اطلاعات اور ٹکنالوجی کی روز افزوں بدلتی ہوئی صورت حال دنیا بھر کے انسانی معاشروں کے لیے نت نئے دبائو اور تبدیلیاں‘ اتنی تیزی سے لارہی ہے کہ عقل و حواس ورطۂ حیرت میں مبتلا ہوکر رہ گئے ہیں۔ مشرق اور مغرب‘ دونوں ہی اس عفریت سے نبٹنے اور اپنے اپنے مخصوص تصورِ جہاں (world view) اور ثقافتی تناظر میں‘ اقدار‘ شناخت‘ تجارت و ترقی‘ ماحولیات اور کرئہ ارض کی بقا کی تدابیر اور حکمت عملی تلاش کر رہے ہیں۔ اس منظرنامے میں یہ سوال سب سے زیادہ اہم ہے کہ ہرلحظہ بدلتی صورتِ حال سے کس طرح نبٹا جائے؟ انسانی تہذیبوں کی کلُی (macro) اور جزئی (micro) حالتیں اور اُن کے باہم تبادلے کا کیا باہمی تعلق ہے‘ جس سے آنے والی صدی کی دنیا تشکیل پذیر ہو رہی ہے اور شاید آنے والے کئی برسوں تک ہوتی رہے گی۔
انسانی تمدن و ثقافت کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ ’تبدیلی‘کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے اور دوسری اس کی باطنی حقیقت اور منبع۔ عمومی طور پر‘ عوام اور خواص کا ایک اچھا خاصا حصہ‘ ظاہری صورتوں میں تبدیلی کو بڑی اہمیت دیتا ہے‘ اور انسانی شناخت‘ اخلاقی اقدار اور باہمی ربط وضبط کے نفسیاتی رویوں کو‘ مادی‘ معاشی‘ آلاتی اور مالیاتی نظام کے اُتارچڑھائو کی روشنی میں پرکھتا اور قائم کرتا ہے۔ حق و باطل‘ نیک و بد اور فلاح و سلامتی کے سارے راستے اس کی منطقِ منفعت سے ہوکر گزرتے ہیں۔ انسانی معاشروں میں آنے والی تبدیلیوں کی ظاہری صورتوں میں اہمیت دینے والے‘ اُصول مادی کو معیارِ نقدوقدر قرار دیتے ہیں۔ آویزش‘ مقابلہ‘ تفاوت‘ تقسیم‘ تفریق وہ اخلاقی‘ ثقافتی ‘ نفسیاتی اور معاشی تصورات ہیں‘ جن کی بنا پر انسانی معاشروں اور تہذیبوں کی ترقی و تنزلی کے معیار قائم کیے جاتے ہیں۔ کیا اُصول مادی ‘کسی مخصوص انسانی ثقافت و تہذیب کا نمایندہ ہے‘ یا یہ ایک بین التہذیبی‘ انسانی فطرت کا رویّہ ہے‘ جوکلچر‘ نسل‘ زبان‘ علاقے‘ رنگ اور خطے سے ماورا‘ بذاتہٖ ایک تصورِ جہاں ہے‘ جس کی حقیقت اور سچائی اور بالادستی کے ماننے والے ہرجگہ پائے جاتے ہیں؟
گذشتہ تین صدیوں کی عالمی انسانی تاریخ اور سماجی‘ ثقافتی‘ معاشی اور اخلاقی وروحانی سطح پر‘ اس کے مدّوجزر اُصول مادی کی بھرپور اور مکمل غمازی کرتے ہیں۔ مغربی ریاستوں اور اُن کے بین الاقوامی تاریخی پھیلائو میں یہی اصول پوری طرح محرک اور فعّال نظر آتا ہے۔ ایشیا اور افریقہ میں مغربی سلطنتوں کا سیاسی نوآبادیات کا نظام‘ پھر دو عالمی جنگوں میں بھرپور عالمی استعماریت و سامراجیت کا طاقت ور اظہار‘ جو مقابلے کی معاشی نفسیات سے اخلاقی جوازپاکر‘ مغربی ریاستوں کے عالمی اقتدار اور فنیاتی [ٹکنالوجیکل] غلبے پر منتج ہوا ہے‘ اسی محولہ بالا اُصولِ مادی کا مظہر ہے۔ اس نئی صدی کی ابتدا میں‘ عالم گیریت بھی اسی اُصول کا سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی تقاضا بن کر اُبھری ہے۔
دنیا کی معلوم تاریخ میں‘ انسانی تہذیبوں کے مابین تجارت ومعیشت کے مادی رشتوں نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح عالم گیریت کوئی انوکھی تاریخی حقیقت نہیں ہے۔ بہت سارے فلسفے‘ نظامِ اقدار اور طرز ہاے زندگی‘ تجارت کے راستے ایک تمدن سے دوسرے تمدن تک جاتے رہے ہیں۔ ثقافتی اثرونفوذ کا یہ بین الاقوامی اور بین التہذیبی عمل‘ بالکل فطری اور لابُدی ہے۔ اگرچہ اس کے جواز اور عدمِ جواز پر مختلف اور متضاد آرا ہوسکتی ہیں‘ مگر یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے سے انسانی تہذیبوں کے مابین باہمی معاشی تبادلے کے ساتھ ساتھ انسانی معاشروں کی اجتماعی علمی‘ فنی اور اخلاقی نشوونما ہوتی ہے۔ باہمی ثقافتی اثرونفوذ تک تو معاملہ ٹھیک ہے‘ مگر جب اسی باہمی معاشی و تجارتی تبادلے کے بین السطور‘ ایک ریاست یا ریاستوں کا کوئی گروہ‘ اپنے سے کمزور مادی اور معاشی مراکز کو اپنے اقتدار اور غلبے کا نشانہ بنالیتا ہے اور اُن کے وسائلِ معاش و حیات پر ’جبری‘ حق قائم کرلیتا ہے‘ تو چاہے وہ اسے عالم گیریت کا خوش نما عنوان دے دے‘ ہماری راے میں یہ دراصل اسی ’جبری حق‘ کا زوردار سیاسی و ثقافتی اظہار ہے۔
کیا بین التہذیبی اور بین الانسانی معاشی و معاشرتی تبادلے کا ’عالم گیریت‘ہی ایک واحد منطقی اور حتمی راستہ ہے‘ یا پھر اس کا کوئی بہتر اور پُرامن معاشرتی متبادل ہے؟ ہمارے نزدیک ’عالم گیریت‘ کا متبادل‘ اسلامی آفاقیت ہے۔
اسلامی آفاقیت (Islamic Universalism) دراصل ہے کیا؟ اور اطلاعات و ٹکنالوجی کے اس عہد اور مسابقت و مقابلے کی موجودہ عالمی معاشیات میں‘ جو کہ اُصولِ مادی پر استوار ہے‘ اس کی منظم صورت کیا ہے؟ یہ ایک روحانی و اخلاقی اُصول ہے جس کا عالم گیر تاریخی جواز‘ انسانی معاشروں کی لابدی تاریخی تگ و تاز کے باطن سے پھوٹتا ہے۔ پیغمبرانہ ثقافت کا تصورِجہاں اس کا محرک اور مرجع و مقصد ہے۔ یہ انسان کو ایک عظیم تر آفاق کا حصہ گردانتے ہوئے‘ اُس کو اُس کے ہرعمل‘ ہر سوچ اور ہر تخلیق کے لیے جواب دہ قرار دیتاہے۔ یہ انسانی حیات‘ تمدن‘ تاریخ‘ ایجادات اور وسیع کائنات کو ایک اخلاقی ضابطے کے طور پر دیکھتا اور بیان کرتا ہے۔ جس طرح ہرانسانی عمل کا ایک مادی سبب‘ جواز اور نتیجہ ہے‘ بالکل اُسی طرح اُس کے ہرعمل کا ایک اخلاقی وروحانی عکس‘ دنیا میں بھی تشکیل پذیر ہورہا ہے۔ ہردنیاوی عمل ایک کائناتی آئینہ خانہ (cosmic mirror)‘ یعنی آخرت میں منقّش اور مرتسم ہوتا چلا جارہا ہے‘ اور اس دنیا کے افعال و اعمال کا حتمی نتیجہ اور پھل اس کی منقش دنیا میں بالحقیقت دیکھ لے گا۔
اس اخلاقی وروحانی اُصول کی بنا پر تشکیل کردہ دُنیا میں تمام انسان‘ امین‘ جواب دہ اور بالفعل برابر اور مساوی ہیں۔ تمام ارضی وسائل‘ جن میں زمین‘ پانی‘ جنگلات‘ نقل و حمل کے ذرائع‘ آلات و ایجادات‘ معیشت و تجارت‘ زر و دولت‘ معاشرتی و نفسیاتی نظام ہاے کار‘ غرض ہر وسیلہ جو انسانی تمدن اور بقاے نوع انسانی کے لیے ناگزیر ہے‘ ایک ذمہ داری اور امانت کے طور پر تمام انسانوں کے زیرِتصرف اور زیرِاستعمال ہے۔ چنانچہ یہاں معاشی و معاشرتی تبادلے کی بنیاد مسابقت کی نفسیات کے بجاے‘ توازن کی نفسیات ہے۔ وسائل میں شراکت‘ برابری‘ مساوات‘ حریت اور عقیدے کی آزادی‘ راہنما اصول ہیں۔ کوئی نسلی‘ لسانی‘ ثقافتی‘ معاشرتی‘ معاشی اور نفسیاتی تفوق‘ کوئی فضیلت معیارِ قدر نہیں ہے‘ بلکہ انسانی روحانیت کی فطری اور ناقابلِ تقسیم جوہریت‘ ایک قدرِ غالب کا درجہ رکھتی ہے۔
