جون۲۰۰۶

فہرست مضامین

دوحہ القدس کانفرنس

عبد الغفار عزیز | جون۲۰۰۶ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

تہران میں منعقدہ القدس کانفرنس کے اختتام پر جب ایرانی اسپیکر حداد عادل نے دعا کی کہ ’’پروردگار ہم سب کو وہ دن جلد دکھا کہ جب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ معراج    اور قبلہ اوّل میں تیرے حضور سجدہ ریز ہوں‘‘تو میرے ساتھ بیٹھے سراج الحق صاحب آمین کہتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ اس کانفرنس کے تقریباً ایک ماہ بعد ۱۰مئی کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں علامہ یوسف القرضاوی کی دعوت پر علماے کرام کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہو رہا تھا۔ اس کے آغاز میں چند منٹ کی ایک وڈیو دکھائی گئی۔ تین ماہ کی فلسطینی بچی ایمان پھولوں کے درمیان نمایاں ترین پھول کی صورت سوئی ہوئی تھی لیکن جیسے ہی کیمرہ چہرے سے چھاتی پر آیا تو دکھائی دیا کہ ایک  صہیونی گولی اسے چھید چکی ہے اور ایمان اپنی مسکان ہونٹوں پر سجائے ابدی نیند سوگئی ہے۔ ہونٹوں کے کنارے دودھ کے چند قطرے ابھی تازہ تھے‘ جب کہ نیچے بچھا بسترسرخ خون سے تر ہوچکاتھا۔   یہ منظر دیکھتے ہی پوری کانفرنس سسکیوں میں ڈوب گئی۔

فلسطینی عوام کی نصرت کی خاطر بلائے جانے والے اس اجلاس کا فیصلہ‘ تیاری اور انعقاد صرف دو ہفتے کے اندر ہوا تھا۔ اس میں اُمت مسلمہ کے اہم نمایندگان کے علاوہ فلسطینی قیادت کی بھرپور نمایندگی تھی۔ محترم قاضی حسین احمد پاکستان ہی نہیں تمام غیرعرب مسلم ممالک کی نمایندگی کررہے تھے۔ افتتاحی تقریب میں میزبان علامہ قرضاوی کی گفتگو کے بعد حماس کے سربراہ خالدمشعل کاخطاب تھا۔ پھر قاضی صاحب کا اور ان کے بعد مختلف فلسطینی قائدین‘ مسلم رہنمائوں اور فلسطینی نومنتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کا اہم ٹیلی فونک خطاب تھا۔

علامہ قرضاوی نے اپنے افتتاحی خطاب میں اس ہنگامی اجلاس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر آنے والا دن ہمارے فلسطینی بھائیوں کے لیے نئی آزمایش کا موجب بن رہا ہے۔ صہیونی اسلحے کی ہلاکت آفرینی کے بعد اب ایک طرف تو ان پر بھوک کاعذاب مسلط کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف انھیں خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں میں الفتح اور حماس کے مسلح دستوں کے درمیان باقاعدہ جھڑپیں ہوئی ہیں۔ دشمن کے لیے اس سے زیادہ خوشی اور اطمینان کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ہم نے پوری کوشش کی کہ اس کانفرنس میں الفتح کے ذمہ داران بھی شریک ہوسکیں۔ خالدمشعل نے بھی ان سے رابطہ کیا اور میں نے خود بھی ان میں سے کئی کے ساتھ فون پر بات کی‘ لیکن افسوس ہے کہ انھوں نے ہماری دعوت قبول نہیں کی۔

علامہ قرضاوی نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ بدقسمتی سے صدر محمود عباس (ابومازن) اور ان کا ایوانِ صدر فلسطینی حکومت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔ ان کی اس بات کی تائید دوسرے روز کے سیشن میں فلسطینی پارلیمنٹ کے منتخب ارکان نے اپنی تقاریر میں کی۔ انھوں نے کئی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ۱۳فروری ۲۰۰۶ء کو سابق پارلیمنٹ کا الوداعی اجلاس تھا۔ اس میں کوشش کی گئی کہ منتخب وزیراعظم کے وہ اختیارات واپس صدر کو دے دیے جائیںجو اصرار کرکے صدر یاسرعرفات سے چھینے گئے تھے (کیونکہ اس وقت محمود عباس وزیراعظم تھے)۔ نومنتخب پارلیمنٹ نے ۱۸ فروری کو حلف اُٹھایا‘ ان درمیانی پانچ دنوں میں صدرمحمود عباس نے پانچ نئے قوانین ہنگامی طور پر جاری کیے‘ تاکہ وہ پارلیمنٹ میں نہ پیش کرنا پڑیں‘ حالانکہ ایسا صرف ایمرجنسی کی صورت میں ہی ممکن ہے جب کہ ان قوانین کا مقصد صرف منتخب حکومت کو بے دست و پا کرنا ہی تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے اپنی بھاری اکثریت کی بنیاد پر ان قوانین کو منسوخ کر دیا ہے لیکن اس مثال سے دنیا ایوانِ صدر کی ’فطرت‘ سے آگاہ ہوسکتی ہے۔ حماس کے ان ذمہ داران نے ارکانِ پارلیمنٹ کی تعداد اور تقسیم بھی واضح کی کہ ۱۳۲ کے ایوان میں ۷۴ نشستیں حماس کی ہیں‘ چار ارکان آزاد جیتے لیکن انھیں حماس کی تائید حاصل تھی۔ اس طرح ہمارے ارکان ۷۸ ہیں۔ الفتح کے ارکان ۴۵ہیں۔ نو ارکان چار مختلف دھڑوں کے ہیں جو یوں ہیں: پاپولر فرنٹ ۳‘ جمہوری اتحاد ۲‘ آزاد فلسطین گروپ ۲ اور تیسری راہ ۲۔ حماس کے ارکان نے بتایا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ   الفتح کے ارکان اسمبلی کو ساتھ لے کر چلیں۔ ہم نے اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں کی تشکیل میں الفتح کو   اہم ترین کمیٹیوں کی سربراہی دی ہے۔

وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کے چچازاد بھائی اور منتخب رکن اسمبلی ڈاکٹر مازن ھنیہ نے شرکاے اجلاس کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کو آپ کی طرف سے مالی امداد سے زیادہ اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔ فلسطینی عوام اگرچہ بھوکے مررہے ہیں لیکن پھر بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حماس کے ترجمان سامی ابوزھری جو زندگی میں پہلی بار غزہ سے باہر نکل سکے بتا رہے تھے کہ خزانہ خالی ہونے کی بات تو روایتی سمجھی جاتی ہے۔ ہمیں سابقہ حکومت نے انتہائی مقروض چھوڑا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کرپشن کی تفصیلات اتنی ہیں کہ اس کے لیے کئی دفتر درکار ہیں۔ اقربا پروری   کا عالم یہ ہے کہ ۱۳۲ ارکان کے ایوان کے لیے سابق ارکان اسمبلی اور وزرا نے اپنے عزیزوں اور    واسطہ داروں میں سے ۶۰۰ ملازمین بھرتی کر رکھے ہیں اور ان کے لیے بھاری تنخواہیں مقرر کر رکھی ہیں۔ ہم مختلف ضابطے بنا رہے ہیں جن سے تنخواہیں بھی کچھ کنٹرول ہوجائیں گی‘ خاص طور پر   بڑی تنخواہوں پر ضرور نظرثانی اور کمی ہوگی۔

حماس کے ان ذمہ داران نے ایک اور اہم پہلو یہ بتایا کہ اگرچہ فلسطینی عوام کو دورحاضر کے شعب ابی طالب میں حصار کا سامنا ہے لیکن وہ اپنے موقف پر ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینی حکومت کو ہر ماہ تنخواہیں دینے کے لیے تقریباً ۱۷ کروڑ ڈالر درکارہوتے ہیں جو مختلف ممالک کی اعانتوں سے پورے ہوتے تھے۔ اب یہ امداد روک دی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کے چولہے بجھ رہے ہیں۔ وہ بجلی اور گیس کے بجاے‘ تیل کے دیے اور لکڑی جلانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ صہیونی افواج نے مزدوروں کو مزدوری کے لیے نکلنے سے منع کردیا ہے۔ کسان اپنی سال بھر کی محنت کے بعد اپنی فصلیں منڈی لے جانے سے عاجز ہیں‘ کیونکہ کرایہ نہیں اور اگر منڈی پہنچ بھی جائیں تو قیمتیں اتنی کم کر دی گئی ہیں کہ فصلوں کے اخراجات تو کجا کرایہ بھی پورا نہیں ہوتا۔ گویا کہ پوری کی پوری فلسطینی قوم بے روزگار کردی گئی ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ مزدور کسان اور سرکاری ملازمین خاص طور پر اساتذہ فلسطینی حکومت کے خلاف یا تنخواہیں مانگنے کے لیے جلوس نکالنے کے بجاے حماس اور اس کی حکومت کے حق میں جلوس نکال رہے ہیں۔ بوڑھی خواتین اور بچے جلوس نکال رہے ہیں کہ ہمیں عزت کی موت برداشت ہے ذلیل ہوکر اور اپنے حقوق سے دست بردار ہوکر جیناقبول نہیں ہے۔

وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کا ٹیلی فونک خطاب بہت ایمان افروز تھا۔ وہ اپنی پُرثبات آواز میں کہہ رہے تھے: ’’الحمدللہ! ہم اقتدار کے لالچ سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ ہمارے سامنے درج ذیل پانچ واضح اور بنیادی اہداف ہیں: ۱- فلسطینی عوام کے حقوق اور مسئلہ فلسطین کے اصول و مبادی کی حفاظت۔ ہماری منتخب حکومت غاصب قوتوں کے سامنے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے گی۔ ہم کبھی اپنے عوام کے حقوق کا سودا نہیں کریں گے۔ ہم یہاں نہ تو کسی مخصوص تحریک کے نمایندہ ہیں نہ کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ ہم قبلۂ اوّل سے صہیونی استعمار کا خاتمہ چاہتے ہیں‘ یہی ہمارا سب سے بنیادی ہدف رہے گا۔

۲- فلسطینی قوم کی وحدت کی حفاظت‘ فلسطینی خون کی حفاظت‘ خونریزی ایسا سرخ نشان ہے جس سے آگے جانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔ گذشتہ دنوں جب الفتح اور حماس کے کچھ عناصر کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تو میں فوراً طرفین کے ذمہ داران کے پاس پہنچا اور دونوں کے درمیان معاہدہ طے کروایا کہ کسی فلسطینی ہتھیار کا ہدف کوئی فلسطینی سینہ نہیں بنے گا۔ فلسطینی حکومت باہم خونریزی کو روکنے کے لیے تمام وابستگیوں سے بالاتر ہوکر کارروائی کرے گی۔

۳- یہ بات عملاً ثابت کرنا کہ مسئلہ فلسطین محدود فلسطینی مسئلہ نہیں‘ یہ پوری اُمت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ یہ لاکھوں فلسطینیوں کا نہیں‘ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔

۴- فلسطینی قوم کا یہ حق تسلیم کروانا کہ اسے اپنی حفاظت کا مکمل حق حاصل ہے‘ اس کی سرزمین پر اور مقدس مقامات پر استعماری قبضے کے خاتمے کی جدوجہد‘ اسی حق دفاع کا حصہ ہے اور ہمیں جہاد آزادی کے اس حق سے کوئی قوت محروم نہیں کرسکتی۔

۵- ہم نے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تبدیلی اور اصلاح کا جو پروگرام پیش کیا تھا اور فلسطینی عوام کی اکثریت نے جس کی تائید کی تھی‘ اس پروگرام پر عمل درآمد‘ کرپشن اور فساد کا خاتمہ اور ایک خداخوف‘ باصلاحیت و اہل قیادت کا کامیاب تجربہ پیش کرنا جو صرف اپنے رب کی رضا کو اپنے ہر عمل کی اساس سمجھتی ہے۔

وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ آج ہمیں اپنے عوام کو ماہانہ تنخواہیں دینے سے بھی محروم کیا جا رہا ہے‘ لیکن تمام فلسطینی ملازمین جانتے ہیں کہ اگر انھیں تنخواہ نہیں ملی تو ان کے وزیراعظم کو بھی نہیں ملی۔ میں نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی وزیراعظم تنخواہ حاصل کرنے والا آخری شخص ہوگا اور جب بھی تنخواہ ملے گی تو میری پہلے ماہ کی تنخواہ ھدیل غبش نامی اس ۱۲سالہ شہید فلسطینی بچی کے خاندان کو دی جائے گی جسے ۱۱ اپریل کو صہیونی افواج نے بم باری کرکے شہید کردیا تھا۔وزیراعظم ھنیہ نے کہا کہ کچھ لوگ ہمیں ڈراتے ہیں کہ ہماری بات نہ مانی تو چار ماہ کے اندر اندر تمھاری حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ہم انھیں کہتے ہیں کہ ’’اقتدار تو دنیا میں اللہ کی ایک امانت اور آخرت میں بڑی جواب دہی ہے‘‘۔ اس کی فکر نہیں لیکن زمینی حقائق تمھیں بھی بتا رہے ہیں کہ ہماری حکومت چار ماہ نہیں اپنی قانونی مدت یعنی چار برس تک ذمہ داریاں ادا کرتی رہے گی۔

وزیراعظم ھنیہ کے خطاب کے بعد ایک فلسطینی تجزیہ نگار عبدالرحمن فرحانہ کا ایک تجزیہ دیکھنے کو ملا جس میں انھوں نے مختلف اسرائیلی ذمہ داران اور صہیونی ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں مستقبل کے تین امکانات واضح کیے تھے۔

پہلا تو یہ کہ فلسطین میں انتشار و اضطراب میں اضافہ کیا جائے‘ اور اس مقصد کے لیے حماس کی حکومت کو ناکام بنایا جائے۔ مقامی سطح پر الفتح‘ علاقائی سطح پر اسرائیل اور پڑوسی عرب ممالک اور عالمی سطح پر مختلف اسلامی ممالک اور بڑی عالمی قوتوں کو حماس کے خلاف مزید متحرک اور مشتعل کیا جائے۔ یہ نقشہ امریکا و اسرائیل کے لیے سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے لیکن اس میں اصل خطرہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے حماس کمزور نہیں مزید مضبوط ہوگی اور فلسطینی عوام کی آنکھوں کا تارا بنے گی۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ انتظار کیا جائے‘ سیاسی و اقتصادی دبائو میں مسلسل اضافہ کیا جائے۔ کم از کم چھے ماہ سے ایک سال کے بعد اس صورت حال کے نتائج کی روشنی میں مزید کوئی فیصلہ کیا جائے‘ جب کہ تیسرا راستہ یہ ہے کہ زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے‘ فلسطینی حکومت کو مشکلات کے بھنور میں پھنساتے ہوئے اور اس سے بے پروا ہوکر اسرائیلی ریاست اپنے طور پر انفرادی اور مستقل نوعیت کے فیصلے کرے اور جو بھی نتائج ہوں ان کا سامنا کرنے کے لیے عالمی برادری (اصل میں امریکا) کا سہارا حاصل کرے۔ اس ضمن میں صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ کا یہ بیان اہم ہے کہ  ہم عنقریب اور یک طرفہ طور پر اپنی ابدی سرحدوں کا اعلان کردیں گے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسا کرنے سے فلسطینی آبادیوں کو مزید غتربود کا نشانہ بنایا جائے گا اور ان کے گرد کھڑی کی جانے والی فصیل کو مزید وسیع اور بلند کرکے فلسطینیوں کو مزید محصور و مقید کردیاجائے گا۔

ان تینوں امکانات کے جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام اور حماس سے زیادہ مشکل کا سامنا خود اسرائیل کو ہے۔ وہ حماس حکومت کا خاتمہ کرے تو خود بھی مزید پھنستا ہے اور اگر خاتمہ نہ کرے تو بھوک و حصار کاسامنا کرنے کے باوجود حماس کی مقبولیت کو ابدی استحکام حاصل ہوگا۔یکم مئی کو مشرق وسطیٰ میں چار رکنی عالمی اتحاد کے نمایندے جیمزولونسون نے کونڈولیزا رائس کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’کیا ہم سالانہ ایک ارب ڈالر کے اخراجات سے فلسطینیوں کے لیے قائم کیے جانے والے اپنے نظام کو بالآخر خود ہی تباہ و برباد کردیں گے؟‘‘ اور پھر یہ کہتے ہوئے ولونسون نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔

حماس اور فلسطینی عوام کی اکثریت نے اس صورت حال میں یہی فیصلہ کیا ہے کہ قربانیوں کے کاروان کو آگے بڑھائیں گے۔ علامہ یوسف قرضاوی کہہ رہے تھے کہ صہیونی حکومت شاید اس عرب مقولے پر عمل کرنا چاہتی ہے کہ جَوِّعْ کَلْبَکَ یَتْبَعُکَ(اپنے کتے کو بھوکا رکھو تمھارے پیچھے پیچھے آئے گا) لیکن اسے جان لینا چاہیے کہ فلسطینی قوم شیروں کی قوم ہے‘ جسے اگر بھوکا رکھا جائے تو پھر وہ ہرسامنے آنے والے کو چیرپھاڑ ڈالتا ہے۔

دوحہ کانفرنس نے اپنے اعلامیے میں اُمت مسلمہ کے اس فیصلے اور فتوے کا اعادہ کیا کہ پوری سرزمین فلسطین وقف سرزمین اور اُمت کی ملکیت ہے‘ اس کے بالشت بھر علاقے سے   دست برداری بھی شرعاً حرام ہے۔ کانفرنس نے یہ عہد بھی کیا کہ اگرچہ فلسطینی قوم نے اپنا شعار یہ چنا ہے کہ الجوع ولا الرکوع ، ’’ بھوکا رہ لیں گے دشمن کے آگے نہیں جھکیں گے‘‘۔ لیکن اُمت کا عہد ہے کہ لا الجوع ولا الرکوع ، ’’نہ بھوکا چھوڑیں گے اور نہ جھکنے دیں گے‘‘۔ علامہ قرضاوی بتارہے تھے کہ فلسطین کی مدد کے لیے کی جانے والی اپیل کے نتیجے میں اُمت مسلمہ ایثاروقربانی کی   نئی تاریخ رقم کررہی ہے۔ مصر اور اُردن میں اخوان کی اپیل پر شروع کی جانے والی امدادی مہم کے دوران چند گھنٹوں میں کروڑوں جمع ہوگئے ہیں۔ مصر میں مالی مدد کے علاوہ ۲۰کلو سونا بھی جمع ہوا ہے۔ مجھے ایک صاحب نے ایک پیٹی بھجوائی‘ کھولی تو اس میں ۵۰لاکھ ریال (تقریباً سوا آٹھ کروڑ روپے) تھے۔ بھجوانے والے نے اپنا نام نہیں بتایا اور کہا کہ یہ فلسطین بھجوا دیں۔

محترم قاضی صاحب نے بھی اپنے خطاب میں اسی بات پر زور دیا تھا کہ فلسطینی قوم کی سب سے بڑی قوت اس کا حق پر ہونا ہے اور حق پر ثابت قدم رہ کر ہی کوئی قوم فلاح پاسکتی ہے۔ فلسطینی قوم نے اپنے حقوق سے دست بردار نہ ہوکر ثابت کیا ہے کہ اسے غلام نہیں بنایا جاسکتا۔

قاضی صاحب کی اس بات کی تائید نومنتخب فلسطینی حکومت میں وزیر براے امور اسیران انجینیر وصفی کبہا کے انٹرویو سے بھی ہوتی ہے جو خود بھی چھے سال سے زائد عرصے تک صہیونی جیلوں میں گرفتار رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان صہیونی جیلوں میں ۹ہزار۵ سو فلسطینی قیدی ہیں جن میں سے ۳۵۵ بچے اور ۱۴۰ خواتین ہیں۔ ان میں سے ۱۳ فی صد قیدی ایسے ہیں جنھیں ۵۰سال سے زیادہ کی سزا سنائی جاچکی ہے لیکن کسی قیدی کے پاے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی۔

انجینیر وصفی سے پوچھا گیا کہ کوئی ایسا واقعہ جس نے تمھیں بہت متاثر کیاہو‘ کہنے لگے: میں وزارت کی ذمہ داری ملنے کے بعد دفتر گیا تو ہماری وزارت میں ملنے والی ایک فلسطینی لڑکی    وفا حسن علی نے ملاقات کی اور بتایا کہ میں ۲ اگست ۱۹۸۲ء میں پیدا ہوئی تھی‘ جب کہ میرے والد صاحب کو ۸ اگست ۱۹۸۲ء کو گرفتار کرلیا گیا تھا یعنی کہ میری پیدایش کے چھے روز بعد۔ آج ۲۴ سال ہونے کو آئے ہیں اور میرے والد صہیونی جیل میں ہیں۔ اسی طرح ایک اور خاتون اُم شادی براستی آئیں اور انھوں نے بتایا کہ میرے بیٹے محمد کو تین بار عمرقید کی سزا ہوچکی ہے۔ دوسرا بیٹا رمزی بھی    صہیونی جیل میں ہے اور اسے بھی عمرقید کی سزا سنائی جاچکی ہے‘ تیسرے بیٹے شادی کو چارسال کی سزا دی گئی ہے اور پانچویں بیٹے سعید کو بھی چارسال کی سزا سنائی گئی ہے‘ جب کہ چھوٹا بیٹا صابر شہادت کی دہلیز عبور کرکے رب کے حضور پہنچ گیا ہے لیکن یہ ماں خود ہمیں ثابت قدمی کی تلقین کر رہی تھی۔ جب تک ایسی مائیں زندہ ہیں اور تمام قربانیوں کے باوجود اپنے حقوق اور قبلۂ اوّل سے دست بردار ہونے یا اسرائیل نامی کسی ناجائز وجود کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں انھیں کون شکست دے سکتا ہے۔ ایسے قدسی نفوس کی وارث تحریک حماس کو کون شکست دے سکتا ہے!