جون۲۰۰۶

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جون۲۰۰۶ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

خولہ عبدالفتاح ‘ کوہاٹ

’تہذیبوں کا تصادم، حقیقت یا واہمہ؟‘ (مئی ۲۰۰۶ئ) وقت کے اہم ترین موضوع پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ ’ترجیح آخرت‘ میں مولانا مودودیؒ کے قلم سے فکرِ آخرت کی تربیت کے لیے فکری و عملی رہنمائی میسر آئی۔ ’قومی ذرائع ابلاغ پر ایک نظر‘ (مئی ۲۰۰۶ئ) میں پیش کیا گیا تجزیہ اور لائحہ عمل عملی اقدامات کی متقاضی ہے۔ حکومت اور ارکان اسمبلی کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنا چاہیے۔آغا خان بورڈ پر کچھ عرصہ قبل ایک اچھی تحریر شائع ہوئی تھی۔ بورڈ کی سرگرمیاں جاری ہیں‘ اس حوالے سے باخبر رکھنے کی ضرورت ہے۔


حمید اللّٰہ خٹک‘ لاہور

’قومی ذرائع ابلاغ پر ایک نظر‘ (مئی ۲۰۰۶ئ) عنوان دیکھ کر خیال آیا کہ مقالہ نگار نے نظریاتی نقطۂ نظر سے جائزہ لیا ہوگا۔ لیکن اس میں صرف حکومت اور ذرائع ابلاغ کی کش مکش کی تاریخ بیان کی گئی۔ یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران ایک مسلمان ملک کے ذمہ دار شہری ہیں۔ پاکستان کا دستور بھی ان سے کچھ تقاضے کرتا ہے۔ مسلم معاشرہ بھی کچھ توقعات قائم کرتا ہے۔ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کا کیا کردار رہا ہے‘ یہ جائزے میں آنا چاہیے تھا۔ بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس حوالے سے توجہ دلانا چند فرض شناس شہریوں کا فریضہ ہے جو اخباری مراسلات لکھتے رہیں کہ کیا کیا قابلِ اعتراض لوازمہ دکھایا اور پڑھایا جا رہا ہے‘ لیکن ذمہ داروں کو جیسے مادرپدر آزادی حاصل ہے کہ دینی اور معاشرتی اقدار کے خلاف جو چاہیں دکھائیں اور چھاپیں۔ کیا ان کے ضمیر نہیں!


احمد علی محمودی‘ حاصل پور۔  اللّٰہ دتہ جمیل‘ جھنگ

’تہران کی القدس کانفرنس‘ (مئی ۲۰۰۶ئ) محترم عبدالغفار عزیز کا اپنی نوعیت کا منفرد مضمون ہے۔ ایران اپنے مبنی برعدل موقف پر جس جرأت و استقامت سے عالمی قوت کے سامنے ڈٹا ہواہے‘ دُنیا بھر کے مسلمانوں کی نگاہیں ایران پر جمی ہوئی ہیں۔ ایسے میں مذکورہ مضمون سے جہاں مفید معلومات سامنے آئیں وہاں براہِ راست ایرانی قوم کے جذبے‘ عزم اور حوصلے کی تصویر دیکھنے کوملی۔ غیرملکی ذرائع ابلاغ پر انحصار اور براہِ راست مشاہدے کا فرق بھی صاف محسوس ہوا۔ کاش! مسلمان اپنی عالمی نیوز ایجنسی تشکیل دے سکیں۔

کانفرنس کی انفرادیت‘ عالمی اسلامی تحریک کے قائدین بالخصوص فلسطین کی پوری قیادت کی شرکت تھی۔ اُم نضال کی ایمان پرور گفتگو‘ حماس کی قیادت کو درپیش عملی مشکلات اور ان کے حل کے لیے جدوجہد اور اپنے اصولوں پر کسی قیمت پرسمجھوتہ نہ کرنے کا عزم‘ اُمت کی طرف سے دل کھول کر مالی امداد کا منظر___ ایک زندہ اُمت اور مسلمانوں کے فقید المثال جذبۂ اخوت ومحبت کی یاد تازہ ہوگئی۔ ایرانی قوم کا یہ عزم یقینا ایک حقیقت ثابت ہوگا کہ ایران پر حملہ پوری اُمت مسلمہ پر حملے کے مترادف ہوگا اور پوری دنیاسے اس کا جواب دیا جائے گا!


اے مراد لعل‘ چترال

تہران کی القدس کانفرنس (مئی ۲۰۰۶ئ) میں سرکاری سطح پر کوئی نمایندگی نہ ہونا افسوس ناک ہے۔ یقینا اسے عالمِ اسلام‘ فلسطینی اتھارٹی اور ایرانی بھائیوں نے محسوس کیا ہوگا‘ اور ان ممالک میں پاکستان کے اس اقدام سے عام طور پر مایوسی ہوئی ہوگی۔ آخر یہ لوگ کب اپنا قبلہ درست کریں گے!


غلام مصطفٰی ‘ قصور۔ خالد فاروق‘ سوات۔ بشیرانور‘ رحیم یارخان۔ عبدالطیف ‘ کرک

ترجمان القرآن کی توسیع اشاعت کا تقاضا ہے کہ اس میں عام فہم اور مختصر مضامین شائع ہوں‘  زبان سہل ہو‘ اور اگر مشکل الفاظ استعمال کیے جائیں تو مفہوم بریکٹ میں دیا جائے۔ مولانا مودودیؒ کے دور ادارت میں اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جو لٹریچر بھی پیش کیا اس کے بڑے پیمانے پر عام ہونے کی بنیادی وجہ بھی عام فہم اور سادہ زبان ہے۔ ادارے کی جانب سے ترجمان کی توسیع اشاعت کی اپیل بھی کی جاتی ہے لیکن یہ مسائل اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مئی کے شمارے میں ’تہذیبوں کا تصادم ___ حقیقت یا واہمہ‘  ایک فلسفیانہ اور پیچیدہ موضوع ہے‘ جب کہ اپریل میں ’التوحید: عالمی تناظر میں‘ خشک‘ مشکل تراکیب اور عبارت پر مبنی تحریر ہے جس کو سمجھنے میں خاصی دقت پیش آتی ہے۔ براہ کرم اس پہلو پر خصوصی توجہ دیں۔


منظوراحمد‘ چکوال

وفاقی حکومت جو نئی تعلیمی پالیسی جون ۲۰۰۶ء میں لارہی ہے اس کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ ۴۶اختیاری مضامین کی تعداد گھٹاکر صرف ۲۷ مضامین قابلِ مطالعہ قرار دیے جا رہے ہیں۔ ۱۹مضامین جنھیں  زمرۂ تدریس سے نکالا جا رہا ہے‘ اُن میں سے ایک فارسی ہے۔ اسے نصابِ تدریس سے خارج کرنا کسی طرح قرین مصلحت و انصاف نہیں کیوں کہ: (ا) فارسی اُردوکا منبع اور سرچشمہ ہے۔ فارسی زبان کے ۶۰ سے ۷۰ فی صد تک الفاظ اُردو میں مستعمل ہیں۔ فارسی جانے سیکھے بغیر اُردو کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ (ب)علامہ اقبال کی شاعری کا بیش تر حصہ فارسی اشعار پر مشتمل ہے۔ فارسی سے نابلد رہ کر فکرِاقبال کی حقیقی روح سے آگاہی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ (ج) برعظیم پاک و ہند کے اسلامی عہد کا تمام علمی‘ تہذیبی و تاریخی ورثہ فارسی میں محفوظ ہے اور اس دور سے متعلق ہزاروں مخطوطات پاکستان‘ ہندستان اور یورپ کے بڑے بڑے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ حیرت ہے کہ اسرائیل میں عبرانی زبان کو جو صدیوں سے مُردہ ہوچکی تھی‘ دوبارہ زندہ اور رائج کیا جا رہا ہے‘ جب کہ ہمارے ہاں نظام تعلیم میں نت نئے تجربات کرنے والے ارباب اختیار کا ہمارے علمی و ادبی‘ ثقافتی ورثے اور قومی زبان کی جڑ کاٹنے کا رویہ سمجھ سے بالاترہے۔