انسانی معاشروں کی تاریخی حرکیات کا بنظرغائر مطالعہ‘ یہ امر بیّن طور پرہمارے سامنے لاتا ہے کہ جب انسانی تمدنوں کی وحدت کو کسی معاشی اور قومی فلسفے کے طور پر پیش کیا گیا‘ اور انسانوں کی فطری اور لابدی روحانی وحدت کو نظرانداز کیا گیا‘ تو اس کے منطقی نتیجے کے طور پر انسانی معاشروں میں‘ ظلم‘ ناانصافی‘ تضادات اور توڑپھوڑ‘ بڑی قوت سے اُبھرے۔ نتیجتاً‘ انسانی معاشرے‘ حقیقی معاشرتی و معاشی آزادی اور عدل و مساوات کے علی الرغم استحصال اور ظلم و تشدد کا شکار ہوتے چلے گئے۔ سابقہ صدی کے اواخر میں اشتراکیت اس کی ایک واضح مثال ہے اور لمحۂ موجود میں کچھ اسی طرح کا تاریخی کردار ’عالم گیریت‘ ادا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ بہت سارے تاریخی تضادات کا شکار بھی ہوتی چلی جارہی ہے۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ ایشیا‘افریقہ‘ لاطینی امریکہ اور مغربی یورپ‘ غرض ہر گوشۂ ارضی سے‘ حسّاس‘ دُوراندیش اور انسانی حریت پر گہرا یقین رکھنے والے شہری‘ گروہ‘ تنظیمیں اور مفکرین ’انسانی وحدت‘ کے اس عالمی معاشی اور سیاسی نظام یعنی عالم گیریت کے بڑے ناقد کے طور پر ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ یہ سب سرمایہ دارانہ اور آزاد معاشی نظام اور ان کے طاقت ور ترین مظہر‘ یعنی کثیرالاقوامی کارپوریشن (MNC) کے لیے‘ دنیا کے مختلف معاشرتی‘ ثقافتی اور اخلاقی و معاشی نظاموں کو کسی صورت سبز چارہ قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ عناصر انفرادی ثقافتی و معاشی اکائیوں اور اُن کے مخصوص اخلاقی و روحانی مزاج کی بقا کے داعی ہیں‘اور ساتھ ہی طاقت ور ٹکنالوجیکل اقوام کو معیشت‘ تجارت‘ ماحولیات اور ثقافت کے بارے میں اُن کی مسابقانہ اور غلبے پر مبنی نفسیات بدلنے پر بھی مجبور کر رہے ہیں۔
عالم گیریت ایک معاشی تبادلے اور انحصار (economic interdependence & exchange) کے زاویۂ نگاہ کے طور پر اور وہ بھی شدید تحفظات کے ساتھ تو شاید انفرادی قومی معیشتوں کو کسی قدر قابلِ قبول ہو‘ لیکن اسے ایک کلُی سماجی‘ ثقافتی اور اخلاقی نظام کے طور پر تمام انسانی معاشروں کے لیے ایک علاج قرار دینا‘ انتہائی خطرناک اثرات کا حامل تاریخی رویہ قرار دیا جا سکتا ہے‘ جس سے نہ صرف نسلِ انسانی کی بقا‘ بلکہ کرۂ ارض کی بقا اور امن بھی معرضِ خطر میں پڑسکتا ہے۔
کرئہ ارض اور اس پر بسنے والے انسانی معاشروں کو عالم گیریت کے باطن میں چھپے ہوئے مسابقانہ معاشی وحدت کے فلسفے کی بنیاد پر زیادہ محفوظ اور عادلانہ نہیں بنایا جاسکتا بلکہ‘ اس سے استحصال‘ ظلم اور طاقت کے بے محابا استعمال کا اور بے جاجواز ضرور فراہم کیاجاسکتا ہے۔ عالم گیریت کی سیاسی‘ ثقافتی اور اخلاقی اقدار کا ایک بہت بڑا حصہ اپنی موجودہ منطقی صورت میں‘ انفرادی انسانی ثقافتوں اور اُن کے اخلاقی و روحانی نظاموں کے لیے ایک کھلا اور برملا چیلنج ہیں۔
انسانی ثقافتوں کی تاریخ کا مطالعہ ہم پر یہ واضح کرتا ہے کہ اُصول مادی کی بنا پر ، ’انسانی وحدت‘ کا تصور کبھی بھی قابلِ عمل نہیں رہا ہے۔ یہ صرف اور صرف اُصولِ روحانی (دین) ہی ہے‘ جس نے ’انسانی وحدت‘ کو عملی صورت میں ہمارے سامنے جاگزیں کیا ہے اور انسانی فضیلت اور قدر کو منفعت کی منطق کے بجاے توازن‘ مساوات اور ہم آہنگی کے عالم گیر روحانی و اخلاقی اصولوں پر استوار کیا ہے۔ ان راہنما اصولوں کا سب سے طاقت ور تاریخی اظہار ’اسلامی آفاقیت‘ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے‘ جو انسانی معاشرتی‘ لسانی اور ثقافتی اکائیوں کو سچی کھری اور بے لاگ انسانی وحدت میں ضم کردیتی ہے اور باہمی انسانی تبادلوں‘ رشتوں اور تخلیق و ایجادات کے نظاموں کو مساوات اور انسانی برابری کے زرّیں اُصولوں پر استوار کرتی ہے۔
ہمیں تاریخ کی ظاہری صورتوں کے تضادات اور مدوجزر میں ’انسانی وحدت‘ کی تلاش نہیں کرنا چاہیے‘ جو زیادہ سے زیادہ ’معاشی وحدت‘ اور اس سے وابستہ مسابقانہ نفسیات پر منتج ہوتا ہے‘ بلکہ ہمیں تاریخ کے باطن میں جھانکنے کی ضرورت ہے‘ جہاں ہمیں سچ اور جھوٹ‘ نیکی وبدی اور روحانی و مادی کی نہ ختم ہونے والی جدوجہد نظرآتی ہے۔ اور جب دنیا کے راہنما‘ مفکرین اور گروہ انسانی باطن اور اس کے تاریخی مدوجزر پر نظر ڈالیں گے تو صحیح معنوں میں تعصب‘ نفرت اور بدظنی سے نجات پاسکیں گے اور انسانی معاشروں کو اُن کی کثرتوں میں برداشت کرتے ہوئے ایک ذمہ دار آفاقی روحانیت کی بنیاد پر انسانی تہذیب و تمدن کی قدر مقرر کرسکیں گے۔ یہ بیّن اور ظاہر ہے کہ یہ عظیم مقصد‘ اُصولِ روحانی کی درست تفہیم اور تشریح پر مبنی ہے۔ اور اس سلسلے میں اُصولِ مادی اور اس کے مظاہرِتاریخ کچھ خاص مددگار ثابت نہیں ہوسکتے۔
’اسلامی آفاقیت‘ ایک اُصولِ روحانی کی عالم گیر علامت ہے‘ اور تمام داناوبینا انسانوں کو‘ چاہے وہ کسی ثقافت‘ علاقے اور زبان سے تعلق رکھتے ہوں‘ مہمیز کرنے کی اپنے اندر صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ انسانی روح کی زبان ہے‘ جو لامحالہ انسانی روح تک ہی جاتی ہے۔ جو نہ صرف اس دنیا کے افعال و اعمال کو ذمہ داری و امانت سے ادا کرنے کی طرف انسانی معاشروں کی توجہ منعطف کرتی ہے‘ بلکہ ان افعال و اعمال کا حتمی اور لابدی نتیجہ اس سے بظاہر نظر نہ آنے والی دنیا: ایک منقش دنیا [آخرت] سے جوڑ کر اس کو صحیح آفاقیت اور سچی معنویت عطا کرتی ہے۔
یہ سچی حیات انسانی معاشرے‘ اُن کے راہنما ادارے اور اُن کے مفکرمسابقت اور شک کی نفسیات سے حاصل نہیں کرسکتے بلکہ‘ یہ حیات یقین اور توازن کے آفاقی تصورِجہاں ’اسلامی آفاقیت‘ سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ’انسانی وحدت‘ اور کرۂ ارض کی پُرامن بقا اور نشوونما کا اجتماعی انسانی خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ شاعرمشرق علامہ اقبال نے اس سلسلے میں کیا خوب رہنمائی فرمائی ہے :
دم عارف نسیمِ صبح دم ہے
اسی سے ریشۂ معنی میں نم ہے
اگر کوئی شعیبؑ آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے