سوال: دعوتِ دین اور سیاسی و انتخابی جدوجہد دو بالکل مختلف میدانِ کار ہیں جو بالکل مختلف افراد کار، دعوت و پیغام، اسلوب اور طریقۂ کار کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل پہلو غور طلب ہیں:
۱- جب ایک دینی جماعت عوام کو دعوتِ دین دیتی ہے تو وہ سچائی، نیکی، عملِ صالح اور آخرت کی دعوت دیتی ہے اور اس میں وہ عوام کی پسند وناپسند کو سامنے نہیں رکھتی، جب کہ ایک سیاسی جماعت کو اپنے پیغام یا دعوت میں عوام کی پسندو ناپسند کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔
۲- دینی جماعت جب عوام کو حق اور عملِ صالح کی دعوت دیتی ہے تو عوام کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ کل ہم سے یہ کوئی مطالبہ نہیں کریں گے، جب کہ سیاسی جماعت کا معاملہ ایک سودے بازی (bargaining) یا کچھ لو اور دو (give & take) والا ہوتا ہے کہ عوام آج ہمیں ووٹ دیں، کل ہم ان کے مسائل حل کریں گے۔
۳-دینی جماعت سے عوام کو کوئی توقعات نہیں ہوتیں، جب کہ سیاسی جماعتوں سے عوام توقعات وابستہ کرتے ہیں۔
۴- دینی جماعت کو نتائج کی پروا نہیں ہوتی، چاہے لوگ اس کی دعوت قبول کریں یا نہ کریں، جب کہ سیاسی جماعت کی کامیابی اور ناکامی کو ووٹوں اور نشستوں کی تعداد سے پرکھا جاتا ہے۔
۵- دینی جماعت کا کارکن نیکی و حق کا کھلم کھلا نمونہ ہوتا ہے جو ہر جگہ اپنے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے۔ وہ اپنے قائد یا کارناموں کی بات نہیں کرتا، جب کہ سیاسی جماعت کا کارکن عوام کی سوچ اور مسائل کو سامنے رکھ کر بات کرتا ہے۔ اپنی قیادت اور پارٹی کے کارنامے گنواتا ہے، عوام کو سہانے خواب دکھاتا اور ووٹ کا مطالبہ کرتا ہے۔
۶- دینی جماعت کا کارکن تشہیر یا پروپیگنڈے پر بہت کم توجہ دیتا ہے، جب کہ ایک سیاسی جماعت کی سرگرمیوں میں تشہیر و پروپیگنڈے کی بہت اہمیت ہے اور ان کا مقصد حصولِ اقتدار ہے۔
یہ وہ ابہام (confusion) ہے جو مجھے اُوپر سے نیچے تک ہرجگہ نظر آتا ہے۔ ہم نے کام تو بہت بڑا اُٹھا لیا ہے___ دعوتِ دین ، سیاسی جدوجہد، رفاہی کام، بین الاقوامی معاملات___ لیکن ہرمیدان کی وسعت اور جزئیات کا پوری طرح اِدراک نہیں کرپائے۔ خیال رہے کہ کامیابی کے لیے صرف اخلاص کافی نہیں بلکہ واضح حکمت عملی بھی درکار ہے۔
جواب: ان سوالات سے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ تحریک سے وابستہ ساتھیوں میں سوچنے سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت ہے۔ تنقیدی ذہن کے ساتھ سوچنا ہی تحریک کو زندہ رکھتا ہے۔ اسی بناپر حدیث نبویؐ میں اختلاف راے کو رحمت قرار دیا، اور قرآنِ کریم نے اس پہلو کو ایک زیادہ جامع اصطلاح، یعنی شوریٰ سے تعبیر کرتے ہوئے حکم دیا کہ اپنے تمام اُمور میں مشاورت کرو۔ ظاہر ہے مشاورت اسی وقت ہوگی جب ایک سے زیادہ آرا سامنے آئیں اور ہرتجویز پر غور کرنے کے بعد جب کسی ایک راے پر اتفاق یا اجماع ہوجائے توپھر عزم اور توکل کا سہارا لیا جائے۔
سوالات کی ترتیب کے لحاظ سے چند قابلِ غور پہلو تحریر کیے جارہے ہیں۔
یہ طے کرنے کے لیے کہ کیا دعوتِ دین کی جدوجہد اور سیاسی اور انتخابی جدوجہد دو مختلف میدان ہیں، ہمیں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ قرآن کریم میں انبیاے کرام ؑ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے حوالے سے یہ بات وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ حضرت سلیمان ؑ، حضرت دائود ؑاور حضرت یوسف ؑنے، جن اُمور کو ہم آج سیاست اور گورننس سے تعبیر کرتے ہیں، نہ صرف اپنی دعوت کا لازمی جزو سمجھا بلکہ عملاً نظامِ حکمرانی کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا:
قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ ج اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ o وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ج یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ ط (یوسف ۱۲:۵۵-۵۶) یوسف ؑ نے کہا:ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ اس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔
گویا حضرت یوسف ؑ کا دائرۂ اختیار محض مالیات تک محدود نہ تھا بلکہ آپ تمام اُمور مملکت پر اختیار رکھتے تھے اور جہاں جہاں عزیزِ مصر کا اثر تھا وہاں وہاں آپ کا حکم چلتا تھا۔
حضرت موسٰی ؑ کے تذکرے میں بھی ملتا ہے: ’’یاد کرو جب موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمھیں عطا کی تھی۔ اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تم کو فرماں روا بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا‘‘۔(المائدہ ۵:۲۰)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مکی دور میں جو دعا رب کریم نے آپؐ کو تعلیم فرمائی وہ محض مشرکین کے شر سے محفوظ رکھنے کی نہیں تھی بلکہ اقتدار کے ذریعے اقامت دین کی دُعا تھی۔’’اور دعا کرو کہ پروردگار مجھ کو جہاں کہیں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا، اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال، اور اپنی طرف سے ایک اقتدار [سُلْطَانًا] کو میرا مددگار بنادے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۸۰)
ان قرآنی آیات پر غور کیا جائے تو انبیاے کرام کے مشن میں دعوتی تسلسل، دعوتی ہمہ گیریت اور خود مقصد ِ نبوت میں اسلامی اقتدار کا قیام بالکل واضح نظر آتا ہے۔ اگر مکہ مکرمہ میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ دین، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ہوتی تو مشرکینِ مکہ کو اس پر معاندانہ اور مخالفانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر انھوں نے حرمِ مکہ میں تین سو سے اُوپر خدائوں کو جگہ دے رکھی تھی تو ان میں ایک کے اضافے سے قیامت نہیں آجاتی۔ اس لیے مسئلہ ایک نئے خدا کے اقرار کا ہی نہ تھا بلکہ توحید یا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے کا مطلب ہی یہ تھا کہ زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لے آیا جائے ا ورتمام خدائوں کو یک قلم منسوخ کردیا جائے۔ آخرانگریز کے دورِ غلامی میں مسلمان برعظیم پاک و ہند سے حج کے لیے بھی جاتے تھے، مسجدیں بھی آباد تھیں اور صاحب ِ نصاب حضرات زکوٰۃ بھی دیتے تھے اور بھلائی کی تلقین بھی کی جاتی تھی۔ مکہ مکرمہ میں اصل مسئلہ یہی تھا کہ اگر توحید کو قبول کرلیا جاتا تو پھر سود کا بت، قبائلی فخر کا بت، تبرجات الجاہلیہ پر مبنی ثقافت و معاشرت، ہرشعبۂ زندگی کو اللہ کی بندگی میں آنا پڑتا۔ توحید کو ماننے کا پہلا تقاضا ہی یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر ارباب کو زندگی سے خارج کیا جائے اور معیشت ہو یا سیاست، عبادت ہو یا ثقافتی سرگرمی، ہرہرکام کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کردیا جائے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ مسجد میں اللہ کی حاکمیت ہو اور پارلیمان میں، عدلیہ میں، معاشی منڈی میں کوئی دوسرا اسلوب ، طریقہ اور اصول کارفرما ہو۔ مسجد میں سجدہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو کیا جائے اور تجارت میں مالی مفاد کو خدا بنا لیا جائے اور جب ایک شخص پارلیمنٹ میں ہو تو ہوا کا رُخ دیکھ کر بات کرے! اس لیے دعوت کا میدان اور سیاسی میدان دو الگ چیزیں نہیں ہوسکتے۔ دونوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو اس زمین پر قائم کرنا ہے۔
جو سوال اُٹھایا گیا ہے یہ اس سے قبل بھی بہت سے ذہنوں کو پریشان کرتا رہا ہے، چنانچہ فکری اور معاشرتی اصلاح پہلے یا سیاسی انقلاب پہلے پر سیدمودودیؒ کا جامع تبصرہ یہ ہے: ’’بلاشبہہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔ اور بلاشبہہ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اُوپر سے ہی مسلط نہیں کیے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کی شکل میں سیاسی انقلاب رُونما ہوچکا ہے۔ اب یہ سوال چھیڑنا بالکل بے کار ہے کہ معاشرتی انقلاب پہلے برپا کرنا چاہیے اور سیاسی انقلاب بعد میں۔ اب تو سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ جب تک قوم میں ذہنی انقلاب واقع نہ ہو اس وقت تک آیا ہم سیاسی اختیارات کو کافرانہ اصولوں کے مطابق استعمال کرتے رہیں یا ان اختیارات کو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق کام میں لائیں۔ سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کوئی مصرف اور مقصد بہرحال ہمیں متعین کرنا پڑے گا۔ حکومت کی مشینری کو اخلاقی انقلاب رُونما ہونے تک معطل بہرحال نہیں کیا جاسکتا… حکومت کی طاقت نہ صرف بجاے خود ایک بڑا ذریعۂ اصلاح ہے، بلکہ وہ ساری اصلاحی تدابیر کو زیادہ مؤثر، نتیجہ خیز اور ہمہ گیر بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔ آخر اس حماقت اور جہالت کا ارتکاب ہم کیوں کریں کہ ایک طرف انفرادی حیثیت سے ہم اسلام کے سماجی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کے سارے ذرائع، اخلاق کے بگاڑنے اور فسق و فجور پھیلانے میں لگے رہیں‘‘۔(رسائل و مسائل، چہارم، ص۱۷۹-۱۸۸)
تبدیلیِ نظام اور قیامِ عدل کے لیے ایک طریقۂ کار تو یہ ہوسکتا ہے کہ موجودہ نظام کی خامیوں کے پیش نظر اس سے اپنے آپ کو الگ کر کے تعمیر کردار پر توجہ دی جائے اور جب ایک طویل عمل کے نتیجے میں ایسے افراد تیار ہوجائیں تو پھر سیاسی تبدیلی کی طرف توجہ دی جائے۔ دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ کسی عسکری قوت کے ذریعے پورے نظام کو درہم برہم کر کے نئے سرے سے نظام کو صالح بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ ایک تیسری شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جس طرح آپ ایک ایسا مکان خریدیں جس کی چھت ٹپک رہی ہو، دروازے بوسیدہ ہوں، بجلی کا نظام صحیح کام نہ کر رہا ہو توبجاے پورے مکان کو منہدم کر کے نئے سرے سے مکان تعمیر کرنے کے آپ ترجیحات کا تعین کریں اور مکان کی خرابیوں کو دُور کرتے جائیں۔ انسانی معاشرہ اور میکانکی معاشرہ میں یہی فرق ہے۔ اس میں بیک وقت دعوتِ نماز اور دعوتِ قیامِ عدل پر عمل کیے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی۔
دوسری بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ کیا ’دینی جماعت‘ تو عملِ صالح کی دعوت دے اور سیاسی جماعت عوام کے دل جیتنے کے لیے سیاسی حربے استعمال کر کے اقتدار حاصل کرلے۔ کیا یہ دوعملی اسلام کا مقصود و مطلوب ہے؟ کیا قرآن کریم اور سنت ِ رسولؐ یا خلفاے راشدین کی سیاسی زندگی سے اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ بات بڑی آسان اور واضح ہے۔ اسلام جس سیاسی نظام کا قیام چاہتا ہے، اس کی بنیاد تقویٰ، اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نفاذ، شفافیت، عدم مداہنت، اصول پرستی، حق کے اظہار، عدل کے قیام، امانت، اہلیت اور احتساب پر ہے۔ اسلام میں صرف سیاست یا صرف دین کا کوئی تصور، نہ قرآن میں پایا جاتا ہے نہ سنت ِ رسولؐ ، نہ خلفاے راشدین کی مثال میں۔ خلفاے راشدین نے اقتدار کو دین کے قیام اور استحکام کے لیے استعمال کیا۔ یہی وہ دعوت ہے جو تحریک اسلامی کی قیادت خصوصاً مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے شعوری طور پر پیش کی۔
یہ بات بھی محلِ نظر ہے کہ ’دینی جماعتوں‘ کی کامیابی یا ناکامی کا معیار نشستوں کی تعداد ہے۔ کیا حضرت نوحؑ کی طویل دعوتی جدوجہد اور حضرت موسٰیؑ کے اپنی قوم کو دعوت دینے کے نتیجے میں ساری قوم یا اس کی اکثریت آپ کے ساتھ آگئی تھی؟ کیا یہ ان حضرات علیہم الصلوٰۃ کی ناکامی تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمان میں نشستوں کی تعداد نظریاتی جماعتوں کی کامیابی یا ناکامی کا حتمی پیمانہ نہیں ہوسکتی۔ ان کی کامیابی کا پیمانہ خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی مقدور بھر کوشش اور ربِ کریم پر اعتماد و توکّل ہے۔ ترکی میں اب سے ۲۰سال قبل وہاں کی اسلامی تحریک نے ۱۰ فی صد سے بھی کم نشستیں حاصل کیں لیکن اگلے انتخابات میں اس میں اضافہ ہوا، اور آخرکار تیسرے انتخاب میں وہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ہمارے ہاں انتخاب کا نظام، انتخابات میں قوت کا استعمال اور نفاذِ تحریکِ اسلامی کی حکمت عملی کا بروقت بننا اور صحیح روح کے ساتھ اس کا نفاذ، یہ اور دیگر تنظیمی اور مالی وجوہات مل کر نتائج پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خود سیاسی سرگرمی تحریک کے نقطۂ نظر سے ایک دعوتی سرگرمی ہے جس میں کارکن اور قیادت عوام کے سامنے اپنی دعوت اور مسائل کا اسلامی حل پیش کرتے ہیں۔ اس عمل میں معمولی سی کوتاہی نتائج کو متاثر کرسکتی ہے۔ دوسری جماعتیں جو خالص سیاسی مقاصد کے لیے وجود میں آتی ہیں، ان کی کامیابی کا سبب تنہا ان کا ’نظریہ‘ نہیں ہوتا بلکہ اکثر وہ غیراخلاقی ذرائع ہوتے ہیں جن کا استعمال تحریکِ اسلامی کے لیے ناممکنات میں سے ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ غیراخلاقی ذرائع سے کامیابی سے افضل چیز اپنے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کسی نشست کا کھو دینا ہے، تو بے جا نہ ہوگا، بلکہ اصولی سیاست کے فروغ کا ناگزیر تقاضا ہے۔
یہ بات غیر اسلامی سیاست میں تو ممکن ہے کہ کچھ لو اور دو کے ذریعے ووٹ لے لیے جائیں لیکن اسلامی تحریک کی اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا کہ دینی جماعت سے عوام کوئی توقعات نہیں رکھتے، مشاہدے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پاکستان کی تین مسلکی جماعتیں اپنے واضح مسلکی پس منظر کے باوجود عوام کی نگاہ میں ان کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اسی بنا پر انھیں ووٹ ملتے ہیں۔جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جسے مسلکی جماعت نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی رکنیت کے لیے کسی کا دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث یا جعفری ہونا شرط نہیں ہے۔ ہرمسلمان جو اس کے دستور سے اتفاق رکھتا ہو اس میں شامل ہوسکتا ہے، جب کہ جو جماعتیں مذہبی کہلاتی ہیں ان کے نام ہی اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ وہ دراصل مسلکی جماعتیں ہیں۔ اس کے باوجود سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں لوگ انھیں ان کے مسلک سے وابستگی کے باوجود ووٹ توقعات کے پیش نظر ہی دیتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ تحریکِ اسلامی کی سیاسی جدوجد کا بنیادی مقصد اپنی دعوت کا پہنچانا ہے۔ اس لیے وہ نتائج سے بے پروا ہوکر اللہ کی رضا کے لیے کام کرتی ہے۔ اس جدوجہد میں اگر رب کریم اپنے فضل اور نصرت سے اسے کامیاب کردے تو یہ اس کا انعام ہے۔
تحریکِ اسلامی کے کارکن کسی کو جتائے بغیر خلوص سے معاشرتی اصلاح کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ لوگ خود مخلص اور مطلبی افراد میں امتیاز کرسکتے ہیں۔ پروپیگنڈا اور تشہیر کے مقابلے میں تحریک تحدیث ِنعمت کی تعلیم دیتی ہے، ناگزیر تشہیر کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ تاہم قیادت اور کارکن دونوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ نفس کے شیطان سے ہمہ وقت چوکنے رہیں اور باہمی احتساب کے ذریعے ایک دوسرے کو نصیحت بھی کرتے رہیں۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تحریک کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے مذاکروں میں اور سوشل میڈیا پر زیادہ سرگرمی کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کرنا چاہیے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ حصولِ مقصد کے لیے حکمت عملی بہت واضح ہونی چاہیے۔ اگر ماضی میں اس پہلو سے کوئی کمی رہی ہے تو اسے اب دُور کیا جانا چاہیے۔
دعوتِ دین، عوامی مقبولیت اور حصولِ اقتدار میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ کوئی شرعی قباحت جیساکہ حضرت سلیمان ؑ کی زبان سے قرآن کریم میں یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایسی سلطنت کی توفیق دے جس کی کوئی مثال نہ پائی جاتی ہو۔ پھر تحریکِ اسلامی جس کا مقصد معاشرہ، معیشت اور اقتدار کو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں لانا ہے، وہ اس کے حصول کے لیے جدوجہد کیوں نہیں کرسکتی۔ اس جدوجہد اور انبیا ؑ کے دعوت و طریق کار میں تضاد کہاں پایا جاتا ہے۔
دعوتِ دین اور سیاسی جدوجہد دو الگ دائرے نہ قرآن کریم میں ہیں، نہ سنت ِ رسولؐ میں اور، نہ سنت خلفاے راشدین میں۔ اس لیے تحریک ِ اسلامی بھی اس فرق کو تسلیم نہیں کرتی۔ معاشرتی اصلاح کے لیے تمام ذرائع کا استعمال شریعت کی رُو سے فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ جو جماعتیں اپنے آپ کو خالص سیاسی جماعت کہتی ہیں وہ دین کو اپنا ذاتی معاملہ سمجھتی ہیں، اس لیے صرف سیاست کرنے میں لگی رہتی ہیں۔تحریکِ اسلامی اس لحاظ سے ایک ’خالص سیاسی جماعت‘ نہ کبھی تھی نہ کبھی ہوسکتی ہے۔ اس کی دعوت ہمہ گیر ہے۔ یہ زندگی کو خانوں میں نہیں بانٹتی اور یہ کلیسا اور ریاست کی تفریق کو رد کرتی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)