جولائی ۲۰۱۲

فہرست مضامین

وزیراعظم کی تبدیلی بحران کا اختتام یا نئے بحرانوں کا اہتمام

پروفیسر خورشید احمد | جولائی ۲۰۱۲ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قیادت کے لیے جن اوصاف کی ضرورت اولین اور ناگزیر حیثیت رکھتی ہے ان میں خلوص، دیانت اور صداقت کے ساتھ فراست اور معاملہ فہمی، صلاحیت کار اور قوم اور پارلیمنٹ کا اعتماد سب سے زیادہ اہم ہیں۔ قوتِ فیصلہ اور فیصلوں پر استقامت و جرأت سے کاربند ہونے کا وصف بھی قیادت کے لیے بدرجہ اتم مطلوب ہے۔ اقبال نے اپنے مخصوص انداز میں اس ضرورت کا اظہار کچھ اس طرح کیا تھا کہ    ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

قرآن پاک نے ان تمام پہلوئوں کو ایک جامع اصول کی شکل میں اس طرح بیان فرما دیا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ           اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النسائ۴:۵۸) ’’مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔

پاکستان نہ ایک ناکام ریاست تھا اور نہ ان شاء اللہ کبھی ہوگا، لیکن ملک کی اجتماعی زندگی میں سارے بگاڑ، فساد اور افراتفری کی بنیادی وجہ قیادت کی ناکامی اور صحیح قیادت کا فقدان ہے۔ اس قوم کو جب بھی اچھی قیادت میسر آئی ہے اس نے تاریخ کو نئی بلندیوں سے روشناس کیا ہے اور زوال اور انتشار کے ہر دور اور ہر پہلو میں قیادت ہی کے فساد کا پرتو دیکھا جاسکتا ہے۔ تحریکِ پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح جیسی قیادت میسر آئی تو سات سال کے مختصر عرصے میں ایک منتشر قوم  ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی صورت میں سینہ سپر ہوگئی اور انگریزی سامراج اور ہندو کانگریس کی منظم قوت کا مقابلہ کر کے آزادی کی جدوجہد کو اللہ کے فضل اور اپنی حکیمانہ مساعی کے ذریعے کامیاب و کامران کیا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خاں کی قیادت میں نوزائیدہ ملک کو تمام مصائب، مشکلات اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مضبوط و مستحکم کیا۔ تباہ شدہ معیشت کو بحال کیا، ڈیڑھ کروڑ مہاجرین کو خوش اسلوبی کے ساتھ نئی ریاست میں بسایا اور ۱۰ سال کی مختصر مدت میں علاقے کی ایک اُبھرتی ہوئی قوت کی حیثیت حاصل کرلی۔ ملایشیا، سنگاپور اور جنوبی کوریا جو آج معاشی ترقی کے باب میں نمونے کی ریاستیں قرار دی جاتی ہیں، ان کے پالیسی ساز اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے اُس دور کے پاکستان کے معاشی منصوبوں سے خوشہ چینی کی تھی، لیکن افسوس کہ جس قوم نے یہ چراغ جلائے تھے اور جس کے چراغوں سے دوسروں نے اپنے چراغ روشن کیے تھے، وہ مفاد پرست سیاست دانوں اور طالع آزما فوجی جرنیلوں کی ایسی گرفت میں آگئی کہ  ع

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

پاکستان کے گذشتہ ۵۰ سال کے حالات کا جو بھی دیانت اور غیر جانب داری کے ساتھ جائزہ لے گا، یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ جس ملک کو اللہ تعالیٰ نے وسائل سے مالا مال کیا تھا، (قدرت کے وسائل سے وہ اب بھی مالا مال ہے) اور جس کی پوری اسلامی دنیا میں ایک ساکھ تھی، اسے ایک ایسی قیادت نے تباہ و برباد کردیا جو اخلاص اور دیانت سے محروم، صلاحیت کار سے عاری اور مفادات کی پرستش میں مگن رہی ہے۔ ہمارے بیش تر مسائل او ر مصائب کا سبب صحیح قیادت کا فقدان اور اقتدار پر ایسے افراد کا قبضہ رہا ہے، خواہ وہ وردی پوش ہوں یا جمہوری لبادے میں ملبوس، جن کی توجہ کا مرکز قومی مفادات اور مقاصد کے مقابلے میں اپنے ذاتی، گروہی یا زیادہ سے زیادہ جماعتی اور حزبی مفادات رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پورے عرصے میں الا ماشاء اللہ ’گاؤآمد و خررفت‘ کا سا سماں رہا ہے جس کے نتیجے میں ملک ایک عذاب کے بعد دوسرے عذاب میں مبتلا ہوتا چلا آرہا ہے۔ یہ سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ جب تک کرسیوں کا یہ کھیل جاری رہے گا سیاسی گرداب سے نکلنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں ایک نہیں ۱۰ وزراے اعظم تبدیل کرلیں، حالات میں کسی جوہری تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا۔ واحد راستہ عوام کو بیدار اور متحرک کرنا اور نئے انتخابات کے ذریعے ایک ایسی قیادت کو زمامِ اقتدار سپرد کرنا ہے جو مخلص، دیانت دار اور باصلاحیت ہو، جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کی حفاظت کرسکے اور جو اس کی اسلامی شناخت کی ترویج و ترقی کے ساتھ عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے اور قومی وسائل کو ملک و قوم کی تعمیروترقی پر صرف کرنے کی صلاحیت اور عزم و ارادہ رکھتی ہو، جو عوام میں سے ہو اور ان کے سامنے جواب دہ ہو اور جو دستور  اور قانون کی پاس داری کرنے والی اور حقیقی جمہوری اقدار اور روایات کی امین ہو۔ اس بنیادی انقلابی تبدیلی کے بغیر قوم صرف کرسی کرسی (musical chairs) کے کھیل کی تماشائی تو ہوسکتی ہے، اپنی قسمت کی مالک اور اپنے مستقبل کی تعمیر کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی۔

حکومت عدلیہ محاذ آرائی کا پس منظر

ہم پوری دردمندی کے ساتھ اس بنیادی حقیقت کی یاد دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ جو ڈراما  پچھلے چند ہفتوں میں جناب گیلانی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے اور عدالت عظمیٰ کی تضحیک و تحقیر کا رویہ اختیار کرنے پر سزا کے حکم سے شروع ہوا تھا اور جسے اربابِ سیاست نے عدلیہ اور پارلیمنٹ میں تصادم اور عدلیہ پر پارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ کا رنگ دے کر ایک خطرناک اداراتی بحران میں تبدیل کر دیا تھا، اس طرح کے ڈرامے اب مزید نہیں چل سکتے۔ افسوس ہے کہ قومی اسمبلی کی محترمہ اسپیکرصاحبہ نے بھی اپنے اب تک کے معتدل اور متوازن رویے کو بالاے طاق رکھ کر جناب زرداری اور جناب گیلانی کے اس کھیل میں شرکت اختیار کرکے پوری سیاسی بساط کو  معرضِ خطر میں ڈال دیا۔اس نازک موقعے پر حکمران جماعت اور میڈیا کے کچھ عناصر کی ملی بھگت سے عدالت عظمیٰ کو، خاص طور پر چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب پر ایک خطرناک حملہ کیا گیا جس سے مقصود یہ تھا کہ عدالت عظمیٰ پر پوری قوم کے وقار، احترام اور اعتماد کو پارہ پارہ کیا جاسکے اور اس طرح سیاسی قیادت اور اس کے سرکاری اور غیرسرکاری اعوان و انصار کی بدعنوانیوں اور دستور اور قانون کی کھلی کھلی خلاف ورزیوں پر احتساب اور گرفت کی جو تھوڑی بہت کوششیں ہورہی ہیں، وہ بھی ختم کی جاسکیں۔

ایک طرف ملک شدید معاشی بحران میں گرفتار ہے، بجلی اور گیس کی قلت نے ایسی تباہی مچادی ہے کہ لوگ گھروں سے نکل آئے ہیں اور گرمی کی اس شدت میں بے قابو ہوکر تشدد پر اُترآئے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اور کساد بازاری نے عام آدمی سے دو وقت کی روٹی بھی  چھین لی ہے۔ ملک قرضوں کے پہاڑ جیسے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے۔ امن و امان کی صورت حال خراب سے خراب تر ہورہی ہے۔ امریکا کی ننگی جارحیت نے ملک کی آزادی، خودمختاری، قومی وقار اور سرحدوں کی حفاظت ہر چیز کو پامال کردیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کرپشن کا دور دورہ ہے اور ذی اثر اور برسرِاقتدار طبقے کے ۱۰ فی صد سے بھی کم  لوگ، ہر طرح کی مراعات سے فیض یاب ہورہے ہیں اور ۹۰ فی صد سے زیادہ عوام محرومی اور زبوں حالی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ اچھی حکمرانی کا فقدان ہے۔ ارباب حکومت صرف اپنی ہوس کی پوجا میں مصروف ہیں اور میڈیا میں سارا کچا چٹھا کھل کر آنے کے باوجود پوری بے غیرتی کے ساتھ لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔

بات صرف پیپلزپارٹی ہی کی نہیں جو اپنے منشور، عوامی وعدوں اور اپنے تمام بلندبانگ دعوئوں کو بھول کر صرف اپنی قیادت کی دولت اور اقتدار کی ہوس کو پورا کرنے میں مصروف ہے، بلکہ اس کے اتحادی بھی( جن کے بغیر اس کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی) اس بگاڑ میں برابر کے شریک ہیں۔ ہمیں اس عام تاثر کا اظہار کرنے میں کوئی باک نہیں کہ پارلیمنٹ اور حزبِ اختلاف بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں بُری طرح ناکام رہے ہیں۔ انگلیوں پر گنی جانے والی چند مثالوں کو چھوڑ کر، معلوم ہوتا ہے کہ اس تکلیف دہ کھیل میں سب ہی کسی نہ کسی درجے میں شریک ہیں۔ عوام کے اس احساس کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ گو فوج نے بظاہر سیاسی مداخلت سے احتراز کیا ہے جو دستور کا تقاضا ہے، لیکن عملاً فوج بھی پاکستان کی حاکمیت اور سرحدوں کے دفاع کی ذمہ داری کو پوری طرح ادا نہیں کر پا رہی ہے۔ امریکا کے ڈرون حملے اور دوسرے عسکری اقدامات بلاروک ٹوک جاری ہیں اور معصوم انسانوں کو بے دریغ ہلاک کر رہے ہیں اور ایٹمی اسلحے سے مسلح فوج ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ ظلم بالاے ظلم یہ کہ فوج خود اپنے لوگوں ہی سے برسرِجنگ ہے اور خفیہ ایجنسیاں بھی وہ کردار ادا کر رہی ہیں جو حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ بگاڑ کی ان تمام قوتوں پر ایک بریک کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس میں کچھ کامیابی بھی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود بڑی بڑی مچھلیاں ہر کانٹے کو توڑ کر اپنا رقص جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میڈیا نے بھی ایک حد تک خرابیوں کو واشگاف کرکے اور ظلم و زیادتی کو منظرعام پر لانے کی کوشش کی ہے مگر وہاں بھی کھلے اور درپردہ نہ معلوم کیسے کیسے کھیل کھیلے جارہے ہیں اور کون کون تار ہلا رہا ہے۔ اب یہ راز نہیں رہا۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے ۱۹ جون ۲۰۱۲ء کے فیصلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ محض ایک فرد جناب سید یوسف رضا گیلانی کے توہینِ عدالت کے جرم اور اس کے دُور رس اثرات اور نتائج کا نہیں، گو وہ بھی ایک اہم اور متعلقہ معاملہ ہے___ اصل مسئلہ اس سے زیادہ بنیادی ہے اور اسے سمجھے بغیر حالات کی اصلاح اور موجودہ بحران سے نکلنے کی کوئی حکمت عملی مؤثر نہیں ہوسکتی۔

قومی مفاھمت کی سیاست کی آڑ میں

قومی مفاہمت کے نام پر جس این آراو پر ستمبر۲۰۰۷ء میں پرویز مشرف کے وردی میں دوسری بار منتخب ہونے سے ایک دن پہلے دستخط ہوئے تھے، وہ فوجی آمر پرویز مشرف اور امریکی سامراج کے ایما پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس دروبست میں شریک کرنے کی وہ معرکے کی تدبیر (master stroke ) تھی جو  امریکا، برطانیہ اور پرویز مشرف نے پاکستان کو امریکا کے عالمی منصوبے میں ایک مستقل کردار ادا کرنے کے لیے تیار کی تھی۔ پرویز مشرف کے سامنے اپنے اقتدار کو دوام دینا، اور تبدیلی کے اس منظرنامے کو ناکام کرنا تھا جو میثاقِ جمہوریت کی شکل میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مرتب کیا تھا اور اس سے متوازی کُل جماعتی جمہوری تحریک (APDM) نے جولائی ۲۰۰۷ء میں پاکستان میں اسلامی، جمہوری اور فلاحی انقلاب برپا کرنے کے لیے قوم کے سامنے پیش کیا تھا۔

 معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت بیک وقت دو چالیں چل رہی تھی۔ ایک طرف وہ میثاقِ جمہوریت اور جولائی ڈیکلریشن میں شریک تھی، لیکن دوسری طرف اس عہدوپیمان کے ساتھ ساتھ کہ کوئی سیاسی جماعت فوجی حکمرانوں کے ساتھ شریکِ اقتدار نہیں ہوگی اور نہ ان سے کوئی معاملہ بندی کرے گی، وہ برطانیہ اور امریکا کے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق (جس کا کونڈولیزا رائس نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں کھل کر ذکر کیا ہے)، جنرل پرویز مشرف سے بھی سلسلہ جنبانی جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اقتدار میں آنے کے لیے اس وقت کی فوجی حکومت اور امریکا دونوں کی سیڑھی کا سہارا ضروری ہے۔ مشرف کے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام نے پیپلزپارٹی کو ایک مخمصے میں ڈال دیا اور اس نے بحیثیت پارٹی کھل کر چیف جسٹس اور برطرف عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ کر دیا اور پرویز مشرف کو وردی میں اپنی بلاواسطہ تائید سے صدر  منتخب کرانے کے باوجود اس سے راستہ الگ کرنے کی کوشش کی جو بالآخر ۲۷دسمبر ۲۰۰۷ء کے  خونیں حادثے پر منتج ہوئی۔ آصف علی زرداری نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر ایک مشتبہ وصیت کا سہارا لے کر پیپلزپارٹی پر قبضہ کرلیا اور پورے سیاسی عمل کو اپنے مقاصد، عزائم اور مفادات کے لیے بڑی چابک دستی سے استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک طرف فوج سے رشتہ جوڑا، امریکا کو اس سے کہیں زیادہ دیا جس کی وہ توقع رکھتے تھے اور دوسری طرف برطرف عدلیہ کی بحالی سے منحرف ہوگئے اور عملاً ڈوگر عدالت سے مک مکا کرلیا۔ گیلانی صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کے حلف سے بھی پہلے ججوں کی رہائی کا اعلان کردیا مگر عدلیہ کی بحالی کی طرف ایک قدم بھی نہ اُٹھایا بلکہ سارا وزن ڈوگر عدالت کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کیا، حتیٰ کہ نئے ججوں کا تقرر بھی اسی نظام کے تحت کیا۔ ان حالات میں آزاد عدلیہ کی بحالی کی تحریک کا دوسرا دور شروع ہوا اور ۱۶؍مارچ ۲۰۰۹ء کو عدالت عالیہ کی بحالی کا جو کارنامہ انجام دیا گیا، اس کا کوئی کریڈٹ زرداری گیلانی حکومت کو نہیں جاتا۔ اس کا سہرا وکلا اورسول سوسائٹی کی تحریک، حکومت سے باہر سیاسی اور دینی جماعتوں کی سرتوڑ کوشش اور میڈیا کی مؤثر کوششوں کا رہینِ منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کی بحالی کے باوجود  آزاد عدلیہ کے کردار کو اس حکومت نے ایک دن کے لیے بھی دل سے تسلیم نہیں کیا، اور صرف نجی محفلوں میں عدلیہ اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف زہرافشانیاں ہی نہیں عملاً اس کے ہر اس فیصلے کو تسلیم  نہ کرنے یا غیرمؤثر بنا دینے کی سرگرم کوشش کی ہے جس کو وہ اپنے مفاد کے خلاف سمجھتی ہے۔

عدلیہ کے خلاف اس محاذ کے اصل سرخیل جناب آصف علی زرداری اور ان کی پیپلزپارٹی کی قیادت کا بڑا حصہ ہے لیکن اس محاذ کو تقویت دینے والوں میں ان کے وہ تمام اتحادی بھی شامل ہیں جو حکومتی ٹولے کا حصہ ہیں اور جن میں اب ایک عرصے سے مسلم لیگ (ق) بھی، جو پرویزمشرف کی اصل ساتھی اور اس کے ہر جرم میں برابر کی شریک تھی ، بھی کھل کر شامل ہوگئی ہے۔ گویا  ع

پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا!

جمھوری روایات اور حکومتی روش

جمہوریت محض انتخابات اور نمایشی اداروں کا نام نہیں۔ انتخاب اور پارلیمنٹ تو ہٹلر، اسٹالن، مسولینی، جمال ناصر، حسنی مبارک، بورقیبہ، بن علی، حافظ الاسد اور بشارالاسد کے آمرانہ نظام میں بھی ہوتے رہے۔ جمہوریت نام ہے دستور اور قانون کی حکمرانی کا۔ جمہوریت نام ہے انسانی حقوق کے مکمل تحفظ اور آزادیِ اظہار و اجتماع کا۔ جمہوریت نام ہے آزاد اور غیر جانب دار عدلیہ کا، ایک ایسی عدلیہ جو انتظامیہ اور اس کے ہرشعبے کو، خواہ سول ہو یا عسکری، دستور اور قانون کے دائرے میں رکھ سکے اور ہر کوئی جو دستور اور قانون کی حدود کو پامال کرے، اس پر بھرپور گرفت کرسکے اور قانون شکن کو قرارواقعی سزا دے سکے۔ جمہوریت نام ہے آزاد میڈیا کا اور حکومت کے بنانے اور بدلنے میں عوام کے آزادانہ کردار کا۔ جمہوریت نام ہے ہر سطح پر قانون کے مطابق اربابِ اختیار کے احتساب اور جواب دہی کا۔ جمہوریت نام ہے ملک کے وسائل ملک کے عوام کے مفاد میں استعمال کیے جانے کا، اور عوام کے تصورات اور ضروریات کے مطابق معاشی، معاشرتی اور تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد کا۔ جمہوریت نام ہے ملک کے تمام شہریوں کے جان، مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کا، اور جمہوریت نام ہے ملک کی آزادی اور حاکمیت اور نظریاتی اور تہذیبی شناخت کے احترام اور ترویج کا۔

اگر اس کسوٹی پر پاکستان کی موجودہ حکومت کو جانچنے کی کوشش کی جائے تو بدقسمتی سے یہ حکومت ہماری تاریخ کی ناکام ترین حکومت نظر آتی ہے۔ ملک کی آزادی دائو پر لگی ہوئی ہے اور امریکا جس طرح چاہتا ہے ہماری اس آزادی اور حاکمیت کو مجروح کرتا ہے اور پھر طعنہ بھی دیتا ہے کہ تمھاری حاکمیت ہے کہاں؟ ہیلری کلنٹن صاحبہ نے اپنے تازہ ترین عتاب نامے میں ارشاد فرمایا ہے کہ جس حاکمیت کی تم بات کرتے ہو، اس کا وجود کہاں ہے؟ ہر روز امریکی ڈرون حملے ہماری حاکمیت کا مذاق اُڑا رہے ہیں اور ملک کے طول و عرض میں دہشت گرد، بھتہ خور، ٹارگٹ کلرز دندناتے پھرتے ہیں اور زرداری اور عبدالرحمن ملک جیسے لوگ چین کی بنسری بجا رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ میں ۲۰۰۸ء کے مقابلے میں تین سے چار گنا اضافہ ہوگیا ہے اور اگر ۰۷-۲۰۰۶ء میں تین یا چار گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ تھی تو آج وہ بڑھ کر ۱۸ سے ۲۰ گھنٹوں پر پہنچ گئی ہے۔ عوام بلبلارہے ہیں، صنعتیں بند ہورہی ہیں، سرمایہ ملک سے باہر منتقل ہورہا ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، کاروبارِ مملکت قرض پر چل رہا ہے اور صرف   ان چار برسوں میں قرضوں میں اتنا اضافہ ہوا ہے (ساڑھے چھے ٹریلین روپے) جو اس سے قبل کے ۶۰برسوں کے قرضوں سے زیادہ ہے۔ روپے کی قیمت ۴۵ فی صد کم ہوگئی ہے اور ملک میں نئی سرمایہ کاری براے نام رہ گئی ہے۔ افراطِ زر کا طوفان ہے، ہر روز ۲،۳؍ارب کے نوٹ چھاپے جارہے ہیں اور اگر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات نہ ہوتیں (جو اس وقت ۱۲بلین ڈالر سالانہ سے زیادہ ہیں، یعنی کُل برآمدات کی آمدنی کا تقریباً ۵۵ فی صد ) تو ملک کب کا دیوالیہ ہوچکا ہوتا۔

یہ انتظامیہ اور سیاسی قیادت کی ناکامی ہے کہ عوام مجبور ہوکر ہرمسئلے کے حل کے لیے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں اور عدلیہ بھی مجبور ہوکر ایسے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے جن میں عام حالات میں اسے دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ دستور بنانے والوں نے ایسے ہی غیرمعمولی حالات کے احتمال کے پیش نظر، آج نہیں ۱۹۷۳ء ہی سے، دستور میں دفعہ ۱۸۴ رکھی تھی جس کے تحت عدلیہ قومی اہمیت کے ایسے معاملات میں ازخود بھی مداخلت کرسکتی ہے جن کا تعلق انسانی حقوق سے ہو۔ آج یہی چیز عوام کے دُکھ درد کے، جزوی ہی سہی، مداوے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ عدلیہ پر کام کا بوجھ غیرمعمولی طور پر بڑھ گیا ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کے اُمور ہوں، قانون اور ضابطوں کی پامالی کے معاملات ہوں، اقرباپروری اور ناجائز تقرریوں، تبدیلیوں اور تصرفات کے مسائل ہوں، قیمتوں میں اضافے اور سرکاری اداروں کے خسارے کا مسئلہ ہو، لاپتا افراد کی اندوہناک مظلومیت کی بات ہو یا سرکاری نیم سرکاری اور غیرسرکاری ایجنسیوں کی غیرقانونی حرکات اور چیرہ دستیوں اور ستم کاریوں کا___ اعلیٰ عدالتیں ہی عوام کی اُمید کی آخری کرن بن گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ اور اس کی ایجنسیاں عدلیہ کو اپنے راستے کا کانٹا سمجھنے لگی ہیں اور ان کی حکم عدولی ہی نہیں، تحقیر اور تذلیل پر اُترآئی ہیں، اور آخری حملہ چیف جسٹس اور اعلیٰ عدلیہ کو بدنام کرنے کے لیے ایک بدنام ارب پتی کی ’سرمایہ کاری‘ اور اس کے ڈرامائی افشا کی شکل میں کیا گیا جو الحمدللہ کارگر نہ ہوا اور خود سازش کرنے والوں کے گلے پڑ گیا۔

عدلیہ سے تصادم کا سبب

موجودہ حکومت نے سپریم کورٹ کے کم از کم ۴۰ فیصلوں پر عمل نہیں کیا اور این آر او کے سلسلے میں تو عمل نہ کرنے کا برملا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ اعلانِ جنگ ہی وہ اصل ایشو ہے جو اس وقت وجہِ نزاع بنا ہوا ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ بالکل کھل کر قوم کے سامنے یہ حقیقت رکھیں کہ اصل مسئلہ یوسف رضا گیلانی کا نہیں___ اصل مسئلہ دستور اور قانون کی حکمرانی کا ہے، دستور اور قانون کے باغیوں کو قانون کی گرفت میں لانے کا ہے، مسئلہ اداروں کے ٹکرائو کا نہیں، اداروں کو دستور اور قانون کے دائرے میں کام پر مجبور کرنے کا ہے۔ امیر اور غریب اور طاقتور اور کمزور سب کے لیے ایک قانون اور انصاف کے باب میں مساوات کا ہے۔

این آر او کیا ہے؟ یہ وہ کالا قانون ہے جس کے ذریعے ان تمام مجرموں کو جنھوں نے قتل سے لے کر قومی دولت کی لُوٹ مار تک، جو بھی جرم ۱۹۸۶ء سے لے کر اکتوبر ۱۹۹۹ء تک کیا ہے، اس سے بریت سے نوازا گیا ہے۔ اس کے تحت ۸ ہزار سے زیادہ قومی مجرموں کو نیک چلنی سے سرفراز کیاگیا بلکہ فرار کا دروازہ کھولا گیا ہے، اور اس گنگا میں اشنان کرنے والوں میں عزت مآب آصف علی زرداری، جناب عبدالرحمن ملک، جناب الطاف حسین، جناب فاروق ستار، اور ان جیسے دسیوں سیاسی لیڈر، بیورو کریٹ، تاجر اور بااثر افراد شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے دسمبر۲۰۰۹ء میں اس قانون کو اس کے نفاذ کے پہلے دن ہی سے کالعدم (null and void) اور غیرمؤثر قرار دیا ہے اور اس کے تحت سہولت لینے والے تمام افراد کو اس سہولت سے محروم کرکے صورتِ حال کو اس حیثیت پر بحال کردیا ہے  جس پر وہ ستمبر ۲۰۰۷ء سے پہلے تھا۔ زرداری صاحب کے سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں۶کروڑ ڈالر کا معاملہ بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے۔ سپریم کورٹ کا اصل ’جرم‘ یہ ہے کہ اس نے اس قومی دولت کو ملک میں لانے کا حکم جاری کیا ہے اور غیرقانونی طور پر پاکستان کے اس سرمایے سے این آر او کے تحت اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک عبدالقیوم کے اس خط کو غیرمؤثر بنایا ہے جس کے ذریعے اس مقدمے کو واپس  لیا گیا تھا جس میں حکومت پاکستان نے پاکستانی عوام کی اس دولت کو واپس لانے کا مطالبہ کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے وزیراعظم سے کس بات کا مطالبہ کیا ہے؟ قانونی طور پر اس میں صدرزرداری کا نام کہیں نہیں آتا۔مطالبہ صرف یہ ہے کہ جو غلط اقدام این آر او کے کالے اور اب کالعدم قانون کے تحت کیا گیا، اسے واپس لیا جائے اور قانون کو اپنا عمل پورا کرنے کا موقع دیا جائے۔ وزیراعظم یا ان کے وکیل کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ عدالت سے دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے تحت کسی استثنا کی درخواست کریں۔ اس لیے کہ ان کو پتا ہے کہ دفعہ ۲۴۸ کا اطلاق اس معاملے پر نہیں ہوتا۔ یہ صرف ان اُمور کے بارے میں ہے جو صدارت کے دوران ہوں۔ نیز صرف ایسے فوج داری معاملات اس کے دائرے میں آتے ہیں جو خواہ پہلے کے ہوں لیکن ان پر صرف عمل درآمد متعلقہ شخص پر اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اس عہدے پر فائز ہو۔ سوئس عدالتوں میں پاکستان کا مقدمہ سول مقدمہ (civil suit) کی حیثیت سے ہے، کریمنل نہیں۔ اور بات صرف زرداری صاحب کی نہیں ان تمام افراد سے متعلق ہے جو مقدمے میں فریق ہیں۔ استثنا کا اگر کہیں دعویٰ کیا جاسکتا ہے تو وہ سوئس عدالت میں ہی کیا جاسکتا ہے۔ جس خط کا مطالبہ سپریم کورٹ کر رہی ہے اس پر وہ لاگو ہی نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ اسے زرداری صاحب اور ان کے حکمران ٹولے اور ان کے وکیلوں کی فوج نے سیاسی مسئلہ بنادیا ہے۔ محترمہ کی قبر کا نام استعمال کیا جا رہا ہے حالانکہ محترمہ اب اس جہاں میں جاچکی ہیں جہاں سے ان کا کوئی رشتہ اس دنیا کے معاملات سے باقی نہیں ہے۔ سوال قوم کی دولت واپس لانے کا ہے اور عدالت ہی نہیں پوری قوم کا مطالبہ ہے۔ قانونی عمل کے ذریعے اسے قوم کے مفاد میں حل کیا جائے۔ واضح رہے کہ اس مقدمے میں سوئس جج نے آصف علی زرداری اور دوسرے شریک افراد کو منی لانڈرنگ کے الزام میں چھے ماہ قید اور ۵۰ہزار ڈالر جرمانے کی سزا سنائی تھی اور انھیں حکم دیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان کو ۱۱بلین ڈالر واپس کریں۔

 یہ صرف ایک کیس کا معاملہ ہے ورنہ اگر نیویارک ٹائمز (جنوری ۱۹۸۸ئ) میں شائع ہونے والی تفصیلی رپورٹ کا تعاقب کیا جائے تو تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر حکومت کے سودوں میں رشوت کے ذریعے حاصل کرنے کی تفصیلات موجود ہیں جو سب پاکستانی خزانے کی رقم ہے اور اس لیے یہ پاکستان کے غریب عوام کا حق ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران پوری ڈھٹائی کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے حکم کو ماننے اور عوام کا حق ان کو واپس دلانے کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں   اور اس سلسلے میں حکمران پارٹی سے متعلق کچھ وکلا اور عہدے دار مقدمہ چلنے کی مدت ختم ہونے (law of limitation) کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف خود سوئس حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے ۲۰۱۱ء میں ایک نیا قانون نافذ کردیا ہے جس نے پاکستان اور ان تمام ممالک کے لیے جو اپنی لُوٹی ہوئی دولت کو غاصبوں سے واپس لینے کے لیے مستعد ہوں،نئے نئے امکانات کے دروازے کھول دیے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے مشہور وکیل فرانسس مائیکل کے بقول اس قانون کے تحت اگر کوئی ریاست جس کا سرمایہ غیرقانونی طور پر سوئٹزرلینڈ میں موجود ہے اور کسی وجہ سے وہ خود  اپنے ملک میں مقدمہ چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، تو وہ اس قانون کی رُو سے یہ رقم حاصل  کرسکتی ہے۔ (ملاحظہ ہو، دی نیوز ۲۳جون ۲۰۱۲ء کی اشاعت میں شائع ہونے والی رپورٹ۔  New Swiss law allows easy opening of black money cases’’یعنی سوئس قانون اب کالے دھن کے مقدمات کو کھولنے کا آسان راستہ فراہم کر رہا ہے‘‘۔

اب اس سے زیادہ شرم ناک بات اور ملک دشمنی اور عوام دشمنی اور کیا ہوگی کہ جہاں رقم موجود ہے وہ ملک کہہ رہا ہے کہ لے جاسکتے ہو، مگر ہم وہ رقم واپس یہاں لانے کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔

عدالت عظمٰی پر اعتراضات

اس پس منظرمیں بات واضح ہوجاتی ہے کہ معاملہ بلاشبہہ توہین عدالت کا تو ہے ہی، لیکن صرف توہین عدالت کا نہیں ہے۔ سرکاری ذرائع اور بھارتی اور مغربی میڈیا، اپنی قانون اور  انصاف پرستی کے تمام دعوئوں کو بھول کر اس طرح پیش کر رہے ہیں کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک منتخب وزیراعظم کو بیک بینی و دوگوش اقتدار اور اسمبلی کی رکنیت تک سے محروم کر دیا ہے۔ اس  کے لیے امریکی اور بھارتی اخبارات تسلسل کے ساتھ عدالتی ’کو‘ (coup) اور دوسرے ذرائع سے ’کو‘  کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت کا کوئی بھی بڑا اخبار ایسا نہیں ہے جس نے ایک ہی لَے میں سپریم کورٹ کے اس اقدام اور جمہوری عمل کو درہم برہم کرکے،اپنی حدود سے تجاوز کرنے، اور ایک ایسی حکومت کو کمزور کرنے کا مرتکب قرار نہ دیا ہو، جو پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں سرگرم ہے۔ مغربی اور بھارتی میڈیا کی یلغار کا ذکر ہم بعد میں کریں گے لیکن پہلے اصل اعتراض کا جائزہ لینا ضروری ہے جو بیرونی میڈیا اور عناصر کے ساتھ حکمران جماعت کے قائدین، ان کے ہم نوا اہلِ قلم اور کالم نگار، حتیٰ کہ کچھ اداریہ نگار بھی کر رہے ہیں:

  • پہلا اعتراض یہ ہے کہ عدالت نے اپنے دائرۂ کار سے تجاویز کیا ہے اور ایک منتخب وزیراعظم کو مجرم قرار دے کر اقتدار سے محروم کیا گیا ہے۔
  • دوسرا اعتراض یہ ہے کہ عدالت نے جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ بے شمار مقدمات اس کے زیرسماعت ہیں لیکن اس نے جلدبازی سے ایک خاص جماعت اور ایک خاص فرد کو نشانہ بنایا ہے۔
  • تیسرا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے کے پیچھے درپردہ کوئی اور ہاتھ ہے جو جمہوری عمل کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے اور دانستہ یا نادانستہ طور پر عدالت اس کا آلۂ کار بن گئی ہے۔ درپردہ اشارہ فوج کی طرف ہے اور یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ عدالت اس proxy war کا حصہ بن گئی ہے۔
  • چوتھا اعتراض یہ ہے کہ عدالت نے دفعہ ۲۴۸ کو نظرانداز کردیا ہے۔
  • پانچواں اعتراض یہ ہے کہ عدالت اور پارلیمنٹ اس معاملے کی وجہ سے باہم دست و گریباں ہورہے ہیں۔

 ہم چاہتے ہیں کہ آگے بڑھنے سے پہلے کیے جانے والے اعتراضات میں سے کچھ کو نمونے کے طور پر ریکارڈ کا حصہ بنا لیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ اس بارے میں کیا کیا گل افشانیاں ہورہی ہیں۔

سید یوسف رضا گیلانی صاحب نے بڑھ چڑھ کر دعوے کیے ہیں کہ وہ دستور کی دفعہ ۲۴۸ کا دفاع کر رہے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو دفعہ ۶ ان پر لاگو ہوسکتی ہے جس کی سزا موت ہے۔ اس لیے وہ اپنے من پسند وکلا کی تائید سے اس جرم کا ارتکاب کررہے ہیں جس کی سزا چھے ماہ ہے،  گو ان کو صرف ۳۰سیکنڈ کی سزا ملی۔ یہ دعویٰ کرتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دستور میں ایک دفعہ ۱۹۰ بھی ہے جو تمام انتظامی مشینری کو پابند کرتی ہے کہ عدالت کے فیصلوں پر عمل کرے۔کیا دفعہ ۱۹۰ کی خلاف ورزی دفعہ ۲۴۸ کی خلاف ورزی سے، جو مشتبہ ہے، مختلف امر ہے اور کیا ۱۹۰ کی خلاف ورزی پر دفعہ ۶ لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔

پاکستان کے دستور پر حلف اُٹھانے والے ایک اور مہربان جناب صدرآصف علی زرداری فرماتے ہیں کہ پارٹی کا فیصلہ ہے کہ کوئی بھی سوئس عدالت کو خط نہیں لکھے گا ، خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ اور یہ کہ خط کا مطالبہ دراصل محترمہ کی قبر کا مقدمہ ہے، حالانکہ اب محترمہ سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا ہے۔ زرداری صاحب نے بار بار عدلیہ کا مذاق اُڑایا ہے اور اپنے تازہ ترین ارشاد میں تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ ’’وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلے پر تحفظات ہیں، اسے احتجاجاً قبول کیا ہے۔ عدالتی فیصلے کو پارلیمنٹ میں زیربحث لائیں گے۔ جمہوریت کی خاطر دوسرا وزیراعظم لارہے ہیں۔ نیا قائدایوان بھی بے نظیر کی قبر کا ٹرائل نہیں ہونے دے گا۔ پیپلزپارٹی کو کمزور کرکے اس ادارے کا فردِ واحد بھی جلد چلا جائے گا‘‘۔ (ایوان صدر میں پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب، جنگ، جسارت، نوائے وقت، نئی بات،۲۱ جون ۲۰۱۲ئ)

پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ یہ سب ’بدمعاشی‘ ہے اور میں اس کے مقابلے میں بڑی بدمعاشی کر رہا ہوں ___ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ بڑے دُکھ کے ساتھ ایک اہم جملہ معترضہ کے طور پر جناب آصف علی زرداری صاحب کے اس کردار کا بھی یہاں ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جو وہ دستور کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایوانِ صدر سے مسلسل کر رہے ہیں۔

صدر زرداری صاحب بعینہٖ وہی بات کہہ رہے ہیں جو گیلانی صاحب نے کہی تھی اور جس پر توہینِ عدالت کا اطلاق ہوا تھا۔ پھر وہ عدالت عظمیٰ اور اس کے فیصلوں کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے لانے کی دعوت دے رہے ہیں جو اسمبلی اور سینیٹ کے رولز آف بزنس کے خلاف ہے۔ نیز وہ پیپلزپارٹی کو کمزور کرنے والے ادارے کے لیے ’فردِ واحد‘ کے جلد چلے جانے کی بات بھی فرما رہے ہیں جو ایک خطرناک دھمکی اور خوف ناک عزائم کی غماز ہے۔ یہی وہ فسطائی ذہن ہے جو قانون اور عدل کی بالادستی کو گوارا نہیں کرتا اور جو تصادم اور انتقام کی آگ کو بھڑکانے کا ذریعہ بنتا ہے۔

صدرصاحب بھی تمام عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کرکے توہینِ عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ سنگین اس جرم کا مسلسل ارتکاب کر رہے ہیں کہ صدر ہوتے ہوئے ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کا کردار ادا کر رہے ہیں، اور ملک کی سیاست میں پاکستان اور فیڈریشن کی نہیں بلکہ ایک پارٹی کی وکالت کر رہے ہیں اور اس کے مفادات کے لیے سرکاری وسائل اور حیثیت کو استعمال کر رہے ہیں۔ اور تیسرا جرم یہ ہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد دستور نے حکمرانی کا جو نقشہ مقرر کیا ہے اس کے برعکس انھوں نے پارلیمانی نظام پر صدارتی نظام کو مسلط کردیا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جو پارلیمان کی بالادستی کی رٹ لگاتے نہیںتھکتے وہ وزیراعظم کے دستوری اور پارلیمانی اختیارات کو ایک ایسے شخص کو دینے کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں جسے دستور نے صرف فیڈریشن کی علامت بنایا ہے۔ یہ اور بھی زیادہ تشویش ناک ہے کہ ایک مجرم وزیراعظم کی جگہ ایک اور بدنام شخص کے انتخاب سے پہلے انھوں نے فوج کے چیف آف سٹاف سے مشورہ کیا جو خود ان کے اور چیف آف سٹاف کے حلف کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ خوش آیند ہے کہ انھوں نے مشورہ دینے سے انکار کیا لیکن اس سے مشورہ حاصل کرنے والے کے جرم میں کمی نہیں آتی۔

عدلیہ کی بحالی کے سلسلے میں محترمہ عاصمہ جہانگیر کی بڑی خدمات ہیں لیکن سپریم کورٹ بارکونسل کے سالِ گذشتہ کے انتخابات کے بعد سے ان کے تیور خاصے بدل گئے ہیں اور اپنے   تازہ ترین انٹرویو میں ارسلان افتخار کے معاملے کے حوالے سے ان کے ارشادات ناقابلِ فہم ہوتے جارہے ہیں، ان کا ارشاد ہے کہ:

اس واقعے کے بعد سے عدالت عظمیٰ نے بڑی تیزی سے جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کا آغاز کیا ہے۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب کھلم کھلا مارشل لا لگا دیا جائے۔ لیکن ایک سویلین چہرے کے پیچھے فوجی بیٹھے ہوتے ہیں اور اب اس کی بدبو آنا شروع ہوگئی ہے۔ جب سے عدلیہ بحال ہوئی ہے اس نے اداروں کو بار بار دھچکا لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن حکومت کی بقا اس میں ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو تسلیم کرے۔ انھوں نے کہا کہ عدالتی فیصلہ جمہوریت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ افسوس کہ عدلیہ ، پارلیمان اور اپوزیشن ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔

بلاشبہہ ہرشخص کو اپنی راے کا حق ہے لیکن عدالت کے فیصلوں سے فوجی بوٹوں کی بو آرہی ہے یا نہیں،محترمہ کے بیان میں زرداری اور گیلانی صاحب کی آواز کی بازگشت صاف سنی جاسکتی ہے۔

روزنامہ ڈان کے نامہ نگار راجا اصغر نے اس پورے عمل کو A Judicial Blow to Politics (سیاست پر عدالتی ضرب)کا عنوان دیا ہے (ڈان، ۲۰ جون ۲۰۱۲ئ)، اور بالواسطہ طور پر جسٹس منیر کا ریفرنس دیتے ہوئے Constitutional Coup(دستوری ’کو‘)کی یاد تازہ کی ہے۔

بہارتی میڈیا کا واویلا اور حقائق

یہ اشارے تو ’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘ کے انداز کے ہیں لیکن امریکی میڈیا اور اس سے بھی بڑھ کر بھارتی میڈیا تو عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے پر بڑا چراغ پا ہے اور بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج صاحب تو تلوار اور بھالا سنبھال کر حملہ آور ہوگئے ہیں اور تعجب ہے کہ ان کے اس وار کو عارف نظامی جیسے مدیر اور دانش ور نے بھی نیم تائیدی انداز میں اپنے مضمون میں شامل کرنا ضروری سمجھا ہے ۔ (ملاحظہ ہو پاکستان ٹوڈے، Exit Gilani ، ۲۳ جون ۲۰۱۲ئ)

اب ذرا بھارتی اخبارات کی گل افشانیوں کو بھی انھی کے الفاظ میں ملاحظہ فرما لیجیے۔ نہایت معتبر اور بالعموم متین اخبار The Hindu ادارتی کالم میں لکھتا ہے:

ان حالات میں، جب کہ ایک منتخب حکومت اور نئی زندگی پانے والی سپریم کورٹ، دونوں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی اداراتی حدود کا دوبارہ تعین کریں، تصادم ناگزیر تھا۔ پریشان کن سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض جمہوری رسہ کشی سے زیادہ ہے؟ جس یکسوئی کے ساتھ سپریم کورٹ نے حکومت کے ساتھ اپنی لڑائیاں جاری رکھی ہیں، اس نے دوسرے ذریعے سے ’کو‘ کے الزامات کو راہ دی ہے۔(۲۰جون ۲۰۱۲ئ)

بھارتی اخبار Deccan Chronicle سب سے زہرآلود تبصرہ کرتا ہے:

درحقیقت چیف جسٹس نے موجودہ حکومت اور ملک کی سیاست کو مزید اُلجھائو سے نکالنے کے بجاے قدم بہ قدم گرائے جانے کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ یہ ایک کلاسیکل فوجی ’کو‘ نہیں ہے (اس لیے کہ فوج سے اقتدار سنبھالنے کی توقع نہیں ہے) بلکہ یہ پی پی پی کے زیرقیادت نظام کو جو فوج کا ناپسندیدہ ہے، قدم بہ قدم تباہ کرنا ہے۔ شاید ممکنہ طور پر میموگیٹ کے پس پردہ بھی یہی جذبہ کارفرما تھا، جس نے گذشتہ برس صدر کے قائم مقام نمایندوں کو امریکیوں کے سامنے فوجی انقلاب کا خوف بیان کرنے پر آمادہ کیا۔      یہ امراہم ہے کہ چیف جسٹس نے دوسرے سیاست دانوں کے خلاف مقدمات کا  آغاز نہیں کیا ہے۔ اس طرح ہمارے سامنے پاکستان میںدوسرے ذرائع سے ’کو‘ آتا ہے جو بھارت اور پاکستان میں تعلقات کی سنجیدہ کوشش میں رکاوٹ ہے۔ جن انتخابات کے تار فوج ہلاتی ہے زیادہ دُور نہیں ہوسکتے۔

Indian Express ایک اور نام وَر روزنامہ ہے، وہ کیوں پیچھے رہتا، ارشاد ہوتا ہے:

لگتا ہے کہ گھڑی کی سوئیاں پیچھے کر دی گئی ہیں۔ زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کو دوبارہ زندہ کرنے سے انکار پر توہینِ عدالت کے مقدمے نے ۲۰۰۹ء کی یاد تازہ کردی ہے جب عدالت نے سابق صدر مشرف کی زرداری اور ان کے ساتھیوں کی معافی کو رد کر دیا تھا۔ لیکن سول حکومت کو کمزور کرنے والا حملہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کے لیے ناگزیر تھا، خاص طور پر اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد۔  نہ یہ بات غیرمتوقع تھی کہ یہ عدلیہ کی طرف سے آسکتا تھا ۔ پاکستان کی فوج اور عدلیہ   اکثر وقت کی سول حکومت کے خلاف ایک دوسرے سے مل گئے ہیں اور اس فیصلے کو بھی اس کے ظاہری مفہوم تک نہیں لینا چاہیے۔

اب بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈی کاٹجو کے تابڑ توڑ حملے بھی دیکھیے:

مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ اور خاص طور پر اس کے چیف جسٹس نے مکمل عدم برداشت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں سے اس کی توقع نہیں کی جاتی۔ درحقیقت عدلیہ اور س کے چیف جسٹس عوام کو خوش کرنے کے لیے عرصے سے کھیل رہے ہیں۔ یہ بالکل عیاں ہوگیا ہے اوراس نے تمام دستوری معیارات کو پامال کردیا۔ میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ بدعنوانی کے الزامات جو واضح طور پر مجرمانہ نوعیت کے ہیں، پاکستانی صدر کے خلاف کس طرح شروع کیے یا جاری رکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک عدالت وزیراعظم کو کس طرح نکال سکتی ہے؟ جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ وزیراعظم اس وقت تک اپنے منصب پر رہتا ہے جب تک کہ اسے پارلیمنٹ کا ، نہ کہ عدالت عظمیٰ کا اعتماد حاصل رہتا ہے  کہ دستور نے مملکت کے  تین ستون، یعنی عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان ایک نازک توازن قائم کیا ہے۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے دائرۂ کار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ دوسری صورت میں نظام نہیں چل سکتا۔ ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے  اپنا توازن کھو دیا ہے اور جنونی (berserk) ہوگئی ہے۔ اگر یہ اب بھی ہوش میں نہیں آتی تو مجھے ڈر ہے کہ وہ دن دُور نہیں جب دستور ختم ہوجائے گا اور الزام پورے کا پوراعدالت پر ہوگا، اور خاص طور پر اس کے چیف جسٹس پر، (دی نیوز، پاکستان ٹوڈے، ۲۲ جون ۲۰۱۲ئ)

جناب زرداری صاحب کو بھارت کے ان ’ہمدردوں‘ کی شکل میں وہ ترجمان مل گئے جو ان کی اپنی لیگل ٹیم سے بھی بازی لے گئے ہیں۔

اصل مسئلہ کیا ھے؟

اس ساری شعلہ بیانی کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اور ان تمام اعتراضات کے وزن کو بھی متعین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل حقائق پر کھلے دل سے غور کیا جائے اور پھر وقت کا قاضی جو فتویٰ بھی دے، قبول ہے۔

اصل ایشو کسی منتخب یا غیرمنتخب شخص کو سزا دینا یا نہ دینا نہیں، اصل ایشو دو ہی ہیں:

  • ایک: این آر او جسے عدالت کی فل کورٹ کی جانب سے اوّل دن سے ہی خلافِ دستور اور خلافِ قانون ہونے اور بدنیتی پر مبنی اور عالمی سازشوں کے ذریعے رُونما ہونے والا ایک ظالمانہ اور جمہوریت کش اقدام قرار دے دیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے حالیہ اقدامات کا تعلق نہ جمہوریت کے مستقبل سے ہے، نہ منتخب لوگوں کے معتبر یا غیرمعتبر ہونے سے۔ یہ تو سوال ہی نہیں اُٹھتا کہ عدالت وزیراعظم پر عدمِ اعتماد کر رہی ہے اس لیے کہ عدالت تو صرف ایک ’جرم‘ کے مرتکب سے قانون کے مطابق معاملہ کر رہی ہے۔ کسی پر اعتماد یا عدمِ اعتماد، نہ اس کا میدان ہے اور نہ وہ اس بارے میں کچھ کہہ رہی ہے۔ لیکن کیا اگر ایک جرم پارلیمنٹ کا رکن یا انتظامیہ کا اعلیٰ ترین عہدے دار کرے تو وہ جرم نہیں رہتا؟

واضح رہے کہ حکومت این آر او کو پارلیمنٹ میں لانے کے بعد اسے واپس لینے پر مجبور ہوئی۔ حکومت کے وکیل نے عدالت عظمیٰ میں اس کے دفاع سے معذرت کرلی اور عدالت نے محکم دلائل کے ساتھ اسے ایک bad law قرار دے کر منسوخ کردیا۔ بعد از خرابی بسیار، حکومت کی طرف سے ریویو کی اپیل بھی مسترد ہوگئی جس نے بحث کے باب کو بند کر دیا۔ اب مسئلہ صرف اس فیصلے کے نفاذ کا ہے اور جن لوگوں نے، خواہ وہ کوئی بھی ہو، اس سے جو فائدے اُٹھائے ہیں ان کو اس سے محروم کرنے کا ہے۔ یہ حق و انصاف کا کم سے کم تقاضا ہے۔ نیز اس معاملے میں قانون کی نگاہ میں سب کی برابری اصل اصول ہے۔ کسی کے لیے بھی کوئی مراعات نہ دستورہی دیتا ہے اور نہ قانون اور اخلاق میں اس کی گنجایش ہے۔ رہا زرداری صاحب کے لیے دفعہ ۲۴۸ کا معاملہ تو جیسا ہم نے پہلے عرض کیا قانونی طور پر نہ اس کا سہارا لیا گیا ہے اور نہ بنتی ہے۔ معاملہ فوج داری کا نہیں، سول ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج صاحب نے اصل حقائق معلوم کرنے کی زحمت کی ہوتی تو اپنے بیان میں ایسی فاش غلطی نہ کرتے۔ پاکستان کی حکومت کی جو درخواست سوئس عدالت کو گئی تھی وہ سول قانون کے تحت تھی، یعنی پاکستان کی دولت کی واپسی۔ فوج داری الزام سوئس پراسیکیوٹر کی طرف سے تھا، پاکستان کی طرف سے نہیں۔ جسٹس رمدے نے اس معاملے پر بڑی تفصیل سے اورفیصلہ کن روشنی ڈالی ہے، اس لیے دفعہ۲۴۸کو اس بحث میں لانا خلط مبحث ہے۔

  • دوسرا بنیادی ایشو یہ ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کے سلسلے میں فیصلہ کرنے کا اختیار کس کو ہے___ وزیراعظم کو، صدرِ مملکت کو، وزراے کرام کو، ارکانِ پارلیمنٹ کو یا ملک کی عدالتوں کو۔ دستور اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے طے کرچکا ہے اور وہ یہ ہے کہ عدالت اور عدالت ہی ایسے  معاملات کا فیصلہ کرسکتی ہے اور اس کا فیصلہ آخری اور حتمی ہے۔ نظری طور پر اس سے انکار نہیں ہوسکتا ہے کہ اس کا احتمال ہے کہ کبھی عدالت سے بھی غلطی ہوجائے لیکن اس کا راستہ بھی عدالتی نظام میں ریویو کے دائرے میں ہے، اس سے باہر نہیں۔ اسی طرح قانون بنانا مقننہ کا کام ہے، مگر قانون کی تعبیر صرف عدالت عظمیٰ کا حق ہے۔ پارلیمنٹ نئی قانون سازی کرسکتی ہے لیکن عدالت کے judicial review کے حق کو غصب نہیں کرسکتی اور تقسیم اختیارات اور اقتدار کی تکون (Trichotomy of power)کے یہی معنی ہیں۔ اگر عدالت کے فیصلوں کے بارے میں بھی کوئی یہ استحقاق حاصل کرنا چاہے کہ جس فیصلے کو چاہے تسلیم کرے اور جسے نہ چاہے اسے تسلیم نہ کرے تو یہ مہذب معاشرے کی بنیادوں کو مسمار کرنے کے مترادف اور جنگل کے قانون کی طرف مراجعت ہے۔

موجودہ حکومت اعلیٰ عدالت سے مسلسل برسرِپیکار ہے اور ۴۰ سے زیادہ فیصلوں ( بشمول این آر او کے فیصلے) پر عمل پیرا ہونے سے گریزاں ہے۔ یہ ایک جرمِ عظیم  ہے اور ایسے جرم کے مرتکبین اپنے حق حکمرانی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہ دستور کی خلاف ورزی ہی نہیں، اس کے خلاف بغاوت ہے اور دفعہ۶ کی زد ایسے تمام اقدامات پر پڑتی ہے جس کی سزا موت تک ہوسکتی ہے۔

ہمیں تعجب ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج اور ان کے بھارتی اور پاکستانی ہم نوا بڑی دیدہ دلیری بلکہ دریدہ دہنی سے کہہ رہے ہیں کہ ایک جمہوریت میں ایک منتخب وزیراعظم کو غیرمنتخب عدالت کیسے ہٹاسکتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں قانون کی نگاہ میں حاکم اور رعایا میں کوئی فرق نہیں اور جہاں کسی درجے کا استثنا دیا گیا ہے وہ غیرمحدود نہیں۔ خودبھارت میں ۱۲ جون ۱۹۷۵ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج جگ موہن لعل سنہا نے الیکشن میں بدعنوانیوں کے الزام میں اس وقت کی وزیراعظم محترمہ اندراگاندھی کو سزا دی تھی اور انھیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کردیا تھا۔ عدالت نے ان کو اپیل کا حق دیا تھا جس کا اندراگاندھی نے فائدہ   نہ اُٹھایا اور پھر وہ دستوری ’کو‘ آیا جس کا خوف یہ بھارتی قانونی سورما پاکستان کو آج دلا رہے ہیں، یعنی بھارت میں چند ہی ہفتوں میں ایمرجنسی کا نفاذ، دستور کو معطل کرنا، اپوزیشن کے قائدین کی گرفتاریاں اور اندراگاندھی اور سنجے گاندھی کا آمرانہ اقتدار!

ایک جائزے کے مطابق صرف گذشتہ صدی میں دنیا میں ۲۰ صدور اور ۲۲ وزراے اعظم ایسے ہیں جن کو سزائیں ہوئی ہیں اور ان کے جرائم میں کرپشن کے علاوہ جنگی جرائم، بے حُرمتی، قتل اور دیگر سنگین الزامات شامل ہیں۔ اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ساتویں صدی ہجری میں قاہرہ کے قاضی نے مملوک حکمران کو امارت سے معزول کردیا تھا۔

پروفیسر جان ایسپوزیٹو اسلام اور جمہوریت پر بحث کرتے ہوئے اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ عثمانیہ دور میں کم از کم چار ایسے خلیفہ تھے جن کو قاضی القضاۃ نے معزول کر دیا۔ پروفیسر محمود احمد غازی کی تحقیق یہ تھی کہ یہ تعداد چار نہیں نو ہے۔ تعداد جو بھی ہو، بات تعداد کی نہیں، اصول کی ہے اور ہمیں تعجب ہے کہ تحقیق کے بغیر بڑے بڑے قانون دان اور صحافی ایسے دعوے کر رہے ہیں اور پاکستان کی عدالت عظمیٰ کو دوش دے رہے ہیں کہ اس نے ایک منتخب وزیراعظم کو جرم کی  سزا دے دی۔ حالانکہ عدالت نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جتنے مواقع حکومت کو قانون کی  پاس داری اور دستور کے مطابق اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے دیے، اس کی مثال مشکل ہے۔ عدالت نومبر۲۰۰۹ء سے خط لکھے جانے کا مطالبہ کر رہی ہے مگر حکمرانوں نے محض اپنی کرپشن کو بچانے کے لیے تین سال ضائع کردیے، بلکہ عدالت کا تمسخر اُڑایا جس پر عدالت کو گرفت کرنا پڑی۔ گیلانی صاحب اور ان کے لائق وکیل نے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا اور معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی۔ پھر پارلیمنٹ کو استعمال کرنے کی قبیح کوشش کی اور اسپیکر سے ایک ایسی رولنگ دلوائی گئی جس کی دستور، قانون اور سیاسی روایات میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس پر  مستزاد، قومی اسمبلی سے رولنگ کے حق میں قرارداد پاس کرائی گئی جو خود ایوان کی بے حُرمتی اور اسپیکر کے اختیارات کو غصب (arrogate) کرنے کے مترادف تھا۔

عدالت نے ان تمام نازیبا حرکات سے صرفِ نظر کیا لیکن حکمران ٹولہ اور بھی جری ہوکر کھل کھیلنے میں مشغول رہا بلکہ عدالت اور خود چیف جسٹس کے خلاف ایک نہایت گھنائونا سازشی جال بُننے کی کوشش کی گئی جو اللہ کی حکمت سے خود ان کے اُوپر لوٹ آیا ۔ اربابِ دولت اور اصحابِ صحافت سب کو ملوث کرنے کی کوشش کی اور فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر بھی چھینٹے اُڑائے گئے حالانکہ عدالت عظمیٰ لاپتا افراد اور بھتہ خوری اور لاقانونیت کے مسائل پر (عوامی درخواستوں پر یا خود اپنی صواب دید پر)، دستور کی دفعہ ۱۸۴ کے تحت گرفت کررہی ہے اور سیاست دانوں کے مقابلے میں بیوروکریسی کے ہر گرفت سے بالا (untouchable) افراد تک اور ایجنسیوں اور ایف سی کے ذمہ داروں پر قانون لاگو کرنے کی مہم میں مصروف ہے۔ بلاشبہہ عدل ہر حال میں ہونا چاہیے، ہرکسی کے باب میں ہونا چاہیے اور ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ نیز احتساب سے کوئی بالا نہیں۔ نہ سیاست دان، نہ علما، نہ جج، نہ جرنیل،   نہ صحافی، نہ تاجر اور نہ عام شہری۔ جس طرح امتیازی انصاف ناقابلِ قبول ہے اسی طرح عدلیہ کے فیصلوں کے باب میں کسی کو تسلیم کرنے اور کسی کو نہ کرنے کی بھی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔ عدالت نے بہت سے اہم فیصلوں میں وقت ضرور لیا ہے مگر کسی جانب داری کا کسی درجے میں بھی مظاہرہ نہیں کیا۔ عدالتی فعالیت کا اگر مظاہرہ ہوا تو وہ عوام کے حق کی حفاظت اور دستوراور قانون کا احترام کرانے کے لیے ہوا ہے، اور اس کے برعکس حکومتی افراد اور خصوصیت سے حکمران پارٹی کے افراد کے باب میں بار بار کے مواقع دے کر عدالتی تحمل (restraint) کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس پر عوام مضطرب رہے ہیں۔

بحران کا حل

موجودہ حالات میں اعلیٰ عدالت نے دستور اور قانون کی پاس داری، عوام کو ان کے حقوق دلانے اور ملک سے بدعنوانی، کرپشن، بدحکمرانی اور اقرباپروری  کے خاتمے کے لیے جو کوششیں کی ہیں وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ بلاشبہہ حالات بہت خراب ہیں اور جو کچھ کیا جاسکا ،    وہ بہت ہی محدود ہے مگر جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ بہت قیمتی ہے۔ آزاد عدالت اور آزاد اور ذمہ دار صحافت پر ضرب لگانے کی جو کوششیں ہورہی ہیں وہ قابلِ مذمت ہیں۔ عدلیہ کو مضبوط کرنا اور عدلیہ کی پشت پر پوری عوامی تائید کو منظم کرنا جمہوریت کی بقا اور فروغ کے لیے نہایت ضروری ہے۔

ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جناب یوسف رضا گیلانی نے عدالت کے فیصلے کو قبول نہیں کیا اور شہید بننے کے شوق میں بے توقیر ہوکر ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوئے۔ انھوں نے پاکستان کے وزیراعظم سے زیادہ جناب زرداری صاحب کے مفادات کے محافظ اور پارٹی کارکن کا کردار ادا کیا۔ زرداری صاحب نے بھی عدالت کے فیصلے کوتسلیم نہیں کیا، عدالت کا مذاق اُڑایا اور ان کی ساری تگ و دو عدالت کے فیصلوں کو  ناکام کرنے کی ہے۔ راجا پرویز اشرف کا نئے وزیراعظم کے طور پر انتخاب بھی اسی مذموم کھیل کا حصہ ہے۔ سب معترف ہیں کہ موصوف میں ایسی کوئی خوبی نہیں کہ وہ اس عظیم ذمہ داری کے کم سے کم تقاضے بھی پورے کرسکیں۔ وہ ایک ناکام وزیر اور ایک بدنام سیاست دان ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے اپنے ایک رفیق وزیر نے ان کے خلاف بدعنوانی اور کرپشن کا مقدمہ عدالت عظمیٰ میں دائر کیا اور وہ آج بھی اس پر قائم ہیں۔

خود عدالت نے رینٹل پاور کے مقدمے کے فیصلے میں دو بار ان کے خلاف تحقیق اور کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ ایک ایسے شخص کو وزیراعظم بنانے اور برملا اس سے بھی وہی خدمت لینے کا اعلان جو یوسف رضا گیلانی صاحب کی برخاستگی کا سبب بنی، تصادم اور کش مکش بلکہ کھلی جنگ کی دعوت ہے۔ یہ تباہی کا راستہ ہے اور جمہوریت کو اصل خطرہ جمہوریت کے ان دعوے داروں سے ہے جن کے بارے میں یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ وہ نادان دوست ہیں یا دانا دشمن؟ صاف نظر آرہا ہے کہ عدالت اپنے فیصلے پر عمل درآمد کا مطالبہ کرے گی اور اسے یہی کرنا چاہیے اور پوری مستعدی سے کرنا چاہیے۔ امکان یہی ہے کہ نئے وزیراعظم اس پرانی لن ترانی کا اعادہ کریں گے اور قانون اپنا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگا۔ ان حالات میں دو ہی راستے ہیں:

۱- حکمران اپنی روش کو بدلیں، عدالت کے فیصلے کو قبول کریں اور سوئس عدالت کو فوری طور پر خط لکھیں تاکہ یہ کش مکش ختم ہو، اور پھر مشاورت کے ذریعے جلد از جلد اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہو جو ایک معتمدعلیہ اور غیر جانب دار الیکشن کمیشن کے تحت اور قابلِ قبول اور غیر جانب دار نگران حکومت کی نگرانی میں منعقد ہوں۔

۲- اگر حکومت یہ راستہ اختیار نہیں کرتی تو تمام اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایک ایسا متفقہ لائحہ عمل تیار کریں جس کے نتیجے میں پُرامن عوامی تحریک کے ذریعے موجودہ حکومت کو دستور، قانون اور نظامِ عدل کے خلاف اس کی جنگ سے روکا جائے۔ اگر وہ نہ رُکے تو پھر اس کو اقتدار سے ہٹاکر ایک غیر جانب دار عبوری حکومت کے تحت جلد از جلد نئے انتخابات منعقد کیے جائیں، الیکشن کمیشن کو دستور کے مطابق تمام اختیارات دیے جائیں اور عبوری حکومت شفاف انتخابات کا اہتمام کرے تاکہ قوم اس دلدل سے نکلے اور ایک حقیقی اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کے قیام اور اپنے حقیقی مقصد اور مشن کے حصول کے لیے سرگرم ہوسکے۔

 بہت وقت اور بہت وسائل ضائع ہوچکے ہیں۔ اب مزیدنقصان کی گنجایش نہیں۔ تبدیلی دستک دے رہی ہے اور عوامی قوت کے ذریعے ایک صالح انقلاب ہی کے ذریعے حقیقی اور صحت مند تبدیلی آسکتی ہے۔ اس کے لیے سب کو ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اسی طرح مشترک جدوجہد کرنا ہوگی جس طرح تحریکِ پاکستان میں سب نے مل کر انگریز اور ہندو قیادت دونوں کے کھیل کو ناکام بنانے کے لیے کی تھی اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی ایک آزاد مملکت قائم ہوئی۔ اسی طرح آج    اس مملکت کی بقا اور استحکام کے لیے اس کو اس کے اصل مقصد وجود کے حصول کے لیے سرگرم کرنے کے لیے اور اسے ان غاصبوں سے نجات دلانے کے لیے جو ایک عرصے سے اس پر قابض ہیں  متحدہ ملّی جدوجہد کی ضرورت ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی قوم، خصوصیت سے اس کے نوجوان اپنے وطن عزیز کو غاصبوں کے چنگل سے چھڑانے اور اسے ۱۸کروڑ انسانوں کے لیے خوشی، خوش حالی اور خودمختاری کا گہوارا بنانے کی جدوجہد میں ہرمفاد اور ذاتی پسند و ناپسند سے بلند ہوکر سردھڑ کی بازی لگا دیں گے   ؎

نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی