مسلم سجاد


حج کی طرح‘ حج کی تیاری بھی ایک پورا عمل ہے۔ ساری ساری عمر تمنا کرنا‘ دعائیں کرنا‘ یہ بھی تیاری ہے۔ اس تیاری کی کیسی کیسی مثالیں علم میں آتی ہیں‘ پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ساری ساری عمر لوگ زادِ راہ جمع کرتے ہیں‘ رو رو کر دعائیں کرتے ہیں کہ خانہ کعبہ اور روضۂ رسولؐ کی زیارت نصیب ہو۔ اس کے خواب دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔

ایک وقت گزرا کہ قرعہ میں نام نہ نکلنے پر صدمے کی کیفیت ہوتی تھی کہ ابھی بلاوا نہیں آیا اور اگلے سال کا انتظار شروع ہو جاتا اور یوں تیاری جاری رہتی تھی۔

بحری جہاز سے حج کی صورت میں آٹھ دس دن بڑی ہمہ گیر‘ ہمہ وقتی تیاری کا موقع ملتا تھا۔ حج کے سفرناموں میں اس کا خوب بیان ملتا ہے۔ پابندی سے نمازیں‘ ذکرواذکار کی مجالس‘ دعائیں‘ توجہ‘ شوق --- یہاں تک کہ جدہ کا ساحل نظر آجائے اور شوق کی بے تابیاںاگلے مراحل کے لیے فزوں تر ہو جائیں۔

یوں‘ حج کے لیے سفر کی مدت کا طول بھی تیاری کا حصہ بن جاتا ہے۔ نائیجیریا سے آئے ہوئے ایک دوست نے بتایا کہ ایک زمانے میں سفر اتنے ماہ لیتا تھا کہ کسی کو دوسرے سال حج کرنا ہو تو وہ ادھر ہی رک جاتا تھا۔ جانے آنے میں چھ چھ ماہ لگ جاتے تھے۔ عبدالماجد دریابادی کے حج نامے میں ۱۹۲۹ء میں مناسک حج کے لیے نقل و حرکت کا ذریعہ اُونٹنی بیان ہواہے۔

وقت بدلنے کے ساتھ‘ سفر مختصر ہوتا گیا۔ اس سے تیاری کا‘ یعنی کیفیت سے گزرنے کا عمل متاثر   ہوا ہے۔ بحری جہاز کا سفر غیر مقبول ہوا اور بالآخر ختم ہوگیا۔ اب حاجی چند گھنٹے اس کیفیت میں گزار کر‘   ہوائی جہاز میں سوار ہو کر چند مزید گھنٹوں کے بعد جدہ پہنچ جاتا ہے۔ ہفتوں اور مہینوں خاص کیفیات میں گزارنے کا تاثر چند گھنٹوں میں تو‘ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کے لیے بارش کی مثال دی ہے کہ زمین پر برستی ہے لیکن ہر حصہ اپنی کیفیت اور قوت نمو کے لحاظ سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ چٹیل چٹان پر سے تو پانی گزر ہی جاتا ہے۔ اسی طرح حج کی مثال ہے۔ لاکھوں افراد دنیا کے کونے کونے سے جاتے ہیں‘ کئی کئی دن اکٹھے گزارتے ہیں‘ رحمت و مغفرت کی بارشیں جاری رہتی ہیں لیکن ہر ایک اپنے ظرف کے لحاظ سے فیض یاب ہوتا ہے۔ یقینا کچھ ضرور ایسے ہوں گے‘اللہ کرے سب ہوں‘ جو ایسے معصوم ہو جاتے ہیں جیسے آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔ اس کا انحصار بڑی حد تک تیاری پر ہے۔

اب تیاری خود سے ارادہ کر کے‘ مصروفیات اور زندگی کے ہنگاموں سے وقت نکال کر کرنا ہوگی۔ تربیت حجاج کے کسی پروگرام میں شرکت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن آخری بلکہ اولین بنیادی بات وہی کہ تیاری تو آپ کو خود ہی کرنا ہے‘ خود ہی پروگرام بنانا ہے‘ خود ہی عمل کرنا ہے--- آخر حج بھی تو آپ خود ہی کر رہے ہیں!

تیاری کا عمل

تیاری کے سلسلے میں دو اہداف ہونا چاہییں۔ مناسک ِ حج کے لیے تیاری‘ جو ۷ذی الحجہ سے شروع ہوتے ہیں‘ اور مکہ مدینہ کی سرزمین پر ۳۰‘ ۳۵ دن قیام کا جو موقع ملنے والا ہے‘ اس کے لیے تیاری--- تاکہ وہاں کا ہر ہر لمحہ استعمال ہو۔اس مقصد سے‘ جب سے بنکوں میں رقم جمع ہوتی ہے‘ کچھ نہ کچھ تیاری شروع کی جا سکتی ہے۔

جب میں حج کرنے گیا تو میرا خیال تھا کہ میرا کام مکہ مدینہ پہنچنا اور خانہ کعبہ دیکھنا اور طواف کرنا ہے‘ باقی اس دوران کی کیفیات --- جس کا حال سفرناموں میں پڑھا تھا غالباً خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے طاری کی جائیں گی‘ یعنی وہاں جا کر خود بخود طاری ہو جائیں گی۔ معلوم نہیں‘ میں کوئی خاص گنہگار تھا‘ یا سب کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ حرم میں بیٹھ کر بھی‘ راہوار خیال کو جہاں چاہے لے جا سکتے ہیں۔ شیطان زیادہ طاقت سے زور آزمائی کرتا ہے کہ اللہ کو بتائے کہ دیکھ‘ یہاں تک چل کر آنے والا بھی بہکایا جاسکتا ہے۔ ہر طرح کے ملک ملک کے مناظر وہاں نظر آتے ہیں اور آپ جہاں چاہیں اپنے کو لے جا سکتے ہیں۔ اور حرم سے ذرا باہر نکلیں تو فٹ پاتھ‘ دکانیں‘ ہوٹل--- پورا بین الاقوامی بازار سجا سجایا--- جتنے گھنٹے چاہیں گزاریں‘ جو چاہیں خریدیں--- یوں آزمایش تو بڑھ جاتی ہے۔ خیال تھا کہ یہاں پہنچ گئے تو سب کام آسان ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں پایا۔ اس لیے تیاری کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

تیاری کی پہلی شق یہی ہے کہ پہلے دن سے نیت کو خالص کیا جائے اور پھر کوشش کر کے دورانِ قیام اور دورانِ مناسک حج خالص رکھا جائے۔ ہرشخص خود ہی جائزہ لے کر معلوم کر سکتا ہے کہ نیت میں کہاں‘ کس طرح کا کھوٹ ہے‘ یا آ سکتا ہے۔ اس کی پیش بندی کرے‘ عملی تدابیر کرے اور اللہ سے دعا بھی کرے کہ سارا سفر‘ محنت‘ خرچ محض دوڑ بھاگ ہی نہ ثابت ہو۔

دورانِ قیام کی ایک اہم سرگرمی مسجدحرام اور مسجد نبویؐ کی نمازیں‘ خصوصاً جہری نمازیں ہیں۔ دوسری ساری سرگرمیاں اس کے گرد گھومتی ہیں۔ پہلے سے ذہن میں ہونا چاہیے کہ وہاں نمازیں بالکل  ٹھیک ٹھیک ادا کرنا ہیں (چاہے یہاں کیسی بھی عادات ہوں)۔ اس کے لیے دو باتوں کا اہتمام کیا جا سکتا ہے:

ایک یہ کہ نماز کے بارے میں لٹریچر میں جو کچھ پڑھا ہے‘ اسے تازہ کر لیا جائے۔ پانچ وقت کی نماز کو ذکر کے حقیقی معانی کے ساتھ قائم کیا جائے گا تو اس کی برکات‘ اور زندگی پر اثرات بچشم سر دیکھے جا سکیں گے۔ کتابیں حاصل کر لی جائیں‘ ساتھ رکھی جائیں۔

دوسری بات‘ بہت ضروری یہ ہے کہ اگر آپ کو اتنی عربی آتی ہے کہ قرآن سنتے ہوئے اس کا مفہوم ذہن میں آتا جائے تو اپنی خوش قسمتی پر اللہ کا شکر ادا کیجیے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو اس کی فکر کیجیے۔ اب   بے شمار ایسے کورس چل رہے ہیں جودو تین ماہ میں اتنی شدبُد کرا دیتے ہیں کہ آپ کا یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ روزانہ دو تین گھنٹے دیں‘ تو ایک ہفتے میں بھی ہدف حاصل ہو سکتا ہے (منشورات خرم مراد کے قرآنی عربی کے ۱۵ اسباق جلد ہی شائع کرنے والا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے)۔ یہ نہ ہو کہ فجرو عشا ء میں‘ مسجد نبویؐ اور مسجدحرام کے امام قرآن کی پُرلطف ‘ وجد آفریں تلاوت کر رہے ہوں‘ قوموں کے عروج و زوال کے احوال بیان ہو رہے ہوں‘آخرت کی حقیقت اور مناظر کا نقشہ کھینچا جا رہا ہو‘ احکام الٰہی اور ان کی  مصلحتیں بتائی جا رہی ہوں‘ انفس و آفاق کی آیات پر توجہ دلائی جا رہی ہو‘ آپ کے نفس کو جھنجھوڑا جا رہا ہو‘ اور آپ کو کچھ خبر ہی نہ ہو۔

نماز کی اپنی کیفیت ہے‘ لیکن معنی و مطلب کے ساتھ شعوری توجہ ہو تو افادہ ہزار چند ہو جاتا ہے۔ اپنے کو اس سے کیوں محروم رکھتے ہیں؟ جو عربی آپ سیکھیں گے‘ ساری عمر کام آئے گی۔ نمازوں کے علاوہ بھی یہاں تلاوت کا بہت موقع ملتا ہے۔ کئی کئی قرآن ختم کیے جاتے ہیں‘ یہ بامعنی ہوں توکیا کہنے!

ایک تیاری دعائوں کی ہے۔ یہ پورے اہتمام سے کریں‘ زبان کی کوئی قید نہیں لیکن قرآن کی بتائی ہوئی اور رسولؐ اللہ کی کی ہوئی دعائیں‘ آپ کے جذبات کو اور داعیات کو الفاظ کا جامہ پہنا دیتی ہیں اور جذبات کی تہذیب بھی کرتی ہیں۔ اس لیے ان کے مجموعے آپ کے پاس ہونے چاہییں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں دعائوں کے لیے بہت وقت ملتا ہے۔ آپ کے پاس جتنا بھی ذخیرہ ہو‘ کم پڑ جاتا ہے۔ آپ کوشش کرکے جمع کریں‘ یہ تیاری کا حصہ ہے۔ یاد نہ بھی ہوں تو سامنے رکھ کر‘ بیٹھ کر‘ آرام سے کی جا سکتی ہیں۔ (عربی جاننا یہاں بھی کام آئے گا)۔ یہ چار دن کا نہیں‘ مہینے بھر کا موقع ہے۔  اذکار مسنونہ (ابن قیم/ خلیل احمد حامدی)  نالہ نیم شب (خرم مراد) کے علاوہ بھی آسان دعائیں اور قرآنی دعائوں کے مجموعے عام ملتے ہیں۔ دعائوں کے لیے خصوصی اوقات اور مقامات کا بیان آپ کو ہر تذکرے میں ملے گا۔

دعوہ اکیڈمی کا شائع کردہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا ۷ روپے کا ایک کتابچہ (وہاں کوئی اسلامی مکتبہ اسے ۷ریال کا فروخت کر رہا تھا!)  سیرت نبویؐ دعاؤں کے آئینے میں ‘میرے ساتھ تھا۔ انھوں نے ترجمہ عبدالماجد دریابادیؒ کا نقل کیا تھا۔ ان گلیوں میں رسولؐ اللہ کا قرب آپ محسوس کرتے ہی ہیں‘ پھر آپؐ کی دعائیں‘ بہترین اُردو میں ترجمہ--- میں بیان نہیں کر سکتا کہ یہ مختصر کتابچہ میرے کتنے کام آیا!

تیاری کا ایک اہم حصہ مناسب کتب کا ساتھ رکھنا ہے۔ مطالعے کا وقت وہاں نکالیں۔ جتنا بازاروں اور گپ شپ سے بچیں گے‘ زیادہ مطالعہ کر سکیں گے (شیطان کی خصوصی کوشش ہوتی ہے کہ آپ کو اِدھر اُدھر کے کاموں میں لگائے رکھے اور اصل شغل آپ ملتوی کرتے رہیں کہ بہت وقت پڑا ہے‘ آپ پہلے ہی دن سے چوکنے رہیں‘ اس جال میں نہ آئیں) ۔خود ہی سوچیں کہ مسجد نبویؐ میں بیٹھ کر حدیث کا مطالعہ‘  چند لمحات کلام نبویؐ کی صحبت میں‘ کی عملی تفسیر بن جاتا ہے۔ مکہ مدینہ کے آثار اور نشانیاں دیکھنے جائیں تو سیرت کا مطالعہ مستحضر ہونا چاہیے۔ تیاری کے ایک حصے کے طور پر اسے بھی تازہ کر لیں۔

اب آیئے اصل حج‘ یعنی مناسک ِ حج کی طرف!

یہ چار پانچ دن ہی وہ اصل دن ہیں جن کی خاطر یہ سفر کیا گیا اور حج کا فریضہ ادا کرنے کے لیے یہ تیاری کی گئی۔ اس حوالے سے ہر طرف ہدایات مہیا ہوتی ہیں‘ بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ خصوصی پروگرام ہوتے ہیں۔ حاصل یہ ہونا چاہیے کہ آپ کے ذہن میں مناسک کا پورا نقشہ‘ روز کا پروگرام تفصیل کے ساتھ آجائے۔

ایک وقت وہ بھی رہا ہوگا جب خانہ کعبہ کی تصویر بھی دیکھنے کو نہ ملتی ہوگی۔ لوگ آکر ہی دیکھتے ہوں گے۔ پھر تصویر آگئی‘ لیکن جو بات اصل کی تھی‘ وہ تصویر میں کہاں--- لیکن اب تو ہمہ وقت خانہ کعبہ کا‘ اس میں نمازیوں کا منظر ٹی وی پر اتنا نظر آتا ہے کہ پہلی دفعہ دیکھنے والی بات اب کہاں--- یہی لگتا ہے کہ جیسے دیکھی ہوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ پھر بھی خود وہاں موجود ہونے‘ اس کا حصہ ہونے‘ اپنی آنکھوں سے خانہ کعبہ کو دیکھنے‘ اپنے قدموں سے طواف کرنے‘ آبِ زم زم‘ چشمہء  زم زم پر کھڑے ہو کر پینے کی لذت کیا اور کس طرح بیان کی جائے--- یقینا یہ امور بیان سے ماورا ہیں!

مناسک ِ حج سیکھنے کے لیے‘ پڑھنا بھی چاہیے‘ کسی پروگرام میں بھی شرکت کرنا چاہیے لیکن سب سے موثر کسی فلم کو توجہ سے دیکھ لینا ہے۔ آپ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ سب کیا اور کس طرح کرنا ہے۔ وہاں کوئی آپ کو بتا نہ سکے کہ اس طرح کرو۔ آپ کو صحیح بات کا علم ہونا چاہیے۔ یہ تیاری لازماً کریں‘ یہ نہ سوچیں کہ وہاں معلوم ہو جائے گا‘ کوئی نہ کوئی بتا دے گا‘ سب ہی کر رہے ہوں گے--- آپ کو اعتماد کے ساتھ علم ہونا چاہیے۔

اور آخری بات‘ جو پہلی بات بھی ہو سکتی تھی‘ یہ ہے کہ جانے سے پہلے ایک‘ بلکہ دو تین حج کے سفرنامے پڑھیں اور کیفیات سے گزریں۔ میں نے عبدالماجد دریابادیؒ صاحب کا سفرنامہ حج پڑھا اور حقیقت یہ ہے کہ بہت فائدہ اٹھایا۔ مناسک کے علاوہ‘ اس دور کے حالات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ آپ اپنی پسند کے مصنف کا سفرنامہ لیں مگر پڑھیں ضرور۔

یہ تیاری کے لیے کوئی جامع امور نہیں‘ چند متفرق باتیں ہیں۔ امید ہے کہ عازمین حج انھیں مفید پائیں گے۔

تیاری کے سلسلے میں ۱۰۱ نکات بھی بیان کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہاں بعض اہم بنیادی امور کی  نشان دہی پیش نظر تھی۔ جزئیات میں جائیں تو یہ بھی کام کی بات ہے کہ جوتوں کے لیے تھیلی بنوا کر لے جائیں‘ لیکن میں نے تو یہ بھی نہیں ذکر کیا کہ عرفات کا دن کتنا اہم ہے‘ منیٰ میں کیسے وقت گزارا جائے‘ مزدلفہ میں کنکریاں کیسے چنی جائیں‘ رمی جمار میں کیا احتیاطیں کریں‘ قربانی کس طرح بہتر رہے گی‘ بار بار عمرے کریں یا نہ کریں‘ طواف کا کیا لطف ہے وغیرہ۔ حج کے ہدایت ناموں میں یہ سب کچھ ملے گا۔ میری بتائی ہوئی باتوں میں کچھ فائدہ محسوس کریں تو دعائوں میں مجھے بھی یاد کر لیجیے گا (فہرست میں کہیں نام لکھ لیں) اور روضہ رسولؐ پر میرا سلام بھی پیش کر دیجیے گا۔ اللہ قبول فرمائے۔

دُنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان آج جس پُرآشوب دور سے گزر رہے ہیں‘ اس کا ایک منظر بھارت کے صوبہ گجرات میں حالیہ مسلم کُش منظم قتل و غارت اور آتش زنی کا سلسلہ ہے۔ ذرائع ابلاغ نے ممکن بنا دیا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ اپنوں اور غیروں سب کو معلوم ہو جائے‘ بلکہ وہ بچشم سر دیکھ لیں‘ کہ بے بس‘ بے گناہ اور معصوم مسلمان آبادیوں پر کس کس طرح کے کیا کیا ظلم روا رکھے گئے۔ سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے کا دعویٰ رکھنے والی مرکزی اور صوبائی حکومت نے اپنے شہریوں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے کچھ نہ کیا۔ نہ وہ عالمی ٹھیکے دار جاگے‘ جو خود چاہے کتنے ہی حقوق پامال کریں‘ لیکن دوسروں کو انسانی حقوق کے درس دیتے نہیں تھکتے۔ بھارت میں بسنے والے بے بس مسلمانوں پر ظلم کرنے والے بھارتی ہندو ان کے اپنے ہیں‘ اور نئے عالمی نظام میں اپنوں کو سب کچھ کرنے کی آزادی اور پھر اس پر مکمل تحفظ ہے۔ اتنا کہ کلنک کے ٹیکوں کے باوجود وہ بدنام بھی نہیں ہوتے۔

گودھرا کے واقعے کو بنیاد بنا کر ردعمل کے عنوان سے پوری ریاست میں وحشت و درندگی کا جو سوچا سمجھا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس میں‘ متاثرہ لوگوںکے ایک گروپ کی ای میل کے مطابق ۱۲ مارچ ۲۰۰۲ء تک ۵ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں‘ ۵۰ ہزار بے گھر افراد ۲۵ ریلیف کیمپوں میں ہیں (اور یہاں بھی ان پر حملے کیے گئے)۔ برودہ میں ۱۲‘ احمدآباد میں ۱۰ اور متاثرہ دیہاتوں میں تمام مساجد شہید کر دی گئی ہیں‘ کئی کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ای میل میں تباہ شدہ محلوں اور دیہاتوں کی فہرست بھی دی گئی ہے۔ گلمرگ سوسائٹی میں ۷۲ افراد گھربار سمیت جلا دیے گئے۔ لوناوادا کی ہائی وے پر ۴۲ افراد ٹرک میں جلا دیے گئے۔ برودہ کی بیسٹ بیکری میں ۱۸ افراد جلائے گئے۔ نارودا پاٹا کے قریب ایک کنویں میں مسلمانوں کی ۳۵۰ لاشیں پھینکی گئیں۔ خواتین کی عصمت دری بھی کی گئی (جلانے کا کام تو اتنے فخر سے کیا گیا کہ باقاعدہ بینر لگایا گیا:  Learn from us how to burn Muslims ۔ نیوز ویک‘ ۱۱ مارچ ۲۰۰۲ء‘ ص ۶)

منصوبے کے تحت املاک اور جایداد تباہ کی گئیں۔ اس رپورٹ کے مطابق شہر اورہائی وے پر مسلمانوں کے ۲۰۰ ہوٹل جلا دیے گئے۔ نواں بازار اور منگل بازار دو کپڑا مارکیٹ ہیں‘ یہاں ۱۶۳ دکانیں تباہ کر دی گئیں۔ جس جگہ مسلمان کم تعداد میں تھے ان کی جایداد جلا دی گئی۔ مکانات اور مسجدیں جلانے کے لیے ایل پی جی گیس اور آکسیجن سلنڈر استعمال کیے گئے۔ پٹرول کا ٹرک ساتھ چلتا تھا۔ فسادی گروہوں کو خوراک‘ اسلحہ اور طبی امداد پہنچانے کا مکمل انتظام تھا۔ ہر طرح کا اسلحہ مہیا کیا گیا۔ انھیں خوراک اور شراب کے علاوہ ۵۰۰ روپے روز کے دیے گئے۔ مارے جانے پر خاندان کو ۲ لاکھ روپے دیے گئے۔ گرفتاری کی صورت میں تمام اخراجات اور قانونی امداد وشوا ہندو پریشد کے ذمے ہے۔ نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔ ایک محلے کے چاروں طرف پانی جمع کر کے اس میں برقی رو چھوڑ دی گئی اور پھر گھروں پر آتشیں گولے پھینکے گئے‘ جو گھروں سے نکلے وہ برقی رو سے مارے گئے۔

اس سارے قتل و غارت کو گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ایودھیا سے واپس آنے والے فسادی یاتریوں (کارسیوکوں) کی ریل کی بوگیوں کو جلانے کا ردعمل قرار دے کر جواز عطا کیا جا رہا ہے۔ یہ حادثہ سابرمتی ایکسپریس کے ساتھ ۲۷ فروری کی صبح پیش آیا۔ یہ حادثہ کیوں پیش آیا؟ واشنگٹن پوسٹ کے ہندو   نامہ نگاروں نے اپنے اخبار کو جو رپورٹ ارسال کی (اور جس کا مکمل ترجمہ روزنامہ جنگ میں ارشاد احمد حقانی نے شائع کیا) اس کے مطابق آگ اتفاقیہ لگی اور اس وجہ سے پھیل گئی کہ بوگی میں سوار سیوک چولھے اور تیل ساتھ لیے ہوئے تھے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ریل میں سوار کارسیوکوں نے ایک مسلمان کے ٹی اسٹال سے مفت چائے پینے کے بعد پیسے مانگنے پر اس کی مارپٹائی شروع کی تو اس کی بیٹی اسے بچانے آئی جسے کارسیوکوں نے بوگی S-6 میں لے جاکر بند کردیا اور ہر طرح کی کوشش کے باوجود بھی نہیں کھولا۔ ٹرین چل پڑی۔ کچھ نوجوانوں نے زنجیر کھینچی تو ٹرین اگلی آبادی میں رکی۔ لڑکی کو اب بھی واپس نہ کیا گیا تو کچھ نوجوانوں نے بوگی پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ عینی شاہدوں کے مطابق ایودھیا سے گودھرا تک ٹرین میں اور اسٹیشنوں پر مسلسل غنڈا گردی کی جاتی رہی۔ جہاں گاڑی رکتی لوٹ مار کرتے۔ گودھرا اسٹیشن پر لوٹ مار کا سلسلہ پچھلے ۲۰ دن سے جاری تھا۔

ان رپورٹوں کے ہوتے ہوئے بھی‘ نیوزویک نے واقعے کو اس طرح لکھا ہے: ’’صبح کے کچھ دیر بعد جیسے ہی ٹرین گودھرااسٹیشن میں داخل ہوئی تو مقامی مسلمانوں کا ایک گروہ انتظار کر رہا تھا۔ پٹرول سے بھری بوتلیں پھینکیں گئیں جس سے بوگیوں میں آگ لگ گئی--- آنے والے دنوں میں اب ہندوئوں کی باری تھی۔ مسلم آبادیوں میں ہجوم پھیل گئے اور…‘‘ (۱۱ مارچ ۲۰۰۲ء)۔ بیرونی نامہ نگار فسادات کو ۴۷ء کے فسادات سے جوڑتے ہیں اور پھر ۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت پر ہونے والے فسادات سے ۔ ان کی نظروں سب کچھ جیسے معمول کی کارروائی ہے جو بھارت میں ہوتی رہتی ہے۔ حقائق معلوم کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے!

اگر ریاست میں کوئی ذمہ دار اور غیر جانب دار حکومت ہوتی تو گودھرا کے واقعے کے بعد احتیاطی اقدامات کرتی اور شہریوں کو جانی اور مالی نقصان سے بچاتی۔ بوکر پرائز جیتنے والی ناول نگار ارون دھاتی رائے نے درست کہا ہے کہ:’ ’جس بھارتی شہری کا بھی پولیس اور ریاست سے واسطہ پڑا ہے وہ جانتا ہے کہ اگر ذمہ داران حالات پر قابو پانا چاہتے تو صرف ایک گھنٹے میں پا سکتے تھے‘‘۔ (نیوزویک‘ ۱۸ مارچ ۲۰۰۲ء‘ ص ۵۸)

نہ صرف یہ کہ قابو نہیں پایا گیا بلکہ تمام اخباری رپورٹیں یہی بتاتی ہیں کہ ہر سطح سے حوصلہ افزائی کی گئی۔ ہندستان ٹائمزنے ۲ مارچ کے اداریے میں لکھا ہے: ’’انتظامیہ کو ممکنہ ردعمل کے خلاف تیاری کا پورا موقع ملا تھا۔ مناسب اقدامات سے بہت سی جانیں بچائی جا سکتی تھیں لیکن اس حکومت نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ایودھیا تحریک کو تقویت پہنچانے میں وشوا ہندو پریشد کی سیاسی اور انتظامی دونوں لحاظ سے مدد کی۔ ایسی حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ مسائل پیدا ہونے پر جانب داری سے کام نہیں لے گی‘‘۔

قتل و غارت کی اس تازہ لہر کے پس منظر میں وشوا ہندو پریشد کی جانب سے ۱۵ مارچ کو ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے آغاز کا اعلان تھا۔ وشوا پریشد کی اس مہم میں آر ایس ایس‘ سنگھ پریوار‘ شیوسینا سب ہی ساتھ ہیں۔ بی جے پی اتحادیوں کی وجہ سے حکومتی مجبوریوں کے تحت کھلم کھلا تو ساتھ نہیں دیتی‘ لیکن اس کی مکمل حمایت اس مہم کو حاصل ہے۔ فی الاصل تو ان سب کا منصوبہ بھارت سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانا یا دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھنا ہے۔

انھی دنوں چار صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اترپردیش اور اترانچل جیسے اہم صوبے اس کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ پنجاب میں بھی اس کے اتحاد کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی۔ منی پور میں بھی اس کے مخالفین برسرِاقتدار آگئے تھے (اترپردیش میں ۴۰۳ کے ایوان میں‘ بی جے پی کو ۸۸ سیٹیں ملیں جو گذشتہ کے مقابلے میں ۶۶ کم ہیں۔ پنجاب میں ۱۱۷ کے ایوان میں ۳ نشستیں ہیں جو گذشتہ کے مقابلے میں ۱۵ کم ہیں)۔

ان انتخابات میں بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹ نہیں ملے اور وہ مسلمانوں کو اپنی شکست کا سبب گردانتی ہے۔ اس لیے گودھرا کے واقعے کو بہانہ بنا کر دراصل انتقام لیا گیا۔ اسی لیے قتل و غارت روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش سرے سے کی ہی نہیں گئی۔ دوسری طرف ۱۱ ستمبر کے بعد مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان کا عزم و حوصلہ توڑنے کی ایک پالیسی نظر آتی ہے۔ گجرات کے دورے پر جانے سے پہلے وزیردفاع جارج فرنینڈس نے اس واقعے میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا شبہہ ظاہر کیا۔ دوسری طرف گجرات کے وزیراعلیٰ فریندر مودی نے واقعے کو منظم دہشت گردی قرار دے کر تحقیقات کے امکان کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ آواز ملک کے کسی کونے سے نہیں اُٹھ رہی کہ گودھرا کے واقعات کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ اب عالمی سطح پر یہی روایت بنتی جا رہی ہے کہ ’’حادثات‘‘ سے اپنے مقاصد حاصل کیے جائیں اور حقیقت معلوم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جس طرح آج تک امریکہ میں کانگریس یا سینیٹ کمیٹی میں ۱۱ ستمبر کے حملوں کے لیے کسی خفیہ ایجنسی یا وزارت دفاع کو وضاحت پیش نہیں کرنا پڑی۔

ان حالات میں کہ گجرات کے ۲۶ شہروں میں کرفیو لگا ہے اور فسادات بھارت کے دوسرے علاقوں میں پھیلنے کی خبریں بھی آ رہی ہیں بھارت کے مسلمان تو اپنے تحفظ کے لیے کچھ نہ کچھ لائحہ عمل بنا رہے ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے کروڑوں مسلمان بھائیوں کا کیا فرض ہے؟ کیا وہ سب اتنے ہی بے بس اور بے اختیار اور بے وسیلہ ہیں کہ خبریں پڑھیں‘ دیکھیں ‘ افسوس کرلیں اور بس!

یقینا ایسا نہیں ہے۔ اس وقت دنیامیں دہشت گردی کے خلاف جو فضا ہے‘ اس میں مسلمان طاقتوں کو منظم کوشش کرنا چاہیے کہ اس کا رخ دہشت گردی کی ان حقیقی کارروائیوں کی طرف موڑیں۔ عالمی رائے عامہ کا دبائو ہی بھارت کو راہ راست پر لا سکتا ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کے ہر طرح کے اداروں کو منظم اور مسلسل کوشش کرنا ہوگی۔

اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) نے افغانستان کے مسئلے پر اپنے غیر موثر اور بے جان ہونے کا ثبوت دیا ہے‘ لیکن اس کے باوجود یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ اس کے پلیٹ فارم سے مسلم اقلیتوں کے تحفظ کا کافی کام کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کسی وفد کو آکر حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور رپورٹ تیار کرنا چاہیے اور بھارت کو تنبیہ کرنا چاہیے۔ اگر ۱۰‘ ۱۵ مسلم سربراہان مظلوم مسلمانوں کی ہمدردی میں صرف بیانات ہی دے دیتے تو شاید بھارت کو کچھ فرق پڑ جاتا۔ خادم الحرمین کا تو یہ فرض تھا کہ وہ اس پر اپنی آواز بلند کرتے۔

سب سے اہم ذمہ داری پاکستان کی ہے۔ حکومتی سطح پر بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے اور ساری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانی بیدار ہو کر‘ دوسرے مسلمانوں کو ساتھ لے کر بھارت کاناطقہ بند کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بیداری‘ شعور اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میںچرچ پر افسوس ناک حملہ (۱۷ مارچ) ہوا تو صدر بش نے فوراً ردعمل ظاہر کیا اور امریکہ کی سفیر نے پاکستان کے ٹی وی پر آکر سختی سے کہا: ’نو مور‘("No more")۔ کیا اتنی بڑی امت مسلمہ بھارت کو ’نو مور‘ نہیں کہہ سکتی؟

ان حالات پر سوچنے کا ایک نقطہء نظر یہ بھی ہے کہ تہذیب‘ جمہوریت اور انسانی اقدارکے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود آج انسان اسفل السافلین ہونے کا مظاہرہ کیوں کر رہا ہے؟یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ہدایت الٰہی کو مسترد کر کے جو راہ بھی اپنائی جائے گی وہ دنیا و آخرت کے خسران کی راہ ہوگی۔ یہ حالات --- اور دنیا بھر میں پیش آنے والے ایسے ہی واقعات جن میں کوئی کمی نہیں آئی --- پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ آج ‘انسانیت سکون سے محروم ہے۔ اس کی پیاس بجھانے کا سامان صرف اس کے خالق کے بتائے ہوئے راستے میں ہے!

 

برطانیہ کے وقیع ماہنامے امپیکٹ انٹرنیشنل نے Technology of Deception کے عنوان سے ایک روسی صحافی ولادی میرکرائی لووسکی کی تحریر کا ترجمہ شائع کیا ہے جس میں اس نے بتایا ہے کہ چیچنیا پر روس کے دوسرے حملے کے لیے فضا سازگار بنانے کی خاطر روسی ذرائع ابلاغ نے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے روسی عوام کی کس طرح برین واشنگ کی۔ روسی عوام جو پہلی جنگ (۱۹۹۳ء-۱۹۹۶ء) میں ناکامی اور صلح کے بعد اب نئی مہم جوئی کے لیے تیار نہ تھے‘ کس طرح آمادہ کیے گئے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ دو ہفتوں میں ’’دہشت گردوں‘‘ کا قلع قمع کرنے کے جو دعوے تھے وہ سب خواب ہو گئے‘ چیچن مجاہدین نے حسب سابق‘ ہر طرح کے ناقابل بیان ظلم سہنے اور کوئی نسبت نہ ہونے کے باوجود انتہائی ظالم روسی افواج کے دانت کھٹے کردیے ہیں (صدآفرین!) اور اب روس کے صدر پوٹن مذاکرات کی بات کر رہے ہیں! موجودہ عالمی حالات کے پس منظر میں یہ مطالعہ چشم کشا ہے اور بتاتا ہے کہ ۲۰ ویں صدی کی ان عالمی طاقتوں کا سارا کاروبار جھوٹ اور دھوکے پر چلتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ موجودہ ڈراما ہماری آنکھوں کے سامنے کھیلا جارہا ہے‘ جب کہ سابقہ ہماری نگاہوں سے دُور تھا۔

اگست ۱۹۹۹ء میں چیچنیا کے علاقے سے داغستان پر حملہ کیا گیا (یعنی کروایا گیا)۔ مداخلت کا اس سے اچھا اور کیا جواز ہو سکتا تھا۔ اس کے بعد سے روسی میڈیا نے اپنے عوام کو جھوٹ کے انبار تلے دبا دیا۔ روسی جنرل میڈیا پر آکر ضمانتیں دینے لگے کہ ہم چیچن دہشت گردوں کا چند دن میں قلع قمع کر دیں گے۔ ہر خبرنامے میں بار بار دہرایا گیا کہ وفاقی افواج کا کوئی جانی نقصان نہیں ہو رہا ہے۔ روسی حکومت کو بڑی فکر تھی کہ اس کے عوام کو حقیقت حال معلوم نہ ہو۔ چیچن صدر ارسلان مسخادوف بتا رہے تھے کہ روس کی سیکرٹرٹ سروس کیا کر رہی ہے لیکن روسی حکومت نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ ان کی کوئی بات روسی عوام تک نہ پہنچ سکے۔ چیچن ’’دہشت گردوں‘‘ کے حوالے سے جھوٹی خبروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ٹی وی اسکرین کو مخاطب کر کے چیخ کر کہنے کو دل چاہتا تھا: ’’عوام سے جھوٹ بولنا بند کرو!‘‘۔ عوام کے ذہنوں میں ایک دشمن --- چیچن دشمن --- کا نقش بٹھانے کا کام کیا جاتا رہا۔ ایک مبصر نے کہا: چیچنیا پر کارپٹ بم باری کی جائے۔ روسی عوام کو بتایا جاتا تھا کہ وہ اس وقت تک چین کی نیند نہیں سو سکتے جب تک کہ چیچن سانپ کو کچل نہ دیا جائے۔

کیا روسی عوام ۱۹۹۹ء میں کسی نئی چیچن جنگ کے لیے تیار ہو سکتے تھے اگر ہمارے شہروں میں دھماکوں کا سلسلہ شروع نہ ہو جاتا۔ ہرگز نہیں۔ اس کا کوئی امکان نہ تھا۔ انھیں جنگ کے لیے آمادہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ انھیں ہر لمحے اپنی جان کی طرف سے خوف زدہ ہونے کے لیے مجبور کر دیا جائے۔ انھیں ایک دھوکے باز‘ ظالم اور دکھائی نہ دینے والے ("shadows!") دشمن کے سامنے غیر محفوظ ہونے کا احساس دلایا جائے۔ ماسکو کے پشکن اسکوائر میں دھماکوں کے بعد‘ ملک بھر کی یہی فضا تھی۔ ملبے میں سیکڑوں افراد کے زندہ دفن ہو جانے کی خبروں کے ساتھ ہی حکومتی میڈیا سے پروپیگنڈے کا آغاز ہو گیا۔ زخمیوں کی چیخ و پکار اور دہشت گردوں سے شدید نفرت کے پس منظر میں دیکھیں‘ کس کی مقبولیت ایک دم آسمان پر پہنچ گئی جسے چیچنیا کے ساتھ دوسری جنگ کا رخ دے دیا گیا۔

