اس ضمن میں پہلی بات یہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ تحریک اسلامی کا یہ پورا نظام ایک اجتہادی نظام ہے ۔ اگر ہم قرآن و حدیث میںان اصطلاحات کو تلاش کرنا چاہیں تو وہاں نہیں ملتیں۔ وہاں مومن ‘ مسلم ‘ متقی‘ محسن ‘ یہ ساری اصطلاحات تو ملتی ہیں لیکن رکن ‘امیدوار ‘رفیق اورحامی کی اصطلاحات موجود نہیں ہیں‘ اور نہ کہیں یہ احکام ملتے ہیں کہ اس قسم کا نظام بنایا جائے۔ یہ بات میں نے شروع میں اس لیے کہی ہے کہ بنیادی طور پر دین کا کام کرتے ہوئے دو چیزوں کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنا بڑا ضروری ہے۔ ایک وہ چیز ہے جو انسانوں نے اپنے فہم ‘ سمجھ بوجھ اور استنباط و اجتہاد سے وضع کی ہے‘ اور دوسری وہ چیز ہے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر دیا ہے ۔ مثال کے طور پر پانچ وقت کی نماز اجتہاد نہیں ہے بلکہ منصوص ہے ۔ اسی طرح سود کی حرمت اجتہاد نہیں منصوص ہے ‘ جب کہ جو چیزیں اجتہادی ہیں وہ انسان کے اپنے فہم پر مبنی ہیں۔
اس لحاظ سے جب یہ نظامِ رکنیت بنایا گیا تو اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اقامت دین فرض ہے ۔ اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے ‘ مردوں کے لیے بھی اور عورتوں کے لیے بھی۔ چنانچہ اس اجتماعیت کو وجود میں لانے یعنی اسے عملی شکل دینے کے لیے ہم نے اپنے زمانے اور حالات کے لحاظ سے اور اپنی سہولت کے مطابق جس نظام کو بہترین سمجھا‘ وضع کرلیا۔چونکہ مقصد شریعت کا منصوص ہے ‘ اس لیے رکنیت کی ایک دینی و شرعی حیثیت بھی ہو گئی۔
دوسری بات جو اس سلسلے میں ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک اور بھی دینی مقصد منصوص ہے جس کے لیے یہ رکنیت کانظام اور تنظیم بنائی گئی ہے‘ اور وہ ہے اقامت دین کا فریضہ۔ اقامت دین کے فریضے کی ادایگی کے لیے اگر کوئی چیز ہر ایک پر فرض ہے تو وہ دعوت کا کام ہے۔ میں چاہوں گا کہ ان الفاظ پر آپ اچھی طرح غوروفکر کریں اورانھیں جذب کریں کیونکہ رکن بننے کے لیے جہاں جماعت اسلامی کا دستور چند بنیادی شرائط عاید کرتاہے ‘ اوررکن بننے کے بعد جو کچھ کرنا ہے اس کے لیے اپنے سیرت و کردار میں بتدریج کچھ تبدیلیوں کا تقاضا کرتا ہے‘ وہاں ہر رکن کے لیے وہ اس بات کو بھی لازم قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے حلقۂ تعارف میں دعوت کا کام کرے‘ اور یہ کارِ دعوت اس کے لیے فرض ہے ۔ لہٰذا ہر رکن دائمی مبلغ ہے ‘ اور شعبہ دعوت و تبلیغ ایک ایسا شعبہ ہے کہ جس کا ہر رکن اورہر کارکن ممبر اور رکن ہے ۔
اگر یہ دو چیزیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں واضح ہیں ‘ تو پھر اس سے ہٹ کر کچھ اورچیزیں بھی ہیں جنھیں ہر رکن کو سوچ سمجھ کر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔
ہمارا رکنیت کا یہ نظام جو منصوص نہیں ہے‘ دراصل اس لیے بنایاگیا ہے کہ ہم جن حالات میں کام کررہے ہیں ‘ یہ وہ حالات نہیں ہیں جو اس وقت موجود تھے جب قرآن نازل ہو ا اور سنت کی تدوین ہوئی۔ اُس وقت ایک بگڑا ہوا مسلمان معاشرہ جو زوال پذیر ہو موجود نہیں تھا‘ بلکہ ایک طرف کفار تھے اور دوسری طرف مومن ‘نیز وحی الٰہی اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں براہِ راست خدا کی رہنمائی موجود تھی ۔ ہمارے پیش نظر ایک بگڑا ہوا اور زوال پذیر مسلمان معاشرہ ہے جس کی اصلاح درپیش ہے۔ ہمیں جہاں ایک طرف حقیقی فہم دین ‘ اہل علم اور علماے دین کی ضرورت تھی وہاں یہ بات بھی واضح ہے کہ ہم کو تہذیبی اور تمدنی معمار بھی بننا ہے ۔ یہ الفاظ بھی ہمارے ہاں استعمال ہوئے ہیں کہ رکن وہ ہیں جو تہذیبی اور تمدنی معمار ہوں‘ جو دنیا کے اندر ایک نئی تہذیب اور ایک نئے تمدّن کے تعمیر کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ ان کی سیرت و کردار بھی ایسا ہو‘ جو اُن کی اپنی اخروی نجات کے لیے بھی ضروری ہے اور اسی سیرت و کردار کے بل پر وہ عوام کے قائد بھی بن سکیں‘ ان کی رہنمائی کر سکیں اور ان کے ملجا بن سکیں‘ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ عوام کے لیڈر بھی بنیں اور تہذیبی و تمدنی معمار بھی اور اپنے بلند کردار کی جاذبیت کی وجہ سے ایک ایک علاقے کے عوام کو سنبھال سکیں اور ان کی ذات عوام کا مرجع بن جائے۔ گویا وہ معاشرے سے الگ تھلگ اور کٹے ہوئے نہ رہیں‘ بلکہ لوگ خود ان کی طرف رجوع کریں کہ یہ ہیں وہ لوگ جن کے پاس ہم کو جانا چاہیے۔
یہ چند بنیادی پہلو ’رکنیت کیا اور کیوں‘ کے تصور کو اجاگر کرتے ہیں۔ ہر رکن کو انھیں سمجھنا اور جاننا چاہیے۔
فریضہ اقامت دین اور دعوت الی اللہ کی ادایگی کے لیے پہلی ضرورت انفرادی سیرت و کردار کی تعمیر ہے ۔ اگر پیش نظر تہذیبی و تمدنی معمار بننا ہو تو اس کے لیے سب سے بڑھ کر اپنی ذات کی تعمیر ضروری ہے ۔ اگرچہ اپنی ذات کی تعمیر کوئی ایسی ضروری چیز نہیں ہے کہ جس میں آدمی گم ہوجائے اور کھوجائے ‘ بلکہ رکنیت کا فارم بھر کے اور ضابطے کی کارروائی پوری کر کے ‘ کتابیں پڑھ کے اور کچھ اجتماعات میں حاضری دے کے جو رکنیت حاصل ہوتی ہے وہ رکنیت ہمارا مقصود نہیں ہے۔ مقصود تو رکنیت کا وہ تصور ہے کہ یہ ایک فریضہ ہے ‘ اوررکنیت کا یہ معیار مطلوب ہے کہ ارکان مثالی سیرت و کردار کے حامل ہوں تاکہ وہ تہذیبی و تمدنی معمار بن سکیں‘ اور انھیں عوام کی لیڈر شپ حاصل ہو سکے‘ یعنی اپنے اپنے دائرۂ اثر میں لوگوں کو اپنے پیچھے لے کر چل سکیں۔
اس سلسلے میں بھی چند بنیادی باتیں جاننے کی ضرورت ہے ۔
پہلی بات تویہ ہے کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہوں‘کہ ہماری ذات کی تعمیر صرف کسی اجتماعیت سے وابستہ ہو جانے سے ہو جائے گی تو میرا خیال ہے کہ یہ غلط فہمی ہوگی ۔ اگرچہ اپنی ذات کی تعمیر کے لیے اجتماعیت میں شمولیت بڑی ضروری اور ناگزیر ہے اور انسان کی ذات ایسی ہے کہ اجتماعیت کے سانچے میں آکر ہی اس کی تعمیر ممکن ہے‘ لیکن اجتماعیت ‘ وعظ و نصیحت ‘ درس و تقریراور کتاب اور لٹریچر‘ ان میں سے کوئی چیز بھی ذات کی تکمیل کے لیے کافی نہیں ہے ۔ یہ سب بھی موجود ہوں تو ذات کی تعمیر میں نقص اور کمی رہ سکتی ہے ۔ ذات کی تعمیر کے لیے سب سے بڑھ کراپنی کوشش اور عمل کی ضرورت ہے ۔ گویا کہ اپنے آپ کو خود سنبھالنا ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کو بے پناہ قوتیں اور صلاحیتیں بخشی ہیں۔ ہر نفس کے اندر اس نے اپنی روح پھونکی ہے‘ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ(صٓ۳۸:۷۲) ۔ہر ایک کو سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کی صلاحیتوں سے آراستہ کیا ہے ۔ ہر شخص کی ذات میں ایک دنیا مخفی ہے۔ان سب صلاحیتوں سے کام لینا ‘ ان کی تنظیم و تربیت کرنا ‘ ان کو پروان چڑھانا‘ اپنی ذات کی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے ۔ ملک کا انتظام اور دنیا کی امامت سنبھالنے سے پہلے ‘ اپنی ذات کی امامت سنبھالنا اور اپنی ذات پر قابو پانا اور اس پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنا ضروری ہے۔
ہماری ذات ہمارا کردار اور شخصیت کیسی بھی ہو‘ ہمارا نام ارکان کی فہرست میں دیکھ کر فیصلہ نہیں ہوگا‘ بلکہ اعمال نامہ دیکھ کر فیصلہ ہوگا ۔ اسی طرح ناظم کا اور شوریٰ کا فیصلہ بھی اس کی ترازو میں کوئی وزن نہ رکھے گا بلکہ اعمال کی شہادت ہی فیصلے کی اصل بنیاد ہوگی۔ اس حقیقت اور روح کو اگر آپ نے سمجھ لیا اور پا لیا ‘ تب ہی صحیح معنوں میں اپنی ذات کی تعمیر ہو سکے گی۔
اپنی ذات کی تعمیر و تربیت میں اگر صرف دو چیزوں پر خاص طور پر توجہ مرکوز رہے ‘ تو اس کے اندر ساری چیزیں سمٹ آتی ہیں۔
پہلی چیز ’للہیت ‘ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے‘ یعنی جو کام کریں اللہ کے لیے کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ سب خرابیاں اخلاص کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح اعمال میں جو وزن پیدا ہوتا ہے وہ اخلاص کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں خلافت کا وعدہ بھی اخلاص کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔ جہاں لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ (النور۲۴:۵۵۔ وہ انھیں زمین میں خلیفہ بنائے گا۔) کا وعدہ ہے وہاں یہ شرط بھی ہے: یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ(۲۴:۵۵- یعنی صرف میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کریں)۔ صرف اس صورت میں وہ ان کو زمین میں خلافت اور غلبۂ دین عطا کرے گا اور خوف کوامن سے بدل دے گا۔ یہ اللہ کے ساتھ تعلق اور اس کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے کا نتیجہ ہے۔ پھر بڑے بڑے عوامی ‘ سیاسی ‘ دعوتی اور تنظیمی کاموں میں بھی یہی رنگ آئے گا۔ صبغت اللّٰہ اللہ کا رنگ غالب آئے گا‘ اور ان میں سے ہر ایک تربیت کا ذریعہ بنے گا۔ دوسری صورت میں اجتماعات میں لوگ آئیں گے اوراٹھ کر چلے جائیں گے۔ خَرَجُوْا کَمَا دَخَلُوْا جس طرح داخل ہوئے تھے‘ اسی طرح نکل کے چلے جائیں گے۔ کوئی رنگ ان پہ نہیں چڑھے گا ‘ اور کوئی چیز ان کے دلوں میں نہیں اترے گی۔
دراصل للہیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اخلاص کا نام ہے ۔ اس کے بغیر دین کا کوئی کام نہیں ہو سکتا اور اللہ کے ہاں قبول بھی نہیں ہوسکتا۔ مشہور حدیث ہے : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ،کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ شہدا کی شہادت ‘ مال داروں کا انفاق اور قرآن کے عالموں کا درس‘ ان میں سے کوئی بھی چیز ان کو فائدہ نہیں دے گی اگراس کے ساتھ للہیت اوراخلاص نہ ہو۔ تحریک اسلامی سے وابستہ ہو کر جو کچھ بھی ہم کر رہے ہیں‘ اس سب کا ہماری ذات کے لیے آخرت میں اگر کوئی فائدہ ہے اور اگر دنیا میں بھی کوئی پھل ملے گا‘ تو وہ صرف للہیت اور اخلاص کی وجہ سے ملے گا‘ خواہ ہم رکن ہوں یا نہ ہوں۔
تعلّق باللّٰہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق تو ایک الگ موضوع ہے۔ مختصراً میں اس کا بھی تذکرہ کرنا چاہوں گا ۔ اس ضمن میں چند چیزیں جو مختلف جگہوں پرمختلف طریقوں سے بیان ہوئی ہیں‘ ان میں سے صرف دو تین دعائیں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں تاکہ آپ کو یہ اندازہ ہو کہ کس قسم کا بندہ بننا مطلوب ہے۔ ایک دعا کے چند جملے ہیں:
رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ ذَکَّارًا ،میرے رب مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھے بہت یاد کروں۔
لَکَ شَکَّارًا ، اور بہت کثرت کے ساتھ اپنا شکر کرنے والا بنا دے۔
لَکَ رَھَّابًا ، تجھ سے بہت ڈرا کروں۔
لَکَ مِطْوَاعًا ، تیری بہت فرماں برداری کیا کروں۔
لَکَ مُخْبِتًا اِلَیْکَ اَوَّاھًا مُّنِیْبًا (ترمذی) تیرے آگے جھکا رہوں‘ اور آہ آہ کرتا ہوا تیری ہی طرف لوٹ آیا کروں۔
یہ ایک طویل دعا کا مختصر سا حصہ ہے ۔ اس میں آپ کے سامنے پوری تصویر کھینچ دی گئی ہے ‘ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیسا تعلق مطلوب و مقصود ہے۔
ایک اور بڑی جامع دعا ہے : اَللّٰھُمَّ طَھِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ، اے اللہ تو میرے دل کو منافقت سے پاک کر دے‘ یعنی کہیں پر بھی دو رنگی نہ ہو ‘کہ زبان پر کچھ ہو‘ اورعمل کچھ اور ہو‘بلکہ یکسانیت ہو۔ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِّیَا ، اورجو کام ہو اس کو ریا سے پاک کر دے‘ یعنی دکھاوے کے لیے نہ ہو۔ ہر کام میں صرف تیری رضا پر نظر ہو‘ اور صرف تیرے لیے کام کروں۔ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ اور زبان کو جھوٹ سے پاک کر دے۔ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخَیَانَہِ اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک کر دے۔
ایک اور مختصر سی دعا ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الرِّضَا بِالْقَضَائِ وَبَرْدَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، (اے اللہ تو جو بھی فیصلہ کردے‘ اس پہ مجھے راضی رکھ ‘ اور موت کے بعد جو زندگی ہے اس زندگی کی لذت عطا کر)۔ گویا اصل مطلوب دنیا کی نعمتوں کی لذت نہیں بلکہ خدا کی رضا اورآخرت کی لذتیں ہیں۔ پھر فرمایا: وَلَذَّۃَ النَّظْرِ اِلٰی وَجْھِکَ الْکَرِیْمَ، (اور تیرے کریم چہرے کو دیکھنے کی لذت)۔ اس کے بھی دو معنی ہیں جو عام طور پر سمجھ میں نہیں آتے۔ ایک تو یہ ہے کہ آخرت میں تیرے چہرے پرنظر جمانے کی جو مجھے لذت ملنے والی ہے ‘ وہ مجھے عطا کر۔ لیکن آپ غور کریں تو اس کے ایک اورمعنی بھی ہیں‘ یعنی یہ کہ دنیا کے ہر کام میں ‘ تو اپنے چہرے پرنظر جما کے اپنی رضا طلب کرنے میں لذت پیدا کردے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام جبراً نہ ہو‘ مارے باندھے کا نہ ہو۔کوئی توجہ دلائے ‘کوئی ترغیب دے یا بالائی نظم کی طرف سے ہدایت یاسرکلر آئے تو کام ہو‘ بلکہ تیری رضا کی طلب میں ہو‘ یعنی یہ کہ جو ہو بس اسی کے لیے ہو جائے اور اس میں لذت پیدا کردے۔ وَالشَّوْقَ اِلٰی لِقَائِکَ، اور تیری ملاقات کا شوق۔
یہ تین دعائیں میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں۔ ویسے تو بہت سی دعائیں ہیں۔ میں نے دعائوں کو اس لیے وسیلہ بنا لیا‘ کہ دعا دراصل اپنی دل کی پیاس کا نام ہے ۔ انسان وہی چیز مانگتا ہے جس کی ضرورت کا اسے احساس ہوتا ہے ۔ ان چھوٹی سی تین دعائوں میں وہ تمام باتیں بیان ہوگئی ہیںجو للہیت اور تعلق باللہ کے لیے ضروری ہیں اور جن کی پیاس ہونی چاہیے‘ بھوک ہونی چاہیے‘ طلب ہونی چاہیے‘ جستجو ہونی چاہیے۔
میں دو چیزوں میں تعمیر کردار کو سمیٹنا چاہ رہا تھا۔ ایک چیز’’ للہیت‘‘ اللہ کے ساتھ تعلق ہے‘ اور دوسری چیز مخلوق کے ساتھ عدل اور احسان کا سلوک ۔
ہمارے ایک مشہور مصنف کا قول ہے کہ ’’مخلوق کو ایذا نہ پہنچانا‘یہ ساری شریعت کی بنیاد ہے‘‘۔ حکم ہے کہ اگر تین آدمی ایک جگہ اکٹھے ہوں تو دو آدمی الگ ہو کر بات نہ کریں۔ بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونے کی ممانعت ہے۔ اسی طرح شادی‘ خاندان‘ تجارت‘ ریاست اور سیاست کے سارے اصول اسی بنیاد پر ہیں کہ کسی انسان کو کسی دوسرے انسان سے تکلیف نہ پہنچے ۔ حکم ہے کہ‘ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ‘ مال اور اس کی عزت مکمل طور پر حرام ہے۔ ہمارے معاشرے میں خون بہانے کی نوبت تو بہت کم آتی ہے‘ اورشاید کچھ لوگ دوسروں کا مال بھی جائز ناجائز طریقے سے کھالیں لیکن کسی دوسرے کی عزت پر دست درازی بڑی عام ہے‘ جب کہ اسلام میں برائی کے ایک ایک رخنے کو بند کر کے مسلمان کی عزت کو بحال کیا گیا ہے ۔
ایک تیسری بات بھی قابل غور ہے کہ تربیت کے لیے مصنوعی ذرائع کے بجاے فطری ذرائع پر انحصار کر نا چاہیے۔ تربیت کے لیے بڑے بڑے نصابوں اور تربیت گاہوں سے گزرنا بالکل ضروری نہیں ہے ۔ اگرچہ ان سب سے تربیت میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ذرائع اہمیت کے حامل ہیں۔ تربیت کا فطری طریقہ یہ ہے کہ روز مرہ زندگی میں ان پہلوئوں پر توجہ مرکوز رہے ‘ یعنی کہیں کسی کو مجھ سے تکلیف نہ پہنچ جائے‘ کسی کا دل خوش کر دوں ‘ کسی سے مسکرا کے مل لوں‘ تو ان اعمال کی بنا پر بھی اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر سکتا ہے ۔ کسی کے راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دی جائے تو اس پر بھی جنت مل سکتی ہے ۔ کسی کی زندگی میں کوئی آسانی پیدا کر دی جائے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا سکتی ہے اور اس کے قرب سے نواز سکتی ہے ۔ اسی طرح اس کے ذکر ‘ شکر اور خوف اور توبہ و استغفار کا معاملہ ہے۔ یہ سب چیزیں تربیت کا ذریعہ ہیں۔ اگرچہ روز مرہ کام ہی جاری رہیںگے‘ اورمعمول سے ہٹ کر کچھ نہ کرنا ہو گا‘ لیکن ان کے ذریعے سے ہر چیز میں وہ روح پیدا ہو جائے گی جو قلب کو آہستہ آہستہ صاف کرے گی‘ اس کو جلا بخشے گی اور کردار سازی کا ذریعہ ہوگی۔ ان سب باتوں کا تعلق ایک فرد کی ذات اورانفرادی تربیت سے ہے۔
تربیت کا دوسرا پہلو اجتماعیت سے متعلق ہے ‘ اور وہ یہ کہ ہماری اصل ذمہ داری ایک نئے تہذیب و تمدن کی تعمیر ہے۔ اسلامی تحریک اسی لیے وجود میں آئی ہے ۔ یہ سارے کام جن کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ کسی خانقاہ میں بھی ہو سکتے ہیں‘ اور اس سے قبل ان کو کرنے والے خانقاہوں میں ہی پائے جاتے تھے۔ اسی طرح علمِ دین کسی مدرسے سے بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن اصل چیز جس کی وجہ سے ہم سب جمع ہوئے ہیں‘ اورجس نے ہمارا آپس میں تعلق قائم کیاہے ‘وہ اس کے علاوہ اورکیا ہے کہ ہم دنیا کے اندر اللہ کے دین کی بنیاد پرایک نئی تہذیب اور ایک نئے تمدن کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں۔ امامتِ عالَم پر ہماری نظر ہے‘ جیسا کہ مکہ اورمدینہ میں بالکل بے بس و بے کس اورمظلوم انسانوں کے ذہن میں یہ بات تھی کہ عرب و عجم اور قیصر و کسریٰ کے خزانے اور ساری دنیا ہمارے قدموں میںہے۔ اسی لیے جیسے ہی وہ مدینہ سے نکلے تو ان کے ہاں یہ بحث نہیں چھڑی تھی کہ ہم سیاست میں پڑ گئے ہیں یا ہم فتوحات اور مالِ غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے ہیں‘ بلکہ اندلس کے ساحل تک پہنچ کر بھی یہی کہا گیا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ اس کے آگے بھی کوئی اور زمین ہے تو ہم وہاں بھی اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے ضرور پہنچ جاتے ۔یہ تحریک بھی دراصل اسی لیے بنی ہے‘ اور اسی لیے آپ اس کا حصہ ہیں۔ اگر یہ مقصد ذہن سے محو ہو جائے تو پھر یہ تعلق باللہ اور یہ ساری چیزیں اگرچہ بڑی عمدہ اوربڑی اچھی ہیں اور ان شاء اللہ یہ نجات میں بھی مدد دیں گی‘ لیکن یہ مطلوب نہیں ہے۔ مطلوب تو دراصل غلبۂ دین اور ایک نئے تہذیب و تمدن کی تعمیر ہے۔
ہماری تحریک کا بنیادی مقصد اوراہم ترین کام تہذیب و تمدن کی تعمیر ہے۔ اسی لیے ہمارے لٹریچر میں بار بار کہا گیا ہے کہ ہمیں قیادت کا منصب سنبھالنا ہے۔ ایک ایک علاقے کے عوام کو سنبھالنا ہے۔ آپ کی ذات عوام کا مرجع بن جائے‘ آپ تعمیر اقدار کے ساتھ ساتھ اجتماعی قیادت بھی سنبھالیں۔ آپ عوام کے لیڈر ہی نہیں‘ تہذیب و تمدن کے معمار بھی ہوں ‘ اور بہترین سیرت کے حامل بھی ہوں۔ اس کے لیے اسی معاشرے سے ہم کو ہر اُس قوت کو جمع کر لینا اور اپنے ساتھ ملانا ہے جو معاشرے کی تبدیلی اور تہذیب و تمدن کی تعمیر میں ہمارا ہاتھ بٹاسکے۔
تحریک اسلامی سے وابستہ یہ گروہ اس لیے بھی نہیں ہے کہ اپنی ذات میں گم ہو جائے‘ اور اپنی تعداد سے مطمئن ہو جائے کہ ہم نے طے شدہ تنظیمی کام کر لیے ہیں اور یہ کافی ہیں۔ دراصل وہ تمام لوگ جن تک یہ دعوت نہیں پہنچی ‘ وہ سب اس بات کے منتظر ہیں کہ ان تک یہ دعوت پہنچائی جائے۔ وہ قیامت کے روز ہمارا دامن پکڑ سکتے ہیں‘ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ تمھارے پاس تو حق پہنچاتھا‘ مگر تم نے ہم تک اسے نہیں پہنچایا ‘ تم نے ہم کو اپنے دامن میں نہیں سمیٹا ‘ اوراپنے ساتھ لے کر دین کی راہ پر نہیں چلایا۔ یہ وہ چیز ہے جو سب سے اہم ہے ‘ اورجس کے لیے یہ تحریک برپا ہوئی ہے اور جس کے بغیر ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا ۔
اس ضمن میں جو سب سے زیادہ کارگر چیز ہے وہ اخلاق حسنہ ہے ۔ کوئی اور چیز اتنی مؤثر نہیں ہو سکتی جتنا آپ کا اخلاق حسنہ ہوسکتا ہے ۔ جو کام اخلاق حسنہ کر سکتا ہے ‘ وہ کام نہ کتاب کر سکتی ہے ‘ نہ تقریر ‘ نہ وعظ اور نہ اجتماع ہی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہفتے میں دو دن سے زیادہ وعظ کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ آپؐ کا جمعے کا خطبہ بڑا مختصر ہوا کرتا تھا‘ نیز آپؐ جگہ جگہ تقاریر بھی نہیں کیا کرتے تھے۔ اگر میری بات کو غلط نہ سمجھا جائے اور میں قرآن کی اہمیت کو کسی طرح بھی کم نہیں کر رہا‘ اگر سیرت النبی ؐ کا جائزہ لیا جائے ‘ واقعات کو دیکھا جائے‘ تو جو لوگ قرآن سن کر یا پڑھ کر ایمان لائے‘ ان کی تعداد انگلیوں پہ گنی جا سکتی ہے‘ جب کہ وہ لوگ جو حاملِ کتاب کا اخلاق اور چہرہ دیکھ کر ایمان لے آئے ‘ وہ فوج در فوج تھے۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا روشن چہرہ دیکھ کر ایمان لے آیا ‘ کوئی آپؐ کا دل نواز حسنِ اخلاق دیکھ کر متاثر ہو گیا‘ کسی نے آپؐ کی فیاضی دیکھی ‘ اور کسی کے سینے پہ آپؐنے ہاتھ رکھ دیا اور اس کی ٹھنڈک محسوس کر کے وہ آپؐکا گرویدہ ہو گیا۔ اس طرح بڑی تعداد میں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ یہی وہ لوگ تھے جن سے وہ قوت بنی جس نے اسپین سے لے کر چین تک اسلام کو غالب کر دیا۔
اگر آپ یہ چاہیں کہ معاشرے سے الگ تھلگ ہوکر اپنے تنظیمی کام میں مصروف رہیں‘ اورایک بڑی تعداد میں عام لوگ ‘ نوجوان ‘ طلبہ و طالبات ‘ مرد و خواتین آپؐ کے اس اخلاق کی ایک جھلک نہ دیکھ پائیں کہ جونبی کریمؐ کے پاس تھا ‘ تو پھر دعوت کا کام وسیع پیمانے پر اور اس مؤثر انداز میں نہیں ہو سکتا جو اس کا فطری تقاضا ہے۔
دعوت دین ‘ شہادت حق اور فریضہ اقامت دین کی بہ احسن ادایگی کے مزید کچھ اور تقاضے بھی ہیں‘ ان کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے‘ مثلاً: معاشرے میں دعوت کو قبول کرنے کی استعداد۔
تہذیب و تمدن کی تعمیر‘ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ معاشرے کے اندر ہوگی ‘ لہٰذا معاشرے کے اندر اس کی استعداد پیدا ہونا بھی ضروری ہے ۔ اس مقصد کے لیے دین کی بنیادی تعلیم ‘ اللہ سے محبت اور تعلق ‘ اور اللہ کے احکامات کی تعمیل کے لیے آمادگی ‘ یہ وہ چیزیں ہیں جو معاشرے کے اندر عام ہونی چاہییں۔ اس لیے ہمارا اوّلین فرض معاشرے کی تربیت کرنا ہے۔ عام انسانوں میں دین پھیلانا ہے ‘ ان کو تعلیم دینا ہے اور ان کی تربیت کرنا ہے۔
تعمیرمعاشرہ کے حوالے سے یہ بنیادی بات بھی ہمیشہ سامنے رہنی چاہیے کہ معاشرہ کبھی ایک سانچے میں نہیں ڈھل سکتا‘ تمام لوگوں میں کبھی ایک جیسی استعداد نہیں پیدا ہو سکتی ‘ اور کبھی بھی سب لوگ ایک معیار کے نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم چاہیں بھی تو سب کو ایک جیسا نہیں بنا سکتے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو متنوع اور مختلف سوچ وکردار کا حامل بنایا ہے ۔ پھر انسانوں کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے: وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا o (النساء ۴:۲۸) ، لہٰذا وہ ضعف اور کمزوری کا شکار ہوگا۔ انسان کو عجلت پسند بھی بنایا گیا ہے ۔ وہ عجلت پسندی کا مظاہرہ بھی کرے گا۔ غرض انسان کا بہت سی کمزوریوں کا شکار ہونا فطری امر ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ انھی انسانوں سے ہمیں وہ قوت فراہم کرنا ہے جس سے ہم معاشرے کی تعمیر کر سکیں اور ایک نئی تہذیب و تمدن کی بنیاد اٹھا سکیں۔ اس حقیقت کو اگر سامنے رکھا جائے تو پھر ہم ہر ایک سے کچھ نہ کچھ حاصل کرسکتے ہیں‘ اور ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دے سکتے ہیں۔ اگر ہم ذروں کو جمع کر لیں تو پہاڑ بن جائے گا‘ اور قطرہ قطرہ دریا بن جائے گا۔ پھر یہی پہاڑ اور دریا بالآخر اس نظام کی حقانیت کو ثابت کردیں گے‘ اور اس سیلاب سے پوری دنیا کے اندر اس دین کو پھیلا دیں گے جس کو ہم نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ صرف ایک گروہ تیار کر لینے سے کام ہو جائے گا تو ایسا نہیں ہوگا۔
میرا یہ نقطۂ نظر قرآن و حدیث اورسیرت کے مطالعے‘ سوچ ‘ فہم اور تجربے کی بنا پر ہے ۔ ممکن ہے کہ آپ کو میری اس بات سے اتفاق نہ ہو ‘ لیکن مجھے اس لیے کامل یقین ہے کہ جب تک ہم یہ صلاحیت نہیں پیدا کر یں گے کہ ہر قسم کے لوگوں کو ہمارے دامن میں پناہ ملے ‘ گناہ گار بھی آئیں اور وہ بھی ہم سے نرمی اورمحبت پائیں‘ اور ہم ان کو توبہ و استغفار کی تلقین کرسکیں اور وہ بھی ہمارے ساتھی بن سکیں‘ بے کس اور نادار آئیں وہ بھی ہمارے ساتھی بن سکیں___ اس وقت تک کوئی بڑی تبدیلی لانا ممکن نہیں ۔
دراصل یہ وہ چیز ہے جس سے ہم وہ قوت فراہم کر سکتے ہیں جو اس کام کو نتیجہ خیز اور پایۂ تکمیل تک پہنچا نے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ اس قوت کے حصول کے لیے بھی کچھ بنیادی اصول ہیں۔اس حوالے سے مختصراً دو تین چیزیں بیان کر دیتا ہوں۔
اس ضمن میںایک اہم اصول تیسیرِ دین کا ہے۔ تیسیر عربی کا لفظ ہے جس کے معنی آسان کرنا اور آسان بنانا کے ہیں۔ حضوؐر نے اس کی بہت نصیحت کی ہے۔ جہاں بھی لوگوں کو مبلغ اور داعی بنا کے بھیجا وہاں اور باتوں کے علاوہ یہ ضرور کہا کہ بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا ، یعنی دین اس طرح پیش کرو کہ لوگوں کو بشارت دو‘ آسانی دو تاکہ لوگ اسے قبول کریں اور ان کو متنفرمت کرنا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ایک جگہ بہت واضح طور پر فرمایا ہے کہ نیکیاں تو ہم وہی قائم کریں گے جن کا اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے‘ برائیاں بھی وہی جڑ سے مٹائیں گے جو اللہ اور رسولؐ نے بتائی ہیں‘ لیکن ہم اس میں تقدیم و تاخیر کرسکتے ہیں۔ البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کن نیکیوں کو ہم پہلے کریں گے اور کن کو بعد میں ‘کن برائیوں کو پہلے مٹائیں گے اورکن کو بعد میں ‘یہ فیصلہ ہم اپنے حالات اور اپنی قوم کی نفسیات کو دیکھ کر ہی کریں گے۔ اگر مریض کی نبض پر ہاتھ رکھے بغیر‘ اور نفسیات کو جانے بغیر ہر ایک کو ایک ہی دوا دی جائے تو وہ غیرمؤثر ہوجائے گی۔ اسی طرح لوگوں کے مزاج کو جانے بغیر اگر عمل کی ترغیب دی جائے تو وہ اس پر عمل پیرا نہ ہوں گے۔
تنظیم کے حوالے سے میں دو باتیں کہنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ جان دار تنظیم وہ نہیں ہے جہاں سارا کام سرکلروں اور بالائی نظم کے حکم پر چلتا ہو۔ روداد جماعت اسلامی حصہ اوّل میں سیدمودودیؒ کے یہ الفاظ بڑے غور طلب ہیں: ’’اصل میں تنظیم وہ ہے جو اُوپر کی ہدایات کے انتظار میں نہ ہو‘ بلکہ اصول و ضوابط معلوم ہوں‘ اور کوئی کہے یا نہ کہے لوگ خود صحیح فیصلے کر کے اپنا کام کریں‘‘۔ جب ہر جگہ اس کی ضرورت پڑے کہ کوئی توجہ دلائے اور آگے بڑھائے تو کام ہو ‘ تو یہ کوئی مؤثر تنظیم نہ ہوگی۔ اصل جان دار تنظیم تو وہی ہو گی کہ کسی بڑے سے بڑے معرکے میں اگر صرف ایک پلٹن بھی میدان جنگ میں ہو تو اس کو معلوم ہو کہ اسے کیا کرنا ہے ۔ اگر کسی کمانڈر انچیف سے اس کا رابطہ نہ بھی ہو ‘ تو پھر بھی وہ اپنی لڑائی لڑے ۔ اس کو یہ معلوم ہو کہ کس طرح لڑنا ہے ‘ کہاں سے آگے بڑھنا ہے ‘ اور کیا حکمت عملی اپنانی ہے۔ اس کے مقابلے میں جو پلٹن ہمیشہ اس بات کی منتظر رہے کہ وائرلس پر حکم آئے گا تو لڑیں گے ‘ وہ پلٹن کسی بڑی جنگ میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ اگر تنظیم سازی اور تربیت میں اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے کہ لوگ از خود کام کریں‘ بغیر اس کے کہ اوپر سے کوئی کہے یا توجہ دلائے۔ نیز ان ضوابط کی حدود میں رہیں جو ضوابط کام کرنے کے لیے متعین ہیں‘ تو اس سے بہت فائدہ ہو گا۔ ایسی تنظیم ایک مؤثر تنظیم کی طرح آگے بڑھ سکتی ہے۔
یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ تنظیم ازخود کوئی مقصد یا مطلوب نہیں ہے۔ اگر تحریک کے وسائل اور انسانوں کا بڑا حصہ تنظیم پر صَرف ہونے لگے ‘ تو اس کے معنی ہیں کہ کہیں کوئی نہ کوئی خرابی ہے ۔ اس لیے کہ اصل کام تو دعوت و تربیت ‘ عوام کو تیار کرنا‘ منظم کرنا اور ان تک بات پہنچانا ہے۔ تنظیم تو اس کا ایک ذریعہ ہے ۔ اگر ذریعہ ہی وسائل کا بڑا حصہ کھانا شروع کردے اور زیادہ تر وسائل اسی پر کھپنا شروع ہو جائیں تو یہ سرا سر خسارے کا سودا ہے ۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ اگر مسجد بنانے میں ہی سارا مال اور سب کچھ لگ جائے اورنماز پڑھنے کی فرصت ہی نہ ہو تو پھر مسجد بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ حالانکہ مسجد تو بڑی محترم و مقدس جگہ ہے ۔ لہٰذا یہ وہ پہلو ہے جو تنظیم کے بارے میں سامنے رکھنا بہت ضروری ہے کہ تنظیم دعوت کے کام اور اصل اہداف کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے ‘ وسائل کا بڑا حصہ اس حوالے سے صرف ہو‘ نہ کہ تنظیم کو برقرار رکھنے میں۔
ایک اور اہم بات جو کام کرتے وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے‘ وہ یہ کہ تدبیر اور حکمت عملی ایک چیز ہے اور اصول ایک دوسری چیز ۔ اس اصول کو سامنے رکھیں کہ زمانے اورحالات کے ساتھ ‘ اگر تحریک میں اتنی اہلیت نہ ہو ‘ اتنی قوت اور دماغی صلاحیت نہ ہو کہ اپنی سوچ ‘حکمت عملی اور تدابیر کو حالات کے لحاظ سے بدل سکے تو پھر مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں اس کی مثال ایک ایسے عطار کی ہو گی جس کے پاس نسخوں کی ایک کتاب ہو اور وہ اس کتاب سے ہر ایک کو ایک ہی نسخہ بنا کر دے رہا ہو ‘ یہ جانے بغیر کہ مرض کیا ہے ‘ اس کی حالت کیا ہے ‘ کن مسائل کا اسے سامنا ہے ‘ کس مریض کو کس چیز سے پرہیز کرانا ہے‘ اورکس کو کس دوا سے فائدہ ہوگا‘ اگرچہ بظاہر مرض ایک ہی نظر آتا ہو۔ ایک ایسے عطار کی طرح جو حکمت سے خالی ہو اگر اسلامی تحریک بھی ہر قسم کے حالات میں ایک ہی حکمت عملی پر عمل پیرا رہے تو وہ دین کے کام کو آگے نہیں بڑھا سکتی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: جماعت اسلامی ، حکمت عملی اور لائحہ عمل‘ ترتیب : خرم مراد‘ ترجمان القرآن‘ جنوری ۱۹۹۳ئ)
غور کیجیے کہ حکمت اور حُکم دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں‘ دونوں کا ایک ہی مادہ ہے ‘ یعنی ح ‘ ک ‘ م۔ حکمت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ نے جہاں کتاب کی تعلیم دی وہاں حکمت کی تعلیم بھی دی۔ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ (اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) ’’وہ ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے ‘‘۔ میرے نزدیک یہاں کتاب کے معنی احکام کے ہیں‘ اور حکمت کے معنی دراصل ان احکام کو نافذ کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے جس سمجھ بوجھ اورفہم کی ضرورت ہے اس کے ہیں۔ حکمت کے بغیر صرف احکام سے کام نہیں کیا جا سکتا ‘ حکمتِ دین کا فہم ناگزیر ہے۔ لہٰذا اپنی تدبیر اورحکمت عملی میں تغیر و تبدل کی قدرت اور استطاعت رکھنا‘ یہ وہ چیز ہے جس کی دعوت دین اوراقامت دین کے فریضے کی ادایگی کے لیے ہر لمحے ضرورت پڑتی ہے۔
اس کام کو کرتے ہوئے ایک بنیادی بات اضطراب اور بے چینی کا پیدا ہونا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کو مزید بہتر انداز میں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف جائزے میں لکھ دیا جائے کہ ہم کو کام بہتر سے بہتر انداز میں کرنا چاہیے‘ بلکہ واقعتاً ایک اضطراب اور بے چینی پائی جانی چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بہتر ہونا چاہیے ۔ اگر یہ احساس نہیں پایا جاتا اور یہ سوچ پیدا ہوجائے کہ جو کچھ ہو رہا ہے‘ ٹھیک ہو رہاہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی منزل اور اپنے مقصد سے غافل ہیں اور ہمیں کوئی احساس نہیں ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جو عظیم الشان مقصد ہمارے پیشِ نظر ہے اور اللہ نے اقامتِ دین کی جو ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ڈالی ہے ‘ اس کو بخوبی نبھانے اور اس کا حق ادا کرنے کے لیے بہت کچھ سوچنے‘ مضطرب اور بے چین رہنے کی ضرورت ہے ۔ نبی کریمؐ کس قدر مضطرب رہتے تھے‘ اس کی عکاسی اس آیت قرآنی سے ہوتی ہے: فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا o (الکھف ۱۸:۶)‘ گویا آپؐ اپنا گلہ گھونٹ ڈالیں گے اس بات کے پیچھے کہ سب لوگ مومن ہو جائیں ‘ اور سب لوگ ہمارے ساتھ آجائیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے ۔ اس میں نہ کوئی ڈانٹ ہے اورنہ کوئی تنبیہہ ‘ بلکہ بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے۔ حضوؐر کی بے پناہ خواہش تھی اور وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح لوگ اسلام قبول کر لیں ۔ اس کے لیے آپؐ بڑی تگ و دو کرتے تھے‘ اور مضطرب رہتے تھے ۔ آپؐ کے اسی اضطراب کی بنا پر حضوؐرکو مخاطب ہوکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ تم چاہو تو سیڑھی لگا کے آسمان پہ چڑھ جائو‘ اور سرنگ کھود کے زمین میں گھس جائو‘ لیکن سب لوگ تمھاری بات ماننے والے نہیں ہیں‘‘۔ یہ بھی کوئی تنبیہہ نہیں ہے بلکہ حضوؐر کی جو قلبی کیفیت تھی‘ آپؐ کی جو نفسیات ‘ اور آپؐ میں جو اضطراب اور بے چینی تھی‘ دل کی گہرائیوں سے آپؐ کی جو تڑپ تھی کہ لوگ میری بات مان جائیں اور نجات پا لیں‘ یہ اس کی عکاسی ہے‘ اور بڑی خوب صورت عکاسی ہے۔ یہ ایک داعی کے اضطراب کی بہترین مثال ہے۔
اس راہ میں قناعت ایک کینسر کی مانند ہے ‘ جب کہ اضطراب اور بے چینی وہ اصل قوت ہے‘ جس سے کام آگے بڑھتا ہے۔ اسی لیے حضوؐر کو حمد کے ساتھ استغفار کرنے کا حکم دیا گیا ۔ لوگ جب فوج در فوج دین میں داخل ہو رہے تھے تو فرمایا: فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ط (النصر ۱۱۰:۳) ’’پس آپ اپنے رب کی حمد کیجیے اور اس سے مغفرت مانگیے‘‘۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے رب کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں ہدایت دی ‘ حق کی راہ دکھائی ‘ اس راہ پر چلایا‘ اس کا شعور بخشا اور اس کے لیے اضطراب اور بے چینی سے نوازا۔ یہ کوئی کم نعمت نہیں بلکہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن جتنی بڑی نعمت ہے اس کا اتنا ہی بڑا حق ہے۔ اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ اسی طرح جہاں شکر کرنے کی ضرورت ہے وہاں استغفار بھی کیجیے کہ جو حق ہے وہ ادا نہیں ہورہا‘ اور اس راہ میں کوئی کمی کو تاہی ہو تو اسے اللہ معاف کر دے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس کام کے کرنے پر کبھی اپنے اوپر یہ زعم نہ کیجیے کہ یہ کام ہمارے کرنے سے ہو گا۔ اس لیے کہ اللہ کو زعم بڑا نا پسند ہے۔ اس سے سارا کام غارت ہو جاتا ہے۔ اللہ کو تواضع اورانکساری پسند ہے ۔ کام تو اللہ کے کرنے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزوۂ بدر کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضوؐر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ غزوہ بدر میں تم نے انھیں نہیں قتل کیا بلکہ ان کو اللہ نے قتل کیا‘ اور تم نے وہ مٹھی بھر خاک نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔ گویا جو کام بھی ہو گا وہ اللہ کے کرنے سے ہوگا۔ اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ ماشاء اللّٰہ ولا قوۃ الا باللّٰہ،جو وہ چاہتا ہے وہی ہو گا۔ قوت اس کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا ہماری یہ سوچ ہونی چاہیے کہ دعوت دینے سے کسی کادل نہیں بدلے گا ‘ ہمارے کام کرنے سے کام نہیں ہوگا‘ بلکہ جو کچھ ہو گا اللہ کے کرنے سے ہوگا۔ اگر اضطراب اور بے چینی بھی ہوگی کہ ہم زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھا کام کریں ‘ نئی سے نئی تدابیر اختیار کریں‘ اور ساتھ ہی اپنے اوپر زعم نہ ہو کہ یہ کام ہمارے کرنے سے ہو گا‘ تو اس کے نتیجے میں تواضع و انکساری اور عاجزی بھی پیدا ہوگی۔
تحریکِ اسلامی اور رکنیت اور اس کے تقاضوں سے متعلق یہ چند باتیں ہیں۔ ان سے اختلافِ راے بھی ہو سکتا ہے ‘ مگر جو باتیں اچھی لگیں‘ ان کو قبول کر لیں اور ان پر عمل کیا جا سکے تو ضرور کیجیے۔ خدا ہمیں عہد رکنیت اور اس کے تقاضوں کو بخوبی پورا کرنے اور فریضۂ اقامتِ دین کو احسن انداز میں ادا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین! (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)
(کچھ حصے حذف کیے گئے ہیں۔ مکمل متن کتابچے میں دستیاب ہے۔ تحریک اور رکنیت‘ منشورات‘ منصورہ‘لاہور)