برعظیم کی علمی و ادبی تاریخ میں علامہ شبلی نعمانی ؒکو اہم مقام حاصل ہے۔ علوم القرآن پر اگرچہ انھوں نے باقاعدہ کوئی کتاب تو نہیں لکھی لیکن سیرت النبیؐ سے لے کر علمِ کلام تک‘ ہر بحث میں انھوںنے اپنے مؤقف کو قرآنی استدلال سے مزین کیا۔ علامہ شبلی کی قرآنی خدمات کے جائزے کی جو کمی پائی جاتی تھی‘ ڈاکٹر سعودعالم قاسمی نے نہایت خوب صورتی سے اس کا ازالہ کیا ہے۔ چار ابواب پر مشتمل اس کتاب میں علامہ شبلی کی تدریس قرآن‘ علوم القرآن پر ان کی تحریروں کا تجزیہ‘ اسباب نزول سے متعلق ان کی تحقیقات پر تبصرہ اور قرآنی آیات سے ان کے استدلال پر بحث کی گئی ہے۔
مصنف کے مطابق علامہ شبلی اگرچہ ماثور تفاسیر سے استفادہ کرتے تھے لیکن ان کی نظر میں زیادہ اہمیت ان تفاسیر کو حاصل تھی جن میں قرآن کی تفسیر عقلی اور منطقی طریقے پر کی گئی ہو۔ شاید اسی وجہ سے ان پر اعتزال کا الزام بھی لگایا گیا‘ اگرچہ وہ عقیدے اور مسلک دونوں اعتبار سے حنفی تھے (ص۱۸)۔ ان کے نزدیک قرآن کا اصلی اعجاز فصاحت و بلاغت نہیں بلکہ اس کی ہدایت و حکمت ہے (ص ۲۹)۔ علامہ شبلی نظمِ قرآن کے قائل نہ تھے البتہ قرآن کے کسی واقعے کی تشریح و تفسیر میں آیات کے سیاق و سباق کا لحاظ رکھنے کو وہ ضروری سمجھتے تھے (ص ۱۲۲)۔ انھوں نے آیات و احادیث اور تاریخی شہادتوں سے ثابت کیا کہ آیات و سورہ کی ترتیب و تدوین عہدنبویؐ میں ہوچکی تھی۔ (ص ۳۸)
علوم القرآن پر لکھی گئی مختلف مصنفین کی کتابوں کی افادیت ان کی نظر میں تفسیر سے بھی زیادہ ہے۔ انھوں نے ان تصانیف کو چھے قسموں: فقہی‘ ادبی‘ تاریخی‘ نحوی‘ لغوی اور کلامی میں تقسیم کرتے ہوئے ان میں سب سے زیادہ قرآن کے فقہی احکام اور ادبی فصاحت و بلاغت پر لکھی گئی کتابوں کی تحسین کی‘ اور سب سے زیادہ ناقص ‘قرآنی قصص پر لکھی گئیں چیزوں کو قرار دیا۔
علامہ شبلی نے علم کلام کو یونانی فلسفے سے آزادی کا ذریعہ اور مسلمانوں کا عظیم کارنامہ قرار دیا۔ البتہ ان کے نزدیک متکلمین نے قرآن کے منفرد استدلال اور اسلوب سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے کے بجاے علمِ کلام کی عمارت منطق و فلسفے پر اٹھائی۔ (ص ۴۷-۴۸)
مولانا شبلی نے غزوئہ بدر کے اسباب‘ اسیرانِ بدر سے فدیہ لینے پر عتاب‘ ماہِ حرام میں دفاعی جنگ‘ حرمتِ شراب کے زمانۂ نزول‘ ایلاء تخییر‘ مظاہرازدواج سے متعلق اسباب و زمانۂ نزول کی روشنی میں جو بحث کی گئی ہے‘ اسے خوب صورت تحقیقی اسلوب میں پیش کیا ہے۔ نیز سنت اللہ کی تفسیر‘ عالم کے قدیم ہونے‘ چہرے کے پردے‘ حضرت ابراہیم کے خواب کے عینی یا تمثیلی ہونے‘ جہاد و نماز میں مشابہت‘ تعدد ازدواج اور غرانیق العلٰی سے متعلق علامہ شبلی نے جو قرآنی استدلال کیا ہے‘ اسے بھی اختصار کے ساتھ کتاب میں سمو دیا گیا ہے۔
آخری حصے میں دارالمصنفین کے ایک رفیق کلیم صفات اصلاحی کے ایک تحقیقی مقالے اور اشاریۂ شخصیات کے اضافے نے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اپنے تحقیقی انداز‘ زبان و بیان کے خوب صورت اسلوب اور مضامین کی منطقی ترتیب کے باعث یہ مختصر کتاب علامہ شبلی نعمانی کی فکرقرآنی کی تفہیم کا بہترین ذریعہ ہے۔ (ڈاکٹر اخترحسین عزمی)
زیرنظر کتاب میں توہینِ رسالتؐ کے مرتکب بدباطن افراد کے لیے سزاے موت کے قانون کو نصوص قرآن و سنت‘ اجماع اُمت‘ تعامل صحابہ کرامؓ اور اقوال و آرا فقہا و ائمہ مجتہدین کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب جمالِ رسولؐ کا دل کش تذکرہ بھی ہے اور قانونِ توہینِ رسالتؐ کا دائرۃ المعارف بھی۔ اس کا اندازہ کتاب کے ابواب سے بخوبی ہوتا ہے: ۱-نام و ناموس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ ۲-قانونِ توہینِ رسالتؐ، ۳-توہین رسالت:جرم وسزا‘ ۴-قانونِ توہینِ رسالتؐ عالمی اور ملکی تناظر میں‘ ۵-مسلم اسپین میں قانونِ توہینِ رسالتؐ اور حقوقِ انسانی‘ ۷-پاک و ہند کے چند شیدایانِ ناموس رسالتؐ،۸- قانون‘ مقدمات اور نظائر(عدالتی فیصلے)۔
قانونِ توہینِ رسالتؐ پر ائمۂ متقدمین میں سے ابوالفضل قاضی عیاض اندلسی کی کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کی الصارم المسلول علی شاتم الرسول کے اہم مباحث کا خلاصہ پیش کرنے کے علاوہ عصرِجدید کے ممتاز علما و مفکرین و محققین مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ مفتی اعظم سعودی عرب عبدالعزیز عبداللہ بن باز‘ آیت اللہ خمینی‘ علامہ محمد اقبال‘ سیدابوالحسن علی ندوی اور دیگر بہت سے علما کی آرا و فتاویٰ کے علاوہ معروف سیرت نگار ڈاکٹر محمدحمیداللہ کی اس موضوع پر تحقیقات کا خلاصہ بھی پیش کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ بھارت کے ایک نام نہاد‘ روشن خیال عالم دین مولانا وحیدالدین خان کی تصنیف شتم رسولؐ کا مسئلہ کا بھرپور تنقیدی محاکمہ بھی کیا گیا ہے اور ان کی فکر کی غلطی کو واضح کیا گیا ہے۔
بقول نعیم صدیقی: پاکستان میں ناموس رسولؐ کے تحفظ اور توہینِ رسالتؐ کے لیے سزاے موت کا قانون پاس کرانے میں [آپ نے ] جو کاوش اور تگ و تاز کی ہے ‘ آپ کا اسم گرامی قلمِ مشیت نے تاریخ میں سنہری حروف سے لکھ دیا ہے… توقع ہے عدالتِ محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی (ص ۱۷)۔بلاشبہہ کتاب اپنے موضوع پر قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔ بہت اہم اور بہت نازک مسئلے پر قرآن و سنت‘ تاریخِ قانون‘ عدالتی فیصلوں کے آئینے میں موضوع کا حق ادا کیا گیا ہے۔ اہل علم کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اہلِ ایمان کی روحوں میں سوزعشقِ مصطفیؐ کی تپش تیزکرنے کا ذریعہ بھی بنے گی۔ موضوعاتی اشاریہ کتاب کی جامعیت و افادیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ (محمد ارشد)
سیرت نگاروں کی طویل فہرست میں ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری کا نام ایک منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر العمری ۱۹۴۲ء میں موصل (عراق) میں پیدا ہوئے۔ جامعہ بغداد سے تاریخِ اسلام میں ایم اے (۱۹۶۶ئ) اور جامعہ عین الشمس قاہرہ سے ڈاکٹریٹ (۱۹۷۴ئ) کی اسناد حاصل کرنے کے بعد جامعہ بغداد اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تاریخ اسلام اور سیرت کے استادرہے۔ اس دوران میں انھوں نے اپنے طلبہ کو حدیث اور تاریخ کے واقعات میں تطبیق کا ایک ایسا اسلوب سکھایا جس کے باعث سیرت نگاری کے فن کو مغرب کے اصولِ تاریخ کے تقاضوں کے ہم پلّہ کردیا۔
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں مدینۃ النبی میں اسلامی معاشرے کی تشکیل کے مراحل سے بحث ہے اور اس سلسلے میں یہود کے قبائل کی ریشہ دوانیوں اور ان کے فتنے سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کا ذکر ہے۔ دوسرے حصے میں اس اسلامی معاشرے کو درپیش بیرونی اور خارجی خطرات سے نبٹنے کی تفصیلات ہیں۔ اس ضمن میں تمام اہم جہادی معرکوں کی مستند تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ مدنی معاشرے اور ریاست کے بہت سے اہم سیاسی اور دستوری مسائل بھی زیربحث آئے ہیں۔ آخری پانچ ابواب میں عام الوفود‘ صدیق اکبرؓ کی قیادت میں حج کی ادایگی‘ حجۃ الوداع‘ لشکرِاسامہؓ کی تیاری اور آپؐ کی وفات کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ ان تمام واقعات کی پیش کش میں مصنف نے سیرت نگاری کا ایک ایسا منہج وضع کیا ہے جو محدثین کے کڑے اصولوں کے قریب تر ہے اور جدید مغربی مؤرخین کے اصولِ تاریخ کے تقاضوں پر بھی پورا اترتا ہے۔
ہمیں مصنف کی اس راے سے کامل اتفاق ہے کہ مغربی دنیا کے مستشرقین اور عالمِ اسلام میں ان کے ہم نوا مصنفین نے جو تاریخی معیار متعین کیا ہے‘ وہ اسلامی تاریخ کے اس اوّلین دور کو صحیح تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ مغربی مؤرخین کا یہ تحقیقی کام مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے متعارض اور علمی معیار کے لحاظ سے غیرمستند ہے۔ ان کے نزدیک غزوات نبویؐ کا محرک تجارتی اور اقتصادی مفادات ہیں‘ جب کہ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ جہادی کوششیں اسلامی معاشرے کی تقویت اور اسلامی ریاست میں اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنے کے لیے تھیں۔ اس کے مابعد زمانوں میں بھی اسلامی سپاہ کے پیش نظر یہی مقاصد رہے ہیں۔
ڈاکٹر عمری کا یہ مطالعہ سیرت نگاری کے ایک سائنٹی فک اسلوب کو پیش کرتا ہے جس کی روشنی میں ہم سیرت کے واقعات کی تکمیل میں احادیث سے کماحقہٗ استفادہ کرسکتے ہیں۔ مصنف تاریخ کے وقائع کو بھی محدثانہ جرح و تعدیل کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے صحیح اور حسن احادیث کے ساتھ ضعیف احادیث سے بھی استفادے کی راہ نکالی ہے۔ اس حصے کے دوسرے ابواب میں مواخات‘ مسجد نبویؐ کے انتظام‘ اصحابِ صفہ اور میثاقِ مدینہ کی مفید معلومات ہیں۔ یہود کے تینوں معروف قبائل کی پے درپے عہدشکنی کے ضمن میں بہت سی مفید معلومات سامنے آئی ہیں۔ یہود اور غیریہود کے ساتھ طے پانے والے معاہدات کی تفصیل بھی لائق داد ہے۔
سیرت اور اصولِ سیرت پر اس اہم کتاب کے اُردو ترجمے میں جس مہارت‘ ادبیت اور علمیت کو برقرار رکھا گیا ہے وہ مترجمہ عذرا نسیم فاروقی مرحومہ کی بلندپایہ علمی استعداد‘ اخذِمطالب کی اعلیٰ استعداد اور ابلاغ کے وسائل سے بھرپور استفادے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ادارے نے کتاب کی فنی تدوین کے ضمن میں جس شعور‘ سلیقے اور اہتمام کا اظہار کیا ہے‘ وہ لائق تحسین ہے۔(عبدالجبار شاکر)
اکتوبر ۲۰۰۵ء میں کشمیر و دیگر علاقوں میں ہولناک زلزلے نے جہاں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاکر‘ عبرت کا ساماں پیدا کیا وہاں غوروفکر کے بہت سے پہلو بھی سامنے آئے۔ متاثرین زلزلہ جس بڑے پیمانے پر نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوئے اس کا مطالعہ و رہنمائی بھی ایک اہم موضوع ہے۔ زیرنظر کتاب اس موضوع پر منفرد کاوش ہے۔ مصنفین خود متاثرہ علاقوں میں گئے۔ صورت حال کا جائزہ لیا۔ عملی مسائل کا اندازہ کیا اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ جس بڑے پیمانے پر نفسیاتی بحالی کی ضرورت تھی‘ اس کے ازالے اور نفسیاتی رہنمائی کے لیے لٹریچر بھی تیار کیا اور پھیلایا۔ یہ کتاب اسی کا تسلسل ہے۔
زلزلے سے سب سے زیادہ خواتین‘ بچے اور بزرگ متاثر ہوئے ہیں۔ لوگ شدید خوف‘ اضطراب اور بے چینی کا شکار ہیں‘ زلزلے کو دوبارہ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ متاثرہ جگہوں پر واپس جانے سے خائف ہیں‘ شہدا کی چیخ و پکار ابھی تک ان کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ مالی نقصانات اور مستقبل کے مسائل سے پریشانی نے اُن کو بے چینی‘ اضطراب اور شدید ڈپریشن میں مبتلا کردیا۔ نیند نہ آنا‘ بھوک نہ لگنا اور مختلف ذہنی و جسمانی عوارض عام ہیں۔ ’’اگر ان لاکھوں ذہنی دبائو کے شکار لوگوں کی ضروری مدد نہ کی گئی تو ان میں اکثر دیوانگی اور دوسرے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجائیں گے‘‘ (ص ۳۴)۔ ایسی صورت میں عوام کی اکثریت خدا پر ایمان کی وجہ سے اس کی رضا پر راضی اور صبروشکر پر قانع ہے۔ اگر یہ حادثہ کسی غیرمسلم آبادی میں رونما ہوتا تو نفسیاتی امراض بہت بڑے پیمانے پر ہوتے۔
زیرتبصرہ کتاب کے مطالعے سے اتنی نفسیاتی مہارت حاصل ہوجاتی ہے کہ ہنگامی سطح پر نفسیاتی مسائل کو حل کیا جا سکے‘ نیز بنیادی تربیت ایک ہفتے میں دی جاسکتی ہے۔ مصنفین نے توجہ دلائی ہے کہ حکومت آزاد کشمیر‘ سرحدحکومت‘ ماہرین نفسیات کی تنظیم (PPA) اور دیگر سماجی و سیاسی تنظیمیں اس پہلو پر توجہ دیں اور تربیت کا اہتمام کریں۔کتاب سے قدرتی آفات کے متاثرین کے علاوہ کسی بھی حادثے یا صدمے (trauma) اور ڈپریشن وغیرہ کے متاثرین کے لیے رہنمائی ملتی ہے۔ ابتدائی طبی امداد (first aid) اور عمومی نفسیاتی امراض سے متعلق بنیادی معلومات اور علاج کے اضافے سے کتاب کی جامعیت اور افادیت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ سرورق بامعنی اور جاذب نظر۔(امجد عباسی)
زیرتبصرہ کتاب سعودی عرب کے لاکالج کا ایم اے کی ڈگری کا تحقیقی مقالہ ہے۔ رشوت معاشرے کی بنیادی خرابیوں میں سے ایک ہے لیکن فقہ اسلامی کی کتابوں میں جرم’’رشوت‘‘ پر مستقل عنوان کے تحت بحث نہیں کی گئی۔ مؤلف نے پہلی دفعہ اس موضوع پر فقہ اسلامی میں بکھرے ہوئے مواد کو یک جا کیا ہے اور بڑی خوبی سے پراگندا مسائل کی شیرازہ بندی کی ہے۔
فاضل مؤلف نے مقدمے میں دینی تربیت کے ذریعے جرائم کو روکنے اور اُمت کی اخلاقی حالت کو بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ جرم کی تعریف‘ سزا اور شریعتِ اسلامیہ میں سزائوں کی اقسام (تعزیر اور اس کی مقدار) کے تحت تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔
باب اول میں رشوت کی تعریف‘ رشوت کی اقسام اور جرمِ رشوت سے متعلقہ امور‘ باب دوم میں رشوت کی حرمت‘ اس جرم کو ثابت کرنے کے طریقے‘ راشی اور مرتشی اور درمیانی شخص کے لیے تعزیریں‘ اور باب سوم میں جرم رشوت کے اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب چہارم میںمؤلف نے حکومتِ سعودیہ عربیہ میں نظامِ انسداد رشوت ستانی کا محاکمہ کیا ہے اور اس نظام کو قرآن و سنت کے مطابق مؤثر بنانے کے لیے تجاویز دی ہیں۔
زیرنظر کتاب میں رشوت بصورتِ ہدیہ و تحفہ پر طویل بحث کی گئی ہے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سعودی سرزمین پر رشوت کے انداز مختلف ہیں اور ہمارے ہاں کی طرح کی اوپن مارکیٹ نہیں ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ مؤلف نے رشوت کے متعلق قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ تمام مذاہبِ فقہ کے وسیع علمی ذخیرے سے بھی استفادہ کیا ہے اور گروہی عصبیت سے بالاتر ہو کر راجح فیصلے کو دلیل کے ساتھ درج کیا ہے۔ علاوہ ازیں مشکل اور پیچیدہ فقہی مباحث کو آسان اور عام فہم بنانے کی اپنی حد تک کوشش کی ہے۔
کتاب میں عنوانات کے تعین اور ضمنی‘ ذیلی سرخیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ مجموعی لحاظ سے قابلِ قدر کاوش ہے۔ قانون کے طلبہ‘ وکلا‘ علما اور نظامِ حِسبہ کے ذمہ داران اور اہل کاروں کے لیے چراغِ راہ ہے۔ (حمیداللّٰہ خٹک)