جون۲۰۰۶

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | جون۲۰۰۶ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات سے واپسی میں حضرت اسامہؓ کے انتظار کی خاطر دیر فرمائی۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک چپٹی ناک والے سیاہ رنگ کے نوجوان (اسامہؓ) آپہنچے (تو آپؐ چل پڑے)۔ یمن کے لوگوں نے (جو اس موقع پر موجود تھے کراہت کا اظہار کرتے ہوئے) کہا: اچھا! ہمیں اس شخص کی خاطر روکا گیا (یعنی اس حقیر چپٹی ناک اور کالے رنگ والے نوجوان کے سبب جو کسی قدروقیمت کا حامل نہیں ہے)۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ نے کہا کہ یمن والے اس تحقیر آمیز جملے کی پاداش میں کافر ہوگئے۔

ابن سعد کہتے ہیں کہ میں نے یزید بن ہارون سے ’کافر ہوگئے‘ کا مطلب پوچھاتو انھوں نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں جو لوگ مرتد ہوگئے تھے‘ ان میں یمن کے وہ لوگ بھی شامل تھے جنھوں نے نبی اکرمؐ کے طرزِعمل اور  حضرت اسامہؓ کی شان میں یہ توہین آمیز جملہ زبان سے نکالا۔ اسی کا وبال ان پر مرتد ہوجانے کی شکل میں پڑا۔ (ابن سعد، ج ۴‘ ص ۴۴)

آج کل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس‘ آپؐ کے فرامین‘ اسلامی اقدار و روایات‘ دین اسلام اور اس کے احکام‘ داڑھی‘ پردہ‘ پگڑی اور جہاد وغیرہ کی توہین ہو رہی ہے۔ اسلام پر عمل پیرا اور   اسلامی نظام کے علم برداروں کی تحقیر و تذلیل کی جا رہی ہے۔ ان پر ’دہشت گرد‘، ’انتہا پسند‘ وغیرہ کی پھبتیاں کسی جارہی ہیں۔ توہین کے مرتکب ایسے لوگوں کو دنیا میں ذلت و رسوائی‘ بدامنی‘ قحط سالی‘ معاشی بدحالی‘ قتل و غارت گری‘ دہشت زدگی‘ اور طرح طرح کی آسمانی آفات و بلیات‘ طوفان بادوباراں‘ زلزلوں وغیرہ سے دوچار ہونے کے علاوہ دلوں کی سیاہی‘ کفر و شرک‘ گمراہی‘ الحاد و ارتداد جیسے وبالوں سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے‘ جو دنیاوی وبالوں سے بڑا وبال ہے۔ اس لیے کہ یہ آخرت جو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے‘ کی بربادی کا ذریعہ ہے اور انھیں دوزخ کا ایندھن بناتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کی توہین‘ آپؐ کے توہین آمیز خاکے شائع کرنے والے‘ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لیے آواز اُٹھانے والوں کی تحقیر کرنے والے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔ جو نام نہاد مسلمان ان جرائم کا مرتکب ہوگا تو وہ نعمت ایمان سے محروم ہوسکتاہے۔ قرآن پاک بھی اس کی تائید کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آواز سے اُونچا نہ کرو اور ان سے اس طرح کی اُونچی آواز میں بات نہ کرو جس طرح تم ایک دوسرے سے اُونچی آواز میں بات کرتے ہو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے سارے اعمال ضائع ہوجائیں (اعمال میں ایمان بھی شامل ہے) اور تمھیں اس کا احساس تک نہ ہو (الحجرات ۴۹:۲)۔ ایمان والوں کے لیے اس میں تسلی بھی ہے کہ اگر وہ ناموس رسالتؐ اور اسلامی شعائر کی توہین کرنے والوں سے انتقام نہ لے سکے تو کوئی بات نہیں‘ وہ انتقام سے بچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ خود انتقام لے لیں گے۔

حضرت طلق ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی ابودرداؓ کے پاس آیا اور کہا: آپ کا گھر جل گیا ہے۔ انھوں نے جواب میں فرمایا: میرا گھر نہیں جلا۔ پھر دوسراآدمی آیا اس نے بھی یہی بات کہی۔ جواب میں حضرت ابودرداؓ نے فرمایا: میرا مکان نہیں جلا۔ پھر تیسرا آدمی آیا اور اسی طرح کی بات کہی تو حضرت ابودرداؓ نے جواب میں فرمایا: میرا گھر نہیں جلا۔ پھر چوتھا آدمی آیا اور اس نے کہا: اے ابودرداؓ! آگ بھڑک اُٹھی تھی اور آپ کے گھر کے قریب پہنچ گئی تھی کہ اس کے بعد بجھ گئی۔ حضرت ابودرداؓ نے فرمایا: مجھے پتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے گھر کو نہیں جلائے گا۔ اس شخص نے کہا: اے ابودرداؓ! ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ آپ کی دونوں باتیں ’میرا گھر نہیں جلا اور اللہ تعالیٰ نے میرے گھر کو نہیں جلانا‘ میں سے کون سی بات زیادہ عجیب ہے۔ حضرت ابودرداؓ نے فرمایا: کچھ دعائیہ کلمات ہیں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو آدمی صبح کو یہ کلمات پڑھے اسے شام تک کوئی مصیبت نہیں پہنچے گی۔ وہ کلمات یہ ہیں:

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ ، عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ، مَاشَائَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشأْ لَمْ یَکُنْ ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ، اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ، وَاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلْمًا ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ دَآبَّۃٍ اَنْتَ اَخِذٌ بِنَاصِیَتِھَا ، اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ، اے اللہ! آپ میرے رب ہیں، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں، میں نے تجھ پر بھروسا کیا‘ تو عرش کریم کا رب ہے۔ جو اللہ نے چاہا‘ ہوا‘ اور جو نہیں چاہا وہ نہیں ہوا۔ نہیں ہے کوئی گردش اور قوت مگر اللہ بلند عظیم ذات کے ساتھ۔ میں جانتا ہوں کہ اللہ ہرچیز پرقادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کا علم کی بنیاد پر احاطہ کیا ہوا ہے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنے نفس اور       ہر جان دار کے شرسے‘ تو اس کی پیشانی کو پکڑنے والا ہے‘ میرا رب سیدھے راستے پر ہے۔ (بیہقی اسماء و صفات ، ص ۱۱۵)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر ایسا یقین ہو جس طرح حضرت ابودرداؓ کو یقین تھا توحضرت ابودرداؓ کی طرح اس یقین کا پھل بھی ملتا ہے۔ دعا اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ مدد کرسکتے ہیں اور مدد کرتے بھی ہیں‘ تب اللہ تعالیٰ کو پکارنے والا کامیاب و کامران ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں اپنا اثر دکھاتی ہیں اور وعدے پورے ہوتے ہیں لیکن اس صورت میں کہ اس کے تمام وعدے اور ہدایات   پیش نظر رکھی جائیں۔ حضرت ابودرداؓ بھی انھی ہستیوں میں سے تھے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی تمام ہدایات اور وعدوں کو پیش نظر رکھا‘ ان کو پورا کیا‘ تب وہ یقین رکھتے تھے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوگا۔

حضرت ابی اسمائؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ یہ آیت فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّـرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّـرَہٗ o (پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ الزلزال ۹۹: ۷-۸) اتری۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کھانے سے ہاتھ روک لیا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کیا ہم جتنی برائیاں کریں ان سب کو دیکھیں گے اور آخرت میں ان کی سزا پائیں گے؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں جو تکلیف دہ حالات تمھیں پیش آئے ہیں‘ یہ ان برائیوں کی سزا ہے جن کا تم سے ارتکاب ہوجاتا ہے‘ اور نیکیاں نیک لوگوں کے لیے آخرت کا ذخیرہ بن جاتی ہیں (وہ سب آخرت میں مل جائیں گی)۔ (کنز العمال، ج ۱‘ ص ۲۷۵)

اللہ تعالیٰ نیک لوگوں پر کتنے مہربان ہیں کہ ان کی نیکیاں آخرت کے لیے جمع ہوجاتی ہیں اور چھوٹی موٹی برائیوں کا حساب اسی دنیا میں تکالیف اورمصائب کی شکل میں بے باق ہوجاتا ہے۔ لہٰذا نیک لوگوں کو نیک کاموں میں فعال اور برائیوں سے اجتناب میں بیدار رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کواپنا وظیفہ بنانا چاہیے۔

حضرت عبدالرحمن بن عائذؓ سے روایت ہے‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی طرف لشکر روانہ فرماتے تو اسے ہدایت فرماتے: لوگوں سے الفت و محبت کا رویہ اختیار کر کے ان کو اپنے ساتھ مانوس کرو‘ اور ان پر حملہ اس وقت تک نہ کروجب تک اپنی دعوت ان کے سامنے پیش نہ کرو۔ زمین پر مٹی کے گھروں اور خیموں میں رہنے والوں کو تم مسلمان بناکر میرے پاس لائو‘ یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ تم ان کے نوجوانوں کو قتل کردو اور ان کی عورتوں اوربچوں کو لونڈیاں اور غلام بناکر لے آئو۔(کنز العمال، ج ۳‘ ص ۱۵۲)

اصل کام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا مطیع فرمان بنانا‘ شیطان اور انسانوں کی غلامی سے آزاد کرنا ہے تاکہ انسان اپنے مالک کے شکرگزار بنیں‘ اس کا حق ادا کریں‘ جنت میں جائیں‘ دوزخ کی آگ سے بچیں اور دنیا میں سکون و اطمینان کی زندگی بسر کریں۔ یہ انسانیت کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا تقاضا ہے۔ دعوت کا کام خوش اخلاقی اور الفت و محبت کے ذریعے ہوتا ہے جو ہر دور میں جاری رہ سکتا ہے۔ ہرجگہ اور ہرملک میں رہ کر کیا جا سکتا ہے۔قتال مخصوص حالات میں اور شرائط پورا ہونے پر کیا جاتا ہے۔ جب تک قتال کے حالات پیدا نہ ہوں اس وقت تک قتال معطل ہوتا ہے۔ آج جہاد بالقرآن ساری دنیا میں ہوسکتا ہے اورہو رہا ہے لیکن قتال صرف ان ممالک میں ان قوتوں کے خلاف ہے جنھوں نے اسلامی ممالک پر غاصبانہ قبضے کرلیے ہیں۔ اسے جہاد آزادی کہا جاتا ہے‘ جو حصول آزادی تک جاری رہے گا۔    جہاد بالقرآن پر توجہ دینے اور اس کو وسیع کرنے کے لیے پوری صلاحیتوں اور وسائل کو بروے کار    لانا چاہیے۔ مسلمان ممالک میں سیکولرنظام کو ختم کرنا اور اسلامی نظام کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد بھی جہاد بالقرآن ہے۔ اس لیے ان ممالک میں انقلاب کے لیے تلوار اور بندوق اُٹھانا جائز نہیں ہے۔