بسم اللہ الرحمن الرحیم
کسی بھی حکومت کی کارکردگی اور اس کی کامیابی اور ناکامی کو جانچنے کے لیے پوری دنیا میں چار سے پانچ سال کی مدت کافی سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے پارلیمنٹ کی مدت بالعموم زیادہ سے زیادہ پانچ سال رکھی جاتی ہے اور جہاں کسی بھی نوعیت کا صدارتی نظام ہے‘ وہاں بھی عام طور پر صدر کی ایک مدت کے لیے چار یا پانچ سال مقرر کیے جاتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو فوجی انقلاب کے ذریعے برسرِاقتدار آئے اور ان کی معاشی ٹیم اپنی حکمرانی کے سات سال پورے کرنے کو ہے۔ اس پورے زمانے میں جنرل مشرف چیف ایگزیکٹو کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور شوکت عزیز صاحب ان کی معاشی ٹیم کے کرتادھرتا کی حیثیت سے کارفرما رہے ہیں۔ جنرل صاحب ایک عرصے سے اپنے اور اپنی ٹیم کے معاشی کارناموں کو اپنی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ امریکا‘ برطانیہ اور بھارت تینوں کے ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے اس چبھتے ہوئے سوال کا کہ: آپ کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ جواب دیتے ہوئے‘ انھوں نے بڑے فخر سے فرمایا: معاشی ترقی اور خوش حالی کا حصول۔ جناب شوکت عزیز صاحب نے اس دعوے میں مزید رنگ بھرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ملک میں فی کس آمدنی اب ۸۰۰ ڈالر سالانہ ہوگئی ہے۔ غربت میں ۷ فی صد کی کمی واقع ہوئی۔ بے روزگاری میں بھی کمی ہوئی ہے اور وہ اب ۷ئ۷ فی صد سے کم ہوکر ۵ئ۶ فی صد پر آگئی ہے۔ آخری لیبر سروے کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کے مطابق‘ ان کا ارشاد ہے کہ ۰۴-۲۰۰۳ء میں بے روزگاروں کی تعداد ۳۵ لاکھ تھی جو ۰۵-۲۰۰۴ء میں کم ہوکر ۳۳لاکھ ۳۰ ہزار رہ گئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حقیقت میں شرح نمو ۶ اور ۸فی صد کے درمیان ہے اور پرائمری تعلیم میں اس درجہ اضافہ ہوا ہے کہ پرائمری تعلیم کے لائق بچوں کا ۸۶ فی صد اب تعلیمی اداروں میں داخل ہورہا ہے اور بچوں کی آبادی کا ۸۳ فی صد صحت کی ابتدائی سہولت یعنی immunization سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۰۷ء تک تمام دیہاتوں تک بجلی کی روشنی پہنچ جائے گی اور ملک کی پوری آبادی کو صاف پانی دستیاب ہونے لگے گا۔
جنرل صاحب کی معاشی ٹیم ان خوش نما دعووں کا اس کثرت سے اعلان کر رہی ہے کہ ہٹلر کے دروغ گوئی کے مشہور وزیر گوبلز کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ ان دعووں کا بے لاگ علمی جائزہ لیا جائے اور صحیح معاشی صورت حال بے کم و کاست قوم کے سامنے رکھی جائے۔ چونکہ جون کے مہینے میں نیا بجٹ بھی آنے والا ہے‘ اس لیے اس جائزے کے لیے اس سے زیادہ اور کوئی موزوں وقت نہیں ہوسکتا۔
ہم معاشی حالات کے جائزے سے قبل اس بات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت کے نمایندوں کے ان دعووں پر ہم ہی انگشت بدنداں نہیں‘ ملک کے اکثر ماہرین معاشیات حیران و ششدر ہیں اور ورلڈبنک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک‘ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) اور امریکا کے مشہور رسالے فارن پالیسی کی تجزیاتی ٹیم سب ہی نے ان دعووں کے برعکس اعلان کیا ہے کہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ اور ملک کا ہر شہری اپنے روزمرہ کے تجربے کی بنیاد پر ان حقائق پر گواہی دے رہاہے کہ اعداد و شمار کا یہ کھیل حقیقت سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ مرکزی حکومت کے ایک سابق سیکرٹری ڈاکٹر جیلانی نے دی نیوز میں اپنے ایک مضمون میں بڑے دل چسپ انداز میں لکھا ہے کہ میں ہی نہیں میرا ڈرائیور‘ باورچی اور خاکروب تک بازار سے جو چیز بھی لینے جاتا ہے‘ اس کا تجربہ سرکاری اعلانات کی ضد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد جاوید برکی جو ڈان میں معاشی امور پر ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں‘ ورلڈبنک میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہے ہیں اور ایک عبوری حکومت میں وزیرخزانہ کی ذمہ داری بھی اداکرچکے ہیں‘ حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ:
حکومت کوئی قدم اٹھا سکتی ہے بشرطیکہ وہ دو باتیں پہلے کرے۔ سب سے پہلے اسے یہ خیال جھٹک دینا چاہیے کہ معیشت میں سب اچھا ہے۔ (ڈان، ۱۸ اپریل ۲۰۰۶ئ)
ملک کے توازن ادایگی (balance of payments) میں شدید خسارے کے رجحان‘ اسٹاک ایکسچینج ہی میں نہیں پوری معیشت میں سٹہ اور سٹّے کی بنیاد پر تجارتی سرگرمی اور بنکوں کے نظام کی کمزوری کی روشنی میں موصوف نے اس طرح کے خطرے تک کے امکان کا اظہار کیا ہے جیسا میکسیکو میں چند سال پہلے رونما ہوا تھا۔
جب میں ان باتوں کی طرف دیکھتا ہوں جو میکسو کے بحران سے پہلے پیش آئیں‘ تو میں انھیں آج کے پاکستان میں موجود پاتا ہوں۔(ڈیلی ٹائمز، ۲۶ اپریل ۲۰۰۶ئ)
گو کہ نمو (growth)کے اور اسٹاک مارکیٹ کے اعداد و شمار پروپیگنڈے کے لیے اچھے نظر آتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ حقیقی معیشت پر ان کا اچھا اثر ہو‘ جیساکہ چند برس پہلے بھارت میں ظاہر ہوچکا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ غربت اور بے روزگاری میں کمی آئی ہے‘ اگرچہ اسے ابھی یہ انکشاف کرنا ہے کہ یہ اعداد و شمار اسے کہاں سے ملے۔ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں عدمِ مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ہرکسی کو نظر آتا ہے اور پاکستان کے شہری منظرنامے سے ظاہر ہے۔ کچھ ہی صارف تسلیم کریں گے کہ افراطِ زر اتنا کم ہے‘ زیادہ تر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ معیشت میں ’بہتری‘ کے باوجود ان کی زندگی کا معیار گرا ہے۔ (روزنامہ ڈان، ۷ اپریل ۲۰۰۶ئ)
حکومت کی معاشی کارکردگی کے تصور اور عوام کو جن معاشی حقائق کا سامنا ہے‘ ان کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے‘ جب کہ حکومت زیادہ نمو کے کارنامے کی خوشی منا رہی ہے۔ عوام کی اکثریت بنیادی ضروریات اور افراطِ زر سے حقیقی آمدنی میں کمی کے مسلسل استحصال کا شکار ہے۔ حکومت بتاتی ہے کہ بڑے پیمانے کے صنعتی سیکٹر میں ۱۹ فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے‘ لیکن اس میں پُرتعیش گاڑیوں کا حصہ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت پر بے چینی کا مظہر ہے۔(ڈیلی ٹائمز، یکم مئی ۲۰۰۶ئ)
حکومت کے دعووں‘ عام آدمی کے شدید محرومی کے تجربات اور آزاد معاشی ماہرین کے سرکاری دعووں کے بارے میں واضح تحفظات کے اظہار نے بے یقینی کی جو فضا سی پیدا کر دی ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ حقیقت کو جاننے کی معروضی کوشش کی جائے اور یہ جائزہ علمی بنیادوں پر اور اعداد وشمار کی صحیح تعبیر کے ساتھ لیا جائے۔ ان صفحات میں اس کی کوشش کی جارہی ہے۔
۱- پہلی بات جو ہم سب کے لیے تشویش کا باعث ہے وہ سرکاری اعدادوشمار کے قابلِ اعتماد ہونے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ ایک سانحہ ہے کہ آزادی کے ۵۸سال کے بعد بھی ہم اعدادو شمار جمع کرنے کے آزاد اور قابلِ اعتماد ادارے سے محروم ہیں۔ بلکہ اس وقت تو عالم یہ ہے کہ دو سال سے سرکاری شعبہ شماریات سیکرٹری اور شماریات کے علم میں تخصص رکھنے والے ماہرین کے بغیر چلایا جارہا ہے۔ اس ادارے کو جوائنٹ سیکرٹری اور ڈپٹی سیکرٹری کے عہدے کے افراد چلا رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ یہ اہم ادارہ اعلیٰ فنی ماہرین کی رہنمائی سے بھی محروم ہے۔ بار بار آزاد شماریاتی مقتدرہ (statiscal authority) کے قیام کے وعدے کیے گئے ہیں لیکن اس مرکزی اہمیت کے ادارے کو مناسب بنیادوں پر قائم کرنے کے کام سے مجرمانہ تغافل برتا جا رہا ہے۔ ورلڈبنک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور پارلیمنٹ کی کمیٹیاں برسوں سے فریاد کناں ہیں مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی جو اس شبہے کو تقویت دیتی ہے کہ یہ سب کچھ اعداد وشمار کو حسب خواہش مرتب کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف بار بار متنبہ کرچکاہے کہ پاکستان کی وزارتِ خزانہ ہمیں غلط اعداد وشمار دیتی رہی ہے اور یہ بات پوری قوم کے لیے شرمندگی کاباعث رہی۔ صاف نظر آرہا ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسٹیٹ بنک کی رپورٹ میں ایک جگہ نہیں نصف درجن سے زیادہ مقامات پر کہا گیا ہے کہ یا ہمیں تازہ ترین اعداد و شمار نہیں دیے جا رہے یا ہمارے اعداد و شمار اور محکمہ شماریات کے اعداد وشمار میں مطابقت نہیں۔ فنی اعتبار سے لاپروائی کا یہ حال ہے کہ صارف کے لیے قیمتوں کا اشاریہ‘ جو ہراعتبار سے ایک بنیادی اہمیت کا حامل اشاریہ ہے‘ اس کے مرتب کرنے کے لیے جن مقامات اور جن منڈیوں (markets) کا انتخاب کیا گیا ہے‘ ان میں دیہی آبادی کا ایک بھی مرکز شامل نہیں۔ صرف شہری آبادی کے ۳۵ مراکز اور ۷۱مارکیٹوں سے ساری معلومات جمع کی جاتی رہی ہیں اور باربار کی گرفت کے باوجود اس کی اصلاح نہیں کی گئی۔ اب وعدہ کیا جا رہا ہے کہ ۲۰۰۷ء میں شہری اور دیہی دونوں آبادیوں سے معلومات حاصل کی جائیں گی اور غالباً بنیادی سال بھی تبدیل کیا جائے گا۔
برآمدات میں اضافے کی بات بڑے کروفر سے کی جارہی ہے کہ اس سال کُل برآمدات ۱۷ یا ۱۸ بلین ڈالر تک پہنچ جائیں گی مگر چمڑے اور چمڑے کی مصنوعات کی برآمد کے بارے میں جواعداد و شمار سامنے آئے ہیں‘ اس پر چمڑے کے صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کی ایسوسی ایشن کا جو سرکاری ردعمل آیا ہے وہ چشم کشا ہے۔ شماریات کے فیڈرل بیورو کے سرکاری اعداد و شمار کی رو سے اس سال میں چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات میں ۵۷ فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ متعلقہ صنعت کے ذمہ داروں کا کہناہے کہ اس اضافے میں بڑا دخل جھوٹے بلوں (fake invoicing) کا ہے جو صرف رعایت (rebate) لینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ایسوسی ایشن کے نمایندوں کا کہنا یہ ہے کہ پچھلے سال کے ۲۴۴ ملین ڈالر کے مقابلے میں اس سال ۳۸۷ ملین ڈالر کی برآمدات دکھائی گئی ہیں جس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ جولائی تادسمبر ۲۰۰۵ء کے اعداد و شمار کو چیلنج کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے ذمہ دار ترجمان نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ۲۰۰۴ء کے متعلقہ زمانے میں برآمدات صرف ۷ملین ڈالر تھیں جو اس سال ۶۰ملین ڈالر دکھائی گئی ہیں حالانکہ حقیقت میں اس عرصہ میں برآمدات ۵ ملین ڈالر سے زیادہ نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح سعودی عرب کو ۱۰ملین ڈالر برآمدات دکھائی گئی ہیں‘ جب کہ گذشتہ سال ۲ملین ڈالر تھیں اور اس سال بھی اس سے زیادہ نہیں۔ یہی صورت حال جنوبی افریقہ اور دوسرے ممالک کی ہے۔مختلف صنعتوں کے نمایندوں کا اندازہ ہے کہ صرف زیادہ قیمت کے بلوں (over-invoicing)کی بنا پر برآمدات کے اعداد و شمار میں ۵ئ۱ بلین ڈالر سے ۲ بلین ڈالر تک مصنوعی اضافے کا امکان ہے۔ اس طرح اصل برآمدات ۱۷یا ۱۸ نہیں ۱۵ یا ۱۶بلین ڈالر ہوں گی۔ (دی نیوز‘ ساجد عزیز‘ ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ۔ ڈان‘ ۸مئی ۲۰۰۶ئ)
