یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقعے پرقائد اعظم ؒنے اپنی زندگی کی آخری تقریرفرمائی تھی،جس میںانھوں نے ملک میںمغرب کے ُسودی نظام کی جگہ اسلامی معاشی نظام کونا فذکرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:
I shall watch with keenness the work of your Research Organisation in evolving banking practices compatible with Islamic Ideals of social and economic life. The economic system of the West has created almost insoluble problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world.
میں انتہائی توجہ سے آپ کے تحقیقی ادارے کے کام کا جائزہ لیتا رہوں گا ،جو وہ بنکاری نظام کو اسلام کے معاشرتی اورمعاشی اصولوں پرترتیب دینے میں سرانجام دے گا۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ایسے لاینحل مسائل پیدا کردیے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو نظر آتاہے کہ آج کی دنیا کو جس تباہی کا سامنا ہے، کوئی کرشمہ ہی اس سے بچا سکتا ہے ۔
اسی خطاب میںقائد محترم نے اہل پاکستان کو دنیا کی رہنمائی کرنے کی طرف بھی ان الفاظ میں متوجہ کیا تھا: ’’مغرب کے اقتصادی نظام کے نظری اور عملی طریق کارکو اختیار کرنا ہمارے لیے بے سود ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک نئی راہ ِ عمل اختیار کریں اوردنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کریں، جو انسانی اخوت اور سماجی انصاف کے صحیح اسلامی نظریات پرمبنی ہو‘‘۔
۱۲مارچ ۱۹۴۹ءکوجب قرارداد مقاصد کی منظوری دی گئی،تو دراصل یہ پاکستان سے سُود سمیت مغرب کے تمام اسلام دشمن نشانات کو ختم کرنے کا آغاز تھا۔۲مارچ۱۹۸۵ ء کے بعد تو یہ قرارداد دستور کا رُوبہ عمل جزو بنا دی گئی ہے۔بدقسمتی سے قائد اعظم ؒ قیام پاکستان کے بعدصرف تیرہ ماہ زندہ رہے۔بانیٔ پاکستان کی وفات سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ ان کے مقتدر رفقا نے بعض صورتوں میں گومگو کی کیفیت میں، بعض حوالوں سے دانستہ طور پر ملک کو ان کے نظریات سے کاٹ دیا۔
گذشتہ پون صدی سے سود کے خلاف یہ جنگ مسلسل جاری ہے،مگر ہماری بے بسی اور کج فہمی دیکھیں ،پھر بھی اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’پاکستانی عوام تباہ حال کیوں ہیں؟ پاکستان کے معاشی،سماجی اور سیاسی حالات اتنے ابتر کیوں ہیں؟‘‘ ہم اس کا یہ جواب کیوں نہیں جانتے کہ اللہ اور رسولؐ سے جنگ کوئی نہیں جیت سکتا۔
وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ سے دو مرتبہ یہ فیصلہ صادر ہو چکا ہے کہ سُود، اللہ کے واضح احکام کے خلاف ہے،یہ اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ ہے۔پاکستان کی سب سے بڑی عدالت حکم دے چکی ہے کہ ’’سُود سے پاکستان کے قومی مالیاتی نظام کو پاک کر دیا جائے۔یہ آئینِ پاکستان کی رُو سے بھی ناجائز اور ممنوع ہے‘‘۔ عدالت عظمیٰ نے حکومت پاکستان کو متعین مدت کے اندر اندر تمام مالیاتی اداروں اور بنکوں میں سُودی معیشت کو ختم کرنے اور اسلامی مالیاتی نظام کو رائج کرنے کا حکم دیاتھا۔ تاہم، تمام حکومتوں نے اللہ اور رسولؐ کے احکام سے علانیہ بغاوت کی اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کو غتربود کرنے کے لیے کئی بار ناپاک سازشیں رچاکرسُود جیسی ناپاک معیشت کو جاری و ساری رکھا۔
پاکستان قائم ہوا توہندستان نے شروع ہی سے اسے شدید مادی اور عسکری نقصانات سے دوچاررکھا۔اثاثوں کی تقسیم میں بھارتی لیڈر شپ نے ڈنڈی ماری، فوجی سازوسامان کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ہندستان کے مرکزی بنک میں موجود چار ارب روپوں میں سے پاکستان کا حصہ ایک ارب روپیہ غتر بود کیا گیا۔ لیاقت علی خان نے مشترکہ ہندستان کا آخری وفاقی بجٹ پیش کیا تھا۔ پاکستان کے پہلے مالی سال۴۹-۱۹۴۸ء کا ۸۹ کروڑ ۵۷ لاکھ روپے حجم کا ،۱۱؍ کروڑ روپے خسارے کا بجٹ تھا ۔ ہندستان کی طرف سے مالی خیانت کے باوجود مالی سال کے خاتمے تک پاکستان مالیاتی بحران سے نکل آیا تھا۔ تاہم، پاکستان کے مالیاتی نظام اور معیشت میں سود کو شامل رکھا گیا۔ مالی سال۵۰-۱۹۴۹ء کا دوسرا قوی بجٹ ایک ارب ۱۱ کروڑ کا بغیر خسارے کا بجٹ تھا۔ اس کے بعد ۱۹۶۹ء تک تمام قومی بجٹ خسارے سے پاک تھے۔یہاں تک کہ سقوط ِ ڈھاکہ کے ایک برس بعد ۷۳-۱۹۷۲ء کاپہلا قومی بجٹ بھی خسارے سے پاک اور بچت کا بجٹ تھا، اگرچہ اس بجٹ میں سعودی عرب اور لیبیا کی بھاری مالی امداد شامل تھی۔ بہرحال اس میں ۱۸کروڑ کی بچت دکھائی گئی تھی ۔لیکن سودی معیشت ہمارے نظام حکومت میں اوپر سے نیچے تک موجود رہی۔
۱۹۴۷ء میںپاکستان کے قیام سے لے کرآج تک ملک کو سود سے نجات دلانے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ اگرچہ یکے بعد دیگرے تشکیل دیے گئے تینوں دساتیر میں سُود کو جلدازجلدختم کرنے کے عزائم ظاہر کیے گئے۔۱۹۶۲ء کے آئین کے آرٹیکل۲۰۴ کے تحت ’اسلامی مشاورتی کونسل‘ قائم کی گئی،جس کا نام۱۹۷۳ء کے آئین میں بدل کر ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کر دیا گیا۔ ۷۳ء کے آئین کی شق نمبر ۲۲۷ کے مطابق: ’’پاکستان میں قرآن وسنت سے متصادم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جائے گا‘‘۔ پھر اسلامی نظریاتی کونسل کے فرائض میں ایسی سفارشات پیش کرنا شامل ہے کہ جن سے مسلمانان پاکستان کو ایسی رہنمائی مل سکے کہ ’’وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں اسلام کے سنہری اصولوں کے تحت بسر کر سکیں‘‘۔پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی ذمے داری ہے کہ وہ کونسل کی سفارشات کو قانونی شکل دیں۔ اب تک کونسل کے ۲۱۱ اجلاس ہوچکے ہیں۔ کونسل نے قانونی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظاموں کا جائزہ لے کر ساڑھے ۶ہزار سفارشات مرتب کی ہیں۔تاہم، صرف ۹۰ سفارشات پر عمل ہوسکا ہے۔
سُود کو ختم کرنے کے بارے میں اسلامی مشاورتی کونسل نے پہلی سفارشات۱۹۶۹ء میں پیش کی تھیں،لیکن ان پرکبھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس رپورٹ کے آٹھ سال بعد ستمبر۱۹۷۷ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ سے رجوع کیا ۔انھوں نے کونسل کو سود کے خاتمے کی سفارشات پیش کرنے اورایسے متبادل طریقے تجویز کرنے کے لیے کہا،جن پر عمل کرکے سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جاسکے۔بظاہر ایسا لگتا تھا کہ جنرل ضیاء الحق سود کے خاتمے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں، مگر جلد ہی یہ تاثر زائل ہو گیا۔سُود کے خاتمے کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل نے علما، بنک ماہرین اور اقتصادی ماہرین سے طویل مباحث اور عالمی سطح پر اس مسئلے کی پیچیدگیوں کے گہرے مطالعے کے بعد اپنی دوسری رپورٹ کو حتمی شکل دی اور ۲۵جون ۱۹۸۰ءکو یہ رپورٹ جنرل ضیاء کوپیش کردی گئی۔ رپورٹ کے ساتھ سودی نظام کا متبادل اورقابلِ عمل مالیاتی نظام کاخاکہ بھی پیش کیا گیا،جس پر عمل درآمد سے دوسال کے اندر اندر ہدف حاصل ہوسکتا تھا۔
۱۹۸۰ء کے اواخر میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے تمام تجارتی بنکوں کو یہ حکم جاری کیا کہ’’۱۹۸۱ء سے وہ اپنے تمام معاملات غیر سودی بنیادوں پر قائم کرنے کے پابند ہوں گے‘‘۔ اسٹیٹ بنک کے اس حکم نامے کے پیش نظر حکومتی تحویل میں موجود تجارتی بنکوں نے نفع و نقصان پر مبنی پی ایل ایس اکائونٹ کے نام سے غیر سودی کھاتے کھولنے کی اسکیم شروع کی اوراس بات کا عندیہ دیا کہ: ’’رفتہ رفتہ پورے بنکاری نظام کو غیر سودی نظام میں تبدیل کردیا جائے گا‘‘۔تاہم، وقت گزرتا رہا،مگر کوئی ٹھوس تبدیلی سامنے نہ آئی۔۱۹۸۳ء میںاسلامی نظریاتی کونسل نے جسٹس تنزیل الرحمٰن کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں حکومت کو یاد دلایا کہ ’’۱۹۷۹ء میںسودی معیشت کے خاتمے کے لیے تین سال کی مقرر کی گئی مدت دسمبر۱۹۸۱ءمیں ختم ہوگئی ہے، لیکن سودی نظام نہ صرف ختم نہیں ہوا بلکہ حکومتی اقدامات سودی نظام کے استحکام کا سبب بن رہے ہیں‘‘۔
پاکستان میں غیرملکی منحوس سُودی قرضوں کی شروعات۱۹۵۲ء میں ہی ہو گئی تھی،لیکن یہ چندلاکھ سے زیادہ نہ تھے۔سودی معیشت کی نحوست بھی پاکستان کے مالیاتی نظام میں شروع ہی سے موجود تھی۔یہی وجہ تھی کہ۱۹۵۶ء میں پاکستان کا پہلا دستور منظور ہوا،تو اس کی دفعہ ۲۸- الف میں کہا گیا تھا کہ ’’ریاست سُود اور سُودی معیشت کو بہ عجلت ختم کرنے کی کوشش کرے گی‘‘۔جنرل محمدایوب خان ۱۹۵۶ء کے آئین کو توڑ کر ملک پر قابض ہوئے اور ۱۹۶۲ء میں اپنا دستور نافذ کیا۔ اس آئین کے پالیسی اصولوں میں اصول نمبر ۱۸ میں سُود کو فی الفور ختم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ایوب خان کا دستورکم وبیش دس برس نافذ رہا،مگر نہ تو ایوب خان، نہ ان کے جانشین یحییٰ خان نے سُود ختم کرنے میں کوئی دل چسپی دکھائی۔ ان کے بعدذوالفقار علی بھٹو آئے، جن کے دور میں ۱۹۷۳ء کا آئین بنا اور نافذہوا۔ ۱۹۷۳ءکے آئین کی دفعہ ۳۸- الف میں بھی سُود کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا،مگر نہ تو بھٹو اور ضیاء الحق نے دستور کایہ تقاضا پورا کیا،نہ ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے ملک کو سُود کی نحوست سے نکالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی۔ بلکہ پے درپے ایسے اقدامات کیے گئے، جن سے معیشت پرسُودی نظام کی گرفت مستحکم ہوئی اور ملک اقتصادی طور پر تباہی سے دوچار ہوا۔
افغان جہاد کے دوران پاکستان کو اربوںڈالر کی امداد اور آسان شرائط پر سُودی قرضے ملتے رہے، ضیاء دور میں پاکستان کو ریکارڈ غیرملکی مالی امداداورآسان شرائط پر قرضے ملے،مگر ملکی معیشت ڈوبتی رہی، اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۰ۭ (البقرہ ۲:۲۷۶) ’’اللہ سُود کو مٹاتا اورصدقات میں اضافہ فرماتا ہے‘‘۔ اگر جنرل ضیاء چاہتے کہ سُود ختم ہو،تو انھیں سُود کی لعنت سے ملک کو نجات دلانے کا بہترین موقع ملاتھا، مگر انھوں نے یہ موقع گنوا دیا۔ انھوں نے باربار اسلامی نظام کے نفاذ کا عندیہ دیا،مگرسُودکے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوشش نہ کی۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے صدر جنرل ضیاء کو آئین میں ترمیم کا اختیار دے دیا۔ انھوں نے اس اختیار سے کام لیتے ہوئے اپنے مارشل لا کے دوران قانون سازی کو تحفظ دینے کے لیے آئین میں آٹھویں ترمیم کی۔ جس کی رُو سے صدر پاکستان کو اضافی آئینی طاقت میسر آ گئی۔ ’وفاقی شرعی عدالت‘ قائم کی گئی اور سپریم کورٹ میں ’شریعت اپیلٹ بنچ‘ بھی بنایاگیا، لیکن انھوں نے وفاقی شرعی عدالت پر یہ پابندی لگادی کہ ’’دس سال تک مالی معاملات میں شریعت کے حوالے سے یہ کوئی مقدمہ نہیں سنے گی‘‘۔ یاد رہے شریعت کورٹ ۱۹۸۰ء میں قائم ہوئی تھی۔ ۱۹۹۰ء میں عدالت پر سے سود کے خلاف مقدمات سننے کی پابندی ختم ہوئی۔
۲۶ جون ۱۹۹۰ء کو شرعی عدالت کا مالیاتی قوانین کی سماعت کرنے کا اختیار بحال ہو گیا۔پابندی اُٹھتے ہی ایک شہری محمو د الرحمٰن فیصل نے وفاقی شرعی عدالت میں پٹیشن نمبر۳۰؍آئی داخل کی اور استدعا کی کہ ’’عدالت رائج الوقت سودی نظامِ معیشت کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردے اور حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ پاکستان کے معاشی نظام سے ُسود کا چلن ختم کردے‘‘۔۱۱دسمبر ۱۹۹۰ء کو شریعت کورٹ نے پٹیشن باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کی۔عدالت نے سود کے مقدمے کی سماعت شروع کی ،تو بہت سے دوسرے ادارے، اشخاص، قانون دان اور خود حکومت اس طرف متوجہ ہوئی اور عدالت کے پاس ۲۰ سُودی قوانین کے خلاف ۱۱۵مقدمات جمع ہوگئے۔ چنانچہ وفاقی شرعی عدالت نے ان سب مقدمات کی مشترکہ سماعت شروع کی۔
وفاقی شرعی عدالت میںچالیس سے زیادہ وکلا نے سُود کے خلاف دلائل دیے۔ سُودی معیشت کو زندہ رکھنے کے حامی وکلا بھی بڑی تعداد میں آئے۔ان میں وفاق اور صوبوں کے علاوہ مختلف مالیاتی اداروں اور بنکوں کے وکیل بھی شامل تھے ،جنھوں نے بھاری فیسیں لے کر قرآن و سنت کے واضح احکام کے خلاف مو شگافیاں پیش کیں۔۶۰ کے قریب افراد سُود کے خلاف اپنی درخواستوں کے ساتھ اصالتاً پیش ہوئے۔ان سب کا اس پر اتفاق تھاکہ ’’جب تک سُودی معیشت سے آ ٓزادی نہیںملے گی،ملک پر معاشی تباہی کے سائے منڈلاتے رہیں گے‘‘۔
پا کستان کے مختلف افراد، جماعتوں اور اداروںنے سُود کے۲۰ قوانین کے خلاف درخواستیں پیش کیں۔ ان میں سے آٹھ قوانین انگریزی دور کے اور بارہ قیام پاکستان کے بعد کے تھے، جب کہ سُود کے تین قوانین کے خلاف عدالت نے خود نوٹس لیا۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت کے آغاز میں ہی تیرہ نکاتی سوال نامہ مرتب کر کے علما، سکالرز،دانش وروں، ماہرین اقتصادیات اور مالیاتی اداروں کو بھیج دیاتھا۔ ان حضرات نے تحریری جوابات بھی دیے اور بعض نے عدالت میں پیش ہو کر اپنے دلائل بھی پیش کیے۔سٹیٹ بنک کے حسن الزمان، الائیڈبنک کے سابق صدر خاد م حسین صدیقی اور ڈاکٹر محمدغدیر نے سُودکی تمام شکلوں کو حرام کہا ۔ انھوں نے کہا:’’مغربی ماہرین معاشیات کے زیر اثر’سُود‘ اور ’ربا‘ کوالگ کیا جارہاہے،ورنہ یہ دونوں ہی یکساںہیں اور اسلام کی رُو سے دونوں حرام ہیں‘‘۔انھوں نے کہا: ’’مشارکہ اور مضاربہ کے طریقوںسے مالیاتی اداروں اور بنکوں کا کاروبار بھی چلایا جا سکتا ہے اور ملک سُودکی لعنت سے بھی نجات پا سکتا ہے‘‘۔
معروف قانون دان خالد ایم اسحاق، نیشنل بنک آف پاکستان اور اسٹیٹ لائف انشورنس کی طرف سے پیش ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کے بنک، سٹیٹ بنک کے تیار کردہ فریم ورک کے ماتحت کام کرتے ہیں، جسے اسلامی نظریاتی کونسل کی تائید و توثیق حاصل ہے‘‘۔ حالانکہ انھوں نے جس رپورٹ کو حوالے کے طور پر پیش کیا،وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے بجائے وزارت خزانہ کا پیش کردہ حکومتی نقطۂ نظر تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کبھی اس کی توثیق و تصدیق نہیں کی۔ خالداسحاق کو جب اس جانب توجہ دلائی گئی،تو انھوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ’’میرے پاس مکمل رپورٹ نہیں تھی، اس لیے غلطی ہو گئی‘‘۔
جناب خالد اسحاق نے یہ نکتہ بھی اُٹھا یا کہ ’’افراط زر سے مال میں جو کمی واقع ہوجاتی ہے، اس کی تلافی کے لیے جو رقم بڑھائی جاتی ہے، اسے ربا میں شامل نہیں کیا جاسکتا‘‘۔پھر ’’بنک جو منافع حاصل کرتے ہیں،اس منافع کوربا اور سُود نہ کہا جائے کہ بنک تو قوم کے پیداواری عمل میں حصہ لیتے ہیں‘‘۔خالد اسحاق نے سُود کو جائز ثابت کرنے کے دلائل پیش کیے،لیکن وہ اپنے حق میں کسی ایک آیت یا حدیث کاحوالہ پیش نہ کر سکے۔وفاق پاکستان اور بنکنگ کونسل کے وکیل نے بھی بنکوں کے سُود کو درست ثابت کرنے کے لیے پورا زور لگایا۔
ڈاکٹر سید اسعد گیلانی نے اپنے تحریری دلائل میں بتایا کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات میں بار بار سود کی ہر شکل کو حرام قرار دے کر فی الفور ختم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ کونسل نے جنرل ضیا ء الحق کو سُود کی مکمل ممانعت کے آرڈی ننس کا مسودہ تک بھیج دیااور تجویز کیا تھاکہ۳۰ جون ۱۹۸۴ء تک سُود پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے‘‘۔ ڈاکٹر اسعد گیلانی نے صدرمملکت کو کونسل کی طرف سے پیش کردہ اس سفارش کا حوالہ بھی دیا جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ ’’چونکہ ربا کی ہر شکل اسلام میں حرام ہے ،اس لیے وہ غیر ملکی بنکوں اور مالیاتی اداروں کو بات چیت کے ذریعے غیر سودی لین دین پرقائل کریں۔ خدا نخواستہ ایسا ممکن نہ ہو تو ایسا لین دین ختم کر دیا جائے اور کسی قسم کے خسارے کو خاطر میں نہ لایا جائے‘‘۔مولانا گوہر رحمان نے سود کے خلاف اپنے دلائل میں قرآن مجید، حدیث اور اسلامی تاریخ سے ٹھوس حوالے پیش کیے۔عدالت نے ان درخواست گزاروں کو بھی سنا، جن کی طرف سے وکیل پیش نہیں ہوئے۔ان کی اکثریت نے سورئہ بقرہ کی آیات ۲۷۸ اور۲۷۹ کا حوالہ دیا اور کہا:’’ہم نے سود او سُودی معیشت کوجاری رکھ کر دراصل اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے جنگ چھیڑرکھی ہے،اسے فی الفور ختم کیا جائے‘‘۔
