جون۲۰۰۶

فہرست مضامین

بانیانِ پاکستان کا تصور تعلیم: ایک تاریخی حوالہ

سلیم منصور خالد | جون۲۰۰۶ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدائی دور کی مشکلات اور پریشان کن حالات کے باوجود‘ نوزائیدہ مملکت میںجو سب سے پہلی قومی کانفرنس منعقد ہوئی‘ وہ پاکستان کے نظام تعلیم کے بارے میں تھی۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تعلیم کی تشکیل نو کا مسئلہ ابتدائی اور کس قدر اہم تھا۔ یہ کانفرنس ۲۷نومبر سے یکم دسمبر ۱۹۴۷ء تک کراچی میں منعقد ہوئی‘ یعنی قیام پاکستان کے صرف دو ماہ اور ۱۳ دن بعد۔ قائداعظمؒ بیماری کے باعث شریک نہ ہوسکے‘ مگر کانفرنس کی اہمیت کے پیشِ نظر انھوں نے اپنے پیغام کے ذریعے شرکت کی اور مرکزی وزیرتعلیم کو جو ہدایات دیں‘ وہ کلیدی خطاب میں قوم کے سامنے آئیں۔

کانفرنس کے چیئرمین جناب فضل الرحمن مرکزی وزیر داخلہ‘ اطلاعات و نشریات اور تعلیم تھے‘ جب کہ ۵۷ شرکاے کانفرنس میں متعدد ارکان دستورساز اسمبلی اور چوٹی کے ماہرین تعلیم شامل تھے۔

یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے آزادی کی جنگ لڑی تھی اور اب ایک نئے وطن‘ پاکستان کی تشکیل کا فریضہ انجام دینے چلے تھے۔ انھیں قوم سے کیے گئے اپنے وعدے بھی یاد تھے اور قوم کی منزل کے نقوش بھی ان کے سامنے روشن تھے۔ ان شرکا میں وطن عزیز میں بسنے والے دیگر مذاہب‘ یعنی عیسائیوں اور ہندوئوں کے قابلِ احترام نمایندے بھی شریک تھے۔

اس پانچ روزہ پاکستان تعلیمی کانفرنس کی روداد (proceedings) مرکزی وزارت داخلہ (شعبہ تعلیم) نے شائع کی‘ جو ۹۱صفحات پرمشتمل نہایت اعلیٰ درجے کی دستاویز ہے۔  قائداعظم    محمدعلی جناح نے نہ صرف اس دستاویز۱؎ کا مطالعہ کیا‘ بلکہ اسے سراہا بھی۔ اس کانفرنس کی روداد میں پاکستان کے مستقبل‘ یعنی پاکستان کی نسلِ نو کو درست سمت عطا کرنے کا جذبہ اور شعور‘ گہرے ادراک کی حدوں کو چھوتا نظر آتا ہے۔ لازم ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ‘ بالخصوص فوج‘ سیاست دان‘ بیورو کریسی‘ تعلیم اور قانون سازی کے متعلقین‘ بانیان پاکستان اور تحریک پاکستان کے سنجیدہ و فہمیدہ قائدین کے اس تعلیمی وصیت نامے کو پڑھیں۔ چونکہ آج کل بالخصوص امریکی صدر بش نے‘ مسلم دنیا کے نظام تعلیم کو اپنا مرکزی ہدف قرار دے رکھا ہے۔ اس لیے کئی مسلم ممالک میں ان کے حلیف حکمران   ان کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے اپنے ملک کے نظام تعلیم پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور سرکاری اداروں یا وہاں سرگرمِ کار‘ مخصوص این جی اوز کو ہر طرح کی مدد بہم پہنچا رہے ہیں۔

پاکستان کی تخلیق کسی فوجی جرنیل کے دماغ کی اختراع نہیں تھی۔قانون‘ جمہور اور    راے عامہ کے ملاپ اور ایمانی جذبے نے اس تصور کو ایک زندہ ریاست کا روپ عطا کیا تھا۔ اس لیے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ وہ لوگ پاکستان میں کیسا نظام تعلیم چاہتے تھے۔ زیرمطالعہ قومی تعلیمی روداد میں‘ سائنسی ترقی و تحقیقات پر شدت سے اصرار کیا گیا ہے مگر اس کے ساتھ‘ تحریک پاکستان کی لازوال روح کو بھی پوری دل سوزی سے نظام تعلیم میں سمودینے کا بھرپور اہتمام بھی کیا گیا ہے۔

کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے بعد معزز شرکا نے مختلف کمیٹیوں کی شکل میں‘ اپنے اپنے دائرے میں تجاویز دیں اور حکمت عملی تجویز کی‘ جسے آخری روز مکمل اجلاس میں شق وار منظور کیا گیا ہے۔ روداد میں اس بات کا بھی اہتمام کیا گیا کہ کمیٹی کی سفارشات کو مکمل طور پر ریکارڈ پر لایا جائے۔ پھر مکمل اجلاس نے جس لفظ کو حذف کیا یا جس لفظ کا اضافہ کیا‘ اسے بھی دستاویز کا حصہ قرار دیا گیا تاکہ حک و اضافہ اور ناسخ و منسوخ دونوں نگاہ میں رہیں۔ کیسے محتاط لوگ تھے!

اس کانفرنس کی تین کمیٹیوں کی متفقہ سفارشات اور تین قراردادیں ملاحظہ کیجیے:

  • سب سے پہلے ’یونی ورسٹی ایجوکیشن کمیٹی‘ کی تشکیل اور نظریاتی سوچ دیکھتے ہیں: کمیٹی کے چیئرمین میاں افضل حسین (چیئرمین پبلک سروس کمیشن پنجاب و سرحد) تھے اور سیکریٹری ڈاکٹر اخترحسین‘ ایجوکیشن ایڈوائزر‘ جب کہ ارکان تھے: ۱- ڈاکٹر محمود حسین‘ وائس چانسلر ڈھاکہ یونی ورسٹی ۲- ڈاکٹر عمرحیات ملک‘ وائس چانسلر پنجاب یونی ورسٹی ۳-ڈاکٹر اے بی اے حلیم‘ وائس چانسلر سندھ یونی ورسٹی ۴-ڈاکٹر سی ایچ رایس‘ پرنسپل ایف سی کالج‘ لاہور ۵- ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی‘ ممبر دستور ساز اسمبلی ۶- پروفیسر احمد شاہ پطرس بخاری‘ پرنسپل گورنمنٹ کالج‘ لاہور ۷- دیوان بہادرسنگھا‘ اسپیکر مغربی پنجاب صوبائی اسمبلی‘ لاہور ۸- ڈاکٹر کرنل اے کے ایم خان‘ پرنسپل ڈائو میڈیکل کالج‘ کراچی۔

اس کمیٹی نے متفقہ طور پر طے کیا:

  •  پاکستان کا تعلیمی نظام‘ اسلامی نظریے کی بنیاد پر مرتب کیا جائے گا۔
  •       مسلمان طالب علموں کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں دینی تدریس لازمی ہوگی‘ اور یہی سہولت دیگر مذاہب کے حاملین کو بھی فراہم کی جائے گی۔
  • تمام سطحوں پر جسمانی تربیت لازمی دی جائے گی‘ جب کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں لازمی فوجی تربیت دی جائے گی۔ (پروسیڈنگز: دی پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس‘ ص ۱۸)
  • دوسری رپورٹ ہے‘ کمیٹی براے پرائمری اور ثانوی تعلیم کی۔ اس کمیٹی کے چیئرمین ڈھاکہ کے ابونصر وحید تھے اور سیکریٹری محمد عبدالقیوم ایجوکیشن آفیسر‘ جب کہ ارکان میں شامل تھے: ۱-ایس ایم شریف‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ صوبہ پنجاب ۲-ڈاکٹر قدرتِ خدا‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ مشرقی پاکستان ۳-ڈاکٹر دائود پوتا‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ صوبہ سندھ ۴-محمد اسلم خان خٹک‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ صوبہ سرحد ۵- ایم اے مجید‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ ریاست بہاول پور ۶-وی یو پروانی‘ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ ریاست خیرپور ۷- آئی ایم خان‘ سپرنٹنڈنٹ ایجوکیشن‘ بلوچستان ۸- شایستہ اکرام اللہ ۹-پروفیسر بی اے ہاشمی‘ پرنسپل سنٹرل ٹریننگ کالج‘ لاہور ۱۰- جی ڈی برنی‘ بشپ آف‘ لاہور ۱۱-بیگم صفیہ احمد۔

اس کمیٹی نے نظریہ تعلیم کے لیے حسب ذیل رہنما اصولوں کی منظوری دی:

                ۱-            تعلیم‘ اسلامی نظریۂ آفاقی اخوت‘ سماجی جمہوریت‘ اور سماجی عدل وا نصاف کی ترویج پر مبنی ہوگی۔

                ۲-            طالب علموں کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنے مذاہب کے بنیادی اصولوں کو پڑھیں۔

                ۳-            تعلیم روحانی‘ سماجی اور فنی امتزاج پر استوار ہوگی۔ (روداد‘ ص ۲۱)

  • ویمن ایجوکیشن کمیٹی کی چیئرپرسن ‘ بیگم سیدہ فاطمہ رحمن اور سیکریٹری ڈاکٹر سید مزمل علی تھے۔ ارکان میں شامل تھے: ۱- ڈاکٹر خدیجہ فیروزالدین‘ ڈپٹی ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن‘ پنجاب  ۲-مس محمد علی‘ انسپکٹریس اسکولز‘ سندھ ۳- بیگم سلمیٰ تصدق حسین ۴- بیگم صفیہ احمد ۵- بیگم شایستہ اکرام اللہ خان ۶- ڈاکٹر قدرتِ خدا ۷- ایس ایم شریف ۸- پروفیسر بی اے ہاشمی۔

کمیٹی نے خواتین کی تعلیم کے لیے مختلف پہلوئوں پر سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا:

  •        تعلیم کی نظریاتی بنیادوں میں: اسلام کے آفاقی تصورِ اخوت و بھائی چارے‘ سماجی جمہوریت‘ سماجی عدل وا نصاف اور جمہوری قدروں کی ترویج ہوگی جس میں برداشت‘ خودانحصاری‘ ذاتی ایثار‘ انسانی ہمدردی اور شہری اشتراک کو ترقی دی جائے گی‘ جب کہ صوبائی تعصبات کی نفی کی جائے گی۔
  •  ثانوی درجہ تعلیم میں لڑکیوں کے لیے جداگانہ تدریس کابندوبست کیا جائے‘ اور جلد از جلد لڑکیوں کے لیے الگ کالج بنائے جائیں۔
  •     ہوم نرسنگ کی تعلیم پر مبنی نصاب کی تدریس لازمی کی جائے۔ ابتدائی طبی امداد اور ہوم نرسنگ‘ اعلیٰ ثانوی درجۂ تعلیم میں بھی لازمی کی جائے۔
  •  مغربی اور مشرقی پاکستان میں خواتین کے لیے فی الفور ایک ایک میڈیکل کالج قائم کیا جائے۔ (روداد ‘ ص ۲۴‘ ۲۵)

ان سفارشات میں نظریاتی تعلیم کی اہمیت کے ساتھ‘ طالبات کے لیے جداگانہ نصاب کی ضرورت اور مخلوط تعلیم کی نفی قابلِ غور ہے۔

بعدازاں دیگر شعبہ جات جن میں سائنس و ٹکنالوجی‘ زراعت‘ تعلیمِ بالغاں‘ مظلوم طبقات‘ اقوام کے مابین ثقافتی تعلقات وغیرہ پر مشتمل کمیٹیوں کی رپورٹیں بھی منظور ہوئیں۔ یونی ورسٹی ایجوکیشن‘ ویمن ایجوکیشن اور اسکول ایجوکیشن کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس نے پانچ قراردادیں منظور کیں‘ جن میں پہلی چار قراردادیں پیش مطالعہ ہیں:

                ۱-            کانفرنس اس امر پر زور دیتی ہے کہ پاکستان کی تعلیمی سرگرمیوں کو اس کے قومی کردار کا مظہر ہونا چاہیے‘ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اسلام کے تصورِ انسانیت کو روبہ عمل لایا جائے اور نسلی و جغرافیائی عصبیتوں سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کی جائے۔ کانفرنس نے اکثریت کے اس عزم کو قبول کیا ہے کہ اس کا نظامِ تعلیم اسلامی تعلیمات سے فیض یاب ہو‘ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اقلیتوں کو ان اصولوں کے تحت تعلیم دی جائے جو انسانیت کے لیے اسلام کے ترقی پسندانہ اور معیاری نشان کے مظہر ہیں۔ عزت مآب جوگندر ناتھ منڈل[وزیر قانون و محنت] اور مسٹر سی ای گبن [صدر اینگلو انڈین ایسوسی ایشن آف پاکستان] اس حوالے سے کانفرنس کمیٹی کی پیش کردہ سفارشات سے پوری طرح متفق ہیں۔ اس لیے یہ امر متفقہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا نظام تعلیم‘ اسلامی نظریے ہی کی بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے کہ جس میں آفاقی بھائی چارے‘ تحمل اور عدل کے امتیازی اوصاف پائے جاتے ہیں۔ (روداد‘  ص ۴۰)

