۱۹۸۴ء میں جناب الیف الدین ترابی سے پہلی ملاقات منصورہ، لاہور میںہوئی تھی، جب میں ادارہ معارف اسلامی سے وابستہ تھا۔ پروفیسر ترابی ان دنوں سعودی عرب سے آئے تھے۔ ان کے علم و فضل اور ان کے مزاج کے عجزو انکسار نے متاثر کیا تھا۔ منصورہ میںخاصے عرصے تک ہم دونوں اپنے گھرانوں کے ساتھ بطور ہمسایے مقیم رہے۔ ان دنوں کی یادیں آج بھی میرے حافظے میں ان کے حسن ِخلق کے پھول بن کر مہکتی ہیں۔
۸۵- ۱۹۸۴ء میں افغان جہاد کامیابی کی طرف گامزن تھا، اور میںافغان جہاد کے ابلاغی محاذ سے منسلک تھا۔ ادھر فکری سطح پر ترابی صاحب کشمیر کی آزادی کی جد و جہد سے وابستہ تھے۔ ہماری گفتگو کا موضوع اکثر کشمیر رہتا تھا۔ انھی دنوںایک دن ترابی صاحب کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے ایک وجیہ نوجوان ادارئہ معارف اسلامی میں تشریف لائے۔ ترابی صاحب نے انھیں ادارے کے سارے کارکنوں سے ملایا۔ ہم نے ان سے مقبوضہ کشمیر کے حالات پوچھے اورمیں نے کچھ نوٹس بھی لیے ۔ ترابی صاحب نے اصرار کرکے مجھ سے ’’مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے‘‘کے عنوان سے مضمون لکھوا کر چھوڑا۔
ترابی صاحب کے ذہن میں کوئی منصوبہ آتا تو مجھے مشاورت میں شریک کرلیتے۔ایک روز ہم نے طے کیا کہ عربی، اُردو اور انگریزی میں ایک ایسا اخبار شائع کیا جائے جو بین الاقوامی ہو اور اس کے لیے ــــ’اُمت‘نام بھی پسند کر لیا تھا۔ وسائل کی عدم موجودگی کے سبب یہ شائع نہ ہوسکا۔ تاہم ۱۹۹۰ء میں ۱۵روزہ جہاد کشمیر جاری کیا اور چند برسوں کے اندر اندر اس کی اشاعت ۳۰ہزار تک پہنچ گئی۔ مرحوم ترابی صاحب کا تعاون شروع ہی سے اس جریدے کو حاصل رہا ۔ اس کے چندسال بعد انھوں نے بھی کشمیر کی تحریک کو عالمِ عرب میں متعارف کرنے کے لیے عربی زبان میں کشمیر المسلمہ جاری کیا۔
الیف الدین ترابیؒ ۱۹۴۱ء میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع پونچھ کی ایک بستی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میںکشمیر یونی ورسٹی سے بی اے کیا۔ وہ ضلع بھر میں چوتھے مسلم گریجویٹ تھے۔۱۹۶۵ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ پنجاب یونی ورسٹی سے اسلامیات اور پھر عربی میں ایم اے کیا۔ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۷ء تک کالج کے استاد کے طور پر تعلیمی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۷۷ء میں اُم القریٰ یونی ورسٹی مکہ مکرمہ سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔ قیام مکہ کے عرصے میں ترابی صاحب نے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت سے رابطے استوار کیے۔ ۸۰ کے عشرے کے آخیر میں تحریک آزادی کو جو نئی اٹھان ملی، اس میںجناب الیف الدین ترابی کا اہم کردار تھا۔ سعودی عرب سے پاکستان واپس پہنچ کر اپنے آپ کو مکمل طور پر تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا۔
۱۹۸۶ ء میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے نائب امیر بنا ئے گئے۔ وہ آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیر سے آنے والے مہمانوں،مہاجرین اور مجاہدین کو تحریک آزادی کی ناقابل تسخیر قوت میں ڈھالنے والی ٹیم کے ایک اہم رکن تھے۔ مقبوضہ کشمیر سے آزاد خطے میں آنے والے بے سروسامان سرفروشانِ آزادی کو محبت سے گلے لگانے اوران کے لیے روحانی و جسمانی تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام کرنے اور ان کو تحریکِ آزادی کا ہر اول دستہ بنانے میں جنھوں نے مرکزی کردار ادا کیا، ان میں مولانا عبدالباری مرحوم ،رشید عبا سی مرحوم، جناب عبدالرشید ترابی اورالیف الدین ترابی مرحوم شامل تھے۔
وہ اول و آخر اسلامی تحریک کے ایک منفرد کارکن تھے۔ گوناں گوں بیماریوں میں مبتلاہونے کے باوجود ان کے بدن میں روح بہت صحت مند اور اُجلی تھی۔ وہ اتنے عوارض کے ساتھ بھی حلیم الطبع، متواضع مزاج، شگفتہ رو اور کشادہ فطرت تھے۔ زندگی کے آخری بیس پچیس سال انھوں نے مختلف بیماریوں کے نرغے میںگزارے، مگر وہ اپنے کام کے راستے میں کسی رکاوٹ کو حائل کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ دل مضطرب اور جانِ پر سوز کو کسی دم قرار نہ تھا۔ جوانی کے زمانے میں وہ جس تحریک کا پرچم لے کر اٹھے تھے، ان کابڑھاپا بھی اسی کے لیے وقف رہا۔ ان کے سراپے کو تصور میں لائیں تو ان کی مجموعی شخصیت طبعی شرافت، حسن خلق اور علم وعمل کا مجموعہ نظرآتی ہے۔
وہ نہ صرف تحریک آزادیِ کشمیر کے پاکستان، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں بہت بڑے مددگار تھے، بلکہ نظریۂ پاکستان کے سچے مبلغ اور جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے عظیم داعی بھی تھے۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے موقف پروہ زندگی کے آخری سانس تک قائم رہے۔ الیف الدین ترابی صاحب نے تحریک آزادیِ کشمیر کے لیے کسی صلے اور ستایش کی خواہش کے بغیرعظیم خدمات سرانجام دیں۔ ہمیں یہ حقیقت یقیناًغم زدہ کر دیتی ہے کہ تحریک آزادیِ کشمیر اور مہاجرین و مجاہدین ِکشمیرکے حق میں بلند ہونے والی وہ مؤثر آواز اب خاموش ہو گئی ہے۔۔۔آئیے ہم سب دست دعا اٹھائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس نقصان کی تلافی فرمادے۔
ان کے جذب وسوز، اخلاص وایقان اور تعلق باللہ کی کیفیات کا بھی قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو دوسروں کی غلطیوں سے صرفِ نظر کرتے، لیکن اپنی چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر بھی اپنی باز پرس کرتے ہیں۔ ایک سفر میں ان کے ساتھ گاڑی میں راولپنڈی سے مظفر آباد جانا ہوا۔ سارے راستے میں کشمیر کی جہادی سرگرمیاں زیر بحث موضوع رہیں۔ میں نے ایک موقعے پر جیسے ہی یہ کہا: ’’ترابی صاحب یہ بہت بڑاا کام ہم جیسے کم صلاحیت لوگوں پر آن پڑا ہے، میں ڈرتا ہوں،خدا نخواستہ ہماری بے تدبیری اور بصیرت کی کمی سے اگر یہ تحریک ناکام ہو گئی تو ہمارا انجام کیا ہو گا۔۔۔!!‘‘ یہ بات سنتے ہی ان کی آواز گلوگیر ہوگئی اور پھر وہ ایسے روے کہ مجھے اس بات پر ندامت ہونے لگی کہ یہ تذکرہ کیوں چھیڑا، اور پھر اگلے کم و بیش ۲۵کلومیٹر کے سفر کے دوران ان پر رقت طاری رہی اور ان کے آنسو نہیں تھمے۔
تحریک آزادیِ کشمیر کے رہنما جناب الیف الدین ترابی کی وفات سے کشمیر کی تحریک آزادی ایک ان تھک مجاہد اورمخلص ترین انسان سے محروم ہوگئی۔ ان کی پوری زندگی وطن عزیز کشمیر کی آزادی کی جد وجہد میں گزری ہے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک باوفا شخص تھے۔۔۔ نوجوان تھے تواپنے کاز سے وفا نبھاتے ہوئے گھر بار، مال و منال اوروطن عزیز کو قربان کر دیا۔ بڑھاپا آیا تو ان کی بہت پاکیزہ صفت بیٹی عذرا اورعزیز ترین داماد احسن عزیز شہید ہوگئے۔
کشمیر کی تحریک کو فروغ دینے کے لیے انھوں نے کئی ادارے بھی قائم کیے۔ ترابی صاحب کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ۲۲ ہے، جن میں تحریک آزادیِ کشمیر منزل بہ منزل اور مسئلۂ کشمیر:نظریاتی و آئینی بنیادیں اور بھارتی دعویٰ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔بلاشبہہ وہ عرب دنیا میں کشمیر اور پاکستان کی پہچان بن گئے تھے۔ میں۲۰۱۲ء میں حج کے لیے گیا، تومنیٰ میں الشیخ یوسف قرضاوی سے ملاقات اور علیک سلیک ہوئی۔ جب انھیں جہادِکشمیر سے میری نسبت معلوم ہوئی تو پہلا سوال یہ کیا: کیف اخینا السیدالیف الدین الترابی؟ رابطہ عالم اسلامی کے سربراہ شیخ محسن ترکی نے بھی کشمیر کے حالات پر گفتگو سے پہلے ترابی صاحب کی خیریت معلوم کی اور عربوں کے مخصوص انداز میں ان کے حق میں دعائیں کیں۔
تحریک آزادیِ کشمیر کے ساتھ اْن کی غیرمتزلزل وابستگی مرتے دم تک کم نہیں ہوئی اور اسلامی ممالک میں ان کی اس مقبولیت کا رازبھی یہی تھا کہ اپنے آپ کوہمہ تن اور ہمہ وقت اپنے کازکے لیے وقف کیے رہے۔ چند ایک بشری کمزوریوں کے سوا وہ نجابت اور استقامت کے کوہِ گراں تھے۔ عمر ِ مستعار کے تقریباً۳۰ برس تک وہ جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے نائب امیر رہے۔ علامہ محمد اقبال نے جن تین اوصاف ’نگاہ بلند، سخن دل نواز اور جانِ پُرسوز‘ کو میرکارواں کے لیے رخت ِسفر کہا ہے، ترابی صاحب ان تینوں اوصاف سے متصف تھے۔ خصوصاً اپنے کاز پر اپنے آرام اور عیش و مسرت کو قربان کرنا ان کی شخصیت کا مابہ الامتیاز وصف تھا، مگر انھوں نے کبھی میر کاررواں ہونے کا دعویٰ نہ کیا۔