پاکستان مخالف اقدامات کے باوجود پوری ڈھٹائی سے کہہ رہی ہے کہ وہ امریکا کی صف اول کی حلیف ہے۔ نہ صرف خارجہ پالیسی بلکہ داخلہ اور تعلیمی و معاشی پالیسیوں میں بھی امریکا کے احکام اور اس کی ہدایات پر مکمل عمل درآمد ہورہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم نے قوم کو یہ مژدہ سنایا کہ عالمی بنک نے چار سال کے لیے پاکستان کو آسان شرائط کے ساتھ ساڑھے چھے ارب ڈالر کاقرضہ دینا منظور کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے کشکول توڑ دیا ہے۔ قوم کواور اس کی آیندہ نسلوں کو قرضے کی یہ زنجیریں پہنانے کے بعدایک آزاد خارجہ پالیسی اور امریکی مداخلت سے نجات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

حکومت پاکستان کے اس رویے کے تضادات ہر صاحبِ عقل پر عیاں ہیںاور جب تک امریکی چنگل سے نکلنے کی واضح تدابیراختیار نہیں کی جائیں گی، اس وقت تک یقین سے نہیں     کہا جاسکتا کہ حکومت پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی لانے میں واقعی مخلص ہے۔

حکومت کی موجودہ پالیسی امریکا کے تابع مہمل بن کر رہنے کی ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستانی فوج قبائلی علاقے میں ایک خوف ناک صورت حال سے دوچار ہے، اس تناظر میں وہاں غیر ملکی مداخلت کا خطرہ روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔ بلوچستان اور قبائلی علاقے میںہماری فوج کو جس طرح الجھا دیا گیا ہے اس سے ملکی سالمیت کو ایک فوری خطرہ درپیش ہے اور اس صورت حال کا فوری تقاضا ہے کہ ملک کی قیادت کو تبدیل کردیا جائے، لیکن ایک جرنیل کے جانے کے بعد دوسرے جرنیل کے آنے سے حقیقی اور عوامی خواہشات کے مطابق تبدیلی نہیں آسکتی اور نہ کچھ آزمائے ہوئے لوگوں کے درمیان اقتدار کی گردش سے کسی بنیادی تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ حقیقی تبدیلی ایسی قیادت کے ذریعے ہی آسکتی ہے جس کو عوام الناس اپنے اجتماعی ارادے سے اقتدار سونپیں اور منظم ہو کر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اس کی پشت پر کھڑے ہوجائیں اور وہ قیادت ملک کے تمام اداروں میںعوامی امنگوںکے مطابق بنیادی تبدیلیاں لائے۔

اس وقت ملک کے عدالتی نظام میں بھی بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے، ایک ایسی تبدیلی جو اس کے فرسودہ ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرکے عوام کو جلد اور مفت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنادے اور جب تک مظلوم کو ظالم کے مقابلے میں انصاف نہ ملے اس کو حکمرانوں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا حق حاصل ہو۔حدودقوانین پر بحث کے دوران علماے کرام کے پینل نے برموقع صحیح نشان دہی کی کہ حدود قوانین میں سقم نہیں ہے بلکہ بنیادی خرابی عدالت اور پولیس کے نظام میں ہے جس کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔

ملک کے معاشی نظام کو اس طرح تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ ملکی وسائل پرپہلا حق غریب کا تسلیم کرلیا جائے اور جب تک ایک ایک غریب اور بے نوا آدمی کی روٹی ،کپڑے،   مکان، علاج اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں اس وقت تک طبقۂ امراکی ضروریات کو مؤخر کردیا جائے۔

ملک کے اندر یکساں نظام تعلیم کے ذریعے پوری قوم کو یک رنگ کر دیا جائے اور اسلامی اقدار پر مبنی اخلاقی تعلیم و تربیت کو تعلیمی نظام کا جزو لاینفک بنا دیا جائے کہ قوم کی اخلاقی  تعلیم و تربیت اور علم و تحقیق اور ایما و اختراع کی اعلیٰ صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے ذریعے ہی اسے  عروج اور سربلندی کے سفر پر مسلسل آگے بڑھنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔

ملک سے بے روزگاری کو ختم کرکے عوام کو مفید اور مثبت سرگرمیوں میں مشغول کردینا، ملکی تعمیرنو کے لیے قوم کو ہنرمند بنانا اور اس کے علم و ہنر کو منظم منصوبوںکے ذریعے ملک کی ترقی میں استعمال کرنا ایک محب وطن اور محب قوم عوامی قیادت کا اولین فرض ہے۔

ان اعلیٰ مقاصد کاشعور دے کرپوری قوم کو بڑے پیمانے پر قومی تعمیر نو کی خاطر خوابِ گراں سے بیدار کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیجیے اور اس میں عملی طورپر ہمارا ساتھ دیجیے۔آپ اللہ کے راستے میں ایک قدم آگے بڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے مزید راستے کھول دے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ج (العنکبوت ۲۹:۶۹) اور جو لوگ ہماری خاطرمجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے۔

اور جب آپ اللہ کے کلمے کی سربلندی کی خاطر مخلصانہ جدوجہد کریں گے تو اللہ کی مدد و نصرت آپ کے شامل حال ہوگی، اور بالآخر دنیامیںکامیابی اورآخرت میں جنت کی نعمتیں آپ کے حصے میں آئیں گی۔اللہ رب ذوالجلال نے قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o  (الصف ۶۱: ۱۲-۱۳) اللہ تمھارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیںعطا فرمائے گا۔   یہ ہے بڑی کامیابی۔اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