قرآن‘ اور ایک لحاظ سے اسلام پر لکھی گئی ‘ ایک پاکستانی نژاد کی دوسری نسل سے تعلق رکھنے والے امریکی مصنف کی یہ کتاب‘ جیساکہ اس کے نام سے ظاہر ہے "dummies" کے لیے لکھی گئی ہے (ناشر نے ’’کند ذہن‘‘ لوگوں کے لیے اور بھی بہت سی کتابیں شائع کی ہیں‘ بشمول Islam for Dummies ‘مصنفہ:مالکم کلارک)۔ مصنف نے قرآن کو "Q"کے بجاے "K" سے لکھنے کی توجیہہ یوں کی ہے کہ مغربی قاری انھی ہجوں سے مانوس ہے۔
غیرمسلم معاشروں (اور نام نہاد مسلم معاشروں بشمول پاکستان) میں پرورش پانے والی نژادِ نو کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی تحفے سے کم نہیں‘ جو اسلام کی اساسی تعلیمات پر مشتمل اللہ کی آخری کتابِ ہدایت کی تعلیمات کو اس زبان اور انداز میں پیش کرتی ہے‘ جس سے یہ نسل مانوس ہے۔ کتاب چھے اجزا (۲۲ ابواب) پر مشتمل ہے‘ جن میں قرآن کی زبان اور اندازِ بیان کے بارے میں کچھ ابتدائی گفتگو کے بعد اُن اہم امور پر روشنی ڈالی گئی ہے‘ جو قرآن کے بنیادی موضوع ہیں‘ یعنی توحید‘ رسالت‘ کائنات اور انسان (آخرت‘ جزا و سزا کا بیان بہت آخر میں نویں باب میں ہے‘ دُور کی بات جو ٹھیری)۔ غیرمسلموں کے لیے یہ بات باعثِ طمانیت ہوگی کہ قرآن بنیادی طور پر براہیمی روایت کی پیش رفت ہے۔ قرآن کے دورِ جدید کے مفسرین مولانا مودودی‘ سید قطب‘ سید رضا‘ محمد الغزالی (مصری) کے ساتھ کچھ شیعی تفاسیر کا بھی حوالہ ہے۔
’’قرآنی زندگی‘‘ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور آپؐ کے مشن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مسلمان کی زندگی‘ قرآن کے مطابق اس کے اخلاق و آداب اور عادات‘خاندانی نظام‘ معاشرتی اقدار‘ قانون‘ خواتین کی زندگی اور ان کے حقوق و فرائض‘ جہاد اور جدیدیت پر سلیقے سے گفتگو کی گئی ہے۔ آخر میں قرآن کے بارے میں کچھ ’’غلط فہمیوں‘‘ کے ازالے کی کوشش ہے‘ جیسے یہ کہ خدا‘ صرف مسلمانوں کا خدا ہے‘ جہاد کا مطلب ’’مقدس جنگ‘‘ ("Holy War")ہے‘ اور قرآن مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کا مخالف ہے‘ وغیرہ۔
مصنف نے ‘ ہر موضوع سے متعلق اپنی رائے کے مطابق جو قرآنی نقطۂ نظر پیش کیا ہے‘ اس کے لیے قرآن ہی سے حوالے دیے ہیں۔ مگر چونکہ ان کے مخاطب زیادہ تر عیسائی /یہودی یا وہ مسلم نوجوان ہیں‘ جو مغربی روایت میں پرورش پا رہے ہیں‘ اس لیے بعض جگہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسلام یہودیت/ عیسائیت ہی کا ایک نظرثانی شدہ ایڈیشن ہے‘ جب کہ قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ اصل مذہب یہی ہے‘ اور نام نہاد یہودی اور عیسائیوں نے اللہ کی نازل کردہ کتابوں: تورات اور انجیل میں تحریف کرلی ہے۔
بعض مقامات پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ قاتل کے لیے سزاے موت کے علاوہ ایک اور سبیل ہے اور وہ ہے ’’دیت‘‘۔ مگر فاضل مصنف نے اسے ’’قصاص‘‘ کہا ہے‘ یعنی یہ کہ اگر وارثین راضی ہوجائیں تو قاتل جرمانہ ادا کر کے چھوٹ سکتا ہے‘ اور قرآن اس دوسری صورت کو پسند کرتا ہے (ص ۲۶۶)۔ اسلام میں بدکاری کی سزا ’’سنت کے مطابق‘‘ ۱۰۰ کوڑے‘ نیز ’’سنگ ساری کے ذریعے موت‘‘ بتائی گئی ہے‘ جو درست نہیں‘ اور کم سواد مسلموں اور غیرمسلموں کو مزید اُلجھن میں ڈالنے کا باعث ہوگی (ص ۲۶۹)۔ تاہم‘ قرآنی اخلاقیات‘ معاشرت کے قرآنی اصول‘ اسلام میں خواتین کی حیثیت پر مباحث‘ متوازن ہیں۔ ’’قرآن اور جدیدیت‘‘ کے تحت بجا طور پر کہا گیا ہے کہ جدیدیت‘ ایک مخصوص ثقافت کو اختیار کرنے کا نام نہیں بلکہ معاشرے کو جدید علوم و فنون کی برکات سے بہرہ مند کرنے‘ اور بلاتفریق مذہب و جنس‘ لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا نام ہے۔
اُمید ہے کہ مغربی معاشروں میں رہنے والے مسلمان بچوں ہی کے لیے نہیں ‘ بلکہ ہمارے مغرب زدہ نوجوانوں‘ نیز غیرمسلموں کے لیے یہ کتاب نہایت معلومات افزا اور دل چسپ ثابت ہوگی۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
کتاب کے نام سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ منتخب حصوں کے دروس کا مجموعہ ہے لیکن درحقیقت یہ سورئہ فاتحہ اور سورئہ بقرہ (آیت ۱ تا ۱۷۶) کی مسلسل تفسیر ہے۔ آیات اور اہم الفاظ کی تشریح کے لیے عنوانات اور ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ الفاظ اور جملوں کی علمی مگر عام فہم تشریح کے ساتھ ساتھ آیات میں مضمر فلسفہ بیان ہوا ہے۔ ایک آیت یا ایک مضمون کی حامل آیات کا عصری حالات پر انطباق کیا گیا ہے۔ عقل و ذہن کی بیداری کے ساتھ ساتھ خطیبانہ آہنگ میں جذبات کو اُبھارنے‘ حق کے قیام کے لیے کھڑا کرنے‘ اور خشیت و انابت الی اللہ کی پرداخت کے لیے تذکیر و نصیحت کا اندازاختیار کیا گیا ہے۔
صاحبِ کتاب پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کی شہرت ایک صاحبِ طرز خطیب کی ہے۔ قرآن ان کا موضوع خاص ہے۔ ان کے درس لوگوں کو جگانے والے ہوتے ہیں۔ غالباً یہی درس اس تفسیر کی مسلسل صورت میں طبع کیے جا رہے ہیں‘ اس لیے کہ تحریر میں خطابت کا انداز قائم ہے۔
وہ اصحاب جو تفہیم القرآن کی جلد اوّل کے اختصار کے باعث تشنگی محسوس کرتے ہیں‘ ان کے لیے یہ مجموعہ کافی حد تک تشفی کا باعث بنے گا۔
تفسیری نکات پر مشتمل زیرنظر مجموعہ جدید اشکالات کے حل‘ خوب صورت انداز بیاں اور خطیبانہ آہنگ کے باعث جدید تعلیم یافتہ افراد اورمدرسین کی تیاری کے لیے مفید اور بیش بہا تحفہ ہے۔(اخترحسین عزمی)
برعظیم کے علمی اُفق پر ماضی قریب میں چند ایسی شخصیات اُبھری ہیں‘ جن کا علم و فضل اور تخلیقات و تحقیقات کی نوعیت قاموسی ہے۔ ان میں سے ایک سید مناظراحسن گیلانی ؒ (یکم اکتوبر ۱۸۹۲ئ-۵ جون ۱۹۵۶ئ) بھی ہیں۔
جامعہ عثمانیہ کی طویل ذمہ داریوں کے علاوہ دارالعلوم دیوبند‘ دارالمصنفین اعظم گڑھ اور ندوۃ المصنفین دہلی کی مجالس مشاورت کے رکن رہے۔ تحریر و تقریر دونوں میں اپنا ایک مخصوص رنگ اور ڈھنگ رکھتے تھے۔ ۲۱ کے قریب مستقل کتابیں اور مختلف رسائل میں بیسیوں مضامین و مقالات لکھے۔ ان کی تصنیفات میں النبی الخاتمؐ، تدوین حدیث ، اسلامی معاشیات، ہندستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ‘ ہزار سال پہلے‘ امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی اور ابوذرغفاری‘ زیادہ معروف ہیں۔
پیش نظر کتاب‘ مقالاتِ گیلانی ان ۱۴ تحقیقی و علمی مقالات کا گراں قدر مجموعہ ہے جو ایک زمانے میں معارف، اعظم گڑھ میں شائع ہوتے رہے۔ یہ مضامین زیادہ تر قرآنیات‘سیاست و معیشت‘ تقابل ادیان‘ علمِ کلام‘ تعلیمات‘ تاریخ وثقافت‘ تزکیہ و تصوف اور سیرت و سوانح پر مشتمل ہیں۔ یہ سب مضامین ان کی وسعتِ مطالعہ کے شاہکار ہیں۔ بعض مواقع پر ان کے استحضار کی داد دینا پڑتی ہے۔
مضامین کی اس زنبیل میں پہلا مضمون ’’قرآن کے صائبین‘‘ سے متعلق ہے۔ گیلانی مرحوم ٹھوس دلائل کی بنا پر باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ صائبین بدھ مت کے ماننے والے تھے۔ مصنف کے نزدیک ’’الصائبہ‘‘جن کا قرآن میں یہود و نصاریٰ جیسی اُمتوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے‘ یہ مہاتما بدھ کے ماننے والوں کی تعبیر ہے۔ اپنے موضوع پر یہ مضمون حتمی نتائج کا حامل نہ ہونے کے باوجود منفرد ہے۔
دوسرے مضمون میں اسلام اور ہندومت کی بعض مشترک تعلیمات کا ذکر کیا ہے‘ جس سے ایک عام قاری کے ذہن میں وحدتِ ادیان کا تصور پیدا ہوسکتا ہے۔ اس مجموعے کا تیسرا مضمون ’’مسئلہ سود مسلم و حربی میں‘‘ ایک اجتہادی کوشش ہے۔ بعض مسائل کی نوعیت یکساں ہونے کے باوجود دارالسلام اور دارالحرب میں تقسیم کے باعث احکام میں مختلف ہو جاتی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ دارالحرب کے حربی سے سود لینے کو جائزسمجھتے تھے۔ مولانا ظفراحمد عثمانی ؒنے اپنے ایک مضمون میں اس رائے پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے امامؒ کے اس فتویٰ کو تنہا مفتی کی رائے قرار دیا ہے (ص۱۲۷)۔ سید مناظر احسن گیلانی نے امامؒ کا دفاع کرتے ہوئے اس مضمون میں دلائل و براہین کا اپنا اسلوب پیش کیا ہے۔
پانچواں مضمون برعظیم کی تقسیم سے دو سال قبل ایک تعلیمی خاکے پر مشتمل ہے جس میں نظریۂ وحدت نظام تعلیم کو پیش کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو لکھے ہوئے چھے عشرے گزر چکے ہیں مگر تعلیم کی ثنویت کا ہنوز وہی عالم ہے۔ چھٹے مضمون میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی حکومت کو تاریخِ انسانی میں ایک منفرد طرزِ حکمرانی کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا ہے۔ ساتواں مضمون اس لحاظ سے دل چسپ ہے کہ اس میں اسلامی حکمرانوں سے مسلم رعایا کی ایک بے جا شکایت پر تبصرہ کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے عہدِحکومت میں غیرمسلم رعایا کو مسلمان کیوں نہیں بنایا۔ آٹھویں مضمون میں مسلمان حکومتوں میں غیرمسلموں کے حقوق کی حفاظت و نگہداشت پر بہت قیمتی لوازمہ پیش کیا گیا ہے۔ نویں مضمون میں مسلمانوں کے اندلس کو خود مسلمانوں کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف کے نزدیک اسپین کی تمدنی شان و شوکت کا باعث محض اندلس کے ذرائع نہیں بلکہ مروانی حکمرانوں نے اس کے لیے اردگرد کی ریاستوں سے بہت کچھ حاصل کیا۔دسویں مضمون میں شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی کے نظریۂ علم پر ایک تنقید نما اور تحسین آمیز نگاہ ڈالی گئی ہے۔ گیارھویں مضمون میں بلگرام کے یمنی محدث اور صاحب تاج العروس علامہ سیدمرتضیٰ زبیری پر ایک سوانحی مضمون تحریر کیا گیا ہے جس میں ان کے علمی کارناموں کو متعارف کرایا ہے۔ بارھواں مضمون ہندستان کے ایک مظلوم مولوی حکیم محمد حسن کے بارے میں ہے۔ اس مضمون میں ہند کے قدیم نوشتوں کے حوالے سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی آمدوبعثت کی دل چسپ پیش گوئیوں کا بھی تذکرہ ہے۔
مناظر احسن گیلانی کے مضامین کا یہ مجموعہ متنوع موضوعات پر تاریخی معلومات کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں اسلامی تہذیب اور اس کے اکابر کے کارنامے جھلکتے ہیں۔ ہرمضمون کے آخر میں حواشی اور حوالہ جات نے مضامین کی قدروقیمت میں اضافہ کیا ہے۔ (عبدالجبار شاکر)
رمضان المبارک نزولِ قرآن کا مہینہ ہی نہیں بلکہ نیکیوں کا موسم بہار اور اللہ کی خصوصی عنایات و رحمتوں کا ماہ ہے۔ زیرنظر کتاب میں‘ اس بابرکت مہینے کو قرآن و سنت کے سائے میں گزارنے اور اس کے ہر لمحے کو بامقصد بنانے کے لیے مفید رہنمائی دی گئی ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب دروس المسجد فی رمضان کا اُردو ترجمہ ہے جس میںروزے کے مقاصد‘ احکام و مسائل‘ عظیم حکمتیں اور فضیلتیں‘ آداب و اہتمام‘ رمضان میں واقع ہونے والے اہم واقعات و فتوحات کی تفصیل‘ مواعظ کے دل آویز تذکرے‘ توبہ و استغفار اور انابت الی اللہ کے طریقے‘ دعوت و تبلیغ کے حکیمانہ اسلوب اور روزوں کے ثمرات و فوائد تفصیل سے یکجا کیے گئے ہیں۔باب ’رمضان میں رسول کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کا طرز عمل‘ بہت اہم‘ ایمان پرور اور عمل پر اُبھارنے والا ہے۔ روزوں کے آداب اور فقہی پہلوئوں کے علاوہ اخلاقی و معاشرتی پہلو‘ مثلاً اہلِ خانہ کی تربیت‘ سنت کو کیسے زندہ کریں‘ وقت کی حفاظت جیسے موضوعات نے کتاب کو منفرد بنا دیا ہے۔ قرآن و حدیث سے مرتب کردہ اس خوب صورت مرقع میں اختصار اور جامعیت کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔
مقدمہ کے زیرِعنوان ‘ رمضان المبارک کی اہمیت و فضلیت پر محترم خرم مرادؒ کا دل کش اور مفید مضمون شامل کیا گیا ہے۔ آیات اور احادیث کی صحت اور اعراب خصوصی اہتمام چاہتے ہیں۔ اگرچہ کتاب میں خطیبانہ رنگ غالب ہے‘ تاہم قارئین کتاب کو دل چسپ اور روح پرور پائیں گے۔ خوب صورت سرورق‘ مضبوط جلد اور قیمت بہت مناسب۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
دین اسلام ہمہ گیر اور عالم گیر نظام ہے جس میں جدید ترین مسائل کا حل موجود ہے۔ حالات میں تغیروتبدل اور تنوع ناگزیر ہے۔ اسی لیے خاتم النبیینؐ کے بعد مسائل کے حل کے لیے اجتہاد سے کام لینا بھی ناگزیر ہے۔نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقریباً تین صدیوں تک تحقیق و اجتہاد‘ حریت فکرونظر اور آزادانہ طلبِ حق کی جستجو جاری رہی۔ تقلید کو اس طرح اختیار کیا گیا کہ جمود کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ماضی قریب میں حضرت شاہ ولیؒ اللہ، علامہ اقبالؒ، سید سلیمان ندویؒ اور سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ جیسی ہستیوں نے تدبر‘ تفکر‘ تعمق‘ تفتیش‘ تعدیل‘ تشریح اور تعین کے ہتھیاروں سے جمود پر کاری ضربیں لگاکر اجتہاد کا دروازہ ایک مدت کے بعد کھولا۔
زیرمطالعہ کتاب تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں پانچ اہم ابواب کے تحت بڑی تحقیق و جستجو سے ۱۵۰ مسائل کا حل پیش کیا ہے۔ خصوصاً باب دوم سائنس و طب اور باب سوم معیشت اور اقتصادیات میں تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔
تولید کی جدید ترین اشکال کے بارے میں نہ صرف اسلامی مؤقف کی وضاحت کی ہے بلکہ نفسِ مضمون کو سمجھانے کے لیے ایک ماہر کی طرح عرقِ تولید‘ کلوننگ‘ پیوندکاری کی ٹکنالوجی کے بارے میں بھرپور معلومات بھی فراہم کی ہیں۔ معیشت اور اقتصادیات کے باب میں ملٹی لیول مارکیٹنگ کی تمام اسکیموں کا بڑا عمیق مطالعہ پیش کرکے ان کی فراڈ اور دھوکادہی کو طشت ازبام کیا ہے۔پوسٹ مارٹم اور زکوٰۃ پر بہت مفصل مطالعہ پیش کیا گیا ہے جو بڑا ہی قابلِ قدر کام ہے۔ والدین کے حکم پر بیوی کو طلاق دینے کی شرعی حیثیت پر تحقیقی کام ابھی تشنہ ہے۔ اس موضوع پر تمام احادیث اور ان کی صحت کا محاکمہ پیش کرکے رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
عصرِحاضر کے مسائل کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب ہر طالب علم کی ضرورت ہے۔ مصنف نے نفس مسئلہ اور اس کی کنہ و حقیقت کا معروضی مطالعہ پیش کر کے کتاب کی افادیت میں بڑا اضافہ کردیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اکابر علما کی آرا بھی مع حوالہ جات مل جاتی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ایسے ہی تحقیقی کام کرنے والے افراد ملت کی رہنمائی کے لیے عطا فرمائے جو مسلکی تعصب سے بالاتر ہوکر مسائل کا حل پیش کریں۔ (پروفیسر خاوربٹ)
