جون۲۰۰۶

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جون۲۰۰۶ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

وقت اور صلاحیتوں کی تقسیم اور کارِ دعوت

سوال: سعودی عرب میں ہماری ایک دکان ہے۔ میرے والد صاحب جماعت اسلامی کے مخالفوں میں سے ہیں۔ یہاں انھوں نے میرے اوقاتِ کار اتنے سخت رکھے ہیں کہ ۱۸ سے ۲۰ گھنٹے تک مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ اس لیے بھی کیا کہ میں تحریک کے لیے الگ سے وقت نہ نکال پائوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ وقت اور صلاحیتوں کی  تقسیم کار کے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ مزید یہ کہ ایسے کسب معاش کے ساتھ جو وقت اور صلاحیتوں کے مکمل انہماک کا تقاضا کرتا ہو‘ اسلام کے جملہ احکامات خصوصاً دعوت و جہاد‘ خدمتِ خلق‘ تحریکی‘ تنظیمی و عائلی ذمہ داریاں  بہتر انداز سے کیسے ادا کی جاسکتی ہیں؟

جواب: قرآن وسنت نے انسان کی دنیاوی زندگی کو ایک مہلت‘ فرصت اور قلیل الوقت قیام سے تعبیر کیا ہے۔ یہ تینوں الفاظ وقت کے صحیح استعمال کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ احادیث میں مزید وضاحت سے یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یوم الحساب ایک بندۂ مومن سے دریافت کیا جائے گا کہ اس نے اپنی جوانی کس کام میں صرف کی‘ اپنا مال کس کام میں لگایا وغیرہ۔ قرآن کریم زمانے کی قسم کے بعد یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ انسان خسارے میں ہے جو ایمان نہیں لایا‘ نہ عمل صالح کیا۔ یہاں بھی وقت کو ایک قیمتی اثاثہ‘ ایک دولت اور ایک نعمت قرار دیا گیا ہے جس کا صحیح استعمال کامیابی اور فلاح و فوز کا باعث بن سکتا ہے اور ضیاع‘ خسارے اور شرمندگی کا سبب بن سکتا ہے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پنج وقتہ نمازوں کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ نے جو کتابًا موقوتا کہا ہے‘ اس میں وقت کے تعین اور exactness کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نماز کو اس کے صحیح وقت پر ادا کرنے کے ذریعے پابندیِ وقت اور تنظیمِ وقت (time management )کی عادت ڈالی جائے۔ اس لیے وقت کم ہو یا زیادہ‘ انسان اس کے لیے مکمل طور پر جواب دہ ہے۔

دوسری بات جس کی آپ نے وضاحت چاہی ہے اس کا تعلق صلاحیت سے ہے۔ قرآن کریم نے اس حوالے سے بہت سے مقامات پر ہمیں متوجہ کیا ہے‘ مثلاً حضرت یوسف ؑ اپنی صلاحیت کے حوالے سے ایک عظیم اور مکمل ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ قرآن کسی فرد کے منصب پر فائز کیے جانے کے لیے اہلیت کو شرط قرار دیتا ہے۔ بعض دینی فرائض کی ادایگی کے لیے استطاعت کا پایا جانا بھی صلاحیت ہی کی تعریف میں آئے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اگر ایک شخص کو تحریر‘ تقریر‘ تنظیم یا کسی بھی صلاحیت سے نوازا ہے تو اللہ کے حضور اسے اپنے وقت کے ساتھ اس صلاحیت کے حوالے سے بھی جواب دہی کرنا ہوگی۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بغیر کسی صلاحیت کے پیدا کیا ہے‘ اس لیے کسی نہ کسی حیثیت سے ہر فرد اللہ کی دی ہوئی صلاحیت کی بنا پر‘ چاہے وہ فکری ہو یا عملی‘ جواب دہ ہے۔

اس حوالے سے یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ صلاحیت کی دریافت اور اس کا نشووارتقا اور صحیح استعمال باہم مربوط ہیں۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی حیثیت سے دوسروں سے مختلف صلاحیت نہ دی ہو‘ حتیٰ کہ ایک باضابطہ طور پر غیرتعلیم یافتہ شخص بھی ایسی بہت سی صلاحیتیں رکھتا ہے جو شاید ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص میں نہ پائی جاتی ہوں۔

صلاحیت کی دریافت اور قرآن و سنت کی ہدایات کی روشنی میں اس کے استعمال کا نام عرفانِ نفس ہے۔ اس حوالے سے ہر مومن مرد اور عورت کو جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کن کن نعمتوں سے نوازا ہے اور کیا وہ ان نعمتوں کو جھٹلا تو نہیں رہا جیساکہ سورہ رحمن میں بار بار ہمیں متوجہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر اگر ادا کیا جاسکتا ہے تو صرف اور صرف حسنِ عمل اور اتقان کا رویہ اختیار کر کے ہی کیا جاسکتا ہے (ھل جزاء الاحسان الا الاحسان)۔

کسب معاش کے بارے میں یہ خیال کہ یہ ایک دنیاوی عمل ہے اور دعوت و تبلیغ ایک دینی عمل‘ مناسب نہیں۔ کسب معاش اگر اسلامی اصولوں پر کیا جارہا ہے تو وہ بھی دعوت کا ایک عملی ذریعہ بن سکتا ہے اور صلاحیت کے انحطاط کا باعث نہیں بنے گا۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب فکر پر تحریک اور دعوتِ حق غالب ہو اور کسب معاش کو دعوت کے لیے استعمال کرنے کی لگن دل میں ہو۔

آپ نے لکھا ہے کہ والد صاحب نے جماعت کی سرگرمیوں سے دُور رکھنے کے لیے آپ کے اوقات کار ایسے رکھے ہیںکہ آپ تحریکی کام کے لیے وقت نہ نکال سکیں۔ اس سلسلے میں ایک تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ان کے دل میں دین کی دعوت دینے والوں کے لیے نرمی اور گنجایش پیدا کرے‘ دوسرے‘ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک بندے سے اسی چیز کا حساب لے گا جو اس کے اختیار میں ہو۔ نہ وہ کسی پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ ڈالتا ہے اور نہ کسی سے اس کی قوت و اختیار سے باہر چیز کے بارے میں جواب طلبی کرتا ہے۔ ہاں‘ جو وقت بھی آپ کے پاس ہے اس کی جواب دہی لازمی ہے۔ چنانچہ کوشش کیجیے کہ جو وقت آپ کے اپنے تصرف میں ہے اس کا صحیح استعمال ہوسکے۔

دکان پر جو گاہک آتے ہیں ان کے ساتھ آپ کی گفتگو‘ آپ کا طرزعمل‘ انھیں مناسب اشیا‘ مناسب قیمت پر دینا اور اشیا فروخت کرتے وقت مناسب انداز میں ایک آدھ کلمۂ خیر کہہ دینا بھی دعوت ہے۔ اگر آپ چاہیں توکچھ پمفلٹ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں جو گاہکوں کو مفت دے دیے جائیں۔ بعض اداروں نے محترم سید مودودیؒ اور جماعت کے دیگر صاحبِ فکر افراد کے مضامین‘ ترجمان القرآن کے اداریے اور بعض مضامین پمفلٹ کی شکل میں جمع کیے ہیں۔ اگر آپ ان میں سے کچھ منتخب پمفلٹ اپنے گاہکوں کو پڑھنے کو دیں تو یہ بھی دعوت کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے۔

نماز کے اوقات میں مسجد جاتے وقت آپ اس طرح کے پمفلٹ اپنے ساتھ لے جائیں اور لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ اگر گاہک انگریزی خواں ہوں تو انگلش لٹریچر مطالعے کے لیے دیا جاسکتا ہے۔ آپ دکان پر فروخت کے لیے ایسی چیزیں بھی رکھ سکتے ہیں جو خود دکان کی دیگر اشیا کی طرح نفع کے ساتھ فروخت ہوسکیں‘ مثلاً سی ڈی پر قرآن کریم کا متن و ترجمہ وغیرہ۔ اگر دیگر اشیا فروخت کی جاسکتی ہیں تو لوگوں کی ضروریات کے پیش نظر اسلامی اشیا کو بھی فروخت کیا جاسکتا ہے۔

بلاشبہہ دعوت و جہاد‘ خدمتِ خلق اور دیگر تحریکی ذمہ داریوں کا پورا کرنا بجاے خود اللہ کا شکرادا کرنے ‘ اس کا ذکر کرنے اور اس کی اطاعت کرنے کے واضح ذرائع ہیں‘ لیکن جیسا پہلے عرض کیا گیا کہ مالک دکان کی مزاحمت کے باوجوداگر آپ دورانِ کاروبار اپنے ذہن کو استعمال کر کے ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں کہ گاہک نہ صرف سامان خریدیں بلکہ آپ کی جانب سے ایک پیغام بھی ساتھ لے کر جائیں تو یہ کاروبار خود دعوت و جہاد کی ایک شکل بن سکتا ہے اور اس کاروبار کے ذریعے بھی آپ خدمت خلق کرسکتے ہیں۔

گھر بھی ایک اہم اور بنیادی تحریکی محاذ ہے۔ قرآن نے اسی لیے کہا ہے: قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم ۶۶:۶) ، یعنی اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔  اس لیے دنیا بھر کے لوگوں کو دعوتِ حق دینا اور اہلِ خانہ کا حق مارلینا ‘نہ عدل ہے نہ تحریک کا مدعا۔ تحریکی دعوت کی بنیادوں میں اصلاحِ فرد کے بعد اصلاحِ خاندان اہم جزو ہے اور اسی کی بنیاد پر اصلاحِ معاشرہ اور تبدیلیِ اقتدار کی طرف سفر کیاجاسکتا ہے۔ اس لیے اپنی تمام تر معاشی سرگرمیوں کے باوجود اہلِ خانہ کے لیے وقت ضرور نکالیے‘ چاہے ان کے ساتھ کھانے کی نشست ہی کیوں نہ ہو۔ اس باہمی ملاقات اور گفتگو کے دوران کوئی نہ کوئی مرحلہ ایسا ضرور آتا ہے کہ باہمی رنجشیں ختم ہوجاتی ہیں اور دلوں پر پڑے تالے کھل جاتے ہیں۔

اگر وقت‘ صلاحیتوں‘ تقسیم کار اور دعوت کے حوالے سے مذکورہ بالا امور کو پیش نظر رکھا جائے‘ تو حکمت اور توازن و اعتدال کے ساتھ بہتر انداز میں کام کیا جا سکتا ہے۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔ (ڈاکٹر انیس احمد)