سوال: اتحاد بین المذاہب کی تحریک متحدہ ہندستان کے زمانے سے جاری ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو مذاہب باطلہ کی تردید سے روکنا ہے اور اسلام کے ناجی ہونے میں شک ڈالنا ہے کہ سب مذاہب اپنی اپنی جگہ سچے ہیں ‘ نہ معلوم کس نے نجات پانی ہے۔
اس تحریک کو مسلمانوں نے نہیں اپنایا اور اس کے اثرات مسلمانوں میں نہیں پھیلے۔ پاکستان میں دینی مدارس کے تحفظ کے سلسلے میں جب تنظیمات مدارس دینیہ کو سربراہی حیثیت حاصل ہوگئی تو ناروے جو اس تحریک کا بانی مبانی ہے‘ اس نے اس موقعے کو غنیمت سمجھا کہ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے سربراہ امن پسند ہیں ان کی قیادت سے اتحاد بین المذاہب کی تحریک کو موثر بنانا چاہیے۔ چنانچہ ناروے حکومت نے ان کو دعوت دی اور ایک معاہدہ کیا جس میں اعلان کیا گیا کہ:
۱- ہم جنگ جوئی اور دہشت گردی دونوں پر نفرین کرتے ہیں اور تشدد کے اسباب کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔
۲- قومی سطح پر اپنا فرض جانتے ہیں کہ مختلف مذہبی طبقات کے درمیان امن و سکون کا ماحول سب کے لیے پیدا کیا جائے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہرفرد کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ پوری آزادی سے اپنے عقیدے‘ اپنے مذہب اور اپنے مذہبی احکامات کے مطابق عمل کرسکے اور دوسرے عقائد اور مذاہب کی دل شکنی نہ ہو۔
۳- باہمی معاشرتی تعلقاتِ کار کے پروگرام بنائیں گے جن میں تمام مذہبی طبقات کو کام کرنے کا موقع ملے تاکہ برداشت اور باہمی پیار کا کلچر پیدا ہو۔
۴- ہم تمام مذاہب اور عقائد سے پرُزور اپیل کرتے ہیں کہ آیئے ہم سب مل کر مذہبی برداشت‘ باہمی عزت اور امن وسکون کی فضا پیدا کریں۔
اس معاہدے کے بعد حکومت پاکستان نے اتحاد بین المذاہب کانفرنس کا انتظام کیا جس میں کہا گیا کہ یہودیت‘ عیسائیت اسلام ایک مجموعے کے تین اجزا ہیں: جس پر دنیاے اسلام خاموش رہی۔ اقوام متحدہ کی سطح پر اسلام اور مغرب کے درمیان فاصلے کم کرنے کے عنوان سے کوشش کی گئی اور اس کے لیے رجالِ کار متعین کیے گئے لیکن اُمت مسلمہ میں شاید ہی کسی نے اس کو غلط قرار دیا ہو۔ اس تسلسل سے ناروے حکومت نے اندازہ لگایا کہ اب مسلمان اسلامی پختگی چھوڑ چکے ہیں وہ عیسائیت سے اتحاد کرلیں گے۔ اس اتحاد کو بروے کار لانے کی خاطر سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کیے گئے۔ ناروے حکومت نے معاہدہ توڑ کر مسلمانوں کے عقائد اور مذہب کی دل شکنی کی ہے اس لیے تنظیمات مدارس کے اکابر کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اعلان کریں کہ اسلام کا کسی باطل مذہب سے اتحاد نہیں ہوسکتا‘اور اعلان کریں کہ ناروے حکومت معاہدہ توڑچکی ہے اس لیے آیندہ اس عنوان سے بلائی گئی کسی دعوت میں شریک نہ ہوں گے‘ نیز توہینِ رسالتؐ کے مرتکبین کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔
جواب: اسلام اور اُمت مسلمہ کے لیے فکرمندی قابلِ قدر ہے اور علما کا فریضہ ہے۔ آپ کو اس فرض کی ادایگی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ جہاں تک اس معاہدے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو خلافِ شرع ہو۔ جب جنگ برپا نہ ہو تو اس وقت کفار کے جان و مال پر ان کی آبادیوں میں پہنچ کر حملہ کرنا جائز نہیں ہے‘ بلکہ جنگ کے دوران میں بھی بلااضطرار ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس وقت ہندستان‘ یورپ اور امریکا کے ساتھ ہم برسرجنگ نہیں ہیں‘ اس لیے ان ممالک کے باشندوں اور ان کی املاک پر حملے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کشمیر‘ فلسطین‘ افغانستان اور عراق اسلامی ممالک ہیں جن پر کفار نے غاصبانہ قبضہ کیا ہے۔ ان ممالک کی آزادی کے لیے کفار کی فوجوں پر حملے کرنا جائز ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر استشہادی حملے بھی جائز ہیں‘ جیساکہ فلسطین‘ افغانستان‘ عراق اور کشمیر میں یہ سلسلہ جاری ہے۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے فتاویٰ میں اس شرعی مسئلے کی اچھی طرح وضاحت فرمائی ہے۔ ان کے ارشاد کے مطابق: ’’جب لوگ ایک ملک میں رہتے ہوں اور اس ملک کو اپنے طرزعمل سے اطمینان دلاتے ہوں کہ ہم یہاں کے شہری ہیں اور امن وامان کے ملکی قوانین کو مانتے ہیں‘ اور لوگوں میں معروف ہو کہ ان کی جان و مال مسلمانوں سے محفوظ ہے اور مسلم اورغیرمسلم دونوں سے انھیں کوئی خطرہ نہیں تو اس عرف کی حیثیت باہمی معاہدے کی ہوتی ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنا معاہدے کی خلاف ورزی کرنا ہے‘‘۔ اس لیے تحریکِ آزادی میں انگریزوں کے گھروں‘ دفاتر اور ہندوئوں کے مکانات اور دکانات پر حملے روا نہیں سمجھے گئے۔ اب بھی یورپ‘ امریکا اور بھارت میں مسلمانوں‘ علما اور عوام کا اتفاق اسی پر ہے۔ حتیٰ کہ قادیانیوں کے خلاف ۹۰سالہ تحریک کے دوران میں قادیانیوں پر حملوں کا فتویٰ کسی عالم نے نہیں دیا۔ زیرگفتگو معاہدہ اسی قسم کے عرفی معاہدے کا اعلان ہے۔ آپ کو اس کی بعض شقوں سے عیسائیت اور یہودیت کی تعظیم کا جو خدشہ پیدا ہوا ہے وہ درست نہیں ہے۔ معاہدے میں عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کی دل شکنی نہ کرنے کی شق قرآن پاک کے حکم کے عین مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍط (الانعام ۶:۱۰۸) اور (اے مسلمانو) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انھیںگالیاں نہ دو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بناپر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔
اس سارے معاہدے کی روح یہی آیت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ صحابہ کرامؓ کی سیرت اور سلف صالحین کے اخلاقِ حسنہ سے یہی رہنمائی ملتی ہے۔ کفار اور مسلمانوں کے گمراہ فرقوں کے ساتھ رواداری اور مدارات پر تعامل رہا ہے۔ البتہ موالات جائز نہیں ہے۔ اوسلو معاہدہ مدارات اور رواداری پر مشتمل معاہدہ ہے‘ موالات پر مشتمل نہیں ہے۔ غیرمحارب کفار کو سبّ و شتم کرنا‘ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کو حلال سمجھنا کسی بھی دور میں صحیح نہیں سمجھا گیا۔
آپ کا یہ خیال کہ اس معاہدے کی وجہ سے ناروے حکومت کو توہین رسالتؐ کی جرأت ہوئی‘ درست نہیں ہے۔ ’توہین رسالتؐ، تو بش کے اسلام اور مسلمانوں پر کروسیڈ حملے کی ایک کڑی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے۔ ناروے کی حکومت نے تو اس توہین کی مذمت کی ہے اور اس کے صحافی اور حکومت نے معافی بھی مانگی ہے لیکن ہم نے کہا ہے کہ اس صحافی کی یہ معافی اس کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اس کو تعزیری سزا دینا بھی ضروری ہے‘ نیز ناروے کا صحافی اصل مجرم نہیںہے۔ اصل مجرم ڈنمارک کا صحافی ہے‘ باقی تمام یورپین اس کے نقال ہیں۔ البتہ ناروے حکومت پر اس شق کی بنیاد پر جس کو آپ نے نشان زد کیا ہے‘ دبائو بڑھایا جاسکتا ہے اور کہاجاسکتا ہے کہ اس کے صحافی نے مسلمانوں کی دل شکنی کی ہے‘ دیگر بین الاقوامی قوانین اور ناروے کے ملکی قانون کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی بھی کی ہے‘ لہٰذا اسے ان سب کی خلاف ورزی کی بنیاد پر تعزیری سزا دی جائے۔(مولاناعبدالمالک)
س:میرے سسرال والوں کا تعلق تحریک اسلامی سے ہے۔ میں خود بھی تحریک سے وابستہ ہوں مگر ناروا گھریلو رویوں کی بنا پر میں ذہنی اذیت سے دوچار ہوں۔
میری ساس سخت مزاج ہیں۔ وہ مجھے طنز کا نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ انھوں نے میری بیٹی کو مجھ سے بعض غلط فہمیاں پیدا کر کے دُور کردیا ہے‘ جو مزید باعثِ اذیت ہے۔ کیا ایک ساس کا ایسا رویہ درست ہے؟
کچھ عرصہ پہلے ایک معمولی واقعے سے میری ساس بری طرح ناراض ہوگئیں‘ جب کہ زیادتی بھی ان کی تھی۔ میں نے ان کی غلط روش پر توجہ دلائی تھی کہ آپ کا رویہ درست نہیں‘ کچھ تلخی بھی ہوگئی۔ مگر میرے خاوند نے مجھے ہی مجبور کیا کہ تم معذرت کرو۔ میرے پس و پیش پر انھوں نے مجھے گھر سے نکالنے کی دھمکی دی ۔ کیا بیوی کی کوئی عزتِ نفس نہیں ہے؟ کیا اسلام اسے کوئی حق نہیں دیتا؟ کیا تحریک کے ذمے داران کا فریضہ نہیں کہ اپنے رفقا کے رویے کی اصلاح کریں اور ان کو توجہ دلائیں؟
ج: آپ کی ذہنی پریشانی اور تکلیف کے احساس سے بہت دکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید صبرواستقامت کی توفیق دے اور آپ کے شوہر اور سسرال والوں کو ہدایت سے نوازے۔
تحریکِ اسلامی جو ذہن بنانا چاہتی ہے‘ سادہ لوحی میں ہم اسے رکنیت‘ نظامت‘ امارت وغیرہ سے منسلک کردیتے ہیں۔ بلاشبہہ تحریک اسلامی کی رکنیت ایک اعزاز ہے لیکن اس سے زیادہ‘ ایک امتحان بھی ہے کہ جس ربّ کریم کی اطاعت اور حق کی پیروی اور حق کی اشاعت و اظہار کا عہد کیا گیا ہے اسے کہاں تک اپنی ذاتی زندگی خصوصاً اہلِ خانہ کے ساتھ تعلقات میں اختیار کیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ بعض اوقات یہ شکایات بھی سننے میں آتی ہیں کہ تحریک سے وابستہ فلاں صاحب نے تجارتی شریک کے ساتھ وہ رویہ نہیں رکھا جو متوقع تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں معیارِ مطلوب اور حقیقت واقعہ میں فرق ہمیشہ ملحوظ رکھنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ حقیقتِ واقعہ کم سے کم عرصے میں معیارمطلوب کے مطابق ہوجائے۔ مذکورہ سوال کے ضمن میں چند باتیں عرض ہیں:
پہلی بات یہ کہ کیا ایک دادی یا نانی کو اپنے بیٹے یا بیٹی کی اولاد کو اس کی حقیقی ماں یا باپ سے متنفر کرنے کا حق ہے؟ قرآن کریم کا اور سنت کا واضح حکم ہے کہ صلہ رحمی کی جائے اور قطع رحمی نہ کی جائے‘ حسنِ ظن کو اختیار کیا جائے اور سوئِ ظن سے اجتناب کیا جائے۔ ایک فرد کو کم ترکرکے نہ دکھایا جائے کہ یہ غیبت کی تعریف میں آتاہے۔ اس غلطی کا ارتکاب ایک دادی یا نانی کرے‘ یا ایک بہو یا داماد کرے‘ فرق واقع نہیں ہوتا۔ اس میں نہ جنس کی قید ہے نہ عمر کی نہ رشتے کی۔ اس لیے اگر ایک دادی صاحبہ اپنے بیٹے کی اولاد کو اس کی حقیقی ماں سے متنفر کرتی ہیں تو وہ قرآن و حدیث کے واضح احکام کی خلاف ورزی کرتی ہیں‘ چاہے وہ اور ان کا پورا خاندان تحریکِ اسلامی کے کیسے ہی منصب پر کیوں نہ فائز ہو۔ یہ اپنی جگہ پر غلطی ہے اور اس کی اصلاح کرنا ان کا تحریکی فریضہ ہے۔ لیکن وہ ا یسا کیوں کرتی ہیں؟ کیا اس کا سبب ان کا احساسِ عدمِ تحفظ ہے کہ ان کی لائی ہوئی بہو ان کے بیٹے پر ’قابض‘ ہوجائے گی یا گھر میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے ایسا کرتی ہیں‘ یا بہو کی کسی بات کو دل میں رکھ کر اس کے ردّعمل کے طور پر ایسا کرتی ہیں؟ ان سوالات کا جواب میرے پاس تو نہیں ہے‘ شاید آپ کے پاس بھی نہ ہو‘ لہٰذا اس حوالے سے ظن و گمان سے بچنا ہی بہتر ہوگا۔
دوسری بات آپ نے یہ دریافت کی ہے کہ کیا شوہر اپنی والدہ کے کہنے میں آکر بیوی کو گھر سے نکال سکتا ہے ؟ قرآن و سنت کی تعلیمات تحریکِ اسلامی کے لٹریچر میں وضاحت سے ملتی ہیں‘ کہ ایک شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو اپنا لباس سمجھے اور لباس کو جسم سے الگ کر کے نہ خود عریاں ہو نہ بیوی کو اس آزمایش سے گزارے۔ قرآن متوجہ کرتا ہے کہ اگر بعض فطری رجحانات کی بناپر بیوی کی کوئی ایک بات ناپسند بھی ہو تو یہ سوچے کہ اس کی دوسری خوبیاں کتنی قیمتی ہیں اور ان کی بناپر اس سے علیحدگی یا اسے دُور کرنے کا قصد نہ کرے۔ اسلام کی نگاہ میں یہ رشتہ اتنا اہم ہے کہ اسے برقرار رکھنے اور بہتر بنانے کے لیے اور غلط فہمی دُور کرنے کے لیے ایک دوست غلط بیانی بھی کرسکتا ہے‘ جو عام حالات میں شدّت سے منع ہے۔ اس رشتے کو کمزور کرنے اور بگاڑنے کے لیے شیطان اپنی ذرّیت کو ’نشانِ امتیاز‘ دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
عام طور پر ساس بننے کے بعد ایک خاتون کا طرزِعمل کچھ نہ کچھ بدلتا ہے۔ اس کی اصلاح صرف دعا‘ اپنی جانب سے بھلائی‘ احسان کے رویے اور اللہ سے صبرواستقامت کی مسلسل دعا کے ذریعے سے ہی کی جاسکتی ہے۔
ایسے افراد کے لیے جو تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہوںاصلاح و احتساب کا نظام تحریک کے اندر بھی اور خاندانوں کے معاملات کے حوالے سے بھی باقاعدہ ہونا چاہیے۔ ایک تحریکی کارکن کا اپنی رپورٹ میں یہ بیان کر دینا کہ اس نے کتنے افراد تک دعوت پہنچائی‘ کتنے اجتماعات میں شرکت کی‘ کیا مالی اعانت کی‘ کافی نہیں ہے۔ وہ کہاں تک اپنے خاندان میں محبت‘ عدل‘ نرمی اور بھلائی سے پیش آرہا ہے اور کہاں تک ماں باپ کی حمایت یا بیوی کی حمایت کی جگہ حق کی بات پر عمل کررہا ہے‘ رپورٹ کا حصہ ہونا چاہیے۔
ہم جس معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی تبدیلی و انقلاب کا علَم لے کر نکلے ہیں اس میں گھر بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جب تک گھر کے محاذ پر ایک مجاہد اپنی سیرت کے کھرے ہونے کا مظاہرہ نہیں کرتا وہ بڑے محاذوں پر بحسن وخوبی اپنا کردار ادا نہیں کرسکے گا۔
ایسے مواقع پر بھی جب آپ کو اپنی ساس کے غلط ہونے کا یقین ہو‘ اگر آپ براہِ راست انھیں جواب نہ دیں تو آپ کے اجر میں زیادہ اضافہ ہوگا کہ آپ نے رشتے کے احترام میں ایسا کیا۔ ہاں‘ اپنے شوہر کو ضرور مطلع رکھیے کہ آپ کو کیا کچھ کہا گیا لیکن آپ نے کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ شوہر کی یہ اہم ترین ذمہ داری ہے کہ معاملات کو احسن انداز سے لے کر چلے کہ والدین کو ان کا مقام ملے اور اہلِ خانہ کے حقوق بھی مجروح نہ ہوں‘ بالخصوص اہلیہ تنہائی کے احساس کا شکار نہ ہوں۔
جہاں تک ماں کو ناراض کرنے کا تعلق ہے‘ بلاشبہہ قرآن و حدیث میں ماں کی اطاعت و فرماں برداری اور خوشنودی کا بار بار ذکر ہے لیکن وہی قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ اگر والدین شرک کا حکم دیں تو کوئی اطاعت نہیں۔ حدیث بھی یہی بات کہتی ہے کہ’ ’خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں‘‘۔ اس لیے اگر ماں یا باپ ایک ایسی بات کا حکم دیتے ہیں جو حق کے منافی ہے تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اسلام کے اصول واضح ہیں‘ ان میں کوئی ایچ پیچ اور مصلحتیں نہیں ہیں۔ تاہم معاملات کو حکمت‘ معاملہ فہمی‘ وضع داری‘ حسنِ سلوک‘ غیرجذباتیت اور صبروتحمل کے ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ آخرت پر نظر رہنی چاہیے اوراللہ تعالیٰ سے آسانی اور اس کی راہ میں استقامت کے لیے خصوصی دعا بھی کرنا چاہیے۔(ڈاکٹر انیس احمد)