جون۲۰۰۶

فہرست مضامین

تصادم نہیں‘ مفاہمت جامعہ ازہر میں شہزادہ چارلس کا خطاب

ترجمہ: محمد ایوب منیر | جون۲۰۰۶ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

اس قدیم و عظیم مرکزِ علم و دانش میں مجھے خطاب کی دعوت دی گئی ہے اور میرے نزدیک   یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو مجھے حاصل ہوا ہے۔ مصر اور جامعہ ازہر میں آمدکے موقع پر میں یہ بھی گزارش کروں گا کہ سرزمینِ مصر میرے لیے خصوصی مقام و مرتبے کی حامل ہے‘ یسوع مسیح (علیہ السلام) نے اپنا بچپن اس سرزمین پر بسر کیا تھا‘ اِسی لیے یہ سرزمین بہت سے لوگوں کے لیے قابلِ احترام ہے۔

مجھے اسکالر ہونے کادعویٰ نہیں‘ تاہم میں کیمبرج یونی ورسٹی میں شعبۂ تاریخ کا طالب علم  رہا ہوں اور مجھے ابراہیمی ورثے سے آگاہی کا بے انتہا شوق رہا ہے۔ میری پیدایش بھی     ابراہیم (علیہ السلام )کے پیروکار گروہ میں ہوئی ہے۔ آج میری جو بھی شناخت ہے وہ اسی روایت کا نتیجہ ہے۔ میں آج ابراہیم (علیہ السلام) سے نسبت رکھنے والے مذاہب میں سے ایک مذہب کے پیروکار کی حیثیت سے آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔

ہم ایک خدا پر ایمان رکھنے کی مشترک اساس رکھتے ہیں‘ وہ خدا جو ابراہیم (علیہ السلام) کا خدا ہے‘ اور یہ ایمان ہمیں دائمی اقدار عطا کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تبدیلی اور اختلاف سے تباہ حال دنیا کے سامنے اِن اقدار کی باربار جرأت سے بات کریں۔ میں آپ کے لیے یہی پیغام لے کر آیا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کے سبب ہمارے مشترکہ ورثے میں سب سے بلند اور سب سے اعلیٰ قدر ایک دوسرے کا احترام اور اُس کی مخلوق کا احترام ہے۔ رب تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام مخلوقات اور ماحول (environment) کا احترام درحقیقت اللہ تعالیٰ کے احترام و اکرام کا اظہار ہے اور رب تعالیٰ ہی ساری کائنات میں جلوہ نما ہے۔

اسی سے دوسری بات یہ نکلتی ہے کہ ہمارے عقائد اور ہماری اقدار امن کا مطالبہ کرتے ہیں‘ فساد کا نہیں۔ ہمارے درمیان اِس انسانی کمزوری کی موجودگی کا امکان ہے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے پر تنقید بھی کی جائے لیکن ایمان رکھنے والی قوموں کی حیثیت سے‘ ایمان ہم سے باہمی احترام اور مفاہمت سے بڑھ کر اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ عظیم تعلیمات ابراہیمی ایمان کی تلقین کرتی ہیں جو دلوں میں جاگزیں رہتا ہے‘ جو علم و دانش اور تحقیق و تجزیہ سے ماورا ہے۔ معاشرے میں ہمیں جو بھی مقام و مرتبہ دیا گیا ہو‘ تعلیم و صلاحیت کے لحاظ سے ہم میں جو بھی نواقص یا خوبیاں ہوں‘ ہم اپنے ایمان و عقیدے کی سچائیوں کو ’دل کی آنکھ‘ سے تصور میں لاتے ہیں۔ نبی موسیٰ (علیہ السلام) نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ ایمان دل میں قیام پذیر رہتا ہے:

Thou shalt love thy Lord thy God with all thine heart.

تم اپنے پروردگار رب کی پرستش کرو گے پورے دل سے۔

میرا ایمان ہے کہ عظیم مذاہب مقدس کتابوں کے ذریعے دلوں کو مخاطب کرتے ہیں‘ اور جہاں تک ایمان کا تعلق ہے اُس کو صرف دل ہی محسوس کرسکتا ہے۔

ابراہیم علیہ السلام کے پیروکار مذاہب کے درمیان تاریخی روابط کا ذکرکرتے ہوئے میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچیں کہ میرے نزدیک وہ ایک اور یکساں ہیں۔ اُن کے درمیان اختلافات موجود ہیں اور ہمیں اِن اختلافات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ لیکن ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری ایک مشترکہ اساس (جڑ) ہے۔ میرے خیال میں‘ ہمیں رب تعالیٰ کے مقصد ِ تخلیق کے بارے میں کسی شک و شبہے کا شکار نہیں ہونا چاہیے: وہ یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے باہم مربوط اور قریب قریب رکھا جائے! تقسیم میں حقیقتاً ایک وحدت ہے۔ قرآن کریم کی    یہ آیت عموماً میرے دل پر شدید اثرات مرتب کرتی ہے:

اے بنی نوعِ انسان! ہم نے تمھیں مرد اور عورت کے واحد جوڑے سے پیدا کیا ہے اور پھر تمھیں قوموں اورقبیلوں میںتقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے سے واقفیت حاصل کرسکو (نہ کہ ایک دوسرے سے دشمنی کرنے لگو)۔ (الحجرات ۴۹:۱۳)

اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کے حوالے سے میں نے اپنی معروضات سب سے پہلے ۱۹۹۳ء میں ایک اور عظیم درس گاہ اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں ایک تقریر میں پیش کی تھیں۔ میں نے اُس وقت جو بات کہی تھی وہ آج بھی میرے لیے مسئلہ بنی چلی آرہی ہے۔ میں نے کہا تھا: ٹکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے میدان میں بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہونے والی ترقی اور   بڑے پیمانے پر سفر اور نسلوں کے باہم گھل مل جانے کے باوجود… اسلام اور مغرب کے درمیان غلط فہمیوں میں برابر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ اختلافات مزید بڑھ رہے ہیں۔

افسوس کہ گذشتہ ۱۲ برسوں نے میرے خدشات کی تصدیق کر دی ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ تمام برس غیرمعمولی طور پر حوصلہ شکن رہے ہیں۔ تباہی اور موت کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ دیکھ دیکھ کر میرا دل بوجھل ہے اور اس سلسلے کو میں نے خود محسوس کیا ہے۔ میرے پیارے  عم محترم لارڈ مائونٹ بیٹن ۱۹۷۹ء میں دہشت گردوں کے بموں سے جاں بحق ہوئے۔ مذہبی اختلافات کی بنا پر ٹکڑے ٹکڑے معاشروں کا تصور بھی خوف ناک ہے۔ بوسنیا سے بغداد تک‘ چیچنیا سے فلسطین تک یہ ثبوت فراہم ہوئے کہ غلط فہمیاں کس قدر تیزی کے ساتھ بڑھیں اور ان میں   کس قدر اضافہ ہوچکا ہے۔ تشدد‘ جس کے لیے عموماً مذہبی دلیلیں فراہم کی جاتی ہیں‘ کے نتیجے میں دل خطرناک حد تک سخت ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال سے کس بہتری کی امید کی جاسکتی ہے؟

اُسی تقریرمیں‘ میں نے یورپ اور اسلامی دنیا کی تاریخ کے حوالے سے بات کہا تھا کہ کس طرح وہ رسّی کے بلَوں کی طرح باہم مربوط ہیں‘ اور کئی صدیوں تک دونوں اطراف سے اخذ و عطا کے عمل کے سبب کس طرح وہ صورت حال وجود میں آئی جو ہمارا آج بن کر ہمارے سامنے ہے۔

تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ علم و تحقیق‘ سائنس‘ ادب اور فنونِ لطیفہ کے میدان میں   عظیم تخلیقی پیش رفت نے اُٹھان اُس وقت لی تھی جب ابراہیم (علیہ السلام) کے نام لیوا خاندان نے مل جل کر کام کیا تھا۔ کیاہم علم و حکمت و تحقیق کے اُس عظیم الشان مظاہرے سے رہنمائی حاصل نہیں کرسکتے جس کا مظاہرہ نویں اور دسویں صدی میں عباسیوں کے دور میں کیا گیا تھا جب اُن کا دارالحکومت قرطبہ علم و حکمت کا دنیابھر میں سب سے بڑا مرکز تھا‘ یا دسویں سے چودھویں صدی کے ہسپانیہ سے‘ جب قرطبہ اور طلیطلہ جیسے شہروں میں مسلمان‘ عیسائی اور یہودی اسکالروں کا کام    نشاتِ ثانیہ کا سبب بنا؟ ہمیں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اہلِ مغرب پر مسلمان عالموں اور محققین کا یہ احسان ہے کہ جب یورپ تاریکی کے دور سے گزر رہا تھا‘ علم کے قدیم خزانوں کو   انھوں نے مالا مال کیا۔

میں نے اُسی تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ خیالات کی زرخیز نشوونما کے باوجود‘ افسوس ناک  حد تک دونوں طرف ایسے لوگ موجود رہے جن کے ایک دوسرے کی تہذیب کے بارے میں  ناقابلِ تفہیم تعصبات ختم نہیں کیے جاسکے۔ باہمی عدمِ اعتماد کا یہ قدیم اور طول طویل سلسلہ ازسرنو بڑھتا جارہا ہے اوراس کے خوف ناک نتائج بھی سامنے آتے چلے جارہے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ اُن مسلمانوں پر کیا گزرتی ہوگی جو یورپ میں رہتے ہیں اور جب اُن کے ہم وطن مغربی ’اسلامی خوف‘ کے بہکاوے میں آکر مسلمانوں کو متفرق اور مسلسل تکلیف دہ ردعمل کا نشانہ بناتے ہیں۔ مجھے یہ بھی خیال آتا ہے کہ کہیں کہیں مسلمان ممالک میں رہنے والے مسیحی سخت حقارت آمیز اور ناروا سلوک ‘پابندیوں اور اپنے مسلم ہم وطنوں کے ہاتھوں بدتہذیبی کے مظاہر برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ میں دنیا بھر میں دہشت گردی اور تشدد کے ان خوف ناک اور بدترین واقعات کے بارے میں بھی سوچتا ہوں جو مذہب کے مسخ شدہ نام پر روبہ عمل لائے گئے۔

میرا دل کہتا ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان باہمی اعتماد بحال کرنے کے لیے ذمہ دار  مرد و خواتین کو ضروراپنا کردار ادا کرنا ہوگا‘ اور اُس زہرآلود بداعتمادی پر قابو پانا ہوگاجس نے کئی قوموں کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے۔ یقینا کیچڑ اُچھالنے والے کچھ ذرائع ابلاغ اور فضولیات و بے مقصدیت پر مبنی طرزعمل نے اس منزل کا حصول غیرمعمولی طور پرمشکل بنادیا ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے عاجزانہ انداز میں‘ میں نے اپنے اداروں The Prince 's Trust نیز Foundation for The Built Environment اور The School of Traditional Arts میں بھرپور کوشش کی ہے کہ مختلف قوموں اور نسلوں کو اکٹھا کرنے کے ذرائع تلاش کیے جائیں اور برطانیہ کے اندر اسلامی تہذیب کی جو موثر اور مبنی بر خیر نمایندگی ہے اُس کو تسلیم و اجاگر کیا جائے۔ میرے خیال میں دیگر  تمام گروہوں کے لیے یہ ایک موثر تجربہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ان اداروں کا دائرۂ کار دیگر ممالک ہیں۔ چھوٹے چھوٹے منصوبوں اور مثالوں کے ذریعے باہمی اعتماد کی بنیادیں‘ احترامِ باہم اور دوسروں کے بارے میں فکرمند رہنے اور رواداری کو ازسرنو رواج دیا جاسکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ایسا ماحول تشکیل دیا جائے جہاں مشترک انسانیت کے احساس کو تقویت ملے‘ نہ کہ انسان صرف ٹکنالوجی کے کل پرزے بن کر رہ جائیں جو آج کی مشینی دُنیا میں ہمارے اِردگرد ہر طرف پھیلے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

مختلف مذاہب کے درمیان تنازعات اور غلط فہمیوں کی بدولت ہی جنگ اور تشدد کی المناک تاریخ مرتب ہوئی ہے۔ دو غیرمقدس‘ سیکولرمذاہب‘ کمیونزم اور فاشزم (فسطائیت) نے بھی تباہی و بربادی اور ظلم و زیادتی کے اَن گنت سنسنی خیز باب رقم کیے ہیں۔

معاشروں کے ارتقا میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ اس تباہ کن ورثے کے دو واضح ردعمل   بار بار سامنے آتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے مذہب کو مزید قوت کے ساتھ تھامے رکھتے ہیں اور اسے وہ اپنی زندگی کے استحکام کا سبب سمجھتے ہیں اور جیسے ہی کوئی خلفشار یا تنازع سر اُٹھاتا ہے‘ ایسا فرد سمجھتا ہے کہ دیگر مذاہب میرے مذہب کے لیے خطرے کی علامت ہیں۔ کچھ اور لوگ ہیں کہ جو مذہب کے تصور ہی سے لاتعلق ہوجاتے ہیں اور مابعد الطبیعیات کے مکمل فلسفے کے ذریعے ایسی منزل کی تلاش میں مگن ہوجاتے ہیں جو ہماری ایمانی حدود سے کاملاً باہرہے۔ وہ خدا میںکسی قسم کے یقین کا ہی انکار کردیتے ہیں اور مذہب کو ’دقیانوس‘، ’ازمنۂ وسطیٰ‘ کا اور ’غلط‘ سمجھنے لگتے ہیں۔ مذہب سے اس دیدہ دلیری سے لاتعلقی اور بے زاری نے مذہب کے لیے‘ عالمی اقدار اور زندہ روایات کے ورثے کے لیے خطرے کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یہ محض ہمارے روایتی مسیحی کلیسا کی بات نہیں ہے بلکہ مادہ پرستی اور دیگر حقیر مقاصد نے اسے ساری دنیا میں پھیلا دیاہے۔

یورپ میں‘ مختلف مسیحی دھڑوں کے درمیان بظاہر ختم نہ ہونے والی جنگوں کے ایک جزوی ردعمل میں بہت سے مخلص لوگوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم حقیقی لادین (secular) معاشرے تشکیل دے ڈالیں۔ اس سے تشدد‘ کٹر پن اور علمی تکبر (جنھیں مذہب کے ساتھ نتھی کیا جاتا تھا) ختم ہوجائیں گے‘ تنازعات کا خاتمہ ہوجائے گا‘ جنگوں کو جنم دینے والے اسباب مٹ جائیں گے اور ہم سب کے سب بہترین زندگی گزار سکیں گے۔ اُنھیں اُمید تھی کہ (ریاست) اور اداروں کے مالک مذہب کی نسبت‘ مادی خوش حالی اور لوگوں کے تحفظ کے لیے سائنسی ایجادات کا استعمال زیادہ بہتر ثابت ہوگا‘ اور اس طریقے سے یگانگت‘ ترقی اور انسانی مسرت کی طرف سفر بغیر کسی مزاحمت کے ایک تسلسل سے جاری رہ سکے گا۔

ظاہر ہے کہ یہ زیادہ آسان ثابت نہ ہوا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنسی علم ہمارے لیے بہت کچھ لے کر آیا ہے اور ہم اسے بہت بڑا انعام سمجھتے ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ علم‘  حکمت و دانش کے برابر نہیں ہے۔ یہ صرف عقل و دانش کا کام ہے کہ عالم گیر اور دائمی حقائق کا انکشاف کرسکے جو کہ تمام مذاہب کی بنیادوں میں مضمر ہیں۔ جن سچائیوں اور اخلاقی اقدار نے ہمارے باپ دادا کی زندگیوں کو ایک محفوظ مقصدِ زندگی کا نقشہ فراہم کیے رکھا‘ آج ہمارے زمانے کے اکثر لوگوں کی زندگیوں میں یہ سچائیاں اور اخلاقی اقدار بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں یا مکمل طور پر مٹ چکی ہیں۔ یہ معاملہ صرف مغرب کے ساتھ نہیں ہے‘ بلکہ ابراہیمی مذاہب کے ہر رنگ و آہن میں اس کی موجودگی نظر آتی ہے۔

اس نقصان کے اطلاقات نہایت گہرے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جدیدیت اُس دانائی سے ملتی ہے جو مذہبی روایت کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے۔ اس روایت کے لیے احترام میں کمی کا انتہا پسندی نے فائدہ اُٹھایا۔ مذہبی ایقان میں کمی کے باعث بہت سے لوگ اس پر مجبور ہوئے ہیں کہ وہ نئے پیمانوں اور اصولوں میں پناہ ڈھونڈیں۔ پرانے دور کے جامد عقائد کی طرح کسی اشتباہ یا سرسری اختلاف کو برداشت نہ کریں اور انتہا پسندی کی مختلف شکلوں کو قوت فراہم کرتے رہیں۔

ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام نے اپنے دورِ عروج میں جس ذہنی ارتکاز‘ وسعت‘ امکانات اور علم و حکمت کے لیے جس احترام کو متعارف کرایا تھا‘ اُس کو ازسرنو زندہ کریں۔ اسلام نے یہودیوں اور عیسائیوں کو اہلِ کتاب قرار دیا کیونکہ وہ بھی مسلمانوں کی طرح مقدس کتابوں‘ یعنی قرآن‘ عبرانی انجیل اور عہدنامہ جدید پر یقین رکھنے والے مذاہب کا حصہ ہیں۔ اسلام کے عروج کے اُس اعلیٰ دور میں وہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ مقدس اِلہامی کتابوں کو سمجھنے کے لیے تعبیر و تشریح کے ایک عمیق علم سے آشنائی ضروری ہے۔ یہ ایک مشکل کام اور پیچیدہ فن ہے۔ تاہم اسلام میں تشریح و تعبیر کے عظیم اصولوں کو رواج ملا اور اس کے بعد فقہی اسکول بھی قائم ہوئے۔

متن اور تشریح کے درمیان تعبیروتوضیح کی ضرورت پیش آتی ہے‘ یعنی ہر دور میں خدا کا پیغام کیا ہے اور اِس دور میں خدا کا پیغام کیا ہے۔ یہ اسلام کی عظمت ہے کہ اسلام نے اس چیلنج کو پوری گہرائی میں جاکر سمجھا۔ اس عظیم تاریخی درس گاہ میں آج کرنے کا یہی کام ہے۔ آپ نہ صرف  اہلِ اسلام کے لیے بلکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دیگر پیروکاروں کے لیے بھی مثال بن سکتے ہیں۔

موجودہ دور میں یہ رُجحان بہت عام ہے کہ صرف متن کو پڑھا جائے۔ گویا اُس کی تشریح سے آگاہ ہونے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے‘ یعنی ہم صرف اُس کے سطحی مفہوم سے مکمل فہم حاصل کرسکیں گے۔ اس سے الہامی کلام کو نقصان پہنچتا ہے اور اس نقصان سے فرد کو اور آخرکار ساری دنیا کو نقصان پہنچتا ہے۔

جب مقدس کتابوں سے ہمیں سچی باتیں ملتی ہیں‘ جب ہم ربِ کائنات کی رنگین کائنات میں سے صرف سفید اور سیاہ کا انتخاب کرلیتے ہیں‘ تو اُس سے کائنات میں اختلافات کو جنم دینے کا آغاز کردیتے ہیں‘ یعنی اچھا اور بُرا ‘ نیک اور بد‘ دوست اور دشمن۔ اس تقسیم سے نفرت اور تشدد جنم لیتا ہے۔ اس طرح ہم ابراہیمی مذہب کے سب سے اہم اصول کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوجاتے ہیں جس نے ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرنے والے تینوں مذاہب کو جوڑ رکھا ہے۔ یہ یہودیت میں اس طرح ہے کہ ’’اپنے ہمسایے سے بھی اس طرح محبت کرو جس طرح اپنے آپ سے محبت کرتے ہو‘‘۔ عیسائیت میں یہ اس طرح موجود ہے کہ ’’دوسرے انسانوں سے جوکچھ تم چاہتے ہو کہ وہ تم سے اس طرح سے پیش آئیں‘ اُسی طرح تم بھی اُن کے ساتھ پیش آئو‘‘، جب کہ  اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ’’کوئی شخص اُس وقت تک صاحبِ ایمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔

اگر ہم چاہیں کہ ان تعلیمات پر توجہ دی جائے‘ حکمت و دانش کی بات پر توجہ دی جائے‘ انتہاپسندی کا خاتمہ ہو‘ تو یہ جاننا چاہیے کہ اس سلسلے میں خدا تعالیٰ پر ہمارا ایمان‘ ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے؟ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ ہم ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہیں‘ ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں۔ میں تینوں مذاہب کی بات کر رہا ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ کیا مادہ پرستی‘ روحانیت کے زوال اور بے معنی زندگی کے غلبے میں وہ لوگ زیادہ قابلِ احترام نہیں ہیں جو اپنی ذات سے اُوپر اُٹھ کر سوچتے ہیں‘ جو اپنی ذات اور اپنی انا کے گرد گھومتے نہیں رہتے‘ جو سائنس ہی کے پرستار نہیں بنے رہتے اور ایسی کائنات پر یقین رکھتے ہیں کہ جس میں روح‘ جسم اور دماغ متوازن رہتے ہیں‘ اور جو کائنات کو اللہ تعالیٰ کا نہایت حسین تحفہ سمجھتے ہیں۔ یقینا ہمیں اپنے مشترکہ نکات کی بنا پر متحد ہونے کی کوشش کرنا چاہیے۔

ایک دوسرے سے لڑتے چلے جانے‘ یا ثانوی چیزوں ہی پر جھگڑتے رہنے کے بجاے ہمیں اس لیے بھی مشترکہ اقدام کی ضرورت ہے کہ ہمارے پورے سیارے (planet) کو ماحولیاتی خلفشار کا چیلنج درپیش ہے۔ کیا اسلام ہماری رہنمائی نہیں کرسکتا کہ ہم اپنے آپ کو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کریں؟ کیا ہم فوری اقدام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ مشرق کی الہامی ذہانت اور مغرب کا عملی ذہن مل جل کر کوئی نہ کوئی صورت نکالے‘ قبل اس کے کہ بہت زیادہ تاخیر ہوجائے۔

ہمارے تینوں مذاہب کی تعلیمات کے اندر ایک بنیادی نکتہ ایک دوسرے کا احترام بھی ہے۔ یہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے سیاسی نعرہ بازی سے بہت آگے کی بات ہے۔ مسلمان‘ مسیحی اور یہودی فرد کی عظمت اور قدروقیمت کے مسئلے پر متفق ہیں۔ ہم میں سے ہرکوئی انفرادیت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں منفرد مقام کا حامل ہے۔ جب ہم اپنے آپ سے آگاہی حاصل کریں گے‘ اپنی کمزوریوں اور خامیوں سے آگاہ ہوں گے‘ تب ہی ہم دوسروں کو سمجھنے کی اہمیت کو جان سکیں گے اور دوسروں کے نقطۂ نظر کو مقام دے سکیں گے۔

دوسروں کا احترام اور اُس چیز کا احترام جو دوسروں کے نزدیک قابلِ احترام ہے‘ یعنی  اچھے ادب آداب‘ معزز طور طریقے اور دوسروں کو سننے پر رضامند ہونا___ حقیقت میں اپنی اقدار اور اپنے معیارات کے لیے احترام حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ حال ہی میں ڈنمارک سے خاکوں کی اشاعت کے ذریعے ایک گھنائونا کھیل کھیلا گیا جس کے نتیجے میں جو شدید ردعمل سامنے آیا‘ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ جو دوسروں کے لیے مقدس اور محترم ہے اُس کو نہ سننے اوراُس پر توجہ نہ دینے کے نتیجے میں کیا کیا خطرات سامنے آسکتے ہیں۔

میرا اپنا خیال یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے مہذب و معزز ہونے کی حقیقی علامت اس کا وہ احترام ہے جو وہ اقلیتوں اور اجنبیوں کو دیتا ہے۔ عربوں میں اجنبیوں اور اُن کے علاقوں سے گزرنے والے مسافروں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ حقیقتاً عرب ثقافت کا یہ ایک قابلِ فخر پہلو ہے۔ ہم نے بھی اپنی سرزمین‘ برطانیہ میں بھرپور کوشش کی ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگوں کا خیرمقدم کیا جائے‘ اور اُنھیں اس کا موقع فراہم کیا جائے کہ وہ اپنی منفرد شناخت کو بھی محفوظ رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ اُنھیں برطانوی ثقافت میں رچنے بسنے کا موقع بھی دیا جائے۔ اب برطانوی مسلمانوں کی تعداد ۱۵ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ برطانوی مسلمان کئی حوالوں سے برطانوی معاشرے کو مالامال کر رہے ہیں‘ اسی طرح مجھے یقین ہے کہ مسلم ممالک میں مسیحی اقلیتوں کا بھی یہی تعمیری کردار ہے۔

صاحبِ ایمان ہونے کے ناطے‘ ہم جانتے ہیں کہ انسانی روح کو ابدیت کے اُفق کی طرف بلایا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے وجدان سے احساس ہوتا ہے کہ اب ہم ظاہری دُنیا کی طرف غیرمعمولی حد تک راغب ہو گئے ہیں۔ جہاں ہر اُس چیز کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے جس کو ناپا یا تولا نہ جاسکے  اور جس کا وزن نہ کیا جاسکے۔ لیکن ہم ایمان‘ حُسن‘ وفاداری‘ لُطف و مسرت اور بذاتِ خود محبت کو کس طرح ناپ تول سکتے ہیں‘ جب کہ یہی چیزیں زندگی کو رہنے کے قابل بناتی اور ہمارے    جوہر انسانیت کی تعریف متعین کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ کیا یہ خصوصیات ایک داخلی حقیقت کی عکاس نہیں ہیں؟ جب ہم داخلی حقیقت کے بارے میں بات کرتے ہیں‘ تب حقیقتاً ہم اُس سمت کی بات کررہے ہوتے ہیں جو مادے سے ماورا ہے‘ دیگر الفاظ میں ہم دل کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم دل کے بارے میں استعارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ رحم کا منبع ہے۔ سینٹ پال نے بائیبل کے ایک ترجمے میں اسے خیرخواہی قرار دیا ہے اور عیسائیوں کے نزدیک یہ سب سے بڑی نیکی ہے۔

ثقافتوں اور مذہب کے درمیان افہام و تفہیم کے مسائل جب درپیش آتے ہیں‘ اُس کی وجہ صرف اس تصور کی عدم موجودگی نہیں ہے‘ ایک ایسا تصور دل جو مہربان ہو‘ تبدیلی قبول کرنے والا ہو اور اُس میں قبولیت کی بھرپور صلاحیت ہو۔ یہ ایک ایسا تصور ہے کہ جس میں ہم سب شریک ہوسکتے ہیں اور تینوں مذاہب میں عظیم صوفیا کی تحریروں میں اس کے حوالے موجود ہیں جن میں جولیاں آف ناروچ‘ ربی آئزک لوریا اور امام محمد ادریس الشافعی کے نام سرفہرست ہیں۔ کیا ان عظیم مردوں اور عورتوں نے اپنی سدابہار دانش و حکمت کی بدولت ہمیں نہیں بتایا کہ اپنے جارحانہ اور اکثر سطحی طرزعمل کو نہایت مہربان اور تدبر آمیز رویے سے بدل لیں تاکہ دماغ کے بجاے ہم دل کی اُس سلطنت میں داخل ہوجائیں جہاں ہماری مشترک انسانیت کی خوبی کو ہم پاسکیں؟ میں یہ بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ غوروفکر کو ترک کرنے کی بات نہیں ہے بلکہ دوسروں کے ساتھ اپنے معاملات میں تحرک کے ساتھ شامل ہوجانے کا ایک طریقہ ہے۔ بہرحال ہم الہام اور وحی پر یقین رکھتے ہیں جس نے ہم پر ہمارے مذاہب کی سچائی آشکار کی ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ سائنس نے فطرت کے اندر موجود نظم اور ہم آہنگی کو تلاش کرنے کے سلسلے کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے کہ جو قدیم لوگوں کو ہزاروں برس قبل دے دی گئی تھی۔ یقینا اس سے دل کی زندگی کے رب تعالیٰ سے ایک عجب تعلق کی غیرمعمولی سچائی کا اظہار ہوتا ہے۔

میرا اعتقاد ہے کہ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے مذہبی عقائد کے اصولوں کی ترجمانی کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمیں اپنے مذاہب: اسلام‘ عیسائیت اور یہودیت کے اخلاقی وجود کو محفوظ کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ جو عظیم تنوع ہمیں ملا ہے اُس کو تسلیم بھی کریں اور اُس کی تحسین بھی کریں۔ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے یکساں‘ یک رنگ اور عالمی کلچر کی بالادستی سے نجات مل سکتی ہے چاہے وہ مذہبی ہو یا غیرمذہبی۔

میرے خیال میں روح کی دنیا کو مادہ پرستی سے محفوظ رکھنے کے لیے‘ نیز ہم میں سے ہرایک کے انفرادی احترام کو انتہاپسندی اور تکبر ذات سے بچانے کے لیے ہمیں ایسے طرزعمل کو اختیار کرنے اور پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جس سے شفقت‘ نرمی اور ہمدردی کی خدائی خصوصیات بندوں میں پیدا ہوجائیں۔ اس کے لیے پُرسکون رہنے اور احتیاط سے چلنے کی مشق کی ضرورت ہے۔  مجھے کہنے دیجیے کہ ہمارے مذاہب کے اندر جو حضرات کسی بھی ذمہ داری کے منصب پر فائز ہیں‘ اُن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِن خدائی صفات کی مسلسل تبلیغ و تلقین کریں۔

تین ہزار سال قبل دائود (علیہ السلام) کے بیٹے شہنشاہ سلیمان (علیہ السلام) نے کہا تھا: ’’جب مستقبل کے بارے میںکوئی خواب نہ ہوگا تو انسان ختم ہوجائیں گے‘‘۔ میں ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھ رہا ہوں جس میں ہمارے اختلافات کواحترام اور مفاہمت کے ساتھ تسلیم کیا جائے‘ اور جو دوسروں کے لیے مقدس ہو‘ اُس کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ میں ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھ رہا ہوں کہ جہاں عظیم مذہبی روایات کے لیے بدزبانی نہ کی جائے اور مذہبی تعلیمات کو خودغرض‘ دنیاوی طاقت کی خدمت کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

اس کام کے مشکل ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے لیکن ہم نے ___ ہم سب نے ___ اس کام کا مشترکہ طور پر آغاز کرنا ہے۔ اپنے مذہب اور روایات کو جنھیں ہم بہت احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ بچانے کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ ہم سب کو مل جل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ایسی دنیا وجود میں آجائے جہاں ایمان کے ثمرات ___ افہام و تفہیم‘ برداشت اور ہمدردی ہمارے بچوں اور آیندہ نسلوں کی حفاظت کریں۔ ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور آج کے دور میں یہ چیلنج اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی مخلصانہ‘ پُرعزم اور قلبی کوششوں کو امن کے ساتھ رہنے کے گرد مرکوز کر دیں۔ (۲۱ مارچ ۲۰۰۶ئ)