اس کے ساتھ اگر اس رپورٹ کو بھی سامنے رکھا جائے کہ سنٹرل بورڈ آف ریونیو (CBR) کے ایک سابق ملازم نے ذمہ دار حضرات سے گٹھ جوڑ کر کے موجودہ حکومت کے دور میں ۲۰۰۲ء تک ۲۰ ارب روپے refundکے ذریعے نکلوائے۔ گویا ایک طرف برآمدات کو بڑھا کر دکھایا گیا اور دوسری طرف ان کے نام پرrefund کی صورت میں اربوں روپے حاصل کیے۔ یہ بدعنوانی (corruption )اور ملی بھگت (collusion) کی صرف ایک مثال ہے۔
وزیراعظم صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۵ء میں معیشت کاحجم دگنا ہوگیا ہے لیکن اگر اقتصادی سروے اور اسٹیٹ بنک کی رپورٹوں میں اضافے کی سالانہ رفتار کا مطالعہ کیا جائے تو ۰۱-۲۰۰۰ء میں اضافہ ۸ئ۱ فی صد‘ ۰۲-۲۰۰۱ء میں ۱ئ۳ فی صد‘ ۰۳-۲۰۰۲ء میں ۱ئ۵ فی صد‘ ۰۴-۲۰۰۳ء میں ۴ئ۶ فی صد اور ۰۵-۲۰۰۴ء میں ۴ئ۸ فی صد تھا۔ اس کا مجموعی input ۲۵ فی صد سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟ یہ صرف شماریات کے لیے بنیادی سال کی تبدیلی اور افراط زر کا پیدا کردہ مغالطہ ہے۔ اسے معیشت کے حقیقی طور پر دگنا ہوجانے کا نام دینا یا صریح غلط بیانی ہے اور یا معیشت کے حقیقی نمو اور مالی شعبدہ بازی کے فرق کو نظرانداز کرکے عوام کو بے وقوف بنانا۔
جس ملک کے اعداد و شمار اور معاشی ٹیم کی ترک تازیوں کا یہ حال ہو‘ اس کی قیادت کے خوش نما دعوئوں پر کون اعتماد کرے گا۔
۲- ہم دلیل کے لیے تسلیم کرلیتے ہیں کہ صدر اور وزیراعظم صاحبان معیشت کی ترقی کی جس رفتار کا دعویٰ کر رہے ہیں‘ وہ درست ہے یعنی ۰۵-۲۰۰۴ء میں یہ رفتار ۴ئ۸ فی صد سالانہ تھی اور سال رواں میں ہدف تو ۷ فی صد کا تھا مگر توقع ۳ئ۶ سے ۸ئ۶ کے درمیان کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس اضافے کے مآخذ (sources) کیا ہیں اور ان میں کتنا دخل حکومت کی پالیسیوں کا ہے اور کتنا بیرونی (exogenous) عوامل کا۔ ڈاکٹر شاہد جاوید برکی نے نہایت علمی انداز میں یہ تجزیہ کیا ہے اور ۰۵-۲۰۰۴ء کے ۴ئ۸ فی صد اضافے کو تحلیل کر کے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ اس اضافے کے چار مآخذ ہیں جن میں سے دو بیرونی اور ایک اتفاقی ہے۔ رہا چوتھا ماخذ تو وہ بلاشبہہ معیشت کی پیداواری صورت ہے۔ پہلا سبب موسم اور قدرت کی کرم فرمائی ہے جس کا خصوصی اثر زرعی پیداوار پر پڑتا ہے اور اس سال کی زرعی پیداوار میں ۷ فی صد اضافے میں ان قدرتی عوامل کا بڑا دخل تھا جس کا مجموعی قومی پیداوار (GDP) اضافے پر ۵ئ۱ فی صد کی حد تک اثر متعین کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا اہم بیرونی سبب بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات ہیں جو اس زمانے میں ایک ارب ڈالر سے بڑھ کر ۴ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور بڑی حد تک ناین الیون کے اثرات کی وجہ سے ہیں۔ اس میں کوئی دخل حکومت کی کسی پالیسی کا نہیں ہے۔ اس ذریعے کا عملی اثر جی ڈی پی پر ۲ فی صد کے قریب شمار کیا جاسکتا ہے۔ ان دو عوامل کے علاوہ ایک اندرونی پہلو اور بھی تھا جو دوبارہ پیش نہیں آسکتا۔ یعنی یہ کہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۳ء تک آئی ایم ایف کے دبائو تلے جو پالیسی اختیار کی گئی اس کی وجہ سے stabilization کے نام پر نمو کو suppress کیا گیا۔ یہ suppressed growth ۰۳-۲۰۰۲ء کے بعد اپنا اظہار کرتی ہے اور اس طرح ۰۵-۲۰۰۴ء کے اضافے میں ۵ئ۱ فی صد اس کا دخل نظر آتاہے ۔ اگر ان ۵ فی صد کو الگ کیا جائے تو اصل اضافہ صرف ۴ئ۳ فی صد کا ہے جسے structural growth کہا جاسکتا ہے اور اس کی بنیاد پر ۷ اور ۸ فی صد مسلسل اضافے کی توقعات لگانا سائنسی اعتبارسے درست نہیں۔دوسرے معاشی ماہرین نے بھی ان پہلوؤں کو قابلِ غور قرار دیا ہے اور حکومت کے اس دعوے کو محل نظر قرار دیا ہے کہ مروجہ پالیسیوں کے پس منظر میں کُل پیداوار میں ۷ اور ۸ فی صد سالانہ اضافہ تسلسل کے ساتھ برقرار رکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بنک نے ۷ فی صد کے ہدف کو قابلِ حصول قرار نہیں دیا اور سال رواں کے لیے ۳ئ۶فی صد کے لگ بھگ اضافہ کو ممکن قرار دیا ہے اور اس میں بھی بیرونی ترسیلات کے تقریباً ۲فی صد حصہ کو بیرونی عامل کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔
ہم نے یہ فنی تجزیہ صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ عام آدمی تو ۷ اور ۸ فی صد اضافے سے مرعوب ہوسکتا ہے لیکن جن کی نگاہ تمام معاشی عوامل پر ہے‘ وہ sustained rate of growth کے نقطۂ نظر سے ایک دو سال کے رفتار اضافہ کو economic break throughتسلیم نہیں کرسکتے۔
اسی طرح فنی اعتبار سے یہ ایک معما ہے کہ معاشی ترقی کے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے وہ ملک میں بچت کی شرح (rate of domestic saving) اور سرمایہ کاری کی شرح (rate of investment) ہے۔ پاکستان میں بچت کی شرح نہ صرف یہ کہ علاقے کے تمام ہی ممالک کے مقابلے میں کم ہے بلکہ مالی سال ۲۰۰۳ء میں جو بچت کی شرح مجموعی قومی پیداوار کا ۸ئ۲۰ تھی وہ ۲۰۰۴ء میں ۷ئ۱۸ اور ۲۰۰۵ء میں ۱ئ۱۵ رہ گئی۔ اس طرح ملک میں سرمایہ کاری کی شرح مطلوب شرح سے نمایاں طور پر کم ہے۔ ۷ فی صد کی رفتار سے جی ڈی پی میں تسلسل کے ساتھ اضافے کے لیے موجودہ incrementel capital output ratio کے مطابق ۳۰فی صد شرح سرمایہ کاری مطلوب ہے جب کہ یہ شرح ۲۰ فی صد سے بھی کم ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجموعی قومی پیداوار (GDP)کی نسبت سے domestic investment ratio میں ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں کمی آئی ہے جس کی تلافی بیرونی ترسیلات اور بیرونی سرمایہ کاری (FDI) جس میں نج کاری سے حاصل شدہ رقم بھی شامل ہے‘ نے کی ہے۔ لیکن دونوں مل کر بھی مطلوب شرح سرمایہ کاری سے نمایاں طور پر یعنی تقریباً ۳۰ فی صد کم ہیں۔
ان حالات میں جو بھی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے وہ بڑی حد تک consumption based ہے مطلوبہ حد تک investment based نہیں جو بہت fragile ہے اور لمبے عرصے کے لیے قابلِ اعتماد نہیں۔ ان بنیادی معاشی حقائق کی روشنی میں ترقی کے خوش کن دعوے اور break through اور turning the corner کے مبالغہ آمیز بیانات سیاسی نعروں اور تعلّیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
۳- ہم نے خالص علمی اور فنی نقطۂ نظر سے جو معروضات پیش کی ہیں ان کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ حکومت کے دعووں کی زمینی حقائق سے تائید نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ تو علمی بحث ہے۔ عام آدمی کی دل چسپی مجموعی پیداوار کی شرح نمو یا زرمبادلہ کے ذخائر میں افزونی نہیں__ اسے تو اپنی ضروریات زندگی کی فراہمی‘ بنیادی سہولتوں کے حصول اور روزگار اور خوش حالی کے پیمانے پر حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی یا ناکامی کو جانچنا ہوتا ہے اور اس اعتبار سے عام آدمی کی زندگی معاشی محرومی‘ استحصال اور ظلم کی تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ غربت کی شرح ۳۰ سے ۴۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے اور حکومت کے ان دعووں میں کوئی صداقت نہیں کہ ۲۰۰۱ء کے مقابلے میں ۲۰۰۵ء میں ۷ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ حکومت کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہی ہے‘ کسی کو علم نہیں اور بار بار کے مطالبات بلکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مالیاتی کمیٹی کے متعین مطالبے کے باوجود نہ تو تفصیلی رپورٹ فراہم کی گئی ہے اور نہ ہی اس کے طریق کار (methodolgy)کو ظاہر کیا گیا۔ ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک نیز ABN-Amro بنک کی رپورٹ میں غربت کو ۳۲ فی صد ہی دکھایا گیا ہے حتیٰ کہ پلاننگ کمیشن کے دس سالہ وسط مدتی منصوبے میں جو ۲۰۰۵ء میں آیا تھا اور حکومت کے غربت میں کمی کے دعوے کے بعد شائع ہوا ہے‘ غربت کی شرح کو آبادی کا ایک تہائی قرار دیا گیا ہے۔ ابھی امریکی مجلہ فارن پالیسی نے جو Failed States Index شائع کیا ہے اس میں بھی پاکستان میں ۳۲ فی صد غربت کی بات کی ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ ایکونومکس کے اپنے جائزے کے مطابق بھی غربت ۳۲ فی صد سے ۳۷ فی صد تک ہے۔
غربت کا مسئلہ اوّلین معاشی مسئلہ ہے۔ پیداوار میں وہ اضافہ جو امیروں کی ضروریات کو پورا کرے یا مبادلہ خارجہ کمانے کا ذریعہ ہو‘ عوام کے لیے غیرمتعلق ہے۔ ان کی ضرورت یہ ہے کہ زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولتیں قابلِ برداشت قیمت پر حاصل ہوں‘ یعنی رسد بھی کافی ہو اور قیمت بھی ان کی دسترس میں ہو___ اور اس وقت دونوں ہی مفقود ہیں۔
ایک زرعی ملک جو تقسیم سے قبل پورے ہندستان کی ضروریات پوری کر رہا تھا اور ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء میں بھی بڑی حد تک زرعی اجناس کی حد تک خودکفیل ہوگیا تھا اب گندم‘ چینی‘ پیاز‘ ٹماٹراور دالوں تک کے لیے دوسروں کا محتاج ہوگیا ہے اور تمام ہی ضرورت کی اشیا کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میںقیمتیں دوسرے ممالک سے کم ہیں لیکن حقائق اس کی تائید نہیں کرتے۔ ہم صرف پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھارت میں چند اشیاے ضرورت کی قیمتوں کے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کرتے ہیں جو انٹرنیٹ سے حاصل کیے گئے ہیں اور پاکستان کی کرنسی میں اپریل کے آخر اور مئی ۲۰۰۶ء کے شروع کی معلومات فراہم کرتے ہیں:
اشیا
پیمانہ
Unit
اسلام آباد
(۰۶-۰۵-۰۴)
ڈھاکہ
(۰۶-۰۴-۲۷)
نئی دہلی
(۰۶-۰۴-۲۷)
آٹا
کلوگرام
۱۶ئ۱۳
۹۴ئ۱۶
۴۴ئ۱۶
ماش کی دال
"
۵۰ئ۷۵
۵۹ئ۴۶
۲۰ئ۸۲
گائے کا گوشت
"
۵۰ئ۱۳۷
۶۰ئ۱۱۸
۳۷ئ۵۱
بکری کا گوشت
کلوگرام
۵۰ئ۲۵۷
۴۳ئ۱۶۹
۵۰ئ۲۶۵
چینی
"
۸۸ئ۳۷
۱۳ئ۴۹
۱۴ئ۳۰
سویابین تیل
لٹر
۰۰ئ۸۲
۵۹ئ۴۶
۶۵ئ۶۱
آلو
"
۵۰ئ۲۶
۸۶ئ۱۱
۷۰ئ۱۳
پیاز
"
۲۵ئ۱۹
۵۵ئ۱۳
۹۶ئ۱۰
پٹرول
"
۷۷ئ۵۷
۱۲ئ۳۸
۳۸ئ۶۱
ڈیزل
"
۸۰ئ۳۸
۴۱ئ۲۵
۵۴ئ۴۲
مٹی کا تیل
"
۰۰ئ۴۰
۶۵ئ۲۹
۳۲ئ۴۹
LPG
کلوگرام
۶۴ئ۴۳
۷۷ئ۲۲
-
CNG
کیوبک میٹر
۳۷ئ۳۱
۳۱ئ۶
۶۶ئ۲۴
DAP
کلوگرام
۰۰ئ۲۳
۷۹ئ۱۲
-
یوریا
"
۰۰ئ۱۱
۲۴ئ۴
-
سیمنٹ
فی بوری
۰۰ئ۳۲۵
۲۱ئ۲۳۷
۹۴ئ۲۲۱
اس جدول سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے عام شہری کو بحیثیت مجموعی اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے مقابلے میں دگنا اور بھارت کے مقابلہ ایک تہائی زیادہ قوت خرید درکار ہے‘ جب کہ عام آدمی کی اوسط آمدنی ان ملکوں میں برابر برابر ہے۔ اقبال نے صحیح کہا تھا ع
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
پاکستان میں کم سے کم اُجرت قانونی طور پر ۳۰۰۰ روپے ماہانہ ہے لیکن عملاً اس سے نصف اور دو تہائی پر بھی بڑی تعداد کو کام کرنا پڑتا ہے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جس خاندان کی آمدنی ۵ہزار ماہانہ سے ۱۰ ہزار تک ہے وہ بھی اس آمدنی میں ضروریاتِ زندگی پوری نہیں کرسکتا۔ اور اس بنیاد پر ملک میں غربت کی سطح کی گرفت میں ۶۰ اور۷۰ فی صد آبادی آجاتی ہے۔
یہی وجہ ہے یو این کے Human Development Indexمیں دنیا کے ۱۷۷ممالک میں پاکستان کا نمبر ۱۳۵ واں ہے اور گذشتہ ۶ سال میں ہم نیچے گئے ہیں‘ اُوپر نہیں آئے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ رخ رفیع خاں کی کتاب Hazardous Home Based Labour جسے اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے ۲۰۰۵ء میں شائع کیا ہے‘ اس میں بچوں کی لیبر کی جس زبوں حالی کا نقشہ کھینچا گیا ہے‘ وہ رونگٹے کھڑے کرنے والا ہے۔ کارپٹ‘ چوڑیوں کی صنعت‘ پلاسٹک‘ موم بتی بنانے کے کارخانوں میں ۸ سے ۱۲ سال کے لڑکے اور لڑکیاں تک ۱۶ گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں اور ۱۷۰۰ سے ۲۰۰۰روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والوں کو ایک ہزار اینٹ بنانے کے ۶۰ روپے ملتے ہیں اور یہی ہزاراینٹ منڈی میں ۴ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ زراعت میں بھی چھوٹے کاشت کار اور مزارع کی حالت دگرگوں ہے۔ بظاہر زرعی اجناس کے لیے support price کا اعلان ہوتا ہے مگر عملاً بڑا زمین دار ہی اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور چھوٹے کاشت کار کو جس کے اندر اپنی پیداوار کو روک رکھنے کی سکت نہیں‘ کم دام پر فروخت کرنا پڑتی ہے۔
پاکستان قومی ترقیاتی رپورٹ ۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر اکمل حسین نے Asymmetric Markets for Inputs and Outputs میں جو حقائق پیش کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا کاشت کار مجبور ہوتا ہے کہ اپنی پیداوار کو بڑے زمین دار کی پیداوار کے مقابلے میں سستا بیچے اور جو زرعی ضروریات اسے درکار ہیں وہ بڑے زمین دار کے مقابلے میں مہنگی حاصل کرے جس کے نتیجے میں انھی اشیا کی خرید و فروخت پر چھوٹے کاشت کار کو بڑے زمین دار کے مقابلے میں اوسطاً ۳۳ فی صد کم آمدن ہوتی ہے یا ۳۳ فی صد زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔
شہری آبادی کے بارے میں بھی متعدد جائزے یہ حقیقت سامنے لاتے ہیں کہ گذشتہ ۱۰سال میں حقیقی اُجرت (real wages) کم ہوئی ہے اس میں اضافہ نہیں ہوا جو غربت میں اضافے کا باعث ہے۔
روزگار کے سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ بے روزگاری جتنی زیادہ آج ہے‘ پہلے کبھی نہیں تھی۔ نیز روزگار کی فراہمی کے جو وعدے کیے جا رہے ہیں‘ ان میں صداقت نہیں۔ ایک تو روزگار کی تعریف ہی نہایت ناقص ہے یعنی اگر ایک شخص کو ہفتے میں دس گھنٹے کا کام بھی مل جائے تو وہ برسرِروزگار ہے حالانکہ اتنے گھنٹے کا کام پیٹ بھرنے کے لیے آمدن نہیں پیدا کرسکتا۔ پھر ایک عجیب و غریب قسم برسرِروزگار کی بنائی گئی ہے یعنی unpaid house labourاور ملک میں جن ۲۳ لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے ان میں سے ۱۱لاکھ سے زیادہ کا تعلق اسی unpaid house labourسے ہے۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری کی صورت حال لیبر سروے کے تجزیہ پر مبنی ڈاکٹر جنیداحمد کے ایک مضمون کے مطابق کچھ یوں بنتی ہے کہ ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں ۲۰۰۶ء میں میٹرک تک تعلیم پانے والوں کی بے روزگاری میں ساڑھے دس فی صد اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ اس عرصے میں گریجویشن یا اس سے اُوپر تعلیم حاصل کرنے میں سوا اٹھارہ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ دوسالوں کے دوران ان تعلیم یافتہ بے روزگاروں میں ۲۴ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ۳۷ لاکھ بے روزگاروں میں سے ۱۳ لاکھ بے روزگار ایسے ہیں جنھوں نے میٹرک سے زیادہ اور گریجوایشن سے کم تعلیم حاصل کی ہے۔
اُجرت کی کمی‘ قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ‘ سرکاری طور پر فراہم کی جانے والی خدمات کا فقدان یا ان کی ناگفتہ بہ حالت جیسے تعلیم‘ علاج کی سہولت‘ صاف پانی کی فراہمی‘ مکان‘ سڑکوں اور روشنی تک رسائی‘ ان سب کے مجموعی اثرات کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے اورایمان کی کمزوری اور اخلاقی زوال کے اس دور میں مسلمان معاشرے میں ان حالات کے ردعمل میں ایک طرف تخریب کاری‘ چوری‘ ڈاکا اور قتل و غارت گری طوفان کی شکل اختیار کررہے ہیں تو دوسری طرف مایوسی اور بے بسی کی وہ کیفیت رونما ہو رہی ہے جو جسم فروشی اور خودکشی کی طرف لے جا رہی ہے۔ اس صورت حال کی ذمہ داری سب سے زیادہ حکومت اور معاشرے کے متمول طبقات پر آتی ہے۔
حکومت کے کرتادھرتا کتنے ہی بغلیں بجائیں‘ حقیقت یہ ہے کہ یونیسف (UNICEF) کی تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق پاکستان اور جنوب ایشیا میں under nourished اور under weight بچوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے یعنی پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں یہ شرح ۴۶ فی صد ہے جو دنیا کے اوسط سے تقریباً دگنا ہے۔ پاکستان میں ان بچوں کی تعداد ۸۰لاکھ کے قریب ہے۔ (ڈان، ۳مئی ۲۰۰۶ئ)
تعلیم کے لیے وسائل بڑھانے کے تمام دعووں کے باوجود ورلڈبنک کی تازہ ترین رپورٹ Little Green Book 2006 کے مطابق پاکستان میں تعلیم پر اخراجات قومی پیداوار کے تناسب سے کم ہیں یعنی ۳ئ۲ فی صد‘ جب کہ جنوب ایشیا کا اوسط ۶ئ۳ فی صد اور پوری دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کا اوسط ۴ئ۳ فی صد ہے (ڈان، ۱۲ مئی ۲۰۰۶ئ)۔ اور بات صرف تعلیم کے بجٹ کی نہیں اس بجٹ کا استعمال‘ کرپشن‘ اسکولوں کی زبوں حالی‘ اساتذہ کا فقدان اور بے توجہی‘ تعلیمی معیار کی پستی اور شکستہ حالی سب کے سامنے ہے۔
وزیراعظم صاحب دعویٰ کر رہے ہیں کہ پرائمری عمر کے طلبا کا ۸۶ فی صد اسکولوں میں جارہا ہے‘ جب کہ ورلڈ بنک کی یہ رپورٹ کہہ رہی ہے کہ اس عمر کے بچوں کا صرف ۵۰ فی صد تعلیم کی سہولت تک رسائی پارہا ہے یعنی ۵ سے ۹ سال کے بچوں کی موجودہ تعداد ۲کروڑ کا صرف نصف تعلیم حاصل کر رہا ہے اور ان میں سے بھی اسکول چھوڑ جانے والوں (drop outs)کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک جائزے کے مطابق پانچویں تک آتے آتے تعداد نصف رہ جاتی ہے۔
کراچی ملک کا امیرترین شہر ہے‘ اس کے ایک حالیہ جائزے کے مطابق شہر کا ۵۵ فی صد کچی آبادیوں پر مشتمل ہے جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ (ڈیلی ٹائمز، ۴مئی ۲۰۰۶ئ) اور پورے ملک کے بارے میں جائزے بتا رہے ہیں کہ آبادی کا ۵۹ فی صد آلودہ پانی استعمال کر رہا ہے جو پیٹ کی بیماریوں کا بڑا سبب ہے۔ (ڈیلی ٹائمز، ۳۱ دسمبر ۲۰۰۵ئ)
یہ ہیں عام آدمی کی زندگی کے حالات ___نہ پیٹ بھر کر روٹی میسر ہے‘ نہ صاف پانی‘ نہ گھرکی سہولت حاصل ہے‘ نہ تعلیم اور صحت کی۔ اور حکومت دعوے کر رہی ہے کہ ہم آسمان سے تارے توڑ لائے ہیں اور زمین پر دودھ کی نہریں بہا دی ہیں۔
۴- معاشی صورت حال کا ایک دوسرا دل خراش پہلو دولت کی ناہمواری‘ معاشرے کی طبقاتی تقسیم‘ اور حکومت کی وہ سوچی سمجھی پالیسی ہے جس کے نتیجے میں پیداوار میں نام نہاد اضافہ‘ بیرونی تجارت کا فروغ اور زرمبادلہ کے ڈھیر اصل ہدف ہیں‘ جب کہ غربت کا خاتمہ‘ روزگار کی فراہمی‘ دولت کی منصفانہ تقسیم اور عدل و انصاف اور ضروریاتِ زندگی پر مبنی آمدنی پالیسی (income policy)کا فقدان ہے۔ سرمایہ داری اپنی بدترین شکل میں پروان چڑھائی جارہی ہے۔ آزاد معیشت‘ منڈی کا نظام‘ نج کاری (privatization) اور de-regulation کے نام پر ایک استحصالی معیشت کو فروغ دیاجا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک اشرافی معیشت (elitist economy)وجود میں آئی ہے جس میں دولت کا ارتکاز ایک محدود طبقے کے ہاتھوں میں ہورہا ہے اور عام افراد غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ چند لاکھ گھرانے ہیں جو دولت کے تمام وسائل پر قابض ہیں اور ان کا پُرتعیش طرزِ زندگی اسراف اور تبذیر کی بدترین مثال ہی پیش نہیں کر رہا بلکہ معاشرے میں طبقاتی منافرت پھیلانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ حکومت اور اس کے کارپرداز جس طرزِ زندگی کو فروغ دے رہے ہیں اور جو مثال قوم کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور سرکاری وسائل کو جس بے دردی سے عیش و عشرت اور نام و نمود کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک طرف قومی وسائل کے ضیاع کا باعث ہے تو دوسری طرف قوم کے محروم طبقوں میں نفرت کی آگ سلگا رہا ہے اور معاشرے کو تصادم کی طرف لے جا رہا ہے۔ صرف چند حقائق پیش کیے جا رہے ہیں جن سے اس خطرناک صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اسٹیٹ بنک نے ملک میں بنک کاری کے نظام اور کارکردگی کے بارے میں جو تازہ ترین اعداد وشمار جاری کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جون ۲۰۰۱ء میں ملک کے تمام بنکوں میں کل کھاتہ داروں کی تعداد ۲کروڑ ۷۲ لاکھ ۷۰ہزار تھی جو جون ۲۰۰۵ء میں کم ہوکر ۲کروڑ ۶۹لاکھ ۸۰ہزار رہ گئی۔ اصل کمی ان کھاتہ داروں میں ہوئی ہے جن کے ڈپازٹ ۴۰ ہزار روپے یا اس سے کم تھے اور اس کے برعکس اضافہ ان میں ہوا ہے جن کے ڈپازٹ پانچ لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد ایک لاکھ ۸۳ ہزار سے بڑھ کر ۳ لاکھ ۹۵ ہزار ہوگئی ہے۔ بنک نج کاری کے بعد جس طرح اپنے کھاتہ داروں کا استحصال کر رہے ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ۲۰۰۱ء میں کھاتہ داروں کو جو نفع دیا جا رہا تھا اگر اسے افراط زر سے adjustکرکے real returnمتعین کی جائے تو وہ صرف ۶ئ۰ تھی مگر اب ۲۰۰۵ء اور اس کے بعد کے اعداد و شمار کی روشنی میں کھاتہ داروں کی real returnمنفی ہے یعنی ۸ئ۵-۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنکوں کا spread یعنی جس شرح پر وہ کھاتہ داروں کو نفع/سود دیتے ہیں اور جس شرح سے advance پر سود وصول کرتے ہیں وہ ۷ اور ۵ئ۷ فی صد ہے جو دنیا میں کہیں نہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ۲۰۰۶ء کے پہلے تین ماہ میں بنکوں کے نفع میں ۲۰۰۵ء کے پہلے تین ماہ کے نفع پر۵۸ فی صد اضافہ ہوا ہے اور یہ رقم ۱۴ ارب روپے بنتی ہے۔ اس طرح اگر ۲۰۰۵ء میں بنکوں کے نفع کا جائزہ لیا جائے تو ۲۰۰۴ء کے مقابلے میں ۷ئ۹۸ اضافہ ہوا۔ ٹیکس ادا کرنے کے بعد یہ نفع ۵ئ۴۷ ارب روپے تھا۔ واضح رہے کہ بنکوں کے ٹیکس کی شرح کو بھی گذشتہ سالوں میں کم کیا گیا ہے جو ۴۵ فی صد سے کم کرکے ۳۸ فی صد کردیا گیا ہے اور دعویٰ ہے کہ آیندہ سال مزید ۳ فی صد کم کردیا جائے گا۔
بنک تو پھر بھی کچھ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں جو سٹہ کا کاروبار ہو رہا ہے اور جس میں گذشتہ ۶ سال میں کراچی اسٹاک ایکسچینج کا index جو ۱۹۰۰ تک گرگیا تھا‘ بڑھ کر ۱۱۰۰۰ سے تجاوز کرگیا ہے۔ چند بڑے بڑے کھلاڑی ہیں جنھوں نے اربوں روپیہ بنالیا ہے‘ جب کہ ہزاروں عام سرمایہ کار ہیں جوبالکل لٹ گئے ہیں۔ سینیٹ کی مالیاتی کمیٹی کی تجویز تھی جسے سینیٹ نے باقاعدہ حکو مت کو بھیجا تھا کہ اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار پر capital gains taxلگایا جائے مگر سرمایہ پرست لابی نے اسے نامنظور کردیا بلکہ اسٹاک ایکسچینج کے لیے جو نگران ادارہ ہے جب اس نے بڑی مچھلیوں پر گرفت کی ہلکی سی کوشش کی تو اس کے سربراہ کو بیک بینی و دوگوش کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کر دیا گیا۔ اسی طرح زمینوں کی قیمتوں کا مسئلہ ہے جس میں land mafiaنے اربوں روپے کمائے اور کوئی ٹیکس نہیں‘ نگرانی کا کوئی نظام نہیں۔ چھے سال میں زمین کی قیمتیں ۱۰ سے ۲۰ گنا بڑھ گئی ہیں اور ایک عام آدمی کے لیے گھر بنانے اور سرچھپانے کا اہتمام کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور یہ تمام طبقات ٹیکس کی گرفت سے ہی باہر ہیں۔
قیمتی ترین کاروں کی ریل پیل ہے۔ ہر مہینے ہزاروں کاریں سڑکوں پر آرہی ہے اور ایک سے ایک قیمتی کار درآمد کی جارہی ہے۔ گذشتہ سال صرف کاروں کی درآمد پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ صرف ہوا ہے۔ جو کاریں ملک میںبنائی جارہی ہیں ان کے لیے مشینری اور پرزوں کی درآمد کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تو یہ رقم دگنی ہوجاتی ہے۔ اس پر مستزاد اسمگل شدہ گاڑیوںکی مالیت بھی اربوں میں ہے۔ سڑکوں کی جو حالت ہے‘ پٹرول کی درآمد سے جو بوجھ ملک کے زرمبادلہ پر پڑرہا ہے فضا کو خراب کرنے اور آلودگی کے جو تباہ کن اثرات ہورہے ہیں ان سب کا معاشی پالیسی بنانے والوں کو کوئی ادراک نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بری حالت میں ہے۔ ریل کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں۔ شرم کا مقام ہے کہ جو ۵ ہزار کلومیٹر ریلوے لائن ۱۹۴۷ء میں تھی ۲۰۰۶ء میں بھی وہی ہے۔ اس میں چند کلومیٹر کا اضافہ نہیں ہوا‘ جب کہ بھارت میں ۳۰ ہزار کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ٹرین سروس عام آدمی کے لیے ٹرانسپورٹ کا موثر اور سستا نظام فراہم کر رہی ہے۔ پھر ان کے کرایوں میں بھی بین الاقوامی قیمتوں کا نام لے کر اضافہ روز مرہ کا معمول ہے مگر انرجی پالیسی اور ٹرانسپورٹ پالیسی کا فقدان ہے اور ایسی جامع پالیسی (comprehensive policy) کا توکوئی تصور ہی نہیں جو مواصلات کے جملہ پہلوؤں‘ وسائل اور کم سے کم لاگت کو سامنے رکھ کر بنائی جائے۔
سرکاری وسائل کو جس بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ صرف ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کے اخراجات اور وزرا کی فوج ظفرموج پر کیے جانے والے اخراجات پر ایک نظر ڈالنے سے کیاجاسکتا ہے۔ صرف ان دو عہدوں پر فائز انسانوں پر روزانہ ۲لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہو رہا ہے‘ جب کہ ایک عام شہری کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ صدر‘ وزیراعظم‘ وزرا‘ ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری عہدہ داروں کے صرف اس سال کے بیرونی سفر کے اخراجات کا جو تخمینہ سلطان احمد نے ڈان میں پیش کیا ہے اس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ڈان کا کالم نگار لکھتا ہے کہ صرف پچھلے چھے ماہ میں ۷۰۵ملین ڈالر ان شاہانہ اسفار پر خرچ ہوئے ہیں۔ سرکاری استعمال کے لیے ۶۰ مرسڈیز سال گذشتہ میں منگوائی گئی تھیں‘ اب اسمبلی کے اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین متمنی ہیں کہ ان کی پرانی مرسڈیز متروک کر دی جائیں‘ سوا سو کروڑ کی نئی مرسڈیز خریدی جائیں۔ اسپیکراسمبلی اپنے لیے ۱۰کروڑ کا مکان بنوانا چاہتے ہیں۔ نئے وزیروں کے لیے ۲۰کروڑ ۵۰ لاکھ روپے Minister's Enclosure میں اضافے کے لیے منظور کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد میں بڑے لوگوں کے لیے ۱۱-H میں ایک سوشل کلب بنانے کے لیے ایک ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ کراچی میں کراچی پورٹ کے سامنے سمندر میں ایک ۶۲۰فٹ اُونچا فوارہ ۲۲کروڑ ۵۰لاکھ روپے سے بنایا ہے جو کام نہیں کر رہا۔
اور اس قیادت کے ذہنی افلاس اور اخلاقی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ سنٹرل بورڈ آف ریونیو نے اپنے تازہ ترین فرمان کے ذریعے صدر مملکت‘ وزیراعظم اور چاروں گورنروں کے لیے خصوصی احکام جاری کیے ہیں کہ ان کے لیے منگوائے جانے والے غیرملکی سگریٹ اور سگار فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہوں گے۔ (ڈان، ۱۴ مئی ۲۰۰۶ئ)
ایک طرف غربت‘ افلاس‘ بے روزگاری‘ بے چارگی اور دوسری طرف اسراف‘ تبذیر‘ عیاشی اور دولت کی نمایش کا یہ ہولناک تفاوت ہے جو ملک کی معیشت ہی نہیں معاشرے کی تمام اقدار کو گھن کی طرح کھا رہا ہے اور بے چینی اور اضطراب کے اس لاوے کی پرورش کر رہا ہے جو نہ معلوم کب آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے۔
۵- بین الاقوامی تجارت کا خسارہ جو اس سال بڑھ کر ۱۰ سے ۱۲ بلین ڈالر کی حدوں کو چھونے والا ہے اور سابقہ سال کے مقابلے میں دگنا ہوگیا ہے اور جس کے نتیجے میں توازن ادایگی بھی اب اتنے خسارے میں جا رہا ہے جو ۴ سے ۵ بلین ڈالر ہوسکتا ہے‘ جو سابقہ سال کے خسارے کے مقابلے میں تین گنا ہے‘ خطرے کی ایک اور گھنٹی ہے۔ بیرونی قرضوں میں کوئی نمایاں کمی نہیں ہوئی اور اندرون ملک قرضوں میں اضافہ ہوا ہے اور بجٹ کا خسارہ بھی تقریباً دگنا ہوگیا ہے۔ اپنے وسائل سے بڑھ کر رہن سہن (living beyond means) کی پالیسی تباہ کن ہے لیکن معاشی ترقی کے نشے میں مست قیادت ان تمام warning signals کو نظرانداز کیے ہوئے ہے اور ملک کو بہت ہی خطرناک صورت حال کی طرف لے جا رہی ہے۔
پانی کی قلت کا مسئلہ بڑا اہم مسئلہ ہے مگر اسے بھی سیاست کی نذر کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ گذشتہ ۷سال سے آپ حکمران ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے کیا اقدام کیے؟ ترجیحات کے تعین اور قومی اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے کیا مساعی کی گئیں؟ پانی کے صحیح استعمال کے طریقوں کو رائج کرنے کے لیے کیا کیاگیا؟ پانی کا مسئلہ آج آپ کے علم میں آیا ہے؟ قیمتوں کے سلسلے میں بھی جنرل مشرف صاحب نے ۱۶مئی ۲۰۰۶ء کو ایک خطاب میں فرمایا ہے کہ کھانے کی اشیا کی قیمتوں میں ۵۰ فی صد کمی کر دی جائے گی۔ (ڈیلی ٹائمز، ۱۷ مئی ۲۰۰۶ئ)
سبحان اللہ! گویا صرف آپ کے حکم کی کمی تھی۔ لیکن اس فرمان کے جاری فرمانے میں اتنی تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟
چینی کا بحران آج بھی موجود ہے اور اب جو بحث اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی اور وزیرتجارت کے درمیان اخبارات میں ہورہی ہے‘ اس نے اس حکومت کے سارے کرداروں کو بالکل بے نقاب کردیا ہے۔ کس طرح ذاتی منافع کے لیے سرکاری پالیسیوں کو تبدیل کیا گیا‘ بنکوں کو استعمال کیا گیا‘ درآمد کی جانے والی چینی کو بھی سرکار میں بیٹھے ہوئے مل مالکوں نے اپنے لیے نفع اندوزی کا ذریعہ بنایا‘نیب نے مداخلت کی تو اس کو کان پکڑ کر باہر کردیا گیا۔ آج بھی چینی ۳۷روپے کلو مل رہی ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کا معاملہ بھی ایک اسیکنڈل سے کم نہیں۔ اس حکومت کے دور میں ۴۵ بار اس میں اضافہ کیا گیا ہے اور صارف کو آج اس قیمت سے تین گنا زیادہ قیمت دینا پڑ رہی ہے جو ۱۹۹۹ء میں دے رہا تھا اور ستم یہ ہے کہ قیمت میں ۴۲ فی صد حصہ سرکاری ٹیکسوں کا ہے۔
پانچ سال پہلے اسی حکومت کی کابینہ نے طے کیا تھا کہ قیمتوں کا تعین تیل اور گیس کی اتھارٹی (OGRA) کرے گی مگر اس پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔ پٹرول کی قیمتیں غیرملکی کمپنیاں مقرر کرتی رہیں اور من مانی کرتی رہیں جن میں سیلزٹیکس اور ایکسائز پر بھی اپنا کمیشن لینا شامل ہے جس مد میں ساڑھے چار ارب روپے پچھلے چند سالوں میں ان کمپنیوںنے عوام سے وصول کیے۔ جب اس راز سے پردہ اُٹھا تو کمپنیوں نے یہ رقم واپس کرنے کے بجاے مزید سرمایہ کاری نہ کرنے کی دھمکیوں سے بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ نیب نے نوٹس لیا تو نیب کے پیچھے پڑ گئے اور خطرہ ہے کہ جس طرح چینی کے معاملے میں نیب کی انکوائری کو دفن کر دیا گیا‘ اس طرح اس معاملے کو بھی ختم کردیا جائے گا۔
۶- ایک اور اہم مسئلہ صوبوں کے ساتھ سوتیلی ماں سے بھی بدترسلوک ہے۔ مرکز نے صوبوں کے وسائل پر قبضہ کرلیا ہے۔ سارے ٹیکس مرکز لگا رہا ہے اور جو ٹیکس ہمیشہ سے صوبوں کا حق تھے یعنی سیلزٹیکس‘ اسی طرح صوبے کے قدرتی وسائل کی رائلٹی وغیرہ‘ یہ سب اب مرکز کی گرفت میں ہیں اور ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت تقسیم کا جو نظام تجویز کیا گیا ہے اس پر عمل نہیں ہو رہا حتیٰ کہ این ایف سی ایوارڈ بھی معرض التوا میں پڑا ہوا ہے۔ ٹیکس جمع کرنے پر مرکز جو کمیشن لیتا ہے وہ سی بی آر کے اصل اخراجات سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ مرکز نے صوبوں کو نقد ترقیاتی قرضے دیے ہیںوہ بالعموم رعایتی شرح سود پر باہر سے حاصل کیے گئے ہیں مگر مرکز صوبوں سے ۱۴ سے ۱۷ فی صد سالانہ سود وصول کر رہا ہے اور یہ قرضے ۲۰۰ بلین روپے سے متجاوز ہیں۔ صوبے مطالبہ کررہے ہیں کہ ہم سے قرض واپس لے لیں اس لیے کہ مارکیٹ سے وہ اس سے نصف شرح سود پر قرض لے کر یہ رقم واپس کرسکتے ہیں لیکن ظلم ہے کہ ان کو قرض واپس کرنے کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔ این ایف سی کا جو من مانا (arbitrary) ایوارڈ صدر نے دیا ہے اس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ صوبوں کو ۴۴ ارب روپے زیادہ مل رہے ہیں لیکن اس کی سزا یہ دی جارہی ہے کہ سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام سے ملنے والی اس سے ۱۲ ارب زیادہ رقم یعنی ۵۶ ارب سے ان کو محروم کیا جا رہا ہے۔
خرابی کی جڑ دو چیزیں ہیں: ایک شخصی حکومت‘ پارلیمنٹ کی بے بسی‘ جمہوریت کا فقدان اور جواب دہی کا عدم وجود اور دوسرا معاشی پالیسی کے بنیادی نمونے (paradigm) کا بگاڑ‘ وژن کا افلاس اور حقائق سے بے تعلقی۔
دوسرے تمام معاملات کی طرح معاشی حالات کی اصلاح کا دارومدار بھی حقیقی جمہوری‘ عوام کی خادم اور عوام کے سامنے جواب دہ حکومت کے قیام پر ہے۔ ایسی حکومت کے ذریعے معاشی ترقی کے ایک بالکل دوسرے ماڈل کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کو سرمایہ دارانہ نظام کا دم چھلہ نہ بنائے بلکہ خودانحصاری کی بنیاد پر عوام کی فلاح و بہبود اور انصاف اور عدل اجتماعی پر مبنی ایک ہمہ جہتی معاشی پالیسی تشکیل دے تاکہ معاشی ترقی اور استحکام کے ساتھ تمام انسانوں کو باعزت زندگی گزارنے کا موقع ملے‘ اور ملک کے تمام باشندوں اور تمام علاقوں کے درمیان دولت کی تقسیم منصفانہ ہو اور وسائل حیات سب کے لیے یکساں طور پر اور وافر مقدار میں میسر ہوں۔ یہ اسلام کا تقاضا ہے‘ اور یہی ایک مہذب معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔اس انقلابی تبدیلی کے بغیر ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکتے جس میں سیاسی طالع آزمائوں اور سرمایہ داری کے اسیر معاشی کارپردازوں نے اس ملک کو پھنسا دیا ہے۔ بقول اقبال ؎
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات