اکتوبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

۶۰ سال پہلے

| اکتوبر۲۰۰۵ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

حقیقی تقویٰ

بعض لوگ مباحات٭ اور رخصتوں سے مستفید ہونا شانِ تقویٰ کے منافی سمجھتے ہیں اور ہرمنزل میں اپنا ڈیرہ سنگلاخ زمین میں ہی ڈالنا کمال دین داری سمجھتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلط فہمی کا بھی ازالہ فرمایا۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے‘ فرمایا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا پھر اس میں رخصت دے دی تو بعض لوگ اس رخصت سے فائدہ اٹھانے میں احتراز کرنے لگے۔ جب رسولؐ اللہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپؐ نے خطبہ دیا: اللہ تعالیٰ کی حمد کی‘ پھر فرمایا بعض لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بعض ایسی باتوں سے احتراز کرتے ہیں جن کو میں کرتا ہوں۔ خدا کی قسم! میں ان سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جاننے والا ہوں اور ان سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں۔(متفق علیہ)

ابوداؤد میں ایک روایت اس سے بھی زیادہ واضح ہے: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اپنے اوپر سختی مت کرو کہ اللہ بھی تم پر سختی کرنے لگے۔ ایک قوم نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔ انھی کی یادگاریں کلیسائوں اور گرجوں میں دیکھ رہے ہو۔ یہ ان کی گھڑی ہوئی رہبانیت ہے جس کو اللہ نے ان کے اُوپر فرض نہیں کیا۔

یہ حدیثیں اس بات کا صاف ثبوت ہیں کہ جس طرح رخصتوں کی تلاش اور مباحات سے فائدہ اٹھانے میں جانب حق کی رعایت سے بے پروائی تقویٰ کے خلاف ہے‘ اسی طرح دین میں خواہ مخواہ سختی اور تشدد کے پہلو کا التزام بھی تقویٰ کے منافی ہے۔ تقویٰ کی راہ اُس سہل انگاری اور اس تشدد پسندی کے بیچ سے ہو کے نکلی ہے۔ (’’اشارات‘‘، مولانا امین احسن اصلاحی‘ترجمان القرآن، جلد۲۷‘ عدد۳-۴‘ رمضان و شوال ۱۳۶۴ھ‘ ستمبر و اکتوبر ۱۹۴۵ئ‘ ص ۶-۷)


  • تقویٰ کے لیے اندیشۂ معصیت سے بعض ایسی چیزیں چھوڑنی پڑتی ہیں جن میں بظاہر کوئی ہرج نہیں ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب امر حق مشتبہ ہو۔ ایسی صورت میں بلاشبہہ تقویٰ یہی ہے کہ آدمی احتیاط کا پہلو اختیار کرے اور مباح مشتبہ سے فائدہ نہ اٹھائے لیکن جس مباح یا جس رخصت پر قلب مطمئن ہے‘ محض اس خیال سے اس کو چھوڑنا کہ اصلی دین داری سخت راہ اختیار کرنے میں ہے‘ یہ تقویٰ نہیں ہے بلکہ تقویٰ سے دھینگامشتی ہے۔