جون۲۰۰۶

فہرست مضامین

حکومت اور عوام کے رویے

مسلم سجاد | جون۲۰۰۶ | شذرات

Responsive image Responsive image

عامرعبدالرحمن چیمہ کی شہادت نے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک  برقی رو دوڑا دی۔ ہر صاحبِ ایمان کے دل کا وہ تار چھڑ گیا جو اس کا سرمایۂ حیات ہے۔ اس کا  مظاہرہ لاکھوں افراد کے اس عظیم الشان ہجوم سے ہوا جو محض اپنے جذبے کی کشش سے‘ کسی باقاعدہ اعلان و پروگرام اور کسی مہم اور کوشش کے بغیر انتہائی گرم موسم میں خود ہی شہید کے گائوں ساروکی‘ گوجرانوالہ پہنچا۔

ہماری قومی زندگی کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کے جذبات اور ترجیحات‘ ان کے مقاصد اور عزائم پاکستان میں بسنے والے عوام کے جذبات اور اُمنگوں کے بالکل مخالف اور متصادم ہیں۔ سید مودودی علیہ الرحمہ نے اپنی مشہور تقریر اسلام عصرِحاضر میں،  میں فرمایاتھا کہ آزادی کے بعد مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ آپس کی کش مکش ہی  سب سے اہم ترین سرگرمی ہوجاتی ہے۔ یہ کیفیت قوم کی توانائیوں کو کھا جاتی ہے اور عام معاشی ترقی کا ہدف بھی حاصل نہیں ہوپاتا۔

ہمارے ملک میں اس وقت سرفہرست یہی مسئلہ ہے۔ حکومت کو فکر ہے کہ دنیا کے سامنے پاکستان کا ’سافٹ امیج‘ پیش کیا جائے۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر اور حکومت کی سرپرستی میں    طرح طرح کی سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ لیکن کسی ایسے مظاہرے سے‘ جو عامر شہیدؒ کی تدفین کے موقع پر ہوا‘ حکمران طبقے کی ساری کوششوں پر پانی پھرجاتا ہے اور پاکستان کا حقیقی امیج دنیا کے سامنے آجاتا ہے۔

توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے موقع پر بھی دنیا نے یہی دیکھا کہ عوام مطالبہ کر رہے ہیں اور حکومت احتجاج کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ جب سے ہمارے فوجی حکمران نے افغانستان پر حملے کے لیے اپنے کندھے پیش کیے‘ ایک کے بعد ایک ایسے اقدامات ہورہے ہیں جو عوام کی مرضی کے خلاف ہیں۔ ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کے نام پر وہ کچھ ہو رہا ہے جسے پاکستانی عوام کااجتماعی ضمیر تسلیم نہیں کرتا۔ احتجاج ہوتے ہیں‘ ان پر کان نہیں دھرا جاتا۔

ہمارے حکمران بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کوئی عام ملک نہیں۔ یہ دو قومی نظریے کے حوالے سے لا الٰہ الا اللّٰہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ اگر یہاں روز اوّل سے اس کے مطابق کام کیا گیاہوتا تو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) ہم سے جدا نہ ہوتا اور پاکستان اس علاقے کی ایک اہم طاقت ہوتا۔ لیکن حکمرانوں نے عوام سے لڑکر‘ ان کے خوابوں اور اُمنگوں کے خلاف پالیسیاں اختیار کرکے‘ آج پاکستان کو امریکا کی تابع فرمان اور بھارت کے مقابلے میں نہایت کم تر حیثیت کی ریاست کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔

اگر آج پاکستان میں عوام کی آرزوؤں اور اُمنگوں کی نمایندہ قیادت برسرِکار ہوتی تو عامرچیمہ شہیدؒ کے جنازے کا مکمل اہتمام سے استقبال کیا جاتا‘ اہلِ خانہ کی مرضی کے مطابق اور سہولتیں فراہم کر کے راولپنڈی میں نماز جنازہ ادا کی جاتی‘ اور اس طرح دنیا کویہ پیغام دیا جاتا کہ  یہ اُمت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کے معاملے میںکتنی حساس اور یک زبان ہے___ اور اس حوالے سے حکومت اور عوام میں کوئی فرق نہیں ہے۔

ہمارے حکمران ایک ایسی کوشش میں مصروف ہیں جس کے لیے بالآخر ناکامی مقدر ہے۔ مسلمانوں کے دلوں سے ایمان کو کھرچ کر پھینکا نہیں جاسکتا۔ یہاں مائیں اپنی لوریوں کے ساتھ اللہ کی بندگی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا درس دیتی ہیں۔ ملک کا نظامِ تعلیم ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی تربیت دینے والا ہو تو ہر نوجوان ملکی طاقت وقوت کا ایک خزانہ ہے‘ لیکن اگر تعلیم مخالف سمت کی دی جائے تو نوجوانوں کی طاقت کش مکش کی نذر ہوجاتی ہے۔

عامرشہیدؒ کے جنازے سے اربابِ حکومت کی آنکھیںکھل جانا چاہییں کہ یہ قوم کس طرح سوچتی ہے‘ اس کی طاقت کا اصل منبع کیا ہے‘ اسے کس رخ پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر وہ عوام کی مرضی کے مطابق نہ چلیں تو انھیں ملک پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انھیں خود سمجھنا چاہیے‘ کہ جب عوام ان پر نفرین بھیج رہے ہوں‘ ان کے برسرِحکومت رہنے کا کوئی جواز نہیں۔

اگر پاکستان کو اقوامِ عالم میں اپنا حقیقی مقام حاصل کرنا ہے‘ اس کے قیام کے لیے جو قربانیاںدی گئی ہیں‘ انھیں برگ و بار لانا ہے‘ اگر یہاں کتاب و سنت کی فرماں روائی قائم ہونا ہے‘   تو اس کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حکومت کی جائے۔ یہی جمہوریت کی بھی روح ہے۔ جمہوریت یہ نہیں کہ زور زبردستی سے انتخابات کے ذریعے ٹھپا لگوا لیا جائے۔ عامرشہیدؒ کے جنازے اور اس سے پہلے خاکوں کے مسئلے پر جو احتجاج ہوا‘ اس نے بتادیا ہے کہ ملک کے عوام کس طرح سوچتے ہیں‘ کیا چاہتے ہیں۔ اگر شفاف انتخابات میں ان کی عکاسی ہو  تو ملک کا نظام درست ہو اور پاکستان ایک باوقار اسلامی جمہوری ملک بنے۔

پاکستان کو قائم ہوئے ۶۰برس ہونے کو ہیں لیکن یہاں کی بیوروکریسی نے اس ملک کے نظریے کو پنپنے نہیں دیا بلکہ قوم کو انتشار اور بے مقصدیت کا زہر دیے رکھا۔ آج پوری دنیا میں ڈکٹیٹروں کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے۔ یہاں کے اقتدار پرقابض ٹولے کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہییں کہ ملک کواپنی جاگیر نہ سمجھیں وگرنہ دوسرے ممالک میں کامیاب عوامی احتجاج کے نتیجے میں آمریتوں کے خاتمے کی مثالوں میں پاکستانی عوام کے لیے کرنے کا بہت کچھ سبق موجود ہے۔