بسم اللہ الرحمن الرحیم
صدر جارج بش کا افغانستان‘ بھارت اور پاکستان کا دورہ (۲۸ فروری تا ۴ مارچ ۲۰۰۶ئ) بھارت کے لیے تو بجاطور پر تاریخ ساز اور کامیاب ترین قرار دیا جا رہا ہے‘ مگر پاکستان کے لیے‘ جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے علاوہ‘ سب ہی اسے ناکام اور ذلت اور پشیمانی کا باعث تصور کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خود جنرل صاحب صدربش کے ساتھ ۴مارچ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں زبانِ حال (body language)سے وہی بات کہہ رہے تھے جو اندرونِ ملک اور بیرون ملک تمام اصحابِ نظر کی زبان پر ہے۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے ایک ہی جملے میں پورے مضمون کا مفہوم سمو دیا ہے:
Bush gives Indians a hug and Pakistan a friendly pat.
بش نے بھارت کو تو کو گلے لگا لیا اور پاکستان کو فقط ایک دوستانہ تھپکی پر ٹرخا دیا۔
یہ بالکل سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ کیا مسٹربش نے آدھی دنیا کے گرد سفر صرف اس لیے کیا کہ اپنے سب سے اہم حلیفوں میں سے ایک کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس کو شرمندہ کریں۔
صدربش نے جنرل صاحب کے منہ پر کہا کہ میں تو صرف یہ دیکھنے کے لیے آیا ہوں کہ تم کتنے پانی میں ہو___ دہشت گردی کے خلاف میرے ساتھ تعاون کے بارے میں جو کہہ رہے ہو‘ عملاً کچھ کر بھی رہے ہو؟ اس سے پہلے کابل میں حامدکرزئی کی ہم زبانی میں فرمایا کہ میں جنرل پرویزمشرف سے سرحدوں کی خلاف ورزی اور دراندازی کے بارے میں پوچھوں گا۔ پھر دہلی میں کشمیر کے پس منظر میں یہی بات کہی۔ اور بالآخر ۴مارچ کو اسلام آباد میں جنرل صاحب کو مخاطب کرکے‘ ٹی وی کے کیمروں کے سامنے‘ خسروانہ شان سے فرمایا: میرے مشن کا ایک حصہ یہ طے کرنا تھا کہ آیا صدر (پرویز مشرف) ان دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتناکہ وہ پہلے تھے؟
تعلقات کو متلاطم لہروں کا سامنا ہے۔ دونوں رہنما اپنی گفتگو کے اصل موضوعات پر مختلف راے رکھتے تھے۔ بش انتظامیہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں مشرف کے مرکزی مقام کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے‘ جب کہ جوہری پھیلائو ہمیشہ سے زیادہ دکھتی رگ ہے… پاکستان‘ دہلی اور واشنگٹن دونوں جگہ ہار رہا ہے۔ اس لیے بش کا دورئہ اسلام آباد دہشت گردی کے خلاف پاک امریکا شراکت کے لیے ایک اہم لمحہ تھا‘ اور اسی طرح یہ مشرف کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھی اہم تھا۔ بش انتظامیہ کی نظروں میں اس کے آہنی ہاتھ کی بڑی قدروقیمت تھی‘ مگر اب تو اس کے اُلٹے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ طالبان کی باقیات افغانستان میں شکست سے دوچار ہوتی نظر نہیں آتی۔ اسامہ بن لادن اور اس کے صف اوّل کے رہنما ئوں نے اپنی گرفتاری کو مسلسل ناممکن بنا رکھا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک کھلا زخم ہے۔ اسلام آباد کے بعض باخبرسفارتی ذرائع کو اندیشہ ہے کہ بش انتظامیہ اس یقین تک پہنچ رہی ہے کہ اب ایک کمزور پاکستانی فوج اتنی ہی ضروری ہے جتنی ایک طاقت ور فوج ناین الیون کے بعد اس وقت ضروری تھی‘ جب امریکا کو افغانستان پر حملے کے لیے اس کی حمایت کی ضرورت تھی۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا کے ساتھ اس کی ایک منافع بخش اسٹرے ٹیجک شراکت قائم رہے مگرفی الحقیقت مشرف کا پاکستان‘ بھارت کے مقابلے میں تیزی سے بازی ہاررہا ہے۔ بش کے دورے نے پانچ سالہ پرانی شراکت میں بڑھتی ہوئی دراڑوں کو مزید نمایاں کردیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واشنگٹن اب جنرل کے اس موقف کوتسلیم نہیں کرتا کہ وہی ملک کا واحد سیکولر لیڈر ہے جو ملاؤں اور جہادیوں سے جو پاکستان کے لیے طاعون ہیں‘ نمٹ سکتا ہے۔ (Debka File، ۵مارچ ۲۰۰۶ئ)
صدربش نے کل افغانستان کا اچانک دورہ کیا تاکہ اس کی نئی جمہوریت کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کریں۔ انھوں نے بالکل درست کہا کہ ساری دنیا کی نظریں اس جمہوریت پر لگی ہوئی ہیں۔ پھر وہ بھارت گئے جہاں ان کے دورے کا مرکزی نکتہ امریکا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت [بھارت] کے تیزی سے بڑھتے ہوئے مشترک مفادات تھے۔ دورے کے تیسرے مرحلے میں وہ پاکستان پہنچے۔ بھارت [کی جمہوریت] اور پاکستان کے فرق کو نظرانداز کرنا مشکل ہے‘ جہاں پرویز مشرف نے ۱۹۹۹ء میں ایک منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا‘ اور اِس وقت بھی وہ اقتدار کے واحد مالک ہیں۔ گذشتہ ہفتے مسٹربش نے اپنے پاکستانی دوست کے بارے میں کہا کہ مجھے یقین ہے وہ آزاد اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے انعقاد کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ اگر مسٹر بش واقعی یہ یقین رکھتے ہیں تو وہ بہت سے پاکستانیوں سے زیادہ سادہ لوح ہیں جنھوں نے بہت عرصہ قبل ایک ایسے لیڈر کے برسرِعام کیے گئے وعدوں پر یقین کرنا چھوڑ دیا ہے‘ کیوں کہ اس نے اپنے وعدوں کو ایک سے زیادہ دفعہ توڑا ہے۔ جنرل مشرف اقتدار پر اپنے قبضے کے بعد جمہوریت بحال کرنے کا وعدہ کرتے آرہے ہیں لیکن جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں انھوں نے پاکستان کی سیکولرجمہوری پارٹیوں کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اپنی مدت کو ۲۰۰۷ء تک بڑھانے اور صدر اور فوج کے لیے نئے دستوری اختیارات کے بدلے میں ۲۰۰۴ء کے اختتام تک آرمی چیف آف اسٹاف کا عہدہ چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا۔ بعدازاں وہ اس سے منحرف ہوگئے۔
اب جنرل مشرف کے ساتھی یہ کہہ رہے ہیں کہ آیندہ سال جن انتخابات کا وعدہ ہے‘ وہ ان کو ملتوی کردیں گے اور پارلیمنٹ جو ۲۰۰۲ء کے انتہائی بے قاعدہ انتخابات میں منتخب ہوئی تھی‘ ان کو ازسرنو منتخب کرلے گی۔ مختصر یہ کہ جنرل مشرف کو واضح طور پر امید ہے کہ وہ اپنی فوجی حکومت کو غیرمعینہ مدت تک طول دے لیں گے‘ جب کہ امریکی صدر کی سیاسی و معاشی حمایت انھیں حاصل رہے گی۔ دوسری طرف امریکی صدر نے اپنی انتظامیہ کو مسلم دنیا میں جمہوریت کی پیش رفت کے لیے وقف کردیا ہے۔مسٹربش کو داددینی چاہیے کہ وہ جنرل کے کھیل کو سمجھتے ہیں اور اسے روکنے کی کم سے کم ایک چھوٹی سی کوشش کر رہے ہیں۔
اس میں پاکستان کی سیکولر سیاسی پارٹیوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور ۲۰۰۷ء کے انتخابات کے لیے حقیقی طور پر تیار کرنے کے لیے کوششیںشامل ہونی چاہییں۔ مشرف کے بہت سے وعدوں کے باوجود‘ پاکستان ایک انتہائی غیرمستحکم ملک ہے جہاں اسلامی انتہاپسندی کا خطرہ بہت بڑا ہے اور بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ جنرل اس خطرے کے خلاف امریکا کا تدبیراتی (tactical) اتحادی ہے‘ ملک میں جمہوریت بحال کرنے کے ان کے انکار نے صورت حال کو محض خراب تر کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا اس ناقابلِ اعتبار جنرل پر انحصار کرنا چھوڑ دے اور اس کی جگہ لینے والی جمہوری حکومت کے لیے منصوبہ بندی کا آغاز کرے۔
جارج بش کے بھارت کے ’تاریخی‘ دورے کے بعد ۳‘۴ مارچ کو پاکستان میں ان کے قیام کو لازماً ایک ضدِّعروج (anti climax) ہونا تھا۔ لیکن یہ اس سے بھی زیادہ خراب ثابت ہوا۔ اس نے پاکستان کی امریکا مخالف بڑی لابی کو تضاد‘ تلون اور بے وفائی کے الزامات کے لیے بہت زیادہ لوازمہ فراہم کیا۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے جو امریکا کے ساتھ اتحاد کے چیمپین ہیں اور جنھیں صدربش ’اپنا یار‘ کہتے ہیں‘ خود کو ہمیشہ سے زیادہ مشکلات میں گھِرا ہوا پایا۔
بش نے بھارت میں اپنے میزبانوں کے لیے نیوکلیر طاقت اور اسلحے کے بارے میں عالمی قواعد میں استثنا مہیا کرکے تاریخی اقدام کیا۔ اس کے برعکس پاکستان جس نے بھارت کی طرح ۱۹۹۸ء میں ایٹمی دھماکا کیا اور عالمی عدم پھیلائو کے معاہدے میں شریک نہیں ہوا‘ اسے اس طرح نہیں نوازا گیا۔
امریکا نے بھارت سے اسٹرے ٹیجک شراکت اور اسے ۲۱ویں صدی کے لیے ایک عالمی طاقت (global force)اور عالمی شریک کار (global partner) قرار دیا اور دفاع‘ تعلیم وتحقیق‘ تجارت و معیشت‘ مشترک سرمایہ کاری‘ فوجی مشقوں میں شراکت‘ اور چین کا راستہ روکنے والی مزاحمتی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصدکے لیے امریکا نے بھارت سے نیوکلیر ٹکنالوجی اور مشترک دفاعی پیداوار کے میدانوں میں بھرپور بلکہ بے قید تعاون کے جو معاہدے کیے‘ انھوں نے عالمی سیاسی نقشے میں بھارت‘ امریکی‘ اسرائیلی گٹھ جوڑ پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔ اس سے بھارتی قیادت کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا کچھ اندازہ کلدیپ نائر کے تازہ ترین مضمون سے بھی کیاجاسکتا ہے جس میں پاکستان اور جنرل مشرف کو‘ جو خود کو امریکا کا بہترین حلیف اور ناٹو کا غیررکن شریک کار سمجھتے ہیں (بش اور مشرف ایک دوسرے کو اپنا یار ’buddy‘کہتے ہیں)‘ یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ جس طرح کبھی چین سے تعلق استوار کرنے کے لیے اسلام آباد کا راستہ اختیار کیا گیا تھا‘ اب امریکا سے دوستی کے لیے دہلی کا رخ کرنا پڑے گا۔ ان کا مشورہ یہ ہے:
پاکستان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ نیویارک پہنچنے کے لیے دہلی کا راستہ اختیار کرے۔ لیکن بھارت یہ چاہے گا کہ پہلے جہادیوں کے تربیتی کیمپ ختم کردیے جائیں‘ اور آئی ایس آئی دراندازی کے منصوبے کو ایک آپشن کے طور پر استعمال کرنا ترک کردے۔ دہلی میں بش اس کے قائل ہوگئے تھے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی پالیسی کا ایک اہم جز سرحدپار دہشت گردی ہے۔
پاکستان کی اصل پریشانی کشمیر ہونی چاہیے۔ اسلام آباد سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں امریکا نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ ایک پاکستانی صحافی کے سوال کے جواب میں بش نے یہ کہتے ہوئے اپنے پہلے موقف کو دہرایا: یہ ان دو ممالک کا معاملہ ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کا تصفیہ کریں‘ اگر مطلوب ہو تو امریکا کی مدد سے۔
صدربش کے دورے کا اگر کوئی ناقابلِ تردید پیغام ہے تو وہ یہ ہے کہ امریکا نے اپنی عالمی سیاست میں پورے سوچ بچار اور ۱۵ سال پر پھیلی ہوئی تیاری کے ساتھ بھارت سے اسٹرے ٹیجک شراکت پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے اور اسرائیل کے بعد اب بھارت اس کا سب سے معتمدعلیہ حلیف ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواری اپنی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر وہ اب بھی اس حقیقت کوتسلیم کرنے کو تیار نہیں اور دہشت گردی میں تعاون کے تنکوں کا سہارا لینے پر تلے ہوئے ہیںتو اس کے علاوہ کیا کہاجاسکتا ہے کہ تاریخ ان کا شمار ایسے لوگوں میں کرے گی جن کے بارے میں کتاب الٰہی کا فیصلہ ہے کہ ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں‘ کان ہیں مگر سنتے نہیں اور قلب ہیں جو تفکر سے محروم ہیں۔
بش کے اس دورے کے حوالے سے بھارت اور امریکا کے نیوکلیر معاہدے کو مرکزی اہمیت دی جارہی ہے اور وہ اس کا مستحق ہے۔ لیکن یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ امریکا‘ بھارت سے اپنے تعلقات اسٹرے ٹیجک بنیادوں پر استوار کرنے کا مدت سے خواہاں تھا۔ ۱۹۶۲ء میں بھارت چین تصادم کے موقع پر امریکا نے بھارت کی بھرپور مدد کی۔ بھارت کو اپنے نیوکلیر اداروں کے تشکیلی دور میں امریکاسے مدد ملی۔ سردجنگ کے خاتمے کے بعد بھارت اور امریکا کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوگئے۔ دوطرفہ افادیت کی حامل‘ تجارت اور انفارمیشن ٹکنالوجی کا حصول راجیوگاندھی کے ۱۹۹۵ء کے دورے سے شروع ہوا تھا جو پچھلے ۱۰ برسوں میں مستحکم سے مستحکم تر ہوتا گیا۔ اسرائیل نے بھی اس سلسلے میں خصوصی کردار ادا کیا۔ کلنٹن کے دورحکومت میں اسٹرے ٹیجک شراکت استوار کرنے کی ابتدا ہوئی (تفصیل کے لیے دیکھیے: کلنٹن کے مشیر ٹالبوٹ کی کتاب Engaging India)‘ ناین الیون کے بعد یہ تعلقات تیزی سے آگے بڑھے۔ رینڈ کارپوریشن کے ایک اہم مطالعے میں جو امریکی فضائیہ کے لیے کیا گیا‘ بھارت اور پاکستان دونوں کے بارے میں ’ردِّدہشت گردی‘(counter terrorism) کے سلسلے کی تفصیل موجود ہے اور پاکستان کی ساری خدمات کے مقابلے میں بھارت کے تعاون کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا نہایت اہم مطالعہ عالمی امن کے لیے کارنیگی وقف کے زیراہتمام ایک اہم امریکی مفکر ایشلے جے ٹیلیز نے کیا ۔ اس کا عنوان ہی اس کے مقصد کا عکاس ہے: India: As a New Golbal Power - An Action Agenda for the United States. [بھارت‘ ایک نئی گلوبل قوت: امریکا کے لیے منصوبۂ عمل]۔
جو کچھ ۱۸جولائی ۲۰۰۵ء کے بش ‘من موہن سنگھ اعلامیے میں کہا گیا اور جسے ۲مارچ ۲۰۰۶ء کے دہلی معاہدے میں آخری شکل دی گئی‘ وہ ان کوششوں کا نتیجہ ہے جو ۱۰ سال سے خاموشی سے کی جارہی تھیں اور جس کے لیے بھارتی سفارت کار‘ بھارت کے لیے مہم چلانے والے پیشہ ور افراد اور ادارے اور سیاسی قیادت سرگرم عمل تھی۔
اس معاہدے نے این پی ٹی کو عملاً غیرموثر کر دیا ہے اور اب امریکا کھلے بندوں بھارت کو نیوکلیر میدان میں ہرمدد دینے کا اعلان کر رہا ہے۔ نام پُرامن استعمال کیا گیا ہے مگر حقیقت میں وہ وہ تمام ری ایکٹر جو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں‘ اپنے تصرف میں رکھنے اور انھیں عالمی معائنے سے باہر رکھنے کا حق دیا گیا ہے۔ گویا اس کو عملاً ایک نیوکلیر اسلحہ رکھنے والا ملک تسلیم کرلیاہے اور اس کے اپنے افزود کردہ پلوٹونیم کو مزیداسلحہ سازی کے لیے کھلاچھوڑ دیا گیا۔ اس کارنیگی سنٹر کی ایک محقق اور سائنس دان جوزفن سِرِن کیون (Josphen Cirincion) نے کہا ہے:
اس کے ایک تہائی ری ایکٹروں کا کسی قسم کا کوئی معائنہ نہیں کیا جاسکے گا‘ اور یہی اصل مسئلہ ہے۔ درحقیقت اس سودے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت ہرسال جتنی مقدار میں ایٹمی ہتھیار بناسکتا ہے‘ وہ اسے دگنا یا تین گنا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ اس وقت وہ ۶سے ۱۰ تک بنا سکتا ہے۔ غیرعسکری ری ایکٹروں کو امریکی ایندھن کی فراہمی سے اس کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ اپنے ملٹری ری ایکٹروں کی پیداوار کو تین گنا کردے۔ اس سے ایٹمی ہتھیاروں کی ایک دوڑ شروع ہوجائے گی‘ اس لیے کہ پاکستان یہ سب کچھ ہوتے دیکھ کر‘ خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتا‘ نہ چین یہ دیکھ سکتا ہے‘ اور جاپان کیا کرے گا؟ یہ خطے کے لیے مسئلہ ہے اور حکومت کے لیے بھی۔
امریکا کو خود اپنے چھے سے زیادہ قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا تاکہ بھارت کو نیوکلیر ری ایکٹر اور دوسرا مواد فراہم کرسکے۔
بھارت اور امریکا کا یہ گٹھ جوڑ فقط نیوکلیر میدان ہی میں نہیں بلکہ دفاع‘ تجارت‘ سرمایہ کاری اور ٹکنالوجی کی منتقلی‘ غرض ہرمیدان میں ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ یہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اسی لیے اسے اسٹرے ٹیجک شراکت کہا گیا ہے اور کُھل کر اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ یہ بھارت کو اکیسویں صدی کی ایک عالمی قوت بنانے اور امریکا اور بھارت کے مل کر عالمی سیاسی بساط کا نقشہ بنانے کے لیے ہے۔ وہ نقشہ کیا ہے؟ اس کے چار بڑے بڑے اہداف ہیں:
۱- پہلا ہدف یہ ہے کہ امریکا اکیسویں صدی میں سب سے بالاتر عالمی قوت رہے اور کوئی اس کی طاقت کو چیلنج کرنے والا نہ اُبھر سکے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے امریکا نے دو حلیف منتخب کیے ہیں: ایک اسرائیل جو شرق اوسط میں اس کا نقیب ہوگا‘ اور دوسرا بھارت جسے ایشیا کی چودھراہٹ سونپی جارہی ہے۔
۲- دوسرا بنیادی ہدف چین کا محاصرہ ہے‘ اس لیے کہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ وہ یورپ کو ناٹو کی وجہ سے اپنے دائرے میں رکھ سکتا ہے‘ البتہ چین اس کے لیے اصل مدِّمقابل (challenger) بن سکتا ہے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے ایشیا ہی سے ایک طاقت کو میدان میں لانا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے چین سے اسٹرے ٹیجک تعلقات ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کو الگ الگ سلوک کا سزاوار سمجھا جائے۔
۳- تیسرا ہدف یہ ہے کہ اسلام اور عالمِ اسلام کو ایک منظم قوت بن کر اُبھرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہدف بھی اسلامی احیا کا راستہ روکنا‘ مسلم ممالک کو فوج کشی اور معاشی مقاطعے کے ذریعے کمزور کرنا‘ اور اسلامی اتحاد کی جگہ مسلم ممالک کو مزید تقسیم در تقسیم کا شکار کرنا ہے۔
۴- چوتھا ہدف گلوبلائی زیشن‘ کھلی منڈی اور آزاد تجارت اور آزاد سرمایہ کاری کے ذریعے‘ نیز کثیرقومی کارپوریشنوں اور این جی اوز کے توسط سے معاشی طور پر پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لینا اور ٹکنالوجی اور فوجی قوت کے میدانوں میں امریکا اور اس کے حلیف ممالک کی ایسی بالادستی کو دوام بخشنا ہے کہ مقابلے کی قوتیں اور تہذیبیں اُبھر نہ سکیں اور اس طرح امریکا کی قیادت میں ایک نئے سامراجی دور کو مستحکم کیا جا سکے۔
اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے معاشی اور سیاسی حربوں کے ساتھ فوجی قوت کا استعمال اور اس کے لیے ایک نئے فلسفے اور خارجہ پالیسی کے ایک نئے آہنگ کو فروغ دیا جا رہا ہے‘ جس کے ذریعے عالمی ادارے اور بین الاقوامی قانون کے مسلمہ اصولوں کو نظرانداز کر کے اپنی من مانی کی جاسکے۔ یک طرفہ کارروائی‘ پیش بندی کی بنیاد پرحملے‘ حکومت کی تبدیلی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر صدمے اور رعب کی حکمت عملی (shock and awe strategy) اس کا اہم حصہ ہے۔ عالمی امن کے لیے اصل خطرہ اگر آج کسی سے ہے تو اسی ذہن اور اسی منصوبۂ کار سے ہے۔
نیوکلیر پیش رفت سے آگے بڑھ کر‘ امریکا اور بھارت کچھ اور حوالوں سے بھی‘ ایک دوسرے کو ہم خیال سمجھ رہے ہیں۔ دونوں جمہوریتیں ہیں‘ دونوں کے پھلتے پھولتے اور اضافہ پذیر باہم مربوط ٹکنالوجی کے سیکٹر ہیں۔ دونوں انگریزی بولتے ہیں‘ ایک ہی جیسے یوگا کے گروؤں کو مانتے ہیں‘ نیز فلموں میں ایک جیسی فراریت‘حتیٰ کہ ایک جیسی غذا سے محظوظ ہوتے ہیں۔ بش نے ایشیا سوسائٹی کو بتایا کہ بھارتی نوجوان ڈومینو اور پیزاہٹ کے پیزا کے ذائقے کو پسند کرتے ہیں۔ واشنگٹن اور بھارت دونوں اسلامی عسکریت سے برسرِجنگ ہیں اورچین کی بڑھتی ہوئی طاقت سے یکساں طور پر پریشان ہیں۔ بھارت کے سیکرٹری خارجہ شیام سرن نے ٹائم کو بتایا کہ اس کے امریکی ہم منصب بہت واضح طور پر ایک ایسے مضبوط اور دیرپا اتحاد کی خواہش رکھتے ہیں جو شرق اوسط سے ایشیا تک اسلامی عدمِ استحکام کی قوس کے خلاف کام کرے‘ اور ایشیا میں بہت زیادہ توازن پیدا کرے‘ یعنی دوسرے الفاظ میں بھارت چین کا ہم پلّہ(counterweight) ہو۔
اپنے قریبی پڑوسیوں اور بھوٹان‘ سِکم‘ نیپال‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش تک جیسی چھوٹی ریاستوں کے لیے بھارت کی پالیسی کا موازنہ مغربی نصف کرّے میں امریکی مونرو ڈوکٹرائن سے کیاجاسکتا ہے‘ یعنی بھارتی بالادستی کو برقرار رکھنے کی کوشش میں‘ اگر ضرورت پڑے توطاقت کے استعمال سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ شمال میں بھارت کا مقابلہ ہمالیہ اور تبت کے پار چینی دیو سے ہے۔ یہاں بھارت اپنے حریف سے مقابلے کے لیے کلکتہ اور سنگاپور کے درمیان علاقے میں اپنی معاشی‘ سیاسی اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے مطابق کردار چاہتا ہے۔
ممبئی اور یمن کے درمیانی علاقے میں بھارت اور امریکا کے مفادات انقلابی اسلام کو شکست دینے کے لیے تقریباً ایک جیسے ہیں۔ ناین الیون تک اسلامی دنیا میں حکومت عام طور پر مطلق العنان حکمرانوں کے ہاتھ میں تھی۔ بھارتی قیادت مسلم مطلق العنان حکمرانوں سے تعاون کر کے غیرجانب داری کو اپنی مسلم اقلیت کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ یہ صورت حال اب باقی نہیں رہی ہے۔ بھارتی قیادت جانتی ہے کہ بنیاد پرست جہاد‘ دہشت گردی کے اقدامات کے ذریعے سیکولر معاشروں کی بنیادیں ڈھاکر مسلم اقلیتوں کو انقلابی بنارہا ہے۔
موجودہ بھارتی قیادت یہ بات سمجھ چکی ہے کہ عالمی بے چینی کا یہ مظاہرہ اگر پھیل گیا تو بھارت جلد یا بدیر ایسے ہی حملوں کا شکار ہوگا۔ چنانچہ دہشت گردی کے خلاف امریکی کوشش کا نتیجہ بھارت کی طویل المدت سلامتی سے بنیادی طور پر متعلق ہے۔ امریکا بھارت کی کچھ جنگیں لڑ رہا ہے۔ جہاں تدابیر میں فرق ہے‘ وہاں بھی دونوں ملکوں کے مقاصد متوازی ہیں۔
آزادی کے وقت برطانوی ہندستان کو پاکستان اور بھارت میں تقسیم کردیا گیا۔ چونکہ تقسیم سے ہندومسلم آبادیاں مکمل طور پر الگ نہ ہوسکیں‘ اس لیے آج بھی بھارت میں ۱۵کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ قوم پرستوں کے نزدیک پاکستان ان کے تاریخی ورثے سے علیحدہ کیا ہوا حصہ ہے۔ یہ بھارتی ریاست کے لیے ایک مستقل چیلنج ہے‘ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہندو بالادستی کے تحت اپنا تشخص برقرار نہیں رکھ سکتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی شراکت میں توازن رکھنے کے لیے غیرمعمولی حساسیت اور اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے۔
چین کے ساتھ ساتھ اسلام اور عالم اسلام کو حصار میں رکھنا اس حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے جسے خود صدربش کی تقاریر میں دیکھا جاسکتا ہے اور امریکا کے درجنوں مفکر اور میڈیا کے مبصر اس لَے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ناین الیون کمیشن کی رپورٹ سے لے کر فرانسس فوکویاما کی حالیہ تحریروں تک میں اسے صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اسلامی بنیاد پرستی‘ سیاسی اسلام اور انقلابی اسلام کی اصطلاحات استعمال کی جارہی ہیں۔ مارچ ۲۰۰۶ء میں امریکا نے قومی سلامتی کی حکمت عملی کی جو دستاویز شائع کی ہے‘ اس میں دہشت گردی کے ساتھ اس کا رشتہ an aggressive ideology of hatred and murder (نفرت اور قتل کا ایک جارحانہ نظریۂ حیات) کے عنوان سے مسلمانوں سے جوڑا گیا ہے البتہ ذرا پردہ رکھ کر بات کو یوں کہاگیا ہے:
دہشت گردی کے خلاف جنگ نظریات کی جنگ ہے‘ مذاہب کی جنگ نہیں۔ ہمارے مقابلے پر آئے ہوئے مختلف اقوام کے دہشت گرد اسلام جیسے قابلِ فخر مذہب کا استحصال کرتے ہیں کہ وہ ایک پُرتشدد سیاسی وژن کے طور پر کام کرے۔ وہ دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعے ایک ایسی سلطنت کا قیام چاہتے ہیں جو ہرطرح کی سیاسی اور مذہبی آزادی کا انکار کرے۔ یہ دہشت گرد جہاد کے تصور کو مسخ کرکے اسے ان لوگوں کے خلاف قتل کی دعوت میں تبدیل کردیتے ہیں جن کو وہ کافر سمجھتے ہیں‘ بشمول عیسائی‘ یہودی‘ ہندو‘ دیگر مذہبی روایات کے حامل‘ اور وہ سب مسلمان جو ان سے متفق نہیں۔ بلاشبہہ ۱۱ستمبر کے بعد بیش تر دہشت گرد حملے مسلمان ملکوں میں ہوئے ہیں اور زیادہ تر ہلاک ہونے والے بھی مسلمان ہی تھے۔
بھارت اور امریکا کے حالیہ معاہدات اور صدربش کے دورے کے مقاصد اور چیلنجوں کو اس پس منظر میں دیکھنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی تناظر میں امریکا اور بھارت کی مشترکہ حکمت عملی کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینے کے بعد ضروری ہے کہ صدربش کے حالیہ دورے کے ان مضمرات کو بھی سمجھا جائے جن کا تعلق پاک بھارت تعلقات سے ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ۱۹۵۴ء میں جب سے پاکستان کھلے طور پر امریکا کے حلقۂ اثر میں آیا اور دفاع اور سیاست دونوں میدانوں میں اشتراکی اور روس کی تحدید کے فلسفے کے تحت ان معاہدوں اور اداروں کا رکن بنا جو اس سلسلے میں امریکا نے قائم کیے تھے۔ امریکا کی طرف سے باربار کی بے وفائیوں کے باوجود چار چیزیں ایسی ہیں جن کا ایک حد تک امریکا کی حکومتوں نے‘ خواہ ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہو یا ڈیموکریٹس سے‘ احترام کیا۔
اوّل: پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں ایک توازن اور برابری کا رویہ اختیار کیا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک سے معاملہ کرتے وقت دوسرے پر اس کے اثرات اور ردّعمل کو ملحوظ رکھا گیا۔ سیاسی معاملات‘ معاشی تعلقات اور فوجی ضرورت کے لیے اسلحے کی ترسیل میں ایک درجے کا توازن قائم رکھنے اور اس میں اس پالیسی کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ گویا پاکستان اور بھارت سے پالیسی کے امور کی ایک جڑواں حیثیت ہے۔
دوم: پاکستان سے دوستی اور بنیادی امور پر ہم آہنگی کا رویہ اختیار کرنے کا دعویٰ کیا گیا‘ تاہم ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ اس کے باوجود مذکورہ تصور کا خمار (hang over) باقی رہا اور افغانستان پر روس کی فوج کشی اور اس کی مزاحمت کی تحریک میں پاکستان کے کردار نے اسے مزید تقویت دی۔ حتیٰ کہ اس خودفریبی (make believe)کی چھتری میں پاکستان ساری پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود اپنے ایٹمی پروگرام کو ترقی دے سکا۔ یہ ایک پردہ سا تھا جو ہمیشہ رہا اور اس کا سہارا لے کر ناین الیون کے بعد دوستی کے نام پر زیردستی کا دور شروع ہوگیا۔
سوم: پاکستان کے دفاع اور سلامتی میں خصوصی دل چسپی اور اس سلسلے میں فوجی اور معاشی امداد اور تعاون کو مرکزی اہمیت دی گئی۔ بھارت اسے پاکستان کے ساتھ امریکا کا امتیازی سلوک قرار دیتا رہا اور برابر احتجاج کرتا رہا لیکن ساری اُونچ نیچ کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا‘ اور اس کے نتیجے میں پاکستان کا دفاعی نظام امریکی سسٹم کا حصہ بن گیا جس کے مثبت اور منفی دونوں ہی پہلو ہیں ___حقیقت میں منفی پہلو کہیں زیادہ ہیں‘ کیوں کہ اس سے ہم خطرناک حد تک امریکا کے محتاج ہوگئے ہیں۔ منفی پہلو کا اندازہ ایف-۱۶ کے سلسلے میں امریکا کی بدعہدی سے کیا جاسکتا ہے۔
چہارم: کشمیر کے معاملے میں امریکا کی دل چسپی اور اصولی طور پر پاکستان کے اس موقف کی تائید کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جو عالمی امن کے لیے خطرہ (flash point) بن سکتا ہے۔ شروع میں تو امریکا بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی مسئلہ کشمیر کے فیصلے کی بات کرتا تھا‘ جب کہ روس کُھلے طور پر بھارت کے موقف کی تائید کر رہا تھا۔ اس طرح اقوام متحدہ میں روس کے ویٹو کے مقابلے میں امریکا پاکستان کی حمایت کرتا رہا اور کشمیر میں مسلح تحریکِ مزاحمت کو (پچھلے دو تین سالوں میں رونما ہونے والے انحرافی رویے کے برعکس) تحریکِ آزادی ہی تصور کرتا رہا۔ جہادی تحریک ۱۹۸۹ء سے جاری ہے اور ناین الیون کے بعد بھی امریکا نے اس کے خلاف کبھی بیان نہیں دیا۔ امریکی پالیسی میں تبدیلی کا آغاز دسمبر ۲۰۰۱ء میں دہلی کی پارلیمنٹ پرہونے والے حملے یا ڈرامے سے ہوا جو آہستہ آہستہ پختہ ہوتی گئی۔
صدربش کے حالیہ دورے نے ان چار بنیادی مقدمات (premises) میں تبدیلی پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ اب پاکستان سے دوستی اور تعلق صرف ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا ایک پہلو ہے‘ جب کہ بھارت سے دوستی ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے اور مشترکہ عالمی حکمت عملی کا حصہ۔
پہلی بنیاد کی جگہ اب دونوں کے بارے میں الگ پالیسی بنانے کے اصول کو مسلمہ بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اس تصور پر عرصہ ۱۰‘ ۱۵ سال سے کام ہو رہا تھا۔ صدربش نے صاف لفظوں میں واشنگٹن‘دہلی اور پھر اسلام آباد میں یہ اعلان کرکے کہ بھارت‘ بھارت ہے اور پاکستان‘ پاکستان اور دونوں کی ضروریات اور دونوں کی تاریخ الگ الگ ہے‘ اس نقطۂ اتصال کو بھی پارہ پارہ کردیا جو ۵۰سال سے پاکستان کی قیادتوں کی نگاہ میں بھارت کے جارحانہ عزائم کے خلاف ایک ٹوٹی پھوٹی ڈھال بنا ہوا تھا اور اب اسے پے درپے ضربوں سے اڑادینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ نہایت عیاری مگر ایک گونہ شایستگی کے ساتھ کچھ اسی قسم کا یوٹرن ہے جو ناین الیون کے بعد پاکستان کی موجودہ قیادت نے افغانستان کی حکومت کے بارے میں بڑے بھونڈے اور بے دردانہ انداز میں لیا تھا۔ انسانوں کو سبق سکھانے اور ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے قدرت کے طریقے بھی عجیب و غریب ہیں۔ رہی پاکستانی قوم‘ تو وہ نہ پہلے مطمئن تھی اور نہ اب خائف اور دل گرفتہ۔
یہ اس جوہری تبدیلی کا کرشمہ ہے کہ اب قوم کو بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھارت کے محور کے گرد (India Centric) نہیں گھومنی چاہیے۔ حالانکہ جنرل پرویز مشرف نہ معلوم‘ کب کے اپنی پالیسی کا محور بدل چکے ہیں۔ ان کے دور میں ہماری پالیسی خاص طور پر صرف ایک محور کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ ہے امریکا کا حکم اور امریکا کا مفاد۔ اب امریکا کا فلسفہ یہ ہے کہ پاکستان عملاًغیرمتعلق (irrelevent) ہے‘ اسے بھارت کے حلقۂ اثر میں رہ کر ہی اپنا مستقبل سوچنا چاہیے اور بھارت کو ایک عالمی قوت بنانا ہے تاکہ وہ چین کے دائرۂ اثر کو روک سکے۔
امریکا اور بھارت کا ایٹمی معاہدہ اسی مقصد کے حصول اور کامیابی کی منزل کے لیے ایک زینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی کو امریکی سفارت کار کہہ رہے ہیں کہ: It is no more a zero sum game (اس میں کسی کے لیے تخت یا تختے والی بات نہیں ہے)۔ اس لیے کہ اب بھارت امریکا کے لیے امریکی نائب وزیرخارجہ نکسن برن کے الفاظ میں singularly important (واحد اہم) ملک ہے اور بین الاقوامی امور کے بھارتی ماہرین بھی صاف سمجھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ: اس ہفتے سب سے بڑا جیتنے والا بھارت ہی نظر آرہا تھا۔ پاکستان کے حصے میں پشت پر ایک ہلکی سی تھپکی سے زیادہ کچھ نہیں آیا۔ (سومینی سین گپتا‘ نیویارک ٹائمز)
بھارت اور امریکا کے لیے بلاشبہہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے___ لیکن پاکستان کے لیے بھی یہ ایک انداز میں ایک حقیقی کامیابی بن سکتی ہے بشرطیکہ اس آئینے میں پاکستان کی موجودہ قیادت اپنا اصل چہرہ دیکھنے کی زحمت کرے اور سمجھ جائے کہ نئے زمینی حقائق کیا ہیں اور کس نوعیت کی متبادل حکمت عملی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگر اب بھی ہم حالات کا معروضی جائزہ لے کر اپنا راستہ خود متعین کریں تو پھراس ناکامی سے حقیقی کامیابیوں اور سرفرازیوں کے کئی دَر وَا ہو سکتے ہیں۔ شکست کو فتح بناکر پیش کرنے والے تباہی کے غار میں جاگرتے ہیں اور شکست کو شکست سمجھ کر نئے عزم کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ہونے والے تاریخ کے رخ کو بدلنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک ایسے ہی فیصلہ کن لمحے (moment of truth) سے گزر رہا ہے۔
امریکا ایک سوپر پاور ضرور ہے لیکن کوئی سوپر پاور ہمیشہ سوپر پاور نہیں رہی۔ تاریخ بیسیوں سوپرپاورز کا قبرستان ہے اور امریکا تو اپنی قوت کے نقطۂ فراز سے نشیب کے سفر پر چل پڑا ہے۔ صدربش دنیا کی نگاہ میں اس وقت امریکی تاریخ کے سب سے ناکام اور ناپسندیدہ حکمران ہیں۔ خود امریکا میں ان کی شرح مقبولیت زمین کو چھو رہی ہے۔ اس وقت ۶۸ فی صد سے زیادہ امریکی ان کی کارکردگی سے غیرمطمئن ہیں۔ ادھر امریکا کا پبلک قرض مجموعی قومی پیداوار سے بڑھ گیا ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ ۴ ہزار بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ صرف بجٹ کا سالانہ خسارا ۲۲۰ بلین ڈالر اور تجارتی خسارا ۷۰۰ بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ افغانستان اور عراق میں وہ بری طرح پھنس گیا ہے اور نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ جسے حقیقی معنی میں عالمی برادری کہاجاسکتا ہے وہ اس سے متنفر ہے اور ابھی ۱۸مارچ کو عراق پر حملے کے تین سال مکمل ہونے پر دنیاکے کونے کونے میں بشمول امریکا بش انتظامیہ کے خلاف بھرپور مظاہرے ہوئے ہیں۔
امریکا اور بھارت کے اپنے عزائم ہیں‘ لیکن پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے اس کی گرفت سے آزاد ہوکر ایک خارجہ پالیسی اور ریاستی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جو ایک ہی طاقت کی تابع فرمان بنے رہنے کے بجاے آزادی کے تصور پر مبنی ہو۔ اس میں یورپ‘ چین‘ لاطینی امریکا اور عالمِ اسلام کا بڑا اہم کردار ہوسکتا ہے۔ جاپان اور روس بھی اس میں اہم کارفرما قوتیں ہوں گی۔ محض ردّعمل (reactive)کی نہیں‘ پیش قدمی (pro-active) پر مبنی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ ملک کے لیے سب سے زیادہ خطرناک اور ناکام خارجہ پالیسی وہ ہے جو ذہنی مرعوبیت‘ مجبوری اور خوف کی بنیادوں پر استوار کی جائے۔ چھوٹا یا بڑا ملک ہونا کوئی مسئلہ نہیں۔ شمالی کوریا اور لبنان کوئی بڑے ملک نہیں۔ شام‘ ایران اور بیلاروس ہم سے بڑے ملک نہیں۔ سوئٹزرلینڈ‘ بلجیم‘ ہالینڈ‘سویڈن اور ناروے کوئی سوپر پاور نہیں لیکن اپنے اپنے قومی مفاد اور عزائم کی روشنی میں خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہیں۔ آخر ہم کیوں خوف اور مجبوری کے تحت اپنی پالیسیاں بنائیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو درحقیقت اس کی داخلہ پالیسیوں اور نظامِ حکمرانی کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔
ہماری خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی‘ اصل سانحہ ہی یہ ہے کہ ملک کے دستور کے تحت اداروں کے ذریعے پالیسی سازی کے بجاے‘ فردِواحد کی پریشان فکری اور کھلنڈرانہ افتادِ طبع کے تابع ہیں۔ فوج جس کا کام سول نظام کے تحت خدمت انجام دینے کا ہے‘ اس کی قیادت سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ خارجہ پالیسی‘ ہر ایک میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگئی ہے۔یہ بھی ایک تلخ اور الم ناک حقیقت ہے کہ امریکا کا بلاواسطہ ربط فوج کی قیادت سے ۱۹۵۴ء سے کسی نہ کسی شکل میں ہے۔ امریکا کے جو پانچ صدر پاکستان آئے ہیں‘ فوجی حکمرانوں کے دور ہی میں آئے ہیں۔ وائٹ ہائوس اور شعبہ دفاع (پینٹاگون) کو جو کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے وہ جی ایچ کیو کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ جنرل زینی اور جنرل فرینک کی خودنوشت پڑھ لیجیے۔ جس دور میں بھی جو کام امریکا کو کروانا ہوتا ہے وہ چیف آف اسٹاف کے توسط سے کراتا ہے‘ حتیٰ کہ ایمل کاسی کے بطور مجرم حوالگی (extradition ) کو بھی اسی راستے سے حاصل کیا گیا تھا۔ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں نہ دفترخارجہ کا کلیدی کردار ہے‘ نہ کابینہ کا‘ اور نہ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادتوں کا___ ڈورصرف ایک مقام سے ہل رہی ہے جسے MWA (ملٹری وہایٹ ہائوس الاینس)ہی کہا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ قوم کے نمایندے‘ قومی مشاورت اور گہرے سوچ بچار کے بعد‘ محض سلامتی کے نام پر نہیں بلکہ ملک و قوم کے مقاصد‘ عزائم‘ مفادات اور دیرپا ضروریات اور تقاضوں کی روشنی میں پالیسی سازی کرسکیں۔
پالیسی سازی کے طریق کار کی اصلاح کے ساتھ پالیسی کے خدوخال کو بھی ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا سے دوستی اور ربط و تعلق ایک حقیقی ضرورت ہے اور اس سے نہ صرف کسی کو انکار نہیں بلکہ اسے خارجہ سیاست میں ایک مقام حاصل ہے اور ہونا چاہیے۔ البتہ صرف امریکا کو محور مان کر بنانے والی پالیسی تباہی کا راستہ ہے جس سے جلدازجلد نجات ضروری ہے۔
ہم اُلٹے پائوں بھاگنے کے بجاے صرف سمت کی ایسی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ جس میںبجاطور پر پالیسی کا محور پاکستان ہو۔ ہماری پہلی ضرورت ہے: ذہن‘ سمت اور پالیسی کے پورے پس منظر کی تبدیلی۔ خارجہ پالیسی کے جن بنیادی پالیسی امور پر گہرے غوروخوض‘ کھلے مباحثے اور تمام متاثر ہونے والے عناصر (stake holders) بشمول فوجی قیادت کی سرگرم شرکت سے‘ نئے فیصلوں کی ضرورت ہے‘ وہ یہ ہیں:
۱- دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ میں پاکستان کا کردار۔ آج تک پاکستان کی ساری خارجہ پالیسی اسی ایک محور پر گھوم رہی ہے جس چکر میں امریکا نے ہمیں ڈال دیا ہے‘ اس سے نکلنا ضروری ہے۔ حقیقی دہشت گردی کے ہم خلاف ہیں لیکن کیا چیز دہشت گردی ہے اور کیا نہیں ہے اور جن اسباب‘ عوامل اور حالات کی اصلاح کے بغیر سیاست میں قوت کے استعمال کو قابو نہیں کیاجاسکتا ‘ان کے بارے میں موثر حکمت عملی کا بنایا جانا اور اس پر عمل ضروری ہے ورنہ پوری دنیا تباہی کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے اور عام انسانوں میں عدم تحفظ کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امریکا کے اشارے پر رقصِ بسمل کرنے کے بجاے سوچ سمجھ کر قومی و ملّی مفادات کے حصول کے لیے نئی پالیسی وضع کرنا ضروری ہے۔
۲- پاکستان کی افغان پالیسی آج تارتار ہے۔ مقتدر طبقے نے دوستوں کو دشمن بنالیا ہے اور جو محاذ محفوظ تھے ان کو غیرمحفوظ کردیا ہے۔ جو قربانیاں پاکستان نے گذشتہ ۲۵سال میں دیں‘ وہ رایگاں جارہی ہیں اور ہاتھ میں ہزیمت اور اتہامات کے سواکچھ نہیں۔ افغان پالیسی پر مکمل نظرثانی کی ضرورت ہے اور اسے مکمل طور پر عدم مداخلت کی بنیاد پر مرتب ہونا چاہیے۔ آج بھارت‘ افغانستان میں ایک ’سخت پاکستان دشمن‘ کردار ادا کر رہا ہے اور امریکا بھارت کے اس کردار کی تحسین کر رہا ہے۔ اسلام آباد اور کابل الزامات کا تبادلہ کر رہے ہیں اور معصوم پاکستانی سرحد کے اِس پار اور اُس پار مارے جارہے ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس ناکام اور نامراد پالیسی کو ختم کیا جائے اور حالات کے مطابق نئی پالیسی بنائی جائے ۔
۳- بھارت کے بارے میں بھی پالیسی کی تشکیلِ نو ضروری ہے۔ بھارت امریکا گٹھ جوڑ اور اس علاقے میں اسرائیل کے ایک کارفرما قوت بن جانے کے بعد ہماری پالیسی کے پرانے خطوط بے کار ہوگئے ہیں۔ کشمیر کے معاملے میں جو قلابازیاں فوجی حکمرانوں نے کھائی ہیں‘ اس نے کشمیر کے عوام اور مزاحمتی تحریک کو مایوس کیا ہے۔ تاہم ابھی وقت ہے کہ سنبھل کر بھارت سے تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر ایک جامع پالیسی وضع کی جائے اور فوری نتائج سے زیادہ اصل مقاصد اور اہداف کی روشنی میں وسطی مدت اور طویل مدت کی حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ پوری قوم اس کی پشت پر ہو۔
۴- ایران کے بارے میں بھی پالیسی کو واضح کرنے اور پاک ایران اتحاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران پر امریکی حملہ پاکستان پر حملے کا پیش خیمہ ہی نہیں‘ پاکستان پر ایک بھرپور وار ہوگا۔ اس وقت اس کی پیش بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس محاذ پر بھی پیش اِقدامی (pro-active) پالیسی کی ضرورت ہے۔
۵- چین سے ہمارے تعلقات استوار رہے ہیں۔ اگر کوئی ہمارا اسٹرے ٹیجک شراکت دار ہے تو وہ چین ہی ہے۔ اس کے ساتھ پالیسی کو زیادہ موثرانداز میں مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یورپ‘ روس‘ جاپان اور جنوبی امریکا کے ممالک سے روابط اور پالیسیوں میں ہم آہنگی ضروری ہے۔
۶- سب سے بڑھ کر مسلم ممالک کی تنظیم (OIC) کو متحرک و منظم کرنا اور اسے موثر بنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے بہترین حکمت عملی وہ ہے جسے ۱۰سال پہلے ترکی کے اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر نجم الدین اربکان نے ڈی-۸ کے منصوبے کے تحت پیش کیا تھا۔ آٹھ مسلمان ملک عالمِ اسلام کی طاقت کے مراکز ہیں۔ ان کا منظم ہونا‘ مل کر سیاسی‘ تعلیمی‘ معاشی اور دفاعی حکمت عملی تیار کرنا سب کی قوت کا ذریعہ ہوگا اور وسیع تر اسلامی اتحاد اور دنیا میں امن کا ذریعہ بنے گا۔
۷- توانائی اور پانی دو بڑے مسئلے ہیں جن پر مستقبل کی ترقی اور ملک کی آزادی کا انحصار ہے۔ ان کے بارے میں دُور رس پالیسی بنانا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں اُمت مسلمہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کا ۸۰ فی صد مسلم دنیا کے پاس ہے۔ صحیح توانائی پالیسی سے ہم عالمی سیاست میں بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
یہ سب کام اسی وقت ممکن ہیں جب پاکستان کا اندرونی نظام حکمرانی درست ہو۔ اپنے گھر کی اصلاح اور تنظیم نو کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں۔ ملک میں دستور کے تحت حقیقی جمہوری نظام کا قیام ازبس ضروری ہے۔ فوج کی بالادستی کے ذریعے جو نظام‘ پاکستان میں مسلط کیا گیا ہے‘ وہ ملک کے استحکام‘ فوج کی قوت اور عوام کی فلاح و بہبود کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آج وزیرستان اور بلوچستان جس آگ میں جل رہے ہیں‘ اسے بجھائے بغیر اور سیاسی مسائل کو سیاسی حکمتِ عملی سے حل کیے بغیر‘ کوئی خیرحاصل نہیں کیاجاسکتا۔ اس لیے ملکی نظام کی اصلاح خود خارجہ سیاست کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے۔
اسی طرح معیشت کا استحکام اور ترقی‘ تعلیم و تحقیق کا فروغ‘ جدید ٹکنالوجی کا حصول اور اسے مزید ترقی دینے کی مساعی اندرونی اصلاح کا اہم حصہ ہیں۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ایک مخصوص ٹولے کی بالادستی کو ختم کرکے ملک کے تمام دستوری اداروں کو متحرک کرنے‘ استحکام بخشنے اور ان کے ذریعے ملک کی ترقی کی راہیں ہموار کی جائیں۔
آج اگر پاکستانی قوم اور اس کی موجودہ قیادت صدر جارج بش کے دورے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ہزیمت اور بدنامی سے صحیح سبق سیکھ لے اور اپنا قبلہ درست کرلے‘ تو پھر یہ چرکا کوئی زخم نہیں چھوڑے گا بلکہ اصلاح اور بلندی کی طرف سفر کے لیے تازیانہ بن جائے گا۔ ایسے تازیانے قوموں کی زندگی میں بڑا تاریخی کردار ادا کرتے اور شکست کے مقابلے میں فتح کے دروازے کھول دیتے ہیں۔
کیا پاکستانی قوم اور قیادت اس شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کے لیے تیار ہے؟