عالمی سرمایہ دارانہ نظام(گلوبل کیپٹلزم ) اپنی نئی شکل و شباہت کے باوجود‘ عمومی طور پر ’عالم گیریت‘(گلوبلائزیشن) کی طرح کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ نہ تو اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی نظام سرمایہ داری بہت تیزی سے آگے بڑھا ہے اور نہ انسانی وسائل، کمپیوٹر (Micro-Chip) کے بڑھتے ہوئے کردار کو کسی صورت میں کم کیا جاسکتا ہے۔ یہ چیزیں اور جغرافیائی حدود بہت اہم سہی‘ لیکن اس کے ساتھ کچھ دوسرے بنیادی مسائل بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
مجھے عالمی سرمایہ داری کے ہاتھوں انسانیت کو درپیش عالمی چیلنج کے اخلاقی، انسانی اور برابری کی بنیاد پر حقوق کو درپیش خطرات اور صدمات کے حوالے سے برابر تشویش ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں افراد، اقوام اور معاشروں کے حوالے سے بھی یہ مسائل زیادہ گہرے اور نہایت پیچیدہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’عالم گیریت‘ مختلف جغرافیائی اور تہذیبی پس منظر رکھنے کے باوجود کس طرح اس چیلنج کا جواب دے رہی ہے؟ یہ عالم گیریت کیا انسانیت کو ایک غالب معاشی نظام، یعنی عالم گیر نظام سرمایہ داری کی طرف لے کر جارہی ہے، یا تکثیریت پر مبنی دنیا میں مختلف نظاموں کے پھلنے پھولنے کے ساتھ، مستقبل میں انسانیت زیادہ بہتر حالت میں ہوگی؟
گذشتہ چھے صدیوں سے نظام سرمایہ داری ایک زبردست قوت کے طور پر موجود ہے۔ یہ نظام تاجرانہ سرمایہ داری سے صنعتی سرمایہ داری، مالیاتی سرمایہ داری، اخلاقی سرمایہ داری اور ریاستی سرمایہ داری سے ہوتا ہوا، اب عالم گیر سرمایہ داری تک آ پہنچا ہے۔ اس نظریے کا تنقیدی جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ جس مقام پر آج انسانیت کھڑی ہے، اسے بھلا کس طرح تاریخ کا اختتام (End of History) کہا جاسکتا ہے، کہ جہاں پوری نوع انسانی کے پاس عالم گیر معاشی نظام کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے؟
اِ ن معروضات میں نظام سرمایہ داری کے اصولوں کی تشریح غیر روایتی انداز سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نقطۂ نظر سے عالم گیر نظام سرمایہ داری کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے ایک ایسی عالم گیر معیشت اور عالم گیر معاشرت کا نقشہ بھی پیش کیا گیا ہے، جہاں مختلف نظام کچھ مشترک اقدار، ترجیحات، مقاصد و اہداف، تعاون کے میدان اور اسی طرح کے اہم میدانوں میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہوئے اکٹھے موجود رہیں، اور مختلف طریقے اختیار کرتے ہوئے مسلسل ابھرتے ہوئے نئے نئے درپیش مسائل اور چیلنجوں کا جواب بھی پیش کرسکیں۔ اسے ایک اختلافی (dissent)آواز بھی قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں بہرحال بہتری کا کچھ پہلو بھی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا معاشی نظام ہے، جس کی بنیاد نجی ملکیت اور نجی کاروبار پر ہے۔ اس میں معاشی زندگی کاایک بڑا حصہ خصوصاً اشیاے سرمایہ کی ملکیت اور سرمایہ کاری نجی ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ افراد اور کاروباری ادارے، منڈی کی میکانیت (خرید و فروخت اور لین دین) کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے مقابلے میں برسرپیکار ہوتے ہیں۔ نظام سرمایہ داری کی بنیاد ان فطری اقدار اور اصولوں پر رکھی گئی ہے، جن کا خاکہ نظام سرمایہ داری سے بہت پہلے انفرادی طور پر تیار اور مرتب کیا گیا، اور اس کی سمت کا تعین کرنے کے لیے یورپ میں نشات ثانیہ کے بعد کے عرصے میں ایک مضبوط عقلی، سیاسی، ثقافتی، تکنیکی اور معاشی ترقی کی بنیاد پر ایک سمت دی گئی (یہ عرصہ چودھویں صدی سے انیسویں صدی کے درمیان کا ہے)۔
۱- ذاتی مفاد، ۲- نجی ملکیت اور ذاتی کاروبار، ۳-نفع کے حصول کا داعیہ، ۴-منڈی کی میکانیت، ۵- آزاد کاروبار کے اداراتی تحفظ کو یقینی بنانے والا معاشرہ، ۶-کاروباری حقوق اور معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے قانونی ضوابط کی تشکیل، ۷-لین دین میں زر کا کردار ، ۸- اچھی حکومت اور سیاسی استحکام براے داخلی اور خارجی امن و سلامتی ۔
انسان کی معاشی زندگی میں اشیا کے باہم تبادلے کے نظام (Barter System)کے بعد اُبھرنے والے معاشی نظاموں میں درج بالا اصول انفرادی حیثیت میں کسی نہ کسی طور موجود رہے ہیں۔ باوجودیکہ ان کی شکل و صورت اور سمت مختلف معاشروں اور مختلف ادوار میں مذہبی، اخلاقی، سماجی اور سیاسی پس منظر سے مخصوص رہی ہے۔ جاگیرداری نظام کے زوال، نشات ثانیہ کے فروغ، یورپ کے ابھرنے اور بڑے یورپی ممالک کی ٹکنالوجی اور سیاسی حدود میں وسعت نے اس پس منظر کو ترتیب دیا، جس میں جدید نظام سرمایہ داری ابھر کر سامنے آیا۔ سومبارٹ، میکس ویبر، رابرٹ ٹانی جیسے اسکالرز کی طرف سے پیش کیے گئے اخلاقی اصولوں اور کچھ ثقافتی رویوں کے علاوہ کانٹ، والٹیر، ہیوم، روسو، ہابز، بینتھم، ایڈم سمتھ اور دوسرے دانش وروں کی طرف سے پیش کی گئی نئی فکر نے ایک نئی معاشرتی اخلاقیات کو جنم دیا، جس نے ایک نئے نظام کی بنا ڈالی۔ اس کانام اس کے معترضین کے نزدیک ’مسیحی سرمایہ داری نظام‘ ہے۔ نئے نظام یعنی ’کیپٹل ازم‘ کی اہم خصوصیات میں نفع اندوزی، پیدایش دولت اور غیرمنقسم قوت اور اثر و رسوخ کا حصول شامل ہیں۔
اس نئے نظام کا یہ کردار اس کی اُوپر بیان کردہ خصوصیات ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ کاروباری لوگوں کے ایک گروہ کی طرف سے تشکیل دیا گیا ہے۔ وہ نہ صرف تجارت اور سامراجی استحصال کے ذریعے دولت حاصل کرنے کے قابل تھے بلکہ معاشی وسائل کی پیدایش میں جدّت کے لیے نئی ٹکنالوجی کے استعمال پر حاوی تھے۔ اس نے صنعتی انقلاب، دیہی معاشرت کے شہری زندگی میں منتقل ہونے (urbanisation) اور بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تجارت کی راہ ہموار کی۔ اس طرح طاقت کا توازن اس نئے گروہ کی طرف منتقل ہوگیا۔ معاشی اور سیاسی تعلقات کے تمام رشتے، سرمایے اور سرمایہ کاروں کے اس اہم کردار کی روشنی میں تشکیل پانے لگے۔ معاشی رویوں کا اظہار مقابلہ بازی سے ہونے لگا اور فیصلہ سازی کا مؤثر ذریعہ منڈی کے لین دین اور کاروبار سے منسلک ہوگیا۔ معاشرے کی تقسیم دولت مند اور محنت کش طبقوں کی صورت میں فروغ پانے لگی۔
نیا نظام جن عقلی بنیادوں پر استوار ہوا وہ یہ ہیں کہ: ۱- فرد معیشت کا بنیادی ستون بن گیا۔ ۲- فرد کے ذاتی مفاد کا اظہار مالی ادایگی، زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تسکین، او ر نفع اندوزی کی صورت میں نظام کی حقیقی بنیاد بن گیا۔
یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس نتیجے میں فرد کو بہت کچھ حاصل ہوگا۔ معاشیات میں ہر جگہ ذرائع کی بہترین حدبندی کی جاسکے گی، جس کے نتیجے میں کارکردگی بہتر ہوگی اور معاشی دوڑ میں حصہ لینے والے بہترین نفع (reward) حاصل کر سکیں گے۔ اس طرح ’ذاتی مفاد‘ کام کروانے کی واحد نہیں تو غالب قوت بن گیا۔ اسی طرح دولت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ سب سے بڑی خوبی اور زندگی کا سب سے بڑا تحفہ قرار پایا۔ خواہشات اور ان کو پورا کرنے کا جذبہ معاشرے کی بنیادی قدر قرار پاگیا۔ ریاست کا کردار صرف ایسے حالات اور ماحول کو پیدا کرنے تک محدود کردیا گیا جس میں یہ نظام اچھے طریقے سے چل سکے۔ عدم مداخلت کو ریاست کے اندر اور عالم گیر سطح پر ایک رہنمااصول کے طور پر اختیار کیا گیا۔ اس نظام کے نتیجے میںصنعتی و کاروباری سرمایہ داروں اور حکمرانوں کے درمیان ایک مضبوط اتحاد وجود میں آگیا۔ اس مضبوط سیاسی و معاشی اتحاد نے نئے سرمایہ دارانہ نظام کو پوری طرح رُوبہ عمل آنے کے قابل کیا اور اسے غیر معمولی ترقی دینے اور عالم گیر سطح پر پھیلنے کا موقع دیا۔ نظام سرمایہ داری اور سامراجیت ایک دوسرے کے ہم نوا بن کر ایک دوسرے کو بھرپور امداد اور قوت فراہم کرنے لگے۔
ثقافتی، عملی، عقلی اور سماجی عوامل کی اثر اندازی کے نتیجے میں لادینی اور سیکولر بنیادوں پر معاشروں کی تشکیل ہوئی۔ مذہب اور روایتی اخلاقیات کے بندھن کمزور پڑ گئے۔ دولت پرستی نے ایک نئے طرز زندگی کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں دولت کی نمایش اور مفاد پرستی بڑھ گئی۔ مزید برآں ذاتی مفاد کی چکا چوند اور بے لگام انفرادیت پسندی ہی سماجی نظام کے ستون بن گئے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جو باہمی تصادم، عدم مساوات اور نا انصافی پر مبنی تھا۔ اس نئی آزاد روی (لبرلائزیشن) اور موقع پرستی نے تخلیقی صلاحیتوں، جدّت طرازی ، مہم جوئی اور انتظامی صلاحیتوں کو فروغ دیا ۔ جس کے نتیجے میں زبردست معاشی ترقی اور مادی دولت وجود میں آئی، تاہم یہ دولت صرف مراعات یافتہ طبقے تک ہی محدود رہی۔
مفادات کے اس تصادم، آمدنیوں اور دولت کی تقسیم میں گہری ناہمواری اور دولت مندی کی برق رفتار اُڑان نے معاشرے کو طبقات میں تقسیم کردیا، اور ایک ایسا منظر پیدا کیا، جسے ماہرین سماجیات سوشل ڈارونزم (Social Darwinism) کا نام دیتے ہیں، یعنی ایسا نظام جس میں: ’’مقاصد کے حصول کے لیے ہر ذریعہ اختیار کرنا جائز ہے‘‘۔۱؎ جیسے جدید اصول نے اس صورت حال کو مزید گمبھیر بنادیا۔ یوں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس میں ترقی کے ثمرات معاشرے کے تمام افراد کے مابین منصفانہ بنیادوں پر تقسیم نہ تھے۔ گویا کہ عالم گیر سطح پر یہ نظام سامراجی استحصال کا علَم بردار بن گیا۔
چودھویں اور اٹھارھویں صدی کے درمیان ہونے والی مختلف النوع ترقی کو سرمایہ داری کا تشکیلی (formative) دور کہا جاتا ہے، تاہم اس نظام کو حقیقی فروغ اٹھارھویں صدی کے وسط سے انیسویں صدی کے اختتام کے دوران حاصل ہوا۔ بیسویں صدی میں اس نظام کی مزید ترقی کے ساتھ ساتھ سوشلزم اور اس کے دیگر حریف بڑے بڑے چیلنجوں کی صورت میں ابھرے اور پھر بیسویں صدی ہی کے اختتام تک بکھر گئے۔
دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹ئ-۱۹۴۵ئ) کے بعد کا دور اس نظام کی بھرپور ترقی کا دور ہے۔ خصوصاً ۱۹۸۹ء میں دیوار برلن کا ٹوٹنا کمیونزم کے خاتمے کا علامتی اعلان تھا۔ اس کے بعد سابقہ کمیونسٹ ریاستوں اور کسی تیسرے نظام کے لیے کوشاں ممالک میں نظام سرمایہ داری کا نفوذ اس نظام کی بالادستی اور عروج کا دور ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر دنیا بھر میں نظام سرمایہ داری ایک غالب معاشی نظام کے طور پر موجود ہے۔ باوجویکہ ترقی پذیر دنیا کا بہت بڑا حصہ غربت، بھوک، بیماری اور محرومی کی گرفت میں ہے، خاص طور پر افریقا، لا طینی امریکا اور جنوبی ایشیا۔ مشرقی ایشیا کی مالیاتی منڈیوں میں ہونے والی تباہی اور دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی مالیاتی ہلچل نے اس نظام کے تحفظ اور استحکام کو مضبوطی عطا کر دی ہے ۔
روس اور مشرقی یورپ کے کچھ ممالک میں معاشی نج کاری اور معاشی آزاد روی (لبرلائزیشن) کے تجربات نے اجنبی زمین پر نظام سرمایہ داری کے زوال کو روز روشن کی طرح واضح کیا ہے۔ عالم گیر نظام سرمایہ داری کی دو جہتیں ہیں: ۱- یہ غیر مغربی ممالک کے لیے ایک چیلنج ہے۔ ۲- یہ نظام سرمایہ داری کے لیے بذات خود ایک چیلنج ہے کہ وہ نظام سرمایہ داری کے اندر سے اٹھنے والے لاینحل مسائل کو کیسے حل کرے؟ صرف ایک روشنی کی کرن یہ ہے کہ ہر چیلنج دراصل ایک اور موقع ہوتا ہے۔
تین صدیوں پر محیط سرمایہ دارانہ تجربے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ: معاشی ترقی، پیداواریت، تخلیق اور جدّت طرازی کی بے مثال کامیابیوں کے ساتھ ساتھ یہ ناقابلِ معافی حادثات اور سماجی و انسانی حوالوں سے نامساوات کی ملی جلی تصویر پیش کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامی اور سرمایہ دارانہ نظام کے ناقد (بشمول کارل مارکس) اس نظام کے پیدایش دولت کے زبردست کردار پر متفق ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جو معاشی ترقی اور دولت مندی نظامِ سرمایہ داری کی قیادت میں حاصل کی گئی ہے وہ نظام سرمایہ داری سے پہلے کی تمام معاشی سرگرمی سے زیادہ ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ صدی میں نظام سرمایہ داری کو چیلنج کرنے والا متبادل اشتراکی نظام، دولت کی پیدایش کے حوالے سے نظام سرمایہ داری سے بہت پیچھے رہا ہے اور اپنی خامیوں کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا،جب کہ اس کے مقابلے میں نظام سرمایہ داری زمانے کے نشیب و فراز اور انقلابات کے باوجود محفوظ نظر آتا ہے اور تخلیق، جدت طرازی اور صنعت کاری و ہنر مندی کو فروغ دینے کاباعث دکھائی دیتا ہے۔ اگر استعدادِ کار کی تعریف طبعی اور مادی نقطۂ نظر سے کی جائے تو کہاجاسکتا ہے کہ جیسے تیسے اس نظام نے استعدادِ کار کا ایک معیار قائم رکھا ہے۔ فرد کے محوری کردار اور آزادی، جدوجہد، موقع ملنے پر فوری عمل اور کامیابی پر انعام نے اس نظام کے اعتبار کو دوام بخشا ہے اور جس نظام نے اسے چیلنج کیا اس پر اپنی تقابلی برتری کو ثابت کیا ہے۔ معاشی فیصلہ سازی میں منڈی کی میکانیت اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کے باجود زیادہ مستعد ثابت ہوئی ہے۔
یہ نظام بنیادی طور پر کچھ مفروضات، اقدار اور اصولوں پر قائم کیا گیا تھا، جو بُری بھلی انسانی فطرت سے مطابقت رکھتے ہیں اور معیشت کی فطری حالت سے قریب تر ہیں۔ اس لیے سرمایہ داری نے، باوجود بہت سی ناکامیوں کے، اپنی قوت کو ظاہر کیا اور قائم رکھا ہے، اور اشتراکیت (کنٹرولڈ اکانومی) پر اپنی برتری اور قابل عمل ہونے کو ظاہر کیا ہے۔ نظام سرمایہ داری نے اپنے فعال اور لچک دار نظام کے ذریعے صورت حال کا مقابلہ کیا۔ جس میں پیش آمدہ حالات سے مطابقت پیدا کرنے اور ٹکنالوجی کے مؤثر استعمال سے اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے تبدیلیوں میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں جغرافیائی حدود کو پار کرنے اور عالم گیر حیثیت حاصل کرنے کی استعداد بھی موجود ہے۔ نظام سرمایہ داری او رجمہوریت میں تعلق کے بارے میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں۔ تاہم یہ امر واقع ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں ’مثبت آزادی‘ کے مقابلے میں ’منفی آزادی‘ اور اس کے ذمہ داروں میں بہت زیادہ امیر لوگوں کی موجودگی کی وجہ، دولت کا ارتکاز ہے۔ بحیثیت مجموعی کہا جاسکتا ہے کہ سرمایہ داری، جمہوری عمل اور آزادی میں بہت زیادہ ہم آہنگی ہے۔ یہ پس منظر نظامِ سرمایہ داری کامثبت پہلو پیش کرتا ہے، تاہم اس کا دوسرا پہلو بہت ناگوار اور اذیت ناک ہے۔
انفرادیت پسندی بھی انسان کو ’کلیت پسندانہ‘ (Totalitarianism)، ا شتمالیت اور بے لگام ریاستی طاقت کے سے انداز میں پاگل پن میں مبتلا کرسکتی ہے۔ فرد کو ملنے والے فوائد اور سماجی بھلائی دونوں ہی ایک صحت مند معاشرے کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ ہر معاشرے میں افراد کے مفادات کاٹکرائو ہوتا ہے۔ لیکن ہر معاشرہ اس طرح کے تعلقاتِ کار کو فروغ دیتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ اختلافات اس طرح کم ہوتے ہیں کہ فرد کی بھلائی اور سماجی بھلائی کے مقاصد بیک وقت حاصل کیے جاسکیں۔ فرد کی بھلائی اور عوامی بھلائی دونوں کو ان کا مقام دیا جائے تو ایک پروقار معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو اہمیت نہ دینے سے معاشرتی اور معاشی اضطراب پیداہوتا ہے۔اگر ’سوشلزم‘ کی غلطی اجتماعیت کی انتہا تھی تو اس کے مقابلے میں سرمایہ داری کی ناکامی کو اس کی بے لگام انفرادیت میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ باوجود ان تمام سنجیدہ کوششوں کے، جو انفرادی اور سماجی بھلائی، ذاتی اور معاشرتی مقاصد کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کی گئیں، ان کے درمیان تصادم تقریباً ہر سطح پر قائم رہا۔
بڑی مچھلیاں نہ صرف تالاب کو کنٹرول کرتی ہیں، بلکہ بے بس چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں۔ اشیا پر مشتمل منڈی کی اجارہ داریاں، عاملین پیدایش کے ذرائع پر مشتمل منڈی کی اجارہ داریاں اور چند بڑی قوموں کی معاشی استعماری اجارہ دارانہ قوتیں منڈیوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ منڈی کی غیرمتوازن کارکردگی اور خرابیاں، داخلی اور عالم گیر سطح پر معیشت کے لیے تباہی کاباعث ہیں ۔ ان کی وجہ سے طبقاتی کش مکش، علاقائی دشمنیوں، قومی لڑائیوں اور عالم گیر سطح پرتصادم کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ یہ نظام مراعات یافتہ طبقوں اور افراد کی بقا اور طبقاتی تقسیم پر منتج ہوا ہے۔ طاقت اور دولت مندی میں عدم مساوات اس نظام کی بنیاد ہے، جو خرابی، استحصال اور عدم مساوات کو فروغ دینے کا باعث ہے۔
