عبدالستار


قیامِ پاکستان کے ۷۰سال گزرنے کے بعد جب مَیں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو تمام ناہمواریوں کے باوجود یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات اچھے ہمسایوں والے ہو سکتے تھے۔ آغاز تو امیدافزا تھا۔ تقسیم بھی اتفاق راے سے ہوئی تھی۔ دوسب سے بڑی سیاسی جماعتوں نے برطانوی تجویز پر صاد کیا اور خود ارادیت کے بنیادی انسانی حقوق کے غیر مبہم اصول کو تسلیم کرنے کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

پُرامن ذرائع سے پاکستان کے حصول کے بعد قائد اعظم کا خیال یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود تمام اختلافات بھی بین الاقوامی قانون اور عدل کے اصولوں کے مطابق حل کر لیے جائیں گے۔ دونوں ملکوں نے اقوام متحدہ کا چارٹر (Charter) تسلیم کیا تھا، جو اپنے ارکان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ طاقت کے استعمال سے باز رہیں گے۔ باہم تنازعات دو طرفہ گفتگو اور مذاکرات سے حل کریں گے اور اگر اس طرح سے تنازعات طے نہ ہوسکیں تو ان کے حل کے لیے غیر جانب دارانہ (مصالحتی ) طریق کار، مثلاً ثالثی وغیرہ کو اختیار کیا جائے گا۔ لیکن عملی دنیا میں یہ دیکھ کر پاکستان جلد ہی حیرت زدہ رہ گیا کیوںکہ انڈین نیشنل کانگریس عظیم طاقت بننے کے ایک فرسودہ تصور سے متاثر ہو کر جنوب ایشیائی خطے پر غلبہ حاصل کرنے پر تل چکی تھی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کش مکش کی بنیاد کو اس سامراجی ریت (paradigm) کی روشنی میں بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے جس کے تحت ایک بڑی ریاست، طاقت کی عدم مساوات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ، پاکستان جیسے ایک نسبتاً کم طاقت ور ملک پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اصل میں آزادی کی تحریک کے آغاز ہی سے یہ برہمنی ذہنیت زدہ کانگریس کے رہنمائوں کا محبوب ترین خواب تھا۔ یہ بات اس کے اس مطالبے سے بھی واضح ہو جاتی ہے، جو   اس نے ۱۹۱۹ء میں ’پیرس امن کانفرنس‘ میں نشست حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔ اس کے لیے یہ دلیل دی کہ: ’بھارت (India ) کا عظیم طاقت بننا اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے‘۔ حیران کن طور پر پنڈت جواہر لال نہرو،جو ایک بیرسٹر تھے اور جنھوں نے بیرسٹر محمدعلی جناح کی طرح انگلستان کے ایک معروف قانون کے ادارے میں تعلیم حاصل کی تھی، انڈیا کے بارے میں قرونِ وسطیٰ کا    یہ نظریہ رکھتے تھے کہ وہ ایک عظیم طاقت ہے۔ ان کا مستقبل کا تصور یہ تھا کہ بھارت کا دائرۂ اثر    باب المنداب سے آبنائے ملاکا تک ہو گا۔

نہرو کی قیادت میں، بھارت نے نیپال اور بھوٹان پر غیر مساویانہ معاہدے ٹھونسے اور پرتگالی گوا کو فتح کر لیا۔ طاقت کے عدم توازن سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے بھارتی عمل کا اوّلین ہدف پاکستان تھا۔ بھارت نے بعد از تقسیم برطانوی ہند کے اثاثوں کی تقسیم کے لیے معاہدوں پر دستخط کیے، لیکن ان میں سے کچھ پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر دیا۔ تقسیم کے ایک ہی سال بعد حیدرآباد دکن کی خودمختار مسلم ریاست کو ایکشن کرکے بھارت میں ضم کرلیا۔

جب جونا گڑھ کی ننھی سی ریاست کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تو  بھارت نے وہاں فوجیں داخل کر دیں تو اس کے لیے دلیل یہ دی کہ یہ تقسیم کے اصول کی صریح خلاف ورزی ہے، لیکن جموں اور کشمیر کے حوالے سے ’صریح خلاف ورزی ‘کا مرتکب ہونے پر نہرو کو ضمیر کی خلش نام کی کوئی چیز لاحق نہیں ہوئی۔

اس سے بھی زیادہ حیران کن امر یہ تھا کہ نہرو دانستہ طور پر دھوکا دہی پر اتر آئے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی ان قرارداد وں کو، جن میں جموں اور کشمیر میں راے شماری (Plebiscite) کے لیے کہا گیا تھا، بھارت نے اسے قبول کرنے کی منظوری دی تھی، لیکن ایک خفیہ نوٹ (note ) میں اپنے اس ارادے اور نیت کا اظہار کیے رکھا کہ استصواب کی قرار داد پر عمل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت (رکن ممالک پر ) یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے تنازعات، غیر جانب دارانہ بین الاقوامی ضابطوں ، مثلاً ثالثی کے تحت حل کریں۔ لیکن ’سندھ طاس‘ معاہدے اور ’رن آف کچھ‘ کی حد بندی کے دو معاملات کے سوا ، بھارت کی طرف سے اس ذمہ داری سے سر کشا نہ فرار ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ اس طرزِ عمل میں بھی بھارت کی ’عظیم طاقت بننے والی‘ جارحانہ عصبیت کا رفرما نظر آتی ہے۔

اُوپر جن دو معاملات کا ذکر ہوا ہے ، ان میں سے اوّل الذکر کے لیے عالمی بنک نے مدد دی تھی اور اس معاہدے کے نتیجے میں ہونے والے ادل بدل کے لیے پاکستان میں درکار تعمیراتی منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی تحریک کی تھی۔ ’رن آف کچھ‘ کی حد بندی کا معاملہ ثالثی کے ذریعے طے کیا گیا۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں متنازعہ علاقے کا صرف ۱۰فی صد پاکستان کو دیا گیا ، لیکن اس کے باوجود بھارت نے اپنے طور پر یہ عہد کر لیا کہ وہ آیندہ کبھی بھی غیر جانب دارانہ ثالثی پر اتفاق نہیں کرے گا۔ 

اس تمام عرصے میں بھارت کا طرزِ عمل یہ رہا ہے کہ اگر گفت وشنید سے معاہدات طے بھی پاجاتے ہیں تو وہ اس پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اس کی یک طرفہ تشریح پر اصرار کرتا ہے۔ جولائی ۱۹۷۲ء کے ’شملہ معاہدے‘ میں یہ پیمان کیا گیا تھا کہ فریقین جموں اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اور طاقت کے استعمال سے مکمل اجتناب کریں گے، لیکن بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کی آخری حد سے آگے بڑھ کر سیاچین کے پہاڑوں میں گلیشیروں  والے علاقے پر قبضہ کر لیا۔

بھارت کے ایک رہنما کا تنقیدی حوالے سے بار بار نام لینا قابلِ افسوس ہے، لیکن نہرو نے قانون اور اخلاقیات کے اصولوں کی جس حقارت آمیز طریقے سے بار بار بے حُرمتی کی ہے، اس کی وجہ سے یہ اذیت ناک ذکر ناگزیر ہے۔ تاہم، خوش قسمتی سے بعد میں چند وزراے اعظم نے اصولوں کے مطابق رویہ اختیار کیا۔ مثال کے طور پر مرار جی ڈیسائی نے دوسرے جنوب ایشیائی ممالک میں عدم مداخلت کے اصول کی سختی سے پابندی کی۔ جب قتل کے مقدمے میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان کی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آیا تو اس پر بھارتی صدر نے کھلے عام تبصرہ کیا، مگر واجپائی نے صدر کے اس فعل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

  ایک اور ممتاز رہنما ، جس نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی، اٹل بہاری واجپائی تھے۔ لاہور کے دورے کے دوران انھوں نے بی جے پی کے نمایاں رہنمائوں کو مینارِ پاکستان لے جا کر وہاں پھول چڑھائے ۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ انھوں نے تقسیم کو تسلیم کر لیا ہے،  جس کی ۱۹۴۷ء سے جن سنگھ مخالفت کرتی رہی تھی۔ جنگی ہتھیاروں (strategic weapons) میں پوشیدہ خطرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، انھوں نے ایٹمی جنگی ہتھیاروں سے وابستہ خطرات کو    کم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔

تاہم، ابھی تک بھارتی اسٹیبلشمنٹ عظیم طاقت کے قدیم تصور کی غلام ہے۔ جموں اور کشمیر کے مقبوضہ حصوں کے عوام پر اپنا قبضہ ناجائز طور پر برقرار رکھنے کے لیے اس نے غیر انسانی   ظلم وستم کا بازار مسلسل گرم کر رکھا ہے۔ کشمیر ی عوام نے آزادی کی جدوجہد میں عالی حوصلگی سے قربانیاںدی ہیںاور کشمیر ی عوام کے اس انصاف پر مبنی نصب العین کی حمایت میں پاکستان بھی ثابت قدم رہا ہے۔ جب تک بھارت تشدد اور ظلم وستم کو جاری رکھے ہوئے ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور معمول کے تعلقات ایک خواب ہی رہیں گے۔

باہمی بقا کے تحفظ کے لیے ، دونوں ملکوں کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہو گی اور بین الاقوامی برادری نے جنگ کی روک تھام اور تنازعات اور اختلافات کے پُرامن تصفیے کے لیے جو طریقِ کار طے کیا ہے، اس سے فائدہ اٹھانا ہو گا۔انسانی تہذیب کی ترقی،من مانے نتائج (جو کہ عام طور پر تباہ کن ہوتے ہیں ) کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال سے دست برداری سے براہِ راست منسلک ہے۔ (ترجمہ: پروفیسر خالد محمود)

خط تو بہت آتے ہیں لیکن اس خط کی اپنی بات ہے۔ پڑھیں تو پڑھتے رہ جائیں‘ سوچیں تو سوچتے    رہ جائیں۔ یااللہ! ہم مسلمان کس چیز کو چھپائے بیٹھے ہیں! ہر کلمہ پڑھنے والا اس جذبے سے سرشار ہوجائے تو دنیا کیا سے کیا ہوجائے۔ (ادارہ)

میری عمر ۴۴ سال ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے جیل میں ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہا ہوں۔ قید تو ۱۵ سال کی ہے لیکن اللہ جل جلالہ جانتے ہیں کہ کب رہائی ہوگی۔ قید کیوں کاٹ رہا ہوں؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ آپ نے حوصلہ افزائی کی تو پھر دوبارہ ان شاء اللہ تفصیل سے لکھوں گا۔ آپ کو خط لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی توجہ ایک واقعے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔

قصہ یوں ہے کہ میں اس جیل کے ایک یونٹ کا قائم مقام امام ہوں۔ اس جیل میں تقریباً ساڑھے تین ہزار قیدی ہیں۔ اس جیل میں ایک خاص یونٹ ہے‘ جس میں تقریباً ۳۰۰ قیدی ہیں۔ یہ یونٹ خاص طور پر قانون ساز اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد پولیس‘ وکیل‘ جج‘ ایف بی آئی‘ کسٹم‘ سی آئی اے اور دیگر قانون ساز اداروں سے تعلق رکھنے والے افسروں کے لیے ہے۔ میں بھی پہلے ایک فیڈرل ایجنسی میں ملازمت کرتا تھا۔ بات یوں ہے کہ چند مہینے پہلے کسی قیدی نے مجھے ترجمان القرآن مئی ۲۰۰۰ء کا ایک پرانا شمارہ دیا۔ میں نے ایک سرسری نظر ڈال کر ایک طرف رکھ دیا۔ ایک دن کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا تو میں نے شمارے کی ورق گردانی کی اور    خرم مراد صاحب کا مضمون ’’دعوتِ عام کی بنیادیں‘‘ دھیان سے پڑھا۔ اُن کی باتیں دل کو لگیں۔ اگلے جمعہ کو اُن کے مضمون سے کچھ حصے لے کر انگریزی میں ترجمہ کیا اور جمعۃ المبارک کے خطبے کے دوران وہ سب باتیں دہرائیں۔ سبحان اللہ‘ جمعہ کی نماز کے بعد سات افراد نے اسلام قبول کیا‘   جن میں دو جیل کے اہل کار بھی شامل تھے۔ یہ میرے لیے تو ایک بہت بڑی بات تھی۔ جب سے اسلام کی دعوت کا کام شروع کیا ہے‘ ایسا بڑا واقعہ پہلے کبھی رونما نہیں ہوا‘ گو کہ کافی لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔

صاحب‘ بات یہ ہے کہ میں گناہ گار‘ کم عقل اپنے آپ کو اس قابل نہیں گردانتا۔ میں تو دنیادار‘ کم فہم اور رند خرابات قسم کا بندہ تھا۔ میری معلومات دین کے بارے میں صرف اتنی تھیں کہ کبھی کبھار نماز پڑھ لی یا قوالیاں سن کر اپنے آپ کو مسلمان سمجھ لیا۔ یہ تو جیل آکر پتا چلا کہ دین کیا ہے۔ کبھی تو سوچتا ہوں کہ شاید میرے مالک نے مجھ سے یہ کام لینا تھا‘ اس لیے جیل میں آیا۔ مجھے نہیں پتا کہ خرم مراد صاحب کون ہیں۔ میں نے تو اُن کا نام پہلی بار پڑھا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے بارے میں اتنا پتا تھا کہ وہ وہابی ہیں۔ گھر میں والد صاحب اُن کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ جیل کی مسجد کی صفائی کرتے وقت مجھے اُن کی لکھی کتاب خلافت و ملوکیت ملی‘ پڑھ کر ایمان تازہ ہوگیا۔ ایک دوست سے گزارش کرکے مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن منگوا کر پڑھی تو قرآن پاک کے اصل مفہوم سے واقف ہوا اور اُسی کو لے کر کالے گوروں میں دین اسلام بانٹتا  پھر رہا ہوں۔ باہر کی دنیا سے رابطہ منقطع ہے‘ ورنہ مولانا مرحوم کی لکھی ہوئی سب کتابیں پڑھوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُن کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین!

آپ سے گزارش ہے کہ اگر آپ مجھے ترجمان القرآن کا شمارہ بھیج دیا کریں تو میرے علم میں اضافہ ہوگا اور میں تبلیغ کا کام بہتر طریقے سے کر پائوں گا۔

خرم مراد صاحب کی خدمت میں میرا مؤدبانہ سلام عرض کریں اور اُن تک یہ خبر پہنچا دیں۔ اُن سات افراد میں‘ میں نے دو کا نام آپ کے نام سے رکھا ہے۔ ایک کا خرم اور دوسرے کا مراد۔ اُن کی لکھی ہوئی ایسی ہی عمدہ تحریریں اگر آپ بھیج دیں تو نہایت مشکور ہوں گا۔

بس اتنی خواہش ہے کہ دین اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کروں تاکہ نومسلموں کی صحیح رہنمائی کر سکوں۔ (۲۷ اگست ۲۰۰۵ئ)