اس جنگ کا فائدہ کسے ہوا؟ چیچنیا کو اس سے کیا ملا ؟ کیا جنگ ان کی ضرورت تھی؟ انھیں جنگ سے کچھ حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ یہ اصل قابل غور نکتہ ہے۔ لیکن کہا گیا کہ وہ دھماکوں کے ذریعے پوٹن کے بیانات کا بدلہ اتار رہے ہیں! اگر انھیں بدلہ اتارنا ہی تھا تو ان کے ہدف اس سے مختلف ہوتے۔ نہیں‘ اس بات پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔

اس سے پہلے کہ تحقیقات کا آغاز ہوتا‘ حکومت اور خود ولادی میرپوٹن نے اعلان کر دیا کہ ان جرائم کا سرا چیچنیا میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ انسانوں کے ایک پورے گروہ کی بے گناہی کو نظرانداز کر دیا گیا۔ حکومتی میڈیا کو ‘ چیچن ’’انگلیوں کے نشانات‘‘ ملنے لگے۔ ویسے ہی بم‘ ویسے ہی ٹائمر‘ ماسکو میں مختلف عمارات میں خفیہ پولیس کو ملنے لگے۔ پھر پولیس نے ایک گروپ کو اسی طرح کے بارود اور ٹائمر کے ساتھ گرفتار کیا۔ ایک دم خبریں شائع ہو گئیں لیکن گرفتار شدگان ایف ایس بی (سابقہ کے جی بی) کے اہلکار نکلے۔ ان کے ڈائرکٹر نے بیان دیا کہ یہ صرف ایک مشق تھی‘ عوام کو چوکس رکھنے کے لیے!

سیاست دان ‘جنرل ‘ مبصر سب مسلسل دہراتے رہتے ہیں کہ فضائی حملے صرف متعین جنگی اہداف پر کیے جارہے ہیں (precision attacks)۔ لیکن عملاً شہری آبادیوں پر کھلے عام بم باری کی گئی۔ ارسلان مسخادوف نے پوپ پال کے نام اپیل ( اکتوبر ۱۹۹۹ء) میں بتایا کہ صرف ایک ماہ میں ۳ ہزار ۶ سو شہری ہلاک کیے گئے ہیں۔ لیکن روسی میڈیا اپنے عوام کو اپنی فضائیہ کے یہ کارنامے نہیں بتاتا کہ کس طرح پرامن دیہاتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ۲۰۰۰ء کے آغاز میں vacuum بم استعمال کیے گئے جنھوں نے زندگی کے سب آثار مٹا دیے‘ اور نہ یہ بتاتے ہیں کہ فضائیہ نے اعصابی گیس والے بم استعمال کیے۔

یہ چند مثالیں ہیں کہ کس طرح روسی عوام کو ان کا میڈیا دھوکا دے رہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے دھوکا دہی کا فن سب ظالموں نے سیکھ لیا ہے۔ یہ مظلوم بن کر آتے ہیں اور ظلم کی نئی تاریخ رقم کر دیتے ہیں۔

بھارت میں مسلمانوں کی تعلیم

ضیاء الدین اصلاحی

مسلمانوں کی سماجی‘ معاشی اور تعلیمی پس ماندگی کا چرچا ہندستان کے تمام فرقے اور سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔ بی جے پی کو پہلے کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتوں سے گلہ تھا کہ وہ مسلمانوں کی ناز برداری کرتی ہیں‘ لیکن اب وہ بھی اس کو تسلیم کر رہی ہے اور بظاہر اس کے ازالے کے لیے فکرمند بھی دکھائی دیتی ہے۔ مرکزی وزیرتعلیم ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی عربی مدارس میں جدت کاری لانے کا اعلان کر چکے ہیں اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ راج ناتھ سنگھ مدرسہ پنچایت کر کے داد و دہش کا اعلان کر رہے ہیں۔ کانگریس سیکولر پارٹی سہی‘ مگر اس پر عرصے سے فرقہ پرست اور متعصب لیڈر حاوی ہو گئے ہیں جو نیشنلزم اور سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کی نسل کشی‘ ذہنی ارتداد اور انھیں پس ماندہ طبقے میں تبدیل کرنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ دوسری سیکولر جماعتوں کو بھی مسلمانوں کے طاقت ور ہونے اور اُبھرنے سے دل چسپی نہیں ہے۔ ان کی خواہش یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ مجبور‘ بے بس اور کمزور رہ کر ان کے محتاج اور دست نگر بنے رہیں۔ رہی بی جے پی‘تو مسلمانوں کے بارے میں اس کا رویہ کس کو معلوم نہیں۔ مسنداقتدار پر فائز ہونے کے بعد اس کی اصول پسندی‘ ایمان داری‘ بے خوف و خطر سماج اور صاف ستھری حکومت دینے کی حقیقت بھی عیاں ہو گئی ہے۔

آزادی کے بعد سے اب تک بے شمار فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کو تباہ برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ خود امن و امان کے محافظوں نے فرقہ پرستوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ظلم و تشدد اور لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنایا مگر مسلمانوں کی پس ماندگی پر جن لوگوں کو اتنا قلق ہے‘ انھوں نے کبھی جارحیت پر آمادہ لوگوں کے ہاتھ نہیں پکڑے‘ صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے مجرموں کو سزا نہیں دی بلکہ اُلٹے مظلوموں ہی کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر معاشی حیثیت سے انھیں مفلوج کرنے کا سامان کیا۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ منظم اور منصوبہ بند فسادات انھی جگہوں پر زیادہ ہوئے جہاں مسلمان قابل لحاظ تعداد میں اور کسی قدر خوش حال تھے۔ کیا اس کا مقصد ان کی تجارت و معیشت اور صنعت و حرفت کو برباد کر کے پس ماندہ اور مفلوک الحال بنانے کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے۔ کان پور کے فساد میں شرپسند عناصر‘ پولیس اور پی اے سی نے مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے‘ ان کے گھروں اور دکانوں کو لوٹنے اور جلانے اور ذرائع معاش کو مسدود کرنے کا جو ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا ہے وہ سب کے سامنے ہے لیکن مدارس پر انعام و بخشش فرمانے والے وزیر اعلیٰ اس کے بھی روادار نہیں ہوئے کہ فساد کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائیں۔ سرکاری ملازمتوں اور قومی و سیاسی زندگی کے مختلف شعبوں سے مسلمانوں کو بے دخل کر دینے کا مقصد بھی انھیں پسپا اور بدحال بنانا ہے۔ یہ پالیسی جس طرح کانگریسی حکومتوں اور لیڈروں کی رہی‘ اس سے کہیں بڑھ کر موجودہ حکومت کی ہے۔

مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی ان کی معاشی بدحالی سے وابستہ ہے۔ آزاد ہندستان میں خصوصاً ابتدائی تعلیم کا جو نظام و نصاب وضع کیا گیا اس پر ایک خاص مذہب اور مخصوص قوم کے کلچر کی گہری چھاپ ڈالی گئی ہے۔ اس رنگ کو بی جے پی حکومت نے اور چوکھا کر دیا۔ وہ تعلیم کو بھگوا رنگ میں رنگ کر مسلمانوں کو ان کے ایمان و عقیدے اور توحید و آخرت کے تصور سے بے گانہ ان کی تہذیب و روایات اور مادری زبان کو ختم کردینا چاہتی ہے۔ اترپردیش کی ابتدائی تعلیم کے وزیر نے جولائی سے ریاست کے تمام کانونیٹ اور پبلک اسکولوں میں پرائمری سطح پر ہندی کو لازمی اور اسے اترپردیش کی مادری زبان قرار دے کر اردو کو سراسر نظرانداز کر دیا ہے۔ اس طرح جو حالات پیدا کر دیے گئے ہیں ان میں اور اس نصاب تعلیم کی موجودگی میں مسلمان نہ صرف اپنی تہذیب اور مادری زبان سے ہاتھ دھو بیٹھیںگے بلکہ اپنے عقیدہ و مذہب سے بھی منحرف ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے جن مسلمانوں میں دینی شعور ہے وہ اَن پڑھ رہنا گوارا کر سکتے ہیں مگر دیومالائی تصورات کے حامل نصاب تعلیم کے چکر میں پڑ کر اپنے دین و ایمان کو غارت کرنا پسند نہیں کریں گے۔

آئینی طور پر ہندستان کے ہر فرقہ و مذہب کو اپنے مدارس اور اسکول قائم کرنے کا حق ہے لیکن اولاً تو مسلمانوں کے لیے اپنی معاشی پس ماندگی کی بنا پر یہ آسان نہیں۔ ثانیاً تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے سرکاری یا برادرانِ وطن کے قائم کردہ اداروں میں ان کے داخلے کے دروازے تقریباً بند ہیں جس کی بنا پر ان کی خواندگی کی شرح کم تر ہوتی جا رہی ہے‘ تاہم کم مایگی اور بے بضاعتی کے باوجود ان کی توجہ گائوں گائوں میں مکاتب اور نئے اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے تاکہ وہ دینی تعلیم سے بہرہ ور ہوں۔ جدید اور عصری تعلیم کے اسکول اور کالج قائم کرنے سے بھی وہ غافل نہیں ہیں۔ ان کے جو اسکول‘ کالج اور دو ایک یونی ورسٹیاں پہلے سے قائم ہیں‘ ان میں بھی وہ اپنے بچوں کو اس لیے تعلیم دلا رہے ہیں کہ ان کا دین اور ان کا عقیدہ سلامت رہے اور ان کی تہذیب اور مادری زبان ان کے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔

ایک طرف حکومت کو بظاہر مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کا غم ہے۔ دوسری طرف وہ ان کے مکاتب و مدارس کو پریشان کرنے اور ان کے قائم کردہ اسکولوں‘ کالجوں اور یونی ورسٹی کا اقلیتی کردار ختم کرنے کے درپے ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیںگزرا کہ مرکزی وزیر داخلہ اور اترپردیش کے کئی وزرا مدارس کو آئی ایس آئی کا اڈا قرار دے چکے ہیں جس کے بعد ان پر شب خون مارنے اور ان کے ذمہ داروں اور وابستگان کو گرفتار کرنے‘ اذیت دینے اور فرضی مقدمات میں پھنسانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ حال میں وزارتی گروپ کی رپورٹ میں بھی مدارس کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بتایا گیا ہے‘ حالانکہ انھی خطرناک مدارس کو مرکزی وزیرتعلیم نے ماڈرن بنانے اور ان میں عصری تعلیم اورکمپیوٹر کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا اور وزیراعلیٰ ان کو مراعات دے رہے ہیں‘ اور دیسی زبان اردو کو اترپردیش سے جلاوطن کر کے بدیسی زبانوں عربی و فارسی کی تعلیم کے فروغ کے لیے حکومت کا خزانہ کھول رہے ہیں۔ پس ماندہ ذاتوں کو ضرور ریزرویشن دینا چاہیے۔ ہم اس کے مخالف نہیں ہیں مگر اقلیتی اداروں کو اس سے مستثنیٰ رکھنا ضروری ہے تاکہ ان کے جائز اور دستوری حقوق اور اقلیتی کردار کا تحفظ ہو سکے جو ایک جمہوری اور سیکولر حکومت کی ذمہ داری بھی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی پس ماندگی دُور کرنے کے لیے قومی اور سرکاری درس گاہوں اور سول سروسز میں انھیں بھی ریزرویشن دیا جائے‘ نہ یہ کہ ان کو ان کے اپنے اداروں میں بھی دوسرے لوگوں کے لیے گنجایش نکالنے کے لیے مجبور کیا جائے۔ اگر اس کی زد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی پر پڑی جو ہندستانی مسلمانوں کی واحد عصری درس گاہ اور ملک کے سیکولرازم کا نشان ہے‘ تو ملک کے سیکولرازم کا رہا سہا بھرم بھی جاتا رہے گا اور مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی پر تشویش و اضطراب ظاہر کرنے والوں کی اصل حقیقت بھی واضح ہو جائے گی۔ (بہ شکریہ ماہنامہ معارف‘ اعظم گڑھ‘ جولائی ۲۰۰۱ء)