معاشی اعتبار سے ترقی پذیر دنیا کے زیادہ تر ممالک: معاشی ترقی، بہبود اور فی کس آمدنی کے حوالے سے کم و بیش اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں آج کے سرمایہ دارانہ ممالک اٹھارھویں صدی کے وسط میں تھے۔ نظام سرمایہ داری کی ترقی کے ۳۰۰ برسو ںمیں اکیسویںصدی کے آغاز میں صورت حال تبدیل ہوچکی ہے جس کے مطابق دنیا کی ۲۰ فی صد آبادی والے امیر ترین ممالک دنیا کی ’خام داخلی پیداوار‘ (GDP) کے ۸۷ فی صد کے مالک ہیں،جب کہ دنیا کی بقیہ ۸۰ فی صد آبادی صرف ۱۳ فی صد خام داخلی پیداوار کی مالک ہے۔ یہ تفاوت نہ صرف عالم گیر سطح پر امیر اور غریب ممالک اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بڑھ رہا ہے بلکہ ہر سرمایہ دارانہ معاشرے کے امیر اور غریب طبقات کے درمیان بھی روز افزوں ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ طرز پر ترقی کا ناگزیر نتیجہ ہے اور اس صورت حال کا تدارک کرنے کے لیے نئی منڈیوں کے ساتھ ساتھ معاشی دائرے سے باہر بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ نظام سرمایہ داری کی بنیادی خرابی ہے۔ ’مارکیٹ‘ حقیقی انسانی ضروریات کے بجاے موضوعی اور نفسانی خواہشات کے مطابق کام کرتی ہے۔ آمدنیوں اور دولت میں کسی حد تک تو تفاوت قابل قبول ہے اور کچھ حدود کے اندر تو یہ ناگزیر بھی ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو مؤثر ترغیب اور کارکردگی کی بنیاد پر اجر اور نفع حاصل ہو۔ اس معاملے میں جان لینا چاہیے کہ بہت زیادہ معاشی تفاوت اور ناہمواری معاشرے کے پورے ڈھانچے اور اس کی پیداواری اور صرفی ترجیحات کو بدل کر رکھ دے گی، جس کا نتیجہ ایک غیر متوازن اور استحصالی نظام کی صورت میں نکلے گا۔
معیشت اور منڈی کو ایک ہی چیز سمجھ لینے سے سرمایہ دارانہ نظام کی آہستہ آہستہ قلب ِماہیت ہوئی اور یہ سماجی بھلائی اور اخلاقی ذمہ داری سے بے تعلق ہوگیا ہے۔ اس کی اصل توجہ ضروریات سے خواہشات، انسان سے زر، معاشرے سے معیشت کی طرف منتقل ہوئی ہے۔
زر اور مالیات کے اس بدلتے ہوئے کردار اور معیشت میں حقیقی اثاثوں کی پیدایش اور زر کے لین دین سے بڑھتی ہوئی عدم وابستگی نے بہت شدید خرابیاں اور عدم استحکام پیدا کیا ہے۔ زر کا اصل کردار مالیاتی ثالثی اور قدر کی پیمایش تھا۔ معاشی سرگرمیوں کا اصل ہدف انسانی ضروریات کی فراہمی کے لیے اشیا اور خدماتی وسائل کو پیدا کرنا تھا۔ معاشی علامتی زبان میں CMC (Commodity Money Commodity) ،یعنی ’اشیا۔ زر۔ اشیا ‘کا مطلب زر کے ثالثی کردار پر زور دینا تھا، جب کہ حقیقی ہدف معیشت کا طبیعی پھیلائو تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت یہ تعلق اُلٹ کر کچھ یوں تبدیل ہواکہ یہMCMہوگیا، یعنی زر۔ اشیا۔ زر، جب کہ حقیقی معیشت اس نازک موڑ پر آگئی کہ معیشت کاحقیقی ہدف اشیا و خدمات کی زیادہ سے زیادہ پیداوار، عوام کی کثیر الجہتی ضروریات کو پورا کرنا اور معاشرے کی فلاح و بہبود اور خوش حالی نہ رہا، بلکہ سرمایہ داروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع اور سرمایہ کاری پر زیادہ سے زیادہ اضافہ ہی ہدف بن گیا۔ طبیعی معیشت کا فروغ اور اس کے نتیجے میں اشیا و خدمات کی مقدار میں اضافہ مقصد کے حصول کا ذریعہ بن گئے۔ اس طرح موجودہ مالیاتی سرمایہ داری نظام ،اثاثوں کی تخلیق کے کردار سے بہت دُور چلا گیا ہے۔
اس طرح ’مالیاتی آلات‘ نے حقیقی مالیاتی اقدامات کارخ ’تخمینی مالیات‘ (Speculative Finance) کے ذریعے منافع کمانے کے ایک ایسے عمل کی طرف موڑ دیا ہے، جس کا اثاثوں کی تخلیق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کے نتیجے میں انسانی ضروریات کو پورا کرنے والی اشیا و خدمات کی رسد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس مالیات کے کھیل کے نتیجے میں کروڑوں اور اربوں میں کھیلنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ داخلی سطح پر اور عالم گیر سطح پر معاشرے میں حقیقی اثاثوں اور بنیادی ضروریات کی چیزوں کی مقدار میں اضافے کی رفتار، مالیاتی اضافے کے مقابلے میں کم ہے۔
انسان کی ذہنی قوت اور انسانی سرمایے کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا جانا چاہیے اور ان کی استعداد کے مطابق معاوضہ لازماً دیا جانا چاہیے۔ تاہم حقیقی معیشت کے محرکات کچھ ایسے ہیں کہ عدم مساوات اور عدم استحکام کے ساتھ ساتھ معیشت غبارے کی طرح پھولتی جاتی ہے، جس کی وجہ سے معیشت میں ایک ایسی تبدیلی پیدا ہوتی ہے جو طبیعی معیشت کو متاثر کرتی ہے اور امیروںکی ایک ایسی فوج پیدا کرتی ہے جس کا معاشرے کی فلاح و بہبود میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ وہ فوائد جو اس کے نتیجے میں ان کو حاصل ہوتے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے امیر ترین ایک فی صد لوگ دنیا کی کل دولت کے ۵۹فی صد کے مالک ہیں۔ بالفاظ دیگر ۵کروڑ امیر لوگوں کی دولت ۲ ارب ۷۰کروڑ لوگوں کی دولت کے مساوی ہے اور اس میں امرا کا حصہ بڑھتا جا رہا ہے۔۲؎ ۱۹۶۰ء میں ۲۰فی صد امیر ترین اور ۲۰ فی صد غریب ترین لوگوں کے درمیان دولت کی تقسیم کاتناسب ۳۰:۱ کا تھا۔ ۱۹۹۷ء میں یہ تناسب بڑھ کر ۷۴:۱ ہوگیا، اور یہ کیفیت اس دنیا میں ہے جہاں ڈھائی ارب انسان دو ڈالر روزانہ سے کم پر گزارا کرتے ہیں، اور پھر ایک ارب ۲۰ کروڑ لوگ روزانہ ایک ڈالر سے بھی کم پر گزر بسر کر رہے ہیں۔ دنیا کی آبادی کے ۴۰ فی صد کو صاف پانی اور دوسری نہایت بنیادی سہولیاتِ زندگی تک نصیب نہیں ہیں۔ جہاں ہرروز ۱۰ہزار بچے پانی سے جنم لینے والی بیماریوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ المیہ لوگوں کی ناآسودگی کی وجہ سے ہے۔
دنیا میں نظر آنے والی اس مضحکہ خیز ترقی نے دنیا کی معیشت میں خرچ (consumption) اور پیدایش دولت کو اس طرح متاثر کیا ہے کہ عمومی سماجی زندگی: خوف اور اذیت کا عنوان بن کررہ گئی ہے۔ مارکیٹوں میں اشیاے تعیش کی بھرمار ہے، جب کہ بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کا کوئی تسلی بخش انتظام نہیں ہے۔ اشتہار بازی کے ذریعے مصنوعی طلب پیدا کی جاتی ہے۔ جس چیز کو صحیح معلومات کی فراہمی کا بہت اچھا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، وہ خواہشات کے ابھارنے اور منافع خوری کاذریعہ بن گئی۔ مارکیٹ میں چھا جانے والی طاقت ور قوت کے سامنے اخلاقی اور ثقافتی اقدار غیرمؤثر اور غیرمتعلق ہوگئی ہیں۔
’علمی ملکیت کے حقوق‘ (Intellectual Rights) کے نام پر ضروری ادویات بھی مناسب قیمتوں پر ان غریب ممالک کو مہیا نہیں کی جاسکتیں، جہاں لاکھوں لوگ ان سہولتوں کی عدم فراہمی کے سبب سسک سسک کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ یہ تمام ہلاکت خیز باتیں سرمایہ داری کے تحت ہونے والی نام نہاد ترقی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔
مالیاتی عدم استحکام سرمایہ دارانہ دنیا میں جاری و ساری ہے۔ جنوبی افریقہ اور مشرقی ایشیا، گذشتہ تین عشروں میں اس سے بری طرح متاثر ہوئے، حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک بھی عالم گیر مالیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نہیں بچ سکے۔ دنیا کے تمام حصوں میں قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ناقابلِ اصلاح حد تک دوسروں پر انحصار اور عدم استحکام بڑی تیزی سے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ افراد اور معیشتوں کے لیے قرضوں کے بوجھ اور مصارف، قرضے کی برداشت کو روزبروز مشکل بناتے جارہے ہیں۔
’مارشل پلان‘ بحرِ اوقیانوس کے حوالے سے مل جل کر کام کرنے کی ایک واحد مثال ہے۔ لیکن یہ ماڈل ایشیا اور افریقہ کے ممالک کے حوالے سے ناکام ہوچکا ہے۔ تمام وعدے جو غریب ممالک کی مدد کے حوالے سے کیے گئے تھے، بھلا دیے گئے ہیں۔ ابتدائی طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی خام قومی پیداوار کاایک فی صد ہر سال غریب ممالک کو دیں گے۔ اسے ۱۹۹۲ء میں کم کرکے ۷ئ۰ فی صد کردیا گیا، جب کہ حقیقی طور پر دی جانے والی امداد صرف ۳ئ۰فی صد ہے، اور اس میں امریکا کا حصہ اس کی خام قومی پیداوار کا صرف ۱ئ۰ فی صد ہے۔
ترقی یافتہ ممالک اپنے کسانوں کو زرعی منڈی کی صورت میں روزانہ ایک ارب ڈالر (یا سالانہ ۱۳۵۰ بلین پائونڈ) دیتے ہیں۔ جس سے تیسری دنیا کے کسانوں کے لیے یورپ اور امریکا کی منڈیوں میں مقابلہ کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNCTAD کے جائزے کے مطابق ان یک طرفہ پالیسیوں کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک ہر سال کئی سو ارب ڈالر سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں ’آکس فم رپورٹ‘ بعنوان Rigged Rules and Double Standards میں انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں نظام سرمایہ داری کے لیڈروں کی ناکامی پر فرد جرم عائد کی گئی ہے، اور ان اصولوں کے منفی پہلوئوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن پر نظام سرمایہ داری اور عالم گیریت کی بنیاد ہے ۔
آخر میں، لیکن آخری نہیں، عالم گیر سرمایہ داری کی سیاسی جہتیں ہیں، نیز معاشی اور مالیاتی قوت کے نامساوی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور فوجی بالادستی کا بھی معاملہ ہے۔ تمام بڑے بین الاقوامی اداروں بشمول اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لے کر ’عالمی بنک‘ اور ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ پر ترقی یافتہ ممالک کی بالادستی ہے۔ جمہوریت کے بارے میں تمام زبانی جمع خرچ کے باوجود ان اداروں میں فیصلہ سازی میں کسی قسم کا جمہوری طریق کار اختیار نہیں کیا جاتا۔ عالم گیر سرمایہ داری نظام دنیا کے ہر ہر خطے کو متاثر کر رہا ہے۔ اس کی یلغار غیر جانب دارانہ یا از خود عامل طریق کار پر استوار نہیں ہے۔ حکومتوں کے بننے بگڑنے میں بہت سے بیرونی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں اور بیرونی مداخلت ہوتی ہے۔ ان میں سیاسی، معاشی، اطلاعاتی اور ثقافتی اثرات شامل ہیں۔ حکومتیں، کثیر قومی کارپوریشنیں (MNCs)، عالم گیرمالیاتی ادارے، ذرائع ابلاغ، ہالی وڈ، این جی اوز کی ایک فوج ظفر موج، وہ عناصر ہیں جو ان خرابیوں کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کا موجب ہیں۔
