اکتوبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اکتوبر۲۰۰۵ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ

سوال: مجھ سے ایک گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ اس کے بعد سے راتوں کی نیند اُڑ گئی ہے۔ کیا کروں‘ کہاں جائوں؟ کیا اپنا سب کچھ صدقہ کر دوں؟ کیا اللہ اس طرح معاف کر دیں گے؟ سخت پریشانی میں ہوں۔ میرے لیے کیا راستہ ہے؟ میری رہنمائی فرمایئے۔

جواب : جب گناہ پر ندامت اور پشیمانی ہو تو یہ ایمان اور زندگی کی علامت ہے۔ جب کوئی کانٹا چبھے یا چوٹ آئے اور آدمی اسے محسوس کرے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ جسم شل اور بے حس نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تجھے نیک کام کرکے خوشی ہو اور گناہ کر کے تکلیف ہو تو‘ تو مومن ہے‘‘۔(ترمذی)

گناہ کی مثال ایک بیماری کی ہے۔ جب بیماری کا آغاز ہو اور آدمی کو تکلیف پہنچے تو وہ اس کا علاج کرتا ہے۔ اگر علاج کر کے بیماری کا ازالہ کرلیاجائے تو آدمی صحت مند ہوجاتا ہے‘ لیکن اگر غفلت میں مبتلا ہوجائے اور علاج نہ کرے تو بیماری بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ کینسر یا ٹی بی کی طرح مہلک بیماری کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور پھر لاعلاج ہوکر ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص شراب یا نشہ آور چیز کا استعمال کرے تو ایک دو مرتبہ ایسا کرنے کے بعد اسے چھوڑنا آسان ہوتا ہے لیکن اگر وہ نشے کا عادی ہوجائے تو پھر جان دے دیتا ہے لیکن نشہ نہیں چھوڑ پاتا۔ اگر شروع میں احساسِ گناہ ہوجائے تو یہی وقت ہے کہ اس سے باز آجائیں۔ جو پریشانی لاحق ہوتی ہے اسے دُور کرنے کے لیے استغفار کریں۔

آدمی سے جب گناہ ہوجائے تو اسے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ یہ دروازہ اس وقت بند ہوتا ہے جب آدمی پر جاں کنی کا عالم طاری ہو۔ اس سے پہلے پہلے توبہ کرے تو توبہ قبول ہوتی ہے۔ کفر‘ شرک‘ کبیرہ اور صغیرہ گناہ‘ سب قابلِ معافی ہیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب گناہ سرزد ہوجائے تو آدمی کو اولاً اس پر ندامت اور شرمندگی ہونی چاہیے۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اس پر بخشش اور معافی مانگے۔ تیسرے درجے میں ارادہ کرے کہ آیندہ اس گناہ کے قریب نہیں جائے گا اور گناہ کے کاموں کا دوبارہ ارتکاب نہ کرے گا‘ بلکہ نیکی کو اپنا معمول بنائے گا۔ حدیث میں ہے کہ گناہ کرنے والا جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے‘ اگر توبہ کرلے تو وہ دُور ہو جاتا ہے۔ اگر توبہ کرنے کے بجاے گناہ کا دوبارہ ارتکاب کرے تو ایک سیاہ دھبہ مزید لگ جاتا ہے اور اگر اس طرح گناہ کرتا چلا جائے تو تاریکی دل پر چھا جاتی ہے۔ آدمی کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ برائی کو اچھائی اور اچھائی کو برائی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ پھر اسے توبہ کی توفیق نہیں ملتی۔

آج کل ہمارے معاشرے میں جو لوگ برائی کے رسیا نظر آتے ہیں‘ یہ برائی کے علم بردار‘ مبلغ اور اسے قائم و نافذ کرنے اور رواج دینے والے ہیں۔ انھیں بے حیائی‘ عریانی‘ فحاشی‘ بدکاری‘ مرد و زن کا اختلاط‘ شراب و کباب کی محفلوں میں ننگے ناچ کرنا‘ ریڈیو‘ ٹی وی‘ کیبل کے ذریعے  رقص و سرود کی مخلوط محفلیں سجانا اور گھروں میں مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ان کو دیکھنا‘ یہ سب ان کو نہ صرف گوارا ہے بلکہ یہ انھیں روشن خیالی نظر آتی ہے۔ پاک بازی اور پاک دامنی‘ نیکی و تقویٰ اور غیرمحرموں کے ساتھ میل جول سے احتراز‘ ان کو اچھا نہیں لگتا۔ پاک باز اور پاک دامن لوگوں کو وہ دقیانوسی‘ غیرترقی یافتہ اور رجعت پسند قرار دیتے ہیں۔ یہ سب لوگ نیکی کے مدمقابل کھڑے ہوتے ہیں‘ نیک لوگوں کے ساتھ محاذ آرائی کرتے ہیں اور کفار کے آلۂ کار اور ان کی تہذیب کے رسیا ہیں۔ یہ یک دم نہیں بلکہ تدریجاً اس مقام تک پہنچے ہیں۔ یہود بھی معصیتوں کے مختلف مراحل سے گزر کر انبیا علیہم السلام کے قتل اور کفر تک پہنچے تھے اور اللہ تعالیٰ کے غضب در غضب کے مستحق ٹھیرے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَo (البقرہ۲:۶۱) ’’یہ اس سبب سے ہوا کہ انھوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور وہ حد سے بڑھے جاتے تھے‘‘۔

لہٰذا یہ ناگزیر ہے کہ اس طبقے میں شامل ہونے سے اپنے آپ کو بچایا جائے ۔ برائی کی شدت اور فحاشی و عریانی اورثقافتی یلغار کو دیکھ کر مایوسی بھی نہ ہو بلکہ توبہ و استغفار کی راہ کو اپناتے ہوئے گناہ کے جذبات کو کنٹرول کریں‘ قوتِ ارادی کو مضبوط کریں ‘ شیطانی وساوس اور گناہ کے لیے اُکساہٹ پر قابو پائیں۔ اپنے آپ کو معذور سمجھنا چھوڑ دیں۔ گناہ کے لیے جواز تلاش کرنے کی غلطی ہرگز نہ کریں۔ نفس و شیطان کے چنگل میں گرفتار نہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت دیتے ہیں جو ہدایت حاصل کرنا چاہیں۔ جو چاہیں کہ انھیں خودبخود ہدایت مل جائے‘ اس کے لیے انھیںکچھ مشقت اور تکلیف نہ اٹھانی پڑے‘ ایسے لوگ ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے اپنے نفس کو لگام دیں‘ اسے تکلیف پہنچتی ہے تو پہنچنے دیں‘ اس پر واضح کر دیں کہ اس کی تسکین کے لیے ناجائز طریقے اختیار نہیں کرنا ہیں۔

اس سلسلے میں قرآن پاک نے جو عمومی ہدایت دی ہے وہ درج ذیل ہے: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (الزمر ۳۹:۵۳) ’’اے نبی (آپ ہمارافرمان) ان سے کہہ دیجیے (وہ یہ ہے) کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے‘ وہ غفور و رحیم ہے‘‘۔

یہ آیت رہتی دنیا تک تمام گنہگاروں کے لیے‘ اپنے نفس پر زیادتی کرنے والوں کے لیے ایک نوید ہے۔ جمیعًا ، یعنی سب کے سب گناہ ایک ساتھ معاف کر دینے کی خوش خبری ہے۔ آپ معاف کروانے کے آداب کے ساتھ معافی مانگیے‘ آپ کی درخواست ہرگز رد نہ کی جائے گی۔

پس‘ سب سے پہلے توبہ کی شرائط کے مطابق توبہ کرنی چاہیے (اس کے لیے دیکھیے:   تفہیم القرآن‘ ج۶‘ ص ۳۲) ۔ دوسرے درجے میں گناہ کے اسباب کا ازالہ کرنا چاہیے‘ جو معمولات گناہ کی طرف لے جاتے ہیں‘ ان سے دُور رہیں‘ انھیں بدلیں۔اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ اپنے گناہ کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ پریشانی میں آپ نے یہاں رابطہ کیا‘ اپنی شناخت کو ظاہر نہ کیا‘ اس طرزِعمل پر قائم رہیں‘ کسی کے سامنے اپنے گناہ کا ذکر نہ کریں۔ حدیث میں اس کی مذمت آئی ہے کہ آدمی ایک تو گناہ کرے پھر اس کا چرچا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی مدد کرے‘ اپنی بندگی کی سعادت بخشے۔ آمین! (مولانا عبدالمالک)


آمدنی کا درست استعمال

س: میں عام مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے والدین نے بڑی مشکل سے میری تعلیم مکمل کروائی۔ اب سی اے کر کے مجھے ۴۰ ہزار روپے کی ملازمت مل گئی ہے۔ میں یہ رقم کس طرح خرچ کروں؟ کیا اس میں بھی قرآن و سنت کی کوئی رہنمائی ہے؟

ج: ایسے معاشی حالات میں جب بے روزگاری روبہ ترقی ہو‘ ایک معقول ملازمت کا مل جانا محض اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کرم ہی سے ممکن ہے۔ اس لیے اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہوگا۔    اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کو جیسا کہ ان کا حق ہے ادا کرنے کی توفیق دے۔

رزق میں تنگی اور کشادگی دونوں ایک بندہ مومن کے لیے امتحان کی شکلیں ہیں۔ جس طرح بعض اوقات فقروفاقہ ایک انسان کو شرک کے دروازے تک لے جاتا ہے‘ ایسے ہی دولت کی فراوانی باآسانی ایک شخص کو اسراف و تبذیر کی طرف مائل کرسکتی ہے۔ قرآن کریم نے مالی معاملات میں جو رہنما اصول دیا ہے وہ دونوں صورتوں میں اہلِ ایمان کو جادہ اعتدال پر قائم رکھتا ہے۔ چنانچہ کہا گیا کہ نہ تو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردنوں سے باندھو اور نہ انھیں بالکل کھلا چھوڑ دو۔ اگر ایک شخص کا خیال ہو کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلی ملازمت کم تنخواہ پر بھی اختیار کرلے گا اور اسے توقع سے زیادہ معاوضہ مل جائے تو عموماً دو ردّعمل پیدا ہوتے ہیں۔ ایک طرف مال کی کشش یہ سجھاتی ہے کہ اس مال کو سنبھال کر رکھو‘ اپنے طرزِ رہایش میں کوئی تبدیلی نہ کرو اور جیسے پہلے تنگی میں گزارا کرتے تھے کرتے رہو۔ حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک صحابیؓ کو بظاہر خستہ حال دیکھنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ اگر کسی کے پاس وسائل ہوں تو اس کا اثر اس کے لباس اور وضع قطع پر نظر آنا تقویٰ کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ دین جو ایک اُمت وسط پیدا کرنے آیا تھا یہ پسند نہیں کرتا کہ نمود و نمایش اور اپنی برتری کے اظہار کے لیے ایسا لباس یا ایسے انداز اختیار کیے جائیں جن سے تکبر کا اظہار ہو۔

دین کا مدعا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے ذہن میں اپنے مال کے چار حصے کرے۔ پہلے حصے میں وہ اپنی ضروریات اور حاجات کو پورا کرے‘ دوسرے حصے میں اقربا کو ان کا حق دے‘ تیسرے حصے میں غیرمتوقع حالات کے لیے ایک مقدار کو الگ کرے اور چوتھے حصے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ان ضروریات سے زائد مال کو استعمال کرے۔ احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب کسی صحابی نے اپنی تمام دولت اللہ کی راہ میں دینی چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں متوجہ کیا کہ کیا وہ اپنے بعد اپنی اولاد کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا بنانا چاہتے ہیں یا اس کے لیے کچھ چھوڑنے کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتے ہیں۔

دراصل ہمارے ذہنوں میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اپنے پیچھے اپنی اولاد کے لیے کوئی مال چھوڑنا ایک دنیاوی اور مادی فعل ہے‘ جب کہ اللہ کی راہ میں تمام مال کو صرف کر دینا ایک دینی کام ہے۔ اسوئہ حسنہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اولاد پر خرچ کرنا بھی دین پر عمل کرنا ہے اور جو کچھ ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی دین ہے۔ دونوں شکلوں میں توازن اور عدل کرتے ہوئے قرآن وسنت کے اصولوں کو سامنے رکھنا اور ہر کام کوا للہ کی رضا کے لیے حلال طریقے سے انجام دینا ہی دین کا مقصد و مدعا ہے۔

اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی توقع سے زیادہ تنخواہ کی ملازمت دلوا دی ہے تو توازن کو برقرار رکھتے ہوئے اُوپر ذکر کیے گئے چار حصوں کی روشنی میں اپنی تنخواہ کو تقسیم کر لیجیے۔ اللہ تعالیٰ اس میں برکت بھی دے گا اور آپ نہ اسراف کے مرتکب ہوں گے اور نہ بخل کا شکار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر نہ صرف نماز کی شکل میں بلکہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر دیگر افراد کے ساتھ معاملات میں رویہ اختیار کرکے اور دین کے قیام کے لیے ہونے والی جدوجہد میں خرچ کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے۔(ڈاکٹر انیس احمد)


سافٹ ویئر کے استعمال میں شبہہ

س: میرا بیٹا ایک سافٹ ویئر کمپنی میں ملازمت کر رہا ہے۔ان کا کام ان کمپنیوں سے ہے جو زیادہ تر کار لیزنگ کا کاروبار کرتی ہیں۔ اس میں سود کا بھی لین دین ہے۔ آپ سے رہنمائی چاہتے ہیں کہ کیا اس کمپنی میں ملازمت کرنا جائز ہے؟

ج: تجارت اور مالی معاملات میں قرآن و سنت کے اصول وضاحت سے بیان کرتے ہیں کہ سود‘ جوا‘ احتکار اور کسی منکر یا فحش کے ذریعے جو رقم حاصل کی جائے گی وہ حرام ہوگی‘ مثلاً ایک  شخص یہ جانتے ہوئے کہ ایک دکان پر صرف شراب فروخت ہوتی ہے جا کر ملازمت کرتا ہے تو وہ براہِ راست ایک منکر اور حرام کام میں شریک ہوجاتا ہے‘ لیکن یہ جاننے کے باوجود کہ ایک ملک  عالمی بنک کا مقروض ہے اور ملک کا بچہ بچہ سالہا سال تک اس قرض پر سود کی رقم دینے پر مجبور ہوگا‘ اگروہ ایک سرکاری اسکول میں معلم ہے تو اس کی تنخواہ اس کے لیے بالکل حلال اور سود کی برائی سے پاک تصور کی جائے گی۔ ایسے ہی اگر ایک دستکار انتہائی محنت و مشقت سے ایک تیزدھار چاقو یا ایک عمدہ قسم کا پستول بناکر ایک گاہک کو فروخت کرتا ہے اور وہ بجاے چاقو کو گھر میں استعمال کرنے یا پستول کو دفاعی ہتھیار کے طور پر اپنے پاس رکھنے کے‘ کسی کی جان لینے کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس کا کوئی گناہ دستکار پر نہیں ہوگا۔

سافٹ ویئر انجینیرنگ کو ہم ایسی دستکاری پر قیاس کریں گے جو کسی بھلے اور مفید کام کے لیے کی جارہی ہے۔ اگر کوئی ادارہ اس کا استعمال کسی ایسے معاملے میں کرے جو مشتبہ ہو تو اس کے بنانے والے پر بظاہر اس کا کوئی گناہ تصور نہیں کیا جائے گا۔ ہاں‘ اگر ایک گاہک یہ کہہ کر ایک کام کرواتا ہے کہ تم جو کچھ بنا کر دو گے‘ میں اس کا ایک حرام استعمال کرنے جا رہا ہوں‘ اور ایک کاریگر اس غرض سے اسے کوئی آلہ بنا کر دے تو وہ بھی گناہ میں برابر کا شریک ہوگا۔

بلاشبہہ رزقِ حلال کی طلب اور حصول ہی ہمارے ایمان کا صحیح پیمانہ کہا جا سکتا ہے‘ لیکن جن معاملات میں بظاہر دین نے حرام کا حکم نہ لگایا ہو انھیں حرام کے دائرے میں لے آنا دین کا مقصد نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح جن معاملات میں دین کا رجحان واضح طور پر یہ ہو کہ فلاں چیز حرام ہے‘ اسے خوش گمانیوں کی بنا پر حلال کے دائرے میں کھینچ لانا بھی دین کے ساتھ ظلم ہے۔

گاڑیوں کی لیزنگ (leasing) کی بنیاد اگر سود ہو تو اسے کسی بھی شکل میں جائز نہیں کہا جاسکتا لیکن اگر وہ بغیر سود کے ہو تو اسے حرام نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے اگر کسی سافٹ ویئر کا استعمال ایسے لیزنگ کے کاروبار میں ہو رہا ہے جو سود پر مبنی نہیں ہے تو بالواسطہ طور پر بھی سافٹ ویئر بنانے والے پر کوئی الزام نہیں دیا جاسکتا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب! (ا-ا)