حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تم پر روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں آسمان (یعنی جنت) کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔ اس میں اللہ کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا۔ (احمد، نسائی)
یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خطبات میں سے ہے جو آپؐ رمضان المبارک کی آمد کے موقع پر صحابہ کرامؓ کو اس مبارک مہینے کی اہمیت اور برکات سے آگاہ فرمانے کے لیے دیا کرتے تھے۔ اس میں آپؐ نے پہلی بات یہ بتائی کہ رمضان بڑی ہی برکت والا مہینہ ہے اور اس کے روزے امت پر فرض کیے گئے ہیں۔
ماہِ رمضان کے بزرگ یا بابرکت ہونے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اس کے دنوں، گھنٹوں یا منٹوں میں فی نفسہٖ کوئی ایسی برکت شامل ہے جو لوگوں کو خود بخود حاصل ہوجاتی ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ تمھارے لیے ایسے مواقع پیدا کردیتا ہے جن کی بدولت تم اس کی بے حدوحساب برکات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو۔ اس مہینے میں ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی جتنی زیادہ عبادت کرے گا اور نیکیوں کے جتنے زیادہ کام کرے گا، وہ سب اس کے لیے زیادہ سے زیادہ روحانی ترقی کا وسیلہ بنیںگے۔ اس لیے اس مہینے کے بزرگ اور بابرکت ہونے کا مطلب درحقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر تمھارے لیے برکتیں سمیٹنے کے بے شمار مواقع فراہم کردیے گئے ہیں۔ (ایضاً، ص ۵۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت، رحم دلی، نرمی، عطا، بخشش اور فیاضی کا جو حال عام دنوں میں تھا وہ تو تھا ہی، کہ یہ چیزیں آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ کا حصہ تھیں، لیکن رمضان المبارک میں خاص طور پر ان میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ اس زمانے میں چونکہ آپؐ معمول سے کہیں زیادہ گہرائی سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے اور اللہ کے ساتھ آپؐ کی محبت میں شدت آجاتی تھی، اس لیے آپؐ کی نیکیاں بھی عام دنوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ بڑھ جاتی تھیں۔ جیساکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عام دنوں میں فرض ادا کرنے کا جو ثواب ملتا ہے، وہ رمضان میں نفل ادا کرنے پر ملتا ہے۔ اس لیے آپؐ رمضان کے زمانے میں بہت کثرت سے نیکیاں کرتے تھے۔ یہاں حضوؐر کے عمل میں دو چیزیں مثال کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ اسیروں کو رہا کرنا اور مانگنے والوں کو دینا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کے بارے میں کہ آپؐ رمضان میں ہرقیدی کو رہا کردیتے تھے، محدثین کے درمیان بحثیں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً ایک سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جرم کی پاداش میں قید ہے تو اس کو محض رمضان کے مہینے کی وجہ سے رہا کر دینا یا سزا نہ دینا کس طرح انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوسکتا ہے؟ اس بنا پر اس قول کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں۔ بعض محدثین کے نزدیک اس سے مراد جنگی قیدی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو اپنے ذمے کا قرض ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے ماخوذ ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کر کے ان کو آزاد کردیتے تھے۔ اس طرح کی بعض دوسری توجیہات بھی اس قول کی کی گئی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس کی ایک اور شکل بھی ہوسکتی ہے، مثلاً آج کل کے زمانے میں ایک طریقہ پیرول (parole) پر رہا کرنے کا ہے، یعنی قیدی کو قول لے کر رہا کر دینا۔ قیدی کو اس اُمید پر رہاکردیا جاتا ہے کہ وہ رہائی کی مدت ختم ہونے کے بعد خود واپس آجائے گا۔ وہ معاشرہ ایسا تھا کہ اس میں اس بات کا اندیشہ نہیں تھا کہ جس قیدی کو رہا کیا جا رہا ہے، وہ یہ خیال کر کے کہ اب مجھے کون پکڑتا ہے، کسی ایسی جگہ فرار ہوجائے گا، جہاں سے اس کو پکڑنا ممکن نہ رہے گا۔ وہ تو ایسے لوگ تھے کہ اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہوجاتا تھا تو خود آکر اس کا اعتراف کرتے تھے تاکہ ان کو سزا دے کر پاک کر دیا جائے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ عمل کی یہ شکل رہی ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو، جن کی سزا معاف نہ ہوسکتی تھی، رمضان کے زمانے میں مشروط طور رہا کر دیتے ہوں تاکہ وہ رمضان کا مبارک زمانہ اپنے گھروں پر گزاریں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ایضاً،ص ۶۰-۶۱)
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ روزہ اور قرآن کوئی جان دار ہیں، جو کھڑے ہوکر یہ بات کہتے ہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک روزہ دار کا روزہ رکھنا اور قرآن پڑھنے والے کا قرآن پڑھنا دراصل خود اپنے اندر ایک شفاعت رکھتا ہے۔ جب روزہ دار اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ اس بندے نے روزہ رکھا تو اس پیشی کے ساتھ ساتھ روزے کی یہ شفاعت بھی موجود ہوتی ہے کہ یہ بندہ آپ کی خاطر دن بھر بھوکا پیاسا رہا۔ یہ چھپ کر کھا پی سکتا تھا اور دوسری خواہشات بھی پوری کرسکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس بندے نے چونکہ آپ کی خاطر دن بھر بھوک پیاس برداشت کی ہے اور اپنی دوسری خواہشات پر بھی پابندیاں عائد کیے رکھی ہیں، اس لیے اس کے قصور معاف فرما دیجیے۔ اسی طرح ایک شخص رات کو جو قرآن مجید پڑھتا ہے، جب وہ قرآن اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے کہ آج اس بندے نے اتنا قرآن پڑھا ہے توقرآن کا وہ پیش کیا جانا ہی خود اپنے اندر ایک شفاعت رکھتا ہے، اور وہ شفاعت یہ ہے کہ اس بندے نے دن بھر کے روزے سے تھکاماندہ ہونے کے باوجود آپ کی رضاجوئی کی خاطر رات کو (نماز میں) کھڑے ہوکر قرآن پڑھا، اس لیے اس کے گناہ معاف کردیے جائیں۔
ظاہر بات ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز مومنین صالحین کی شفاعت فرمائیں گے، اسی طرح خود آدمی کے اعمال بھی اس کے حق میں شفیع ہوتے ہیں۔ آدمی کے اعمال خدا کے حضور یہ شفاعت کرتے ہیں کہ یہ آدمی یہ یہ نیکیاں کرکے آیا ہے، اس لیے اسے بخش دیجیے اور اس سے درگزر فرمایئے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق: ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حق میں روزے اور قرآنِ مجید کی یہ شفاعتیں قبول فرما لیتا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۵-۴۶)
اس آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب آخری روزے کی وجہ سے آپ کو دوزخ سے آزادی حاصل ہوگئی تو اب آپ آزاد ہیں کہ جو جی چاہے کرتے پھریں، اب آپ پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ بعض لوگ رمضان کے ختم ہوتے ہی وہ سب پابندیاں توڑ ڈالتے ہیں جو اس مبارک مہینے میں انھوں نے اپنے اُوپر عائد کر رکھی ہوتی ہیں۔ بس رمضان ختم ہوا اور وہ عین عید کے دن (یعنی شوال کی پہلی ہی تاریخ کو) سینما دیکھنے چلے گئے اور پھر اس سے آگے بڑھ کر ناچ گانے کا شوق بھی کرلیا۔ پھر کہیں بیٹھ کر کچھ تھوڑا بہت جوا وغیرہ بھی کھیل لیا۔ یہ سب کچھ اگر ایک شخص نے کرڈالا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ادھر وہ دوزخ کے خطرے سے آزاد ہوا اور اِدھر اس نے پھر اس میں کودنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی بھلا آدمی، جس کے دل میں ایمان کی کچھ روشنی اور خوفِ خدا کی کوئی رمق موجود ہو یہ کھیل نہیں کھیل سکتا۔(ایضاً،ص ۵۸-۵۹)