مشہور ’واشنگٹن اتفاق راے‘ (Washington Consensus) کے آزاد روی، نج کاری اور عالم گیریت کے نسخے نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ ترقی پذیر اور غریب دنیا کے بہت سے ممالک محسوس کرتے ہیں کہ اب ان کی اپنی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ہے۔ ایک نئے انداز میںسابقہ شہنشاہی اور استبدادی نظام اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک عالم گیر نظام سرمایہ داری فطری ترقی کامظہر ہے، جب کہ کچھ اسے معاشی اور ترقی یافتہ آمریت کہتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ ان کے اقتدار اعلیٰ اور ان کے رضاکارانہ انتخاب کی آزادی کا قاتل ہے۔ وہ عالم گیر نظام کاحصہ بننا چاہتے ہیں لیکن دب کر نہیں بلکہ وہ ایک عالم گیر دوستانہ ماحول کے خواہش مند ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام فطری اصولوں پر مبنی ایک آفاقی نظام ہونے کا دعوے دار ہے۔ اس کی عالم گیر پہنچ سے انکار نہیں ہے، لیکن اس سے مطابقت اختیار کرنا اور پسندیدگی پیدا کرنا قابلِ بحث ہے۔ اس کے سیاسی و ثقافتی پہلو اور اس کے معاشی اصولوں کے درمیان عدم موافقت بھی قابل بحث ہے۔ کیا یہ سب کچھ باقی ساری دنیا کے لیے بھی ہے؟ اور کیا اسے دوسرے اختیار کرسکتے ہیں؟ اور جو یورپی وامریکی تاریخی و ثقافتی بنیادیں ہیں، کیا وہ دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں سے مطابقت رکھتی ہیں؟ کیا ہم ان اصولوں اور اوامر کوجن پر سرمایہ دارانہ نظام پروان چڑھا ہے، اخلاقی اقدار اور رسوم سے علیحدہ کرسکتے ہیں؟ بلاشبہہ ذاتی مفاد ایک بڑی تخلیقی قوت ہے۔ لیکن اگر اسے ایک مرتبہ قوت محرکہ کے طور پر فروغ دے دیا جائے، تو وہ اخلاقی فکر جو سماجی ضروریات کو تحفظ دیتی ہے بتدریج کم ہوتی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ہدف اُلٹ جاتا ہے، پھر معاشرے کے بجاے معیشت ہی مرکزی ہدف بن جاتا ہے اور معیشت سکڑ کر منڈی بن جاتی ہے ۔
یہی معاشی منڈی ’قدر‘ (Value) کاحقیقی منبع بن جاتی ہے۔ اس کی میکانیت ذاتی پسند و ناپسند کے محور کے گرد گھومتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اخلاقی اقدار کاجنازہ نکل جاتا ہے اور عدل کے تقاضے مجروح ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو سماجی و اخلاقی اقدار کو اہمیت دیتے ہیں، ان کے نزدیک: ’’نظام سرمایہ داری کا یہ دعویٰ کہ وہ فطری نظام ہے‘‘ قابل قبول نہیں ہے۔
مختلف ممالک کے حوالے سے زمینی حقائق، ترقی کے مختلف مدارج اور وسائل کی دست یابی میں فرق ایک زندہ ثبوت ہے جس میں انسانی سرمایے اور سماجی سرمایے کی کیفیات، اور سماجی و ثقافتی پہلو مختلف رنگ و نسل پر مشتمل مختلف انسانوں اور معاشروں کے لیے ایک ہی نوع کا معاشی ماڈل اختیار کرنا ممکن نہیں ہے۔ عالم گیر معاشرے کی طرح عالم گیر معیشت کو بھی ایک ہی ماڈل میں نہیں سمویا جاسکتا ہے۔ اس کے بجاے ایک آزاد اور عادلانہ دنیا کو، جو حقیقی طور پر مختلف النوع ہو، وجودمیںلانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپس میں ان کو اس انداز میں مربوط بنانا اور باہمی تعلق پیدا کرنا ہوگا کہ جس کے نتیجے میں تمام لوگ، معاشرے اور ریاستیں باہمی تعاون اور صحت مندانہ مقابلے کے ذریعے ترقی کے فوائد سمیٹ سکیں۔
مغرب کے کئی روشن خیال مفکرین بھی ترقی پذیر دنیا اور مسلم دنیا کے مفکرین کی اکثریت کے اس نقطۂ نظر کے حامی ہیں۔ پروفیسر لیسٹر تھرو کے مطابق: ’’خطرہ یہ نہیں کہ اشتراکیت کی طرح نظام سرمایہ داری کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ایک قابل عمل متبادل نظام کی عدم موجودگی میں جس کی طرف لوگ نظام سرمایہ داری سے مایوس ہوکر لپکیں، نظام سرمایہ داری خود بخود تباہ نہیں ہوگا۔ نظام سرمایہ داری کے حقیقی مسائل بالکل واضح ہیں: یعنی عدم استحکام، ناہمواریوں میں اضافہ اور مزدور طبقے کی بدحالی جیسے مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ نئے مسائل بھی ہیں جیسے نظام سرمایہ داری کا انسانی وسائل پر حد سے زیادہ انحصار اور انسانی ذہنی قوتوں کو بروے کار لاکر وجود میں آنے والی صنعتیں۔ انسانی ذہنی کاوشوں کی اہمیت کے اس دور میں جو لوگ کامیاب ہوں گے، وہ ایک نیا کھیل کھیلنے کی پوزیشن میں ہوں گے اور اس کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔آج کے فاتحین کے مقابلے میں کل کے فاتح مختلف صلاحیتوں کے حامل ہوں گے‘‘۔۳؎
معاملہ صرف ذہنی صلاحیتوں کاہی نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ اہمیت انسان کے اخلاقی، سماجی، ثقافتی، روحانی اور سیاسی پہلوئوں کو بھی حاصل ہے۔ مشین سے ہٹ کر دانش کی اہمیت کی طرف توجہ پھیرنا عالم گیر انسانی صورت حال میں ایک قابلِ قدر تبدیلی ہے۔ اس جانب بڑھیں تو بحث کا محور اخلاقی اصول بن جاتے ہیں اور مادی دولت اور مادی ترقی اور استعداد کے مقابلے میں اصل اہمیت عدل اختیار کرجاتا ہے۔
معاشیات پر ۱۹۹۳ء کے نوبیل انعام یافتہ رابرٹ ولیم فوگل نے اپنی تحریر "The Fourth Great Awakening and Future of Egalitarianism" میں اس مسئلے پر قلم اٹھایا ہے اور اس حقیقی مسئلے پر بہت جامع انداز سے بحث کی ہے۔ فوگل نے لکھا ہے: ’’نئے ہزاریے کے آغاز پر اصل مسئلہ کاروباری اتار چڑھائو (بزنس سائکلز) کو درست کرنا یا معیشت کی ایک اطمینان بخش سطح پر نمو (ترقی دینا ہی) نہیں ہے، اور مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ کیا ہم پچھلی صدی کے دوران میں انسانی معاشرت کو عطا کیے گئے سماجی شعور کو دفن کیے بغیر ترقی کرسکتے ہیں۔ پچھلی کامیابیوں کو بلاشبہہ ہم نظر اندازنہیں کرسکتے۔ امریکا میں معاشرتی مساوات کا مستقبل قوم کی اس صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ مسلسل معاشی نمو اور سماجی مساوات کے حوالے سے نئی اصلاحات کو ساتھ لے کر چل سکے۔ پھر ہمارے دور کی روحانی ضروریات کوبھی ساتھ ساتھ پیش نظر رکھے، جو سیکولربھی ہو اور مقدس بھی۔ روحانی(یا غیر مادی) عدم مساوات بھی مادی عدم مساوات کی طرح ایک بڑا اہم مسئلہ ہے، شاید اس سے بھی بڑا ‘‘۔۴؎
فوگل اپنی کتاب کا اختتام ایک انتباہ سے کرتا ہے:’’ہماری تیسری نسل (ہمارے پوتے) جو دنیا ہم سے وراثت میں پائے گی، وہ ہماری نسل کے مقابلے میں مادی لحاظ سے بہت امیر ہوگی، ماحولیاتی خرابیاں بہت تھوڑی ہوں گی، لیکن یہ دنیا ان کے لیے زیادہ پیچیدہ اور زیادہ پریشان کُن ہوگی۔ علمی و فکری سطح پر اخلاقی معاملہ بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا اور ان مسائل کے ساتھ ملحق معاملات آج کے مقابلے میں روز مرہ زندگی کا بہت بڑاحصہ ہوں گے ۔ علمی زندگی میںجمہوریت کے بارے میں مباحث میں وسعت آئے گی اور سیاسی زندگی میں روحانی معاملات زیادہ جگہ کا مطالبہ کریں گے۔ پرانے اور نئے مذاہب میں اختلاف اور زیادہ اُبھریں گے، لیکن آبادی کی اوسط عمر کافی بڑھ جائے گی۔امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے نتیجے میں متانت بڑھے گی اور علمی قوت میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں ہماری آنے والی نسلیں ہمارے مقابلے میں مسائل کا بہتر حل تلاش کرسکیں گی‘‘۔۵؎
اسی طرح جان گرے نے سیاسی پہلوؤں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے: ’’دنیا کی معیشت میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جس میں تہذیبوں، حکومتوں اور منڈی کی معیشتوں کے تنوع کو تسلیم کیا گیا ہو۔ ایک عالم گیر آزاد منڈی، ایسی دنیا کو سامنے لاتی ہے، جہاں مغربی ممالک کی بالادستی یقینی ہے۔ ایک آفاقی تہذیب پر مبنی خیالی دنیا (Utopia) میں مغرب کی بالادستی لازم ہے۔ یہ آفاقی تہذیب، کثیر تہذیبی دنیا کے تصور کو قبول نہیں کرتی۔ یہ [آفاقی تہذیب] اپنے وقت کی ان ضروریات کے مطابق نہیں ہے کہ جس میں مغربی ادارے اور مغربی اقوام آفاقی حاکم نہ ہوں۔ اسی طرح یہ دنیا کی بہت ساری تہذیبوں کو یہ اجازت بھی نہیں دیتی کہ وہ اپنی تاریخ، حالات اور مخصوص ضروریات کے مطابق جدیدیت کی منزل حاصل کرسکیں‘‘۔۶؎
عالم گیریت کے حوالے سے یہ بحث ثقافتی اور سیاسی تناظر میں تھی۔ یہ بات بڑی خوش آیند اور اُمید افزا تبدیلی کی نشان دہی کرتی ہے کہ دنیا کے تمام حصوں اور مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے مفکرین میں سے ایک گروہ، اس سارے معاملے کااخلاقی نقطۂ نظر سے جائزہ لے رہا ہے۔ تاہم نظام سرمایہ داری کی جو بھی خوبیاں یا خامیاں ہیں، اگر تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ اس نظام میں تبدیلیاں قبول کرنے اور اندرونی و بیرونی محسوسات کا جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسی صلاحیت کا یہ ثبوت ہے کہ نظام سرمایہ داری نے کئی انداز اور شکلیں اختیار کی ہیں۔ کاروباری سرمایہ داری سے لے کر صنعتی سرمایہ داری ،پھر مالیاتی سرمایہ داری، ریاستی سرمایہ داری، فلاحی سرمایہ داری اور اب عالم گیر سرمایہ داری تک، یہ سب اس نظام میں تبدیلیوں کو قبول کرنے اور نئی صورت گری کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
اشتراکیت، سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ لیکن اشتراکی نظام انسانی ہمدردی کے تمام تر جذبات کے باوجود ایک قابل عمل اور پایدار متبادل ثابت نہ ہوسکا، تاہم اس نے نظام سرمایہ داری میں تبدیلیاں لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ شروع میں اشتراکی چیلنج نے اپنی بنیاد اخلاق اور انسان دوستی کی بنیادوں پر ہی رکھی تھی۔ رابرٹ اوون، سینٹ سائمن اور کئی دوسروں نے سرمایہ دارانہ نظام کو اس کی اخلاقی اور معاشرے میں مساوات پیدا کرنے کی ناکامیوں کی بنیاد پر چیلنج کیا۔ کارل مارکس اور اینجلز نے معاملے کوایک اور رنگ دیا۔ سائنٹفک سوشلزم نے مادی اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر سرمایہ داری کو چیلنج کیا اور سائنس کے نام پر معاشی اور تاریخی جبر کی ایک نئی قسم دریافت کی گئی۔ جرمنی، اٹلی اور سپین میں پروان چڑھنے والا نیشنل سوشلزم ایک اور چیلنج تھا۔ سرمایہ داری نے ان چیلنجوں کا بھی مقابلہ کیا، اور ان کا بھی جو نظام کے اندر سے کاروباری اتار چڑھائو، افراطِ زر، بے روزگاری، جمود اور محروم طبقوں کی بغاوت کی صورت میں سامنے آرہے تھے۔ فلاحی سرمایہ داری اورمخلوط معیشت جیسی تبدیلیاں اصلاحی تحریکوں کانتیجہ ہیں۔ عالم گیر سرمایہ داری کے موجودہ دور کوبھی اسی تناظر میں دیکھا جاناچاہیے۔ بہرحال اخلاقی اور انسانی تناظر میں تنقیدی مباحث کاسلسلہ برابر جاری ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشروں میں لاطینی امریکا میں شروع ہونے والی عیسائی جمہوری تحریک، دنیا کے دوسرے ملکوں میں انسانی اور معاشرتی حوالے سے گرین گروپس (Green Groups) اب عالم گیر حیثیت کے مالک بن چکے ہیں۔ انسانی شرف کے بارے میں احساس اور ظلم سے نفرت کے خلاف یہ جذبات حقیقی ہیں اور ان کے اثرات دُور دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ جبر اور انسانیت کش پالیسیوں کے خلاف شدید ردّعمل کا اظہار کیا جاتا ہے۔ انتہائی بائیں بازو کے لوگ بھی اس جبر کے خلاف ردّ عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف جو اظہار سیٹل واشنگٹن، بڈاپسٹ (ہنگری)، اوٹاوہ (کینیڈا) اور جنیوا (سوئٹزرلینڈ) میں شروع ہوا، اس نے فکری میدان میں عملی سوچ کے لب و لہجے اور انداز کو تبدیل کیا ہے۔
ڈربن (جنوبی افریقہ) میں ۲۰۰۱ء میں منعقدہ اقوام متحدہ کی کانفرنس اور ۲۰۰۲ء میں دوحہ(قطر) میں ہونے والی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی کانفرنس میں نئے انداز میں معاملات پر اتفاق راے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ حقیقت کہ بڑے کاروباری ادارے، یعنی ورلڈ اکنامک فورم نے مشترکہ بنیادوں کی تلاش کے لیے ڈیووس (Devos) سے نیویارک تک اجلاس منعقد کیے۔ جب ’ورلڈ اکنامک فورم‘ (WEF)کا اجلاس نیویارک میں ہو رہا تھا، عین اسی وقت ایک اور پلیٹ فارم، ’ورلڈ سوشل فورم‘(WSF) کا اجلاس دھوم دھام سے ایلے گر (برازیل) میں منعقد ہوا۔ مارچ ۲۰۰۲ء میں ہونے والے مالیاتی اتفاق راے کاانداز، نام نہاد واشنگٹن اتفاق راے سے مختلف تھا۔ یہ تمام نکات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ عالم گیر سرمایہ دارانہ نظام میں اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لچک اور حرکت موجودہے۔
۱- اس کی اپنی اندرونی کمزوریاں، تضادات اور نا انصافیاں
۲- مسلمان اور ترقی پذیر دنیا کے ممالک کا رد عمل، جو دنیا کا ۸۰ فی صد حصہ ہیں اور جن کا ثقافتی، سماجی اور اخلاقی لحاظ سے دنیا کے بارے میں بالکل مختلف نقطۂ نظر ہے اور ان کی ثقافتی اور تہذیبی اقدار مختلف ہیں۔
اب ، جب کہ سرمایہ دارانہ نظام بے خوف و خطر عالم گیریت کی لہروں پر سفر کر رہا ہے، اس کے لیے ’تنوع میں وحدت‘ (unity in diversity) کا راستہ حقیقی راستہ نہیں ہے، بلکہ چیلنج یہ ہے کہ ایک ایسا معاشرہ وجود میں لایا جائے جس میں ایک سے زائد نظاموں کا حقیقی تصور (genuine plurality) موجود ہو۔ ایک ایسا تنوع موجود ہو جس میں باہمی مشترک اقدار اور مشترک مفادات کے تحت باہمی تعاون ہو۔ ایک ماڈل سے بالادستی کا تصور اُبھرتا ہے۔ عالم گیر معاشرے کی ایک مختلف تشکیل وقت کی ضرورت ہے۔
جان رالز نے ۱۹۷۲ء میں اپنی شروع کی تحریروں میں باہمی برابری (reciprocity) کی بنیاد پرانصاف کی فراہمی کا مقدمہ مضبوطی سے پیش کیاتھا، ۷؎ لیکن ۳۰سال بعد اپنی کتاب ’عوام کا قانون‘ میں اپنے نظریے کو ’بے لاگ انصاف‘ کے عنوان سے اس طرح پیش کیا ہے کہ اسے دوسرے لوگوں اور معاشروں تک پھیلایا جانا چاہیے۔۸؎ یہ تصور عام طور پر دیگر مغربی مفکرین کے سیاسی آزادی کے فکری احاطے میں نہیں آتا۔ جان رالز نے تہذیب یافتہ معاشروں کے تنوع کو تسلیم کیا ہے۔ وہ مثالوں کے ذریعے معاشرتی تنظیم کے مختلف طریقوں کی بھی وضاحت کرتا ہے۔ وہ ’مناسب طور پر آزاد رو لوگوں‘ (reasonably liberal people) کے ساتھ ’معقول لوگوں‘ (decent people) کا نظریہ پیش کرتا ہے اور اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کچھ دوسرے معقول لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو میری بیان کی ہوئی ترتیب میں نہ سموئے گئے ہوں، لیکن وہ انسانوں کے معاشرے کے قابل احترام رکن ہوں۔
جان رالز نے اس بات کو بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک عوامی قانون نہیں بلکہ معقول قوانین کا ایک ایسا مجموعہ درکار ہے جو تمام شرائط اور معیارات پر پورا اترے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اس پر بحث کروں گا اور قانون سازی کرنے والے عوامی نمایندوں کو اس بات پر قائل کروں گا۔ آزاد پسندی کے اس پہلو پر رالز کا نقطۂ نظر ایک ایسی دنیا کے تناظر کی طرف اہم قدم ہے، جس میں حقیقی تکثیریت (pluralism) قائم رہ سکتی ہے اور ایک عالم گیر سیاسی، معاشی اور ثقافتی منظر قائم کیا جاسکتا ہے۔ جو انسانیت کو باہم مل جل کر تعاون اور مقابلے کی فضا میں رہنے کے مواقع فراہم کرسکتا ہے۔ مستقبل کی ایک عالم گیر معاشرت کے اس تناظر کاانحصار ایک معقول اور مناسب تکثیریت پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں معقول لوگوں کے درمیان مختلف ثقافتوں اور مذہبی اور غیرمذہبی فکری روایتوں کا تنوع، معقول تکثیریت کے ساتھ ساتھ۔۹؎
اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عالم گیر سرمایہ دارانہ نظام دوسرے نظاموں کے ساتھ بقاے باہمی کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس سے یہ سمجھنا ہرگز ضروری نہیں ہے کہ دوسری معاشرتوں اور ثقافتوں کو نظام سرمایہ داری کی متنوع شکل بننے کی کوشش کرنا چاہیے۔ پھر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ باہم مشترک اقدار، دل چسپیوں ، آرزوئوں کے وسیع میدان میں اور باہمی تعاون ، تعامل اور تقابل کے امکانات نہیں ہیں۔ وسائل کی فراہمی، تخصیص کار (specialization) اور کم و بیش فائدے کے لحاظ سے فرق کی بنا پر معقول حدود کے اندر رہ کر ایک دوسرے کے اوپر انحصار کو بھی ردنہیں کیا جاسکتا۔ جس بات کو رد کیا جا رہا ہے وہ ایک نظام کی بالادستی اور محتاجی کا ایسا تعلق ہے، جو سیاسی آزادی، ثقافتی انفرادیت، معاشی خود انحصاری اور اخلاقی و روحانی تشخص سے متصادم ہو۔
۱- دیکھیے: جے ایم کینز، The End of Laissez Faire ،ہوگرتھ پریس، ۱۹۲۶ئ، ص ۱۳، ۱۴۔
۲- برانسامیلانووچ، The World Income Distribution، مشمولہ The Economic Journal، شمارہ ۱۱۲، ص ۵۱-۹۲۔
۳- لیسٹرتھرو، The Future of Capitalism، ناشر نکولس برکلے، لندن ۱۹۹۶ء ، ص ۳۲۵، ۳۲۶۔
۴- رابرٹ فوگل، حوالۂ مذکور، مطبع شکاگو یونی ورسٹی ، شکاگو، ۲۰۰۰ئ، ص ۱۔
۵- ایضاً، ص ۲۴۲۔
۶- جان گرے، False Down: The Delusions of Global Capitalism،لندن، ۱۹۹۸ئ، ص ۲۰۔
۷- جان رالز، A Theory of Justice، اوکسفرڈ کلارنڈن پریس، ۱۹۷۲ئ۔
۸- جان رالز، The Law of Peoples، ہارورڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۹ئ، ص ۴۔
۹- جان رالز، ایضاً، ص ۱۱۔