جس ملک کے شہریوں کو بنیادی سہولتیں مہیا نہ ہوں‘ پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے خواتین میلوں چلتی ہوں‘ خواندگی کی شرح آس پاس کے تمام ممالک کے مقابلے میں شرمناک ہو‘ علاج کی سہولت چند بڑے شہروں سے باہر دستیاب نہ ہو‘ ایک بڑی آبادی ناقابلِ رہایش مکانات میں رہتی ہو‘وہاں کی حکومت اپنے عوام کو تفریح فراہم کرنے میں اتنی پُرخلوص و پُرجوش ہو جس کا مظاہرہ لاہور میں رہتے ہوئے جشنِ بہاراں اور بسنت کے موقع پر نظر آتا ہے تو ضرور یہ سوچنا پڑتا ہے کیا حکومت کو واقعی اپنے عوام کی خوشی کی فکر ہے یا دال میں کچھ کالا ہے۔
مسائل تو اس کے علاوہ بھی بہت ہیں۔ نابالغ بچیاں اغوا ہوتی ہیں‘ زیادتی کا شکار ہوتی ہیں‘ قتل کردی جاتی ہیں‘ مجرم پکڑنے کے اعلان ہوتے ہیں‘ لیکن بے قصوروں کو پکڑنے میں ماہر پولیس کے ہاتھ مجرم نہیں آتا۔ کتنے ہی فراڈ اخباری اشتہارات اور ٹی وی چینل کے ذریعے چلائے جاتے ہیں اور عوام لٹتے رہتے ہیں لیکن کوئی حکومت کا محکمہ یا پولیس ان فراڈیوں پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ چینی کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھاکر عوام کی جیبوں سے اربوں روپیہ کھسوٹنے والے سب کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں‘ لیکن نیب بھی اُن کا بال بیکا نہ کرسکی۔ معاشرے میں ظلم کا دور دورہ ہے۔ زبردست زیردستوں کے مال و منال ہی نہیں‘ عزت و آبرو پر دُرّانہ ہاتھ ڈالتے ہیں لیکن مظلوموں کی دادرسی کہیں نہیں ہوتی۔
یوں شمار کیا جائے تو مسائل کی ایک طویل فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی عوام کی خیرخواہ اور فرض شناس حکومت ہو‘ تو وہ ترجیحی بنیادوں پر ان مسائل سے نبٹے گی یا عوام کو تفریح فراہم کرنے کے معصوم عنوان سے پتنگ بازوں کی سرپرستی کرے گی؟
فیلڈمارشل ایوب خاں (غالباً اب جنرل فیلڈمارشل کے لقب سے اس لیے متوحّش ہیں کہ ایوب خاں والا انجام نہ ہو) کے زمانے میں بھی حکومت کو تفریحات میں بھی بہت دل چسپی ہوگئی تھی۔ اس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب حکومت عوام کے بنیادی مسائل حل نہ کررہی ہو‘ صرف تقاریر‘ اعلانات اور ٹی وی اشتہارات سے کام چلا رہی ہو تو وہ عوام کو لہوولعب‘ کھیل کود اور لایعنی تفریحات میں مصروف کرنا چاہتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر عوام نے ملکی مسائل پر اور اپنی پریشانیوں پر سنجیدگی سے سوچا تو حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ حکمران جانتے ہیں کہ انھوں نے کس طرح حکومت پر ناجائز قبضہ کیا ہے۔ وہ اپنے دلوں میں خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ انھوں نے کس طرح انتخابات جیتے ہیں۔ انھیں اندازہ ہے کہ وہ حکومت کو عوام کی خدمت کرنے کے بجاے اپنے مفادات پورے کرنے‘ دوستوں کو ٹھیکے دلوانے‘ کرپشن کرکے کروڑوں اربوں کے بینک بیلنس بنانے میں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اپنے جھوٹ کو عوام سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس لیے ان کے ضمیر مجرم ہیں۔ اسی لیے یہ اپنے مجرم ضمیر کو تسکین دینے کے لیے عوام کو تفریح کے بہلاوے دیتے ہیں۔
بسنت آنے سے پہلے ہی بسنت کا بخار چڑھ جاتا ہے۔ پچھلے تین چار سالوں میں سرکاری سرپرستی میں ہندوئوں کا یہ تہوار ہماری حکومت نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ پتنگ بازی ایک عام سی تفریح تھی‘ جسے شرفا کے بچوں کے لیے معیوب سمجھا جاتا تھا‘ لیکن عوام کو اُن کے مسائل بھلانے کے لیے اسے ایک قومی جشن کی صورت دے دی گئی۔ اس کے دیگر نقصانات سے تو آنکھیں بند کرلی گئیں (واپڈا کے کروڑوں کے بل‘ جو بالآخر عوام کی جیب سے ہی جاتے ہیں)‘ لیکن جب قاتل ڈور سے سکوٹرسوار قتل ہونے لگے اور ہسپتال کے وارڈ زخمیوں سے بھر گئے تو اس طرف توجہ دی گئی اور سپریم کورٹ نے اپنے روایتی دائرے سے باہر آکر پتنگ بازی پر پابندی لگا دی۔ اس آڑ میں اور جو کچھ ہوتا ہے عدالت عظمیٰ کو اس سے سروکار نہ تھا۔ عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے اور معاشرے کے سنجیدہ عناصر کے مطالبوں پر کان دھرتے ہوئے حکومت پنجاب اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرلیتی تو کم سے کم وہ جانی نقصان تو نہ ہوا ہوتا اور گھروں کے وہ چراغ نہ گل ہوتے جو پابندی ہٹانے سے ہوئے۔ پولیس کو صرف اتنا کرنا تھا کہ قاتل ڈور بنانے کے مراکز ختم کروا دیتی لیکن القاعدہ کی بو سونگھنے والی بے چاری پولیس یہ کام تونہ کرسکی لیکن چھوٹے چھوٹے بچوںکو ہتھکڑیاں ڈالنے میں شیرثابت ہوئی۔ اس سے ان معصوموں کی شخصیت پر جو گھائو لگے ہیں اس پر کسی ماہرنفسیات کو لکھنا چاہیے۔ اُن کے والدین سے جو رقومات لی گئی ہوں گی اُن کا اندازہ ہماری پولیس کی درخشندہ روایات کے تحت ہر کوئی لگا سکتا ہے۔ کوئی اخبار ہی عدالت لگالیتا کہ لوگوں نے پولیس کو جو ادایگیاں کی ہیں اُس کی تفصیل فراہم کردیتا۔ کیا پتا ہماری سپریم کورٹ حکومت پنجاب سے یہ رقم واپس کروادیتی۔
بسنت کا سب سے کریہہ پہلو اُس کی تاریخی روایت اور اب اُس کی آڑ میں فحاشی کے رواج کے علاوہ وہ قتل ہیں جو قاتل ڈور کے ذریعے ہوگئے۔ معصوم بچوں کے قتل نے معاشرے کو ہلادیا۔ اخباری سرخیوں اور کالم نگاروں نے شہریوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ پہلے ہی قتل پر سپریم کورٹ کو دوبارہ پابندی لگا دینا چاہیے تھی‘ اس صراحت کے ساتھ کہ پولیس قاتل ڈور بنانے والوں کو پکڑے اور عدالتوں میں لائے اور اس پابندی کو اپنی رشوت ستانی کا ذریعہ نہ بنائے۔ پنجاب حکومت تو غالباً جناب صدر کی تشریف آوری کی منتظر تھی لیکن سپریم کورٹ نے درجن بھر سے زیادہ قتل کیوں ہونے دیے اور اپنا فرض صرف یہی کیوں سمجھا کہ دیت یا معاوضہ دلوا دے۔
سپریم کورٹ میں ابھی مقدمہ جاری ہے۔ آیندہ فروری تک سوچ بچار کا موقع ہے۔ جو کچھ ہوتا رہا ہے اُس کے تجزیے ہوتے رہیں گے لیکن کانٹے کی بات یہ ہے کہ اس نوعیت کے معاملات میں معاشرے کو اپنا فرض سرگرم طور پر ادا کرنا چاہیے۔ حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہے کہ لوگ خود تماشا دیکھتے ہیں اور سب کچھ کرنے کی توقع حکومت سے کرتے ہیں۔ اگر سب باشعور عناصر فعّال ہوکر آگے بڑھ آئیں تو بہت سے غلط کام اپنی موت آپ مرجائیں‘ لیکن عوام تماشائی ہوجائیں اور حکومت اُلٹا سرپرستی کرے تو پھر وہی کچھ ہونا ہے جو ہوا۔
بنیادی بات یہ ہے کہ معاملات میں افراط و تفریط کے بجاے اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ پتنگ بازی فی نفسہ کوئی ایسی برائی نہیں کہ اُس پر پابندی لگائی جائے لیکن ایک فرض شناس حکومت کو اُس کی خرابیوں کا سدباب کرنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ اُلٹا اُن خرابیوں کو بڑھائے‘ پھیلائے اور اُن کی سرپرستی کرنے میں لگ جائے‘ اور لوگ جائز طور پر یہ سمجھیں کہ جو ڈور قتل کر رہی ہے‘ اس کو ہلانے والے ہاتھ حکومت کے ہیں۔