ریاست جموں وکشمیر پر برطانیہ کی آشیر باد سے کانگریسی قیادت نے مہاراجا سے سازباز کرکے ۱۹۴۷ء میں فوجی قبضہ کیا اور بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کا ڈراما رچایا گیا۔ ابتدائی دستاویز الحاق کے مطابق مہاراجا کی موروثی حکمران کی حیثیت ختم کی گئی اور داخلی سطح پر صدرریاست ، وزیر اعظم ایک دو ا یوانی پارلیمان کے ساتھ ایسی بااختیار حکومت کا جھانسا دیاگیا جو قانون سازی اور ریاست کے معاملات میں مکمل طور پر با اختیار قرار دی گئی،البتہ دفاع ،مواصلات، کرنسی اور امور خارجہ کے محکمے مرکز کے سپرد کیے گئے ۔اس فارمولے کے مطابق شیخ عبداﷲ کو بھی شیشے میں اتارا گیا اور بالآخر ریاست کی وزارت عظمیٰ ان کے سپرد کی گئی ، لیکن آہستہ آہستہ ۱۹۴۹ء کے سیز فائر اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادیں پاس ہونے کے بعد بھارت کی مرکزی سرکار نے ریاست کے اختیارات چھیننے کا عمل شروع کر دیا ۔
نہرو اور شیخ عبداﷲ کے گہرے دوستانہ مراسم کے پس منظر میں شیخ صاحب کے لیے نہرو کی حکومت کا رویہ ان کی آرزوئوں اور تمنائوں کے برعکس ثابت ہوا جس پر شیخ صاحب نے احتجاج کیا اور ۱۹۵۳ء میں انھیں حکومت سے فارغ کر کے جیل میں ڈال دیا گیا،جب کہ ان کے ایک قریبی ساتھی بخشی غلام محمد کو کٹھ پتلی وزیر اعظم بنا دیا۔اس کے ذریعے ریاست کے اختیارات سلب کر نے کی حکمت عملی جاری رکھی۔ آہستہ آہستہ گورنر اور وزیراعظم کی اصطلاحات کو وزیر اعلیٰ کی اصطلاح سے تبدیل کردیا گیا اور ریاست کی داخلی خودمختاری بھی تحلیل ہوتی چلی گئی۔بھارتی حکمران ریاست کے عارضی الحاق کو مستقل ادغام میں بدلنے کی کوشش کرتے رہے۔
بھارتی آئین کی دفعہ ۳۷۰کی رُوسے بھارتی یونین میں ریاست جموں وکشمیر کی ایک خصوصی حیثیت تسلیم کی گئی ہے ۔ایک طرف سے تو اس دفعہ کی رو سے بھارتی صدر کو ریاست میں ایگزیکٹو آرڈر کے تحت احکامات اور قوانین نافذ کرنے کا جواز بخشا گیا ہے ، جب کہ دوسری طرف دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ A-۳۵کی رو شنی میں مہاراجا کے سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کو تحفظ دیا گیا ہے جس کی رُو سے غیر ریاستی شہریوں کو قانونی طور پر نہ ریاست کی شہریت دی جا سکتی ہے اور نہ وہ جایداد خرید سکتے ہیں اور نہ ووٹر ہی بن سکتے ہیں ۔۱۹۴۷ء میں صوبہ جموں میں ایک منظم سازش کے تحت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیاگیا ۔صرف ۶نومبر۱۹۴۷ء کو ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور باقی لاکھوں کو حراساں کر کے ہجرت پر مجبور کیاگیا ۔ان کی جایدادیں اگرچہ عارضی طور پر وہاں کسٹوڈین کے سپرد کی گئیں اور پنجاب اور غربی پاکستان میں سے غیر ریاستی سکھوں اور ہندوئوں کو جموں میں بسایا گیا جن کی تعداد اب آٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔ایک طویل عرصے سے بھارتی حکومتیں سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو ختم کر کے انھیں ریاست کا مستقل شہری بنانا چاہتی ہیں تاکہ ریاست کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کر کے اس کا مسلم تشخص ختم کیا جاسکے ۔
اس پس منظر میں نریندر مودی نے اپنے انتخابی منشور میں کشمیر کے حوالے سے دفعہ ۳۷۰کو ختم کرکے اس کے بھارتی یونین میں مکمل ادغام کا اظہار کیااور ان مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے مقبوضہ ریاست کے حالیہ انتخابات میں جارحانہ انتخابی مہم بھی چلائی ۔ایک ایک علاقے میں خود دورہ کیا اور صوبہ جموں کے غیر مسلم ووٹروں کو بالخصوص اپنی اس انتہا پسندانہ سوچ سے ہم آہنگ کرنے کی پوری کوشش کی اور یہ ہدف دیا کہ ریاستی اسمبلی کی کُل ۸۷نشستوں میں سے ۴۴ سے زائد نشستوں پر بہر صورت کامیابی حاصل کرنی ہے ۔گذشتہ ستمبر میں سیلاب سے وادی کشمیر اور جموں میں ۵۵ لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ ان کے بحالی کے عمل کو بھی اپنی انتخابی کامیابی کے ساتھ مشروط کیا۔ ارب ہا روپے کے وسائل جھونکنے کے باوجود نریندر مودی ایک بھی مسلم نشست پر کامیابی حاصل نہ کرسکے، البتہ صوبہ جموں کی ۳۷میں سے ۲۵نشستیں لینے میںکامیاب ہوگئے۔ اس وقت وہ ریاست میں اپنی بارگیننگ پوزیشن مستحکم کرنے اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے انھیں استعمال کر رہے ہیں۔
دوسری طرف مسلمان ووٹروں (بالخصوص وادیِ کشمیر )کے مسلمان ووٹروں نے نریندر مودی کے ایجنڈے کو ناکام کرنے کے لیے وادی میں مفتی سعید کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو بڑے پیمانے پر ووٹ دیے اور بعض حلقوں میں بی جے پی کے امیدوار کو ہرانے کے لیے عمر عبداﷲ کی نیشنل کانفرنس اورکانگریس کے امیدواران کو کامیاب کیا ۔مسابقت کی اس فضا میں ایک طرف تو غیر مسلم ووٹروں کے ٹرن آئوٹ میں اضافہ ہو ااور دوسری طرف مسلم انتخابی حلقوں میں مسلمانوں نے بی جے پی کے ایجنڈے کو ناکام کرنے کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے ۔حالانکہ قائدین حریت اور متحدہ جہاد کونسل نے الیکشن کے بائیکاٹ کی اپیل بھی کر رکھی تھی لیکن ووٹروں نے ووٹ ڈالتے وقت میڈیا پر برملا اپنے اس موقف کا اظہار کیا کہ ان کی تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ وابستگی اپنی جگہ برقرار ہے۔ ان کے مطابق روز مرہ مسائل سے نبٹنے کے لیے ووٹ ڈالنا ہماری مجبوری ہے اور اس لیے بھی کہ ہم بی جے پی کے عزائم کو ناکام بنانا چاہتے ہیں ۔ تاہم اس مرحلے پر نریندر مودی کے ۴۴+نشستوں کے نظریے کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اب ایک معلق اسمبلی قائم ہو چکی ہے جس میں ۲۸نشستوں کے ساتھ پی ڈی پی پہلی پوزیشن پر ہے۔ ۲۵نشستیں بی جے پی کے حصے میں آئیں، ۱۵نشستیں کانگریس اور ۱۲نیشنل کانفرنس ، جب کہ چند سیٹیں آزاد اورچھوٹی پارٹیوں نے بھی حاصل کیں۔
اس صورتِ حال میں کوئی ایک پارٹی بھی اپنی بنیاد پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں، لہٰذا گورنر راج نافذ کر دیا گیا ہے ۔نتیجتاً ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے۔اگرچہ مسلمان ووٹروں کی خواہش ہے کہ بی جے پی کے علاوہ باقی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں لیکن بھارت کی مرکزی حکومت اور بھارتی ایجنسیاں پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت قائم کرنا چاہتی ہیں جس کے لیے اصولی اتفاق کے باوجود اختلاف وزارت اعلیٰ کی میعاد پر ہے ۔ پی ڈی پی یہ چاہتی ہے کہ آیندہ چھے سال کے لیے مخلوط حکومت کی سربراہی مفتی سعید کریں اور نائب وزیر اعلیٰ بی جے پی کا کوئی غیر مسلم نمایندہ بن جائے ، جب کہ بی جے پی کا اصرار ہے کہ مخلوط حکومت میں تین تین سال کی حکومت بنائی جائے ۔اگر بی جے پی کی شرائط پر حکومت بنی تو ۱۹۴۷ء کے بعد پہلی مرتبہ ریاست جموں وکشمیر میں ایک غیر مسلم وزیر اعلیٰ مسندِ اقتدار پر فائز ہو سکے گا ۔اس موقعے پر پی ڈی پی عجیب مخمصے کا شکار ہے کہ اگر وہ بی جے پی کی شرائط پر مخلوط حکومت بناتی ہے تو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت سے محروم ہوسکتی ہے۔اس لیے کہ وادیِ کشمیر میں بالخصوص اور ریاست کے دوسرے حصوں میں بالعموم کسی بھی طور پر اہلِ کشمیر بی جے پی کے امیدوار کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان نہیں دیکھنا چاہتے۔
بی جے پی کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس وقت مرحوم کشمیری رہنما عبدالغنی لون کے صاحب زادے سجاد غنی لون ،جن کی پارٹی کے پاس پیپلز کانفرنس کی دو نشستیں ہیں اور وہ بی جے پی کے اتحادی بھی ہیں، وزارت اعلیٰ کے حصول کے لیے سرگرم ہیں ۔حکومت جو بھی بنائے گا بہر حال یہ طے ہے کہ مقبوضہ ریاست کی پاور پالیٹکس میں کشیدگی اور عدم استحکام کا سلسلہ جاری رہے گااور جوں جوں بی جے پی ریاست میں اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی، اسی رفتار سے اس کے خلاف عوامی مزاحمت بھی مزید منظم اور شدید ہوتی چلی جائے گی۔صورت حال کے اس دبائو کی وجہ سے حریت کانفرنس کے مختلف دھڑے بھی مشترکہ لائحۂ عمل پر صلاح مشورہ کر رہے ہیں ۔اس وقت تحریک آزادیِ کشمیر اور تحریکِ مزاحمت کی سخت ضرورت ہے کہ حریت قائدین اپنے اس بنیادی تاسیسی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں جس سے بعض رہنمائوں کے انحراف کی وجہ سے حریت کانفرنس تقسیم ہو گئی ۔یہ اتحاد بی جے پی کی حکمت عملی کا توڑ کرنے کے لیے ایک اہم ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف بھارت کے پالیسی سا زجب انتخابی عمل کے ذریعے اپنے عزائم میں نامراد ہوئے تو انھوں نے ریاست کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی متوازی تدابیر اختیا رکرنا شروع کر دی ہیں۔غربی پاکستان سے ۱۹۴۷ء میں منتقل ہونے والے ۸لاکھ غیر مسلم کمیونٹی کے ساتھ ساتھ ۹۰ء کی دہائی میں جگموہن کی تحریک پر ۳ لاکھ بے گھر پنڈت کمیونٹی جو جموں اور دہلی کی مختلف کالونیوں میں مقیم ہیں ،کی باز آبادکاری کے لیے ہندستان کی وزارت داخلہ نے سفارشات مرتب کیں جنھیں حکومت قانون کی شکل میںنافذ کرنا چاہتی ہے۔جن کی رو سے ایک طرف تو وادی میں پنڈتوں کی محفوظ بستیوں کے لیے (جس طرح فلسطین میں یہودیوں کی محفوظ بستیاں تعمیر کی گئی ہیں )بڑے وسائل مختص کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ انھیں شہری حقوق دیے جائیں۔ خاص طو رپر جموں میں ۸لاکھ ہندوئوں اور سکھوں کو سٹیٹ سبجیکٹ تسلیم کیا جائے، نیز ان کے لیے اسمبلی کی آٹھ نشستیں بھی وقف کرنے کا مطالبہ کیاگیا ہے ۔اگر مودی کی حکومت خدا نخواستہ اپنے عزائم میں کامیاب ہوئی تو ریاستی اسمبلی میں مسلم اور غیر مسلم ممبران میں فرق بھی ختم ہو سکتا ہے اور یہی ان کاہدف ہے
ان خطرات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بلاشبہہ حریت کانفرنس غور و فکر کررہی ہے لیکن بھارت کے یہ عزائم بنیادی طور پر کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی سپرٹ پر بھی سنگین وار ہے۔ اس لیے کہ ریاست جموں وکشمیر سے جو لوگ ہجرت کر کے پاکستان و آزاد کشمیر میں منتقل ہوئے ان کی جایدادوں کو غیر ریاستی ہندوئوں اور سکھوں کے سپرد کر نا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رُو سے قطعاً ناجائز اور ناقابل برداشت امر ہے ۔اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھائے اور ہندستان کو مجبور کرے کہ وہ ریاست کے آبادی کے تناسب کی تبدیلی کی سازشوں سے باز آ ئے۔اس لیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رُو سے ناظم راے شماری کا تقرر اس کو اختیارات اور وسائل کی فراہمی سری نگر حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہاں کسی ایسی حکومت کا مسلط ہونا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پوری سپرٹ کے خلاف ہو یقینی طو رپر تشویش ناک امر ہے اور اس پر اقوام متحدہ کو خود بھی نوٹس لینا چاہیے۔ حکومت پاکستان کو بھی اس امر پر فی الفور کردار اداکرنا چاہیے اور اس بات پر زور دینا چاہیے کہ کشمیری مسلمانوں کی جایدادیں ہندوئوں کو سپردکرنے کے بجاے جو مہاجرین جموں وکشمیر میں بے گھر ہو کر اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں انھیں باز آباد کاری کا موقع ملنا چاہیے۔اس لیے کہ یہ راے شماری کی شرائط کا ایک بنیادی تقاضا ہے ۔
بہرحال بی جے پی اور نریندر مودی جو بھی ہتھکنڈے استعمال کریں کشمیری اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پرُعزم ہیں اور اس سارے گیم پلان میں سیّدعلی گیلانی صاحب کا یہ موقف بھی درست ثابت ہوا کہ بھارت نواز پارٹیاں اور لیڈر ہی مقبوضہ ریاست پر بھارتی قبضے کے لیے آلۂ کار ہیں۔ انھیں کشمیریوں کے حال پر رحم کرنا چاہیے ، اپنی پارٹی اور خاندان کے مفادات سے بالا تر ہو کر اب اس نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے کہ ہندو بنیا کسی طور پر ان کی وفاداری پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔وقت آ گیا کہ یہ نام نہاد قائدین کھل کر حریت کے موقف کی تائید کریں۔ اگر یہ جماعتیں اسمبلی کے ایوان سے بھی نام نہاد الحاق کو چیلنج کریں تو آیندہ نسلیں انھیں معاف کر سکتی ہیں، ورنہ تاریخ انھیں غداروں اور مجروں کے کٹہرے میںکھڑا کرے گی۔