ہماری ملاقات ایک بنک میں ہوئی۔ یہ ایک مصروف بنک ہے جس میں ہمیشہ ہجوم رہتا ہے۔ میری نگاہوں کو ایک خاتون نے اپنی طرف متوجہ کیا جو ۵۰سال سے زیادہ عمر کی تھیں۔ ان کے ہونٹ تسبیحات کے ساتھ آہستہ آہستہ حرکت کر رہے تھے۔ اﷲ کے بندوں کی یہ تسبیحات مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ اس طرح کے لوگوں پر نظر پڑتی ہے تو میری سوچ بہت دُور چلی جاتی ہے۔ اُس بلند مقام کی طرف جہاں اﷲ کے فرشتے اس کے عرش کے گرد تسبیحات میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ اس خالق احد کی تسبیحات کرتے رہتے ہیں جو ساری چیزوں کو عدم سے وجود میں لایا۔
میں نے اس خاتون کو دیکھا تو ہمارے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔ میں چاہ رہی تھی کہ ان سے تعارف ہو‘ اس لیے کہ میں اور وہ دونوں اﷲ سے محبت کے رشتے میں شریک تھیں۔ ان خاتون کا کام مکمل ہوا تو وہ سلام کرتے ہوئے چل پڑیں۔ میں نے مخلصانہ دلی دعائوں سے ان کو الوداع کیا کہ اﷲ تعالیٰ ان کو استقامت عطافرمائے۔ پھر میں اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
ہماری مہمان کہنے لگیں کہ اﷲ کا شکر ہے کہ وہ ہم پر اپنا فضل کرتا رہتا ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہوتا اور شاید احساس بھی نہیں۔ آج اﷲ نے مجھے اپنی اس رحمت سے نوازا ہے کہ اس نے آپ کے دل میں رحم ڈال دیا۔ ایک مرتبہ پہلے بھی میرے ساتھ ایسا ہی ہوا کہ اﷲ نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے دل میں میرے لیے رحم پیدا فرمایا۔میں نے ان کی طرف تفصیل طلب نگاہوں سے دیکھا تو وہ کہنے لگیں: میں شرم الشیخ میں تھی۔ ہمارا ایک رشتے دار بیمار پڑ گیا۔میں اور میرے میاں ان کی عیادت کے لیے جارہے تھے۔ ہم ایک ٹیکسی میں بیٹھے۔ ہسپتال کے قریب پہنچ کر مجھے یاد آیا کہ میں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی۔میں نے اپنے میاں سے کہا کہ پہلے کسی قریبی مسجد میں جاکر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ میرے میاں کو اس بات کی پریشانی تھی کہ ڈرائیور ہمارا انتظار نہیں کرے گا۔
اب ہم ہسپتال کے قریب پہنچ چکے تھے اور میں نماز پڑھنے پر اصرار کررہی تھی۔ ڈرائیور نے پوچھا: کیا آپ مسجد میں نماز پڑھنا چاہتی ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس نے قسم کھا کر کہا کہ میں ضرور آپ لوگوں کو مسجد لے جائوں گا، مگر اضافی کرایہ نہیں لوںگا، تاکہ میں بھی آپ کے ساتھ ثواب میں شریک ہوجائوں۔ جب اس نے یہ بات کہی تو میں نے دل میں ارادہ کیا کہ اس کے نیک جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے اس کو زیادہ کرایہ دوں گی۔ لیکن جب ہم نے اس کو اضافی کرایہ دینا چاہا تو اس نے صاف انکار کیا اور میرے میاں سے کہا کہ مجھے ثواب سے محروم نہ کریں۔
اس طرح میں نے وہ رقم ڈرائیور کے لیے صندوق میں ڈال دی۔ پھر ہم مریض کی عیادت کے لیے گئے۔ وہاں بہت سے لوگ مریض کو دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ میں نے سب کو یہ واقعہ سنایا۔ ان میں سے ایک خاتون نے میرے ساتھ سرگوشی کی کہ میری والدہ بیمار ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں اس کے لیے ضروری چیزیں ساتھ لے جاسکوں۔ لیکن اب تم نے بتایا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک ڈرائیور کے لیے تمھارے دل میں ڈال دیا کہ اس کے لیے صدقہ کروں۔ امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ ڈرائیور کے اس ثواب کو کئی گنا بڑھادے گا اور وہ ایسے وقت میں اس کے کام آئے گا جب وہ اس کا بہت محتاج ہوگا۔ اس کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ اس کے لیے کسی نے یہ صدقہ کیا ہے۔ اس لیے میں اب اپنی والدہ کے پاس جائوں گی۔ ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے بھی اسی طرح جذبۂ خیر سے نوازے جیسا کہ ڈرائیور کو نواز رکھا تھا اور اس نے ایک مسلمان خاتون کے ساتھ بروقت نماز کی ادایگی میں تعاون کیا اور اس پر نہ مزدوری لی اور نہ احسان کا طلب گار ہوا۔امید ہے کہ میں اپنی والدہ کو دیکھنے کے لیے جو خرچ کروں گی وہ ایسا ہی خرچ ہوگا جیسا آپ نے اس ڈرائیور کے لیے کیا ہے۔چنانچہ اس سے میرے اور میری اولاد کے رزق میں اضافہ ہوگا۔اس خاتون نے میرا شکریہ ادا کیا اور بہت زور دے کر کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو میرے لیے ایک پیغام کے ساتھ بھیجا ہے۔ اﷲ کی شان دیکھیں کہ اﷲ کی طرف سے اس چھپے اشارے کو وہ معزز خاتون سمجھ گئیں۔ یہ سب کچھ اﷲ رازق و وہاب کی طرف سے ایک نعمت نہیں تو اور کیا ہے، اور یہ بھی رزق کی ایک شکل ہے۔
جب میرے ساتھ گاڑی میں سوار اس خاتون نے اپنا واقعہ سنایا تو اسی لمحے میرے ذہن میں وہ تمام نعمتیں اور وہ ساری چیزیں آگئیں جن کی ہم گنتی بھی نہیں کرسکتے، بلکہ جن کی حدود بھی معلوم نہیں کرسکتے۔ یہ اﷲ تعالیٰ ہی کا فضل واحسان ہے۔ میں نے اس خاتون کے ساتھ احسان کرنا چاہا تو میرے رب نے مجھ پر یہ کرم کیا کہ ایسے افکار وخیالات سے نوازا اور مجھ پر اس رزق کی فراوانی کی جو دُور دُور تک پھیلا ہوا ہے۔یہ رزق خالق کی پہچان کا ذریعہ ہے ۔ یہ ہمیں اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ ہم یہ جانیں کہ پروردگار اپنے بندوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ میں نے خوشی سے سرشار ہوکر اس خاتون سے کہا: اﷲ تعالیٰ نے آپ پر یہ بھی احسان فرمایا ہے کہ آپ نے ان واقعات کو آپس میں اس طرح جوڑ دیا ہے کہ ان کی ایک اچھی تصویر بن گئی ہے۔ اﷲ نے آپ کو فطرتِ سلیمہ سے نوازا ہے۔ وہ کہنے لگیں کہ: یہ سب اﷲ ہی کا فضل ہے۔ آئیں تھوڑا سا اﷲ کی نعمتوں کو بیان کریں، تاکہ اس کا شکر ادا ہوسکے۔ اس طرح کے چند واقعات پر نظر ڈالیے:
میں یہی سوچ رہی تھی کہ یہ سرمایہ میں نے محض اﷲ کی رضا کے لیے بطورِ قرض ان کو دے دیا ہے۔ اس سے میرا یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ اس میں مزید اضافہ ہوجائے، یا میرا سرمایہ ضائع ہوجائے۔ مجھے اﷲ کی مہربانی سے پورا یقین تھا کہ وہ میرے اس قرض کو قبول فرمائے گا۔ میرے ذہن میں یہ بالکل نہیں تھا کہ میرا یہ مال ضائع ہوجائے گا۔ یہ کیسے ضائع ہوسکتا تھا، جب کہ میں نے اس کو اﷲ کے ہاتھ قرض دیا تھا۔ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہٗ لَہٗ ٓاَضْعَافًا کَثِیْرَۃً (البقرہ۲:۲۴۵) ’’کون ہے جو اﷲ کو قرض دینا چاہے اور اﷲ اس کو کئی گنا بڑھا دے‘‘۔
اﷲ کی شان دیکھیں کہ مقررہ عرصے کے بعد انھوں نے مجھے میرا پورا سرمایہ واپس لوٹا دیا۔ حیرت کی بات یہ ہوئی کہ انھوں نے مجھ سے قرض ڈالر کی صورت میں لیا تھا اور ڈالر کی صورت میں ہی لوٹا دیا جس کی قیمت اس عرصے میں کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ پھر اﷲ نے مجھے ایک اچھے علاقے میں ایک پلاٹ سے نوازا۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی، نہ میں نے کبھی اس کی خواہش کی تھی، کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ اس کے لیے جس بڑے سرمایے کی ضرورت ہے وہ میرے بس کی بات نہیں۔ اللہ کو قرضِ حسنہ دینے کے بعد جب اس نے مجھے قرض لوٹایا تو میں وہ پلاٹ خریدنے کے قابل ہوگئی۔
جب اس خاتون نے بات ختم کی اور میں نے ارد گرد پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ ہم نے ابھی زیادہ سفر طے نہیں کیا اور ابھی ہمارے سامنے بہت راستہ باقی ہے۔میں چاہ رہی تھی کہ اس سے کچھ مزید سنوں تاکہ دل خوش ہوئے اور اپنے پروردگار کا قرب نصیب ہو۔ اس طرح کے سچے واقعات میں اﷲ کی قدرت نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ اس طرح کے مواقع پر یہ بات پورے یقین کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ اﷲ کا حکم ہرچیز پر چلتا ہے اور کوئی اس میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔
میں خیالات کی دنیا سے سے اس وقت واپس لوٹی جب اس نے کہا: اﷲ کی قسم، میری بہن! اگر میں آپ کو اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ بیان کروں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ ہماری یہ ملاقات ایک اتفاقی واقعہ ہے۔ ایک ایسی کائنات میں، جس کا کوئی خالق ہو، یہ بات درست نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ کچھ مزید تفصیل آپ کے سامنے رکھوں۔ اس نے لوگوں کی طرف دیکھا جو راستے میں اِدھر اُدھر جارہے تھے اور کہنے لگی: سبحان اﷲ! ان لوگوں میں سے ہر ایک شخص کا ایک قصہ ہے جو بزبان حال کہہ رہا ہے کہ اے اﷲ! تو یکتا ہے۔
حج پر جانے سے پہلے میرے میاں کی بہن ہمیں ملنے آئیں۔ میرے شوہر مصر کے رہنے والے ہیں۔ ان کی بہن نے ایک بات بتائی جو مجھے بہت عجیب لگی۔ ان کے گھر کے چوکیدار کی بیٹی انتہائی خوب صورت ہے۔ جب سے اس کے والد کا انتقال ہوا ہے، بہت سے نوجوان اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اس کے گھر کے باہر کھڑے رہتے ہیں۔ میں نے کہا: کیا اس کا کوئی بھائی نہیں جو اس کی حفاظت کرسکے؟اس نے بتایا کہ وہ اپنے ماں باپ کی بڑی بیٹی ہے۔ میں نے کہا: تو اس کی ماں کسی سے اس کی شادی کیوں نہیں کرتی۔ اس طرح بچی کی عزت بھی محفوظ ہوجائے گی اور ان کو ایک محافظ بھی مل جائے گا۔وہ کہنے لگی: شادی کیسے کریں؟ وہ بے چارے اتنے غریب ہیں کہ بمشکل دو وقت کا کھانا میسر آتا ہے۔
میں نے بلا تامل کہہ دیا کہ اس کی شادی کے سارے اخراجات میں برداشت کروں گی۔ میں اسی وقت اٹھی اور ہم نے حج کے سفر کے لیے جو پیسے رکھے تھے وہ سب اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ یہ گویا میرے رب کی طرف سے میری سرگوشی کا جواب تھا، فوری جواب۔ اس پروردگار کی طرف سے جو انتہائی مہربان ہے، جو سنتا اور دیکھتا ہے ، جو کرم فرماتا اور آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس بچی کی شادی ہوگئی۔ اس کی ماں کے گھر میں کوئی بسترتک نہیں تھا۔ اب ان کے پاس اتنا کچھ ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان سر اُٹھا کر زندگی گزار سکتے ہیں۔
میں نے محسوس کیا کہ اس خاتون کے احساسات کتنے اچھے ہیں، اسے اپنے پروردگار پر کس قدر توکل ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس کی زندگی کا ایک عرصہ اس حالت میں گزرا کہ اس کا اپنے رب سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہاں تک کہ وہ نماز بھی نہ پڑھتی تھی۔ لیکن جب اس نے اپنے رب کو پہچان لیا تو ایسے پہچانا کہ اسے سعادت اور سرور نصیب ہوا ،اور اﷲ نے اس پر ایسا احسان کیا کہ اس کے لیے راستے کی ساری منزلیں آسان ہوئیں اور اسے ایمان ویقین کی دولت میسر آئی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہدایت اور سیدھا راستہ اﷲ کا عظیم احسان ہے جو اسی کو نصیب ہوتا ہے جسے اﷲ دینا چاہے۔ ہم اﷲ سے یہی سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی ہدایت نصیب فرمائے۔ مجھے اس خاتون کی باتوں سے بہت خوشی ہوئی۔ میں چاہتی تھی کہ کاش! راستہ کچھ اور لمبا ہوتا اور میں مزید اس طرح کی ایمان افروزباتیں سنتی جو نادر ہوتی جارہی ہیں۔ (ماخوذ: المجتمع، شمارہ ۱۹۹۲، ۹؍مارچ ۲۰۱۲ئ)