حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے اپنا ’سودا‘ بیچنے کے لیے سرعام رکھا ہوا تھا۔ ایک آدمی نے اس کی قیمت لگائی اور اس کو خریدنا چاہا۔ یہودی نے اس قیمت پر خریداری پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے موسٰی ؑکو انسانوں پر فضیلت دی ہے میں اس قیمت پر نہیں دوں گا۔ ایک انصاری نے اس کی یہ قَسم سنی تو کھڑا ہوا اور اس یہودی کے چہرے پر زوردار طمانچہ رسید کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمارے درمیان موجود ہوتے ہوئے تم اس طرح کے الفاظ: ’’اس ذات کی قسم جس نے موسٰی ؑکو انسانوں پر فضیلت دی ہے‘‘ زبان سے ادا کرتے ہو؟
یہودی تھپڑ کھاکررسولؐ اللہ کی خدمت میں چلا گیا اور کہنے لگا: ابوالقاسمؐ! آپؐ کی حکومت نے میری جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور میرے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ ایسی حالت میں فلاں آدمی نے مجھے تھپڑ مارا۔ آپؐ نے مسلمان سے پوچھا: تم نے کیوں تھپڑ مارا ہے؟ اس نے وجہ بیان کردی۔ یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے‘ غصے کے آثار آپؐ کے چہرے پر دیکھے گئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے نبیوں کے درمیان فضیلتوں میں اس طرح کا مقابلہ نہ کرو (کہ دوسروں کے فضائل کی نفی کا کوئی پہلو نکلتا ہو)۔ جب صور پھونکا جائے گا‘ آسمانوں اور زمینوں والے تمام بے ہوش ہوجائیں گے (مگر وہ جن کو اللہ تعالیٰ بے ہوشی سے محفوظ رکھنا چاہیں وہ محفوظ رہیںگے)۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرشِ الٰہی کو پکڑے ہوں گے۔ میں نہیں جانتا کہ ان پر کوہ طُور پر بے ہوشی کے بدلے میں بے ہوشی طاری نہیں ہوئی یا ہوئی لیکن مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی یونس علیہ السلام پر (ایسی) فضیلت رکھتا ہے (کہ یونس علیہ السلام کے فضائل کی نفی ہوجائے)۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الانبیا)
مسلمان نے یہودی کی قسم والذی اصطفٰی موسٰی علی البشر کو اس قدر عام سمجھا کہ یہ جناب رسولؐ اللہ کی ذات اقدس کو بھی شامل ہے۔ اس لیے بعض روایات میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ مسلمان نے اس کے جواب میں کہا: والذی اصطفٰی محمداً علی العٰلمین ، جواب میں یہودی نے کہا: والذی اصطفٰی موسٰی علی العٰلمین ، اس ذات کی قسم جس نے موسٰی ؑکو جہانوں پر فضیلت دی ہے تو مسلمان نے کہا: اے خبیث! کیا محمدؐ پر بھی اور ساتھ ہی تھپڑ رسید کردیا۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الخصومات)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلمان کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں معمولی کوتاہی پر سخت غصے ہوئے۔ اس سے نبی اکرمؐ کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ نبی اکرمؐ یا کسی بھی نبی کی تعظیم میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ جب نبی اکرمؐ کے پاس مقدمہ آیا تو آپؐ نے یہودی کے دعوے کے جواب میں مسلمان سے جوابِ دعویٰ لیا۔ آپؐ مسلمان پر دو وجہ سے غصے ہوئے۔ ایک اس وجہ سے کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام میں مقابلے کی صورت پیدا کردی۔ وہ بھی اس شکل میں کہ ایک طرف یہودی ہے اور دوسری طرف مسلمان۔ ایسے مقابلے کی صورت میں کسی بھی نبی کی توہین کا پہلو نکل سکتا ہے۔ دوسرا اس لیے کہ یہودی نے اگر والذی اصطفٰی موسٰی علی البشر کہہ دیا تھا تو اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے انسانوں تک محدود سمجھ کر برداشت کرنا چاہیے تھا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام اپنے زمانے کے تمام انسانوں سے افضل تھے جیساکہ قرآن پاک میں بنی اسرائیل کے بارے میں آیا ہے: وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَo (البقرہ۲:۴۷)’’ میں نے تمھیں جہانوں پر فضیلت دی تھی‘‘۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو اس طرح بیان کرنا کہ دوسرے انبیا کے فضائل کی نفی ہو‘ درست نہیں ہے۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت انسانوں پر ثابت کرے تو اس پر طیش میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی حضرت یونس علیہ السلام کی فضیلت بیان کرے تو اس پر بھی ناراض ہونے کے بجاے خوش ہونا چاہیے بلکہ مسلمانوں کو تمام انبیا علیہم السلام کے فضائل کو بیان کرنا چاہیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خصوصی فضیلت کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرما دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام کی خصوصی فضیلت یہ ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا۔ انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ کی تسبیح بیان کی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق اور تمام انبیا علیہم السلام سے افضل ہیں۔ نبی اکرمؐ نے خود فرمایا: انا سیدالبشر یوم القیامۃ (بخاری) میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔ اس کے باوجود آنحضوؐر نے تواضع اختیار کی اور انبیا علیہم السلام کے ناموس کا پورا پورا خیال کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور میں انبیا علیہم السلام کی تعظیم و تکریم کا تحفظ کیا جس کی وجہ سے مسلمان کسی نبی کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ’خلق عظیم‘ کی حامل شخصیت کے کارٹون بنانا کس قدر درندگی کا مظاہرہ ہے۔
کوئی بتلائے تو سہی کہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے ساتھ کسی بھی قسم کی ظلم و زیادتی کبھی کی تھی‘ جس کی بناپر آنحضوؐر کی ذاتِ اقدس کو خبثِ باطنی کا نشانہ بنایا گیا ہے (اناللہ وانا الیہ راجعون)۔ ناموس رسالتؐ کا تحفظ کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے‘ اسی لیے مسلمان اس کے تحفظ میں ہمیشہ سربکف رہتے ہیں۔
o
حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے سال‘ مکہ مکرمہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپؐ سرمبارک پر خود پہنے ہوئے تھے۔ جب آپؐ نے خود اتارا تو ایک آدمی آپؐ کے پاس آیا اور رپورٹ دی کہ ابن خطل کعبے کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے قتل کر دو۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الحج باب دخول الحرم بغیراحرام)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین کے لقب سے نوازا‘ فتح مکہ کے موقع پر تمام مخالفین کو معاف فرما دیا تھا۔ ابوسفیان جنھوں نے ۲۱سال تک جنگ کی قیادت کی ان کو اعزاز و اکرام کے ساتھ اسلام میں داخل فرمایا اور اعلان فرمایا: من دخل دارابی سفیان فھو امن(جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا اسے بھی امان ہے)۔ اس دن کو آپؐ نے یوم الملحمۃ (کشت و خون کے دن) کے بجاے یوم المرحمۃ (رحم و کرم کا دن) قرار دیا۔ یہ بھی فرمایا کہ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کردے‘ اسے بھی امان ہے اور جو مسجدحرام میں داخل ہوجائے اسے بھی امان ہے۔ صحابہ کرامؓ کو خصوصی ہدایات دیں کہ کسی بھی راہ چلتے مرد‘ عورت‘ جوان‘ بوڑھوں اور بچوں کو نشانہ نہیں بنانا۔ حضرت خالدبن ولیدؓ نے جوش و جذبے میں آکر چند جذباتی مزاحمت کرنے والے نوجوانوں کو قتل کردیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خاندانوں کو دیت ادا فرمائی‘ لیکن کچھ بدبخت وہ بھی تھے کہ رحمت کے اس سمندر سے بھی انھیں کوئی حصہ نہ ملا۔ ان میں ابن خطل بھی شامل تھا‘ کیوں؟ اس لیے کہ وہ انسانیت سے عاری تھا‘ وہ درندہ صفت تھا‘ اس کی درندگی اور زبان درازی سے وہ ہستی بھی محفوظ نہ رہ سکی جو تمام انسانی عیوب سے پاک اور تمام محاسن کا مرقع تھی۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نے کیا خوب فرمایا:
واحسن منک لم ترقط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرا من کل عیب
کأنک قد خلقت کماتشاء
میری آنکھ نے کبھی بھی آپؐ سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھا‘ اور آپؐ سے زیادہ خوب صورت کسی عورت نے بیٹا نہیں جنا‘ آپؐ ہر انسانی عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں۔ گویا آپؐ اسی طرح پیدا کیے گئے جیسے آپؐ چاہتے تھے۔
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدؓ وبایزیدؓ اینجا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا روضۂ اطہر آسمان کے نیچے عرش سے بھی زیادہ نازک ادب گاہ ہے‘ یہاں جنید اور بایزید عشق و مستی میں ڈوب کر حاضر ہوتے ہیں۔
ابن خطل مسلمان ہوا‘ پھر مرتد ہوگیا اور اپنے اشعار میں رسولؐ اللہ کی ہجو کرتا تھا (فتح الباری)۔ جو اس ہستی کی شان میں زبان درازی کرتا ہے تو وہ درندگی کی انتہا تک پہنچا ہوا ہے۔ اس کی زبان سے آپؐ محفوظ نہیں تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں‘ وہ انسانوں کا دشمن اور تمام انسانوں کی توہین و تذلیل اور قتل سے بڑھ کر ’فتنہ‘ برپا کرنے کا مجرم ہے۔ ایسے دہشت گرد اور بدبخت کا علاج یہی ہے کہ زمین کو اس کے بوجھ سے آزاد کر دیا جائے اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ اسی لیے نبی رحمتؐ نے فرمایا کہ اسے کعبے کے پردے بھی نہیں بچاسکتے‘ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے‘ چنانچہ حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت سعید بن حریثؓ نے اس کا ناپاک سر اس کے ناپاک تن سے جدا کردیا۔ اگر ایسے مجرم کو بھی قتل کی سزا نہ دی جائے تو پھر کسی بھی مجرم کو قتل کرنا نامعقول ہوجاتا ہے کہ بڑے مجرم کو چھوڑ دیا جائے اور چھوٹوں کو قتل کیا جائے‘ یہ کون سا عدل و انصاف ہے؟