سیرت حضرت ابوایوب انصاریؓ ہمارے دور کے معروف ادیب‘ مورخ اور مصنف جناب طالب الہاشمی کی ایمان افروز تحقیقی تصنیف ہے۔ یہ صحابہ کرامؓ کی عظیم المرتبت کہکشاں کے اس درخشندہ و تابندہ ستارے کی سوانح عمری ہے جسے کئی منفرد اعزازات سے قدرتِ حق نے نوازا تھا۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا نام آتے ہی ہرصاحبِ ایمان کا سر عقیدت سے جھک جاتا ہے کہ انھوں نے اس کائنات کے حامل‘ خاتم النبیین رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کا شرف پایا تھا۔ پھر اس میزبانی کا جو حق انھوں نے ادا کیا اسے دیکھ کر روح جھوم اُٹھتی ہے کہ خالق ارض و سما نے آنحضوؐر کی اُونٹنی کو وہاں بیٹھنے کا جو حکم دیا وہ کس قدر حکمتوں سے مالا مال تھا۔ اہلِ علم بھی اس عظیم اور معروف صحابی رسولؐ کے اصلی نام کو کم ہی جانتے ہیں۔ یہ نام دورِصحابہ میں بھی حضرت ابوایوبؓ کی کنیت کے بہت زیادہ شہرت پا جانے کی وجہ سے پس منظر میں چلا گیا تھا۔ ان کا خاندانی نام خالد بن زید المالکیؓ تھا۔
حضرت ابوایوبؓ نے قبولِ اسلام سے لے کر آخری سانس تک مسلسل بلندیوں کی جانب سفر جاری رکھا۔ آپؓ انصار مدینہ کے سابقون الاولون میں سے تھے۔ انھوں نے بیعت عقبہ کبریٰ میں اوس و خزرج کے ساتھ حضوؐر سے پیمانِ وفا باندھا‘ میزبانِ رسولؐ بنے‘ ۳۱۳ مجاہدین بدر میں سے ایک تھے‘ ان ۱۴۰۰ اصحاب الشجرہ میں شامل تھے جنھوں نے حدیبیہ کے مقام پر بیعت رضوان کی سعادت حاصل کی‘ تمام غزوات نبویؐ میں حصہ لیا‘ ضعیفی کے عالم میں جہاد میں حصہ لیا اور قسطنطنیہ کے مقام پر ۸۰ برس سے زائد عمر میں شہادت پائی۔ حفظ قرآن اور علم و تفقہ سے بہرہ مند تھے‘ان کے ذریعے متعدد احادیث اُمت کو پہنچیں اور عمربھر حق گوئی کا حق ادا کیا۔ (ص ۱۳‘ ۱۴)
جناب طالب الہاشمی نے حضرت ابوایوب انصاریؓ کی زندگی کے جملہ احوال کو اپنی تصنیفی و تالیفی روایات کے مطابق خوب سجاکر ایک مرقع تیار کیا ہے۔ ہر واقعے کا تذکرہ پڑھتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ سیدنا ابوایوبؓ کے ہم رکاب اور ہم نشین ہے اور تاریخ اسلام کے اس دور سے گزر رہا ہے۔حضرت ابوایوبؓ سے مروی روایات کاتذکرہ بھی ہے اور ان کے اہل و عیال کا تعارف بھی کرا دیا گیا ہے۔ کتاب اہلِ علم‘ خطبا اور علما کے علاوہ عام قارئین کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ (حافظ محمد ادریس)
کوئی خاتون پانی کے علاوہ کسی اور چیز کی بھی پیاسی ہو سکتی ہے‘ اسی لیے اس کتاب کا سادہ سرورق جس پر کسی ناشر کا نام بھی نہیں ہے‘ عنوان کی وجہ سے ہرکس و ناکس کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اپنی دنیا میں مگن رہنے والوں نے‘ جن کے لیے ’’پیاسی‘‘ ان کا روز مرہ تھا‘ یہ ضرورت نہیں سمجھی کہ اندرون سرورق پر ہی اس کی وضاحت کر دیتے‘اور یہ عقدہ ۲۸ویں صفحے پر کھلتا ہے کہ ’’پیاسی‘‘ دراصل پی آئی اے کی مزدور یونین‘ PIAC ہے۔ کتاب اس جدوجہد کی داستان ہے جو ملک کی اس اہم لیبر یونین نے مزدور تحریک کو بائیں بازو کے چنگل سے نکالنے کے لیے کی۔ مصنف نے جو خود اس کہانی کا کردار ہے بلاکم و کاست‘بغیر رو رعایت بلکہ بعض اوقات نہایت سادگی سے تفصیلات لکھ دی ہیں۔ یہ دراصل مزدور تحریک میں اسلامی قوتوں کے لڑنے‘ آگے بڑھنے اور ’’سرخوں‘‘ کو باہر نکالنے کی دل چسپ داستان ہے۔ بہت سے معاملات کے بہت سے پہلوئوں پر جدوجہد میں مصروف لوگوں کی نظر نہیں جاتی لیکن جب ۳۰‘ ۴۰ برس بعد پیچھے نظر ڈالی جائے تو سب پہلوئوں کا مطالعہ ہوسکتا ہے۔ تبصرہ نگار کی نظر میں اس کتاب کی اصل وقعت یہ ہے اس میں ایک سیاسی پارٹی‘ یعنی جماعت اسلامی کے ایک مزدور یونین کے لیڈروں اور گروپوں سے تعلقات کو صاف صاف بیان کردیا گیا ہے۔ بہت اچھا اور فرسٹ پرسن مطالعہ ہے‘ جسے دل چسپی ہو وہ ضرور پڑھے۔ (مسلم سجاد)
محمد متین خالد نے پچھلے چند سالوں میں جس خلوص‘ دلی وابستگی اور محنتِ پیہم کے ساتھ کام کیا ہے‘ اس نے انھیں قادیانیت کا متخصّص بنا دیا ہے۔ اس ضمن میں ان کی بعض کاوشوں پر انھی صفحات پر تبصرہ ہوچکا ہے‘ جیسے: ثبوت حاضر ہیں‘ جو ردِّقادیانیت کے سلسلے میں ایک بے مثل کتاب ہے۔
زیرنظر کتاب‘اس موضوع پر ان کی تازہ کاوش ہے۔ اس میں ایک تو قادیانیت پر علامہ اقبال کی تمام تر اُردو انگریزی نثری تحریریں (انگریزی تحریروں کے تراجم) خطوط اور منظومات و اشعار کو جمع کیا گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قادیانیوں کے بارے میں‘ اوائل سے آخر تک ان کا مؤقف کیا رہا ہے___ دوسرے: اس موضوع اور اہلِ قلم کی نئی پرانی مختلف النوع تحریروں اور مضامین کا انتخاب دیا گیا ہے۔ بعض تو کتابوں سے مُقتبس ہیں اور چند ایک رسالوں وغیرہ سے ماخوذ ہیں۔ حسبِ ضرورت ہرمضمون کے آخر میں حوالے اور حواشی بھی دیے گئے ہیں___ لکھنے والوں میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘ سید نذیرنیازی‘ مولانا ظفر علی خاں‘ یوسف سلیم چشتی‘ شورش کاشمیری‘ جسٹس (ر) جاوید اقبال‘ مولانا یوسف لدھیانوی‘ ڈاکٹروحید قریشی اور بہت سے دوسرے اصحاب شامل ہیں۔
یہ تو واضح ہے کہ اقبال کے نزدیک قادیانی‘ اُمت مسلمہ کا حصہ یا فرقہ نہیں‘ بلکہ ایک الگ مذہب (قادیانیت) کے پیروکار ہیں اور انھوں نے قادیانیوں کو اسلام اور ہندستان‘ دونوں کا غدار قرار دیا ہے‘ اور اس کے لیے ان کے پاس نقلی و عقلی اور فکری دلائل موجود تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد‘ قادیانیوں کی سرگرمیوں نے‘ اقبال کی رائے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے‘ مثلاً اسرائیل میںقادیانیوں کا مشن (بذاتِ خود یہی بات ان کے غیرمسلم ہونے کے لیے کافی ہے۔ اگر وہ اُمت مسلمہ کا حصہ ہوتے تو یہودی انھیں کبھی اسرائیل میںقدم رکھنے کی اجازت نہ دیتے)۔
زیرنظر مضامین سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ قادیانیوں نے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا‘ اور وہ اب بھی اس کے خلاف سازشوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔
کتاب سلیقے سے مرتب اور اچھے معیار پر شائع کی گئی ہے۔ اپنے موضوع پر ایک عمدہ جامع دستاویز ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)