سمیہ رمضان


انسان جب مخالف سمت میں محوِ سفر ہو تو اُس کو تھکاوٹ کے سوا کیا حاصل ہوسکتا ہے۔ نہ وہ منزل کو پاسکتا ہے اور نہ منزل اُس سے قریب ہوسکتی ہے۔ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ قرآنِ مجید کا نسخۂ ہدایت ہمارے گھروں کی زینت ہے۔ لائبریریوں میں موجود ہے، گاڑیوں میں رکھا ہوتا ہے، غرض یہ کہ قرآن ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ ہم جدید و قدیم ہر ذریعے سے اس کو سن اور تلاوت کرسکتے ہیں۔ ہم میں سے کثیرتعداد اس کی تعلیم اس لیے حاصل کرتی ہے کہ وہ اس کو ناظرہ پڑھ سکیں، زبانی یاد کرسکیں۔ ہم اس قرآن کو نمازوں میں سنتے اور پڑھتے ہیں۔ خود بھی سال بھر بلکہ ساری زندگی اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ضروری ہے، بہت قابلِ رشک ہے___ مگر سوال یہ ہے کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کرتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ قرآن کو ہم اپنے لیے وہ دستورِ حیات سمجھتے ہیں جو ہمارے خالق و مالک نے ہمارے لیے نازل کیا ہے اور اس کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کا حکم دیا ہے؟ کیا ہم واقعی دنیا اور اس کے بچھے ہوئے جال سے بچ کر خوشنودیِ رب اور سعادتِ دارین کی خاطر ایسا کرتے ہیں؟

قابلِ تعریف بات تو یہی ہے کہ ایسا ہی ہو مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جگہ جگہ درسِ قرآن کی محافل منعقد ہوتی ہیں۔ لوگ ایسی آیات کے دروس سننے کے لیے ذوق و شوق سے آتے ہیں جو آیات محبت ِ الٰہی پر اُبھارتی ہوں، ان میں سامعین کی دل چسپی بہت گہری ہوتی ہے۔لیکن جونہی آپ  اُن سے کسی ایسی آیت پر گفتگو کریں جو انسانی عادات اور معاشرتی رویوں کے خلاف ہو ، تو لوگوں کے ذہن ایسی باتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بیش تر معاشروں میں کسی آیت کے نفاذ کو لوگ اہمیت نہیں دیتے ہیں، حالانکہ یہ معاشرے اسلامی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے اُن کے رسوم و رواج اور عادات و اطوار تو بالکل آیاتِ قرآن سے متصادم نہیں ہونے چاہییں۔ افسوس کے ساتھ مَیں آپ کو ایک ایسے ہی واقعے سے متعارف کروانا چاہتی ہوں، تاکہ ایسے معاشرتی رویوں کی خطرناکی واضح ہوسکے جن کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی مگر وہ ہمارے معاشروں کی اقدار، روایات، رواج اور عُرف و عادت کے طور پر فرض کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔

ایک خاتون اچھے مشاہرے پر ملازم تھی۔ ایک طویل انتظار کے بعد اس کی شادی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کو اولاد کی نعمت سے نوازا۔ وہ اپنے بچوں کے درمیان ایک خوش گوار احساس لیے زندگی بسر کر رہی تھی ___مگرایک روز ایسا ناخوش گوار واقعہ پیش آگیا جو اکثر گھروں میں پیش آتا ہے، یعنی شوہر کے ساتھ ناچاقی کا حادثہ۔ خاتون کے خیال میں اُس کا شوہر بعض اہم گھریلو  ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھا۔ اُس نے بہت سے وعدے کیے مگر کوئی ایفا نہ ہوا۔ پھر خاتون نے بھی وہی کیا جو عمومی طور پر آج کی عورتیں کرتی ہیں۔ اُس نے شوہر کا گھر چھوڑا اور میکے میں جاکر رہنا شروع کر دیا۔ جاتے ہوئے یہ تک کہہ گئی کہ تم وعدہ پورا کرو گے تو مجھے واپس لاسکو گے۔

پھر دنوں پر دن گزرتے رہے، شوہر تنہا رہا، البتہ شیطان اُس کا ساتھی تھا۔ شیطان اس واقعے کو اُس کے لیے بہت اہم بناکر اُسے غیرت دلاتا رہا، اُس کو عدم مردانگی کا طعنہ دیتا رہا کہ وہ بیوی کی بغاوت کو بھی نہیں کچل سکا۔شوہر بیوی سے یہ کہتے ہوئے ملا کہ : ’’گھر آکر اپنی تمام ذاتی اشیا لے جائو‘‘۔ شوہر نے اس کے لیے وقت مقر کردیا اور خود اتنا وقت گھر سے باہر رہنے کا کہا۔ آخر میں یہ کہا: ’’آج کے بعد تو اس گھر میں داخل نہیں ہوسکتی‘‘۔ خاتون شوہر کے ساتھ جس گھر میں رہایش پذیر تھی وہ اس کے شوہر کے والد کی جایداد تھی۔ خاتون نے ایک دفعہ تو سوچا کہ میں اور میرے بچے اس گھر کے سوا کہاں گزارا کریں گے کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ تو میں بچوں سمیت رہ نہیں سکوں گی۔ پھر اُس نے اپنی ساس سے ملاقات کی اور اس سے شکایت کرنا چاہی مگر بدقسمتی سے وہ بھی الٹا الزام تراشی کرنے لگی کہ میرے بیٹے نے تو یہ سب کچھ تنگ آکر کیا ہے۔ خاتون کو یقین نہیں آرہا تھا کہ میں جو کچھ سن رہی ہوں یہ حقیقت ہے۔

خاتون کے والدین کو اس واقعے کا علم ہوا تو والد غضب ناک ہوکربولا: کیا اس کا شوہر   یہ رشتہ لینے اس کے والدین کے گھر نہیں آیا تھا؟ اب ایسے اہم مسئلے میں وہ لڑکی کے والد سے رجوع کیوں نہیں کرسکتا؟ فضا خاصی ناسازگار ہوگئی تھی۔ سب کا خیال تھا کہ جو کچھ ہوا ہے یہ بڑی رُسوائی ہے، اس کا ازالہ اس مرد سے طلاق لے کر ہی ہوسکتا ہے۔ بالآخر طلاق ہوگئی۔

خاتون کے تعلقات ایک تحریکی ساتھی کے ساتھ تھے۔ اُس نے وقت ضائع کیے بغیر اُس سے رابطہ کیا اور آہ و بکا کے بعد ذرا پُرسکون ہوئی تو اپنی داستان سنانے لگی اور اُسے اپنے اور اپنے بچوں کے اُوپر ہونے والے ظلم کی انتہا قرار دیا۔ تحریکی ساتھی نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے اس طرح کی مشکلات کے حل کے لیے ہمیں ایک دستور عطا کیا ہے۔ تم دونوں کا یہ عمل کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ پر پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت میں دیکھ سکیں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ خاتون کے سانس بحال ہوئے، اور وہ ہرلفظ کو بڑے غور اور توجہ سے سننے کی کوشش کررہی تھی۔ تحریکی ساتھی نے کہا: تو نے اپنا گھر کیوں چھوڑا جب تو اپنے شوہر سے ناراض تھی؟ تجھے معلوم نہیں کہ وہ ایک مشکل مرحلے میں ہے، یعنی طلاق دے چکا ہے۔ رجعی طلاق میں عورت کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنا گھر چھوڑ دے۔ یہ اللہ سبحانہٗ کا حکم ہے، فرمایا:

لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ م بُیُوْتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ اِِلَّا ٓ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ (الطلاق ۶۵:۱) (زمانۂ عدت میں) نہ تم انھیں اُن کے گھروں سے نکالو، اور نہ وہ خود نکلیں، الا یہ کہ وہ کسی صریح بُرائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپر خود ظلم کرے گا۔

لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب عورت کو پہلی طلاق دی جاتی ہے تو وہ فوراً اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ یہ غلط اور حرام ہے کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ نہ تم انھیں گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود وہاں سے نکلیں۔ استثنائی صورت ہے تو صرف یہ کہ وہ عورت کسی بے حیائی کا ارتکاب کرے۔ پھر فرمایا:

وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ (الطلاق ۶۵:۱)  یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپر خود ظلم کرے گا۔

اس کے بعد اس حکم کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا (الطلاق ۶۵:۱) ’’تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے‘‘۔لہٰذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ حدود اللہ کا خیال رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کریں۔ شرعی اُمور و احکام کو معاشرتی اور ذاتی روایات کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اسلام اس مشکل کے حل کے لیے کیسے راہ نکالتا ہے۔ فرمایا:

وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَاج اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا (النساء ۴:۳۵) اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے  مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔

یہاں بات صرف شقاق (بگاڑ) کے خدشے کی ہے۔ اگر یہ خدشہ نظر آجائے تو اس سے ڈرنا چاہیے اور اُس وقت دو حَکم (ثالث) ، ایک عورت کی طرف سے اور ایک مرد کی طرف سے مداخلت کریں۔ ان دونوں کا مقصد اصلاح ہو۔ اب میاں بیوی لازماً ایک ہی گھر میں رہیں گے۔ یہ دونوں ثالث اُن کے پاس اصلاح اور صلح و صفائی کی غرض سے جائیں گے جہاں یہ دونوں میاں بیوی مقیم ہوں گے اور انھیں اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا احساس بھی ہوگا کہ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔

یہ اس معاملے کے حل کی قرآنی صورت ہے۔ اب اس صورت حال کو پیدا کرنا مرد و عورت کو الگ الگ رکھ کر ممکن نہیں، نہ ٹیلی فون پر گفتگو کے ذریعے اس نتیجے پر انھیں پہنچایا جاسکتا ہے۔ لیکن آج کل یہی ہوتا ہے، جس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ہے۔چنانچہ تحریکی ساتھی نے اُس سے کہا کہ تو کیوں غضب ناک ہوکر اپنا گھر چھوڑ آئی؟ اُس گھر کو تیرا گھر تو اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے۔ عورت اپنے میکے کی طرف نہیں جاسکتی خواہ اُس کے اور شوہر کے درمیان بگاڑ کا خدشہ ہی ہو، بلکہ وہ اپنے گھر میں جم کر رہے اور اصلاح کی پوری کوشش کرے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ آئے گا، یعنی اُس کی ذاتی کاوش کے بعد اگلا مرحلہ ثالثوں کی کوشش کا ہوگا۔ نہ تم نے یہ کیا ہے اور نہ تمھارے شوہر نے۔ خاتون نے بڑی انکساری سے پوچھا: تو پھر اب اس کا حل کیا ہے؟ تحریکی ساتھی نے جواب دیا: اپنے گھر واپس چلی جائو۔ اُس نے کہا: یہ تو مشکل ہے۔ مجھے جو کچھ کہا گیا ہے میرے جانے کے بعد اب وہ کیسے مجھے برداشت کریں گے؟ میں اس صورت حال میں خود اپنی عزت کو کیسے رُسوائی سے دوچار کرسکتی ہوں؟

تحریکی ساتھی نے کہا: سبحان اللہ، کیا تجھے شروع میں ہی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ اسی طرح کی کیفیت میں تو اللہ تعالیٰ کوئی راستہ نکالے گا۔ پھر بات یہ ہے کہ یہی ابلیس کا مسئلہ تھا۔ وہ بھی ہماری طرح جانتا تھا کہ اللہ ایک ہے۔ زمین و آسمان کی حکومت اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ یہ سب کچھ جانتا تھا مگر جب اللہ نے اپنی بادشاہت میں زمین پر ایک خلیفہ بنانا چاہا تو یہاں شیطان نے اعتراض کر دیا۔ آج اپنے گردوپیش میں ہم بھی یہی کچھ دیکھتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ایک ہے، وہی نگہبان و نگران ہے۔ ہم اسماے حسنیٰ کا ورد کرتے ہیں، اپنے خالق و مالک کے لیے نماز ادا کرتے اور روزہ رکھتے ہیں۔ کبھی صدقہ و خیرات بھی کردیتے ہیں۔ خالق اور معبود کے ساتھ اپنی محبت کا واشگاف اظہار کرتے ہیں۔ لیکن جونہی اس خالق اور معبود کا کوئی ایسا قانون ہمارے سامنے آتا ہے جو ہماری عادات سے ٹکراتا ہو، ہماری خواہشات کے برعکس ہو، تو اس کے نفاذ کی بات ہمارے اُوپر سکتہ طاری کردیتی ہے۔ جب ہمارا عمل یہ ہے تو پھر ہم معبود کی ربوبیت اور اُلوہیت کے کیونکر قائل ہوسکتے ہیں؟ اُس کے حکم کو سن کر کیوں اس پر عمل کرنا لازمی نہیں سمجھتے؟ مَیں سمجھتی ہوں کہ آپ کے والد نیک آدمی ہیں، آپ اُن سے کہیں کہ وہ آپ کے شوہر کو بلائیں اور اُس کی بات سنیں۔ اگر وہ اُس کے ساتھ گفتگو میں کسی حل پر نہ پہنچ سکیں تو مرد کے خاندان سے کسی ثالث کو بلالیں، اور اس کے ساتھ بیٹھ کر اس بکھرتے ہوئے خاندان کو یک جا کرنے کی کوئی سبیل نکالیں۔

خاتون کے شوہر کو بلایا گیا تو اُس نے آکر خاتون کے والد سے کہا کہ یہ اب آپ کی بیٹی ہے، یعنی میں اس کو طلاق دے چکا ہوں۔ والد اس کو رسوم و رواج کے مقابلے میں قرآن کی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے کہا کہ اس حالت میں تمھیں اپنی بیوی کو اپنے گھر میں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ خاتون کے والد نے اللہ کا وہ دستور اُس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جس دستور کی بنیاد پر اُس کی بیٹی اس مرد کی بیوی قرار پائی تھی۔ سورئہ طلاق کی پہلی آیت اُس کے سامنے رکھی۔ نوجوان نے آیت دیکھ لی مگر کہتا رہا کہ ہم تو ایسا نہیں کریں گے۔ مطلقہ لڑکی اپنے والدین کے گھر میں ہی رہتی ہے، شوہر کے گھر میں نہیں۔ طلاق کے بعد اب وہ کیسے میرے پاس رہ سکتی ہے؟ خاتون کے والد نے مومنانہ وقار کے ساتھ کہا: ایک گھنٹہ قبل مَیں بھی تمھاری طرح ہی سوچ رہا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے صحیح راہ کی طرف میری رہنمائی کردی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب اپنی عمر کا اختتام اس آیت کے نفاذ پر کروں۔ تم یہ خیال نہ کرو کہ یہ فیصلہ میرے لیے کوئی آسان تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اُس کے احکام ہیں جس کی ہم نے تمھارا نکاح کرتے ہوئے اطاعت کی تھی۔

معاملہ شوہر کے ہاتھ میں چلا گیا۔ وہ بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا اور بیوی اُس کے گھر سے اپنی ذاتی اشیا اُٹھا کر واپس لانا چاہتی تھی۔ گویا معاملہ ایسا معمولی تھا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ لیکن اب مرد اپنے گھروالوں سے کیا کہے۔ اس پر اُس کی والدہ کا ردعمل کیا ہوگا۔ طلاق کے بعد وہ گھر میں کیسے رہ سکے گی؟ نوجوان نے خاتون کے والد سے کچھ مہلت مانگی کہ وہ سوچ بچار کرلے پھر جواب دے گا۔

خاتون نے تحریکی ساتھی سے یہ ساری صورت حال بیان کی تو اُس نے خاتون کو اپنے گھر چلے جانے کا مشورہ دیا۔ اس کے شوہر سے بھی کہا کہ وہ بیوی کو گھر لے آئے کیونکہ بہرحال یہی خاتون کا گھر ہے۔ خاتون کے دل میں جنگ برپا تھی کہ وہ کیسے ایک بار پھر سسرال کے ہاں جائے گی؟ اُن کا ردعمل کیا ہوگا؟ تحریکی ساتھی نے اُس کو کثرت کے ساتھ ذکر الٰہی کرنے اور اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت  اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پڑھنے کو کہا۔بالآخر خاتون اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھر چلی گئی۔

پاک ہے وہ ذات جس نے فرما رکھا ہے:  لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا (الطلاق ۶۵:۱) ’’تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے‘‘۔ جب بیوی اور شوہر باہر نکلے تو وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات پر گفتگو کر رہے تھے۔ بیوی نے اپنے گھر سے نکل کر شریعت کے خلاف عمل پر معذرت کی۔ اُس نے دراصل اس واقعے سے ایک سبق سیکھا اور قرآنِ کریم کی ایک آیت کے اُوپر عمل اور اس کے حقیقی نفاذ کو ممکن بنایا۔ وہ ہزاروں درسِ قرآن بھی سنتی تو آیات کی ایسی تفہیم اُسے حاصل نہ ہوسکتی جو اَب ہوچکی تھی۔

اُس کے شوہر نے سوچنے کے لیے وقت مانگا، مگر جب بیوی بچے اُس کے پاس چلے گئے تو  حالات نے اُس کو عملی کیفیت میں لاکھڑا کیا۔ اُس نے اپنے بچوں کو دیکھا،بیوی پر نگاہ پڑی کہ وہ خود کو تبدیل کرنا چاہتی ہے، تو برف پگھلی اور میاں بیوی کے درمیان رحمت و مؤدت اُبھری۔  تحریکی ساتھی کے ساتھ آخری گفتگو میں خاتون نے بتایا کہ معاف کیجیے گا میرے پاس وقت نہیں، میرے شوہر میرا انتظار کر رہے ہیں۔ انھوں نے مجھے شام کے کھانے کی دعوت دی ہے۔ بچے کہاں ہیں؟ اُس نے کہا: اُنھیں اُن کی دادی کے پاس چھوڑ آئے ہیں، ہم اکیلے جارہے ہیں۔ اُس کی آواز فرحت و مسرت سے سرشار تھی۔ تحریکی ساتھی نے فون بند کیا اور وہ کہہ رہی تھی: ’’اے رحمن و رحیم!  وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے تیری آیات پر عمل کیا‘‘۔(mugtama.com)

ترجمہ: گل زادہ شیرپائو

ہماری ملاقات ایک بنک میں ہوئی۔ یہ ایک مصروف بنک ہے جس میں ہمیشہ ہجوم رہتا ہے۔ میری نگاہوں کو ایک خاتون نے اپنی طرف متوجہ کیا جو ۵۰سال سے زیادہ عمر کی تھیں۔ ان کے ہونٹ تسبیحات کے ساتھ آہستہ آہستہ حرکت کر رہے تھے۔ اﷲ کے بندوں کی یہ تسبیحات مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ اس طرح کے لوگوں پر نظر پڑتی ہے تو میری سوچ بہت دُور چلی جاتی ہے۔ اُس بلند مقام کی طرف جہاں اﷲ کے فرشتے اس کے عرش کے گرد تسبیحات میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ اس خالق احد کی تسبیحات کرتے رہتے ہیں جو ساری چیزوں کو عدم سے وجود میں لایا۔

میں نے اس خاتون کو دیکھا تو ہمارے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔ میں چاہ رہی تھی کہ ان سے تعارف ہو‘ اس لیے کہ میں اور وہ دونوں اﷲ سے محبت کے رشتے میں شریک تھیں۔      ان خاتون کا کام مکمل ہوا تو وہ سلام کرتے ہوئے چل پڑیں۔ میں نے مخلصانہ دلی دعائوں سے ان کو الوداع کیا کہ اﷲ تعالیٰ ان کو استقامت عطافرمائے۔ پھر میں اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔

  • بہلائی کا زریں موقع: کافی دیر بعد جب میں اپنا کام ختم کرکے باہر نکلی تو میں نے دیکھا کہ وہ ابھی تک کسی سواری کی تلاش میں ہیں۔ میں نے آگے بڑھ کر ان سے پوچھا کہ ان کو کہاں جانا ہے اور پھر کسی تردد کے بغیر ان کو پیش کش کی کہ میں انھیں گھر چھوڑ آئوں۔ اس لیے کہ جن لوگوں کی زبان پر ہر وقت ذکروتسبیح ہو، ان کے ساتھ چند لمحات گزارنے کا موقع ضائع نہیں کیاجاسکتا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب انھوں نے آمادگی کا اظہار کیا۔

