ترجمہ: نعیم صدیقی ؒ
شاہ اسماعیل شہیدؒ کی کتاب منصبِ امامت میں خلافت راشدہ (یا امامت تامہ)‘ سلطنت عادلہ‘ سلطنت کاملہ‘ سلطنت جابرہ‘ سلطنتِ ضالہ اور سلطنتِ کفر کے عنوانات کے تحت مختلف طرز کی حکومتوں کے نظام کی وضاحت کی گئی ہے۔ ہم موجودہ آمریت کے دور میں‘ سلطنتِ جابرہ کا بیان پیش کر رہے ہیں۔ ترجمہ محترم نعیم صدیقی کا کیاہوا ہے اور یہ ۶۰ سال قبل جولائی‘ اگست ۱۹۴۵ء اور ستمبر‘ اکتوبر ۱۹۴۵ء کے ترجمان القرآن میں شائع ہوا۔ (ادارہ)
سلطان جابر‘ اس آمر کو کہیں گے جس پر نفس امارہ کا اتنا زیادہ غلبہ ہوچکا ہو کہ نہ خوفِ خدا اسے مانع ہو‘ نہ شرمِ مخلوق! نہ شرع کی پروا ہو‘ نہ عرف کا لحاظ! بس نفس کی طرف سے کوئی فرمان صادر ہوا تو جھٹ سے اس کی تعمیل ہوگئی‘ چاہے شریعت موافق ہو‘ چاہے مخالف۔ اس کے نزدیک تو اپنی خواہشات کا پورا کر لینا ہی سلطنت کا منتہاے مقصود ہے۔ ایسے لوگوں کا ’’نظامِ حکومت‘‘ سلطنتِ جابرہ کہلاتا ہے۔
یہ ملحوظ رہے کہ سلاطین جابرہ‘ شرع کی مخالفت میں‘ مزاج کی افتاد کے مطابق مختلف مدارج پر فائز ہوتے ہیں۔ کوئی سرشار کبرونخوت ہوتا ہے تو کسی دوسرے کو ناز و تبخترکے مظاہرے کا خاص ذوق ہوتا ہے‘ کسی کو جور و تعدّی سے اور کسی کو فسق وفجور سے خاص مناسب ہوتی ہے‘ کوئی صنفی لذات میں سرمست ہے تو کوئی شراب گلگوں کا رسیا ہے۔ ایک چٹ پٹے کھانوں کا شیدا ہے اور دوسرا نفیس پوشاکوں پر فریفتہ۔ کہیں کھیل تماشے سے زیادہ دل چسپی ہے اور کہیں نغمہ و سرود سے خاص وابستگی ہے۔ بہرحال ہوا و ہوس کے راستے بے شمار ہیںاور نفس پرستی کی شکلیں لاتعداد‘ اور اگر ان کی تفصیل شروع کر دی جائے تو اسے پورا کرنے کے لیے کئی صفحے چاہییں۔ یہاں اس شجرِخبیث کی چند بڑی بڑی شاخوں کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے‘ جن سے آگے بے شمار فروع نکلتی ہیں۔
۱- سفاھت: مخالفتِ شرع کی ایک وجہ سلطان جابر کی سفاہت ہے۔ ظاہر ہے کہ نعمتِ عقل وخرد سے جو شخص محروم اور دُوراندیشی کے فن سے کورا ہو‘ وہ کسی اصول و مسلک کی پیروی میں استقامت کیا دکھائے گا اور اس سے متانت کی توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے؟ اس کے نزدیک وفا و استقلال کی صفت کو کوئی قیمت حاصل نہ ہوگی‘ نہ ننگ و عار کا اسے ذرہ بھر پاس ہوگا۔ اپنی سفاہت کی وجہ سے وہ ہر خواہش کو‘ جس کا گزر آدمی کے دل میں ہوسکتا ہے‘ فوراً پوری کرنے کی فکر کرے گا۔ یہ ہرگز نہ دیکھے گا کہ اس سے کیا نفع و نقصان ہوسکتا ہے اور اس کا آخری نتیجہ کیا ہونے والا ہے۔ وہ جو کچھ کرے گا‘ بالکل بچوں کی طرح دیوانہ وار کرے گا اور جہاں جہاں منہ مارے گا ٹھیک شتربے مہار کی طرح مارے گا۔
اس طرز کا آدمی جب منصبِ سلطنت پر براجمان ہوتا ہے تو سیاست کا سارا کاروبار چوپٹ ہوجاتا ہے‘ کیوں کر اس کے کرتوت نہ قوانینِ شریعت کے پابند ہوتے ہیں‘ نہ آئین عرفی کے مطابق۔ ایسے شخص کی سلطنت میں کون ہے جو نالاں نہ ہوگا؟ چھوٹے بڑے اور خواص و عوام سبھی دکھ پا پا کر فریاد کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بلاے عظیم ہے جس کی گرفت سے نادان و دانا اور غافل و ہوشیار سبھی چھوٹ بھاگنا چاہتے ہیں۔ ذیل کی حدیث میں اسی بلاے عظیم کی طرف اشارہ ہے:
اُعِیْذُکَ بِاللّٰہِ مِنْ اِمَارَۃِ السُّفَھَائِ وَقَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ رَأسِ السَّبْعِیْنَ وَاِمَارَۃِ الصِّبْیَانِ -
میں تمھارے لیے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں بے وقوفوں کی امارت سے۔ مزید فرمایا کہ اللہ کی پناہ مانگو ۷۰(برس کی عمر) سے اور لونڈوں کی حکومت سے۔
ھَلَکَ اُمَّتِیْ عَلٰی اَیْدِی غِلْمَۃٍ مِنْ قُرْیْشٍ -
میری یہ اُمت قریش کے چند چھوکروں کے ہاتھوں تباہ ہوگی۔
۲- عیش پرستی: آپ جانتے ہیں کہ بعض لوگ کسی جبلی سبب کے تحت‘ اپنی قوتِ شہوانیہ سے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ساری قوتیں لذتوں اور راحتوں کے جنوں میں صرف ہوتی ہیں اور ان کی عقل‘ عیاشی کی بھول بھلیوں میں گم رہتی ہے۔ دن رات چٹ پٹی غذائوں اور دلفریب لباسوں اور سرور بخش شرابوں کے موضوع پر کاوشیں ہوں گی‘ شطرنج بازی اور نے نوازی کا مشغلہ ہوگا۔ رقص و سرود کے چرچے ہوں گے‘ عورتوں اور لونڈوں میں انہماک ہوگا‘ محلات تعمیر کرنے اور دل کش باغات لگانے میں خاص توجہ رہے گی وغیرہ۔ فکروتدبیر کے گھوڑے ان میدانوں میںخوب دوڑائے جائیں گے اور دل کھول کر دادِ فسق دی جائے گی۔
اس قماش کے لوگ جب منصبِ سلطنت پر قابض ہوجاتے ہیں تو بذلہ سنج لوگ ان کے درباروں میں جمع ہونے لگتے ہیں اور خوب اچھی طرح بھانپ لیتے ہیں کہ یہاں رغبت صرف لذتوں اور راحتوں کی طرف ہے۔ پس وہ سب کھیل تماشے اور راگ رنگ کے نئے نئے ڈھنگ ایجاد کرنے میں لگ جاتے ہیں اور ایک ایک مشغلے کو بڑا لمبا چوڑا فن لطیف بناکر چھوڑتے ہیں۔ پھر مدتوں محنت کر کر کے اسے کمال کو پہنچاتے ہیں۔ عیش پسند سلاطین بھی ایسے ہی فنون کے ماہرین کو اپنا مقرب اور خیرخواہ شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ جو کوئی مانا ہوا عیاش ہو‘ یا بے حیا بھانڈ ہو‘ یا چال باز دیّوث ہو‘ یا طبلہ سارنگی کا استاد ہو‘ وہی دربارِ سلطانی میں مسندآرا ہوگا۔
لیکن فسق و فجور کی یہ گرم بازاری دولت کو پھونکے بغیر کمال کو نہیں پہنچ سکتی۔ اسے جاری رکھنے کے لیے خزانے بھرپور ہونے چاہییں۔ چنانچہ سلاطین جبابرہ مجبور ہوتے ہیں کہ مال جمع کرنے کے لیے رعایا پر قسم قسم کے جوروستم روا رکھیں اور بے دھڑک دست درازی کا مظاہرہ کریں۔ اس سے لازماً ملک میں تباہی پھیلتی ہے۔ مفلس اور کمزور لوگ بے خانماں ہوجاتے ہیں اور تاجر و زمین دار بدحال۔ اتنا ہی نہیں‘ یہ طوفان فسق وفجور بعض صورتوں میں آبرومندوں کی بے آب روائی اور پردہ داروں کی پردہ دری پر منتہی ہوتا ہے‘ اور یہ حالت بھی سلطنت کی تباہی کا سامان بنتی ہے۔ پھر یہ کہ سلطان جب کھیل تماشوں اور نغموں‘ شرابوں میں مستغرق ہوگیا‘ تو نظام حفاظت و عدالت کا بگڑجانا لازمی ہے جس کا نتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ رعایا میں باہم جور وستم کا بازار گرم رہے۔ الغرض سلاطین کا فسق و فجور‘ رعایا کی بدحالی اور ملک کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے:
اِنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ بَدَئَ نَبُوَّۃً وَرَحْـمَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ خِـلَافَۃً وَرَحْـمَۃً ثُـــمَّ مُلْکًا عَضُوْضًا ثُمَّ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً وَعُتُوًّا وَفَسَادًا فِی الْاَرْضِ یَسْتَحِلُّوْنَ الْحَرِیْرَ وَالْفُرُوْجَ وَالْخُمُوْرَ ‘ یَـرْزُقُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ وَیَنْصُرُوْنَ حَتّٰی یُلٰـقُوا اللّٰہَ -
یہ نظام ‘نبوت و رحمت سے شروع ہوا‘ پھر خلافت و رحمت بنے گا‘ پھر سلطنت مستبد کی شکل اختیار کرے گا‘ پھر جبر‘سرکشی اور فساد فی الارض کی مملکت بن جائے گا (اس وقت کے امرا وسلاطین) ریشم‘ عورت اور شراب کو بالکل حلال کرلیں گے اور اسی قسم کی کارروائیوں پر لوگوں کو عطیے دیں گے اور ان کی مدد کریں گے‘ یہاں تک کہ اللہ کو جاملیں گے۔
اس حدیث میں سلطنت جبر کی مکمل تعریف آگئی ہے جس سے اس کی ماہیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
فسق و ظلم کی یہ بادشاہت پوری اُمت کے لیے ایک خوفناک مصیبت ہوتی ہے‘ خصوصاً اس وجہ سے کہ اہلِ دین و دانش سلاطین وقت سے دُور بھاگتے ہیں اور ان کی مجالس سے کنارہ کشی کرتے ہیں اور ان کا تقرب نہیں چاہتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی معاش میں خلل آجاتاہے اور اطمینانِ قلب سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس حال میں وہ اصلاح معاد کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہوسکتے‘ اور نہ ان کی پوری مساعی جستجوے راہِ حق پر صرف ہوسکتی ہیں۔
لیکن اگر وہ سلاطینِ وقت کے تقرب کو پسند کریں اور وہی ڈھنگ سیکھ لیں جو اُن کے تقرب کا لازمہ ہیں تو اس صورت میں انھیں سب سے پہلے دین و ایمان سے دست بردار ہونا پڑے گا‘ پھر عزت و آبرو کو چھوڑنا ہوگا‘ پھر فحش گوئی کو اپنا خاص کمال اور نغمہ سرائی کو اپنا خاص ہنر قرار دینا ہوگا۔ پس ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ سلاطین (جبابرہ) کی ملازمت اختیار کرکے‘ اپنے دین و ایمان کی جڑ پر کلہاڑا نہ چلائیں۔ انھیں یہ خیال ہرگز دل میں نہ لانا چاہیے کہ اپنا دین بھی بچالیں گے اور زندگی کے معاشی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے درباروں سے کچھ کما بھی لائیں گے۔ ایسا خیال کرنا خوش فکری اور غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ؎
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
۳- حُبِّ مال: عموماً ایسے اشخاص دنیا میں پائے جاتے ہیں جنھیں پیدایشی طور پر مال کی غیرمعمولی حرص ہوتی ہے۔ مگر حرص بھی اس عجیب قسم کی کہ فقط گوناگوں اموال کے جمع ہوجانے ہی پر اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور حصولِ لذت کے لیے کچھ خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہاں تو نفسِ اجتماع دولت ہی سب سے بڑی لذت اور اس کی کثرت ہی سب سے بڑی راحت ہے۔ ایسے لوگ جب اپنے خزانوں اور دفینوں کی ایک جھلک دیکھتے ہیں تو باغ باغ ہوجاتے ہیں اور انھیں ترقی کی خواہش دلوں میں اور بھڑک اُٹھتی ہے‘ چنانچہ خزانے سمیٹنے کے لیے سو طرح کے دکھ سہتے ہیں اور ہزار طرح کی مشقتیں برداشت کرتے ہیں۔ حد یہ کہ بھوکے ننگے رہ کے عمرگزار دیںگے مگر کیا مجال کہ اپنے خزانے میں سے ایک دمڑی بھی صرف کرسکیں۔
اب خود ہی غور کیجیے کہ ایسے لوگ اگر نظامِ سلطنت پر قابض ہوجائیں تو ان سے بجز اس کے اور کیا توقع ہو سکتی ہے کہ اپنی حرص کی آگ خوب بھڑکائیں۔ چنانچہ اہلِ زراعت و تجارت سے لے کر اغنیا و فقرا تک سے حق حکمرانی (ٹیکس وصول کرتے ہیں وہ بھی اس اہتمام کے ساتھ کہ مچھر کی ٹانگ سے لے کر چیونٹی کے انڈے تک کوئی چیز حساب سے باہر نہ رہے اور ایک رائی کادانہ بھی کسی کو معاف نہ کیا جائے۔ بلکہ ان ظالموں کی تو دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ رعایا کے کسی فرد سے کوئی جرم سرزد ہو‘ یا کوئی قصور کسی پر ثابت ہوجائے تو اس کی پکڑدھکڑ اور سزا و تعزیر کے دوران میں‘ اس کے مال و اسباب کو بہ لطائف الحیل اڑا لیاجائے۔ ایسے لوگ خود بھی رات دن یہی سوچتے رہتے ہیں کہ رعایا سے کس طرح مال ہتھیایا جائے اور ان کے درباری بھی اسی موضوع پر عقل لڑاتے رہتے ہیں۔ اب جس نے پرایا مال مارنے کے لیے کوئی کارگر تدبیر گھڑلی اور جس نے رعایا کو جُل دینے کا کوئی کامیاب گُرڈھونڈ نکالا وہی ان کا خاص امیرہے۔ وہی خیرخواہ وزیر ہے اور وہی مخلص مشیر! اس طرح سلطان جابر اور اس کے درباریوں کی مسلسل کاوشوں سے حیلہ سازی‘ اور فریب بازی کے فنونِ لطیفہ اپنے کمال کو پہنچتے ہیں اور ان کے اصول و فروع مدوّن ہوجاتے ہیں۔
رہا بخل‘ سو اس کے تقاضے کے ماتحت ظالم سلاطین اپنے ملازمین سے یہ تو چاہتے ہیں کہ وہ وفاداری سے خدمت کریں اور اس خدمت کو اپنا فخر سمجھیں‘ مگر یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ خزانے سے کوئی ایک تنکا بھی نکالا جائے یا دفینے میںسے ایک کوڑی بھی کم ہوجائے۔ چنانچہ ان سے خدمت لینے کے لیے کتنی ہی چال بازیوں سے کام لیتے ہیں اور ریاست و سیاست کی کامیابی کے لیے خلق اللہ کو بالکل مصنوعی خُلق سے رام کرتے ہیں‘ نیز جب مناسب سمجھتے ہیں اپنے خدام کو محض تعظیم و تکریم کے نشے میں مست رکھتے ہیں۔ ان باتوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدمت تو لیتے ہیں مگر معاوضہ کچھ نہ دینا پڑے‘ یا اگر دینا ہی پڑے تو ایسے ڈھنگ سے دیا جائے کہ ملازمین کو پورا پورا حق نہ ملنے پائے‘ بلکہ ان کے حق میں سے جتنا ممکن ہو خزانے میں روک لیا جائے۔ مثلاً سونے چاندی میں سے کھرا مال بچا کے رکھیں گے اور کھوٹی دھات سے معاوضے ادا کریں گے یا یہ کہ زمانۂ خدمت کا کچھ حصہ حساب سے خارج کر دیں گے‘ یا پھر یوں ہوگا کہ ایک عرصے تک مفت خدمت لینے کے لیے‘ ان کا نام دفتر کے رجسٹروں میں درج کریں گے‘ وغیرہ!
اس قسم کی بخیل و حریص بادشاہت آخر مملکت کو تہ و بالا کر کے چھوڑے گی اور حکومت کی جڑوں کو کھوکھلا کردے گی۔ لیکن پھر بھی رعیت کے لیے یہی مناسب ہوگا کہ سلطانِ بخیل کے افکار و کردار پر صبر کرے اور اس سے متصادم نہ ہو۔ ورنہ اس کا اندیشہ ہے۱؎ کہ وہ اب تک جو کچھ چرب زبانی اور فریب کاری کے پس پردہ کر رہا ہے اسے دھڑلے سے سرانجام دینے لگے گا اور خوب کھل کر ستم ڈھانا شروع کر دے گا۔ وجہ یہ کہ طمع اس کے خمیر میں شامل ہے اور اگر کسی وقت اس پر مال حاصل کرنے کے دروازے بند ہوجائیں گے تو وہ اپنی جبلت کے تقاضے سے مجبور ہوکر آمادہ ظلم ہوجائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذرؓ سے فرمایا کہ:
کَیْفَ اَنْتُمْ وَاَئِمَّۃٌ مِنْم بَعْدِیْ سَیَأْثِرُوْنَ لِھٰذَا الْفَیْیِٔ؟ قَالَ اَبُوْذَرٍّ اَمَّا وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ اَضَعُ سَیْفِیْ عَلٰی عَاتِقِیْ ثُمَّ اَضْرِبُ بِہٖ حَتّٰی اَلْقٰکَ قَالَ اَوَلَا اَدُلُّکَ عَلٰی خَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکَ تَصْبِرْ حَتَّی تَلْقَانِیْ -
میرے بعد کے ان امرا [حُکَّام] کے زمانے میں تمھارا رویہ کیا ہوگا‘ جو اس اموالِ فے کو خرچ کرنے میں اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دیں گے؟ حضرت ابوذر نے جواب دیا کہ اس ذات کی قسم‘ جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا‘ اس وقت میں اپنی تلوار اپنی گردن پر رکھ دوں گا اور اس کو تن سے جدا کرلوں گا تاکہ آپ سے جا ملوں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: کیا میں تم کو اس سے بہتر راہ نہ بتادوں؟ اس وقت تم صبر سے کام لینا یہاں تک کہ مجھ سے آملنا۔
اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ ۲؎ بَعْدِیْ اَثْرَۃً وَاُمُوْرًا تُنْکِرُوْنَھَا وَرُوِیَ اَنَّ الصَّحَابَۃَ قَالُوْا یَانَبِیَّ اللّٰہِ اَرَأَیْتَ اِنْ قَامَتْ عَلَیْنَا اُمَرَائٌ یَسْئَلُوْنَنَا حَقَّھُمْ وَیَمْنَعُوْنَنَا حَقَّنَا فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا ، فَاِنَّ عَلَیْھِمْ مَا حُمِّلُوْا وَعَلَیْکُمْ مَا حُمِّلْتُمْ -
تم میرے بعد (غیروں پر اپنے حقوق کو) ترجیح (دینے والے امرا) پائو گے اور ایسی صورتِ حال سے دوچار ہو گے جس کو تم ناپسند کرو گے۔ اور روایت ہے کہ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ اگر ہم پر ایسے امرا مسلط ہوگئے جو ہم سے تو اپنا حق لے لیں___ لیکن ہمارے حقوق ادا نہ کریں تو اس وقت ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ان کی سننا اور ان کی اطاعت کرنا‘ کیوں کہ ان کی کمائی کا بار ان کے اُوپر ہے اور تمھاری کمائی کا بار تمھارے اُوپر۔
بعض اشخاص اپنی فطرت کے اعتبار سے مغلوب الغضب اور شترکینہ ہوتے ہیں۔ ایسوں کا جب غصہ اُبلتا ہے تو ترش روئی اور بدگوئی کی حد کر دیتے ہیں اور موذی پن کے مظاہرے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ یہ تو ان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ مجرم کے قصور کی نوعیت کا خیال کریں‘ بلکہ قانوناً اگر مجرم کی خطا معمولی درجے کی ہو تو انھیں اور زیادہ غصہ آتا ہے کہ وہ کوئی جرمِ عظیم کیوں نہ کر کے آیا۔ ایسے اربابِ ظلم‘ جرم کو عقل کے کانٹے پہ کیوں تولنے لگے‘ بس اندھا دھند ادنیٰ سے ادنیٰ غلطی پر بھی قتل اور قرقی اور تذلیل و تحقیر سے کم درجے کی سزا تجویز نہ کریں گے‘ کیونکہ اس کے بغیر ان کو اطمینان قلب اور سکونِ خاطر حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر کسی گروہ کا محض ایک فرد اگر ان کی مخالفت کر بیٹھا تو سمجھ لیجیے کہ اس پورے گروہ کی شامت آئی! اچھا برا کوئی نہ بچنے پائے گا۔
اب اگر دنیا کی بدقسمتی سے ایسے ہی لوگ مسندِسلطنت پر متمکن ہوجائیں تو وہ داد ظلم و جور نہ دیں گے تو کریں گے کیا؟ یہ ظالم‘ خدا کے بندوں کو طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کرتے ہیں اور عزت داروں کو ذلیل و خوار کرکے چھوڑتے ہیں۔ غلط نہ ہوگا کہ اگر انھیں بنی آدم کے لیے بھیڑیے یا کٹ کھنے کتے سمجھا جائے۔ ان کے زہریلے ڈنک سے نہ مساکین بچتے ہیں‘ نہ عزت و اعتبار والے‘ نہ غریبوں کو ان سے پناہ ملتی ہے نہ امیر ان کے گزند سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ ان کی ایذا رسانی ہوتی اس درجے کی ہے کہ غریب اور بے بس مسلمان ان کی ’’اسلامی حکومت‘‘ سے کفار کی کافرانہ حکومت کو ہزار درجے بہتر سمجھنے لگتے ہیں اور وہی ان کے نزدیک خدا کے بندوں کے لیے جاے امن قرار پاتی ہے۔ ایسی حالت میں ادھر رعایا سلطان ظالم سے رنجیدہ ہوتی ہے اور ادھر سلطان ظالم بھی اپنی رعایا سے بیزار ہوتا ہے۔ بس یہ اس کی تباہی میں خوش ‘ وہ اس کے زوال میں راضی۔ اس حالت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
خِیَارُ اَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ وَیُحِبُّوْنَکُمْ وَتُصَلُّوْنَ عَلَیْھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ وَشِرَارُ اَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تَبْغُضُوْنَھُمْ وَیَبْغُضُوْنَکُمْ وَتَلْعَنُوْنَھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ -
تمھارے امرا [حُکّام] میں سے بھلے وہ ہیں کہ تم ان سے محبت کرو‘ وہ تم سے محبت کریں اور تم ان کے لیے دعاے رحمت کرو اور وہ تمھارے لیے دعاے رحمت کریں اور تمھارے امرامیں سے برے وہ ہیں کہ تم ان سے نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں اور تم ان پر لعنت کرو‘ وہ تم پر لعنت کریں۔
سلطانی مظالم جس طرح رفتہ رفتہ رعایا کی معاش کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں‘اسی طرح ان کے شجرِایمان کی جڑیں بھی کھودتے جاتے ہیں۔ آخر لوگ اقامتِ دین و ایمان کی فکر کیا کریں‘ جب کہ انھیں سلطان ظالم کے خوف سے ایک ساعت بھی مخلصی نہیں ہوتی۔ چنانچہ سلطنتِ ظالم کا قیام کسی مذہب باطل کے پھیل نکلنے کے مشابہ ہے جو ملت کے نظام اور سنت کے آئین و حدود کو توڑتا چلا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اِنَّمَا اَخَافُ عَلٰی اُمَّتِیْ اَلْاِسْتِسْقَائَ بِالْاَنْوَائِ وَحِیْفِ السُّلْطَانِ وَالتَّکْذِیْبِ بِالْقَدْرِ -
مجھے اپنی اُمت کے بارے میں صرف یہ خوف ہے کہ ۱- وہ نچھتروں [بادلوں] سے بارش طلب کرے گی۔ ۲-بادشاہ اس پر ظلم ڈھائیں گے ۳- اس میں قضا و قدر کا انکار پیداہوگا۔
سلطانِ ظالم بعض وجوہ کے ماتحت ‘اگر کسی گروہ سے رنجیدہ ہوتا ہے اور اس سے انتقام لینے پر تل جاتا ہے تو اس کے انتقام کی تلوار مطیع اور غیرمطیع اور گنہ گار و بے گنہ میں ہرگز امتیاز نہیں کرتی‘ بلکہ بے دریغ سروں کو کاٹتی چلی جاتی ہے اور ملکوں اور شہروں کو بے چراغ کرکے چھوڑتی ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ:
مَنْ خَرَجَ عَلٰی اُمَّتِیْ بِسَیْفِہٖ یَضْرِبُ بِرَّھَا وَفَاجِرَھَا وَلاَ یَتَحَاشٰی مِنْ مُؤْمِنِھَا وَلَا یَـفِیُٔ لِذِیْ عَھْدٍ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْہُ -
جس شخص نے اپنی تلوار لے کر میری اُمت پر حملہ کیا اور قتل و غارت میں نیک و بد کی تمیز نہ کی اور اُمت کے سچے مومنوں کو قتل کرنے سے پرہیز کیا اور نہ کسی سے اپنے عہد کا پاس ملحوظ رکھا اس کا نہ مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نہ میرا اس سے۔
پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی گروہ کے متعلق سلطان ظالم کے دل میں آتش غضب بھڑکتی ہے لیکن حالات ایسے نہیں ہوتے کہ عملاً انتقام لیا جا سکے۔ اب لازماً اس کے سینے میں کینہ پرورش پاتا رہے گا اور وہ اس تاک میں رہے گا کہ اس کینے کی بھڑاس نکالنے کا کب مناسب موقع پیدا ہوتا ہے۔
مَامِنْ وَالٍ یَلِیْ رَعِیَّتَہٗ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَیَمُوْتُ وَھُوَ غَاشٍ لَھُمْ اِلاَّ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ -
جو حکمران بھی اپنی مسلم رعایا پر غدر اور خیانت کے ساتھ حکومت کرتا ہوا مرگیا اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی ہے۔
بعض لوگ ایسے پائے جاتے ہیں کہ عین ان کی سرشت میں سرکشی اور خودپسندی کا خمیر شامل ہوتا ہے۔ ان کو اپنے منہ میاں مٹھو بننے اور ڈینگیں مارنے اور شیخی بگھارنے میں مزہ آتا ہے۔ اپنی ہستی کو ہمیشہ کچھ غلافوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ کیونکہ اولادِ آدم انھیں میل جول کے قابل نظر نہیں آتی۔ دوسروں کے بڑے سے بڑے کمال کو اپنی کسی ادنیٰ سی خوبی کے مقابلے میں ہیچ ثابت کردیں گے‘ چاہے اپنی خوبی محض ایک سرابِ تخیّل ہو‘ جیسے حسب و نسب کا غرہ! دوسروں کے ساتھ کسی معاملے میں برابر ہونا تو ان کے لیے بڑی شرم کی بات ہوتی ہے‘ اس وجہ سے اپنے ساتھیوں کی تحقیر کو اپنی آبرو شمار کرتے ہیں اور اپنے بھائیوںکے زوال کو اپنی عظمت کا ثبوت قرار دیتے ہیں‘ نیز دوسروں کے کمالات کو پایۂ اعتبار سے گرا گرا کر اپنی خصوصیات پر اِتراتے ہیں۔ بس ان کا منتہاے مقصود فقط یہ ہوتا ہے کہ انھیں افرادِ انسانی کے درمیان اتنا امتیاز حاصل ہوجائے کہ کوئی ان کی برابری کی جرأت نہ کرسکے۔
اس قسم کا آدمی جب تختِ حکومت پر قابض ہوگا تو کبرونخوت کی داد دینے کے لیے‘ آداب و القاب‘ چال ڈھال‘ میل جول اور دوسرے تمام معاملات میں اپنی ایک امتیازی شان پیدا کرے گا۔ پھر وہ اپنی ذات کے لیے مختلف چیزیں مخصوص کرلے گا۔ ان میں کسی دوسرے کی شرکت و مساوات سے بہت رنجیدہ ہوگا بلکہ اس کی قطعی ممانعت کر دے گا۔ وہ جس تخت کو استعمال کرے گا اس پر بیٹھنا دوسروں کے لیے حرام کر دے گا‘ جس مجلس میں رونق افروز ہوگا اس میں دوسروں کا داخلہ روک دے گا‘ پھر جو خاص الفاظ اپنے لیے تجویز کر دے گا‘ مثلاً ’سلطان‘، ’شاہ‘ ، ’بادشاہ‘، ’ملک‘ اور ’حضوراقدس‘ وغیرہ۔ ان الفاظ کو اگر خود سلطان کے بیٹے پر بھی کسی نے استعمال کردیا تو وہ مجرم قرار پائے گا اور شدید تعزیر اس پر عائد ہوگی۔ الغرض ایسے لوگوں کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ کسی طرح خدا کے بندوں اور نبی کے امتیوں سے بالکل جدا اور ممتاز سمجھے جائیں کیوں کہ انھیں وہ اپنا ہم جنس تسلیم نہیں کرتے اور ہر معاملے میں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد دوسروں سے الگ ہی بناتے ہیں۔
پھر ان ظالموں کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے قوانین‘ جمہور میں اصولِ دین اور ضوابطِ شریعت کا درجہ حاصل کرلیں اور ہر خاص و عام ان کی پوری اطاعت کرے‘ نیز اُن کے سامنے قیل و قال اور بحث و تمحیص کی کسی کو جرأت نہ ہو۔ گویا خود یہ لوگ احکامِ الٰہی کے مخاطب ہیں ہی نہیں‘ اور نہ ان احکام کی مخالفت پر انھیں کوئی پوچھنے والا ہے۔ یہ بڑا بننے اور حکم چلانے کی خواہش جلد جلد ترقی کر کے تعلّٰی کی صورت اختیار کرتی ہے اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ نبوت یا الوہیّت کا صاف صاف دعویٰ کر دیا جاتا ہے۔ اب سلطانِ متکبر فراعنہ اور نماردہ کا بھائی بن جاتا ہے۔ خداے بزرگ و برتر کی کوئی صفت ایسی نہیں رہ جاتی‘ جسے یہ ظالم اپنے پروانوں اور حکم ناموں میں اپنی ذات سے منسوب نہ کرے‘ اور خالق اکبر کے ناموں میں سے کوئی نام ایسا نہیں چھوٹ جاتا جسے یہ جاہل اپنے لقب کے طور پر استعمال نہ کرتا ہو۔ پھر انبیا و مرسلین کے مدارج میں سے کوئی درجہ ایسا نہیں بچ رہتا کہ یہ دشمنِ دین اس کا مدعی نہ بنے۔ پھر خلفاے راشدین کے مراتب میں سے کوئی رتبہ ایسا نہیں باقی رہتا جس میں یہ شرارت کا استاد ان کی برابری کا دم نہ بھرتا ہو۔
غرور و کبر کی یہ سلطنت جس طرح پوری اُمت کے لیے اور پورے دین کے لیے حددرجہ مضر ہے‘ اسی طرح‘ بلکہ اس سے ہزار گنا زیادہ‘ خود اس جاہل شیخی باز کے لیے سمِ قاتل ہے۔ کوئی سلطان اپنی سلطنت سے وہ نقصان نہیں اٹھاتا جو سلطانِ متکبر اپنی سلطنت سے اٹھاتا ہے۔ یہ ظالم اپنی ہستی کو رعایا کا گویا خالق سمجھتا ہے‘ خصوصاً جب زمانہ اس کا ساتھ دے رہا ہو اور قسمت یاوری کررہی ہو‘ یعنی دنیا اس کے پنجے میں بے بس ہو اور کسی کو سرکشی کی جرأت نہ ہو تو اس کا انداز استکبار خوب نمایاں ہوجاتاہے اور اس کا طرئہ نخوت عرش کو جاچھوتا ہے‘ فرمایا صاحبِ نبوت نے۔
اِذَا مَشَتْ اُمَّتِیِ الْمَطِیْطَائَ وَخَدَّمْتَھَا اَبْنَائُ الْمَلُوْکِ اَبْنَائُ فَارِسَ وَالرُّوْمِ سَلَّطَ اللّٰہُ شِرَارَھَا عَلٰی خِیَارِھَا -
جب میری اُمت اکڑ کر چلنے لگے گی اور فارس و روم کے شاہزادے اس کی خدمت بجا لانے لگیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ اُمت کے شریر لوگوں کو اس کے نیکوکار بندوں پر مسلط کر دے گا۔
اَلْکِبْرِیَائُ رِدَائِیْ وَالْعَظْمَۃُ اِزَارِیْ فَمَنْ نَازَ عَنِیْ وَاحِدًا مِّنْھُمَا اَدْخَلْتُہُ النَّارَ-
کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میری ازار‘ سو جس کسی نے ان دونوں میں سے کسی چیز کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کی اس کو میں جہنم میں جھونک دوںگا۔
اَغْیَظُ رَجُلٍ عَلَی اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَاَخْبَثُ رَجُلٍ کَانَ یُسَمّٰی مَلِکُ الْاَمْلَاکِ لَامَلِکَ اِلاَّ اللّٰہُ -
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کو سب سے زیادہ بھڑکانے والا اور بدترین انسان وہ ہوگا جو دنیا میں بادشاہوں کا بادشاہ (شہنشاہ) کہا جاتا تھا۔ [لیکن یاد رکھو کہ] اللہ کے سوا کوئی بادشاہ نہیں۔
لَا یَقُوْلَنَّ اَحَدُکُمْ عَبْدِیْ وَاَمَتِیْ کُلُّکُمْ عَبِیْدُ اللّٰہِ وَکُلُّ نِسَائِ کُمْ اَمَائُ اللّٰہِ وَلٰکِنْ لِیَقُلْ غُلَامِیْ وَجَارِیَتِیْ وَفَتَایَ وَفَتَاتِیْ وَلاَ یَقُلِ الْعَبْدُ رَبِّیْ وَلٰکِنْ لِیَقُلْ سَیِّدِیْ وَفِیْ رِوَایَۃٍ وَلَا یَقُلِ الْعَبْدُ السَّیِّدِیْ مَوْلَائِیْ فَاِنْ مَوْلَاکُمْ اللّٰہُ -
تم میں سے کوئی کسی کو ’’میرا بندہ‘‘ یا ’’میری بندی‘‘ نہ کہے۔ تم سب لوگ اللہ کے ’’بندے‘‘ ہو اور تمھاری ساری عورتیں اسی کی ’’بندیاں‘‘ ہیں بلکہ یوں کہے کہ میرا ’’غلام‘‘ اور ’’میری لونڈی‘‘ یا ’’میرا خادم‘‘ اور ’’میری خادمہ‘‘۔ اسی طرح کوئی غلام اپنے آقا کو ’’رب‘‘ نہ کہے بلکہ ’’سید‘‘ [جناب والا] کہہ کر پکارے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ کوئی غلام اپنے آقا کو مولا نہ کہے کیوں کہ تمھارا مولا صرف اللہ ہے۔
سلطنتِ جابرہ جس کا مفصل بیان اُوپر ہوچکا ہے‘ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک صورت اس کی یہ ہے کہ سلطانِ جابر اپنی شوخ چشمی اور گستاخی کے باوجود ایمان کی بھی کوئی رمق دل میں رکھتا ہے اور اس سے بعض اعمالِ صالحہ۳؎ بھی ظاہرہوتے رہتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس کے اعمال صالحہ طریق مشروع پر منطبق نہیں ہوتے‘ ورنہ اہلِ دیانت کے نزدیک ان کو کوئی وزن حاصل ہو سکتا ہے‘ کیوں کہ وہ ان کی انجام دہی کے لیے اپنا ہی ایک ڈھنگ نکالتا ہے اور اپنی ہی پسند کے مطابق اقدام کرتا ہے۔ لیکن دل میں وہ ان اعمال کو تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتاہے اور پورے خلوصِ نیت سے انھیں بجا لاتا ہے‘ مثلاً ہوا و ہوس کی راہ میں جس دریادلی سے اپنے خزانے لٹاتا ہے اسی کشادہ دلی سے ایک مسجد کی تعمیر پر بھی خرچ کرتا ہے اور اسے سونے چاندی کے نقش و نگار سے خوب مزین کراتا ہے اور اس کو مالی عبادت سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی مسجد بنانا خود اسراف میں داخل ہے اور اسراف شریعت میں حددرجہ مذموم فعل ہے اور اس وجہ سے خدا کے ہاں اس کی مقبولیت کی کوئی توقع نہیں ہوسکتی‘ مگر چونکہ سلطان مُسرف ہے اور اس کی رائے میں یہی اسراف انفاق فی سبیل اللہ ہے اور اسے سرانجام دیتے ہوئے وہ یہی یقین کرتا ہے کہ ایسے دینی کاموں میں جتنا زیادہ بڑھ چڑھ کے خرچ کروں گا اتنا ہی خدا کے ہاں مقبول ٹھہروں گا۔ ان خیالات کے ماتحت وہ تقرب الی اللہ کے لیے بیش بہا دولت لٹا دیتا ہے۔
دوسری صورت میں سلطان جابر کا دل خوفِ خدا سے بالکل ہی بے نصیب ہوتا ہے اور وہ اعمال شرعی کو اخلاص سے انجام نہیں دیتا‘ بلکہ کچھ بطورِ عادت اور کچھ دنیاوی شہرت یا اہلِ خانہ پر تفوّق کے لیے بعض احکامِ شریعت کی اطاعت کرلیتا ہے اور اس پابندیِ شرع کو جاہ و جلال کا لازمہ سمجھتا ہے۔ پس صورتِ اوّل میں تو سلطان کے اعمال کی ظاہری شکل مردود تھی اور اس کی نیت محمود۔ مگر اس دوسری صورت میںباہر بھی کھوٹ ہے اور اندر بھی کثافت!
۱- کوئی وجہ نہیں کہ جو سلطان اسلامی مالیات کا نظم تہ و بالا کر رہا ہو اور بالواسطہ ریاست کے اندر معاشی و اقتصادی فساد پھیلا رہا ہو‘ اس کی کارگزاریوں پر اربابِ دین و دانش چپ بیٹھے رہیں۔ حدیث ابوذر کی رُو سے اتنے صبر کا مطالبہ تو کیا جا سکتا ہے کہ تلوار نہ اٹھائی جائے لیکن یہ صبر بے جا صبر ہوگا کہ زبان اور قلم کو بھی حرکت سے روک رکھا جائے۔ یہ اندیشہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ اگر سلطانِ بخیل کی روک ٹوک ہوتی تو مزید زیادتیوں کا امکان زیادہ ہے اور اگر تنقید و تذکیر اسے بھڑکائے بھی‘ تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا نا کہ سلطان ان حدود سے آگے نکل جائے جن کے اندر اس کے خلاف خروج کی اجازت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو کچھ برا نہیں۔ انقلاب کا ایک ریلا ازسرِنو خالص خلافتِ راشدہ کو اُبھار دے گا (ن-ص)
۲- اس روایت سے کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ اس کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اگر تم سے معصیتِ خالق کا مطالبہ کیا جائے تو بھی اپنے امرا کے غلام رہو۔ ہرگز نہیں اس میں صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر امرا تمھارے حقوق تمھیں نہ دیں تو صبر کرو اور نظامِ سمع و طاعت کو برقرار رکھو ‘ یعنی خروج و بغاوت سے اجتناب کرو۔ امرا کا بوجھ امرا کے سر اور تمھارا تمھارے سر۔ لیکن اگر حقوق اللہ ہی کو یہ لوگ پی جائیں تو پھر مسلمان کے لیے اطاعت کوبرقرار رکھنا ممکن نہیں ہے (ن -ص)
۳- نیکی اور تقویٰ اور صالحیت حدودِ شرعی کے باہر کہیں نہیں پائی جاتی۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کی شریعت سے آزاد ہو کر آپ اپنے نیک ارادوں کو جس طرح چاہیں پورا کریں‘ نہیں! بلکہ اسلام کی شریعت سے بے نیاز ہو کر اگر آپ لاکھ تسبیحیں روز پڑھیں اور کروڑ سجدے دن رات میں کرلیں تو بھی آپ متقی اور صالح نہیں ہیں۔ تصوف نے غلطی اگر کی تو یہی کہ تقویٰ کی راہ کو شریعتِ اسلام کی حدود اربعہ سے آزاد کردیا۔ شاہ صاحب نے موقع پر بات واضح کر دی کہ ایسے ’’اعمالِ صالحہ‘‘ کو جو طریقۂ مشروع پر منطبق نہ ہوں مومن کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں ملتی۔ (ن - ص)