ماہنامہ ہیرالڈ کراچی (مارچ ۲۰۰۶ئ) میں سید شعیب حسن کی رپورٹ کے مطابق ایئرچیف مارشل (اب سبک دوش) کلیم سعادت کے ذاتی حکم پر اسکواڈرن لیڈر محسن حیات رانجھا کو ۱۲؍اکتوبر ۲۰۰۵ء کو جبری طور پر قبل از وقت ریٹائر کردیا گیا ہے۔ وہ فضائیہ کے نہایت قیمتی اور باصلاحیت پائلٹ تھے اور حال ہی میں امریکا سے تربیت مکمل کرکے واپس آئے تھے۔ اُن کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے داڑھی منڈوانے سے انکار کردیا۔ اسی رپورٹ کے مطابق چار دیگر آفیسر بھی زیرعتاب ہیں‘ ان کے نام یہ ہیں: اسکواڈرن لیڈر نویدریاض‘ فلائٹ لیفٹیننٹ ثاقب‘ فلائٹ لیفٹیننٹ اجمل اور فلائٹ لیفٹیننٹ فضل ربی۔ انھیں بھی گرائونڈ کردیا گیاہے‘ یعنی کام کرنے سے روک دیا گیا ہے ‘اور اُن کے خلاف بھی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ اُن کا قصور بھی یہی ہے کہ وہ داڑھی رکھتے ہیں اور منڈوانے سے انکاری ہیں۔ فلائٹ لیفٹیننٹ عاطف کو بھی جبری ریٹائر کردیا گیا ہے محض اس لیے کہ انھوں نے دیگر افسران میں آیاتِ قرآنی اور احادیث تقسیم کی تھیں۔ ہمارے حکمرانوں کا پاکستان کا سافٹ امیج پیش کرنے کا شوق دیوانگی کی جن حدود کو چھو رہا ہے‘ اُس کا مظہر یہ کارروائی ہے۔
ہمارے معاشرے میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی یہ نسل اپنی حرکتوں سے باز آنے پر تیار نہیں۔ ہمارے حکمران اعلیٰ کے ہیرو کمال اتاترک کے ملک میں اسکارف لینے والی خواتین کو تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں دیا جاتا تھا۔ پارلیمنٹ میں اسکارف لے کر آنے والی ممبر کو رکنیت سے محروم ہونا پڑا۔ جب امریکا میں کسی کانگریس کمیٹی میں یہ معاملہ پیش ہوا اور وہاں ترکی کے کمانڈر انچیف بھی موجود تھے‘ تو امریکی ارکان یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ذاتی آزادی کے اتنے رائی جیسے معاملے کو پہاڑ کیوں بنادیا گیا ہے۔
ان دنوں ڈنمارک کے اخبار کے خاکوں نے جو شعلہ انگیز فضا بنائی ہے ان میں فضائیہ کا یہ ’کارنامہ‘ جلتی پر تیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ توہینِ رسالتؐ کے لیے کارٹون بناکر چھاپنا ضروری نہیں۔ کیا اس سے بھی زیادہ توہینِ رسالتؐ ہوسکتی ہے کہ داڑھی کو جو سنتِ رسولؐ اور شعارِ اسلام ہے‘ منڈوانے پر مجبور کیا جائے ورنہ ملازمت سے برطرف کردیا جائے۔ اگر یہ کارروائی امریکا یا انگلینڈ میں ہو تو ہم احتجاجی مظاہرہ کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے مکلف ہیں لیکن اپنے ملک میں اگر یہ ’کارنامہ‘ کیا جائے تو اس ملک کے شہریوں کا اور ہر باغیرت مسلمان کا کیافرض ہے؟ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے؟
جیساکچھ بھی دستور نافذ ہے اُس میں قرارداد مقاصد موجود ہے۔ حکومت کی یہ دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کو کتاب وسنت کی ہدایات کی روشنی میں چلائے۔ ہر طرح کی خلاف ورزیاں برداشت کی جارہی ہیں‘ لیکن کیا پاکستانی قوم ان پانچ پائلٹوں کے حق میں کھڑے ہوکر ایک ہی دفعہ فیصلہ نہیں کراسکتی کہ اس ملک میں سنت رسولؐکے ساتھ یہ رویہ نہ صرف فضائیہ میں بلکہ کسی بھی ادارے میں اور کسی بھی سطح پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ہم عدلیہ سے کوئی توقع نہیں رکھتے لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ کچھ خبروں کا اور تبصروں کا موضوع بنتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ فرض شناس وکلا کو یہ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا اس اقدام کے خلاف توہینِ رسالتؐ کے قانون کے تحت مقدمہ درج کرایا جا سکتا ہے؟ اس ایکٹ کے حق میں ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اگر یہ ایکٹ نہ ہو یا موثر نہ ہو تو پھر ایک عام مسلمان کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی مجرموں کو سزا دے۔
قومی اسمبلی میں اس پر تحریکِ التوا پیش کر دی گئی ہے۔ اگر اجازت دی گئی تو ممبران اس پر مشقِ سخن کرلیں گے لیکن بعض معاملات اس سے زیادہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا فرض ہے کہ ذمہ داروں کے لیے سزایقینی بنائے‘ سبک دوش افسر کو بحال کروائے اور جن کے خلاف داڑھی رکھنے کے ’جرم‘ پر کارروائی کی جارہی ہے وہ رکوائے۔ سدِّباب کے لیے یہ ضروری ہے۔