اپریل۲۰۰۶

فہرست مضامین

التوحید: عالمی تناظر

ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی | اپریل۲۰۰۶ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

ترجمہ: پروفیسر عبدالقدیرسلیمo

اگر سادہ زبان میں بیان کیا جائے تو التوحید کا مطلب ہے اس بات پر ایمان اور اس کی شہادت کہ ’’اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے‘‘۔ بظاہر یہ منفی بیان‘ جو حددرجے مختصر اور سادہ ہے‘ سارے اسلام میں انتہائی درجے کے عظیم ترین اور مضمرات سے بھرپور مفاہیم کا حامل ہے۔ بسااوقات یوں ہوتا ہے کہ ایک پوری ثقافت‘ ایک پوری تہذیب یا ایک پوری تاریخ ایک ہی جملے میں سموئی ہوئی ہوتی ہے۔ کلمہ‘ جسے ہم اسلام کا کلمۂ شہادت کہتے ہیں‘ اس کی صورت یہی ہے۔ اسلامی تہذیب و تاریخ کا تمام تر تنوع‘ سرمایہ‘ ثقافت‘ علم وحکمت اور دانائی‘ اس مختصر ترین بیانیہ جملے میں سماگئی ہے: لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہ___ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں۔

التوحید‘ دراصل حقیقت کا‘ صداقت کا‘ دنیا کا‘ زمان و مکاں کا‘ انسانی تاریخ اور تقدیرکا ایک عمومی جائزہ ہے‘ یہ ایک نظریہ ہے۔ اس کے مرکزے میں حسبِ ذیل اصول مندرج ہیں:

ثنویت (Duality)

حقیقت‘ دو عمومی اقسام پر مشتمل ہوتی ہے: اللہ اور غیراللہ‘ خالق اور مخلوق۔ نوعِ اوّل کا رُکن صرف ایک ہے‘ اور وہ ہے اللہ تعالیٰ۔ وہی تنہا معبود ہے‘ ہمیشہ سے ہے‘ اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ خالق ہے اور منزہ ہے۔ ’’اس جیسی کوئی شے نہیں‘‘۔۱؎ وہ ہمیشہ ہی منفرد رہے گا۔ اس کا کوئی شریک اور سہیم نہیں۔ ۲؎نوعِ ثانی میں زمان و مکان‘ عالَم مشاہدات اور تمام خلق شامل ہیں۔ اس کے دائرے میں تمام مخلوقات‘ عالمِ اشیا‘ درخت‘ پودے‘ حیوانات‘ انسان‘ جن اور فرشتے‘ زمین اور آسمان‘ جنت اور جہنم اور جب سے یہ وجود میں آئے ہیں‘ ان کی تمام صورتیں شامل ہیں۔ خالق اور مخلوق کی یہ   دو انواع‘ اپنی ہستی‘ وجودیات‘ اپنے تجربے اور حیات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر ناممکن ہے کہ ان میں سے کوئی دوسرے کے ساتھ متحد ہوجائے‘ سرایت کرجائے‘ کسی کے ساتھ متمثّل ہو یا ایک دوسرے میں جاری و ساری ہو۔ نہ تو خالق‘ وجودیاتی طور پر ایک مخلوق میں تبدیل ہوسکتا ہے‘ اور نہ مخلوق کے لیے یہ کسی طرح ممکن ہے کہ وہ کسی طور یا کسی صورت میں خود کوخالق کے قالب میں ڈھال لے‘ یا تنزیہاً اس کے مقام پر پہنچ جائے۔۳؎

تمثّلیت یا تصور سازی (Ideationality)

حقیقت کی اِن دو انواع کے درمیان رشتے اور تعلق کی ماہیت تصوری یا تمثّلی ہے۔ انسان میں اس کا مرکز ِحوالہ اس کی فہم کی صلاحیت ہے۔ علم و فہم کے آلۂ کار اور مخزن کی حیثیت میں     فہم‘ متعدد صلاحیتوں کی حامل ہے‘ جیسے یادداشت‘ متخیلہ‘ تعقّل اور تفکّر‘ مشاہدہ‘ وجدان اور اندیشہ۔ علم و فہم تو سبھی انسانوں کو عطا ہوا ہے۔ یہ فہم اس لائق ہے کہ اس کے ذریعے مشیّت الٰہی کا اِن میں سے کسی ایک‘ یا دونوں صورتوں میں ادراک کیا جاسکتا ہے: مشیّت الٰہی کے ادراک کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اللہ نے اپنے کلام کے ذریعے انسان کو مخاطب کیا ہے‘ اور یہ کلام بصورتِ الفاظ موجود ہے‘ اس سے آگاہی۔ دوسری صورت ان قوانین کا علم‘ جو اللہ کی مخلوق میں جاری و ساری ہیں‘ اور جن کے ذریعے مشیّت ِالٰہی کا فہم حاصل ہوسکتا ہے۔

غایتیّت (Teleology)

کائنات کی فطرت میں غایتیّت کارفرما ہے‘ یعنی یہ نظامِ کائنات مقصدی ہے۔ کائنات اپنے خالق کے مقصد کو پورا کرتی دکھائی دیتی ہے‘ اور اس کے نقشۂ کار کی تکمیل میں کوشاں نظرآتی ہے۔۴؎ یہ عالم‘ عبث اور بے مقصد نہیں تخلیق کیا گیا اور نہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے۔۵؎ پھر یہ کسی اتفاق یا حادثے کا نتیجہ بھی نہیں۔ اِسے ایک کامل صورت میں تخلیق کیا گیا ہے۔ ہر وہ شے جو موجود ہے‘ ٹھیک ٹھیک اُن خصوصیات اور حُدود کے مطابق ہے‘ جو اس کے لائق ہیں‘ اور ایک عالم گیر مقصد کی تکمیل کرتی نظرآتی ہے۔۶؎ دنیا حقیقتاً ایک ’کائنات‘ ہے۔ ایک ایسی تخلیق‘ جس میں نظم و ضبط نظرآتا ہے‘ نہ کہ انتشار۔ یہاں خالق کی مشیّت ہرجگہ کارفرما نظر آتی ہے۔ اُس کے بنائے ہوئے ضابطے‘ قانونِ فطرت کے وجوب کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں‘ کیوں کہ اُن کے خالق نے جس طرح سے اُنھیں ترکیب کیا ہے‘ وہ اُسی صورت میں کارفرما رہتے ہیں۔۷؎ مگر یہ بات تمام مخلوق کے لیے تو درست ہے‘ تاہم انسان ایک استثنا ہے۔ فعلِ انسانی ہی وہ صورت ہے‘ جہاں مشیّت الٰہی ایک لزوم کے ساتھ ظاہر نہیں ہوتی‘ بلکہ بالارادہ‘ انسان کے اختیار اور اس کی آزادیِ عمل کے نتیجے ہی میں ظاہر ہوتی ہے۔ جہاں تک انسان کے جسمانی اور نفسی وظائف کا تعلق ہے‘وہ فطرت کے ساتھ وابستہ اور پیوستہ ہیں‘ اور وہ اُسی طرح قوانینِ فطرت کے پابند ہیں‘ جس طرح دوسری مخلوقات کے افعال قوانینِ فطرت کے ساتھ ایک جبر اور لزوم کا رشتہ رکھتے ہیں۔ لیکن روحانی وظائف___ یعنی فہم اور فعلِ اخلاقی‘ جبر فطرت کے دائرے سے باہر ہیں۔ ان کا انحصار خود فاعل کی ذات پر ہے‘ اور اُن کے تعینات کا ذمہ دار وہ خود ہے۔

مشیّت الٰہی کی تکمیل‘ جس طرح دوسری مخلوقات میں ہوتی ہے‘ اس طرح انسان میں نہیں ہوتی‘ اور یوں اس کے افعال میں کیفیت کے اعتبار سے ایک مختلف قدر کا ظہور ہوتا ہے۔ مشیّت وجوبی یا جبری کا تعلق صرف جسمانی مادّی یا افادیتی اقدار سے ہوتا ہے‘ جب کہ اس کی اختیاری تکمیل کا تعلق اخلاقی اقدار سے ہے۔ تاہم یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقاصد اخلاقی‘ انسان کے لیے اس کے احکام‘ اس مادی عالم میں بھی اساس رکھتے ہیں‘ اور اسی لیے اُن کا ایک افادیتی پہلو بھی ہے۔ مگر یہ اُن کا یہ پہلو کہ اُن کے ساتھ اختیار وابستہ ہے۔ [نہ کہ جبر]‘ یعنی یہ کہ وہ انھیں اختیار بھی کرسکتا ہے‘ اور رد بھی‘ اُن پر عامل بھی ہوسکتا ہے‘ اور اُن سے منحرف بھی‘ اور یہ اختیار ہمیشہ انسان کا اپنا ہوتا ہے___ یہی خصوصیت اُن افعال کو ایک خاص درجہ عطا کرتی ہے___ اسی وجہ سے یہ افعال ، ’فعلِ اخلاقی‘ شمار ہوتے ہیں۔۸؎

استعداد انسانی اور فطرت کی تشکیل پذیری (Capicity of Man and Malleability of Nature)

اللہ تعالیٰ نے ہر شے ایک مقصد کے تحت تخلیق فرمائی ہے۔ وجودِ کُل کا بھی ایک مقصد ہے‘ اور زمان و مکاں میں اس مقصد کی تکمیل کا امکان لازمی قرار پاتا ہے۔ ۹؎ اگر یوں نہ سمجھیں تو کلبیّت سے چھٹکارا بھی نہیں مل سکتا۔ اس صورت میں زمان و مکاں‘ بلکہ ساری تخلیق ہی بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔ اس امکان کے بغیر تکلیف (تفویض‘ اخلاقی فریضہ‘ ذمہ داری) کا تصور ہی منہدم ہوجاتا ہے‘ اور اس کے انہدام کے ساتھ یا تو یہ تصور باقی نہیں رہتا کہ کائنات کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کا کوئی مقصد یا حکمت تھی‘ یا اس کی قدرت پر سے ایمان اُٹھ جاتا ہے۔ اس کی مشیّت مطلق کے ذریعے تخلیق کے مقصدِ وجود کی تکمیل کو تاریخ میں لازمی طور پر ظہور کرنا ہوگا اور تاریخ نام ہے اس عمل کا جو تخلیق کے لمحۂ اوّل سے قیامت کے دن تک محیط ہے۔ عملِ اخلاق کے فاعل کی حیثیت میں انسان کے لیے لازمی ہے کہ اس میں خود کو‘ اپنے ابناے جنس کو یا معاشرے کو‘ فطرت یا اپنے ماحول کو تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہو‘ تاکہ وہ اُلوہی نقشۂ کار یا حکمِ الٰہی کو اپنی ذات میں اور اُن میں پورا کرسکے۔۱۰؎ فعلِ اخلاقی کے عامل کی حیثیت سے انسان اور اس کے ابناے جنس‘ نیز ماحول میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ انسانِ فاعل کے عملِ موثر کو قبول اور انگیز کرسکیں۔

یہ صلاحیت‘ انسانِ فاعل کی صلاحیت کے تناظر میں ایک بالکل معکوس شے ہے۔ اس کے بغیر فعلِ اخلاقی کے لیے انسان کی صلاحیت یا کارکردگی ناممکن ہوگی‘ اور کائنات کی مقصدی ماہیت منہدم ہوجائے گی۔ پھر ایسی صورت میں کلبیّت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ اگر تخلیق کا کوئی مقصد ہے تو کائنات کو تشکیل پذیر‘ تغیر کے قابل ضرور ہونا چاہیے۔ اُسے ایسا ہونا چاہیے کہ اس کا مادّہ‘ ہیئت‘ کیفیت اور علائق‘ تبدیلی اور تغیرپذیری کے اہل ہوں‘ تاکہ وہ انسانی نمونوں یا مقصد کی تجسیم کرسکے‘ اور اس کی مطلوبہ صورت میں ڈھل سکے۔ اگر خدا واقعی خدا ہے‘ اور اس کا فعل کارِعبث نہیں ہے‘ تو یہ مفروضہ ایک لازمی شرط کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔ یہ بات ہر طرح کی تخلیق کے لیے صادق آتی ہے۔ اس میں انسان کی جسمانی‘ نفسی اور روحانی فطرتیں شامل ہیں۔ تمام مخلوق اسی زمان اور اسی مکان میں ’بایستن‘ (ہونا چاہیے) یا مشیّت یا اللہ کی بنائی ہوئی ساخت یا مطلق کی تکمیل یا اُسے حقیقت کا رُوپ دینے والی ہے۔۱۱؎

ذمہ داری اور فیصلہ (Responsibility and Judgement)

ہم دیکھ چکے ہیں کہ انسان پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنی ذات میں‘ معاشرے میں‘ اور ماحول میں اس طرح کی تبدیلیاں لائے کہ وہ اللہ کے نمونے اور نقشۂ کار سے ہم آہنگ ہوجائیں۔ ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ انسان میں ایسا کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے‘ کیوں کہ مخلوق‘ تشکیل پذیر ہے [جامد نہیں]‘ اور یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ انسان کے عمل سے اثر قبول کرے‘ اوراس کے مقصد کے مطابق ڈھل سکے۔ ان حقائق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان‘ مسئول اور  جواب دہ ہستی ہے۔۱۲؎ ذمہ داری اور محاسبے کے تصور کے بغیر اخلاقی فریضے کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ اگر یہ نہ تصور کیا جائے کہ انسان ایک ذمہ دار اور مُکلف ہستی ہے‘ اور کسی نہ کسی طرح‘اور کہیں نہ کہیں اُسے اپنے افعال کے محاسبے سے دوچار ضرور ہونا ہوگا‘ تو کلبیّت ایک دفعہ پھر لازم آئے گی۔ فیصلہ‘ حکم لگانا‘ یا ذمہ داری کو پورا کرنا‘ فریضۂ اخلاقی یا اخلاقی تحکیم کی لازمی شرط ہے۔ اس کا صدور ’معیار سے مطابقت‘ یا معیاربندی کی اپنی ماہیئت سے ہوتا ہے۔۱۳؎ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ یہ محاسبہ موجودہ زمان و مکاں کی حدود میںہوتا ہے‘ یا اس کے اختتام پر‘ یا دونوں صورتوں میں‘ لیکن اُسے واقع ضرور ہونا ہے۔ اللہ کی اطاعت‘ یعنی اُس کے احکام کی بجاآوری‘ اور اس کے دیے ہوئے نمونوں کو وجود میں لاکر‘ اُن کی صورت گری کر کے ہی حقیقی فلاح کا حصول ممکن ہے۔ ایسا نہ کرنا‘ یعنی اُس کی نافرمانی‘ سزا کی مستوجب ہوگی‘ جو دکھ‘ اَلم اور ناکامی کے عذاب پر مستوئی ہوگی۔۱۴؎

متذکرہ بالا پانچ اصول بدیہی صداقتوں پر مشتمل ہیں۔ یہ التوحید کے مغز اور اسلام کے لُب لباب کی تشکیل کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ حنیفیت کا بھی مغز ہیں۔یہ تمام الہاماتِ سماوی کا خلاصہ ہیں۔ تمام انبیا نے اِن اصولوں کی تعلیم دی ہے اور انھی پر اپنی تحریکات کو استوار کیا ہے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بنیادی اصول‘ فطرتِ انسانی کے تانے بانے میں [اس کی سرشت میں] پیوست کردیے ہیں۔۱۵؎ یہ اُس بے خطا دین فطرت یا فطری ضمیر کوتشکیل دیتے ہیں‘ جن پر انسان کے سارے اکتسابی علم کی بنیاد ہے۔ یہ بات بالکل فطری ہے کہ ساری اسلامی ثقافت کا ڈھانچا انھی پر استوار ہے‘ اور یہ سب مل کر توحید کے اصل مغز کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہماری پوری تاریخ میں علم‘ ذاتی اور سماجی اخلاقیات‘ جمالیات‘ اسلامی زندگی اور عمل انھی پر اساس رکھتے ہیں۔

نتیجہ

اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ حیات کا منصہ شہود پر آنا‘ ایک فعلِ عبث نہیں ہے۔ اُسے ایک مقصد کو پورا کرنا چاہیے اور یہ مقصد‘ محض ایک خواہش اور اس کی تکمیل‘ پھر ایک نئی خواہش اور اس کی تکمیل کا ایک غیرمختتم سلسلہ نہیں ہوسکتا۔ ایک مسلمان کے لیے غایت دو بالکل مختلف نظاموں پر مشتمل ہوتی ہے: نظامِ فطری اور نظامِ اعلیٰ‘ اوروہ اسی مؤخرالذکر میں اُن اقدار اوراُن اصولوں کو تلاش کرتا ہے‘ جن کے ذریعے اوّل الذکر کا انتظام کرسکے۔ اب چوں کہ اس نے دائرۂ اعلیٰ کو اللہ کے طور پر شناخت کرلیا ہے‘ اس لیے وہ ہر اُس نظامِ رہنمائی کو رد کر دے گا‘ جس کا مصدر ذاتِ الٰہی نہیں ہے۔ اس کی مضبوط اور مستحکم توحید دراصل ایک انکار ہے‘ اس بات کا انکار کہ انسانی زندگی کو اخلاق کے علاوہ کسی بھی دوسرے نظامِ رہنمائی کے تابع کیا جائے۔ مسرتیت‘ لذتیت اور وہ دوسرے تمام نظریات‘ جو اخلاقی قدروں کو فطری زندگی میں تلاش کرتے ہیں‘ اس کے نزدیک قابلِ رد ہوں گے۔ اس کے نزدیک ان میں سے کسی کو بھی قبول کرلینا ایسا ہی ہوگا‘ گویا اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کو بطور رہنما اور انسانی زندگی کے لیے معیارساز تسلیم کرلیا گیا ہو۔ شرک (اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کو بھی شریک کرلینا‘ توحید کی خلاف ورزی) دراصل اخلاقی اقدار کو مادّی اور افادیتی قدروں کے ساتھ گڈمڈ کردینے کا نام ہے۔ یہ اقدار‘ آلاتیت کا رنگ لی ہوئی ہوتی ہیں‘ انھیں غائی نہیں کہاجاسکتا۔ 

مسلم ہونے کا مطلب یہی تو ہے کہ فقط اللہ کو (یعنی خالق کو‘ نہ کہ مخلوق یا فطرت کو) معیارِمطلق کے طور پر قبول کیا جائے‘ اس کی مشیّت کو حکم تسلیم کیا جائے‘ صرف اُسی کے منہاج کو مخلوق کے لیے اخلاقِ مطلوب تصور کیا جائے۔ ایک مُسلم کی بصارت کے مشمولات میں صداقت‘ حُسن اور خیرشامل ہوتے ہیں۔ مگر یہ اس کے لیے دائرۂ عقل سے خارج کوئی چیز نہیں ہیں۔ اس طرح وہ علومِ مذہبی کی تفسیر و تشریح میں قدریاتی اصولوں کا حامل ہوتا ہے؟ لیکن اس کی غایت بس یہی ہوتی ہے کہ بحیثیت ایک فقیہہ کے وہ ایک دُرست اور صحت مند مجموعۂ فرائض تک رسائی حاصل کرسکے۔ اس کے نزدیک عقیدے کے ذریعے حاصل ہونے والا جواز کوئی معنی نہیں رکھتا؟تاآنکہ اُسے عمل کی رزم گاہ میں داخل نہ کرلیا جائے۔ اسی مقام پر اس کے بہترین اور بدترین اوصاف کا ظہور ہوتا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ ایک انسان کی حیثیت میں وہ آسمان اور زمین کے درمیان تنہا کھڑا ہے‘ اُسے راہ دکھانے کے لیے اس کے پاس اپنی معیارِ قدر کی بصارت کے سوا کوئی رہنما نہیں‘ اس کارِعظیم پر اپنی قوتوں کو مرتکز کرنے کے لیے اس کے اپنے ارادے کے علاوہ کوئی مہمیز نہیں‘ اور لغزشوں اور ٹھوکروں سے بچانے کے لیے اس کے اپنے ضمیر کے سوا کوئی اور قوت اس کے پاس نہیں ہے۔

یہ اس کا استحقاقِ خصوصی ہے کہ وہ کائناتی جوکھم کی زندگی گزارے‘ کیوں کہ یہاں کوئی دیوتا نہیں ہے‘ جو اس کے لیے اِن خطرات سے نبردآزما ہونے کا بیڑہ اُٹھا لے۔ بات صرف یہی نہیں کہ یہ مہم اُسی وقت سَرہوگی‘ جب وہ خود اس کی تکمیل کرلے گا۔ بات یہ ہے کہ یہاں اس کے لیے پس و پیش کی کوئی گنجایش ہی نہیں۔ اگر اس کی فطرت اُسے کسی ناخوش گوار اُلجھن سے دوچار کرتی ہے تو وہ بس یہ ہے کہ اُسے اُس اُلوہی بارِ امانت کو اٹھانا ہے‘ اس مقدس فریضے کو بحیثیت ایک مسلم پورا کرنا ہے‘ یا اس عمل میں خود کو مٹا دینا ہے۔۱۶؎ اس میں شک نہیں کہ اس راہ میں ایک امکانی المیہ اپنا منہ کھولے گھات میں بیٹھا ہے مگر یہی ایک مسلم کے لیے وجہِ افتخار بھی ہے۔ جیساکہ افلاطون کہہ گیا ہے: ’’خیر سے محبت کرنا اس کا مقسوم ہوچکا ہے‘‘۔


حواشی

۱-            وہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے… اُس جیسی کوئی شے نہیں؟ اور وہ بہت سننے اور دیکھنے والا ہے (الشورٰی ۴۲:۱۱)۔ اُس کے بارے میں یہ لوگ جو کچھ بیان کرتے ہیں‘ وہ اس سے بہت برتروبلند ہے (الانعام۶:۱۰۰)۔ آنکھ اس کا ادراک نہیں کرسکتی‘ اور وہ سب کی نگاہوں کا ادراک کرلیتا ہے۔ (۶:۱۰۳)

۲-            کہہ دو کہ اللہ ایک ہے‘ اللہ بے نیاز ہے‘ نہ اس کا کوئی بیٹا ہے ‘ اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے۔ کوئی بھی اس کا ہم سر نہیں (الاخلاص ۱۱۲:۱-۴)۔ اُن لوگوں [کافروں] نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرایا ہے‘ حالاںکہ اُسی نے اُنھیں پیدا کیا ہے‘ اور اُنھوں نے اُس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑلیے ہیں‘ جب کہ اُنھیں اس کے بارے میں کوئی علم ہی نہیں۔ (الانعام۶:۱۰۰)

۳-            کیا انھوں نے زمین میں سے جو معبود بنا رکھے ہیں‘ وہ مُردوں کو زندہ کردیتے ہیں؟ اگر اِن دونوں [زمین و آسمان] میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے۔ پس اللہ تعالیٰ عرش کا مالک ہر اُس وصف سے پاک ہے‘ جو یہ بیان کرتے ہیں۔ اپنے کاموں کے لیے وہ کسی کے آگے جواب دہ نہیں‘ اور سب اس کے آگے جواب دہ ہیں۔ کیا اُن لوگوں نے اللہ کی سوا اور معبود بنا رکھے ہیں؟ کہہ دیجیے [کہ اگر یوں ہے تو] اس کی دلیل پیش کرو (الانبیاء ۲۱:۲۱-۲۴)

۴-            جہاں تک اللہ کی تخلیق کے نمونے کا تعلق ہے؟ تم اللہ کے دستور میں کبھی ردّ و بدل نہ دیکھو گے‘ اور تم ہرگز اللہ کے طریقے میں انحراف نہ پائو گے (۲۵:۴۳)

۵-            [اہل ایمان] آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں‘ [اور پکار اُٹھتے ہیں] ’’اے ہمارے پروردگار‘ تو نے یہ سب کچھ ناحق اور غلط نہیں پیدا کیا‘ تو پاک ہے (اٰل عمرٰن۳:۱۹۱)۔ ہم نے آسمان اور زمین‘ اور جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے‘ ایک کھیل کے طور پر نہیں پیدا کیے۔ (الانبیائ۲۱:۱۹)

۶-            [اللہ] وہی ہے ‘ جس نے ہرچیز کی بناوٹ بہترین طریقے پر کی ہے (السجدہ۳۲:۷)۔ وہ جس نے تخلیق کی اور اُسے ٹھیک ٹھیک بنایا (الاعلٰی۸۷:۲)…اللہ وہ ہے‘ جس نے زمین کو تمھارے لیے ٹھیرنے کی جگہ بنایا‘ اور آسمان کو [حفاظتی] چھت کے طور پر بنایا‘ اور تمھاری صورت گری کی[تو دیکھو کہ] کیسی اچھی صورت گری کی…(۴۰:۶۴)۔ ہم نے ہرچیز کو ایک متعین ضابطے کے مطابق باندھ رکھا ہے۔ (۳۶:۱۲)

۷-            [اللہ ہی ہے] جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے… اُسی نے ہرچیز کو پیدا کیا ہے‘ اور ہرچیز کو ایک اندازے کے مطابق اس کی تقدیر (بناوٹ‘ انجام) عطا کی ہے (الفرقان۲۵:۲)۔ کہہ دیجیے‘ ہمیں وہی کچھ پہنچ کر رہے گا‘ جو اللہ نے ہمارے لیے مقرر کر رکھا ہے…(التوبہ۹:۵۱)

۸-            قرآن مجید‘ حوالۂ سابق‘ الاحزاب۳۳:۷۲۔ یہ ’امانت‘ کا وہ ڈرامائی بیان ہے‘ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فطرت کے حوالے سے دیا ہے۔ وہ امانت‘ جسے فطرت (کائنات) اُٹھا نہ سکی‘ مگر انسان اُس بارِامانت کو اٹھانے پر راضی ہوگیا [آسمان بارِ امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند]۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ ’تکلیف‘ [مُکلف ہونے] کا اخلاقی اصول ہے‘ اور تکلیف یا ذمہ داری کے لیے ’قدرت‘ [قوت‘ صلاحیت] شرط ہے‘ ساتھ ہی اختیار [ارادے کی آزادی] بھی اس کے لیے لازمی ہے۔

۹-            میں [اللہ] نے جِنوں اور انسانوں کو اسی لیے تو پیدا کیا ہے کہ وہ میرا حکم بجالائیں (الذّٰریٰت۵۱:۵۶)۔   وہی [اللہ] ہے‘ جس نے موت اور حیات کو تخلیق کیا‘ تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے بہترعمل کرنے والا کون ہے (الملک۶۷:۲)

۱۰-         ایضاً

۱۱-         ساتوں آسمان اور زمین‘ اور جو کچھ اُن میں ہے‘سب اُسی کی تسبیح کرتے [اس کا حکم مانتے] ہیں۔ [دراصل] کوئی بھی شے ایسی نہیں‘ جو اس کی تسبیح [فرماں برداری] نہ کر رہی ہو۔ (بنی اسرائیل۱۷:۴۴)

۱۲۔          اور اُن [یعنی سب انسانوں] سے جواب طلبی ہوگی (الانبیائ۲۱:۲۳)۔ (قرآن مجید میں ایسی بہت سی آیتیں ہیں‘ جن سے واضح ہوتا ہے کہ انسان ایک ذمہ دار اور آزاد ہستی ہے اور اُس سے بازپرس اور جواب طلبی ضرور ہوگی)

۱۳-         ہروہ چیز جسے اسلام میں ’حساب‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے ’یوم الحساب‘ فیصلے کا دن ہے۔ یہ بات کہ اللہ تعالیٰ انسانوں سے ان کے اعمال کی جواب دہی کرے گا‘ اور اُن سے حساب لے گا‘ قرآن مجید میں مرکزی خیال کے طور پر ہرجگہ نظرآتی ہے۔ حقیقتاً یہ تصور اسلام کے اخلاقی /مذہبی نظام کی اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔

۱۴-         مکہ میں نازل شدہ سورتوں کا سرسری مطالعہ بھی یہ بتا دے گا کہ اللہ تعالیٰ کا انسان سے تعلق ایک عہد پر استوار ہے۔ یہی نہیں‘ بلکہ تمام سابق انبیا اور اُن کے ماننے والوں کا بھی یہی تصور تھا۔ تمام قُدما کی مذہبی اور اخلاقی اساس کی رُوح بھی یہی سوچ تھی۔ یہ بات میسوپوٹیمیا [قدیم عراق] کی ’اینموما ایلش‘ اور لپت اشتر اور حورابی کے ضابطہ ٔ قانون میں بھی عیاں ہے۔ دیکھیے جیمز بی پریچارڈ کی Ancient Near Eastern Texts ، ناشر: پرنسٹن یونی ورسٹی پریس‘ پرنسٹن‘ ۱۹۵۵ئ۔

۱۵-         پس آپؐ یک سُو ہوکر اپنا رخ دین خالص کی طرف کرلیں۔ [یہ دین] اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی تخلیق [پیدا کرنے کے طریق] میں کوئی تبدیلی نہیں‘ یہی سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ اس کا شعور نہیں رکھتے۔ (الروم ۳۰:۳۰)

۱۶-         اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ جواب پیش نظر رہے‘ جو آپؐ نے اپنے چچا ابوطالب کو دیا تھا‘ جب انھوں نے کہا تھا کہ آپؐ دعوتِ اسلام سے کنارہ کشی کرلیں‘ اور اس طرح بنوہاشم پر اہلِ مکّہ کے ظلم وستم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ آپؐ نے فرمایا تھا:چچاجان‘ اگر وہ لوگ سورج کو میرے داہنے ہاتھ پر اور چاند کو بائیں ہاتھ پر بھی رکھ دیں‘ تب بھی میں اس دعوت سے باز نہیں آئوں گا‘ چاہے اس عمل میں میری جان ہی چلی جائے۔ محمدحسین ہیکل: The Life of Muhammad ترجمہ: اسماعیل راجی الفاروقی (ناشر:امریکن ٹرسٹ   پبلی کیشنز‘ انڈیانا پریس‘ ۱۹۷۶ئ)‘ص ۸۹۔