جولائی۲۰۰۶

فہرست مضامین

راہِ فرار اختیار کرنے والے

حسن البنا شہیدؒ | جولائی۲۰۰۶ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

ترجمہ: عبدالغفار عزیز

لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لاَّ تَّبَعُوْکَ وَلٰکِنْم بَعُدَتْ عَلَیْھِمُ الشُّقَۃُ ط وَسَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ ج یُھْلِکُوْنَ اَنْفُسَھُمْ ج وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّھُمْ لٰکَذِبُوْنَ o عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ ج لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ o لاَ یَسْتَاذِنُکَ الَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاھِدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِاَلْمُتَّقِیْنَ o اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ لاَ یُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوْبُھُمْ فَھُمْ فِیْ رَیْبِھِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ o وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ         لاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَھُمْ فَثَبَّطَھُمْ وَقِیْلَ   اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ o لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلاَّ خَبَالًا وَّلاَ ْ اَوْضَعُوْا خِلٰـلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ ج وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَھُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ o لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَۃَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوْا   لَکَ الْاُمُوْرَ حَتّٰی جَآئَ الْحَقُّ وَظَھَرَ اَمْرُ اللّٰہِ وَھُمْ کٰرِھُوْنَ o (التوبہ۹: ۴۲-۴۸) اے نبیؐ، اگر فائدہ سہل الحصُول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمھارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہوجاتے‘ مگر اُن پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا۔ اب وہ   خدا کی قسم کھاکھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقینا تمھارے ساتھ چلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ اے نبیؐ! اللہ تمھیں معاف کرے‘ تم نے کیوں انھیں رخصت دے دی؟ (تمھیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم   جان لیتے۔ جو لوگ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انھیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں رکھتے‘ جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میںمتردّد ہو رہے ہیں۔ اگر واقعی اُن کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے۔ لیکن اللہ کو ان کا اُٹھنا پسند ہی نہ تھا۔ اس لیے اس نے انھیں سُست کردیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمھارے ساتھ نکلتے تو تمھارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمھارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دَوڑ دھوپ کرتے‘ اور تمھارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُن میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگاکر سنتے ہیں‘ اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ان لوگوں نے  فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمھیں ناکام کرنے کے لیے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا اُلٹ پھیر کرچکے ہیں یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آگیا اور اللہ کا کام ہوکر رہا۔

سورئہ توبہ کی ان آیات میں لوگوں کے اس بڑے گروہ کا ذکر ہے جو کم سے کم قربانی دے کر زیادہ سے زیادہ فوائد و نفع سمیٹنا چاہتاہے۔ جب انھیں منزل کے حصول کے لیے محنت اور کامیابی پانے کے لیے جہاد کی طرف بلایا جاتاہے تو وہ مختلف علتوں اور حیلوں کا سہارا لیتے ہیں اور فریب پر مبنی اپنی ان حرکات پر جھوٹی قسمیں کھاتے ہوئے کہتے ہیں: خدا کی قسم! اگر ہم جاسکتے تو تمھارے ساتھ ضرور جاتے… اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اپنے مکروخباثت میں انتہا کو چھوتے ہوئے غلط بیانی کرتے ہوئے پیچھے رہ جانے کے لیے آپ سے اجازت و رخصت طلب کرتے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اخلاق و مروت کی اعلیٰ مثال تھے۔ لوگوں سے نرمی‘  حسن معاملہ‘ ان کی عیب پوشی اور ان سے رحم دلانہ برتائو آپؐ کی فطرت وجبلت میں شامل تھا (اور کیوں نہ ہوتا کہ آپؐ  رحمۃ للعالمین تھے)‘ اس لیے لوگ آپؐ سے معاملات کرتے ہوئے آپؐ کی ان صفات کو ذہن میں رکھتے تھے۔ ان اجازت لینے والوں کو بھی اجازت مل جانے کا یقین و اطمینان ہوتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت بھی دے دی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو پیار بھرے انداز سے توجہ دلائی اور ارشاد ہوا (عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ) آپؐ نے انھیں کیوں رخصت دے دی (آپؐ کو چاہیے تھا کہ آپؐ  انھیں رخصت نہ دیتے) تاکہ آپؐ پر  کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں (اور لوگ بھی ان پر اعتماد و بھروسا کرتے) اور تاکہ آپؐ جھوٹوں کو بھی جان لیتے اور آیندہ کے لیے آپؐ  بھی ان سے باخبر رہتے اور آپؐ  کی اُمت بھی ان سے خبردار رہتی۔ اس طرح حفاظت کا بھی اہتمام ہوتا اور سزا کے مستحق افراد کو سزا بھی مل جاتی۔ اس تنبیہہ خداوندی سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ اہلِ دعوت و تحریک کو اپنی دعوت کی قیمت پر کسی سے رواداری نہیں برتنی چاہیے۔ انھیں سازشیوں اور منافقین کی حقیقت آشکار کردینا چاہیے تاکہ سب ان سے بچ سکیں۔

عصمتِ انبیا ؑ

اس آیت کے حوالے سے مفسرین نے انبیاے علیہم السلام کی عصمت پر طویل بحث و تمحیص کی ہے۔ اس امر پر اُمت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام بندوں تک پہنچانے‘ انھیں اللہ کا دین سکھانے اور رسالت سے متعلق ہر قول و فعل میں انبیاے کرام معصومِ کامل ہیں۔لیکن جہاں بات آئے گی کسی اجتہادی ذاتی راے کی تو پھر ہم دیکھیں گے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ احد میں اپنی راے چھوڑ کر اپنے صحابہؓ کی راے مان لیتے ہیں۔ غزوئہ بدر میں حضرت خبابؓ بن المنذر کی راے کو اپنی راے پر ترجیح دیتے ہیں۔ کھجوروں کی نر و مادہ اقسام میں ملاپ کے بارے میں اپنی راے پر اس میدان کے تجربہ کار ساتھیوں کی راے اپنا لیتے ہیں۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ ایک نابینا ساتھی کے بارے میں سورئہ عبس کی آیات کا نزول ہو رہا ہے‘ قیدیوں سے فدیہ قبول کرلینے کے بارے میں آیات نازل ہو رہی ہیں لیکن ان تمام واقعات کے بارے میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مواقع پر کوئی گناہ یا عصمت کے منافی کوئی فعل سرزد ہوا بلکہ یہ تو وہ اجتہادی معاملات ہیں کہ اگر قرین صواب ہوئے تو دوہرا اجر‘ وگرنہ اکہرا اجر تو بہرصورت محفوظ ہے۔ یہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہی کا ایک مظہر ہے تاکہ شریعت میں اسوئہ حسنہ اور پرستش کا فرق واضح ہوجائے۔

اپنے حبیب سے خطاب کا انداز الٰہی بھی دل و دماغ کو مسحور کر دینے والا ہے۔ اس سے رب ذوالجلال کے نزدیک حبیب کی قدر و منزلت بھی واضح ہوتی ہے کہ جس بات پر توجہ دلانی مقصود ہے اس کا ذکر بعد میں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا ذکر پہلے… عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ ج لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ ، اللہ آپؐ کو معاف فرمائے‘ آپؐ نے انھیں کیوں رخصت دے دی۔

دو قسم کے گروہ

پھرقرآن کریم لوگوں کی دو اقسام واضح کرتا ہے: ایک گروہ تو ہے مجاہدین کا اور دوسرا ہے بیٹھ رہنے والے ناکارہ لوگوںکا۔ مجاہدین تو ہمیشہ میدانِ عمل اور پکار کی تلاش میں رہتے ہیں جیسے ہی تحریک و تحرک کا حکم ملا فوراً میدان میں آن نکلے ‘ کیونکہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے اور اس کی راہ میں حقیقی جہاد کرتے ہیں۔ وہ روزِآخرت پر یقین رکھتے اور اس روز کی کامیابی و جزا کے متمنی و متلاشی ہوتے ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انھوں نے اللہ کی راہ میں جان و مال میں سے جو کچھ بھی خرچ کیا ان کا اللہ انھیں اس سے کہیں بہتر اور کہیں زیادہ عطا کر دے گا۔ وہ اپنے کارِجہاد کے ذریعے خود کو اللہ کے عذاب سے بچانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے خالق کی رضا اور اسی سے جزا کا حصول اور اس کی سزا سے نجات پانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہم تک پہنچاتے ہیں: ’’لوگوں میں سے بہترین زندگی اس کی ہے جو ہمیشہ اللہ کی راہ اپنے گھوڑے کی باگیں تھامے رہتا ہے۔ جب بھی جہاد کی ندا یا خوف کی کوئی صدا اس کے کانوں میں پڑتی ہے تو وہ اُڑتا ہوا پہنچ جاتا ہے۔ راہِ خدا میں موت اور شہادت کا متلاشی۔

رہ گئے سُستی کے مارے گھروں میں بیٹھے لوگ تو وہ کٹ حجتی اور بودے عذر گھڑگھڑ کے رخصت و اجازت لینے کے لیے بحثابحثی میں ہی پڑے رہتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت و دلیل ہوتی ہے کہ اللہ اور روزِ آخرت پر ان کا ایمان ابھی ادھورا ہے۔ ابھی شکوک و شبہات ان کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہیں ‘کیونکہ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ کسی بھی شخص کو جہاد پر اُبھارنے والی ایمان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور اس راہ سے پیچھے رکھنے میں شک سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ شکوک و تردد ہی کا شکار رہتے ہیں۔

ان کے تردد کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کی راہ میں نکلنے کی کوئی تیاری نہیں کی ہوتی‘ کوئی زادِ راہ نہیں حاصل کیا ہوتا۔ وہ مسلسل اسی تردد کا شکار رہتے ہیں کہ راہِ خدا میں نکلنا ہے یا نہیں نکلنا۔ یہاںتک کہ خوف‘ بزدلی اور کمزوری ان پر غالب آجاتی ہے اور وہ بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کے اس بیٹھے رہنے اور پیچھے رہ جانے میں بھی مجاہدین کے لیے خیرکثیر پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے بے ہمتوں کے ساتھ رہنے سے مجاہدین کی قوت کمزوری ہی واقع ہوتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا اپنے مخلص بندوں پر خصوصی انعام ہوا کہ اس نے ایسے عناصر سے جہاد کرنے اور غلبۂ دین کی خاطر نکل کھڑے ہونے کی توفیق سلب کرلی۔

ارشاد ہوتا ہے: اگر وہ تمھارے ساتھ نکلتے تو تمھارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ  نہ کرتے‘ وہ تمھارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے‘ یہ تمھارے ساتھ نکلتے تو بہادر اہلِ ایمان میں سازشیں‘ فتنے اور شکوک و شبہات ہی پھیلاتے۔ بات بے بات خود بھی اُکھڑجاتے‘ دوسروں کو بھی اکھاڑدیتے۔ تکلیف دہ تبصرے اور جملے بازیاں کرتے‘ تقسیم کرنے اور اتحاد و وحدت کو نقصان پہنچانے والی باتیں بناتے‘ حتیٰ کہ سب پر بزدلی طاری ہوجاتی‘ بزدلی میں وہ تنہا نہ رہتے۔ کیونکہ ہرجگہ ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو ان باتوں سے متاثرہوتے ہیں‘ پھر وہ جھوٹی باتوں کو بھی سچ جاننے لگتے ہیں۔ افواہوں پر کان دھرتے ہیں‘ یہ افواہیں اور غلط بیانیاں ان پر نفسیاتی اثر ڈالتی ہیں‘ جس سے ان کے افعال و اعمال بھی یقینی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔

اس طرح کی صورت حال غزوئہ احد میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ رئیس المنافقین عبداللہ   بن ابی نے ان اہلِ ایمان میں فتنہ پھیلا دیا جو دشمن کا سامنا کرنے کے لیے عملاً نکل کھڑے ہوئے تھے۔ وہ ان پر اپنا جادو پھونکنے لگا اور کاناپھوسیاں کرنے لگا: ’’ہم بھلا کیوں خواہ مخواہ نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ محمدؐ نے ہماری بات ماننے کے بجاے بچوں اور کم عمر و ناتجربہ کار لوگوں کی بات مان لی ہے۔ آخر اس مقابلے اور تحرک کا فائدہ ہمیں کیا ہوگا؟ دھیرے دھیرے اس کی ان باتوں کا اثر پھیلنے لگا‘ بنوسَلمہ اورخزرج کے بعض افراد نے تو واپس جانے کا ارادہ کرلیا تھا جس سے پورا مشن ناکام ہوتا‘ لیکن بالآخر اللہ نے انھیں ثبات سے نوازا اور ان کے بارے میں یہ وحی نازل ہوئی: ’’یاد کرو جب تم میں سے دو گروہ ناکام ہونے پر آمادہ ہوگئے تھے حالانکہ اللہ ان کی مدد پر موجود تھا‘‘     (اٰل عمرٰن۳:۱۲۲) ۔اس کے باوجود وہ دشمنِ خدا خود اُلٹے پائوں واپس پھرگیا۔

اس طرح کے لوگ کسی بھی لشکر اور کسی بھی تحریک کے لیے ان کے سخت ترین دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ ہزیمت کے داعی اور دشمن کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ تحریکوں کو ایسے عناصر سے پاک کر دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے بخوبی آگاہ ہے۔ ایسے عناصر بہت خطرناک و نقصان دہ ہوتے ہیں لیکن دعوت کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتے‘ نہ اللہ کی نصرت آنے سے ہی روک سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ اپنے ہی ساتھیوں کو ملنے والی کامیابیوں پر صدمہ محسوس کرتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ وہ کامیاب و کامران ہوں‘ اس لیے کسی بھی فوج اور جماعت کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ایسے عناصر سے نجات حاصل کرلے۔ سیرت صحابہؓ میں مذکور ہے کہ جنگِ یمامہ میں حصولِ نصرت میں کچھ تاخیر ہوئی تو ایک صحابیؓ نے اپنے قائد خالد بن ولیدؓ کو پکار کر کہا: خالد! لوگ ہلاک ہو رہے ہیں‘ انصار اور مہاجرین کو دیگر افراد سے علیحدہ کر کے ان کے ذریعے ہلہ بولو۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے جائزہ لیا تو السابقون الاولون کی صفات رکھنے والے ۳ہزار ساتھی ملے۔ انھوں نے اسی تعداد پر بھروسا کیا اور فتح یاب ہوئے۔ ’’اللہ اپنا کام کرکے رہتاہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘(یوسف۱۲: ۲۱)۔ ( ہفت روزہ الاخوان المسلمون‘ قاہرہ‘ فروری ۱۹۴۸ئ)