اسلامی ریاست کا نام آتے ہی بعض لوگ فقہی اختلافات کو پیش کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اتنے اختلافات کے ہوتے ہوئے اسلام کا نظامِ حیات کامیابی سے چل ہی نہیں سکتا۔ اس فتنہ انگیزی اعتراض کے جواب میں یہ کتاب بتاتی ہے کہ اسلام نے ایسے اصولِ اتحاد معین کردیے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے اختلاف صرف حدِ جائز میں رہتا ہے اور اُمت کے لیے سراسر موجب رحمت ہوتا ہے، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور تک مسلمانوں کا منظم معاشرہ انھی اصولوں پر برقرار رہا اور اختلافات کبھی موجب ِ فتنہ نہ ہوئے۔ بعد کے دور میں فقہی مدارسِ فکر اور فقہی اختلافِ آرا نے جس طرح ارتقا کیا ہے اس کا ایک اجمالی جائزہ لینے کے بعد مؤلف نے واضح کیا ہے کہ اجتہادی آرا کے اختلاف نے تفرقہ کی صورت کن وجوہ سے اختیار کی۔ آخری بحث بڑی ہی اہم بحث ہے جس کا منشا یہ واضح کرنا ہے کہ اگر آج ایک اسلامی ریاست برپا ہو تو وہ اجتہادی آرا کے اختلاف سے کس طرح عہدہ برآ ہوگی، اس میں عام مسلمانوں اور ان کے علما کے لیے فقہی اور سیاسی اختلاف کی حدیں کہاں تک وسیع ہوں گی، مسلمانوں کی مختلف فرقوں کی حیثیت اس میں کیا ہوگی اور شہریت کے حقوق دینے کے لیے وہ کسی شہری سے کم از کم کن بنیادی اُمور پر قائم رہنے کا مطالبہ ازروے دستور کرسکے گی۔ یہ بحث اسلامی دستور کے ایک اہم مسئلے کو محیط ہے۔ کتاب کا اندازِ بحث تحقیقی اور سائنٹفک ہے۔ (اسلامی ریاست میں فقہی مسائل اور ان کا حل، ازجناب مولانا امین احسن اصلاحی۔شائع کردہ: مکتبہ یثرب، ۱۰-اے، دی مال، لاہور۔ قیمت: بلاجلد ایک روپیہ)۔ (’مطبوعات‘ ، ادارہ، ترجمان القرآن، جلد۳۸، عدد ۳-۴،شوال ۱۳۷۱ھ، جولائی ۱۹۵۲ء ، ص۱۴۵-۱۴۶)