تقریباً ایک برس پر پھیلی طویل سماعتوںکے بعد وفاقی شرعی عدالت نے۱۴نومبر ۱۹۹۱ء کو سود کے خاتمے کا تاریخی فیصلہ دیا۔ شرعی عدالت کے چیف جسٹس تنزیل الرحمان نے فیصلہ سناتے ہوئے سود اور سودی نظام کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا اور سُود پر مبنی ۲۳ قوانین قرآن و سنت کے منافی ٹھیراتے ہوئے کالعدم قرار دیے ۔شرعی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ ’’بنکوں کے منافع سمیت سُود ہر شکل میں حرام ہے ،خواہ اسے منافع کہا جائے یا ’مارک اَپ‘ کا خوب صورت نام دیا جائے‘‘۔ عدالت نے حکومت کو سُود ی قوانین کی متبادل قانون سازی کے لیے چھے ماہ کی مہلت دی اور فیصلے میں واضح کردیا کہ ’’یکم جولائی۱۹۹۲ء سے متذکرہ قوانین خود بخود کالعدم ہو جائیں گے‘‘۔
حکومت اور اس کے معاون مالیاتی اداروںنے پہلے تو خاموشی اختیار کیے رکھی ،مگر جب چھے ماہ کی حتمی مدت ختم ہونے کا وقت آگیا،تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں پے درپے اپیلیں دائر کردی گئیں۔ نواز شریف کی وفاقی حکومت خود بھی سود خواروں کی تائید میں اپیل لے کرسپریم کورٹ پہنچ گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۴ء میں ایک صدارتی حکم کے ذریعے شریعت کورٹ کے فیصلوں کی جو قدر وقیمت گھٹائی تھی، اس کے خراب نتائج اب برآمد ہوئے۔ سپریم کورٹ میں اپیل داخل ہوتے ہی درخواست گزاروں کو’حکمِ امتناعی‘(Stay Order )مل گیا۔ اب یہ حکمِ امتناعی اس وقت تک مؤثر تھا، جب تک و فاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل نمٹا نہ دی جاتی۔
شریعت کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعدانصاف پسندی اورآئین کی پابندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت اپنی استدعا پر حاصل ہونے والی مہلت کافائدہ اٹھاتی، خلوصِ نیت سے کام لیتی اور سُودی قوانین کی تبدیلی کا کام مکمل کرتی، لیکن اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی گئی،بلکہ حسب ِمعمول سُود کی بنیاد پر نئی اسکیمیں بنتی رہیں ،پرانی سودی اسکیموں کو جاری رکھا گیااورملک اور بیرونِ ملک سے سُود پر نئے قرضے حاصل کیے جاتے رہے ۔
حکومت پاکستان نے شریعت اپیلٹ بنچ میں دعویٰ پیش کیا کہ ’’وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میںبہت سے قانونی نقائص رہ گئے ہیں، اس لیے اس پر نظرثانی کی جائے‘‘۔ تاہم، عدالت عظمیٰ نے جیسے ہی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمدروکا، تو فیصلے کے خلاف اپیل کرنے والے خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔اگلے سات آٹھ برس کے دوران تین حکومتیں آئیں اور گئیں،مگر کسی نے نظرثانی کے مقدمے کو ’چھیڑنے‘ یعنی سماعت شروع کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔جماعت اسلامی اور دیگر مدعی اداروں نے آواز اُٹھائی ،جو صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ۔حکومتی ایما پر یہ باب بند رکھا گیا۔
درحقیقت نواز شریف کی حکومت، شرعی کورٹ کے فیصلے کے نفاذ کو روکناچاہتی تھی۔جب یہ مقصد حاصل ہو گیا،تو اب ان کی خواہش کے عین مطابق نظر ثانی کا معاملہ عدالتی فائلوں میں دبا رہا۔ نظر ثانی کے مقدمے کی سماعت ساڑھے سات برس (مارچ ۱۹۹۹ء) تک ملتوی ر ہی۔ مارچ ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع کی۔سماعت شروع کرنے کی وجہ حکومت کے مُوڈ کی تبدیلی نہ تھی،بلکہ سپریم کورٹ کے جس اپیلٹ بینچ کی تشکیل ہوئی ، اس کے جج اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے خوف سے آزاد نہ تھے۔
اس اپیلٹ بنچ نے اپنے فرض منصبی کاتقاضا سمجھ کرشرعی عدالت کے فیصلے پر غور وفکر کرنے کافیصلہ کیا۔پہلے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی سب اپیلوں کو یک جا کیا گیا، پھر ان کے اُٹھائے ہوئے سوالات پرتفصیلی بحث کی گئی۔ ماضی کی عدالتی کارروائی فاضل ججوںکے سامنے تھی۔وہ سب یہ بھی جانتے تھے کہ سود کے مسئلے کو قرآن و سنت کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے کے لیے انھوں نے سُود کے بارے میں دنیا بھر کے جید علما اور ماہرین معاشیات کا نقطۂ نظر جاننا ضروری سمجھا۔ علما اور اقتصادی ماہرین کو عدالت کی رہنمائی کرنے کی دعوت دی گئی، جنھوں نے اپنے زبانی اور تحریری دلائل کے ذریعے عدالت کی بھرپورمدد کی۔کئی ایک نے عدالت میں سود کی حرمت کے حق میںاور دوسروںنے اس کے خلاف مقالات اور تقاریر کے ذریعے دلائل پیش کیے۔ اتنے بڑے پیمانے پر یہ کام اس سے پہلے تاریخ انسانی میں کبھی نہ ہوا تھا ۔ اس طرح فیصلہ دینے سے پہلے فاضل ججوں کو نہ صرف سُودی نظام کے بارے میں شرعی احکام و حقائق سے آگاہی ملی،بلکہ اسلامی بنکاری نظام کا ایک مربوط خاکہ بھی عدالت کے سامنے آ گیا، جس کو اپناکر بنکوں سے سودی نظامِ زر کا خاتمہ کیا جاسکتا تھا۔
عدالت کے رُو برو پیش ہونے والے قرآن و سنت کے علما اور جدیدماہرین معاشیات کے مابین ایک طویل صحت مندانہ مکالمہ ہوا:
ڈاکٹر وقار مسعود صاحب نے بین الاقوامی حاصل کردہ قرضوں میں سود کی کمٹ منٹ کو پورا نہ کرنے کی صورت میں کہا:’’اس کے نتیجے میں، مستقبل میں حاصل ہونے والے تمام قرضوں سے محروم رہ جانے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘۔
ڈاکٹر عمر چھاپرا صاحب نے واضح کیا کہ ’’مشارکت اور مضاربت کے اسلامی اصولوں کو جدید معاشیات کی روشنی میں ترقی دے کر جدیدبنکاری نظام بنایا جا سکتاہے‘‘۔
حافظ عبدالرحمان مدنی صاحب نے کہا: ’’ابتدائے نبوت ہی سے سود کی نوع بہ نوع صورتوں کی تدریجاً حرمت کا موقف اختیار کر لیا گیا تھا‘‘۔
پروفیسر خورشید احمد صاحب نے کہا: ’’پوری دنیا میں سودی نظامِ زر کا جہاز آہستہ آہستہ غرقاب ہو رہا ہے۔ موجودہ سودی نظامِ آیندہ نصف صدی کے اندر اندر پوری دنیا میں ناکام ہوجائے گا۔ دنیا بھر کے اقتصادی ماہرین جس نئے مالیاتی نظام پر متفق ہو رہے ہیں وہ اسلامی نظامِ زر سے بہت قریبی اور حیرت انگیز مماثلت رکھتا ہے‘‘۔یہ بھی معلوم ہوا کہ پروفیسرخورشید احمد غیر سودی بنیاد پر کام کرنے والے ایک مکمل اور جدید بنک کا خاکہ تیار کرکے حکومت ِپاکستان کو پہلے ہی پیش کرچکے ہیں۔
شیخ القرآن مولانا گوہر الرحمان نے عدالت کی جانب سے جاری کیے جانے والے دس سوالات کی روشنی میں اپنا ایک مبسوط مقالہ عدالت میں پیش کیا اور نہایت مدلل انداز میں جدید بنکاری میں اختیار کیے گئے طریقوں کا تجزیہ کیا اور بعثت ِمحمدی کے وقت رائج مماثل اشکالِ تجارت سے ان کا موازنہ کرتے ہوئے رائے دی کہ ’’انڈیکسیشن اور مارک اَپ وغیرہ اسلامی شریعت کی رُو سے قطعاً حرام اور ممنوع ہیں؛ لہٰذا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان کا چلن فی الفور ختم ہونا چاہیے‘‘۔
معروف قانون دان محمد اسماعیل قریشی نے کہا:قرآن پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کے مطابق سود اپنی تمام تر اَشکال کے ساتھ مطلقاً حرام قرار پاچکا ہے۔ بیع موجل، بائی بیک، مارک اَپ، انڈیکسیشن، ڈی ویلیوایشن ، ڈی نامی نیشن اور بنک کمیشن سمیت تمام جدید اَشکال سودی نظام ہی کی توسیع اور حرام و ممنوع ہیں‘‘۔
مولانا عبدالستار خان نیازی نے کہا: اسلام نے سود کی ہر شکل کو مکمل طور پر حرام قرار دیا ہے۔ بیرونی ممالک سے سود پر قرضے حاصل کرنا بھی اسلامی حکومت کے لیے ناجائز اور ممنوع ہے‘‘۔
معروف وکلا اورقانونی ماہرین کے علاوہ جید علمائے کرام بحث میں شریک ہوئے اور قرآن و حدیث کی تفاسیر اور شروح کے علاوہ جدید معاشی کتب کے حددرجہ قیمتی ذخیرے سے نہایت اہم اقتباسات کی نقول عدالت کے ریکارڈ پر لائے۔ ڈیڑھ ہزار سال میں لکھی جانے والی قرآنی تفاسیر اور فقہی آرا کے ایک عظیم علمی اثاثے سے سود سے متعلق مباحث عدالت کے سامنے لائے گئے۔ اسی طرح خود عدالت کے وضع کردہ سوالات کے ضخیم تحریری جواب نامے داخل کیے گئے۔ قرآنِ مجید کے تراجم و تفاسیر کے علاوہ تقریباً دو ہزار احادیث کے حوالے بھی پیش کیے گئے۔
مارچ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے سماعت شروع کی،توابھی جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی دوسری بار منتخب شدہ حکومت کو اقتدارسے بے دخل نہیں کیاتھا۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل کورٹ نے تقریباً پانچ ماہ تک تفصیلی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا،تب بھی نواز شریف ہی وزیراعظم تھے۔تاہم، فیصلہ سنانے کا وقت آیا تو نواز شریف رخصت ہوچکے تھے اورجنرل پرویز مشرف اپنے تمام تر آمرانہ جاہ و جلال کے ساتھ برسرِ اقتدار آچکے تھے۔
مشرف کی فوجی حکومت نے عدلیہ پرواضح کر دیا کہ ’’و ہ سُود کے خلاف فیصلے کو قبول نہیں کریں گے‘‘۔پھر فیصلہ سنانے کے خلاف ہر سطح پر سازشیںکی گئیں۔ بنچ نامکمل کرنے کے لیے جسٹس محمود احمد غازی کو سیکیورٹی کونسل کا حلف پڑھوا دیا گیا اور ایسا کرنے سے وہ جج نہ رہے، لیکن آئین کے مطابق ایک عالمِ دین سے بھی کام چل سکتا تھا،اس لیے بنچ نہ ٹوٹااور ۲۳ دسمبر۱۹۹۹ء کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے تاریخ ساز فیصلہ سنا دیا۔عدالت عظمیٰ کے اپیلٹ بنچ نے شرعی کورٹ کے فیصلے کی نہ صرف تصدیق و تو ثیق کی ،بلکہ تقریباً ۱۱۰۰صفحات پر مشتمل تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے ’’سُود کو غیرآئینی، غیر قانونی اور اسلامی احکامات کے منافی قراردے دیا‘‘۔
عدالت عظمیٰ کے طویل ترین تحریری فیصلے میں قرآن وسنت کے محکم دلائل اورگذشتہ صدیوں کے نظائر کی بنیاد پر سُود کی ہر شکل کے لیے ابدی حرمت کا اعلان کیا گیا۔ اس پانچ رکنی بنچ میں جناب جسٹس خلیل الرحمٰن خان بطور چیئر مین شامل تھے، جب کہ جسٹس وجیہہ الدین،جسٹس منیر اے شیخ، جسٹس مفتی تقی عثمانی اور جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی بطور ممبر شامل تھے۔
سپریم کورٹ کے اس قطعی فیصلے کے بعدماہرین قانون کابجا طور پر یہ خیال تھا کہ ’’اس فیصلے کو چیلنج کرنے کی جسارت کوئی نہ کر سکے گا،پاکستان کی حکومت کو اس کے سامنے سر جھکانا پڑے گا اور ملک پر سے سُودی معیشت کے منحوس سائے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹ جائیں گے‘‘۔جیساکہ بتایا جاچکا ہے کہ شریعت اپیلٹ بنچ کاتاریخی فیصلہ آیا ،تو پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ شروع ہو چکی تھی۔
اب اس فیصلے کی عملی تنفیذجنرل مشرف کے سپرد ہو چکی تھی،مگرجنرل مشرف نے سود کے خلاف اب تک کی پوری پیش رفت کو سبو تاژ کر دیا۔ ۲۰۰۰ء میں ان کے کہنے پر یونائیٹڈ بنک لمیٹڈ نے شریعت اپیلٹ بنچ میںایک درخواست دائر کی، جس میں ۱۹۹۹ء کے فیصلے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ صحیح الفکر علما اور وکلا نے ’مشرف کے ارادے بھانپ کر یہ اعتراض اُٹھایا کہ بنچ کی تشکیل خلاف آئین ہے، مگر اس ناجائز عدالت نے سنی ان سنی کرتے ہوئے سماعت شروع کردی۔اس پر اسلامی نظریے کے حامی وکلا نے عدالت کی سماعت کے دائرئہ اختیار کے خلاف آواز اُٹھائی اور کہا، جن قوانین اور حقائق کا جائزہ سپریم کورٹ پہلے ہی لے چکی ہے اور عدالت ِ عظمیٰ جن پر تفصیلی فیصلہ دے چکی ہے، اُنھیں نظرثانی کی آڑ میں دوبارہ نہیں اُٹھایا جا سکتا۔تاہم، مشرف مارشل لا کے تابع پی سی او عدالت نے سنی اَن سنی کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت کے لیے انھی مباحث کو بنیاد بنایا جن پرسپریم کورٹ پہلے ہی سیر حاصل بحث کرچکی تھی۔ بنچ کے سربراہ جسٹس شیخ ریاض احمدچیئر مین، جسٹس وقاص محمد فاروق، جسٹس ڈاکٹر خالد محمود اور جسٹس رشید احمد جالندھری ارکان تھے۔ ان ججوں کے انداز فکر سے سب آگاہ تھے، اور اب یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ یہ بنچ تشکیل دیا گیا ہے۔ سودکے مخالف وکلا کے ساتھ عدالت کا سلوک حددرجہ غیرمنصفانہ اور غیردوستانہ اور غیر پیشہ ورانہ تھا، جب کہ بنک کے وکلا اور سرکاری وکلا کو زیربحث مقدمے کوغلط رخ پر موڑنے کی پوری سہولت فراہم کی گئی۔
وفاقی شرعی عدالت اور پاکستان سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ کے فیصلے آئین کے تقاضے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے قوانین اور مرضی کے مطابق تھے۔یہ فیصلے اتنے واضح اور مبنی برحق تھے کہ اگر نظر ثانی کی اپیل کی ایک شرم ناک سازش نہ رچائی ہوتی اور بنچ کی تشکیل میں خفیہ مقاصدکارفرما نہ ہوتے، تو ان فیصلوں کی تائید وتصدیق نا گزیر تھی، لیکن مشرف آمریت سود کے ظالمانہ نظام کو باقی رکھنے پر تلی ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں یہ پہلا مقدمہ تھا، جس کا فیصلہ لکھنے کے بجائے اسے ماتحت عدالت کو واپس بھجوادیا گیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ سُود کے مخالفین کو واپس اس جگہ پہنچایا جائے جہاں سے سُود کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔۱۹۹۰ء میںسود کے خلاف مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں شروع ہوا تھا،۱۰ برس بعد مشرف نے اسے ملیا میٹ کر کے پھر شرعی عدالت کو بھجوا دیا۔ اس کے بعدیہ کیس یکے بعد دیگرے تین حکومتوں نے(۱۵ سال تک ) سرد خانے میں رکھا۔ پہلے مشرف، پھر آصف زرداری اور آخر میں نواز شریف کی حکومت نے اس مقدمے کی سماعت نہ ہونے دی۔ اگر کوئی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتا تو اپیل مستردکر دی جاتی تھی۔
سپریم کورٹ کے نئے اپیلٹ بینچ میں نظر ثانی کا مقدمہ لے جانے و الے یو بی ایل کے وکیل راجا محمد اکرم نے دریدہ دہنی کی حد کر دی۔انھوں نے قرآنی آیات کی سود کو ’حلال‘ کرنے والی خود ساختہ تفسیر پیش کرتے ہوئے سود کو جائز قرار دیا۔ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۳۰ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبـٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً ۰۠ کی واضح تحریف کرتے ہوئے راجہ اکرم نے کہا ، اس آیت میں سود سے متعلق اضعَافًا مُّضَاعَفَۃً کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور لوگوں کو دوگنا چوگنا سود وصول کرنے سے منع کیا گیا ہے، لیکن اگر سود کی رقم دوگنی چوگنی رفتار سے نہیں بڑھتی،تو ایسے سود کی اسلام میں اجازت ہے۔ حالانکہ یہ آیت سود کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں نازل ہی نہیں ہوئی تھی،یہ تو غزوئہ احد میں بعض مسلمانوں کے فتح مکمل ہونے سے پہلے مال غنیمت کی طرف راغب ہونے پر بطور تنبیہ نازل ہوئی تھی۔ مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
اُحد کی شکست کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمان عین کامیابی کے موقعے پر مال کی طمع سے مغلوب ہو گئے اور اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے بجائے غنیمت لْوٹنے میں لگ گئے۔ اس لیے حکیمِ مطلق نے اس حالت کی اصلاح کے لیے زرپرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا اور حکم دیا کہ سود خواری سے باز آ ؤ جس میں آدمی رات دن اپنے نفع کے بڑھنے اور چڑھنے کا حساب لگاتا رہتا ہے اور جس کی وجہ سے آدمی کے اندر روپے کی حرص بے حد بڑھتی چلی جاتی ہے۔
اس وکیل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سود کے متعلق قرآن وسنت کی ہدایات قانونی نہیں، بلکہ اخلاقی درجے کی ہیں۔ اس لیے سود کی حرمت کو پاکستان کے عوام پر بذریعہ قانون نافذ کرنا قرین انصاف نہیں۔ حالانکہ قرآن پاک کے سب سے بڑے مفسر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودلینے اور دینے والے اور سود لکھنے اور سود کی شہادت دینے والے پراللہ کی لعنت فرمائی ہے۔
آج شریعت کورٹ میں سود کا مقدمہ قدیم ترین مقدمات میں شمار ہوتا ہے۔شریعت کورٹ اورسپریم کورٹ میں چلتے ہوئے اس کیس کو ۳۲واں برس آ لگا ہے۔ اس عرصے میں پاکستان پر قابض بدعنوان حکومتوں نے دو اہم ترین فیصلوں کو نافذ ہونے دیا ہوتا،تو ملک اتنی بُری طرح سودی قرضوں میں جکڑا ہوا نہ ہوتا۔ماضی کی سب حکومتوں کی یہی خواہش رہی کہ عدالتوں میں سود کے مقدمے کی سماعت میں تاخیر ہوتی رہے۔چنانچہ گذشتہ ۳۰برس میں تمام حکمرانوںکی طرف سے تاخیر در تاخیر کے سوا کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
اپریل ۲۰۱۷ء میںشرعی عدالت میںچوتھی مرتبہ اس کیس کی سماعت شروع ہوئی مگر پہلی سماعت کے بعد ہی کارروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔ اس سماعت سے منفی اشارے ہی ملتے رہے۔ چند برس پہلے شریعت کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو اس دور کے چیف جسٹس صاحب کے جو ریمارکس اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں، وہ کسی طرح بھی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کے شایانِ شان نہیں۔ انھوں نے بعض مجالس میں کھلے بندوں کہہ دیا: ’’آج کے دور میں اسلام ناقابلِ عمل ہے۔ اس لیے اسلامی تعلیمات آج کے معاشرے میں نافذ نہیں ہو سکتیں‘‘۔ انھوں نے کہا:’’موجودہ دور میں اسے سود نہیں بلکہ نقصان کا ازالہ کہا جائے گا‘‘۔ ان الفاظ سے ان کی واضح جانب داری ثابت ہوجاتی ہے۔ اگر چیف جسٹس کے موقف کو قبول کر لیا جائے تو پھر آئین پاکستان میں جن دفعات میں قرآن و سنت کے نفاذ اور حکومت کو ان کے نفاذ کا پابند بنایاگیا ہے، وہ بھی بے مقصد اور محض نمایشی قرار پاتی ہیں اور پھر خود اس شرعی عدالت کے قیام کا ہی کیا جواز باقی رہتا ہے۔
آئینِ پاکستا ن کے تقاضے کے تحت چالیس برس پہلے سود کے خاتمے کے لیے جدوجہد شروع کی گئی تھی۔ دینی جماعتوں، اداروں اور افراد نے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے، مقدمات چلے، مگر اس دوران حکمرانوں،افسر شاہی اور عدلیہ کے ایک حصے نے سود کی بقا کے لیے پورا زور لگا دیا۔ سُودی معیشت کے خاتمے کے مطالبے کو نواز شریف، بے نظیر،مشرف اور زرداری کے اَدوار میں حکومتی وسائل سے ناکام بنایا گیا۔سودی معیشت کو ختم کرنے کی تحریک کے خلاف ۲۰۱۳ء سے۲۰۱۸ء تک نواز شریف نے ہر ممکن تدبیر کی۔اور پھر جولائی ۲۰۱۸ء کے بعد عمران خان،سود کے دفاع کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ان کے دورِ حکومت میں سود کے خاتمے کے سفر کا کوئی واضح اشارہ نہیں ملا۔
یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس مقدمے کی تازہ سماعتوں پرعمران خان حکومت کے رویے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سُود کو ختم کرنے کے بجائے وہ اس مقدمے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سرکاری وکیل نے شروع میںتو عدالت کو تسلیم کیا،مگر اب وہ اس کا یہ اختیار ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ اٹارنی جنرل نے پہلے تو یہ کہاتھاکہ وہ خود پیش ہو کر چند معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں؛ لیکن پھر ۳فروری ۲۰۲۱ءکی سماعت میں حکومت نے سود سے متعلق کیس کی سماعت میںوفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’’شرعی عدالت یہ کیس سننے کا اختیارہی نہیں رکھتی۔ یہ آئین کی تشریح کا مقدمہ ہے۔ آئین کی تشریح صرف سپریم کورٹ کا اختیار ہے‘‘۔
چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جماعت اسلامی سمیت دیگر دینی جماعتوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں پر سماعت کی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے پہلے توعدالتی دائرہ اختیار کے حوالے سے اٹارنی جنرل کے موقف تبدیل کر نے کو مسترد کر دیاتھا، مگر تازہ سماعت میں عدالتی دائرۂ اختیار کے حوالے سے درخواست پیش کرنے کا حکم دے دیاہے۔ عمران حکومت کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کرنے کا دوسرا ثبوت اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا رویہ ہے۔ عدالتی ہدایت کے باوجود اس سماعت پر بھی سٹیٹ بنک کی جانب سے تحریری جواب جمع نہیں کروایاگیا۔اسٹیٹ بنک نے سودی نظام کے خلاف مقدمات میں طویل التوا کی درخواست دی، جوشرعی عدالت نے مسترد کر دی۔چیف جسٹس محمد نورمسکان زئی نے کہاہے کہ ’’سود کا خاتمہ آئینی تقاضا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
۲۰۰۲ء میں جب سود کے خاتمے کا مقدمہ مشرف کی خواہش پر شریعت کورٹ میں بھیج دیا گیا، تو اس مقدمے کے غم زدہ مدعیوں اور ورثاء میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔اگرچہ کچھ اور جماعتوں، اداروں اور افرد نے بھی سود کے خلاف مقدمے میں حصہ لیا،لیکن حکومتی عدم دل چسپی اور حوصلہ شکنی کی وجہ سے بعض اوقات سماعت کے موقعے پر صرف جماعت اسلامی کے وکیل ہی نظر آتے تھے۔مختلف حکومتوں کی خواہش تھی کہ سود کے خلاف پاکستانی عوام کی عدالتی جدوجہد ہمیشہ کے لے دم توڑ دے،مگر جماعت اسلامی اوراس کے وکلا کی بھرپور کوششیں جیسے تیسے اسے زندہ رکھنے میں کامیاب رہیں۔ فروری ۲۰۱۹ء میں جماعت اسلامی کے واحد رکن مولانا عبد الاکبر چترالی کا قومی اسمبلی میں سود کے خلاف بل پیش کرنا بھی جماعت اسلامی کی انھی کوششوں کا تسلسل ہے۔
مولانا چترالی نے امتناع سود کابل پیش کیا ،تو حزبِ اقتدار یا حزبِ اختلاف کے کسی رکن نے بل کی مخالفت نہیں کی۔ اس طرح بل قائمہ کمیٹی برائے قانون کوبھیج دیاگیا، تاہم کمیٹی کی سُست رفتار کارروائی سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی سود کے خاتمے میں زیادہ سنجیدہ نہیں۔ اس امتناع سود بل میں۲۹ مقامات کو نشان زد کیا گیا ہے، جہاں سود کی ناپاک مداخلت اور سودی قوانین کو ہدف بنایا گیاہے، جن کے ذریعے پاکستان میں سودی معیشت کو تحفظ حاصل ہے۔
مولانا عبد الاکبر چترالی نے قومی اسمبلی میں اپنے بل کے حق میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’قومی اسمبلی کے سپیکر اور وزیراعظم سمیت تمام ارکان اسمبلی نے پاکستا ن کے آئین پر حلف اْٹھایا ہواہے۔ا س آئین میں اللہ رب العالمین کوحاکم اعلیٰ اور قرآن و سنت کو سپریم لا تسلیم کیا گیا ہے۔ اس آئین میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کی جا سکے گی۔اس آئین کی دفعہ ۳۸ -الف کے تحت سود کا خاتمہ بھی ایک اہم آئینی تقاضا ہے۔ ہمارا آئین سود کو حرام کہتا ہے، مگر ہمارا عمل اس کے خلاف ہے۔ ہمارے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۸ء تک پانچ برسوں میں پاکستان پر۲۴؍ ارب ۳۲کروڑ بطورسود واجب الادا تھا۔سود کی ادائیگی کے لیے گذشتہ سال کے بجٹ میں تقریباً ۱۷۰۰؍ ارب روپے مخصوص کیے گئے تھے،جو اَب بڑھ کر ۳۰۰۰؍ارب ہو چکے ہیں۔سود کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا پورا دفاعی بجٹ سود کی سالانہ قسط کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔ یعنی نہایت خطرناک رفتار سے سود کی ادائیگی کے لیے ہر گزرتے سال کے ساتھ بجٹ میں مختص رقم بڑھ رہی ہے۔ اگر ایک سال میں سود کی ادائیگی کے لیے بجٹ میں ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آیندہ ایک دو سال میں سود کے لیے مختص بجٹ چار پانچ ہزار ارب تک پہنچ جائے گا۔اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے مستقبل قریب میں پاکستان کا سارا بجٹ ہی سود کھا جائے گا۔ اسلامی بنکاری میں اضافے کے خوش نما اعلانات تو بہت کیے گئے،مگرگذشتہ ۱۷برس میں ہم اسلامی بنکاری میں کوئی اضافہ نہیں کر سکے۔ ملک میں ۸۴فی صد سودی بنکاری کے مقابلے میں اسلامی بنکا ری کا حجم صرف ۱۶ فی صد ہے‘‘۔
قومی اسمبلی میں مولانا عبدالاکبر چترالی کے پیش کردہ ’امتناعِ سود بل‘ پر بحث ومباحثے کے بعد جب کچھ سب کمیٹیاں بنائی گئیں تو مولانا چترالی کے کہنے پرچند علما کو بھی سب کمیٹیوں میں شامل کیا گیا۔ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس کمیٹی میں مولانامفتی تقی عثمانی صاحب کو بھی شامل کیا جائے۔ ۱۹ نومبر ۲۰۲۰ء کے اجلاس میں مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام شامل تھا،لیکن انھوں نے اس اجلاس میں شرکت سے اس لیے معذرت کر لی کہ ان کو بتایاہی نہیں گیا کہ وہ کس حیثیت سے شریک ہورہے ہیں۔اس کے بعد سے کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا۔یاد رہے کہ مفتی صاحب ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کے اس شریعت اپیلٹ بنچ کے ایک اہم رکن تھے،جس نے سود کے خلاف فیصلہ لکھا تھا۔
’ امتناعِ سود بل‘ کے موضوع پر قائمہ کمیٹی کے متعدد اجلاس ہو چکے ہیں۔ ابتدائی اجلاسوں میں حکومتی مالیاتی پالیسی کی نمایندگی کے لیے سٹیٹ بنک کے اعلیٰ افسر شریک ہوتے رہے، جنھوں نے پورا زورسودی بنکاری کی حمایت پر لگادیا۔تیسرے اجلاس میں مولانا عبدالاکبر اور سٹیٹ بنک کے ایک اہل کار کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ اس موقعے پرمولانا چترالی نے مطالبہ کیاکہ آیندہ ماتحت افسروں کے بجائے گورنر اسٹیٹ بنک کو اجلاس میں بلایاجائے۔ چنانچہ چوتھے اجلاس میں گورنر سٹیٹ بنک اور وزیر خزانہ شریک ہوئے۔اس اجلاس کے آخر میں سٹیٹ بنک کے گورنر نے درخواست کی کہ مذکورہ بل انھیں دے دیا جائے،تاکہ وہ متعلقہ افسروں کے ساتھ مشاورت کرکے آیندہ اجلاس میں قابل عمل تجاویز پیش کر سکیں۔ اس کے لیے انھوں نے دوماہ کا وقت مانگا۔ کمیٹی نے دو ماہ دے دیے، دوماہ مزید مانگے، وہ بھی دے دیے گئے۔ چار ماہ بعد پھر ایک ماہ کی مزید مہلت مانگ لی،مگرپانچ ماہ پورے ہونے سے پہلے کرونا کی وباکا مسئلہ سامنے آگیا، تو چارماہ کی مزید تاخیر ہو گئی۔ اگست۲۰۲۰ء میں انھوں نے کمیٹی کے سامنے جو رپورٹ پیش کی اس کا اس بل سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا،بلکہ یہ سٹیٹ بنک کی وہ پانچ سالہ رپورٹ تھی، جو بنک ۲۰۰۲ء سے پیش کرتا چلا آیا ہے۔ باعث حیرت بات یہ ہے کہ سٹیٹ بنک کی طرف سے پون سال گزرنے کے باوجود امتناع سود کے بل میں نہ توکوئی ترمیم لائی گئی نہ کوئی تجویز ہی شامل کی گئی۔ اس پر مولانا چترالی صاحب نے سوال اٹھایا کہ ہمیں بتایا جائے اس رپورٹ کا ہمارے پیش کردہ امتناعِ سود بل سے کیا تعلق ہے؟
اگرچہ حزب اقتدار اور اپوزیشن کے متعدد ارکان نے مولانا عبدالاکبر چترالی صاحب کو یقین دلا یاہے کہ وہ اس بل کو پاس کرانے میں پوری مدد کریں گے،لیکن ماضی میں بھی کئی بار اس قسم کے خوش نُما وعدے کیے جا چکے ہیں،جن پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔اگر موجودہ وفاقی حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ یہ بل بھی سُود کے خلاف سپریم کورٹ کے مقدمے کی طرح لٹکارہے ۔ اور حکومت کی جانب سے بھی وہی روایتی تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف چھیڑی ہوئی جنگ کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی اور سودی قرضوں سے نجات پانے کے بجائے نئے سودی قرضے چڑھائے جاتے ہیں، توموجودہ حکومت بھی یاد رکھے کہ بدترین ناکامی اور ذلت و رُسوائی کے سوا اسے بھی کچھ حاصل نہ ہو گا۔
۱۹۸۴ء میں جناب الیف الدین ترابی سے پہلی ملاقات منصورہ، لاہور میںہوئی تھی، جب میں ادارہ معارف اسلامی سے وابستہ تھا۔ پروفیسر ترابی ان دنوں سعودی عرب سے آئے تھے۔ ان کے علم و فضل اور ان کے مزاج کے عجزو انکسار نے متاثر کیا تھا۔ منصورہ میںخاصے عرصے تک ہم دونوں اپنے گھرانوں کے ساتھ بطور ہمسایے مقیم رہے۔ ان دنوں کی یادیں آج بھی میرے حافظے میں ان کے حسن ِخلق کے پھول بن کر مہکتی ہیں۔
۸۵- ۱۹۸۴ء میں افغان جہاد کامیابی کی طرف گامزن تھا، اور میںافغان جہاد کے ابلاغی محاذ سے منسلک تھا۔ ادھر فکری سطح پر ترابی صاحب کشمیر کی آزادی کی جد و جہد سے وابستہ تھے۔ ہماری گفتگو کا موضوع اکثر کشمیر رہتا تھا۔ انھی دنوںایک دن ترابی صاحب کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے ایک وجیہ نوجوان ادارئہ معارف اسلامی میں تشریف لائے۔ ترابی صاحب نے انھیں ادارے کے سارے کارکنوں سے ملایا۔ ہم نے ان سے مقبوضہ کشمیر کے حالات پوچھے اورمیں نے کچھ نوٹس بھی لیے ۔ ترابی صاحب نے اصرار کرکے مجھ سے ’’مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے‘‘کے عنوان سے مضمون لکھوا کر چھوڑا۔
ترابی صاحب کے ذہن میں کوئی منصوبہ آتا تو مجھے مشاورت میں شریک کرلیتے۔ایک روز ہم نے طے کیا کہ عربی، اُردو اور انگریزی میں ایک ایسا اخبار شائع کیا جائے جو بین الاقوامی ہو اور اس کے لیے ــــ’اُمت‘نام بھی پسند کر لیا تھا۔ وسائل کی عدم موجودگی کے سبب یہ شائع نہ ہوسکا۔ تاہم ۱۹۹۰ء میں ۱۵روزہ جہاد کشمیر جاری کیا اور چند برسوں کے اندر اندر اس کی اشاعت ۳۰ہزار تک پہنچ گئی۔ مرحوم ترابی صاحب کا تعاون شروع ہی سے اس جریدے کو حاصل رہا ۔ اس کے چندسال بعد انھوں نے بھی کشمیر کی تحریک کو عالمِ عرب میں متعارف کرنے کے لیے عربی زبان میں کشمیر المسلمہ جاری کیا۔
الیف الدین ترابیؒ ۱۹۴۱ء میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع پونچھ کی ایک بستی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میںکشمیر یونی ورسٹی سے بی اے کیا۔ وہ ضلع بھر میں چوتھے مسلم گریجویٹ تھے۔۱۹۶۵ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ پنجاب یونی ورسٹی سے اسلامیات اور پھر عربی میں ایم اے کیا۔ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۷ء تک کالج کے استاد کے طور پر تعلیمی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۷۷ء میں اُم القریٰ یونی ورسٹی مکہ مکرمہ سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ۔ قیام مکہ کے عرصے میں ترابی صاحب نے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت سے رابطے استوار کیے۔ ۸۰ کے عشرے کے آخیر میں تحریک آزادی کو جو نئی اٹھان ملی، اس میںجناب الیف الدین ترابی کا اہم کردار تھا۔ سعودی عرب سے پاکستان واپس پہنچ کر اپنے آپ کو مکمل طور پر تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا۔
۱۹۸۶ ء میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے نائب امیر بنا ئے گئے۔ وہ آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیر سے آنے والے مہمانوں،مہاجرین اور مجاہدین کو تحریک آزادی کی ناقابل تسخیر قوت میں ڈھالنے والی ٹیم کے ایک اہم رکن تھے۔ مقبوضہ کشمیر سے آزاد خطے میں آنے والے بے سروسامان سرفروشانِ آزادی کو محبت سے گلے لگانے اوران کے لیے روحانی و جسمانی تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام کرنے اور ان کو تحریکِ آزادی کا ہر اول دستہ بنانے میں جنھوں نے مرکزی کردار ادا کیا، ان میں مولانا عبدالباری مرحوم ،رشید عبا سی مرحوم، جناب عبدالرشید ترابی اورالیف الدین ترابی مرحوم شامل تھے۔
وہ اول و آخر اسلامی تحریک کے ایک منفرد کارکن تھے۔ گوناں گوں بیماریوں میں مبتلاہونے کے باوجود ان کے بدن میں روح بہت صحت مند اور اُجلی تھی۔ وہ اتنے عوارض کے ساتھ بھی حلیم الطبع، متواضع مزاج، شگفتہ رو اور کشادہ فطرت تھے۔ زندگی کے آخری بیس پچیس سال انھوں نے مختلف بیماریوں کے نرغے میںگزارے، مگر وہ اپنے کام کے راستے میں کسی رکاوٹ کو حائل کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ دل مضطرب اور جانِ پر سوز کو کسی دم قرار نہ تھا۔ جوانی کے زمانے میں وہ جس تحریک کا پرچم لے کر اٹھے تھے، ان کابڑھاپا بھی اسی کے لیے وقف رہا۔ ان کے سراپے کو تصور میں لائیں تو ان کی مجموعی شخصیت طبعی شرافت، حسن خلق اور علم وعمل کا مجموعہ نظرآتی ہے۔
وہ نہ صرف تحریک آزادیِ کشمیر کے پاکستان، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں بہت بڑے مددگار تھے، بلکہ نظریۂ پاکستان کے سچے مبلغ اور جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے عظیم داعی بھی تھے۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے موقف پروہ زندگی کے آخری سانس تک قائم رہے۔ الیف الدین ترابی صاحب نے تحریک آزادیِ کشمیر کے لیے کسی صلے اور ستایش کی خواہش کے بغیرعظیم خدمات سرانجام دیں۔ ہمیں یہ حقیقت یقیناًغم زدہ کر دیتی ہے کہ تحریک آزادیِ کشمیر اور مہاجرین و مجاہدین ِکشمیرکے حق میں بلند ہونے والی وہ مؤثر آواز اب خاموش ہو گئی ہے۔۔۔آئیے ہم سب دست دعا اٹھائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس نقصان کی تلافی فرمادے۔
ان کے جذب وسوز، اخلاص وایقان اور تعلق باللہ کی کیفیات کا بھی قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو دوسروں کی غلطیوں سے صرفِ نظر کرتے، لیکن اپنی چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر بھی اپنی باز پرس کرتے ہیں۔ ایک سفر میں ان کے ساتھ گاڑی میں راولپنڈی سے مظفر آباد جانا ہوا۔ سارے راستے میں کشمیر کی جہادی سرگرمیاں زیر بحث موضوع رہیں۔ میں نے ایک موقعے پر جیسے ہی یہ کہا: ’’ترابی صاحب یہ بہت بڑاا کام ہم جیسے کم صلاحیت لوگوں پر آن پڑا ہے، میں ڈرتا ہوں،خدا نخواستہ ہماری بے تدبیری اور بصیرت کی کمی سے اگر یہ تحریک ناکام ہو گئی تو ہمارا انجام کیا ہو گا۔۔۔!!‘‘ یہ بات سنتے ہی ان کی آواز گلوگیر ہوگئی اور پھر وہ ایسے روے کہ مجھے اس بات پر ندامت ہونے لگی کہ یہ تذکرہ کیوں چھیڑا، اور پھر اگلے کم و بیش ۲۵کلومیٹر کے سفر کے دوران ان پر رقت طاری رہی اور ان کے آنسو نہیں تھمے۔
تحریک آزادیِ کشمیر کے رہنما جناب الیف الدین ترابی کی وفات سے کشمیر کی تحریک آزادی ایک ان تھک مجاہد اورمخلص ترین انسان سے محروم ہوگئی۔ ان کی پوری زندگی وطن عزیز کشمیر کی آزادی کی جد وجہد میں گزری ہے۔ وہ صحیح معنوں میں ایک باوفا شخص تھے۔۔۔ نوجوان تھے تواپنے کاز سے وفا نبھاتے ہوئے گھر بار، مال و منال اوروطن عزیز کو قربان کر دیا۔ بڑھاپا آیا تو ان کی بہت پاکیزہ صفت بیٹی عذرا اورعزیز ترین داماد احسن عزیز شہید ہوگئے۔
کشمیر کی تحریک کو فروغ دینے کے لیے انھوں نے کئی ادارے بھی قائم کیے۔ ترابی صاحب کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ۲۲ ہے، جن میں تحریک آزادیِ کشمیر منزل بہ منزل اور مسئلۂ کشمیر:نظریاتی و آئینی بنیادیں اور بھارتی دعویٰ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔بلاشبہہ وہ عرب دنیا میں کشمیر اور پاکستان کی پہچان بن گئے تھے۔ میں۲۰۱۲ء میں حج کے لیے گیا، تومنیٰ میں الشیخ یوسف قرضاوی سے ملاقات اور علیک سلیک ہوئی۔ جب انھیں جہادِکشمیر سے میری نسبت معلوم ہوئی تو پہلا سوال یہ کیا: کیف اخینا السیدالیف الدین الترابی؟ رابطہ عالم اسلامی کے سربراہ شیخ محسن ترکی نے بھی کشمیر کے حالات پر گفتگو سے پہلے ترابی صاحب کی خیریت معلوم کی اور عربوں کے مخصوص انداز میں ان کے حق میں دعائیں کیں۔
تحریک آزادیِ کشمیر کے ساتھ اْن کی غیرمتزلزل وابستگی مرتے دم تک کم نہیں ہوئی اور اسلامی ممالک میں ان کی اس مقبولیت کا رازبھی یہی تھا کہ اپنے آپ کوہمہ تن اور ہمہ وقت اپنے کازکے لیے وقف کیے رہے۔ چند ایک بشری کمزوریوں کے سوا وہ نجابت اور استقامت کے کوہِ گراں تھے۔ عمر ِ مستعار کے تقریباً۳۰ برس تک وہ جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے نائب امیر رہے۔ علامہ محمد اقبال نے جن تین اوصاف ’نگاہ بلند، سخن دل نواز اور جانِ پُرسوز‘ کو میرکارواں کے لیے رخت ِسفر کہا ہے، ترابی صاحب ان تینوں اوصاف سے متصف تھے۔ خصوصاً اپنے کاز پر اپنے آرام اور عیش و مسرت کو قربان کرنا ان کی شخصیت کا مابہ الامتیاز وصف تھا، مگر انھوں نے کبھی میر کاررواں ہونے کا دعویٰ نہ کیا۔
پاکستان میں ہر سال۵فروری کو پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیاں اور خودحکومت بھی کشمیری عوام کی تحریک آزادی سے اظہار یک جہتی کے لیے جلسے جلوس، ریلیاں اور دوسرے پروگرام تشکیل دیتی ہیں۔ اخبارات میں مضامین شائع ہوتے ہیں۔ٹی وی پر دستاویزی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ یہ دن پہلی مرتبہ۵فروری ۱۹۹۰ ء کو منایا گیاتھا۔ اس سے صرف چند ماہ پہلے مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لیے جدوجہد شروع ہوئی تھی۔یہ وہ دن تھے کہ جب مجاہدین آزادی جوق درجوق کنٹرول لائن سے آزاد خطے میں داخل ہو رہے تھے۔ یہ وہ نوجوان تھے جو ہندستانی فوج کے آئے دن کے مظالم سے تنگ آچکے تھے۔ انھیں پاکستان کے حکمرانوں سے بھی مایوسی ہی ملی۔
بے نظیر بھٹو نے۱۹۸۸ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھائیں اور جموں وکشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ علانیہ بے وفائی کی ۔ کشمیریوں کے قاتل راجیو گاندھی کا اسلام آباد میں زبردست استقبال کیا گیااور اس کے راستے سے کشمیر نام کے بورڈ تک ہٹوا دیے گئے،تاکہ اس کے ماتھے پر بل نہ آ جائے۔ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی گئی۔مسلمانانِ کشمیر کے لیے یہ سخت مایوسی کے دن ہوتے اگر کشمیر کی حریت پسند قوم بالخصوص نوجوانوں کو امید اور حوصلے کا پیغام دینے کے لیے جماعتِ اسلامی موجود نہ ہوتی۔یہ ۲۲ برس پہلے کی بات ہے ۔کشمیری حریت پسندجنگ بندی لائن عبور کر کے جیسے ہی آزاد کشمیر پہنچے، جماعت اسلامی انھیںسینے سے لگانے کو موجود تھی۔
اس موقعے پر اس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمدنے کشمیر کی حریت پسند قوم کو حوصلے اور یقین کا پیغام دینے کے لیے اعلان کیا کہ ۵ فروری۱۹۹۰ء کا دن کشمیری قوم سے یک جہتی کے دن کے طور پر منایا جائے گا۔ حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا۔اس سے کشمیر کے کونے کونے میںجہاد کا غلغلہ ہو گیا۔یہ جہاد ہی کی برکت تھی کہ مسئلہ کشمیر جو ایک بھولی بسری داستان بن چکا تھاایک بارپھر بین الاقوامی ایشو بن گیا۔
کنٹرول لائن کے اُس پار بھی جماعت اسلامی ہی تھی کہ جس کے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر وہ نوجوان نکلے جنھوں نے ڈیڑھ دو صدی کی مجبور و محکوم مسلمان قوم کو آزادی کی راہ دکھائی۔کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس بجھی ہوئی خاکستر میں چھپی چنگاریاںیوں شعلہ فشانی شروع کر دیں گی۔ افغان جہاد سے دنیا بھر میں مسلمانوں کا مورال بلند ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیری قوم میں بھی آزادی کی تڑپ اورعزم و حوصلہ پیدا ہو ا ۔افغان جہاد نسبتاً آسان تھا ،پاکستان اور ایران نے افغانستان کی آدھی آبادی کو پنا ہ دے رکھی تھی اور ساری دنیاکی سیاسی،سفارتی ، مالی اور جدید ترین اسلحے کی امداد ان کو حاصل تھی۔کشمیریوں کے لیے تو جہاد جوے شیر لانے کے مترادف تھا۔بدی کے محور تین ممالک بھارت، امریکا اور اسرائیل مل کر ان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہے تھے۔ دنیا بھر میں ان کاواحد وکیل ___پاکستان بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ ۱۴،۱۵ ہزار فٹ کے بلندو بالا برفانی پہاڑی سلسلے اوربھارت کی سفاک سپاہ کے مورچوں کے بیچوں بیچ سفر کرتے تھے۔ آفرین ہے ان کے حوصلوں کو،پھر بھی وہ سر بکف ہو کرنکلتے اور بھارتی استعمارکا مقابلہ کرتے رہے۔
۵ فروری۔۔۔ پاکستانی قوم سے ایک درد مندانہ اپیل تھی کہ وہ مظلوم اور مقہور قوم جس کا ساتھ دینے کے لیے کوئی تیار نہیں،پاکستان کے عوام اس کی حمایت اور پشتی بانی کے لیے سڑکوں پر نکلیں۔جماعت اسلامی پاکستان کی یہ پکارایسی پر تاثیر ثابت ہوئی کہ ہر شہر اور ہر قریے سے لبیک کی صدائیں آنے لگیں ۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ یہ پکار آن کی آن میں پوری پاکستانی قوم کے اس طرح یک آواز ہو جانے کا سبب بن جائے گی ۔پاکستانی عوام کے دلوں میں کشمیریوں کے لیے محبت اور ہمدردی ہمیشہ سے موج زن رہی ہے۔تاہم حکومت اور سیاسی قائدین اپنے مفادات سے وابستہ رہتے ہیں۔ لیکن۵فروری کی آنچ تیز ہوتی رہی، عوامی جوش وخروش بڑھتا رہا،سیاسی لیڈر بھی اس کو محسوس کیے بغیرنہ رہے۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اور بعد میں ہر آنے والی حکومت اس دن کو منانے لگی اور آج بھی یہ عمل جاری و ساری ہے۔ ۵فروری آج ایک قومی دن بن چکا ہے،اس میں مرکزی کردارآج بھی جماعت اسلامی ہی اداکرتی ہے۔اب۵فروری کوسرکاری سطح پر چھٹی ہو تی ہے۔پاکستانی عوام اپنی حکومتوں کی بے حسی کے باوجوداہل کشمیر کو اپنی محبت ،اخلاص اوروفا کا یقین دلاتے ہیں۔اس موقعے پر پاکستان اور آزادکشمیر میں سیاسی اور دینی جماعتوں کی طرف سے پاکستان کو کشمیر کے ساتھ ملانے والے راستوں پر یک جہتی کی علامت کے طور پر انسانی زنجیر بنائی جاتی ہے۔
پاکستانیوں کی اہل کشمیر سے یک جہتی کا اظہارمحض روایتی نوعیت کی ہمدردی نہیں،بلکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔اہل ِ پاکستان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مسئلہ کشمیر دو مملکتوں کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں بلکہ کشمیریوں کی ’حق خودارادیت‘ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔ ۵ فروری نے کشمیریوں کے حوصلوں میں بھی اضافہ کیا۔بھارت کے لیے ہر بستی اوربستی کا ہر گھر مورچہ بن گیا۔ مجاہدین سے مقابلے کے لیے بھارت نے اپنی ۷ لاکھ سے زائد فوج کو کشمیر میں تعینات کر دیا۔اس جدوجہد کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری اور ان کے پاکستانی انصارشہید ہوئے، اس سے زائد زخمی ہوئے اور ہزاروں کو ٹارچر سیلوں میںناقابل بیان اذیتیں دی گئیں اور سیکڑوں خواتین کی بے حرمتی کی گئی ۔ جبروتشدد کرنے والوں نے اذیتوں اور موت سے ڈرانے کی بہت کوشش کی،مگرکشمیریوں کو ان کی اِیمانی توانائی نے موت سے نبرد آزما ہونے کی جرات عطا کی ۔ اللہ کی راہ میں آنے والی موت میں خوف نہیں لذت ہوتی ہے، اور جذبۂ ایمانی کا کیف اس لذّت کو مزید نکھارتا ہے۔ اہل کشمیر اب اس لذّت کے خوگر ہو چکے ہیں۔ وہ آج حق خودارادیت کی جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔
کشمیرکی حریت پسند قوم نے گذشتہ ۲۲ برس سے نہ صرف تحریک آزادی کے جذبے کو ماند نہیں پڑنے دیا بلکہ اسے بحسن وخوبی اپنی چوتھی نسل کو بھی منتقل کردیا ہے۔کشمیری نوجوانوں کی سرفروشی کی اس تحریک نے ایک بار پھر سری نگر سے دلّی اور واشنگٹن کے ایوانوں کو لرزا دیا ہے۔ ۱۷جولائی کوبی بی سی اْردو کی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں احتجاجی تحریک میں شامل چند نوجوانوں سے بھارتی فوج پر پتھر برسانے پر رائے لی گئی ۔مائسمہ بازارکے رہنے والے ایک ۱۵سالہ نوجوان ماجد نے بتایاکہ حالیہ تحریک کے دوران اس کے قریبی دوست ۱۷برس کے ابرارکو اس کی آنکھوں کے سامنے گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ ابرار نے ماجد کی گود میں دم توڑا ، اس کے بعد ماجد نے پڑھائی ترک کر دی اور اس تحریک میں شریک ہو گیا۔
بھارت جسے دنیا کی ’سب سے بڑی جمہوریت‘ اور ’سیکولر‘ ملک ہونے کا دعویٰ ہے کشمیر کے مسئلے پر جمہوریت اور سیکولرازم کے تمام تر اصولوں کو پس پشت ڈال رہا ہے۔ کشمیرکو آزادی دینے سے انکار اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی بھارت کے لیے کلنک کا ٹیکا ہے۔ وہ کشمیریوں کو ان کا پیدایشی حق دینے کے لیے کسی طرح تیار نہیں۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ’دہشت گردی‘ کہتا، جب کہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے۔
نائن الیون کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں کشمیر کی پالیسی کو بھارت کی خاطر تبدیل کر کے تحریک آزادی کشمیر کو شدیدنقصان پہنچایا گیا ۔مشرف نے اقوام متحدہ کی قرارداد وں سے انحراف کی پیش کش کر ڈالی اور تقسیم کشمیر کے فارمولے بھی پیش کیے۔کنٹرول لائن پر کشمیریوں کی نقل وحرکت روک دی گئی اوربھارت کوغیر قانونی باڑ لگا نے کی اجازت دے دی ۔اس طرح مجاہدین آزادی کو ہاتھ پائوں باندھ کر دشمن کے آگے ڈال دیاگیا۔
۲۰۰۸ء میںشرائن بورڈ کے معاملے میںتحریک آزادی نے نئی کروٹ لی ،نوجوانوں کے ہاتھوں میں گن کے بجاے پتھر آگئے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کی امرناتھ یاترا کے منتظم ادارے شری امرناتھ شرائن بورڈ کی طرف سے زمینوں پر غیر قانونی قبضے کی کوشش تنازعے کاباعث بن گئی۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے۔اس کے نتیجے میںباہمی اختلافات کا شکار آزادی پسند قائدین متحد ہوگئے۔بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات کے لیے تحریک میں اچانک شدت آگئی ۔بھارتی فوج کی گولیوں سے ان گنت نوجوان شہید ہوئے جن میںپیپلز لیگ کے سربراہ شیخ عبدالعزیز بھی شامل تھے۔اس کے باوجود سڑکوں پر نعرے بلند ہوتے رہے: ’’بھارتیو! کشمیر چھوڑ دو‘‘۔ گذشتہ برس جون میں ایک بار پھر تحریک میں شدت آئی۔کئی ماہ تک پوری وادی میں کرفیو نافذ رہا ،۱۱۵ نوجوان فوج کی گولیوں کا نشانہ بن گئے، کاروبار زندگی معطل ہوا ،مگر تحریک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی رہی۔سب کا ایک ہی نعرہ ہے: ’’بھارتیو! کشمیر چھوڑ دو‘‘ اور’’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘‘۔ بھارتی یوم آزادی کی تقریب کے دوران وزیراعلیٰ عمر عبداللہ پر جوتا پھینکنے کا واقعہ اہل کشمیر کی نفرت کا اظہار ہے۔اس سے کٹھ پتلی حکمرانوں اور بھارتی ریاست کی دلالی اور غلامی کرنے والوںکے خلاف کشمیر کی نوجوان نسل کی نفرت اور غیظ وغضب کا اظہار ہو تا ہے۔
آزاد کشمیر کو بیس کیمپ کہا گیا تھا ،لیکن بدقسمتی سے اسے مظفرآباد کی کرسی کا ’ریس کیمپ‘ بنادیاگیاہے۔کشمیر میں آزادی کی تحریک عروج پر ہے،لیکن آزاد کشمیر کے سیاست دان آج بھی موجودہ استحصالی نظام کے کل پرزے بنے ہوئے ہیں۔ مفاد پرست طبقے کے ہاتھوںاس خطے میں ادارے تباہ حال اورمفلوج ہوچکے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام اس مرتبہ ایسی قیادت کو ووٹ دیں جو آزاد کشمیر کو واقعی بیس کیمپ بنائے اور آزادی کے لیے جدوجہد میں اپنا حصہ ادا کرے۔
موجودہ انتفاضہ میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ ریاست جموں و کشمیر کاایک ہی لیڈر ہے اور وہ ہے۔۔۔سید علی شاہ گیلانی۔بھارتی میڈیا انھیں نظر انداز کرنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ بدقسمتی سے گیلانی صاحب کے ساتھ پاکستانی میڈیا بھی انصاف نہیں کرتااورکشمیر کے قائد کو ان کا جائز حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ ۲۰۱۰ء میں کشمیر میںجو بے مثال تحریک چلی، اس میں علی گیلانی کا مرکزی کردار تھااور آج بھی ہے۔یہ کم ظلم نہیں کہ اس تحریک کو اس کے نظریے اور اس کے قائد سے کاٹ کر دکھایا جارہا ہے ۔مقبوضہ کشمیر سے آنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان کا میڈیا اس عظیم عوامی طوفان سے بے خبر کیوں ہے؟ پاکستان میں بھی لوگوں کے سامنے حقائق مسخ کر کے پیش کیے جاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں جو لوگ دیانت دار ہیں وہ کیوں کشمیرکو فراموش کیے بیٹھے ہیں؟
نائن الیون کا بھوت اپنی موت آپ مر چکا ہے ۔اب ہمارے حکمران کیوںبزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں!!آزاد کشمیر کے مفاد پرست سیاست دانوں کی طرح قومی سیاست دان بھی کشمیرسے لاتعلق نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب تو کشمیری بچوں کے سامنے بھارت لرزتا کانپتا نظر آتا ہے۔ ابابیلیں اپنی چونچوں میںکنکر لے کرہاتھی والوں پر پل پڑی ہیں۔عنقریب ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیں گی۔ دوسری جانب افغانستان میں بھی مجاہدین نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا بھر کس نکا ل کر رکھ دیاہے۔ عالمی استعمارکو ہر محاذ پر شکست ہو رہی ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی دنیا بھر میں مسلمانوں کو فتح و نصرت کی خوش خبری ملے گی ۔
محترم عبدالہادی احمد ، پندرہ روزہ جہادِ کشمیر راولپنڈی کے مدیر ہیں۔