وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰـنِیْ صَغِیْرًا o (بنیٓ اسرآء یل ۱۷:۲۴) اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘۔
والدین کی طرف سے اولاد کی تربیت کے مفہوم سے آگے تحریک اسلامی کا اپنے وابستگان کی تربیت کا مفہوم قدرے ہمہ گیر ہے۔ مولانا صدرالدین اصلاحی مرحوم کے الفاظ میں:’’اس سے مراد اصلاحِ افکار و اعمال کی وہ ہمہ گیر کوششیں ہیں جن کے نتیجے میں لوگوں کا اپنے خدا سے تعلق زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوتا جائے۔ ان کے ذہنوں پر آخرت کی فکر چھاتی چلی جائے‘ ان کے ایمان میں جلا آتی رہے‘ ان کا دینی شغف برابر ترقی کرتا اور اسلام سے ان کی واقفیت برابر بڑھتی رہے‘ ان کے اخلاق کی بلندی‘ عمل کی صالحیت اور سیرت کی پاکیزگی امتیاز کا درجہ حاصل کرتی جائے۔ دین کی بصیرت اور اقامت کا جذبہ‘ ان کا ذوق اور وجدان بنتا جائے۔ تحریک کے نصب العین پر اور اس کی حقانیت پر ان کا یقین‘ حق الیقین سے بدلتا جائے۔ ان کے تحریکی افکار میں‘ برابر گہرائی اور یک سوئی آتی جائے اور حق کی خاطر اپنی خواہش‘ اپنی دل چسپیوں‘ اپنے مفادات اور اپنے جذبات قربان کرنے کا عزم قوی سے قوی تر ہوتا جائے‘‘۔(تحریک اسلامی ہند‘ ص ۱۱۹‘ ۱۹۷۰ئ)
تحریک اسلامی اپنے وابستگان کی تربیت ایک منصوبے کے تحت کرنے کا اہتمام کرتی ہے۔ اس نے ان کے لیے ان کی ہمہ جہت تربیت کا جو خاکہ تیار کیا ہے اس کے بموجب انھیں تاکید کی گئی ہے کہ وہ درج ذیل امور کا اہتمام کریں: m فرض و واجب عبادات کی‘ ان کی ظاہری و باطنی محاسن کے ساتھ ادایگی
یہ خاکہ انفرادی تربیت کا ایک بہترین بیان ہے جس پر عمل درآمد کے مطلوبہ معیار کے حصول کے لیے ابتدائی سطح سے لے کر حلقہ و مرکز کے ذمہ دار کوشاں رہتے ہیں کہ فرد اپنی توجہات‘ استعداد و صلاحیت‘اوقات‘ سرمایہ و قوت ان امور پر عمل درآمد میں صرف کرتا رہے۔اس کے لیے مطالعہ و عبادات کا اہتمام‘اجتماعات‘ مطبوعات‘ دینی و رفاہی سرگرمیوں اور مہمات‘ جائزہ و احتساب کی نشستوں اور اجتماعی اصلاح و تربیت کے مختلف پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ایک ذمہ دار و باشعور فرد اپنی اصلاح و تربیت پر متوجہ رہ کر بھی اجتماعی ماحول ومساعی کا ضرورت مند رہتا ہے۔ دین میں فرض عبادت کا جو نظم ہے اور طرزِمعاشرت کے ضمن میں فرد‘ خاندان اور معاشرے کو جو ہدایات دی گئی ہیں اور مجموعی طور پر ملک کے سماج و ریاست کے احوال و کوائف کا جو اثر ہماری روزہ مرہ زندگی پر پڑتا رہتا ہے‘ اس کو کسی خودکار نظام (automatic system) کے ذریعے اپنی اصلاح و تربیت کرتے رہنے پر کاربند نہیں رکھا جا سکتا جب تک اس مقصد کے لیے ایک سرگرم و جان دار تحریک برپا نہ کی جائے‘ ہرسطح پر ایک باشعور و باحکمت قیادت اس کی پشت پر نہ ہو اور ایک ہمہ گیر اصلاح و تربیت کا باقاعدہ پروگرام جاری و ساری نہ ہو۔
تحریکی تربیت کے تین بنیادی عناصر ہیں: ۱- باشعور و ذمہ دار افراد ۲-حکیمانہ قیادت بطور مربی ۳-سرگرم و جان دار تحریک۔
جہاں تک وابستگانِ تحریک کا معاملہ ہے وہ باشعور و ذمہ دار گروہ کے طور پر اسی وقت اُبھرسکتے ہیں جب وہ ایمانی عزیمت‘ اخلاقی طاقت‘ فکری اصابت‘ ذہنی یک سوئی‘ عملی حُسن‘ دینی شغف اور تحریکی جوش و جذبے کا پیکر ہوں‘ اور ان کی اجتماعی قوت تحریک کے لیے‘ وہ حقیقی سرمایہ فراہم کرے جس کے بل بوتے پر وہ اپنی مشکل اور صبرآزما جدوجہد کو کامیابی سے ہم کنار کرسکے۔ اس تحریکی قوت کے عناصر ترکیبی کا احاطہ درج ذیل سات عنوانات کے تحت کیا جاسکتا ہے:
۱- ایمانی عزیمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وابستگانِ تحریک ’’اپنے اندر شیر جیسادل پیدا کریں‘ طوفانی دھاروں کے رخ پر تیرنا سیکھیں‘ ہرطرح کی چوٹ کھانے اور ہرمفاد کی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں‘ ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم کردیے جانے کے متوقع رہیں۔ صرف ’غیروں‘ ہی کی نہیں خود ’اپنوں‘ کی شدید ترین مخالفتوں سے سابقہ پیش آنے کو یقینی سمجھیں اور ان سے کامیاب پنجہ آزمائی کا اپنے اندر عزم و حوصلہ رکھیں‘‘۔
۲- اخلاقی طاقت کا یہ مطالبہ ہے کہ ’’وابستگانِ تحریک کی سیرت بے داغ ہو‘ ان کے اخلاق میں دلوں کو جیت لینے والی کشش موجود ہو‘ وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرنا جانتے ہوں اور اپنے قول ہی سے نہیں بلکہ عمل سے بھی دین کی سچی شہادت دے رہے ہوں‘‘۔
۳- فکری اصابت کا مطلب یہ ہے کہ ’’عصرحاضر میں اسلام کے عقیدے اور اُمت مسلمہ کے نصب العین کی جو تشریح تحریکی لٹریچر میں کی گئی ہے اور حصولِ نصب العین کے لیے جو اصولی ہدایات تحریک اسلامی نے اپنے وابستگان کو دی ہیں‘ ان کے سلسلے میں ان کی صفوں میں کامل فکری پختگی پائی جاتی ہو‘‘۔
۴- ذھنی یک سوئی کا مطلب یہ ہے کہ ’’دعوت اسلامی کے برحق ہونے اور اسلام کے کامل نظامِ زندگی ہونے پر وابستگانِ تحریک نہ صرف پوری طرح مطمئن ہوں بلکہ اس کی صداقت و حقانیت کا بھرپور مظاہرہ ان کی زندگیوں سے مل رہا ہو اور بندگانِ خدا کو بھی وہ اپنی قابلیت و صلاحیت کے مطابق مطمئن کرنے کے قابل ہوں۔ طریق کار کے پُرامن‘ دستوری و قانونی پہلوئوں پر وہ اس قدر یقین و اذعان کے حامل ہوں کہ زمانے کا فساد اور فتنہ پروری ان کو اپنی راہِ اعتدال سے سرموانحراف کرنے پر قائل نہ کرسکے‘‘۔
۵- عملی حسن کا تقاضا یہ ہے کہ ’’وابستگانِ تحریک سراپا موعظت و نصیحت اور پیکر رحمت بن جائیں۔ اسلامی احکام و ہدایات اور شرعی اصولوں وضابطوں پرنہ صرف وہ کاربند ہوں بلکہ ان کی حقانیت کو وہ زمانے سے منوانے پر قادر بھی ہوں‘‘۔
۶- دینی شغف کا مطلب یہ ہے کہ ’’وابستگانِ تحریک اپنے قول و عمل میں دینی حکمت و دانائی اور راہِ اعتدال کا عملی نمونہ پیش کریں۔ ان کے رہن سہن‘ چلن‘ برتائو‘ وضع و قطع اور اشغال و مصروفیات سے اعمالِ حسنہ و اذکارِ مسنونہ کا مظاہرہ ہو۔ ان کی سماجی مصروفیات اور مذہبی سرگرمیوں میں کامل ہم آہنگی ہو اور موجودہ خدافراموش ماحول میں نفس کے دبائو‘ شیطان کی وسوسہ اندازی اور سماجی ناسازگاریوں کے درمیان وہ مومنِ صالح کا کردار ادا کرسکیں‘‘۔
۷- تحریکی جوش و جذبہ کا مطلب یہ ہے کہ ’’وابستگانِ تحریک اس کے رنگ میں پوری طرح رنگ جائیں اور ان کا ایمان اخلاق‘ طرزِعمل‘ طرزِفکر‘ ہرشے ایسی بن جائے جیسی ایک سچے مومن اور مخلص داعیِ حق کی ہونی چاہیے اور تحریکی جدوجہد میں وہ شب و روز مشغول رہیں۔ ان کا اُوڑھنا بچھونا‘ گھریلوو خاندانی زندگی‘ ان کی معاشی سرگرمیاں اور ان کی شہری ذمہ داریاں سب کچھ تحریکی اہداف کے تابع ہوکر رہ جائیں‘‘۔ (’ارکان کی تربیت‘ تحریک اسلامی ہندکا خلاصہ‘ مولانا صدرالدین اصلاحی ‘ ص ۱۲۰-۱۲۴)
تحریک کا یہ ذمہ دار اور باشعور فرد کسی گوشۂ تنہائی (isolation) میں تیار نہیں ہوسکتا‘ نہ ازخود اپنے کردار کے ارتقائی منازل طے کرسکتا ہے‘ بلکہ تحریک کے تربیتی نظام میں ایک فعّال و کارآمد عنصر اور آمادۂ عمل کارکن بننے کے لیے چند دیگر عوامل کی معاونت‘ شراکت اور حصہ داری بھی ضروری ہے۔ ایک طرف اس کا شعور بیدار اور کاموں میں اس کا عملی حصہ و سرگرمی شاملِ حال رہتی ہے تو دوسری طرف اس نظام کے کارپردازوں اور مربّیوں کا بھی اہم رول ہے۔ یہیں سے تحریکی تربیت کے دوسرے حصے‘ یعنی حکیمانہ قیادت بطور مربی کا بیان شروع ہوتا ہے۔
تحریکی قیادت کا مقام رہنما اور مربی کا ہے۔ وہ منصوبہ بندی ‘افراد و وسائل کی تنظیم و تربیت اور انھیں مقاصد کے حصول میں باوقار طریقوں سے زیراستعمال لانے‘ مہمات میں رہنمائی و سبقت کا فرض نبھانے‘ کارکنوں کو مہمیزدینے‘ عواقبِ عمل کو سہنے کی استطاعت پیدا کرنے‘ صلاحیت و استعداد کی نشوونما کرنے‘ اعمال کا تزکیہ اور احتساب کرنے کے منصب پر فائز ہوتی ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اُمت مسلمہ میں دینی قیادت اور رہنمائی اور مسلمانوں کی اجتماعی تربیت کے لیے موزوں مربیوں کی تیاری و فراہمی کے لیے ایک جدید خانقاہ (تربیت گاہ) کا خاکہ‘ جماعت اسلامی کے قیام سے قبل ۱۳۵۴ھ (مطابق ۳۵-۱۹۳۴ئ) میںپیش فرمایا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے: ’’صوفیاے اسلام نے قدیم زمانے میں ایک خاص قسم کا ادارہ قائم کیا تھا جو اصحاب الصفّہ کے نمونے پر تھا۔ اس کا اصطلاحی نام خانقاہ مشہور ہے۔ آج یہ چیز بعض لوگوں کی بے اعتدالیوں کی بدولت بگڑ کر اتنی بدنما ہوگئی ہے کہ خانقاہ کا نام سنتے ہی طبیعت اس سے منحرف ہونے لگتی ہے مگر حقیقت میں یہ ایک بہترین انسٹی ٹیوشن تھا جس سے اسلام میں بڑے بڑے آدمی پیدا ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس قدیم انسٹی ٹیوشن میں وقت اور زمانے کے لحاظ سے ترمیم کرکے ازسرنو جان ڈالی جائے اور ہندستان میں جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی خانقاہیں ایسی قائم کی جائیں جن میں فارغ التحصیل لوگوں کو کچھ عرصے تک اسلام کے متعلق نہایت صالح لٹریچر کا مطالعہ کرایا جائے اور اس کے ساتھ وہاں ایسا ماحول ہو جس میں زندگی بسر کرنے سے ان کی سیرت‘ خالص اسلامی رنگ میں رنگ جائے۔ اس انسٹی ٹیوشن میں کلب‘ لائبریری‘ اکیڈمی اور آشرم کی تمام خصوصیات جمع ہونی چاہییں اور اس کا صدر ایسا شخص ہونا چاہیے جو نہ صرف ایک وسیع النظر اور روشن خیال عالم ہو بلکہ اس کے ساتھ ہی ایک سچا اور مکمل عملی مسلمان بھی ہو‘ تاکہ اس کی صحبت سے خانقاہ کے ارکان کی زندگیاں اسلام کے سانچے میں ڈھل جائیں‘‘۔(خطوط مودودی، دوم‘ ص ۴۲)
’’سب سے بڑی چیز جس کی اس وقت کمی نظرآرہی ہے وہ صحیح اسلامی تربیت ہے۔ جدید مدارس تو خیرانگریزی اغراض کے لیے قائم ہوئے ہیں مگر ہمارے قدیم عربی مدرسے اور قومی ادارے بھی اس باب میں ناقص ہیں۔ خانقاہ میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جہاں ’شیخ‘ اور ’مرید‘ (یہ لفظ میں مجبوراً استعمال کر رہا ہوں‘ اصطلاحی مفہوم مراد نہیں ہے) دونوں اپنی اصلاح کریں اور ایک دوسرے کی تربیت کریں اور باہر کا جتنا رنگ ہر ایک پر کم یا زیادہ چڑھ گیا ہے اس کو سب مل کر ایک دوسرے پر سے کھرچیں اور آپس کی معاونت سے ایک دوسرے میں خالص اسلامی سیرت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ وہاں احتساب نفس پہلے ہو‘ پھر النصح لِلّٰہ کے اصول پر عمل کیا جائے اور مداہنت سے سخت پرہیز کیا جائے۔ صحابہ کرامؓ اور اکابر اسلام کی زندگیاں پیش نظر رکھی جائیں اور خصوصیت کے ساتھ ان طریقوں کی پیروی کی جائے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی تربیت فرمائی تھی‘‘۔ (ایضًا‘ ص ۵۷)
توقع ہے کہ ان اصولوں پر اسلامی تربیت یافتہ افراد کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوجائے گی جو وابستگانِ تحریک کی ہر سطح پر تربیت و رہنمائی (صحیح معنوں میںمربی) کا فریضہ ادا کرسکے گی۔
تحریکی تربیت کا تیسرا عنصر ایک بامقصد‘ سرگرم و جان دار تحریک کا برپا کرنا ہے۔’تحریک‘ اصلاً سرگرمی‘ روشنی و حرارت سے ہی عبارت ہے اور تحریکی ماحول ہی دراصل وابستگانِ تحریک کی جولاں گاہِ فکروعمل‘ جدوجہد و کاوش کا میدان اور سرگرمی و جاں فشانی کی کارگاہ ہے۔ تحریک جو میدانِ عمل دعوتی جدوجہد اور اجتماعی سرگرمی کے عنوان سے فراہم کرتی ہے وہ وابستگان کی تربیت کا بہترین وسیلہ ہے۔ ’میدان عمل کی تربیت‘ سے آج ایک طرح کی عدمِ یگانگت کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ اور روحانیت کے خیالی پیکروں میں فکروعمل کی طمانیت تلاش کی جارہی ہے‘ وہ دراصل نام نہاد‘ نظری و عملی تیاری‘ مراقبہ اور دیگر صوفیانہ مشاغل کے مغالطوں کے سبب اور عملی تحریکی سرگرمیوں سے دُوری کا نتیجہ ہے۔
تحریکِ اسلامی نے اپنے وابستگان کی تیاری کے لیے جو ’میدانِ عمل‘ فراہم کیا ہے‘ بانیِ تحریک سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بقول: ’’ہمارے نصب العین‘ مقصد اور مسلک سے جو لوگ متفق ہوجاتے ہیں ان کی تربیت کے لیے ہمیں کوئی خانقاہ یا تربیت گاہ قائم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اوّل روز سے ہمارا اعتماد تربیت کے اس فطری طریقے پر رہا ہے جس سے مکے کے ابتدائی مسلمان تیار کیے گئے تھے۔ ان مسلمانوں کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان کی اپنی بستی کے کوچہ و بازار ہی تربیت گاہ تھے۔ زندگی کی آزمایشیں ہی ان کو بنانے اور نکھارنے کے لیے کافی تھیں۔ دعوتِ حق کو قبول کرکے جب انھوں نے ایک اصول کی پابندی کا فیصلہ کرلیا تو انھیں تربیت دینے کے لیے کسی جنگل یا کھوہ میں لے جانے کی ضرورت پیش نہ آئی‘ نہ ان کی سیرتوں کی تیاری کے لیے کوئی الگ ادارہ قائم کرنا پڑا۔ وہی معاشرہ جس کے اندر وہ رہتے تھے ان کی زبان سے اُصولِ حق کی پابندی کا اعلان سنتے ہی اور ان کی زندگی میں اس اعلان کا اثر محسوس کرتے ہی ان کو رگڑنے‘ مانجھنے اور تپاتپا کر پختہ کرنے میں لگ گیا اور اسی تربیت گاہ سے وہ لوگ تیار ہوکر نکلے جو اگرچہ مٹھی بھر تھے مگر انھوں نے چندسال کے اندر عرب کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔
ٹھیک یہی طریقہ تھا جس کی ہم نے تقلید کی۔ اسی فطری طریق تربیت کی جماعت نے اقتدا کی۔ چنانچہ جو شخص بھی جماعت اسلامی میں داخل ہوا اس سے بس یہ عہد لے کر چھوڑ دیا گیا کہ اب وہ اللہ رب العالمین کامطیعِ فرمان اور محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا پیرو بن کر رہے گا اور اس مقصد کے لیے کام کرے گا کہ اللہ اور رسولؐ کا دین‘ دنیا میں غالب ہوکر رہے۔ اس کے بعد جو جس ماحول میں تھا وہیں اس کے لیے ایک ہمہ گیر اور ہمہ وقت تربیت گاہ کھل گئی۔ یہ روش اختیار کرتے ہی ہرشخص کو ہرجگہ ایک کش مکش سے سابقہ پیش آیا جس کی ابتدا اس کے اپنے نفس سے ہوئی اور پھر اس کا دائرہ ان تمام گوشوں تک پھیلتا چلا گیا جہاں اس کی اس نئی روش کا اس بگڑی ہوئی سوسائٹی کے طور طریقوں سے تصادم ہوتا تھا۔ جو لوگ اپنی سیرت کے جس گوشے میں بھی خامی رکھتے تھے وہ اسی گوشے میں شکست کھا گئے اور اسی کش مکش نے ان کو آپ ہی آپ چھانٹ کر الگ پھینک دیا‘ مگر جو ربنا اللّٰہ کہہ کر اپنے اس قول پر مضبوطی کے ساتھ جم گئے ان کے لیے یہی کش مکش ایک بہترین مربی اور مزکی ثابت ہوئی۔
اس نے ان کو صبرکی‘ تحمل کی‘ ایثاروقربانی کی مشق کرائی۔ اس نے ان کو دُھن کا پکا اور ارادے میں پختہ بنایا۔ اس نے ان میں اپنے نصب العین سے عشق اور اس کے لیے جدوجہد کا ولولہ پیدا کیا۔ اس نے ان کو جذبات اور خواہشات پر قابو پانا سکھایا۔ اس نے ان کو اس قابل بنایا کہ جس چیز کو حق سمجھیں‘ اس کے لیے کسی خارجی دبائو یا لالچ کے بغیر اپنے ایمان کے تقاضے سے اپنا وقت‘ اپنی محنتیں اور اپنے اوقات صرف کریں اوراسی نے ان میں یہ طاقت پیدا کی کہ اپنے مقصد کی راہ میں نقصانات اٹھائیں‘ خطرات سہیں‘ مشکلات کا مقابلہ کریں اور بعد کے مراحل کی شدید تر آزمایشوں کا سامنا کرسکیں۔
تربیت کے اس فطری کورس کی مدد پر تین چیزیں اور تھیں جو ان کی کسر پوری کرنے والی تھیں: ایک‘ دعوت و تبلیغ۔ دوسرے‘ نظامِ جماعت اور تیسرے‘ روحِ تنقید۔
جماعت اسلامی نے اس قاعدے کی پابندی سے پہلا فائدہ تو یہ اٹھایا کہ اس میں ایسے لوگ بہت کم داخل ہوسکے جو اس کے برحق ہونے پر مطمئن نہ ہوں اور محض کسی دماغی لہر کی وجہ سے یا عارضی کشش کے باعث جماعت کی طرف مائل ہوگئے ہوں‘ اور دوسرا فائدہ یہ اٹھایا کہ جو لوگ بھی جماعت میں آئے وہ ڈسپلن کی پابندی کے لیے کسی خارجی دبائو کے محتاج نہ تھے۔ انھوں نے زیادہ تر خوداپنے ایمان کے تقاضے سے ڈسپلن کو قبول کیا اور انھیں باقاعدگی‘ نظم اور ضبط کے ساتھ کام کرنے کا عادی بنانے میں کچھ زیادہ زحمت پیش نہیں آئی۔…
مولانا صدر الدین اصلاحی اس حوالے سے رقم طراز ہیں: ’’(اس سے مراد) وہ عملی تربیت ہے جو انھیں دعوتی جدوجہد کے میدان میں آپ سے آپ حاصل ہوتی رہتی ہے۔ کیونکہ جب وہ حق کی شہادت دینے اور اللہ کے دین کی تبلیغ و اقامت کا فریضہ انجام دینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو قدرتی طور پر خود ان کی اصلاح و تربیت کے بھی کتنے ہی قوی اسباب آپ سے آپ حرکت میں آجاتے ہیں۔ مثلاً جس وقت کوئی شخص دوسروں کو خداپرستی کی دعوت دے رہا ہو اور ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی تلقین کر رہا ہوتا ہے اس وقت اندر سے اس کا ضمیر بھی اسے آواز دیتا ہے اور باہر کی دنیا بھی اس پر تیزنگاہیں ڈال کر پوچھنے لگتی ہے کہ اس بارے میں خود تمھارا اپنا کیا حال ہے؟ جس حق کی دعوت تم دوسروں کو دے رہے ہو اس کے لذت شناس تم خود بھی ہو یا نہیں؟ اگر انسان بالکل ہی بے حس نہ ہو تو ہر طرف سے آنے والی ان تنقیدی آوازوں پر لازماً وہ چونک اُٹھتا ہے اور اپنی طرف متوجہ ہوکر اپنے ایمان و عمل کے کھوٹ کو ایک زبردست احساسِ ندامت کے ساتھ صاف کرنے میں لگ جاتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اس دعوت کے سلسلے میں چوطرفی مخالفتوں‘ عداوتوں اور مصیبتوں سے مسلسل دوچار ہوتا ہے تو اس بھٹی میں تپ کر اس کا ایمان اور کھرا بن جاتا ہے اور محض اللہ کے دین کی خاطر کام کرنے کے جرم میں جب دنیا اس کو اپنے تمام سہاروں سے محروم کردیتی ہے تو وہ فطری طور پر اپنے پروردگار کی طرف بھاگتا اور اس کے دامن میں پناہ لیتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے اندر اپنے خدا سے تعلق اور اس پر توکّل اور بڑھ جاتا ہے۔ نیز جب وہ دیکھتا ہے کہ لوگ اس کے پیغامِ حیات کوبہرے کانوں سے سن رہے ہیں اور ہلاکت کی راہوں سے پلٹنے کا نام تک نہیں لیتے تو اس کا داعیانہ جوش سرد پڑنے کے بجاے اور زیادہ بھڑک اُٹھتا ہے‘ اور فلاح و نجات کی شاہراہ کی طرف ان کا رخ موڑدینے کے لیے وہ اورزیادہ سرگرم ہورہتا ہے۔ غرض ایک داعیِ حق کی دعوتی جدوجہد اس کی مختلف پہلوئوں سے بہترین مربی ثابت ہوتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص اخلاص وصداقت ہی سے بے بہرہ اور صرف نام کا داعی ہو۔ ایسا شخص تو نہ صرف یہ کہ اپنی دعوتی جدوجہد سے کوئی ایمانی یا عملی قوت نہ حاصل کرسکے گا بلکہ اپنے کو بے نقاب کرکے میدانِ عمل سے بھاگ بھی کھڑا ہوگا لیکن ظاہر ہے کہ یہاں گفتگو مخلص اور راست باز انسانوں کی ہورہی ہے‘ نمایشی لوگوں کی نہیں ہورہی ہے‘‘۔(تحریک اسلامی ہند‘ مولانا صدرالدین اصلاحی‘ ص ۱۲۷-۱۲۹)
’میدانِ عمل‘ سے تربیتی فوائدحاصل کرنے کے لیے فرد کا اپنے مقصدِحیات میں مخلص اور دعوتی جدوجہد میں مصروف ہونا لازمی ہے اور اس پہلو سے فرد کے ساتھ اجتماعیت اور قیادت کے مفوّضہ فرائض سے پہلوتہی نہیں کی جاسکتی۔ جس سماج میں مخلص‘ باشعور اور سرگرم عمل افراد ہوں‘ اس میں فرد کو معیارِمطلوب تک لے جانے کی مسلسل سعی کرنے والی قیادت اور تحریکی سرگرمیوں کا ماحول ملے‘ اس سماج میں تحریکِ اسلامی کا مردمومن‘ اپنی پوری شان سے جلوہ نما نہیں ہوگا تو کہاں ہوگا!
شریعتِ اسلامیہ میں تربیت کو ایک بہت ہی اہم مقام حاصل ہے اور اس نے قرآن وسنت کے مطابق اس تربیت کی ذمہ داری فرد‘ خاندان‘ جماعت و معاشرہ اور حکومت پر ہر ایک کی استطاعت اور حیثیت و مقام کے اعتبار سے ڈالی ہے۔
فرد پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود پابندِ شریعت ہو اور اپنے افرادِ خاندان کو بھی پابندِ شریعت بنانے کی کوشش کرے۔ وہ خود پنج گانہ نماز کا پابند ہو اور اپنے افرادِ خاندان کو بھی پابند بنائے۔ وہ اپنی ملاقاتوں میں لوگوں کو نماز و دیگر عبادات کی پابندی اور ان کی صحیح روح کے ساتھ ادایگی کی طرف متوجہ کرے وہ مسلمانوں کو اپنے اپنے محلوں میں یا قریبی مساجد میں جماعت کے ساتھ نماز کی ادایگی پر راغب کرے وہ مسلمانوں کے باہمی رویے و تعلقات‘ شادی بیاہ کے معاملات‘ مالی لین دین اور دیگر معاشرتی روابط میں غیراسلامی طریقوں کو ترک کرنے کی طرف خصوصی توجہ دلائے۔ وہ اسلامی عقائد و تعلیمات سے خود بھی واقف ہونے کی کوشش کرے‘ قرآن وسنت کے علم کے حصول کے لیے خود بھی کوشاں ہو اور اپنی صحیح معلومات سے دوسرے برادرانِ ملک کو بھی آگاہ کرے۔
خاندان اپنے لیے اسلامی ماحول کو پسند کرنے والا ہو جہاں ہر فرد روزانہ پابندی کے ساتھ تلاوتِ کلامِ پاک اور نمازوں کی ادایگی پر کمربستہ رہتا ہو۔ باہمی حقوق وفرائض کو حسن و خوبی سے ادا کرنے اور نیکیوں کی تلقین وبرائیوں سے پرہیز کرنے میں ایک دوسرے پرسبقت لے جاتا ہو جہاں لہوولعب و لغویات کا گزر نہ ہو‘ جہاں مشورہ اور نصیحت کو معمولاتِ زندگی کا مقام حاصل ہو اور جہاں مصیبتوں پر صبر اور نعمتوں پر شکر کرنے کا رواج ہو۔
جماعت و معاشرے کی ذمہ داری یہ ہے کہ جو امور فرد اور خاندان اپنی استطاعت اور حیثیت کے مطابق شریعت کی روشنی میں محدود پیمانے پر ادا کرتے یا انجام دیتے ہیں‘ جماعت و معاشرہ ان کے لیے مناسب ماحول‘ اخلاقی و اجتماعی اثرودبائو‘ سہولتیں‘وسائل و ذرائع‘ تعلیم و تربیت کے مواقع اور تعلقات کی اصلاح و تنظیم‘ حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین‘ بازپُرس اور احتساب کا نظام اور تذکیر و یاددہانی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
حکومت اپنے وسائل و ذرائع‘ حقوق و اختیارات اور قوتِ نفاذ و اطاعت کے قانونی و دستوری جواز کے لحاظ سے افراد و معاشرہ اور جماعت پر سبقت رکھتی ہے۔ عصرِحاضر کی جمہوری حکومت چونکہ افراد کے اجتماعی ارادے کا ہی مظہرہوتی ہے اس لیے فی الوقت صرف اس قدر یہ ہمارے موضوع سے متعلق ہے کہ اپنے اجتماعی ارادے کے ذریعے ہم اس سے استفادے کی کیا مناسب صورتیں تجویز کرتے ہیں اور کیا مطالبات منوانے کی کوشش کریں جس سے فرد اور معاشرے کو شریعتِ اسلامیہ کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملے۔
تحریک اسلامی جو فرد کے ارتقا‘ معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کے اسلامی پروگرام پر عمل پیرا ہے‘ وہ اپنے کارکنوں کی ذہنی و فکری‘ علمی و عملی اور دینی و اخلاقی ہمہ جہتی تربیت اور اپنے داخلی استحکام کی طرف متوجہ رہتی ہے اور اپنے مختلف تربیتی پروگراموں کے ذریعے اس بات کے لیے کوشاں رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ان کا تعلق زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو اور وہ اپنی پوری زندگی میں اسلام کے سچے پیرو‘ اقامت دین کے لیے سرگرم عمل‘ راہِ حق میں ایثار و قربانی اور صبرواستقامت کا مظہر اور نظم واجتماعیت کے پہلو سے بنیان مرصوص بن جائیں۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ قابلِ غور ہے کہ تحریکِ اسلامی اپنے اہداف کے حصول میں کس حد تک کامیاب رہی‘ اور معیارِمطلوب کے حصول کے لیے مزید کن اقدامات کی ضرورت ہے!