سوال: اگر شرعی حجاب کے ساتھ عورت نمازِ تراویح یا کسی بھی فرض نماز کے لیے مسجد جائے تو کیا اسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا وہی اجر و ثواب حاصل ہوگا جو مرد کو ہوتا ہے، یا یہ اجر وثواب مردوں کے لیے مخصوص ہے؟
جواب: تمام فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت اگر اپنے گھر میں نماز پڑھے چاہے تنہا ہی پڑھے اس کا اجروثواب مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے سے زیادہ ہے۔ جیسے حضرت اُم سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَیْرُ مَسَاجِدِ النِّسَائِ قَعْرُبُیُوْتِھِنَّ (احمد) ’’عورتوں کے لیے بہترین مسجد، ان کے گھر کا ایک کونہ ہے‘‘۔جماعت کی فضیلت کا اجروثواب مردوں کے ساتھ مخصوص ہے، مردوں کو ہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ مسجد میں آکر نماز پڑھیں، البتہ نمازِعید کے لیے نکلنے کا حکم مردو عورت دونوں کے لیے ہے۔
فقہا کا تو اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ عورتیں اپنے گھروں یا خواتین کے مدارس اور کالجوں، جامعات وغیرہ میں باجماعت نماز پڑھ سکتی ہیں یا نہیں؟ بعض فقہا کے نزدیک ایسا کرنا سنت ہے، بعض کے نزدیک مباح، اور بعض کے نزدیک عورتوں کے لیے اپنی جماعت کرانا مکروہ ہے۔ جو فقہا عورتوں کی جماعت کو جائز بلکہ مستحب کہتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم ورقہؓ کو اپنے گھر والوں کو باجماعت نماز پڑھانے کی اجازت دی تھی۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کے بارے میں روایتیں ملتی ہیں کہ بعض اوقات انھوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور صف میں ان کے درمیان کھڑی ہوئیں اور بلندآواز سے قراء ت کی۔ حضرت اُم سلمہؓ رمضان میں عورتوں کو نماز پڑھاتی تھیں اور صف میں ان کے درمیان کھڑی ہوتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی ایک کنیز کو کہتے تھے کہ وہ رمضان میں ان کے گھر کی خواتین کی امامت کرائیں۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: جو لوگ نمازیوں اور تہجد پڑھنے اور قیام اللیل کرنے والوں کے لیے سحری یا کھانا تیار کرتے ہیں اور اس وجہ سے خود تہجد نہیں پڑھ سکتے، کیا انھیں بھی تہجد پڑھنے کا ثواب ملتا ہے؟
ج: بلاشبہہ جو لوگ تہجد اور قیام اللیل کرنے والے روزہ داروں کے لیے سحری کا کھانا تیار کرتے ہیں، انھیں تہجد پڑھنے والوں کے برابر ثواب ملتا ہے، بلکہ ہوسکتا ہے ان کا ثواب اُن سے بڑھ کر ہو۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے حضرت انسؓ کہتے ہیں:ہم آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ کچھ لوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا اور کچھ نے نہیں۔ گرم دن تھا، ایک جگہ ہمارا پڑائو ہوا، سایے کا کوئی بندوبست نہ تھا، لوگ اپنی چادروں یا اپنے ہاتھوں سے سورج کی تپش سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جن لوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا وہ گرگئے اور جنھوں نے روزہ نہیں رکھا تھا وہ اُٹھے، سایے کا بندوبست کیا، سواری کے جانوروں کو پانی پلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج بے روزہ لوگ اجروثواب لے گئے‘‘۔ دوسری حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے: مَنْ جَھَّز غَازِیًا فَقَدْ غَذَا (جس نے کسی جہاد پر جانے والے کو سازوسامان مہیا کیا، گویا وہ خود جہاد میں شریک ہوا)۔ سحری تیار کرنے والوں کو تہجد کی نماز کا اپنا حصہ بالکل چھوڑ نہیں دینا چاہیے، تھوڑا بہت قیام کرلینا چاہیے۔ بالخصوص اگر باجماعت قیام اللیل کی نماز ہورہی ہے تو آخری حصے، یعنی وتر نماز میں شریک ہونا چاہیے، تاکہ انھیں جماعت میں شریک ہونے اور امام کے ساتھ نماز ختم کرنے کا اجر حاصل ہو جو پوری رات قیام کرنے کے برابر ہے۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: رمضان کے آغاز پر میں نے اپنے آپ سے عہد کیا تھا کہ قرآن مجید کے کئی ختم کروں گا مگر افسوس ہے کہ مجھے وقت نہیں مل رہا۔ آٹھ دس گھنٹے کام کر کے جب گھر واپس آتا ہوں تو افطار کا وقت قریب ہوتا ہے۔ افطار کے بعد تھکاوٹ کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرپاتا۔ بمشکل نماز ادا کر کے صبح تک آرام کرتا ہوں۔ مجھے کیا کرنا چاہیے؟
ج: مومن سے تقاضا یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائیاں بیک وقت حاصل کرے، نہ آخرت کے بہانے دنیا کو بالکل چھوڑ دے اور نہ دنیا میں منہمک ہوکر آخرت ہی کو بھول جائے۔ دنیا تو آخرت کا زینہ ہے۔ اس سے آخرت کے لیے زادِ راہ حاصل کرنا ہے۔ دنیا آخری ٹھکانا نہیں، بلکہ یہ ایک گزر گاہ ہے جہاں سے انسان نے آخرت کی طرف کوچ کرنا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو اس کوچ اور سفر کے لیے تیاری کرے۔ اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: سب سے زیادہ عقل مند انسان کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جو موت کو بہت زیادہ یاد رکھتا ہے اور اس کے لیے سخت تیاری کرتا ہے (طبرانی)۔ چنانچہ کوچ کے دن کے لیے تیاری انتہائی ضروری ہے۔
انسان کو چاہیے کہ بیک وقت دنیا کے لیے بھی سعی و جہد کرے اور آخرت کے لیے بھی ۔ انسان کو گھر، لباس، خوراک اور مال و متاع چاہیے تاکہ اس کا تن بدن زندہ و سلامت رہے، ساتھ ساتھ اسے درست ایمان، نماز، روزہ، اللہ تعالیٰ کے ذکر، قرآن کی تلاوت اور لوگوں کے ساتھ نیکی وغیرہ کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس کا دل اور روح زندہ رہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج (انفال ۸:۲۴) ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے بلاوے پر لبیک کہو۔ جب وہ تمھیں ایسے کاموں کی طرف بلائیں جن میں تمھاری زندگی ہے‘‘۔ چنانچہ ایک مسلمان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ رمضان میں یا رمضان کے علاوہ قرآن مجید کی تلاوت کرے۔ اس کا روزانہ قرآن مجید کا ایک مقررہ ورد ہونا چاہیے تاکہ وہ قرآن کا زیادہ سے زیادہ ۴۰ دن تک ایک ختم کرسکے، جب کہ ماہِ رمضان میں اس سے زیادہ ہونا چاہیے۔ رمضان عبادات اور تلاوتِ قرآن کا سب سے اچھا موسم ہے۔ آپ اپنے وقت کی تنظیم نو کریں، ایک گھنٹہ نکال کر آپ دو پاروں سے زیادہ کی تلاوت کرسکتے ہیں۔ اس طرح آپ دو یا تین بار ختم قرآن کرسکتے ہیں۔ جو وقت آپ کا گاڑی یا بس میں گزرتا ہے، اس کو استعمال کرسکتے ہیں۔ مُصحف کا نسخہ ہمیشہ آپ کے پاس ہونا چاہیے۔ اس طرح اگر آپ اس وقت کو ہی استعمال کریں تو اس مختصر وقت میں کئی بار ختم قرآن کرسکتے ہیں۔ آپ دفتر یا کاروبار سے کام کا دورانیہ بھی کم کروا سکتے ہیں چاہے اس سے آپ کی تنخواہ اور آمدنی میں کچھ کمی ہی واقع ہو۔ اس قربانی کا اللہ آپ کو بہتر بدل عطا فرمائے گا۔ رمضان کا آخری عشرہ پورا یا اس کے چند دن آپ چھٹی بھی لے سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اس ماہِ مبارک سے حتی الوسع استفادے کی کوشش کریں۔ اللہ ہمیں اپنی اطاعت میں لگا دے۔
اگر کام کا دورانیہ کم کرنا یا چھٹی لینا ممکن نہ ہو تو بھی اپنی طاقت کے مطابق امکانی حد تک اپنے وقت کا پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کیجیے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے جان لیا کہ قرآن کی تلاوت کا آپ کو کس قدر شوق ہے اور اگر کام کی رکاوٹ نہ ہوتی تو آپ اس شوق کو ضرور پورا کرتے، تو اللہ آپ کو اس نیت کے مطابق اجروثواب سے ضرور نوازیں گے۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: کیا ایک آدمی روزے کی خاطر اپنا گرم علاقہ چھوڑ کر کسی ٹھنڈے علاقے کی طرف یا ایسے ملک کی طرف جہاں دن چھوٹا ہوتا ہے، جاسکتا ہے؟
ج: اس میں کوئی حرج نہیں۔ ایسا کرنے سے عبادت کی ادایگی میں آسانی ہوسکتی ہے، اور عبادت میں آسانی پیدا کرنا مطلوب چیز ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں پیاس یا گرمی کی وجہ سے سر پر پانی ڈالتے تھے (احمد، ابوداؤد)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ روزے کی حالت میں کپڑا بھگو کر اُوپر لے لیتے تھے۔ حضرت انسؓ کا ایک پانی کا حوض ہوتا، روزے کی حالت میں آپ اس میں چلے جاتے تھے۔ مقصد عبادت کی مشقت کو کم کرنا تھا۔ عبادت میں مشقت جس قدر کم ہوگی بندہ پوری توجہ، انہماک اور اطمینان سے اسے ادا کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب روک کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا لگ چکا ہو یا رفع حاجت کی ضرورت ہو تو اس صورت میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے (مسلم)۔یہ احکام اس لیے دیے گئے ہیں تاکہ بندہ جب عبادت کر رہا ہو وہ پوری طرح راحت و اطمینان سے ہو اور اپنے رب کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو۔ اس لیے اگر روزے دار ایئرکنڈیشنڈ یا ٹھنڈے کمرے میں وقت گزارے تو کوئی حرج نہیں۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: میرے چند روزے شرعی عذر (یعنی ایام) کی وجہ سے پچھلے رمضان میں قضا ہوگئے تھے، مگر میں نے ابھی تک قضا روزے نہیں رکھے۔ اب دوسرا ماہِ رمضان شروع ہوگیا ہے، مجھے کیا کرنا چاہیے؟
ج: مریض، مسافر، شرعی عذر رکھنے والی عورت کے لیے بنیادی حکم تو یہی ہے کہ ان کے جو روزے قضا ہوں، عذر ختم ہونے کے بعد جلد رکھ لینے چاہییں تاکہ وہ اس فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔ اگر ان کا ارادہ قضا روزے رکھنے کا تھا مگر نہ رکھ سکیں تو ان شاء اللہ تاخیر سے وہ گنہگار نہ ہوں گے، اس لیے کہ ان کی فوری قضا فرض نہیں۔ چنانچہ وہ قضا روزے رکھنے سے پہلے دیگر نفلی روزے بھی رکھ سکتے ہیں۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہؓ کا یہ قول ملتا ہے کہ میرے ذمے رمضان کے قضا روزے ہوتے تھے اور مَیں وہ شعبان میں ہی رکھ پاتی تھی، حالانکہ آپؓ سال کے دوران دیگر نفلی روزے بھی رکھتی تھیں۔
مطلب یہ کہ دوسرا رمضان آنے تک اگر پچھلے رمضان کے قضا روزے نہ رکھے جاسکے اور اس کی وجہ کوئی مجبوری تھی تو تمام فقہا کے نزدیک اس تاخیر پر اس کا کوئی مواخذہ یا کفارہ نہیں۔ لیکن اگر کسی مجبوری یا عذر کے بغیر اس نے قضا روزے نہ رکھے تو کئی صحابہ کی راے ہے کہ اس تاخیر پر ہر روزے کے بدلے میں قضا کے ساتھ ساتھ ایک مسکین کی ایک دن کی خوراک کا کفارہ بھی ادا کرے۔ تینوں ائمہ امام مالک، شافعی اور احمد کی راے بھی یہی ہے۔ دوسری راے یہ ہے کہ اس پر صرف روزوں کی قضا لازم ہے ، کوئی کفارہ نہیں۔ امام ابوحنیفہ اور آپ کے شاگردوں کی یہی راے ہے۔ مسلک اہلِ حدیث کے عالم نواب صدیق حسن خان نے بھی اسی راے کو ترجیح دی ہے۔ لیکن اگر استطاعت ہو تو جمہور کی راے کے مطابق قضا کے ساتھ کفارہ بھی ادا کیا جائے، تو یہ زیادہ بہتر اور مستحب ہے۔ اگر صرف روزے ہی رکھ لیے جائیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ (ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: یہ بات واضح ہے کہ رمضان میں کسی روزہ دار کو افطار کرانابڑے اجروثواب کا کام ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس روزہ دار سے مراد کون ہے؟ مسافر یا وہ جو خود افطار کرنے کی مالی استطاعت نہیں رکھتا، یا کوئی اور جو مالی لحاظ سے خوش حال ہو؟ ہم یہاں مسلم کمیونٹی کے افراد خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔ محض تفاخر اور ایک دوسرے کے مقابلے کے لیے افطار پارٹیاں کرتے ہیں۔ کیا اس سے بھی اجروثواب حاصل ہوتا ہے؟
ج: روزہ دار کو روزہ افطار کرانے والے کو روزہ دار کے برابر اجر ملے گا اور اس سے روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ یہ اجروثواب بلاتفریق ہر روزہ دار کو افطار کرانے پر ملتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ روزہ دار نادار و محتاج ہو، اس لیے کہ یہ بطور صدقہ و خیرات نہیں بلکہ بطور ہدیہ ہے اور ہدیہ کے لیے یہ شرط نہیں کہ جس کو ہدیہ اور تحفہ دیا جا رہا ہے وہ فقیر اور ضرورت مند ہو، بلکہ تحفہ خوش حال اور نادار دونوں کو دیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف وہ دعوتیں جو نمود و نمایش اور تفاخر کے لیے کی جائیں، درست نہیں۔ ایسی دعوتیں کرنے والوں کو اجروثواب نہیں ملتا، وہ اپنے آپ کو بڑے اجر سے محروم کردیتے ہیں۔ جس کو ایسی پارٹیوں کی دعوت دی جائے تو اسے ان میں شریک نہیں ہونا چاہیے، اور معذرت کرتے ہوئے حکیمانہ انداز سے مدعو کرنے والے کو سمجھانا چاہیے،اور کسی مخصوص شخص کو ٹارگٹ بنانے کے بجاے عمومی انداز سے بات کرتے ہوئے شریعت کا حکم واضح کرنا چاہیے۔ نرمی اور حکمت سے کی گئی بات کا بہرحال اثر ہوکر رہتا ہے۔(ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: کیا افطار کی دعوت سے وقت ضائع ہونے کی بنا پر معذرت کی جاسکتی ہے؟
ج: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی دعوت کو قبول کیا جائے، مگر اگر کوئی مجبوری ہو تو خوش گوار انداز سے معذرت بھی کی جاسکتی ہے۔ رمضان میں کی جانے والی بعض افطار پارٹیوں میں مغرب کی نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا، بلکہ بعض صورتوں میں تو نمازِ عشاء اور تراویح بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی افطار پارٹیوں میں شرکت سے معذرت کی جائے۔ اس طرح عبادات اور ذکر الٰہی کے لیے وقت بچایا جاسکتا ہے، خاص طور پر رمضان کے ان قیمتی لمحات میں، جب کہ عبادات کا اجروثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ (ڈاکٹرعبدالحی ابڑو)
س: میرا ایک دوست ہے، جسے میں نے بطور قرض ۳۰۰ دینار دیے تھے۔ اس وقت وہ طالب علم تھا۔ اب وہ فراغت حاصل کرچکا ہے لیکن اب تک اسے کوئی نوکری نہیں ملی ہے۔ اس کی مالی پوزیشن خراب دیکھتے ہوئے میں نے اس رقم پر جو زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، وہ اسے دے دی۔ کیا میرا یہ عمل درست ہے؟ کیا میں اس رقم کی زکوٰۃ نکالتا رہوں جو بہ دستور میرے دوست پر قرض ہے؟
ج: قرض کی واپسی اگر کسی بھی مرحلے میں ممکن ہے، یعنی جس کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ کبھی نہ کبھی واپس مل جائے گا، تواس پر جمہور فقہا کے نزدیک ہر سال زکوٰۃ واجب ہے۔ بعض فقہا کے نزدیک اس کی زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوتی ہے جب وہ واپس مل جائے، لیکن اگر قرض کی واپسی ناممکن ہو تو ایسی صورت میں اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ ناممکن ہونے کے باوجود وہ رقم کسی مرحلے میں واپس مل جائے تو اس پر صرف ایک سال کی زکوٰۃ واجب ہے۔
آپ نے اپنے دوست کی خراب مالی پوزیشن کے پیش نظر اس رقم کی زکوٰۃ اسے دے دی یہ بالکل جائز ہے، کیوں کہ آپ کا دوست مسکین کے زمرے میں شمار کیا جائے گا، یا اپنے گھر والوں سے دُور ہے تو مسافر شمار کیا جائے گا۔ یونی ورسٹی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے کیوں کہ محض ڈگری نہ اس کا پیٹ بھرسکتی ہے اور نہ تن ڈھانپ سکتی ہے، بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ آپ یہ قرض معاف کر دیں اور اس رقم کو آپ زکوٰۃ شمار کرلیں جیساکہ بعض فقہا کا قول ہے۔(ڈاکٹر یوسف قرضاوی،فتاویٰ یوسف قرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغرفلاحی، مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی، ص ۱۴۱)
س: میرے پاس چند قطعہ اراضی ہیں جنھیں میں نے ایک مدت قبل خریدا تھا۔ اگر اس پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے تو کیا اُس قیمت کے لحاظ سے ادا کی جائے گی، جس قیمت پر میں نے اس زمین کو برسوں قبل خریدا تھا، یا ہر سال زکوٰۃ کی ادائی کے وقت اس کی حالیہ قیمت کے لحاظ سے؟ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہرسال زمین کی قیمت نکالنا ایک مسئلہ ہے۔
ج: زکوٰۃ کی ادایگی کے اعتبار سے زمین کی دو قسمیں ہیں:
۱- ایک زمین وہ ہوتی ہے جسے انسان صرف اس نیت سے خریدتا ہے کہ کچھ مدت گزرنے کے بعد جب اس کی قیمت میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا، تو اسے فروخت کرکے کچھ فائدہ کما لے۔ ایسی صورت میں زمین کی حیثیت عروض التجارۃ (مالِ تجارت) کی سی ہے۔ چنانچہ جس طرح مالِ تجارت کی قیمت کا اندازہ کر کے اس کی زکوٰۃ نکالی جاتی ہے، اسی طرح اس زمین کی قیمت کا اندازہ کر کے اس پر ڈھائی فی صد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ قیمت کا اندازہ ہرسال لگایا جائے کیوں کہ ہرسال اس کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جب اس کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے تو بلاشبہہ اس کی زکوٰۃ کی مقدار میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ یہی جمہور علما و فقہا کا قول ہے۔ البتہ امام مالک کہتے ہیں کہ زمین کی قیمت کا اندازہ صرف ایک بار لگایا جائے اور اس کی زکوٰۃ بھی صرف ایک بار ادا کی جائے گی، یعنی اسے فروخت کرتے وقت، اس زمین کی جو قیمت ملتی ہے اس میں سے ڈھائی فی صد زکوٰۃ کی مد میں نکال دیا جائے گا۔ بہرحال جمہور علما کا قول زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کیوں کہ جس زمین کو آپ نے اس سال ۱۰ ہزار میں خریدا ہے، دو سال کے بعد آپ اسے ۵۰ہزار میں فروخت کرتے ہیں، تو کیا آپ کا ضمیر گوارا کرے گا کہ زکوٰۃ صرف ۱۰ہزار پر نکالیں؟ بعض حالتوں میں امام مالک کے مسلک پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے، مثلاً ایسی حالت میں کہ زمین کی قیمت بہت گر گئی ہو۔ آپ نے اسے ۱۰ہزار میں خریدا اور کئی سال گزرنے کے باوجود اس کی قیمت۱۰ہزار سے بھی کم ہو۔ ایسی صورت میں امام مالک کے مسلک پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
۲- دوسری زمین وہ ہوتی ہے، جسے فروخت کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس پر کرایے کی خاطر دکان یا مکان بنانے کے لیے خریدتے ہیں۔ ایسی زمین پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ البتہ تعمیر کا کام مکمل ہوجانے کے بعد جو کرایہ اس دکان یا مکان سے آئے گا اس پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہوگا۔ (ڈاکٹر محمد یوسف قرضاوی،ایضاً، ص ۱۳۹-۱۴۰)