اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کردیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے‘ اور اگر مصیبت کے بعدہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ میرے تو سارے دَلِدَّر پار ہوگئے‘ پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔ [ھود ۱۱:۹-۱۰]
یہ انسان کے چھچھورے پن‘ سطح بینی اور قلت تدبر کا حال ہے جس کا مشاہدہ ہروقت زندگی میں ہوتا رہتا ہے اور جس کو عام طور پر لوگ اپنے نفس کا حساب لے کر خود اپنے اندر بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ آج خوش حال اور زور آور ہیں تو اکڑ رہے ہیں‘ فخر کر رہے ہیں‘ ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے اور خیال تک نہیں آتا کہ کبھی اس بہار پر خزاں بھی آسکتی ہے۔ کل کسی مصیبت کے پھیر میں آگئے تو بلبلا اُٹھے‘ حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے‘ اور بہت تلملائے تو خدا کو گالیاں دے کر اور اس کی خدائی پر طعن کر کے غم غلط کرنے لگے۔ پھر جب بُرا وقت گزر گیا اور بھلے دن آئے تو وہی اکڑ‘ وہی ڈینگیں اور نعمت کے نشے میں وہی سرمستیاں پھر شروع ہوگئیں۔
انسان کی اس ذلیل صفت کا یہاں کیوں ذکر ہو رہا ہے؟ اس کی غرض ایک نہایت لطیف انداز میں لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرتا ہے کہ آج اطمینان کے ماحول میں جب ہمارا پیغمبر تمھیں خبردار کرتا ہے کہ خدا کی نافرمانیاں کرتے رہو گے تو تم پر عذاب آئے گا ‘اورتم اس کی یہ بات سن کر ایک زور کا ٹھٹھا مارتے ہو اور کہتے ہو کہ ’’دیوانے دیکھتا نہیں کہ ہم پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہے‘ ہر طرف ہماری بڑائی کے پھریرے اُڑ رہے ہیں‘ اس وقت تجھے دن دھاڑے یہ ڈرائونا خواب کیسے نظرآگیا کہ کوئی عذاب ہم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے‘‘، تو دراصل پیغمبر کی نصیحت کے جواب میں تمھارا یہ ٹھٹھا اسی ذلیل صفت کا ایک ذلیل تر مظاہرہ ہے‘ خدا تو تمھاری گمراہیوں اور بدکاریوں کے باوجود محض اپنے رحم و کرم سے تمھاری سزا میں تاخیر کررہا ہے تاکہ تم کسی طرح سنبھل جائو‘ مگر تم اس مہلت کے زمانے میں یہ سوچ رہے ہو کہ ہماری خوش حالی کیسی پایدار بنیادوں پر قائم ہے اور ہمارا یہ چمن کیسا سدابہار ہے کہ اس پر خزاں آنے کا کوئی خطرہ ہی نہیں۔ (تفہیم القرآن‘ سورۂ ہود‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۹‘ عدد ۱‘ رجب ۱۳۶۵ھ‘ جون ۱۹۴۶ئ‘ ص ۱۸-۱۹)