                ۲-            کانفرنس محسوس کرتی ہے کہ جدید طرز زندگی (ماڈرن لائف) کی بہت سی سماجی آفت انگیزیوں کا سبب روحانی اور اخلاقی اقدار کی نفی ہے۔ اس حوالے سے جان لینا چاہیے کہ سماجی تعمیرنو کا کوئی پروگرام اُس وقت تک حصولِ مقصد کاذریعہ نہیں بن سکتا جب تک کہ انسانی روح کے اس خلا کو پر نہیں کیاجاتا۔ کانفرنس یہ پہلو نمایاں کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ بہت سے مغربی ممالک‘ جہاں جدید تعلیمی نظریات نافذ ہیں‘ اب وہ بھی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں کہ اسکولوں کے نصابات میں دینی تعلیم کا لازمی طور پر نفوذ ہوناچاہیے اور جسے کالج کی سطح پر معتدبہ طور پر بڑھانا چاہیے۔ کانفرنس کی سفارشات میں اس حوالے سے مسلم اکثریت کی خواہش کا عکس موجود ہے‘ تاہم اقلیتوں کی ثقافتی خودمختاری کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اس امر کا اہتمام کیا جانا چاہیے کہ‘ جس طرح مسلمان طالب علموں کے لیے دینی تعلیم لازمی ہو‘ ویسے ہی اقلیتیں اگر خواہش کریں تو ان کے بچوں کے لیے بھی ان کے مذاہب کے مطابق تعلیم و تدریس کا اہتمام کیا جائے۔ (روداد‘ ص ۴۰‘ ۴۱)

                ۳-            کانفرنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ہمارے نظامِ تعلیم کو ٹوٹ پھوٹ کے اس عمل سے مقابلہ کرنا چاہیے‘ جس نے جدید دنیا (ماڈرن ورلڈ) میں فرد کی شخصیت کو انتشارکا شکار کر کے رکھ دیا ہے۔ لازمی طور پر ایک متوازن نظام تعلیم ہی ایسے پارہ پارہ تصورِتعلیم کا مداوا کرسکتا ہے۔ اس لیے خاکہ نصاب (کریکولا) اور مقررہ نصاب (سلیبس) کی اس انداز سے تشکیل و پشت پناہی کی جانی چاہیے کہ جس سے تعلیم کے مختلف عناصر باہم متحد اور یک جان ہوسکیں۔ (روداد ‘ ص ۴۱)

                ۴-            کانفرنس تسلیم کرتی ہے کہ روحانی‘ ذہنی اور جسمانی پہلو لازمی طور پر طالب علم کی زندگی میں ہم آہنگی اور توازن پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا موجودہ نظام تعلیم محض کمرہ تدریس اور مطالعۂ کتاب پر زور دیتا ہے‘ جس کے نتیجے میں ایک عام سا طالب علم اپنی صحت کے بارے میں غفلت کا شکار ہوکر بیماری اور کمزوری کا نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ جدید تعلیم کا بڑا ہدف ایک اچھے شہری کی تعمیرہے‘ اور صحت کے بارے میں غفلت کا شکار ہونے والا فرد اچھا شہری نہیں بن سکتا۔ اس مقصد کے لیے جسمانی تربیت کے کلچر کو عام کیا جائے‘    بالغ طالب علموں کو اپنے وطن عزیز کی آزادی کے تحفظ کے لیے لازمی فوجی تربیت دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اہتمام کیا جائے کہ اسکائوٹنگ‘ ملٹری ڈرل‘ رائفل کلب‘ کوہ پیمائی‘ پیراکی وغیرہ کو تعلیمی دنیا میں رواج ملے‘ جب کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی سطح پر لازمی فوجی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ (روداد ‘ ص ۴۱)

نصف صدی بعد‘ ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں بانیانِ پاکستان کے متذکرہ بالا محسوسات اور ان کی ہدایات کا ہلکا سا پرتو بھی اپنی تعلیم پر نظر نہیں آتا۔ آنے والے طالع آزما اور مفاد پرست سیاست دانوں نے تعلیم کے اس نقشۂ راہ کو اٹھا کر ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ آغاخان بورڈ کی اباحیت پسندانہ پالیسی‘ مخلوط تعلیم کی روز افزوں ترویج‘ تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کی پامالی اور سیکولر این جی اوز کا تسلّط‘ ہماری اِسی غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ ہیں    ؎

فطرت افراد سے اِغماض بھی کرلیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف