کابل میں قاتلانہ حملے میں بچ جانے کے بعد جناب صبغت اللہ مجددی نے فرمایا: مجھ پر یہ حملہ پاکستان نے کروایا تھا۔ ہم اپنے دشمن کو بخوبی جانتے پہچانتے ہیں۔ ہم اسے دشمنی کا مزا چکھائیں گے۔ یہ وہی صبغت اللہ مجددی ہیں جنھیں سب سے کمزور تنظیم کا سربراہ ہونے کے باوجود ۱۹۹۴ء میں معاہدۂ پشاور کے تحت پاکستان نے امریکا کے اشارے پر عبوری صدر مقرر کروایا تھا۔ یوں گلبدین حکمت یار اور احمدشاہ مسعود کو اقتدار سے محروم اور باہم متصادم کرکے‘ غیرمستحکم افغانستان کی بنیاد رکھی گئی اور پاکستان کو بھی جہاد کے ثمرات سے محروم کردیا گیا۔
مجددی صاحب کی پارٹی کے ایک کارکن حامدکرزئی‘ جنھیں امریکا نے افغان صدارت سونپ رکھی ہے‘ انکشاف کرتے ہیں: ہمیں تین ماہ پہلے اطلاعات ملی تھیں کہ پاکستان نے مجھے اور دیگر افغان لیڈروں کو قتل کرنے کے لیے خودکش حملہ آور افغانستان بھیجے ہیں۔ پاکستان طالبان کو منظم کررہا ہے اور طالبان القاعدہ سے مل کر افغانستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان کو یہ سودا مہنگا پڑے گا…
پاکستان نے سوویت جارحیت کے بعد مسلسل قربانیاں دیں۔ اب بھی اس نے لاکھوں افغان بھائیوں کے لیے اپنا دامن وا کیا ہوا ہے۔ آج بھی افغان عوام کی اکثریت پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتی ہے لیکن افغانستان کے سیاسی و عسکری ڈھانچے میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ وہ تمام سابق مجاہدین لیڈر جو پاکستان کو اپنا بڑا بھائی اور سرپرست سمجھتے تھے ایک ایک کر کے پاکستانی حکمرانوں سے شدید ناراض ہوچکے ہیں۔ ان کا کمزور ترین فرد بھی پاکستان کو اپنا دشمن قرار دے رہا ہے۔ ان رہنمائوں کو ناراض‘ کمزور‘ بلکہ ختم کرنے کے لیے جن طالبان پہ تکیہ کیا گیا تھا‘ انھیں بھی بالآخر امریکا کی غلامی کی نذر کردیا گیا۔
اس صورت حال سے امریکا اور حلیف قوتیں جو فوائد حاصل کرنا چاہتی ہیں وہ اپنی جگہ اہم ہیں‘ لیکن خود بھارت بھی تیزی سے وہاں اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ پاکستان کی مشرقی سرحدوں کے ساتھ ساتھ مغربی سرحدوں کی طرف سے بھی دبائو بڑھانا بھارت کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔ سوویت قبضے کے دوران اس کے لیے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے گئے۔ اس سے پہلے سردار دائود کے ساتھ اس نے معاہدہ کیا کہ وہ افغان خفیہ ایجنسیوں اور افواج کے افسران کو بھارت لے جاکر تربیت دے گا۔ جہاد اور پھرخانہ جنگی کے طویل ادوار کے بعد اب فوجی و جاسوسی تربیت کا یہ ٹوٹا سلسلہ پھر سے جڑچکا ہے۔ خود افغانستان کے تقریباً ہر صوبے میں بھارت اپنا وجود یقینی بنانے کی سعی کر رہا ہے۔ جلال آباد اور قندھار میں قونصل خانے کھولنا تو معمول کا سفارتی عمل دکھائی دیتا ہے‘ ایسے دسیوں دفاتر ‘ مشاورتی ادارے‘ تجارتی و تعمیراتی کمپنیوں کے نمایندے بٹھا دیے گئے ہیں جو اعلان شدہ سرگرمیوں سے زیادہ غیرعلانیہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ امریکی سرپرستی میں ثقافتی یلغار پہلے سے کئی گنا زیادہ سفاک ہوچکی ہے۔ بھارتی اداکارائوں کے جہازی پوسٹر‘ فلموں کے اشتہارات اور گانوں کے بول‘ آنکھیں اور کان بند کر کے بھی دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔
امریکا دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں اصل محاذ میدان جنگ کو نہیں‘ ثقافت اور تعلیم کوقرار دیتا ہے۔ بھارت اس ’روشن خیالی‘ میں اسے تمام مطلوبہ ایندھن فراہم کر رہا ہے۔ کابل سے آنے والے ایک دوست بتا رہے تھے کہ کسی کو لقمہ ملے یا نہ ملے‘ ٹی وی سے دسیوں عالمی چینل مفت دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں سے کئی مجرد فحاشی پر مبنی ہیں۔ بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق وہ صرف سال ۲۰۰۶ء میں افغان عوام کو موسیقی اور ثقافتی تربیت پر ۶ لاکھ ڈالر (۳کروڑ ۶۰ لاکھ روپے) صرف کرے گی۔ فلمی دنیا اور ’ثقافتی تجارت‘ کرنے والے سرمایہ کاروں کا پیسہ اس کے علاوہ ہے۔ بھارتی حکومت نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ اس سال افغانستان سے ۵۰۰ اساتذہ اور ۵۰۰ طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے ہاں لے کر جائے گی تاکہ انھیں تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ اپنی ثقافت اور ترجیحات کا سبق بھی دے سکے۔ بھارت کا افغانستان میں قدم جمانا دونوں ممالک کا باہمی معاملہ قرار دے کر نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے‘ لیکن اس پورے عمل سے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات سے آنکھیں بند کرنا گذشتہ قومی جرائم سے کہیں بڑا جرم اور سانحہ ہوگا۔
امریکی ذمہ داران نے بارہا بیان دیا ہے کہ وہ یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آئے‘ وہ افغانوں کو نظام و تربیت دے کر چلے جائیں گے۔ لیکن اب دنیا جانتی ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنے مستقل فوجی اڈے تعمیر کررہا ہے۔ ان اڈوں کے لیے چنے گئے علاقوں پر ذرا غور فرمایئے: کابل‘ بلخ‘ ہرات‘پکتیکا‘ خوست‘ قندھار۔ ان میں سے ہرات کا امریکی فوجی اڈا ایرانی سرحد سے تقریباً ۳۰کلومیٹر کی مسافت پر ہے‘ جب کہ آخری تینوں اڈے پاکستانی سرحدوں پر واقع ہیں۔ اس وقت افغانستان میں تقریباً ۲۰ہزار امریکی فوجی ہیں۔ ان میں اور دیگر اتحادی افواج میں کتنے اسرائیلی ‘ یہودی یا اسرائیل نواز ہیں‘ کوئی نہیں جانتا۔ امریکا نے ۱۳فروری ۲۰۰۵ء کو اعلان کیا تھا کہ وہ افغانوں کی مدد کے لیے ۱۴ اسرائیلی جنگی ہیلی کاپٹر خریدے گا‘ یعنی کہ ہیلی کاپٹر تو آنا ہی ہیں ان کی قیمت افغانوں کے نام پر لی جانے والی امداد سے چکائی جائے گی۔ یہ اور دیگر اسرائیلی مصنوعات لانے اور ان کی تربیت دینے کے لیے اسرائیلی ماہرین درکار ہوں گے۔ ان کھلے اور چھپے اسرائیلی عناصر کا بھارت کے ساتھ کیا اور کیسا تعلق و تعاون رہے گا‘ یہ جاننے کے لیے غیرمعمولی ذہانت کی ضرورت نہیں۔ دونوں فطری حلیف پاکستان کے ایٹمی پروگرام ہی نہیں پاکستان کے وجود سے ناخوش ہیں۔ یہاں افغان وزیرخزانہ انور الحق کا یہ بیان بھی ذہن میں رہے کہ افغانستان کو دی جانے والی ایک ارب ڈالر کے قریب رقم امداد نہیں‘ قرضوں پر مشتمل ہے۔ یہ قرضے بھی اسی طرح کے اسلحے کے سودوں اور باہر سے آنے والے مشیروں کی تنخواہوں پر اڑائے جارہے ہیں اور افغانستان جو تاریخ میں کبھی مقروض نہیں ہوا‘ اب قرضوں کی زنجیروں میں جکڑا جاچکا ہے۔
امریکا کے فوجی قبضے میں تڑپتاافغانستان ہر روز نئے سے نئے بحران کا شکار ہوتا ہے۔ امریکی افواج نے بگرام اور دیگر کئی مقامات پر اپنے غیرعلانیہ قیدخانے قائم کر رکھے ہیں‘ جہاں صرف افغانستان ہی سے نہیں ‘پرویز مشرف کے ہاتھوں پکڑے گئے قیدیوں کوبھی ہربنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ امریکی سیاسی تجزیہ نگار ٹم گولڈ (Tim Gold)کی رپورٹ کے مطابق کابل کے شمال میں ۴۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بگرام کے امریکی اڈے کی جیل میں قیدیوں کے ساتھ گوانتانامو سے بھی زیادہ ظالمانہ سلوک برتا جاتا ہے۔ گوانتانامو کا کچھ ذکر امریکی عدالتوں میں آجانے کے بعد اب بش انتظامیہ نے فیصلہ کیاہے کہ زیادہ قیدی بگرام ہی میں رکھے جائیں۔ یہاں ۶۰۰ کے قریب قیدیوں پر توڑی جانے والی قیامت سے کوئی آگاہ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ادارے نے ایک مصری نژاد شریف بسیونی کو افغانستان میں اپنا نمایندہ بناکر بھیجا ہوا تھا۔ ۴فروری ۲۰۰۶ء کو امریکا نے بسیونی کو واپس بھجوا دیا کہ اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ واپسی کا سبب صرف یہ ہے کہ امریکا اپنے قیدیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا شاہد کسی کو نہیں بننے دینا چاہتا۔ یہ الگ بات ہے کہ زبانِ خنجر چپ کروا دیے جانے کے باوجود‘ آستیں کا لہو پکارپکار کر امریکی و عالمی اقوام کو اپنی بے گناہی کی دہائی دے رہا ہے۔
افغانستان میں ہمہ پہلوتباہی کا ایک اور سنگین پہلو وہاں افیون اور منشیات کے جِنّ کا دوبارہ بوتل سے نکل آنا ہے۔ اس وقت افیون و منشیات کی عالمی پیداوار کا ۹۰فی صد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔ بلخ کے ایک کسان نے بی بی سی کے نمایندے سے کہا کہ: ’’مقامی پولیس کا سربراہ ان کی منشیات کی پیداوار سے اپنا حصہ زبردستی لے لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اپنی کاشت جاری رکھنا چاہتے ہو تو ہر گھر مجھے جمع شدہ افیون میں سے ایک کلو بھتہ دیا کرے‘‘۔
قتل وغارت کا بازار الگ گرم ہے۔ افغان وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس مارے جانے والوں کی تعداد ۱۵۰۰ سے متجاوز ہے۔ افغان پولیس اگر افیون کے بھتے پر لگی ہو‘ افغان فوج تمام تر کوششوں کے باوجود مطلوبہ تعداد اور تربیت حاصل نہ کرسکی ہو‘ اور امریکی افواج‘ افغانستان کے امن و استحکام سے زیادہ اپنے طے شدہ اہداف اور دُور رس مقاصد کے لیے وقف ہوں‘ اور صدربش حامدکرزئی کے لرزتے ہونٹوں سے ادا ہوتے مطالبات کو یکسر مسترد کردے اور کہے کہ افغانستان کے لیے واشنگٹن کا اپنا ایک نقطۂ نظر اور اسٹرے ٹیجی ہے اور امریکی افواج صرف امریکی قیادت ہی میں کام کریں گی‘ حتیٰ کہ وہ افواج بھی جو خود کرزئی انتظامیہ کی حفاظت پر معمور ہیں‘ تو ایسے میں امن و امان یقینی بنانے کے لیے کون دستیاب ہوگا؟ بدامنی اور لوٹ کھسوٹ کے ساتھ ہی ساتھ ملک اندرونی سیاسی خلفشار کا بھی شکار ہے۔ کچھ تجزیہ نگار صبغت اللہ مجددی پر قاتلانہ حملے کو یونس قانونی کی آنکھ سے بھی دیکھتے ہیں جو ان کے بعد ڈپٹی چیئرمین سینٹ ہیں اور بھارت کے زیادہ قریب ہیں۔ اگر مجددی صاحب کو کچھ ہوجاتا‘ تو جناب قانونی جو اپنی پارٹی میں بھی برہان الدین ربانی کے ساتھ مختلف مواقع پر متضاد موقف رکھتے تھے‘ سینٹ کے چیئرمین قرار پاتے۔
اس منتشر و زخمی افغانستان میں بھی امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت پر تقریباً پوری قوم کا اجماع ہے۔ کرزئی سمیت جو سیاسی و عسکری عناصر کابل میں امریکا سے ہم آغوش ہیں‘ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم آزاد قوم ہیں‘ افغان قوم کسی کا قبضہ تسلیم نہیں کرتی‘ لیکن ابھی امریکا سے مسلح جنگ کا وقت نہیں آیا‘ جب کہ کئی عناصر جن میں طالبان کے بچ رہنے والے مجاہدین‘ حکمت یار کے مجاہدین اور متعدد جنگی سردار شامل ہیں‘ اوّل روز سے مسلح جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کرچکے ہیں اور اب تک سیکڑوں کامیاب کارروائیاں کرچکے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کارروائیوں میں نہ تو کمی آئی ہے‘ نہ آئے گی۔ ان روزافزوں کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان پر بھی امریکی اور افغان دبائو میں مزیداضافہ ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم وزیرستان اور بلوچستان میں اپنے ہی بھائی بندوں پر جنگ مسلط کرکے اس بیرونی دبائو میں اضافے کے نئے مواقع فراہم کررہے ہیں۔ بھارتی رہنمائوں کا بلوچستان اور کراچی کے قوم پرست عناصر سے روابط بڑھانا‘ ان عناصر کی مانگ میں سیندھور بھرنے کے لیے نہیں ہے‘ اور نہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اٹھایا جانا ہی صرف بے وقت کی راگنی کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔
اس گمبھیر صورت حال میں پاکستان کی پارلیمنٹ‘ پاک فوج اور اس کے اداروں‘ سیاسی جماعتوں اور ہرذی شعور شہری کا فرض ہے کہ‘ ملک میں عسکری تسلط کے بجاے حقیقی جمہوریت کے قیام‘ ایک فرد کے بجاے ملک کے استحکام‘ ذاتی مفاد کے بجاے ملّی مفادات کی آبیاری‘ اور سب سے اہم یہ کہ لالچ یا خوف کے بجاے صرف اللہ کی نصرت پر بھروسا کرتے ہوئے حکمت و ہمت سے اپنا گھر بچانے کی کوشش کرے۔ وقت کی ریت مٹھی سے نکلتی جارہی ہے۔ پاکستان کا مستقبل دائو پر لگادیا گیا ہے۔ اب بھی ملک کے بجاے اقتدار بچانے پر ہی توجہ رہی تو آیندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