ہماری مہمان کہنے لگیں کہ اﷲ کا شکر ہے کہ وہ ہم پر اپنا فضل کرتا رہتا ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہوتا اور شاید احساس بھی نہیں۔ آج اﷲ نے مجھے اپنی اس رحمت سے نوازا ہے کہ اس نے  آپ کے دل میں رحم ڈال دیا۔ ایک مرتبہ پہلے بھی میرے ساتھ ایسا ہی ہوا کہ اﷲ نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے دل میں میرے لیے رحم پیدا فرمایا۔میں نے ان کی طرف تفصیل طلب نگاہوں سے دیکھا تو وہ کہنے لگیں: میں شرم الشیخ میں تھی۔ ہمارا ایک رشتے دار بیمار پڑ گیا۔میں اور میرے میاں ان کی عیادت کے لیے جارہے تھے۔ ہم ایک ٹیکسی میں بیٹھے۔ ہسپتال کے قریب پہنچ کر مجھے یاد آیا کہ میں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی۔میں نے اپنے میاں سے کہا کہ پہلے کسی قریبی مسجد میں جاکر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ میرے میاں کو اس بات کی پریشانی تھی کہ ڈرائیور ہمارا انتظار نہیں کرے گا۔

اب ہم ہسپتال کے قریب پہنچ چکے تھے اور میں نماز پڑھنے پر اصرار کررہی تھی۔ ڈرائیور نے پوچھا: کیا آپ مسجد میں نماز پڑھنا چاہتی ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس نے قسم کھا کر کہا کہ میں ضرور آپ لوگوں کو مسجد لے جائوں گا، مگر اضافی کرایہ نہیں لوںگا، تاکہ میں بھی آپ کے ساتھ ثواب میں شریک ہوجائوں۔ جب اس نے یہ بات کہی تو میں نے دل میں ارادہ کیا کہ اس کے نیک جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے اس کو زیادہ کرایہ دوں گی۔ لیکن جب ہم نے اس کو اضافی کرایہ دینا چاہا تو      اس نے صاف انکار کیا اور میرے میاں سے کہا کہ مجھے ثواب سے محروم نہ کریں۔

  • بہلائی کا بدلہ : مجھے ڈرائیور کے اس فعل پر رنج ہوا۔ بہر حال نماز پڑھنے کے بعد عطیات کے صندوق پر نظر پڑی۔ میں نے بلا تامل وہ پیسے جو میں نے ڈرائیور کو اضافی طور پر دینے کا ارادہ کیا تھا عطیات کے صندوق میں ڈال دیے۔ اس دوران‘ میں اپنے پروردگار سے، جو بہت پیار کرنے والا ہے، یہ سرگوشی کررہی تھی : اے میرے پروردگار! اس شخص نے مجھ پر مہربانی کی اور تجھ سے اجر کا طالب ہوا۔ میں جو پیسے اس صندوق میں ڈال رہی ہوں وہ اس نیت سے ڈال رہی ہوں کہ اس نے میرے ساتھ جو انسانی شفقت کی ہے، تیری ذات پاک ہے اور تو جس کو چاہے، کئی کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے، اس رقم کو اس کے لیے کئی گنا بڑھادے اور اس پر اپنے فضل کی بارش کردے۔

اس طرح میں نے وہ رقم ڈرائیور کے لیے صندوق میں ڈال دی۔ پھر ہم مریض کی عیادت کے لیے گئے۔ وہاں بہت سے لوگ مریض کو دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ میں نے سب کو یہ واقعہ سنایا۔ ان میں سے ایک خاتون نے میرے ساتھ سرگوشی کی کہ میری والدہ بیمار ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں اس کے لیے ضروری چیزیں ساتھ لے جاسکوں۔ لیکن اب تم نے بتایا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک ڈرائیور کے لیے تمھارے دل میں ڈال دیا کہ اس کے لیے صدقہ کروں۔ امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ ڈرائیور کے اس ثواب کو کئی گنا بڑھادے گا اور وہ ایسے وقت میں اس کے کام آئے گا جب وہ اس کا بہت محتاج ہوگا۔ اس کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ اس کے لیے کسی نے یہ صدقہ کیا ہے۔ اس لیے میں اب اپنی والدہ کے پاس جائوں گی۔ ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے بھی اسی طرح جذبۂ خیر سے نوازے جیسا کہ ڈرائیور کو نواز رکھا تھا اور اس نے ایک مسلمان خاتون کے ساتھ بروقت نماز کی ادایگی میں تعاون کیا اور اس پر نہ مزدوری لی اور نہ احسان کا طلب گار ہوا۔امید ہے کہ میں اپنی والدہ کو دیکھنے کے لیے جو خرچ کروں گی وہ ایسا ہی خرچ ہوگا جیسا آپ نے اس ڈرائیور کے لیے کیا ہے۔چنانچہ اس سے میرے اور میری اولاد کے رزق میں اضافہ ہوگا۔اس خاتون نے میرا شکریہ  ادا کیا اور بہت زور دے کر کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو میرے لیے ایک پیغام کے ساتھ بھیجا ہے۔ اﷲ کی شان دیکھیں کہ اﷲ کی طرف سے اس چھپے اشارے کو وہ معزز خاتون سمجھ گئیں۔ یہ سب کچھ اﷲ رازق و وہاب کی طرف سے ایک نعمت نہیں تو اور کیا ہے، اور یہ بھی رزق کی ایک شکل ہے۔

جب میرے ساتھ گاڑی میں سوار اس خاتون نے اپنا واقعہ سنایا تو اسی لمحے میرے ذہن میں وہ تمام نعمتیں اور وہ ساری چیزیں آگئیں جن کی ہم گنتی بھی نہیں کرسکتے، بلکہ جن کی حدود بھی معلوم نہیں کرسکتے۔ یہ اﷲ تعالیٰ ہی کا فضل واحسان ہے۔ میں نے اس خاتون کے ساتھ احسان کرنا چاہا تو میرے رب نے مجھ پر یہ کرم کیا کہ ایسے افکار وخیالات سے نوازا اور مجھ پر اس رزق کی فراوانی کی جو دُور دُور تک پھیلا ہوا ہے۔یہ رزق خالق کی پہچان کا ذریعہ ہے ۔ یہ ہمیں اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ ہم یہ جانیں کہ پروردگار اپنے بندوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ میں نے  خوشی سے سرشار ہوکر اس خاتون سے کہا: اﷲ تعالیٰ نے آپ پر یہ بھی احسان فرمایا ہے کہ آپ نے ان واقعات کو آپس میں اس طرح جوڑ دیا ہے کہ ان کی ایک اچھی تصویر بن گئی ہے۔ اﷲ نے آپ کو فطرتِ سلیمہ سے نوازا ہے۔ وہ کہنے لگیں کہ: یہ سب اﷲ ہی کا فضل ہے۔ آئیں تھوڑا سا اﷲ کی نعمتوں کو بیان کریں، تاکہ اس کا شکر ادا ہوسکے۔ اس طرح کے چند واقعات پر نظر ڈالیے:

  • قرض حسنہ:میرے پاس کچھ سرمایہ تھا۔ مجھے یہ پسند نہ تھا کہ میں اس کو کسی سودی بنک میں جمع کروادوں۔ چنانچہ میں نے اس کو ایک اسلامی بنک میں جمع کروادیا۔ کچھ عرصے بعد مَیں اپنا اکائونٹ چیک کرنے گئی تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس سرمایے میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے۔ میں نے اپنے دل میں اﷲ کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے دل ہی دل میں کہا: اے نفس! یہ ایک معمولی منافع ہے، جب کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ نفع حاصل کروں۔ کیسا رہے گا اگر میں اس نفع کو اﷲ کے پاس بطورِ قرضِ حسنہ رکھ دوں۔ لیکن یہ میرے لیے کہاں اور کیسے ممکن ہوگا؟ مجھے یاد آیا کہ ایک یورپی ملک میں کچھ مسلمان اپنے بچوں کے لیے ایک اسلامی مدرسہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور انھوں نے مسلمانوں سے قرض حسنہ کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ سود کی ہلاکت میں نہ پڑیں۔ اس پر ایک لمحہ ضائع کیے بغیر میں نے اپنا سارا سرمایہ بنک سے نکلوالیا۔ پھر میں نے مذکورہ منصوبے پر کام کرنے والے لوگوں سے رابطہ کیا اور اپنا سرمایہ ان کے سپرد کردیا۔

میں یہی سوچ رہی تھی کہ یہ سرمایہ میں نے محض اﷲ کی رضا کے لیے بطورِ قرض ان کو دے دیا ہے۔ اس سے میرا یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ اس میں مزید اضافہ ہوجائے، یا میرا سرمایہ ضائع ہوجائے۔ مجھے اﷲ کی مہربانی سے پورا یقین تھا کہ وہ میرے اس قرض کو قبول فرمائے گا۔ میرے ذہن میں یہ بالکل نہیں تھا کہ میرا یہ مال ضائع ہوجائے گا۔ یہ کیسے ضائع ہوسکتا تھا، جب کہ میں نے اس کو    اﷲ کے ہاتھ قرض دیا تھا۔ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہٗ لَہٗ ٓاَضْعَافًا کَثِیْرَۃً (البقرہ۲:۲۴۵) ’’کون ہے جو اﷲ کو قرض دینا چاہے اور اﷲ اس کو کئی گنا بڑھا دے‘‘۔

اﷲ کی شان دیکھیں کہ مقررہ عرصے کے بعد انھوں نے مجھے میرا پورا سرمایہ واپس لوٹا دیا۔ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ انھوں نے مجھ سے قرض ڈالر کی صورت میں لیا تھا اور ڈالر کی صورت میں ہی لوٹا دیا جس کی قیمت اس عرصے میں کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ پھر اﷲ نے مجھے ایک اچھے علاقے میں ایک پلاٹ سے نوازا۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی، نہ میں نے کبھی اس کی خواہش کی تھی، کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ اس کے لیے جس بڑے سرمایے کی ضرورت ہے وہ میرے بس کی بات نہیں۔ اللہ کو قرضِ حسنہ دینے کے بعد جب اس نے مجھے قرض لوٹایا تو میں وہ پلاٹ خریدنے کے قابل ہوگئی۔

  • عاجزانہ سجدہ: اس خاتون کے یہ ایمان افروز واقعات سن کر میں خیالات کی دنیا میں گم ہوگئی۔ اے اﷲ! تو اس شخص کو کبھی مایوس نہیں کرتا جو تجھ پر بھروسا کرے اور تیرے بارے میں اچھا گمان رکھے۔ اب میں گاڑی میں موجودگی اور زمان ومکان کے دائرے سے نکل کر صرف اپنے پروردگار کے وجود کو محسوس کررہی تھی۔ میرے جسم کا ہر ذرہ اس کی عظمت کے سامنے سربسجود تھا۔ تعجب یہ ہے کہ میں اپنی جگہ جم کر بیٹھی ہوئی تھی لیکن عاجزانہ سجدے میں بھی گری ہوئی تھی۔

جب اس خاتون نے بات ختم کی اور میں نے ارد گرد پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ ہم نے ابھی زیادہ سفر طے نہیں کیا اور ابھی ہمارے سامنے بہت راستہ باقی ہے۔میں چاہ رہی تھی کہ اس سے کچھ مزید سنوں تاکہ دل خوش ہوئے اور اپنے پروردگار کا قرب نصیب ہو۔ اس طرح کے سچے واقعات میں اﷲ کی قدرت نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ اس طرح کے مواقع پر یہ بات پورے یقین کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ اﷲ کا حکم ہرچیز پر چلتا ہے اور کوئی اس میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔

میں خیالات کی دنیا سے سے اس وقت واپس لوٹی جب اس نے کہا: اﷲ کی قسم، میری بہن! اگر میں آپ کو اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ بیان کروں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ ہماری یہ ملاقات ایک اتفاقی واقعہ ہے۔ ایک ایسی کائنات میں، جس کا کوئی خالق ہو، یہ بات درست نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ کچھ مزید تفصیل آپ کے سامنے رکھوں۔ اس نے لوگوں کی طرف دیکھا جو راستے میں اِدھر اُدھر جارہے تھے اور کہنے لگی: سبحان اﷲ! ان لوگوں میں سے ہر ایک شخص کا ایک قصہ ہے جو بزبان حال کہہ رہا ہے کہ اے اﷲ! تو یکتا ہے۔

  • حج کے بجاے صدقہ: پیاری بہن! کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک سال میں نے حج کا ارادہ کیا، حالانکہ اس سے ایک سال پہلے میں حج کرچکی تھی۔ میں قاہرہ سے نشر ہونے والی قرآنی نشریات سن رہی تھی۔ اس دوران ایک عالم نے بتایا کہ جس نے ایک مرتبہ حج کیا ہو اور اس کے پاس مال ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ کسی محتاج کی مدد کرے، کسی بیمار کا علاج کروائے، کسی نوجوان کی شادی میں اس کی مدد کرے، کسی مقروض کا قرض اُتارنے میں تعاون کرے تاکہ وہ قرض کی مصیبت سے چھٹکارا پاکر اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس وقت میں نے یہ بات سنی تو میں نے سوچا کہ یہ تو عجیب معاملہ ہے۔ کیا حج کے ثواب کے برابر کوئی اور ثواب ہوسکتا ہے؟ اس عالم کی باتیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ پھر میں نے نماز میں اپنے رب سے سرگوشی کی: اے میرے پروردگار! اگر اس سے تیری رضا حاصل ہوتی ہے تو اس کام کو میرے لیے آسان فرما، کیوں کہ میں تو ایک اجنبی ملک میں ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ محتاج کون ہے۔

حج پر جانے سے پہلے میرے میاں کی بہن ہمیں ملنے آئیں۔ میرے شوہر مصر کے رہنے والے ہیں۔ ان کی بہن نے ایک بات بتائی جو مجھے بہت عجیب لگی۔ ان کے گھر کے چوکیدار کی بیٹی انتہائی خوب صورت ہے۔ جب سے اس کے والد کا انتقال ہوا ہے، بہت سے نوجوان اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اس کے گھر کے باہر کھڑے رہتے ہیں۔ میں نے کہا: کیا اس کا کوئی بھائی نہیں جو اس کی حفاظت کرسکے؟اس نے بتایا کہ وہ اپنے ماں باپ کی بڑی بیٹی ہے۔ میں نے کہا: تو اس کی ماں کسی سے اس کی شادی کیوں نہیں کرتی۔ اس طرح بچی کی عزت بھی محفوظ ہوجائے گی اور ان کو ایک محافظ بھی مل جائے گا۔وہ کہنے لگی: شادی کیسے کریں؟ وہ بے چارے اتنے غریب ہیں کہ بمشکل دو وقت کا کھانا میسر آتا ہے۔

میں نے بلا تامل کہہ دیا کہ اس کی شادی کے سارے اخراجات میں برداشت کروں گی۔ میں اسی وقت اٹھی اور ہم نے حج کے سفر کے لیے جو پیسے رکھے تھے وہ سب اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ یہ گویا میرے رب کی طرف سے میری سرگوشی کا جواب تھا، فوری جواب۔ اس پروردگار کی طرف سے جو انتہائی مہربان ہے، جو سنتا اور دیکھتا ہے ، جو کرم فرماتا اور آسانیاں پیدا کرتا ہے۔  بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس بچی کی شادی ہوگئی۔ اس کی ماں کے گھر میں کوئی بسترتک نہیں تھا۔  اب ان کے پاس اتنا کچھ ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان سر اُٹھا کر زندگی گزار سکتے ہیں۔

میں نے محسوس کیا کہ اس خاتون کے احساسات کتنے اچھے ہیں، اسے اپنے پروردگار پر کس قدر توکل ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس کی زندگی کا ایک عرصہ اس حالت میں گزرا کہ اس کا اپنے رب سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہاں تک کہ وہ نماز بھی نہ پڑھتی تھی۔ لیکن جب اس نے اپنے رب کو پہچان لیا تو ایسے پہچانا کہ اسے سعادت اور سرور نصیب ہوا ،اور اﷲ نے اس پر ایسا احسان کیا کہ اس کے لیے راستے کی ساری منزلیں آسان ہوئیں اور اسے ایمان ویقین کی دولت میسر آئی۔

حقیقت یہ ہے کہ ہدایت اور سیدھا راستہ اﷲ کا عظیم احسان ہے جو اسی کو نصیب ہوتا ہے جسے اﷲ دینا چاہے۔ ہم اﷲ سے یہی سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی ہدایت نصیب فرمائے۔ مجھے اس خاتون کی باتوں سے بہت خوشی ہوئی۔ میں چاہتی تھی کہ کاش! راستہ کچھ اور لمبا ہوتا اور میں  مزید اس طرح کی ایمان افروزباتیں سنتی جو نادر ہوتی جارہی ہیں۔ (ماخوذ: المجتمع، شمارہ ۱۹۹۲، ۹؍مارچ ۲۰۱۲ئ)

ترجمہ: ظہیرالدین بھٹی

قرآن کے درس دیے جاتے ہیں اور عمل کی دعوت دی جاتی ہے۔ ایک برادر مسلم ملک میں خواتین کے حلقۂ درس نے یہ پروگرام بنایا کہ بات دعوت تک نہ رہے‘ بلکہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اپنے مسائل قرآن کے ذریعے حل کریں۔ محترمہ سمیّہ رمضان کی زیرِنگرانی یہ حلقہ قائم تھا۔ شرکاے درس ہر ہفتے ایک آیت کو حفظ کرتے‘ اسے بار بار پڑھتے ‘ اس پر عمل کی کوشش کرتے اور اگلے ہفتے کی مجلس میں اپنی رواداد سناتے۔ شرکا کی دل چسپی بڑھی‘ تعداد بھی بڑھی۔ جب گھروں میں خواتین نے عمل کیا تو برکات وثمرات مردوں تک بھی پہنچے۔ یہ درس ایک مسجد میں ہوتا تھا (عرب دنیا میں مسجد کے ساتھ خواتین کے لیے تعمیرکردہ حصہ نمایشی نہیں ہوتا‘ آباد ہوتا ہے)۔ حاضری اتنی بڑھی کہ مسجد کے ذمہ داران کو عمارت میں توسیع کرنا پڑی۔ محترمہ سمیّہ رمضان نے اس کی روداد کویت کے رسالے المجتمع میں قسط وار شائع کرنا شروع کی‘ تاکہ ہر کوئی قرآن پر عمل کی اس تحریک میں شامل ہوجائے۔ اس کی ایک قسط یہاں پیش کی جارہی ہے۔(ادارہ)

قرآن مجید تو عمل ہی کے لیے اُترا ہے۔ قرآن کی رہنمائی میں سفرِزندگی طے کرنا دراصل دنیا میں جنت بسانا ہے۔ قرآن مجید پر عمل کرنے سے کتنے زخم مندمل ہوئے‘ کتنی جدائیاں ختم ہوئیں‘ کتنے گھر تباہ ہوتے ہوتے سلامتی کے گھر بنے۔ یہ سب کچھ قرآن کریم پر عمل کرنے کی برکت ہے۔ قرآنی رہنمائی سے انفرادی اصلاح کس طرح ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بہن کا اپناتجربہ اُسی کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے:

مجھے رات دیر تک جاگتے رہنے کی عادت تھی۔ جب مؤذن نماز فجر کے لیے اذان دیتا تو میں غافل و لاپروا سوئی رہتی۔ اللہ کے فرشتے مجھے نمازیوں میں نہ پاتے۔ اس مبارک وقت میں‘ مَیں اور میرے گھر والے شیطان کی گرفت میںہوتے تھے‘ ہم سب گہری نیند سوتے۔ بیدار ہونے کے بعد مجھے سارا دن اس کا قلق رہتا۔ میںنے کئی بار صبح سویرے نماز کے لیے اٹھنے کا فیصلہ کیا مگر اس فیصلے نے کبھی عملی صورت اختیار نہ کی۔ ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب محترمہ بہن سمیّہ رمضان کی زیرِنگرانی ابھی ان کے درسِ قرآن اور قرآنی آیات پر عمل کے تجربے کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ محترمہ سمیّہ نے بہت سی بہنوں کے مسائل حل کردیے ہیں تو میں نے بھی اپنا مسئلہ حل کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ ان سے مشورہ کیا تو انھوں نے مجھے ذیل کے ارشاد الٰہی کو بار بار دہرانے کی تاکید کی:

الَّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ o وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَo (الشعرا ۲۶: ۲۱۸-۲۱۹) جو تمھیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو‘ اور سجدہ گزار لوگوں میں تمھاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔

چنانچہ میں اس نورانی ارشاد کو بار بار دہراتی رہتی اور میں نے کوشش کی کہ یہ ارشاد مبارک جس طرح میری زبان پر جاری ہے اسی طرح دل میں بھی پیوست ہوجائے۔

بالآخر وہ وقت آگیا‘ فیصلہ کن وقت‘ آیت کے مطابق حرکت کرنے کا لمحہ‘ اُدھر مؤذن نے اللّٰہ اکبر‘ اللّٰہ اکبر کے کلمات ادا کیے‘ اِدھر میں نے اپنے بستر پر کروٹیں بدلنا شروع کر دیں۔ میں مؤذن کی آواز پر لبیک کہنے سے ہچکچا رہی تھی‘ شیطان میرے لیے نیند کو خوش گوار بناکر پیش کر رہا تھا اور نماز کے معاملے کو میری نظر میں معمولی بناکر دکھا رہا تھا۔ اُدھر مؤذن کے کلمات مجھے یہ حقیقت یاد دلا رہے تھے کہ میں مسلمان ہوں۔ مؤذن کہہ رہا تھا: اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ، اب مؤذن میرے رسولِ محترم کا ذکر کر رہا تھا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے تعلق کو وہ بیان کر رہا تھا‘ اشھد ان محمدًا رسول اللّٰہ۔اب تو مجھے مؤذن نماز کے لیے بلا رہا تھا‘ حیّ علی الصلاۃ ‘ حیّ علی الصلاۃ۔ مؤذن مجھے بتا رہا تھا کہ فلاح و کامیابی نماز ادا کرنے میں ہے حیّ علی الفلاح۔ مؤذن کے یہ الفاظ اور قرآن کی اس آیت کے کلمات اور جس آیت کو بار بار پڑھنے اور عمل کرنے کا مجھے مشورہ دیا گیا تھا ___ مجھے نماز کے لیے پکار رہے تھے۔ پھر اذان اور آیت کے کلمات میرے دل میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ اب نیند میری آنکھوں سے دھل چکی تھی۔ میں نے اللہ رحمن کو اپنے قریب محسوس کیا اور اس احساس کے بیدار ہوتے ہی میں یکدم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ میں نے اپنے کپڑے سنبھالے‘ بڑی شدت سے احساس ہوا کہ میں کمرے میں تنہا نہیں ہوں۔ یہاں کوئی اور بھی ہے۔ وہی جو میری شاہ رگ سے بھی زیادہ میرے قریب ہے۔ اُس کے قرب کا احساس ہوا تو میں وضو کے لیے لپکی۔ نماز فجر ادا کرنے کے لیے اپنے خالق و مالک کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ یہی وہ نماز تھی جس کے پڑھنے کی مجھے بے حد حسرت رہی‘ کتنی بار ارادے باندھے اور توڑے۔ میری آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں اور نماز کے بعد میرے ہونٹوں پر یہ الفاظ تھے: اللہ کا شکر ہے‘ وہ ذات ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ہے جس نے مجھے‘ میرے مرنے سے پہلے اس نماز کی توفیق دی اور یوں مجھ پر بڑا کرم کیا۔ اللہ نے مجھ پر چار نہیں پانچ نمازیں فرض کی تھیں مگر میں اپنی سُستی و کاہلی کے سبب صرف چار نمازیں ہی ادا کرتی رہی۔ میں نے رو رو کر اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگی اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے آخری عمر تک اسی طرح پانچوں نمازیں بروقت ادا کرنے کی توفیق دے۔

توبہ واستغفار کے بعد میں پُرسکون ہوکر بیٹھ گئی تو میرے سامنے میری زندگی کی فلم چلنے لگی۔ میں چشمِ تصور سے اپنی گزری ہوئی زندگی کے مناظر دیکھ رہی تھی۔ میں ایک عام سی لڑکی تھی‘ جس کی زندگی کاکوئی واضح ہدف نہ تھا۔ میں زندگی کو کولھو کے بیل کی مانند گزار رہی تھی۔ بالآخر میری شادی ہوگئی۔ مجھے اپنے شوہر کے خیالات و افکار سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ مجھے تو اس کی پوزیشن اور مال و دولت سے غرض تھی۔ اُسے بھی نماز روزے سے کوئی غرض نہ تھی۔ صرف دنیا کی گہماگہمی سے سروکار تھا۔ زندگی کی گاڑی یونہی چلتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خوب صورت بچے بھی عطا کیے۔ مجھے اپنے بچوں سے بس یہ تعلق تھا کہ وہ کیا کھاتے ہیں؟ کیا پہنتے ہیں؟ اسکول جاتے ہیں؟پڑھائی کیسی ہورہی ہے؟ ہوم ورک کیسے ہو رہا ہے؟۔ لیکن میں نے اپنے بچوں سے کبھی بھول کر بھی نہ پوچھا کہ انھوں نے نماز پڑھی یا نہیں؟ انھوں نے کتنا قرآن شریف حفظ کرلیا ہے؟ کیاوہ انبیاے کرام ؑکے حالات سے واقف ہیں؟ انھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں کتنا کچھ پتا ہے؟ مجھے بچوں کے ان معاملات میں قطعاً دل چسپی نہ تھی بلکہ میں تو دیر تک ان کے ساتھ ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھی رہتی اور ڈراموں اور فلموں کے مختلف پارٹ سمجھنے میں ان کی مدد کرتی۔

میں نماز پڑھ کے بیٹھی تھی‘ اور گذشتہ زندگی کے بیتے ہوئے شب و روز کی یہ فلم میرے ذہن کی اسکرین پر چل رہی تھی کہ میں یکایک اپنے خاوند کے خراٹوں سے چونک پڑی۔ مناظر دھندلا گئے۔ میرارفیقِ زندگی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ میں نے چاہا کہ اُسے جگائوں‘ اُسے نماز کے لیے بیدار کروں اور اپنا قصہ بھی سنائوں۔ میں نے اُسے اُس کا نام لے کر نہیں جگایا‘ جیساکہ میرامعمول تھا بلکہ میں نے آج اس کے کندھوں پر جھک کر قدرے بلند آواز سے یہ آیت پڑھی: الَّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ o وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَo (جو تمھیں اس وقت دیکھ رہا ہے جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمھاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے)۔ یہ آیت سن کر میرا خاوند اُٹھا‘وضو کیا‘ نماز پڑھی اور پھر آکر میرے پاس بیٹھ گیا۔ کہنے لگا: آج کی صبح کتنی مبارک اور کس قدر حسین ہے کہ آج مجھے تم سے قرآن سننے کا موقع ملا‘ میں اسے اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا: خوش قسمتی تو میری ہے کہ میں نے آج مؤذن کی اذان پر بیدار ہوکر قرآن کی آیت پر عمل کیا ہے‘ خوش قسمت تو میں ہوں کہ میں نے آج تمھیں پہلی بار نمازِ فجر پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ سن کر میرے شوہر کا دل نورِ ایمان سے جگمگا اُٹھا۔ اُس نے کہا: میں تمھیں ایک عجیب واقعہ سناتا ہوں۔

کل گھر واپس آتے ہوئے میں اپنی گاڑی میں نصب ریڈیو کی سوئی گھما رہا تھا کہ وہ سوئی قرآن چینل پر آکر رک گئی۔ میں نے چاہا کہ اس اسٹیشن سے سوئی کو ہٹا دوں مگر میں ایسا نہ کرسکا کیونکہ ٹریفک پولیس نے مجھے گاڑی روکنے کے لیے اشارہ کیا تھا۔ گاڑی جب دوبارہ چلائی تو قرآن چینل سے اللہ تعالیٰ مجھ سے مخاطب تھا۔ جی ہاں‘ مجھ سے ہی مخاطب تھا‘ مجھے اُس وقت یہی احساس ہوا کہ اللہ مجھ سے خطاب کر رہا ہے۔ تم جانتی ہو کہ میرا رب مجھ سے کیا کہہ رہا تھا:

وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ ق وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ م بِیَمِیْنِہٖ ط سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ o (الزمر ۳۹:۶۷) ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیساکہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اس کی قدرتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ پاک اور بالاتر ہے وہ اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

قرآن کریم کے اس ارشاد نے میرے پورے وجود کو ہلا کے رکھ دیا۔ میں سمندر کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا‘ میں نے اپنے ہاتھ کی مٹھی کو دیکھا اور پھر سمندر کی جانب دیکھا۔ اس فرق نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ یہ سمندر تو کچھ بھی نہیں‘ اللہ کے ہاتھ میں تو پوری زمین ہے‘ اللہ کس قدر بڑا ہے؟ میں نے فوراً یہ آیت یاد کرلی‘ مجھے محسوس ہوا گویا یہ آیت میرے دل میں ہے اور میرا دل اسی کی وجہ سے دھڑک رہا ہے۔ مجھے اپنے پورے جسم میں ایک سکون و حلاوت کا ادراک ہوا‘ اور میرے پروردگار کا فضل مجھ پر آج اس وقت پورا ہوا جب تم نے قرآن مجید کی آیت پڑھ کر جگایا۔ مجھے تم نے نہیں جگایا‘ بلکہ مجھے میرے اللہ نے جگایا ہے‘ نماز فجر ادا کرنے کے لیے۔

میں نے کہا: مجھے بھی میرے رب نے ہی آیت کریمہ کے ذریعے جگایا ہے۔ میرے اور تمھارے عمل سے یہ آیت زندہ و متحرک ہوئی ہے۔ میرے شوہر نے کہا: میری عمر ۴۰ سال سے زائد ہے۔ قرآن میرے گھر میں موجود ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں قرآن پڑھتا نہیں ہوں۔ میں پڑھتا ہوں‘ بہت سی سورتیں اور آیتیں حفظ بھی کرلی ہیں۔ مگر میرے اور قرآن کریم کے درمیان ایک رکاوٹ تھی۔ میں نے فوراً جواب دیا: جی ہاں‘ یہ رکاوٹ تھی‘ قرآن کے مطابق عمل نہ کرنے کی‘ قرآن کے مطابق حرکت نہ کرنے کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین پر چلتا پھرتا قرآن تھے۔

’’ہم بھی زمین پر چلتے تھے مگر قرآن کے ساتھ نہیں‘‘، میں نے یہ کہا اور زار و قطار رونے لگی۔ میرے خاوند کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے‘ وہ یک دم کھڑا ہوگیا۔ بچوں کے کمرے کی جانب بڑھا۔ اُس نے کمرے کی بتیاں روشن کیں پھر بجھا دیں۔ چند بار ایسا کیا توبچے نیند سے بیدار ہوگئے۔ اُس نے زور سے اللہ اکبر کہا۔ بچے حیران و پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ میرے   رفیقِ زندگی نے بچوں سے کہا: جانتے ہو ہمیں کون ملنے آیا ہے؟ اور ہمیں اب دیکھ رہا ہے؟ اللہ تم لوگوں سے ملنے آیا ہے۔ بچوں نے ایک دوسرے کو دیکھا‘ ان کا والد بڑی ہی میٹھی آواز میں پڑھ رہا تھا: ’’جو تمھیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمھاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے‘‘۔ پھر اُس نے اعلان کیا: ’’آج گھر میں نماز پڑھ لو‘ کل سے ان شاء اللہ مسجد میں نماز پڑھنے جایا کریں گے‘‘۔ میرا شوہر بچوں کو نماز پڑھتے دیکھتا رہا۔ سب نے نماز پڑھ لی تو اس کا دل مطمئن ہوا۔ پھر اس کا ذہن اس آیت کی طرف منتقل ہوا: وَکَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہ‘ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا(مریم ۱۹:۵۵) ’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا‘‘۔ یہ سوچتے ہی اُس نے دعا کی: ’’یااللہ! مجھ سے راضی ہوجا‘ مجھے معاف فرما دے‘ مجھ پر رحم کر‘‘۔ پھر مجھ سے کہنے لگا: آج سے تم بچوں کی نگرانی کرو گی اور انھیں نماز پڑھنے کا حکم دو گی۔ میں نے کہا: یہ میری بات نہیں سنتے‘ انھیں نماز کا پابند بنانے میں مجھے کافی محنت کرنا پڑے گی۔ میرے خاوند نے مجھے مشورہ دیا کہ تم انھیں اس آیت سے متحرک کرو: ’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا‘‘(مریم۱۹:۵۵)۔ میں نے اپنے بچوں کو نماز کا پابند بنانے کا تہیہ کرلیا‘ میں نے ایک بڑا چارٹ لیا اور یہ آیت جلی خط میں اس پر لکھ دی۔

ہم میں سے ہر ایک اس امر کا محتاج ہے کہ وہ اپنی آنکھوںاور کانوں اور دل پر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹا دے‘ دلوں پر لگی مہروں کو کھرچ کھرچ کر پھینک دے۔ دلوں پر غفلت کے پڑے ہوئے پردوں کی وجہ سے ہم بلاسوچے سمجھے یونہی قرآن مجید پڑھتے رہتے ہیں۔ نہ ہم اُسے سمجھتے ہیں‘ نہ عمل کرتے ہیں۔ ہماری یہ دعوت صرف مسلمان عورتوں کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے۔ ہم پوری دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آیئے! ہم قرآن کا مطالعہ روحِ محمدؐ اور ارواحِ صحابہؓ کے ساتھ کریں۔ وہی جذبہ‘ وہی ولولہ جو آنحضرتؐ اور صحابہ کرامؓ میں تھا‘ ہمارے اندر آجائے۔ ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت یہ عہد کریں کہ یہ نورانی آیات سطور و صفحات سے نکل کر ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ہمیں بلا رہی ہیں‘ پکار رہی ہیں۔ یہ آیتیں خالق و مالک کی وحدانیت کا اعلان کر رہی ہیں۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ قرآن جس بات کا ہمیں حکم دے گا ہم اس کی تعمیل کریں گے اور جس بات سے روکے گا اس سے رک جائیں گے۔