اپریل۲۰۰۶

فہرست مضامین

مقامِ دعوت اور اسوۂ رسولؐ

خرم مراد | اپریل۲۰۰۶ | سیرت النبیؐ

Responsive image Responsive image

دعوت کے اس سال اور تذکار سیرتؐ کے اس مہینے میں ہم قرآن کی روشنی میں حیاتِ طیبہؐ میں دعوت کے مقام کی اہمیت پر محترم خرم مراد کا ایک منفرد مطالعہ پیش کر رہے ہیں۔ دعوتِ دین کا کام کرنے والے ہر فرد کے لیے اس میں عملی رہنمائی ہے۔ (ادارہ)

مقام دعوت سے آپؐ کے قلب و ذہن کا تعلق‘ اس کی عظمت اور ذمہ داری کا احساس‘ اس کے لیے آپؐ کی لگن‘ اس کے لیے اپنی علمی‘ روحانی‘ اخلاقی اور عملی تیاری اور اس راہ میں آپؐ کی نفسیاتی کیفیات کا ایک وسیع اور اہم موضوع ہے‘ جس پر قرآن مجید نے روشنی ڈالی ہے۔ ہم صرف چند موتی ہی چن سکتے ہیں۔

احساس عظمت اور دل کی لگن

دعوت الی اللہ‘ شہادت حق اور اقامت دین کا مقام اور کام‘ جو وحیِ الٰہی کی امانت کا لازمی نتیجہ ہے‘ بڑا نازک اور گراں بار کام ہے۔ ہر اس شخص کے لیے ہے‘ جس پر یہ ذمہ داری آتی ہو۔ لیکن جو سالار قافلہ ہو اس کے لیے اس عظیم ذمہ داری کے بوجھ کا کیا ٹھکانا۔

کوئی بھی اگر اس کو ایک مشغلے اور ایک پیشے کی طرح یا ماحول کے دبائو یا صرف اپنی اندرونی کیفیات کی تسکین کی خاطر اٹھائے تو اس کا صحیح حق ادا نہیں کر سکتا‘ جب تک وہ اس کو اپنے رب کی طرف سے عائد کردہ فرض نہ سمجھے۔ اس لیے کہ یہ راہ کٹھن ہے اور اس کے مطالبات نازک‘ اور سب سے زیادہ قائد کے لیے۔ اس کو‘ سب سے بڑھ کر‘ اس راہ میں مکمل بے نفسی‘ بے غرضی‘ خلوص اور للّٰہیت درکار ہے۔ اس کو انتہائی اعلٰی اخلاق کی ضرورت ہے۔ لازم ہے کہ وہ مخالفتوں کے طوفان میں صبر و ثبات پر قائم رہے۔ کامیابی کے مادی امکانات معدوم ہونے کے باوجود اپنے کام میں لگا رہے۔ برائی کا جواب بھلائی سے دے۔ گالیوں اور کانٹوں کے درمیان مسکراہٹ کے ساتھ گزر جائے‘ پتھر کھا کر ہدایت کی دعا دے۔ مخالفین تک کے ساتھ طنز و استہزا اور تذلیل و تحقیر کی روش اختیار نہ کرے۔ کمزور اور ناتواں ساتھیوں کو لے کر دشوار گزار مراحل سے گزرنے کا حوصلہ و ہمت رکھے۔ اپنوں کے ستم بھی خاموشی کے ساتھ سہہ لے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی ذمہ داری پر فائز ہونے کے احساسات کے ساتھ کبر اور پندارِ نفس اور تنگ نظری کے فتنوں سے بھی خود کو محفوظ رکھے۔ گویا اس کے اخلاق‘ مجسم قرآن ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی معراج پر پہنچے ہوئے تھے۔ طائف کی کٹھن وادی سے کامیابی کے ساتھ گزر جانے کے بعد ہی آپ کو آسمان کی بلندیوں پر لے جایا گیا۔ عرب و عجم آپؐ کے قدموں پر ڈال دیئے گئے۔

حضوؐر کو اس بات میں کیا شبہہ ہو سکتا تھا کہ آپؐ کو یہ کام اللہ کی طرف سے سپرد ہوا ہے اور جو کچھ آپؐ کر رہے ہیں وہ اللہ کا کام ہے۔ ایسا کوئی شبہہ آپؐ کو لاحق نہیں ہوا۔ اس معاملے میں آپؐ کے یقین کی کیفیت بالکل منفرد تھی‘ اور اس کا کوئی حصہ بھی‘ میرے خیال میں‘ کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ سے کلام کرتا تھا۔ جبریل ؑ آپؐ کے پاس تشریف لاتے تھے اور وحی آپؐ کے قلب مبارک پر نازل ہوتی تھی۔ ہم امتیوں کا حصہ تو بس اتنا ہی ہے جو ہم قرآن کے ان الفاظ پر یقین کی کیفیت سے حاصل کریں اور یہ ہمارے لیے کافی ہے‘ اگر کماحقہ ہمیں حاصل ہو:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲: ۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ (الصف۶۱: ۱۴) اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کے مددگار بنو۔

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَـہٗٓ (البقرہ ۲: ۲۴۵) تم میں کون ہے جو اللہ کو قرضِ حَسن دے‘ تا کہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے۔

قرآن میں جہاں حضوؐر کو مخاطب کر کے فَلَا تَکُن مِنَ الْمُمْتَرِیْن(شک کرنے والے نہ ہو جائو) کہا گیا‘ تو اوّل تو خطاب کے پردے میں عتاب کا رخ مخالفین کی طرف ہے۔ دوم یہ‘ کہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو اس وقت طاری ہوتی ہے‘ جب کسی کو اپنی آنکھوں سے نظر آ رہا ہو کہ سورج نکلا ہوا ہے اور سارے دیدئہ بینا رکھنے والے اس کو جھٹلانے اور مذاق اڑانے میں مصروف ہوں اور‘ وہ سوچے کہ آخر ان کو کیا ہو گیا ہے!

اللّٰہ کا کام سمجہنے کی کیفیت

آپؐ نے سارا کام اسی احساس و یقین کے ساتھ سرانجام دیا کہ یہ اللہ کا کام ہے۔ قرآن جب اترتا تو اکثر اس یقین کو گہرا کرنے کے لیے وضاحت و صراحت سے کام لیتا: یہ رب العالمین کی طرف سے اتر رہا ہے‘ آپؐ حق پر ہیں‘ آپؐ صراط مستقیم پر ہیں‘ آپؐ مرسلین میں سے ہیں۔ اس طرح آپؐ کے ساتھ ساتھ‘ صحابہ کرامؓ کی کیفیت ِیقین میں بھی اضافہ ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس چیز کی یاد دہانی سے کسی لمحہ بھی نہ غفلت برتی جا سکتی ہے نہ فارغ ہوا جا سکتا ہے۔ اور اگر یہ احساس کمزور ہوتا تو خرابیاں سر اٹھاتیں۔ اور جب ایمان و احساس کمزور ہوتا ہے تو پھر خرابیاں ضرور سر اٹھاتی ہیں۔ اگر آپؐ کے کردار کو کسی ایک لفظ سے ظاہر کرنا مقصود ہو تو وہ ’صبر‘ کا لفظ ہو سکتا ہے‘ محدود معنوں میں نہیں بلکہ اپنے گوناگوں جامع معانی میں۔ اور آپؐ کا یہ سارا صبر اپنے رب کی خاطر تھا۔ اس لیے کہ کام بھی اسی کی خاطر تھا:

وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ o (المدثر۷۴:۷) اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔

مالک کی نگاھـوں میں

اس ضمن میں ایک اور اہم کیفیت تھی جو آپؐ پر طاری رہتی تھی۔ وہ یہ کہ آپؐ یہ سارا کام اس مالک کی نگاہوں کے سامنے کر رہے ہیں جس نے اس کام پر مامور کیا ہے۔ وہ ساتھ ہے سب کچھ سُن رہا ہے‘ دیکھ رہا ہے‘ وہ بھی جو مخالفین کہہ رہے ہیں یا کر رہے ہیں‘ اور وہ بھی جو ساتھیوں کی طرف سے ہے‘ اور وہ بھی جو میں کہہ رہا ہوں اور کر رہا ہوں:

وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُـنِنَا (الطور۵۲: ۴۸) اے نبیؐ، اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو‘ تم ہماری نگاہ میں ہو۔

اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۴۶) میں تمھارے ساتھ ہوں‘ سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔

وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط (الحدید۵۷: ۴) تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمھارے ساتھ ہے۔

وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْـدِo (ق ۵۰: ۱۶) اور ہم شاہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہیں۔

غرض‘ دو ہوں تو تیسرا وہ ہے (التوبہ ۹:۴۰)۔ تین ہوں تو چوتھا وہ ہے۔ کم ہوں یا زیادہ‘ تو بھی وہ ساتھ ہے (المجادلہ۵۸: ۷)۔ اس کیفیت میں دو خزانے مستور ہیں: ایک خزانہ توسکون‘ طمانیت‘ اعتماد‘ توکّل‘ جرأت‘ بے خوفی‘ ولولہ‘ جوش اور ہر لمحہ تازگی اور شادابی کا خزانہ ہے۔ غارِ ثور اس کی ایک مثال ہے۔ پوری سیرت طیبہ ان واقعات سے بھری ہوئی ہے جو ان کیفیات پر گواہ ہیں۔ ۲۳ سال میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جب آپؐ پر تھکن‘ یعنی ذہنی و نفسیاتی تھکن طاری ہوئی ہو‘ جب اکتاہٹ طاری ہوئی ہو‘ جب جوش و ولولے میں کمی آئی ہو‘ یا جب حوصلے پست ہوئے ہوں۔

اور دوسرا خزانہ‘ ذمہ داری کی عظمت و نزاکت کے احساس کا خزانہ ہے۔ جس کا کام کررہے ہیں اور جس کو اپنا کام دکھانا ہے‘ جب وہ کام کرتے ہوئے دیکھ رہا ہو تو قلب و ذہن احساس ذمہ داری سے کس طرح خالی ہو سکتے ہیں۔ اور جتنا زیادہ اس کی عظمت و کبریائی کا احساس ہو گا‘ اتنا ہی زیادہ اس کے کام کی عظمت کا احساس ہو گا۔

عظمت اور ذمہ داری کا احساس

کام کی عظمت‘ منصب کی نزاکت اور ذمہ داری کی گراں باری سے آپؐ ہمیشہ معمور رہے۔ وحی آئی تو لرز گئے‘ کانپ گئے۔ یہ کپکپاہٹ اور لرزش دل پر بھی تھی اور جسم بھی اس میں شریک تھا۔ حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے تو زَمِّلُوْنِیْ(مجھے چادر اوڑھا دو) کہتے ہوئے آئے۔ قرآن نے شروع میں ہی یاایھا المزمل اور یاایھا المدثر کہہ کر خطاب کیا تو اور دوسری کیفیات کے ساتھ اس کیفیت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ایک عظیم الشان کام درپیش ہے۔ اس کی ہیبت طاری ہے۔ گھٹاٹوپ اندھیرے میں نور کی ایک کرن ہے جس سے روشنی کا سامان کرنا ہے۔ ایک پکار ہے‘ الفاظ پر مشتمل‘ جس سے سارے سوتوں کو جگانا ہے۔ ایک چھوٹا سا بیج ہے جس کی آبیاری کر کے ایسے درخت میں تبدیل کرنا ہے جس کی جڑیں ثابت ہوں اور شاخیں آسمان کو چھورہی ہوں جو سدابہار ہو اور جس کے پھلوں اور سایے سے قافلے کے قافلے نفع اندوز ہوں۔ چنانچہ بے چینی کی جو کیفیت تھی‘ اضطراب کا جو عالم تھا‘ ذمہ داری کا جو پہاڑ نظر آ رہا تھا‘ اپنی چادر میں لپٹ جانے کی کیفیت سے قرآن نے ان سب کی عکاسی کر دی۔

ساتھ ہی آپؐ نے یہ بھی سمجھ لیا کہ دعوت حق کے معنی اور اس کی قیادت کی ذمہ داری کا مطلب یہ ہے کہ پائوں پھیلا کر سونے کا زمانہ گزر گیا۔ اپنی ذات تک سمٹ جانے کا دور گیا۔ اب تو کمربستہ ہو کر خود کو تیار کرنا ہے اور مسلسل کرتے رہنا ہے۔ اور کھڑے ہو کر‘ میدان کارزار میں کود کر‘ ساری دنیا کو آگاہ اور خبردار کر دینے اور رب کی کبریائی قائم کرنے کی جدوجہد میں لگ جانا ہے اور لگا رہنا ہے۔

قولِ ثقیل

اقراء کا پیغام آپؐ کے لیے علم کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کا پیغام نہ تھا‘ بلکہ ایک قولِ ثقیل تھا جو اپنے دامن میں سنانے‘ دعوت دینے‘ ہجرت و جہاد کے مراحل طے کرنے کی ساری کٹھن وادیاں سمیٹے ہوئے تھا۔ وحی صرف اس لیے نہ تھی کہ پڑھیں اور ثواب حاصل کریں‘ بلکہ ذمہ داری کا ایک بوجھ تھا‘ ایسا بوجھ جو صرف معنوی ہی نہ تھا‘ بلکہ جسمانی بھی تھا۔ جب وحی آتی تو پیشانی مبارک پر پسینے کے قطرے نمودار ہوتے اور اگر آپؐ سوار ہوتے تو اونٹنی بیٹھ جاتی:

اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًاo (المزمّل ۷۳: ۵) ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔

آپؐ کے لیے یہ کام ایک مشغلہ نہ تھا‘ بلکہ ایک ایسا مشن تھا‘ ساری زندگی کا‘ جو ایسا لگتا تھا کہ آپؐ کی کمر توڑ ڈالے گا۔ جس کا بار صرف رحمت الٰہی کی دست گیری سے ہی کم ہوتا رہا:

وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ o الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ o (الم نشرح۹۴: ۲-۳) اور تم پر سے وہ بھاری بوجھ اتار دیا جو تمھاری کمر توڑے ڈال رہا تھا۔

شہادت حق کی ذمہ داری سے آپؐ کا قلب مبارک اتنا گراں بار تھا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق: ایک مرتبہ حضورؐ نے ان سے تلاوت قرآن کی فرمایش کی۔ پہلے تو وہ ہچکچائے کہ میں اور مہبط وحی کو قرآن سنائوں۔ جب آپؐ نے اصرار کیا‘ تو انھوں نے سورۃ النساء کی چند آیات تلاوت کیں۔ جب وہ ان آیات پر پہنچے: فکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَابِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًاo (النساء ۴: ۴۱) ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے  جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں (یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘۔ تو آواز آئی: ’’عبداللہ بس کرو!‘‘ کہتے ہیں کہ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

دل کی لگن

کام کی عظمت اور ذمہ داری کے احساس کا نتیجہ یہ تھا کہ دعوت و تحریک کی حیثیت آپؐ کے لیے ایک لبادے کی نہ تھی جو اوپر سے اوڑھ لیا ہو بلکہ یہ دل کی لگن بن گئی تھی۔ اس نے نہاں خانہ روح میں جگہ بنا لی تھی۔ یہ گہرائیوں میں اتر گئی تھی۔ اس کی دُھن آپؐ پر ہر وقت سوار تھی۔ صبح شام یہی ذکر تھا‘ یہی فکر تھی‘ یہی مشغلہ تھا اور یہ کیفیت ہر اس چیز کے لیے تھی جو اس مقصد کا تقاضا ہو۔ لیکن سب سے بڑھ کر دعوت کے لیے تھی۔ دل میں ایک سوز تھا۔ ایک خیر خواہی کا چشمہ ابل رہا تھا کہ لوگ ہدایت پائیں‘ حق تک پہنچ جائیں‘ صحیح راہ سے لگ جائیں۔ آپؐ کی اس کیفیت‘ لگن اور اضطراب کی تصویر قرآن مجید نے یوں کھینچی ہے:

لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ o (الشعرا ۲۶: ۳) اے نبیؐ،شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

اس دُھن اور سوز میں آپؐ اپنے آپ کو ہلاک کیے دے رہے تھے۔ ہدایت کے لیے اس نوعیت کی تڑپ کے بغیر کوئی دوسری اجتماعی تحریک چل سکتی ہو گی‘ مگر اسلامی تحریک کا چلنا بڑا مشکل ہے۔

آپؐ کی اسی حالت کے پیشِ نظر قرآن کو بار بار آپؐ کا دامن تھامنا پڑا۔ سمجھانا پڑا کہ آپؐ کے بس میں ہر ایک کو نعمتِ ایمان سے فیض یاب کرنا نہیں۔ آپؐ کو داروغہ‘ وکیل‘ فیلڈ مارشل بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ آپؐ کی بنیادی ذمہ داری‘ پہنچانا ہے۔ ماننا یا نہ ماننا‘ ہر انسان کا اپنا فعل ہے۔ اس کو راہِ زندگی منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

قرآن کی ہر اس نوعیت کی آیت دراصل آپؐ کی لگن کو بھی ظاہر کرتی ہے اور داعیِ حق کے مقام کو بھی واضح کرتی ہے اور معلم کو اس کی حدود بھی بتاتی ہے:

اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ اَوْ تَھْدِی الْعُمْیَ وَمَنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (الزخرف ۴۳: ۴۰ ) اب کیا اے نبیؐ‘ تم بہروں کو سنائو گے؟ یا اندھوں اور صریح گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو راہ دکھائو گے؟

اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَـآئُ ج (القصص ۲۸: ۵۶) اے نبیؐ ،تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے‘ مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

اِن تَحْرِصْ عَلٰی ھُدٰھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ (النحل۱۶: ۳۷) اے نبیؐ، تم چاہے ان کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو‘ مگر اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیا کرتا۔

وَکَذَّبَ بِہٖ قَوْمُکَ وَھُوْ الْحَقُّ ط قُلْ لَّسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍo (الانعام۶: ۶۶)

تمھاری قوم اُس کا انکار کر رہی ہے۔ حالانکہ وہ حقیقت ہے۔ اِن سے کہہ دو کہ میں تم پر حوالہ دار نہیں بنایا گیا ہوں۔

اپنی تیاری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں پہلے دن سے قرآن مجید کی تبلیغ اور دعوت و تحریک کا کام شروع کیا‘ اسی لمحے سے اپنی تیاری کا کام بھی شروع کیا۔ دل و نگاہ اور دامن کی پاکیزگی اور اخلاق کی بلندی یوں ہی حاصل نہیں ہوتیں--- طلب‘ محنت اور ریاضت کا تقاضا کرتی ہیں۔

قرآن سے تعلّق

قرآن اس ساری تیاری کا سرچشمہ تھا۔ وہ آپؐ ہی پر نازل ہو رہا تھا۔ آپؐ اس کو حاصل کرتے‘ اس پر تدبر کرتے‘ اس کا علم حاصل کرتے‘ اس کو نوکِ زبان کرتے اور حرزِ جاں بناتے‘ اس کو جذب کرتے اور اس کے سانچے میں ڈھل جاتے۔ ایک طرف تو آپؐ کی اپنی علمی‘ روحانی اور اخلاقی تیاری کے لیے یہ ناگزیر تھا‘ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ دوسرے‘ آپؐ کی رسالت اور دعوت و تحریک کے فرائض کا مرکز و محور بھی یہی قرآن تھا: تلاوتِ آیات‘ تعلیمِ کتاب و حکمت‘ تزکیۂ نفس:

کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ o (البقرہ۲:۱۵۱) ہم نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا‘ جو تمھیں ہماری آیات سناتا ہے‘ تمھاری زندگیوں کو سنوارتا ہے‘ تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘ اور تمھیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔

قرآن مجید کے ساتھ آپؐ کا تعلق مارے باندھے کا نہ تھا بلکہ شوق اور محبت کا تھا‘ اس لیے کہ اسی سے آپؐ کو اپنے لیے ساری غذا ملتی تھی۔ اس شوق کا عکس آپؐ کے انتظار اور عجلت میں دیکھا جا سکتا ہے:

لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ o (القیامۃ۷۵: ۱۶) اے نبیؐ، اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں: ’’اگرچہ شوق و محبت کا مضمون ادب کے پامال مضامین میں سے ہے لیکن اس محبت و بے قراری کی تعبیر کون کر سکتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت طاری ہوتی ہو گی جب ایک طویل وقفے کے انتظار کے بعد اور مخالفین کی ژاژخائیوں کے طوفان کے اندر حضرت جبریل امین اللہ تعالیٰ کے نامہ و پیام کے ساتھ نمودار ہوتے ہوں گے۔ ایک بچہ بھوکا ہو اور ماں اس کو چھاتی سے لگائے تو وہ چاہتا ہے کہ ماں کی چھاتی کا سارا دودھ ایک ہی سانس میں سڑپ لے۔ صحرا کا مسافر پیاس میں تڑپ رہا ہو اور طویل انتظار کے بعد اس کو پانی کا ڈول ہی مل جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ پورا ڈول ایک ہی دفعہ پیٹ میں انڈیل لینا چاہتا ہے۔ ایک فراق زدہ کو جدائی کی کٹھن گھڑیاں گزارنے کے بعد نامۂ محبوب مل جائے تو وہ چاہے گا کہ ایک ہی نظر میں اس کا ایک ایک حرف پڑھ ڈالے‘‘۔ (تدبر قرآن ‘ جلد ۸‘ ص ۵۸)

حصولِ علم کا شوق

زبان کی عجلت تو ہدایت الٰہی کے بعد ضبط کے پیرایے میں ڈھل گئی۔ لیکن دل کا شوق و اضطراب کہاں ختم ہوا۔ اس کے اظہار اور تکمیل کے لیے زبان پر علم میں افزایش کی التجا نمودار ہوئی:

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا o (طٰہٰ۲۰: ۱۱۴) اور دعا کرو کہ اے پروردگار‘ مجھے مزید علم عطاکر۔

دعوتِ اسلامی کے سامنے جو منزل ہے‘ وہ مکتب ِوحی میں تحصیل علم کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ کام خالی کھڑکھڑانے والے برتن سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ذہن و فکر کی بے پناہ صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ حکمت کا خزانہ درکار ہے۔ حضورؐ نے قرآن مجید سے ہی اس علم و حکمت کا حصول کیا‘ جس کی بنیاد پر آپؐ نے انسان کے لیے پورا نظامِ حیات مدوّن کر دیا۔ پھر نہ صرف آپؐ کے اندر علم کے لیے وہ شوق اور اضطراب تھا جو قائد کے لیے ضروری ہے‘ بلکہ اس معاملے میں رجوع‘ اللہ تعالیٰ کی طرف تھا‘ دعا اس سے تھی‘ بھروسا اور اعتماد صرف اسی پر تھا۔ اس لیے کہ علم کا سرچشمہ وہی ہے۔ پھر جیسے جیسے قرآن آپؐ کو ملتا گیا‘ آپؐ اس کو اپنے قلب و روح کی غذا بناتے گئے۔ اور قرآن کے تھوڑا تھوڑا نازل ہونے میں یہی حکمتِ الٰہی تھی۔ یہ زندگی میں ایک دفعہ کا تعلق نہ تھا۔ نہ یہ کہ جب موقع ملا تو ڈول اندر اتار لیا‘ خواہ جذب و ہضم کا کام ہو یا نہ ہو۔ غافل ہوئے تو مدتیں بیت گئیں۔

قیام لیل اور ترتیل قرآن

اس کا طریقہ کیا تھا؟

شروع میں حضوؐر بستر کا آرام چھوڑ کر رات کے بیش تر لمحات ہاتھ باندھ کر منزل قرآن کے سامنے کھڑے ہو جاتے‘ کبھی آدھی رات‘ کبھی اس سے زیادہ‘ کبھی اس سے کم‘ کبھی ایک تہائی‘ کبھی دو تہائی۔ اور قرآن کو آہستہ آہستہ‘ سوچ سمجھ کر‘ قلب و زبان کی ہم آہنگی کے ساتھ تلاوت فرماتے۔ قرآن کو جذب کرنے کا اس سے زیادہ موثر اور کوئی نسخہ نہیں ہے:

قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْزِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o  ....اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ اللَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ (المزمل۷۳: ۲-۴‘ ۲۰) رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم‘ آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو‘ اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔ اے نبیؐ ،تمھارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات‘ اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو۔

اس طریقے کو آپؐ نے آخری عمر تک ترک نہیں کیا‘ یہاں تک کہ بڑھاپے میں آپؐ کے پائوں پر ورم آ جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی آپؐ قرآن کی تلاوت میں مصروف رہتے تھے۔ رمضان المبارک میں پورا قرآن دہراتے اور عمومًا نماز فجر میں طویل قرأت فرماتے:

اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط (العنکبوت۲۹: ۴۵) اے نبیؐ ،تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو۔

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِط اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا o وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا o (الاسراء ۱۷: ۷۸-۷۹) نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے۔ اور رات کو تہجد پڑھو‘ یہ تمھارے لیے نفل ہے۔ بعید نہیں کہ تمھارا رب تمھیں مقامِ محمود پر فائز کر دے۔

ذکر الٰھی کا نظام

قرآن کے ساتھ نماز کا ذکر آگیا۔ ان دونوں کا رشتہ لاینفک ہے۔ اسی لیے میں یہیں یہ بھی کہہ دوں کہ نماز ہی آپؐ کا سب سے بڑا سہارا تھی۔ آپؐ اس کے ذریعے ہی مدد حاصل کرتے تھے اور جب کوئی امر آپؐ کو پریشان کرتا تو آپؐ نماز پڑھا کرتے تھے۔

قرآن اور نماز کے علاوہ آپؐ نے کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر‘ اس کی وحدانیت کا اقرار‘ اس کی تکبیر‘ اس کی تسبیح‘ اس کی حمد‘ اس کے شکر کو اختیار کیا۔ صبح شام‘ رات دن‘ ہر لمحہ اور ہر کام کے موقعے پر‘ نہ صرف دل کو مشغول کیا‘ بلکہ چھوٹے چھوٹے کلمات کے ذریعے ان احساسات و کیفیات کو الفاظ کا جامہ پہنایا‘ تعداد مقرر کی‘ اوقات کا تعین کیا‘ خود اس نظام کا اہتمام کیا۔ اپنے رفقا کو   اس کی تاکید کی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا اظہار جماعت کی زندگی میں سمو دیا گیا۔

اسی طرح آپؐ نے ہر موقع اور ہر حالت اور ہر ضرورت کے لیے بڑی جامع‘ قلب و روح کے لیے نشاط انگیز‘ جذبات کے لیے پُرکشش دعائیں تجویز کیں اور ان کی تعلیم دی۔ خاص طور پر آپؐ نے استغفار کا اہتمام کیا‘ کہ اللہ کی عبادت اور اس سے دعا کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعوت کا بنیادی جزو ہے۔ آپؐ خود کثرت سے استغفار کرتے تھے اور اس طرح کرتے تھے کہ ساتھی جانتے تھے کہ آپؐ استغفار کر رہے ہیں۔ ہر نشست کے خاتمے پر‘ ہر مجلس کے دوران اس کا اہتمام تھا۔ بعض اصحاب نے آپؐ کو ۷۰ مرتبہ سے زیادہ استغفار کرتے دیکھا۔ آپؐ کے طریقے کی پیروی آپؐ کی جماعت نے بھی کی۔

صبر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے ساتھ عبدیت‘ اخلاص‘ محبت‘ شکر اور توکل جیسی صفات کا کامل ترین نمونہ تھے۔ اسی طرح آپؐ اس کی اطاعت میں بھی سب سے آگے تھے اور اس کی راہ میں اپنا سب کچھ لگا دینے میں پیش پیش۔ یہاں ان سارے پہلوئوں کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اخلاق کا ایک عظیم خزانہ آپؐ کے پاس صبر کی صورت میں تھا۔ آپؐ کے سارے اخلاق تو ایک ایسا اتھاہ سمندر ہیں جن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ صرف صبر کے ہی اتنے پہلو ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے۔ (مصنف کی کتاب: اسلامی قیادت: قرآن پاک کی روشنی میں سیرت پاک کا ایک منفرد مطالعہ کا ایک باب)