حامد عبدالرحمن الکاف کا مقالہ ’تفہیم القرآن: مقاصد و اہداف‘ (مئی ۲۰۱۲ئ) خیال افروز ہے، البتہ اس کا آخری عنوان ’اہم تقاضا‘ محلِ نظر ہے۔ صاحب ِ مضمون کی یہ تجویز کہ تفہیم القرآن کے زبان وبیان کو موجودہ حالات کے تقاضوں کے تحت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، جتنی سادگی سے کہہ دی گئی ہے اُتنی ہی ناقابلِ قبول ہے اور عملاً ناممکن بھی۔ اگر ایک دفعہ یہ راستہ کھول دیا گیا تو پھر تفہیم کو دانستہ یا نادانستہ تحریف سے کوئی محفوظ نہیں رکھ سکے گا اور مضمون نگار کے پیش نظر جو فائدہ ہے وہ بھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔
تفہیم القرآن نے ہرسطح کے ذہن کے لوگوں کو متوجہ اور متاثر کیا ہے اور تمام دائرہ ہاے زندگی کے لوگوں اور طبقات پر قرآن فہمی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اس کا اسلوبِ تحریر پہلے کبھی اس کے ترسیل خیالات و افکار میں رکاوٹ بنا ہے اور نہ آیندہ کبھی بنے گا۔ البتہ اگر کچھ مقامات واقعی ایسے ہوں جو توضیح طلب ہوں تو وہ الگ مضامین کی شکل میں یا تشریحی عبارات کی شکل میں لکھے جاسکتے ہیں، لیکن تفہیم کے اصل متن میں کسی قسم کی تبدیلی ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ جو تصانیف کلاسک کا مقام حاصل کرلیتی ہیں وہ خود اپنی جگہ ایک معیار ہوتی ہیں جس کی تقلید کی جاتی ہے۔ اُنھیں ترمیم و اصلاح کی سان پر نہیں چڑھایا جاتا۔ شیکسپیئر کے بعد انگریزی زبان و ادب و انشاء غیرمعمولی تغیرات سے گزر چکے ہیں، لیکن شیکسپیئر کے اسلوبِ بیان کو بدلنے کے بجاے تشریحات پر کتابوں کا وسیع ذخیرہ وجودمیں آچکا ہے۔
جہاں تک سائنسی حقائق کے ارتقا اور تغیرات کا ذکر ہے، اس لحاظ سے الگ معلومات مرتب کی جاسکتی ہیں اور سید مودودیؒ کے بیان کردہ سائنسی حقائق کو up to date کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ سب کچھ علمی ضمیموں کی شکل میں ہونا چاہیے جو وقتاًفوقتاً تفہیم القرآن کی مختلف جِلدوں کے آخر میں شامل کردیے جائیں۔
’تفہیم القرآن : مقاصد و اہداف‘ میں مصنف نے تفہیم القرآن کی تخلیق و تصنیف میں سید مودودیؒ کی محنت و عرق ریزی پر روشنی ڈالی ہے اور اسے بجا طور پر ایک حرکی تفسیر قرار دیا ہے، جو آنے والے زمانوں میں بھی اسلامی تحریکوں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔ لیکن مضمون کے آخر میں انھوں نے تفہیم کو بدلتے ہوئے زمانے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں ’تغیروترمیم‘ کی جو تجویز پیش کی ہے وہ نہایت تعجب خیز ہے۔
سید مودودیؒ کی تفہیم القرآن عہدِحاضر کی سب سے نمایاں تفسیر ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ آنے والے زمانوں میں اس کی شرح لکھی جائے اور علما و محققین اس سے کسب ِ فیض کرکے اپنے نتائج فکر پیش کریں لیکن یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ تفہیم کا طرزِ اسلوب ہی بدل دیا جائے، زبان ہی تبدیل کردی جائے۔ یہ تجویز تو سید مودودی کے عظیم الشان علمی کارنامے کو غتربود کرنے کے مترادف ہے۔ میں یہاں یہ عرض کروں گا کہ کیا کبھی کسی نے حضرت علیؓ کی نہج البلاغہ، امام غزالیؒ کی کیمیاے سعادت، حضرت علی ہجویریؒ کی کشف المحجوب اور حضرت شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللّٰہ البالغۃ پر فرسودہ ہونے کی پھبتی کسی ہے۔ یہ اور ایسی ہزاروں کتابیں اپنی اصل برقرار رکھتے ہوئے اہلِ علم و جستجو کی اب بھی رہنمائی کررہی ہیں اور کرتی رہیں گی۔
’تفہیم القرآن: مقاصد و اہداف‘ میں آخر میں توجہ دلائی گئی ہے کہ تفہیم القرآن کو رائج الوقت اُردو میں ازسرنو تحریر کیا جائے۔ میری گزارش ہے کہ سیدمودودیؒ کی تفہیم قرآن پاک کی ترجمانی و تفسیر کے ساتھ ساتھ ایک ادبی شاہکار بھی ہے۔ سید صاحب نے ترجمانی کے لیے اُردو کے وہ اعلیٰ اور ارفع الفاظ استعمال کیے ہیں کہ تفہیم کو باربار پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔اُردو میں انگریزی کے بہت سے الفاظ رائج ہوتے جارہے ہیں، مثلاً ’بدعنوانی‘ کے بجاے کرپشن۔ ان حالات میں تفہیم نئی نسل کے لیے صحیح اُردو جاننے کا ایک اہم ماخذ بھی ہے۔
’تفہیم القرآن: مقاصد و اہداف‘ ایک ذہن کشا کاوش ہے کہ قارئین تفسیر پر واضح ہو کہ یہ کام کتنا کٹھن ہے۔ ایک ایک لفظ کتنی دیدہ ریزی اور احتیاط اور ذمہ داری سے لکھا گیا ہے۔تفہیم القرآنکی آیندہ نسلوں تک تازگی برقرار رکھنے کے لیے ایک ادارے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔تفہیم ایک علمی اثاثہ ہے اور اس سے وہی قارئین پوری طرح استفادہ کرسکتے ہیں جو علم اور زبان کی اُس سطح پر ہوں جس پر یہ تحریرکی گئی ہے۔ایک اصطلاح ’حقیقت نفس الامری‘ عام اُردو دان کے لیے نامانوس ہے۔ اسی طرح اور بھی مشکل الفاظ ہیں۔ اگر کوئی مستقل ادارہ قائم کیا جائے تو اس کو ازخود یہ طے کرنا ہوگا کہ کون سی عبارت قابلِ تشریح ہے۔
ایک ادارہ ’عالم گیر تحریک تفہیم القرآن‘ قائم کیا جائے۔ اس ادارے کو چلانے کے لیے ورثۂ مودودیؒ تجدیدی فنڈ قائم کیا جائے ۔ اس ادارے کی شاخیں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، انگلینڈ، پیرس، امریکا اور منتخب عرب ممالک میں سہولت اور امکانات کے لحاظ سے قائم کی جائیں۔ اس ادارے کی نگرانی کا ایک نظام وضع کیا جائے۔ خود جناب سیدحامد عبدالرحمن الکاف کی خدمات سے بھی فائدہ اُٹھایا جائے۔
’تفہیم القرآن: مقاصد و اہداف‘ (مئی ۲۰۱۲ئ)میں تفہیم القرآن کا عمدہ تعارف سامنے آگیا۔ تفہیم میں جس طرح اسرائیلی اور موضوع روایات سے پہلوتہی کی گئی ہے اور سلیس اور سادہ طرزِ تحریر سے قرآن کو نہایت آسان انداز میں سمجھایا گیا ہے، اس کی مثال عصرِحاضر کی کسی تفسیر میں نہیں ملتی۔اس کی ایک خصوصیت اُس کا فرقہ وارانہ اختلاف سے پاک ہونا بھی ہے۔ ’ٹیپوسلطان شہید اور انتظامِ ریاست‘ ازڈاکٹرمحمد سہیل سے ٹیپوسلطان کی شخصیت کا منفرد پہلو سامنے آیا۔ ’کشمیر کی مظلوم بیوائیں اور نیم بیوائیں‘ سے بھارت کی سفاکیت کا ایک پہلو مزید سامنے آیا!
’ہجرت نبویؐ اور ہم‘ (جون ۲۰۱۲ئ) خوب صورت اندازِ تحریر ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قاری سفرِہجرت میں شریک ہے۔ ہجرت کے مراحل اور دورانِ سفر پیش آمدہ واقعات مؤثر رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
ڈاکٹر انیس احمد صاحب کا مضمون: ’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں‘ (جون ۲۰۱۲ئ) نظر سے گزرا۔ موصوف نے جس بہترین انداز میں اس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے، وہ و قت کا ایک اہم تقاضا ہے، اور اُمت مسلمہ کو اس اہم موضوع پر رہنمائی دینے کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔
’انگریزی ذریعہ تعلیم، شیوۂ غلامی‘ (جون ۲۰۱۲ئ) میں اُردو کی ترویج کی دستوری ذمہ داری کا ذکر کرکے ایک اہم ترین ایشو کو ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔ اس مسئلے کو یکسوئی کے ساتھ اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں عدالت عظمیٰ سے رجوع بھی مفید ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ماضی میں عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کرنے اور قصاص و دیت کے نفاذ کے لیے بہت مؤثر کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں جسٹس محمد افضل ظلہ کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ اب نئے دور میں تو عدلیہ زیادہ فعال ہے۔
پنجاب حکومت کے فیصلے کے تحت انگلش میڈیم کو ذریعۂ تعلیم بنانے سے ملک و قوم کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اور اسلامی تہذیب و تشخص کو جس نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا، اس کا اندازہ ’انگریزی ذریعۂ تعلیم: شیوئہ غلامی‘ (جون ۲۰۱۲ئ) پڑھ کر ہوا۔ فی الحقیقت اُردو زبان کی حفاظت دینی و اسلامی سرمایے کی حفاظت کے مترادف ہے، جس کے لیے ہرباشعور اور محب وطن پاکستانی کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔
’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کی تناظر میں‘(جون ۲۰۱۲ئ) بہت ہی اچھا لکھا۔ مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقیدۂ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وعن شبا بہ فیما ابلاہ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے۔ احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