مجھے وہ لمحات بھلانے سے نہیں بھولتے کہ جب فلسطینی مائیں ہمارے پائوں پڑتیں کہ خدارا ہمارے بچوں سے پہلے ہمیں ذبح کر دو‘ ہم انھیں ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔ ہم انھیں ٹھکرا دیتے اور پہلے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے ذبح کرتے‘ پھر خود انھیں اور پھر آدمیوں اور بوڑھوں کو۔ (اسرائیلی ایجنٹ کا انٹرویو ‘ اسرائیلی ٹی وی‘ ۱۷ ستمبر ۲۰۰۵ئ)
۲۳ سال پہلے ۱۶ سے ۱۸ ستمبر ۱۹۸۲ء تک صبرا اور شاتیلا کی مہاجر بستیوں میں ۳ ہزار سے زائد فلسطینی مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے بے حمانہ قتلِ عام کا ذمہ دار اُس وقت کا وزیردفاع آرییل شارون تھا۔ وہی وزیر دفاع آج اسرائیل کا وزیراعظم ہے۔
صبرا و شاتیلا قتلِ عام کی تیئسویں برسی کے موقع پر اس سال بھی ۱۸ ستمبر کو فلسطینی کیمپوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اس بار ۱۰۰ فرانسیسی‘ اطالوی‘ جرمن اور امریکی باشندوں نے بھی ان احتجاجی مظاہروں میں علامتی شرکت کرتے ہوئے شارون کو جنگی درندہ قرار دیا۔ لیکن جب یہ مظاہرے ہو رہے تھے عین اسی لمحے ’’امریکی یہودی کانگرس‘‘ کی دعوت پر خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف جنرل شارون کو ایک بار پھر بہادر اور شجاع انسان قرار دیتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس کے ساتھ گفت و شنید مزید آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پرویز مشرف کا یہ خطاب صبرا‘ شاتیلا کیمپ کے قتلِ عام کی برسی کے عین موقع پر ہو؟ اور کیا یہ بھی صرف اتفاق تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور صہیونی ریاست کے درمیان پہلے باضابطہ مذاکرات اسلامی خلافت کے آخری مرکز استنبول میں ۲۶ رجب کو یعنی عین شبِ معراج کے موقع پر ہوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر اپنے روسیاہ وزیرخارجہ کے ذریعے شارون کو پیغام دے کہ آج ہم مقامِ معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم‘ سرزمینِ مسجدِاقصٰی پر تمھارا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرتے ہیں۔
پرویز مشرف کے اس اقدام کی وجہ سے پوری اُمت مسلمہ میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ تیزرفتار ابلاغیاتی دور میں کہ جب اہم ترین خبریں بھی چند روز کے بعد قدیم قرار پاتی ہیں‘ آج بھی اس اقدام کے مالہ وما علیہ پر بحث ہو رہی ہے۔ اسلامی ذہن رکھنے والے ہی نہیں اسلامی تحریکوں اور اسلام پسند عناصر کے خلاف لکھنے والے بھی اسے ایک فاش غلطی اور جرم قرار دے رہے ہیں۔ اگر کسی نے پرویز مشرف کے لیے بہت ہی گنجایش نکالی ہے تو صرف یہ کہ قصور پرویز مشرف کا نہیں خود عرب حکمرانوں کا ہے کہ انھوں نے اس جرم کا ارتکاب کرنے میں سبقت کی۔ لیکن جرم کو کارنامہ نہیں قرار دیا گیا۔
الشرق الاوسط سب سے بڑا عرب روزنامہ سمجھا جاتا ہے جو بیک وقت کئی ممالک سے شائع ہوتا ہے۔ عبدالرحمن الراشد اس کا ایک سینیئر سیکولر صحافی ہے اور اسلام پسندوں کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ۳ستمبر کے شمارے میں ’’پرویز مشرف نے یہ سب کیوں کیا؟‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ’’پرویز مشرف نے فلسطینی عوام کی مدد کرنے‘ بھارت کے ساتھ حساب برابر کرنے یا اپنی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے جیسی جو وجوہات بیان کی ہیں ان سب کے باوجود میری نظر میں پرویز مشرف نے یہ ایک بہت بھیانک غلطی کی ہے۔ اس نے ایک طرف تو ملک کے اندر اپنے مخالفین کے ہاتھ میں ایک مہلک بارود دے دیا ہے اور دوسری طرف اس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا کچا پھل‘ پکنے سے پہلے ہی بیچ ڈالاہے‘‘۔
وہ مزید لکھتا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ مشرف نے بیروت میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس میں سعودی عرب کی طرف سے پیش کی جانے والی تجویز کی روشنی میں عرب ممالک کی طرف سے اپنائے جانے والے عرب منصوبۂ امن کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ پاکستان ایک اہم اور بڑا ملک ہے اور مستقبل کے کسی بھی منصوبہ امن میں اسرائیل پر دبائو کے لیے اہم کارڈ ثابت ہو سکتا تھا۔ مناسب وقت آنے پر مشرف‘ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ایک مضبوط کارڈ کے طور پر استعمال کرسکتا تھا۔ یہ مناسب وقت ایک فلسطینی ریاست وجود میں آنے کے امکانات دکھائی دینے پر آسکتا تھا نا کہ صرف غزہ سے انخلا پر‘‘۔
’’ہر عرب انسان کا حق ہے کہ وہ غصے اور تکلیف سے چلّاتا ہوا پوچھے: عالمِ عرب اور عالمِ اسلامی کی وہ دیواریں ایک ایک کر کے کیوں ڈھے رہی ہیں جو اب تک ممنوعہ علاقوں میں اسرائیلی نفوذ کی راہ میں حائل تھیں۔ کسی بھی عرب شہری بالخصوص فلسطینی شہری کو کیسے باور کروایا جا سکتا ہے کہ یہ سب جو ہوچکا یا جو ہونے جا رہا ہے فلسطین اور اس کے عوام کی خاطر ہے‘ اس سے انھیں اپنے حقوق واپس ملیں گے۔ اپنی مقدس سرزمین واپس ملے گی اور بے وطن کر دیے جانے والے لاکھوں فلسطین اپنے وطن واپس جاسکیں گے۔
’غزہ سے بظاہر اور پُرفریب انخلا کے علاوہ شارون نے ابھی تک کیا کیا ہے؟ اب بھی غزہ کے بری‘ بحری اور ہوائی راستے اس کے قبضے میں ہیں۔ سب دروازے اب بھی بند ہیں‘ سرحدیں اب بھی آگ و خون کے نرغے میں ہیں اور انھیں کسی بھی لمحے دوبارہ روندا جاسکتا ہے۔ غزہ کے عوام آزادی کی خوشیاں منانا چاہتے ہیں لیکن حصار نے ہر خوشی کا دم گھونٹ رکھا ہے۔
’شارون نے یہ تو کیا کہ عاجز آکر اور ہضم نہ کرسکنے کے باعث غزہ سے فوجیں نکال کر ان کی نئی صف بندی کردی تاکہ مغربی کنارے پر اپنے قبضے کو مزید پکا کرلے۔ لیکن کیاشارون نے کسی ایسی خودمختار فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے جو تمام یہودی بستیوں اور بلندوبالا آہنی فصیلوں سے آزاد ہو؟ کیا اس نے بیت المقدس کو اس فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر قبول کرنے کا اعلان کیا ہے؟ کیا اس نے ملک بدر کیے جانے والے فلسطینیوں کو وطن واپس آنے کا حق دے دیا ہے؟ یا اس نے اپنی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو رہا کردیا ہے؟
’اسرائیل سے معمول کے تعلقات قائم کرنے اور اس خاطر سر کے بل دوڑتے چلے جانے کے بارے میں اٹھنے والے سوالات بہت تلخ ہیں۔ یہ ایک دہشت گرد کو بہادر‘ امن پسند قرار دینے اور ہاتھ لمبے کر کر کے اس سے گلے ملنے کا دور ہے۔ یہ مظلوم کو دہشت گرد قرار دینے‘ اس کا پیچھا کرنے‘ اس کا محاصرہ کرنے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا دور ہے‘‘۔
یہ کسی بنیاد پرست اسلام پسند یا رجعت پسند مُلّا کی تحریر نہیں‘ اہم خلیجی ریاست کے اہم روزنامے کا اداریہ ہے اور اس طرح کی ایک دو نہیں سیکڑوں تحریریں پوری دنیا میں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ہیں۔ ۱۶ستمبر کے اماراتی اخبار البیان میں مستقل کالم نگار عبدالوہاب بدر ’’شرمناک جرائم‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’اس سے زیادہ بے حیائی اور ڈھٹائی کی بات اور کوئی نہیں ہوگی کہ شارون تو نیویارک میں عالمی کانفرنس میں جانے سے پہلے بھی یہ بیان دے کہ مغربی کنارے میں مزید یہودی بستیاں تعمیر کی جائیں گی‘ لیکن اس کے باوجود اسے غزہ سے انخلا کے اپنے ’’جرأت مندانہ‘‘ اقدام پر مبارک بادیں وصول ہو رہی ہوں۔ وہ یقینا جی ہی جی میں ہنستا ہوگا کہ اس دنیا کا باوا آدم ہی نرالا ہوچکا ہے‘ وہ اسرائیلی دھوکوں کو بھی سچ مان رہی ہے‘‘۔
کچھ عرصے پہلے تک مصر کے وزیرخارجہ رہنے والے احمد ماہر خود مشرق وسطیٰ امن منصوبے میں شریک رہے ہیں۔ ۱۶ ستمبر کے الشرق الاوسط میں لکھتے ہیں: ’’کوئی بھی چیز ہمیں شارون کے اس عظیم دھوکے اور فراڈ کی حقیقت سے غافل نہ کرپائے۔ شارون اس فریب کی قیمت وصول کرنا چاہتا ہے۔ وہ مزید امریکی مالی اور سیاسی امداد کے علاوہ کئی عرب اور غیر عرب ممالک کو ورغلانا چاہتا ہے۔ وہ ان سے اپنے لیے اچھے کردار کا ایسا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کا وہ قطعاً حق دار نہیں‘ کیونکہ اس کے حقیقی ارادے جاننے کے لیے کسی کو اس کا سینہ چیر کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
یہ تو ان لاتعداد مضامین‘ اداریوں اور تجزیوں کی ایک جھلک ہے کہ جن کے لکھنے والے کوئی اسلامی شناخت نہیں رکھتے۔ رہے اسلامی عناصر تو دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں‘ سیاسی جماعتوں اور آزاد صحافیوں نے اُمت کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اس ترجمانی میں افسوس بھی تھا‘ صدمہ بھی تھا اور پاکستان و فلسطین کے مستقبل کے حوالے سے گہری تشویش بھی۔ پارٹیوں‘ ان کے سربراہوں اور مسلم دانش وروں کے بیانات کی فہرست بہت طویل ہے‘ یہاں صرف ایک معروف مصری صحافی فہمی ہویدی کے ایک مقالے سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ فہمی ہویدی گذشتہ سال پرویز مشرف کی طرف سے بلائی جانے والی اس کانفرنس میں بھی شرکت کرچکے ہیں جو انھوں نے اپنی روشن خیالی کے پرچار کے لیے دنیا بھر سے معتدل و مؤثر دانش وروں اور اہلِ قلم کو اسلام آباد میں جمع کر کے منعقد کی تھی۔
فہمی ہویدی لکھتے ہیں: ’’گذشتہ ہفتے دنیا میں تین آفات ٹوٹیں۔ امریکی ریاست لویزیانا میں تباہ کن طوفان کترینا‘ امام کاظم کی برسی کے موقع پر بغداد کے ائمہ پل پر لوگوں میں بھگدڑ مچ جانے کے باعث دریائے دجلہ میں ہزار سے زائد انسانی جانوں کا اتلاف اور پاکستان و اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان۔ تینوں آفات میں مشترک عنصر یہ تھا کہ تینوں کے نتیجے میں پہنچنے والا صدمہ بہت بھاری تھا اور تینوں ایسی جگہوں سے آئیں کہ جہاں سے کسی کو ان کی توقع نہیں تھی۔ فرق ان تینوں میں یہ ہے کہ پہلی دونوں تو ایک انسانی المیہ تھیں‘ جب کہ تیسری آفت انسانی المیہ ہونے کے ساتھ ساتھ گہرا سیاسی اثر بھی رکھتی ہے۔
’پاکستان کے اندرونی حالات اور اس کی گہری اسلامی شناخت کے تناظر میں میرا خیال ہے کہ اسلام آباد نے بہت مہیب غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کے باعث موجودہ حکومت کو ہلا دینے والے واقعات جنم لیں گے‘ جب کہ حکومت کو درپیش مشکلات سے سب لوگ پہلے ہی آگاہ ہیں۔ ان مشکلات کا ایک مظہر خود صدر مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملے بھی ہیں۔
’اگر ہم پاکستان کے اندرونی حالات سے صرفِ نظر بھی کرلیں تب بھی اس فیصلے پر ایک آفت ہونے کا ہی اطلاق ہوگا کیونکہ پاکستان اسرائیل سفارتی تعلقات شروع کرنے کا سیدھا سادھا مطلب یہی ہے کہ عالمِ اسلام میں ایک سیاسی حرام کو حلال قرار دے دیا گیا ہے… ترکی کی تو اٹھان ہی سیکولر‘ مغرب کی گود میں کھیلنے والے‘ اسلام اور عربیت سے نفرت کرنے والے کی حیثیت سے ہوئی تھی‘ جب کہ پاکستان نے اپنی یہ حیثیت و جواز اسلامی شناخت کے باعث حاصل کیا تھا اور گذشتہ پوری تاریخ میں مسئلہ فلسطین پاکستانی عوام کے وجدان میں رچا بسا رہا ہے۔ رہا سوال بعض دیگر ممالک کے خفیہ رابطوں کا‘ تو یقینا یہ بھی ایک مکروہ و ناپسندیدہ فعل ہے جو بہرحال علی الاعلان منکر کے ارتکاب سے کم برا قرار پائے گا…بلاشک پاکستانی فیصلہ اس سلسلے میں ’’رہبر‘‘ قرار پائے گا جو کئی مسلم ممالک کو اپنی پیروی کرنے پر اُبھارے گا۔
’اس پاکستانی فیصلے سے دو امور واضح ہو کر سامنے آئے ہیں: ایک تو یہ کہ اسرائیل بعض لوگوں کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ غزہ سے انخلا کے ذریعے اس نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا دروازہ کھول دیا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ فیصلہ پاکستانی حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں پر امریکی تسلط کی واضح اور کھلی دلیل ہے ---خود اسرائیل کے لکھنے والوں نے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’’تاریخی اقدام‘‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے بصراحت یہ لکھا ہے کہ پاکستان نے یہ اقدام واشنگٹن میں سندِقبولیت حاصل کرنے کے لیے اٹھایا ہے۔ ایک اسرائیلی کالم نگار نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی حیثیت ٹکٹ گھر کی ہے۔ امریکی حکومت کا دل جیتنے کی کوشش کرنے والے ہرشخص کو اسی کھڑکی سے گزرنا پڑتا ہے اور ہمیں اپنی اس حیثیت پر خوشی ہے۔ اسرائیل کے لیے یہ کافی ہے کہ ٹکٹ کی قیمت ہمیشہ اس کی جیب میں جاتی ہے‘‘۔
یہ ایک جھلک ہے ان مضامین و تجزیوں کی جو تمام مسلمان ممالک کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئے۔ ان کے علاوہ عوامی ردعمل کی ایک وسیع لہر بھی دن بدن وسیع تر ہو رہی ہے۔ مسجدوں اور مجلسوں میں گلیوں اور بازاروں میں‘ چائے خانوں اور ایوانوں میں ہر جگہ پاکستان اسرائیل تعلقات زیربحث ہیں۔ پاکستان کے بعد انڈونیشیا‘ قطر اور بحرین کے حوالے سے بھی خبریں شائع ہوچکی ہیں کہ کسی نے صہیونی ریاست سے تجارت پر پابندی اٹھا لی ہے تو کوئی صہیونی ذمہ داران سے ملاقات کرچکا ہے۔ ان کے بارے میں بھی عوامی حیرت و نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کا جرم پاکستان کے نامۂ اعمال میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے کئی علاقوں میں پاکستان کے اس اقدام کے خلاف مظاہرے ہوچکے ہیں۔ خود فلسطینی اتھارٹی کے ذمہ داران باصرار کہہ چکے اور کہہ رہے ہیں کہ فیصلہ سراسر پرویز حکومت کا فیصلہ ہے۔ محمود عباس انتظامیہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے ایک ذمہ دار نے راقم کو بتایا کہ پاکستان سے اسرائیل بھیجے جانے والے وفد کے بارے میں بھی ہم نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ اپنا وفد غزہ تو بھیج دیں لیکن اسے القدس نہ بھیجیں کیونکہ اسرائیلی تسلط میں وہاں کا دورہ اس اعلان کے مترادف ہوگا کہ ہم اس پر یہودی قبضہ تسلیم کرتے ہیں اور صہیونی انتظامیہ کے مہمان کی حیثیت سے وہاں جانے پر بھی معترض نہیں ہیں۔ پاکستان کے اس بیان پر کہ ہم امن مذاکرات میں فلسطینی عوام کا ساتھ دینا چاہتے ہیں‘ محمود عباس انتظامیہ کے اس ذمہ دار نے استہزائیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام مذاکرات کے علاوہ جہاد بھی کرر ہے ہیں۔ پاکستان اس میں ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیتا۔
اس تمام احتجاج‘ اظہار کرب اور غم و غصے کی عالمی لہر کے باوجود امریکی یہودی کانگرس سے اپنے ’’تاریخی‘‘ خطاب میں پرویز مشرف نے اسی راہ پر مزید آگے بڑھنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ یہودی کانگرس صہیونی اور اسرائیلی مفادات کی سب سے بڑی محافظ تنظیم ہے۔ امریکی صدور بھی ہربرس وہاں جاکر اپنی اسرائیل نوازی کی ضمانت دیتے ہیں۔ پرویز مشرف کو وہاں بلانے کا مقصد بھی یہی تھا جو انھوں نے پورا بھی کیا‘ دوسرا مقصد یہ تھا کہ عالمِ اسلام‘ بالخصوص مسلم عوام میں یہودیوں کے متعلق پائی جانے والی نفسیاتی دیوار توڑی جائے۔ کسی بھی سطح پر یہودی ذمہ داران سے ملنے میں کسی کو تردد نہ رہے اور تعلقات معمول میں لانے کا عمل مزید تیزی سے مکمل ہو۔
پرویز مشرف کے خطاب میں سب سے قابلِ اعتراض اور باعث استعجاب بات ان کا یہ کہنا تھا کہ ’’اسرائیل سے ہمارا براہِ راست کوئی تنازعہ نہیں ہے اور ہمیں اسرائیل سے کوئی خطرہ نہیں ہے‘‘۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ قبلہ اوّل اور مسجد اقصیٰ پر صہیونی قبضہ دنیا کے ہرمسلمان کا اسرائیل سے براہِ راست تنازعہ ہے۔ اور کیا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صہیونی انتظامیہ کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھبا ہوا ہے۔ ذرابتایئے آخر ایران کا صہیونی انتظامیہ سے کیا براہِ راست تنازعہ ہے کہ ان کی نظر میں ایران کا ایٹمی پروگرام اس وقت علاقائی اور عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ سوال دنیا بھر میں پرویز مشرف سے پوچھا جا رہا ہے۔ ثریا الشہری ایک معروف عرب کالم نگار ہے۔ ۵ستمبر کے الشرق الاوسط میں ان کا کالم شائع ہوا ہے: ’’اسلام آباد اور تل ابیب: کیا اسرائیلی عوام نے بھی فریق ثانی کو قبول کر لیا ہے‘‘۔ اس کالم میں انھوں نے اسرائیلی معاشرے میں مسلمانوں اور عربوں کے متعلق پائی جانے والی گہری نفرت اور شدید تعصب کے بارے میں اعداد و شمار اور متعصب صہیونی مدارس کا حوالہ دیتے ہوئے پرویز مشرف سے پوچھا ہے کہ آپ تو آگے بڑھ بڑھ کر ان سے مل رہے ہیں۔ کیا آپ نے اسرائیلی معاشرے میں اپنے اور مسلمانوں بلکہ ہر غیر یہودی کے لیے پائی جائے اور مسلسل پھیلائی جانے والی نفرت کا بھی جائزہ لیا ہے۔
گذشتہ دنوں فلسطین کی تحریک حماس کے ایک مرکزی ذمہ دار سے ملاقات ہوئی۔ وہ شدید صدمے کی حالت میں تھے۔ کہنے لگے پاکستان ہماری مدد نہیں کر سکتا تھا تو ایک کڑے وقت میں پیٹھ میں چھرا تو نہ گھونپتا۔ پھر کہنے لگے: پہلے صہیونی وزیراعظم بن گوریون نے اسرائیل کا دفاعی نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل صرف اسی وقت محفوظ و مامون ہوسکتا ہے جب ہم ترکی‘ حبشہ (اریٹیریا/ایتھوپیا) اور ایران پر مشتمل ایک دفاعی تکون تشکیل دے لیں‘ یعنی ان تینوں ممالک میں اپنے اثرو نفوذ اور تسلط کو یقینی بنا لیں۔ اس دفاعی نظریے کا جائزہ لیں تو اریٹیریا اس وقت بحراحمر میں اسرائیل کا سب سے قابلِ اعتماد حلیف اور جاسوسی و عسکری اڈہ ہے۔ ترکی کی فوج‘ وہاں کے ذرائع ابلاغ اور تجارت میں اسرائیلی اثرونفوذ کسی سے مخفی نہیں‘ ترکی میں اصل حکمرانی اسی مثلث کی ہے۔ البتہ ایران سے شاہ کے خاتمے کے بعد سے لے کر اب تک یہ خواب خاک میں ملا ہوا ہے۔ ایران کی کمی بھارت سے اپنے تعلقات کے ذریعے پوری کرنے کی سعی کی گئی ہے لیکن ایک تو بھارتی حکومت فیصلوں کا حق ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنے پر مصر ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ بھارت صہیونی گٹھ جوڑ عالمِ اسلام میں مثبت فوائد کے بجاے ردعمل اور تشویش و نفرت کا باعث بنتا ہے۔ بن گوریون کے الفاظ میں بھی: ’’چونکہ ہندستان میں بسنے والوں کی اکثریت ہندوئوں کی ہے جن کے دلوں میں صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور نفرت بھری پڑی ہے‘ اس لیے ہندستان ہمارے لیے اہم ترین اڈا ہے جہاں سے ہم پاکستان کے خلاف ہر قسم کی کاروائیاں کرسکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس نہایت کارآمد اڈے سے پورا فائدہ اٹھائیں اور انتہائی چالاک اور خفیہ کارروائیوں سے پاکستانیوں پر زبردست وار کر کے انھیں کچل کر رکھ دیں‘‘۔
حماس کے ذمہ دار کا خیال تھا کہ اب اسرائیل بن گوریون کے دفاعی نظریے میں ترمیم کرکے یہ دفاعی تکون حبشہ‘ ترکی اور پاکستان پر مشتمل کرنا چاہتا ہے جس کے لیے ایک طرف تو بھارت کے ذریعے دھمکیوں اور خفیہ کارروائیوں کی زد میں رکھتے ہوئے پاکستان کو مکمل طور پر اپاہج کرنا ضروری ہے اور دوسری طرف اسے براہِ راست صہیونی گرفت میں لینا اور گرفت میں لینے کے لیے مالی لالچ دینا‘ تعریفوں کے پُل باندھنا اور وسیع تر تعلقات قائم کرنا ضروری ہے۔ کیا پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بننے والے اس خطرے اور اس کی سنگینی سے آگاہ ہیں؟ کیا کوئی اس خطرے کے سدباب کا ارادہ و ہمت رکھتا ہے؟ اگر خدانخواستہ نہیں‘ تو وہ جان لیں کہ پاکستان کے عوام یہ ارادہ بھی رکھتے ہیں‘ اور اللہ کی توفیق سے اس کی ہمت بھی۔